05/08/2025
(یہ اس فلم کی کہانی ہے جس کےبارے میں کہا جاتاہے ک اسنے پاکستانی فلم انڈسڑی کی تباہی کی بنیاد رکھی )
“قتل تے ہن ہون گے روشناں , تے اووی
ہون گے جناں ہالی جم کے ساڈا دشمن بننا اے"
پنجابی فلم
"وحشی جٹ"
تحریروتحقیق : ساجد آرائیں
بہت سے عوامل کارفرما تھے, آپ کا تھوڑا سا وقت اور ذرا سی توجہ درکار ہے۔ ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح وقت نے تاریخی سازگار ماحول پیدا کیا اور کیسے رنگین فلموں کے زمانے میں ایک بلیک اینڈ وائیٹ فلم نے تاریخ رقم کی۔۔
50 سال پہلے کا ذکر ہے اور سقوط ڈھاکہ کے بعد کا زمانہ ہے , آپکو مختصر تین لوگوں کی سچی کہانیاں سنانا چاہتا ہوں۔
1. پاکستان فلم انڈسٹری میں 250 سے زائد ماہر ترین ہدایتکاروں کے ہوتے ہوئے ایک نیا ہدایتکار بمشکل قدم جماتے ہوئے دو مسلسل کامیاب فلمیں تخلیق کرنے کے بعد دو مسلسل ناکام ترین فلمیں دینے کی وجہ سے گھر بیٹھ گیا تھا, لیجنڈ ہدایتکار حسن عسکری کی بحثیت ہدایت کار پہلی فلم "خون پسینہ" اور دوسری فلم "سر دھڑ دی بازی" کامیابی سے ہمکنار ہو چکی تھی.. دو مسلسل کامیاب فلموں کی وجہ سے وہ خود کو ایک عالیشان شخصیت سمجھتے ہوئے اپنی قابلیت کو پس پشت ڈال کر دو سنگین غلطیاں کرنے جا رہے تھے , ان غلطیوں کا نام تھا فلم "غیرت دا نشان" اور فلم "ہیرا" , ان دو ناکام ترین فلموں نے حسن عسکری کو جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ 250 ہدایتکاروں کے ہوتے ہوئے اب کون سا فلمساز ان پر بھروسہ کرے گا, کام نام کی کوئی چیز نہ تھی لہٰذا وہ اپنی کامیابی کو چار دن کی چاندنی سمجھ کر ناکام ہو کر اندھیری رات میں گم ہو رہے تھے اور آنکھوں میں آنسو لئے وہ پشیمان گھر بیٹھ چکے تھے۔۔۔
2. فلم "بشیرا" کی فقید المثال کامیابی کے بعد سلطان راہی نے اپنا معاوضہ 20 ہزار سے 40 ہزار روپے کر دیا تھا, وہ دھڑا دھڑ فلموں میں سائن ہو رہے تھے , کچھ فلموں نے تو کامیابی حاصل کی لیکن بیشتر فلمیں یکسانیت کی وجہ سے ناکام ہونا شروع ہو گئیں, فلمسازوں نے لکیر کے فقیر بننے کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ہر فلم کو "بشیرا" طرز بنانا شروع کر دیا اور ہر "بشیرا" میں ڈولی رکھنا شروع کر دی.. نتیجہ کے طور پر سلطان راہی کے پاس فلموں کی اتنی کمی ہو گئی کہ انکو گزر بسر کرنے کے لئے فلم "شیدا پستول" میں 5 ہزار کے عوض مہمان اداکار کے طور پر کردار قبول کرنا پڑا تھا۔۔۔
3. محمد نواز نامی ایک غریب نوجوان جس کے پاس تن ڈھانپنے کے لئے مناسب کپڑے تک نہ تھے وہ کندھے پر بستہ لٹکائے ایورنیو اسٹوڈیو کے گیٹ کے پاس بھٹکتا رہتا تھا اور گیٹ کیپر اسے اپنے پاس تک نہ آنے دیتا تھا, اسٹوڈیو میں داخلے کی اجازت تو دور کی بات, ہر کوئی اسے دھتکارتا, ایک دن نامور ہدایتکار ایم اکرم نے انکو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ تمہیں روز بیچارگی کے عالم یہاں دیکھتا ہوں, تم کون ہو کہاں سے آئے ہو , محمد نواز نے کہا کہ میں فلم رائٹر بننا چاہتا ہوں , ایم اکرم نے کہا کہ آجکل سوشل رومانوی پنجابی فلمیں حزیں قادری لکھ رہا ہے, مزارعہ جاگیردار ٹائپ فلمیں تنویر کاظمی لکھ رہا ہے تم کیا لکھو گے, چلو بھاگ جاؤ یہاں سے , لیکن اس نوجوان نے ہمت نہ ہاری اور ان کو اپنے کیرئیر کی پہلی فلم "وحشی جٹ" ملی جس نے ایسی کامیابی حاصل کی کہ آج دنیا اس محمد نواز کو ناصر ادیب کے نام سے پورے اعزاز کے ساتھ مانتی ہے۔۔۔
حسن عسکری چونکہ بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے اور مطالعہ کا شوق رکھتے تھے تو انہی دنوں انہوں نے خوشاب سے تعلق رکھنے والے نامور مصنف احمد ندیم قاسمی کا افسانہ گنڈاسہ پڑھ رکھا تھا , حسن عسکری کے دماغ میں یہ افسانہ کھلبلی مچا رہا تھا .. ایک دن اچانک انکے ذہن میں ناصر ادیب کا خیال آیا انہوں نے ناصر ادیب سے کہا کہ " ہاں بھئی بچے تیار ہو جا اپنی پہلی فلم لکھنے کے لئے, یہ افسانہ پکڑو, اس کا مصنف بھی اسی بیلٹ سے ہے جہاں سے تم تعلق رکھتے ہو , اس لئے اس کو زرا اپنی زبان میں ڈھالو, اسکے کردار اپنے علاقہ کے حساب سے , انکی نوعیت انکا لب و لہجہ, انکے مکالمے تم بہتر انداز میں لکھ سکتے ہو , اس افسانے کا ہیرو ایک مولا جٹ ہے جسکی ملک برادری سے دشمنی ہے , کوئی ایک ڈائیلاگ , کوئی ایک مکالمہ مجھے لکھ کر بتاؤ, تاکہ میں اندازہ کر سکوں کہ تم یہ کام کر سکتے ہو یا نہیں , جتنا مرضی وقت لے لو لیکن کچھ ایسا لکھ کر لاؤ کہ ہم دونوں کی تقدیر بدل جائے " . ناصر ادیب اگلے ہی روز حسن عسکری کے پاس آئے اور صرف ایک مکالمہ لکھا , وہ مکالمہ سن کر حسن عسکری مبہوت رہ گئے .. کچھ لمحوں تک تو وہ صرف ناصر ادیب کا چہرہ ہی تکتے رہے , اس قدر شاندار, ایسا مکالمہ کہ حسن عسکری نے کہا کہ ایک دن تم اس فلم انڈسٹری کے مصروف ترین اور کامیاب ترین کہانی نویس ہو گے, وہ مکالمہ یہ تھا کہ جہاں سے فلم شروع ہوتی ہے اور مولا جٹ کا باپ اکیلا گھر کی چوکھٹ پر کھڑا ہےاور دشمنوں کا جتھا اس پر حملہ آور ہوتا ہے تو جٹ کا کہنا تھا کہ دشمنوں میں نے کئی بار تم لوگوں کو اکیلا دیکھ کر چھوڑ دیا تھا اور آج میں اکیلا ہوں تو دشمن کہتا ہے کہ "چھڈ تے اسیں تینوں وی جانا اے جٹا, نال تے صرف تیری جان لے کے جانی اے"
"چھڈ تے اسیں تینوں وی جانا اے جٹا, نال تے صرف تیری جان لے کے جانی اے" یہ ایک مکالمہ سن کر حسن عسکری اپنی جگہ سے اٹھے اور ناصر ادیب کی سائیکل پکڑی ,ناصر ادیب کو پیچھے بٹھایا اور بند روڈ کے ایک علاقہ مالی پورہ کی طرف روانہ ہوئے جہاں پر فلمساز عظیم ملک کا گھر تھا, عظیم ملک جناب حسن عسکری کی سابقہ دونوں فلاپ فلموں کے فلمساز تھے جن کے دو پارٹنر اور بھی تھے, عظیم ملک صاحب نے ہاتھ باندھ دیے, انہوں نے کہا کہ عسکری صاحب جانے دیں, پہلے ہی اتنا نقصان اٹھا چکے ہیں اوپر سے آپ یہ پتا نہیں کس کو پکڑ لائے ہو کیا فلم کہانی نویس ایسے ہوتے ہیں, درحقیقت انکا اشارہ ناصر ادیب کی طرف تھا جو اُس وقت پیلے رنگ کی تہمد باندھے میلی سی بنیان میں ملبوس سائیکل کے پیچھے بیٹھے ہوئے ایک لاغر سے انسان کے روپ میں انسان کم اور عجوبہ زیادہ لگ رہے تھے, حسن عسکری صاحب نے یقین دلایا کہ یہ بہت اچھا لکھتا ہے آپ زرا ون لائینر تو سن لیں , عظیم ملک صاحب آمادہ ہو گئے لیکن انکے پارٹنر ڈانواں ڈول تھے,
فلمساز عظیم ملک نے ان دونوں کو ، حسن عسکری اور ناصر ادیب کو میکلورڈ روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں ایک کمرہ کرایہ پر لیکر دے دیا, وہاں بیٹھ کر سات دنوں میں کہانی بمعہ مکالمے لکھ لی گئی, فلمساز عظیم ملک کے پارٹنر جو پہلے ڈنواں ڈول تھے وہ مکمل طور پر بد دل ہو گئے۔ وہ کہنے لگے کہ پچھلی فلم کا اسکرپٹ فلیٹیز ہوٹل میں بیٹھ کر ایک سال کی مدت میں مکمل کیا اور پھر بھی فلم ناکام ہو گئی اور اب یہ سات دن میں یہ لوگ کیا لکھ کر لے آئے ہیں۔ اب باقی رہ گئے عظیم ملک صاحب۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنے کچھ فلمی دوستوں کو اکٹھا کرتا ہوں۔ اگر انکو کہانی پسند آ گئی تو کچھ سوچتے ہیں۔ اب اندازہ کریں کہ کوئی پانچ سے سات بندے ۔ جن میں سے کوئی چھوٹا موٹا ڈسٹری بیوٹر تھا۔ کوئی فلمیں دیکھنے کا شوقین تھا وہ بندے جن کو کوئی جانتا تک نہیں تھا وہ پاکستان میں آنے والے دنوں کی تاریخی شخصیات حسن عسکری اور ناصر ادیب کا امتحان لے رہے تھے ، وہ اسی کمرے میں بیٹھ گئے جہاں بیٹھ کر فلم لکھی گئی تھی۔ جب مکمل کہانی مکالموں کے ساتھ سنائی گئی تو کمرے میں ایک سکوت چھایا ہوا تھا ۔ ان دوستوں نے فلم پاس کردی ..تب عظیم ملک کا کچھ حوصلہ بڑھا اور انہوں نے فلم بنانے کی حامی بھر لی۔
نا مساعد ترین مالی مسائل درپیش تھے۔ انویسٹمنٹ کرنے والے عظیم ملک کے پارٹنرز تو بھاگ گئے تھے یہ کہہ کر کہ تم جانو اور فلم جانے ہم نے تو سننی بھی نہیں ہے۔ پیسے تھے نہیں ، اب فلم میکنگ کا میٹریل کہاں سے لیں۔؟ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ ان دنوں چائنہ کی ایک کمپنی نے فلم میٹریل متعارف کروایا۔ ان دنوں بلیک اینڈ وائیٹ فلمیں گیوٹ اور کوڈک پر زیادہ تر بنائی جاتی تھیں۔ لیکن چائنہ کا وہ میٹریل نہایت سست تھا اور کمپنی نے اپنی مشہوری کے لئے ہزار ہزار فٹ کے دس ڈبے حسن عسکری کو چیک کرنے کے لئے دے دئیے۔ یوں دس ہزار فٹ نیگٹو مفت کا آ گیا۔
سلطان راہی کو گھر سے بلا لیا گیا , بلکل مفت۔ بغیر کسی معاوضہ کے۔ افضال احمد جناب اشفاق احمد کے ریفرنس سے مفت شامل کر لئے گئے , ہیروئین کے لئے اردو فلموں کی ایک چھوئی موئی سی ہیروئین آسیہ کو بھی بلا معاوضہ بلا لیا گیا۔ وہ آسیہ جس نے بعد میں سلطان راہی کے ساتھ پنجابی فلموں میں ریکارڈ ساز کامیابیاں سمیٹیں۔
غور فرماتے جائیں , چند ناکام لوگوں کا ٹولہ۔۔ سب کو ایک بریک تھرو کی ضرورت تھی۔ قصہ مختصر کہ فلم ”وحشی جٹ“ کی عکسبندی شروع کر دی گئی۔ اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ کوئی اچھا سا ایکٹر تھانیدار کے کردار میں کاسٹ کر لیا جاتا ۔ میک اپ مین نواب ساغر کو وردی پہنا کر تھانے دار بنا دیا گیا, اور پھر بعد میں مولا جٹ سیریز کی جتنی بھی فلمیں بنیں نواب ساغر نے ہی تھانے دار کا کردار ادا کیا۔ فلم کے سیٹ لگانے کے لئے پیسے نہیں تھے۔ اسلم ڈار کی فلم "دل لگی" کی شوٹنگ ختم ہوئی تو انہوں نے جو سیٹ لگائے تھے اسکے دروازے کھڑکیاں اکھاڑے گئے تو وہاں چک لٹکا کر اندر کرسی میز رکھ کر تھانے کا سیٹ ظاہر کر دیا۔ پولیس والوں کے لئے ایکسٹراز لینے کی بجائے لائٹ مین بجلی والوں کو ٹیکنیشنز کو وردیاں پہنا دیں۔ کبھی فلم کا کچھ حصہ بنا کبھی کچھ شارٹس عکسبند کر لئے۔ صرف اداکار الیاس کشمیری کو ایک ہزار معاوضہ دیا گیا تھا اسکے علاوہ سب کچھ بس یونہی مفت میں چل رہا تھا۔ مالی مسائل اتنے تھے کہ فلم نے مکمل ہوتے ہوتے تین سال کا عرصہ لے لیا۔ کسی کے نوٹس میں یہ فلم تھی ہی نہیں۔ بلکل غیر معروف۔ کیونکہ اس فلم کی تمام تر شوٹنگز تو اے ایم اسٹوڈیو بند روڈ پر ہوتی تھیں جبکہ با رونق نگار خانے ایورنیو شا ہ نور اور باری تھے۔ ایک گمنامی میں بنی فلم۔ نامساعد حالات میں۔ مشکل ترین مالی حالات میں۔ بغیر وسائل کے۔ چند ناکام لوگوں کا ایک پر جوش ٹولہ تھا جن کی قسمت اس فلم سے جڑی ہوئی تھی۔
"وحشی جٹ" کی عکسبندی 1973 میں شروع ہوئی اور وسائل میں کمی کی وجہ سے 1975 میں یہ فلم مکمل ہوئی, دور تبدیل ہو چکا تھا۔ رنگین فلموں کا دور آ چکا تھا جبکہ یہ فلم بلیک اینڈ وائیٹ تھی۔ اسی دوران سلطان راہی کو ایک اور فلم مل چکی تھی۔ اس فلم کا نام تھا ”شریف بدمعاش“ ی۔ یہ ایک رنگین پنجابی فلم تھی اور یہ فلم”وحشی جٹ“ کی ریلیز سے ایک ہفتہ قبل ریلیز کر دی گئی تھی۔ سلطان راہی کو اس فلم میں بہت پسند کیا گیا تھا۔ ”شریف بدمعاش“ بلاک بسٹر کامیابی حاصل کر چکی تھی۔ جس دن فلم " وحشی جٹ" ریلیز ہوئی اس دن پاکستان کی پانچ ایور گرین فلمیں ریلیز ہوئیں یا سرکٹ میں موجود تھیں۔ صنوبر سینما میں ”شریف بدمعاش“۔ گلستان سینما میں ”میرا نام ہے محبت“ رضا میر صاحب کی فلم "پروفیسر" اور کیپیٹل سینما میں فلم”وحشی جٹ“۔
فلم کا پہلا شو بھی ابھی شروع نہیں ہوا تھا کہ لکشمی چوک پر واقع طباق ہوٹل سے لیکر کیپیٹل سینما تک آدم ہی آدم تھا۔ ہاؤس فل پہلا شو شروع ہوا۔ چند سین گزرے۔ افضال احمد میلے کی طرف بھاگتا ہوا جا رہا تھا۔”مولیا۔۔۔ملکاں نے تیرا پیو قتل کر دیتا اے“۔ فلم میں ساؤنڈ بند ہے۔ سائلنٹ شارٹ ، مکمل خاموشی, سلطان راہی کی سائلنٹ انٹری , اور سینما میں بھی ایسی خاموشی کہ سوئی پھینکو تو آواز سنائی دے۔ سلطان راہی کا مکالمہ, بغیر بیک گراؤنڈ میوزک, ۔”قتل تے ہن ہون گے روشناں“لوگوں کی بھرپور تالیاں۔ ”تے اووی ہون گے جناں ہلی جم کے ساڈا دشمن بننا اے“ تالیوں کے شور میں مزید اضافہ۔۔ تالیوں کی گونج ابھی جاری تھی کہ اتنے میں بجلی بند ہو گئی۔ لوگ جو فلم میں کھوئے ہوئے تھے۔۔ فلم سے باہر آ گئے۔ لوگوں نے شور مچانا شروع کیا تو حسن عسکری باکس سے نکلے اور دوڑ کر پروجیکٹر روم میں گئے۔ آپریٹر سے کہا کہ فلم دوبارہ چلاؤ تو شروع سے چلانا۔ اب لوگوں کو پتا چل چکا تھا کہ سلطان راہی کی انٹری کب اور کیسے ہے۔ حسن عسکری بتاتے تھے کہ دوبارہ جب فلم اسی جگہ پر پہنچی تو اتنا شور۔ اتنا شور۔ ناقابل بیان حد تک لوگ خوشی سے جھوم رہے تھے۔ فلم کے ایک ایک منظر نامے میں لوگ محو تھے۔ لوگوں کی کلیپنگ ، شور، سیٹیاں ، بھڑکیں ، فلم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے جذبات چل رہے تھے۔ ایسا ریسپیشن۔ ایسا استقبال۔ فلم کی ایسی اٹھان۔ کہاں سے اتنی خلقت آ رہی تھی کچھ معلوم نہیں تھا۔
پاکستان فلم انڈسٹری میں ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا تھا۔۔ پنجابی سینما پاکستان فلم انڈسٹری کو ٹیک اوور کر چکا تھا, "وحشی جٹ" کی فقید المثال کامیابی نے پاکستان کے سینما کی سمت موڑ کر رکھ دی تھی, بعد میں تاریخی فلم "مولا جٹ" نے اسی فلم کے بطن سے جنم لیا تھا جو اسی فلم "وحشی جٹ" کا سیکوئیل تھی۔ تین ناکام لوگوں نے لفظ کامیابی کی اصطلاح بدل کر رکھ دی تھی... پنجابی فلموں کے اس عروج کو کم سے کم 9 جنوری 1996 تک تو کوئی اندیشہ زوال نہ تھا۔