Entertainment News

Entertainment News Social Media Network that serves with NEWS and Entertainment in a patriotic way. Pakistan Zindabad Visit to get real and authentic news

مندرجہ ذیل باتوں پہ کبھی یقین نہ کریں بھلے کوئی لاکھ قسمیں کھائیں:۱۔ اسلام آباد سے نئی ہاؤسنگ سکیم کا فاصلہ دو کلو میٹر ...
02/12/2025

مندرجہ ذیل باتوں پہ کبھی یقین نہ کریں بھلے کوئی لاکھ قسمیں کھائیں:

۱۔ اسلام آباد سے نئی ہاؤسنگ سکیم کا فاصلہ دو کلو میٹر ہے۔
۲۔ ہوٹل سے حرم کا فاصلہ 500 میٹر ہے۔
۳۔ ہمارا آئل لگانے سے بال واپس آجائیں گے۔
۴۔ ہمارے پاس چھوٹی مکھی کا اصلی شہد ہے۔
۵۔ تصویر بھیج دو دیکھ کر ڈیلیٹ کر دوں گا۔
۶۔ تم اگر غریب بھی ہوتے تو پھر بھی تمہیں پیار کرتی۔
۷۔ دو دن میں پیسے واپس کر دوں گا ۔
٨۔ باؤ جی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
٩۔ ایک تعویذ سے سنگدل محبوب آپ کے قدموں میں ہوگا۔😜

22/11/2025

ہمارے بچپن میں محلے کی ایک عورت کا میاں نان پکوڑے کی ریڑھی لگاتا تھا۔ کسی دن اس کی خوب بِکری ہوتی اور کوئی دن بہت مندا رہتا۔ جس دن خوب بِکری ہوتی، اس دن ان کے ہاں چکن یا مٹن کڑاہی بنتی، ساتھ میں سوڈا کا اہتمام ہوتا اور کھانے کے بعد بڑا لڑکا بھاگ کر موٹر سائیکل نکالتا اور آئس کریم کا بڑا پیک لے کر آتا۔

اس دن کی کمائی سے صرف اگلی صبح بازارکے حلوہ پوری کے ناشتے کے لئے پیسے بچتے۔اگلا دن مندا رہتا تومحاورتاً نہیں حقیقتاً ان کا کوئی نہ کوئی بچہ محلے میں برتن لے کر سالن مانگتا نظر آتا۔ محلے کا کوئی گھر ایسا نہیں تھا جس نے ان کے بچوں کی فیس، بل کے کچھ پیسے یا دوائی کے لیے روپے قرض نہ دئیے ہوں۔ یہ بھی سچ ہے کہ محلے کے کسی گھر میں بھی اتنی کڑاھی نہیں بنتی تھی اور نہ اتنی کثرت سے کولڈ ڈر نکس اور آئس کریم کی عیاشی نصیب ہوتی تھی۔ سلیقہ مند عورتیں محلے کے اس گھرانے کا ذکر پھوہڑ پن کی مثال دینے کے لیے کرتی تھیں،اب میں دیکھتی ہوں کہ ہماری قوم کے اکثرگھرانے ایسے ہی پھوہڑپن میں مبتلا ہیں، سمجھ نہیں آتی کیوں؟

ہمارے ہاں صرف وہاں بتی اور پنکھا بند کرنے کی فکر ہوتی ہے جہاں بل اپنی جیب سے جانا ہوتا ہے۔ ایک بات بہت تعجب انگیز ہے کہ باہر کے ملکوں میں قطار بنانے والے اپنے ملک میں قطارکیسے توڑتے ہوئے گزر جاتے ہیں؟ اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں بل کسی اور نے دینا ہے وہاں لوگ لا پرواہ ہو جاتے ہیں، وہ اپنے گھر میں بھاگ بھاگ کر لائٹیں بند کرتے ہیں۔ ہاسٹلز میں ہمارے طلبہ وطالبات جو قوم کے معمار ہیں اپنے کمروں میں پنکھے چلتے چھوڑ کر کلاسز لینے جاتے ہیں ، دفاتر میں تھوڑی دیر کے لیے کمرے سے باہر نکلتے وقت کوئی بھی پنکھا بند نہیں کرتا۔ اسی طرح جوائنٹ فیملی سسٹم میں بڑے بھیا نے بل دینا ہے تو ان کی بیوی تو لائٹ اور پنکھا چلاتے ہوئے سوچے گی لیکن چھوٹی بہو اے سی بھی اتنا چلائے گی کہ بجلی جانے کے بعد بھی ان کا کمرہ ٹھنڈا رہے۔

اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے و یمن ہاسٹل میں ایک انتہائی قابل خاتون سے ہمارا ملنا ہوا جو وہاں کسی اچھی پوسٹ پر تھیں، ان کی گفتگو میں دینی و دنیاوی علم کے ٹانکے جا بجا لگے ہوئے تھے۔ اگلے دن جب وہ کام پر نکل چکیں تو میرا گزر ان کے کمرے کے سامنے سے ہوا، روشن دان سے پنکھا چلتا نظر آیا ، بہت پریشانی ہوئی کہ محترمہ جلدی میں پنکھا بند کرنا بھول گئی ہیں۔ سارا دن اسی بے چینی میں گزر گیا کہ کب وہ آئیں تو انہیں پتا چلے کہ آج کتنا نقصان ہوگیا، سارا دن کتنی بجلی ضائع ہوئی ہوگی۔ مغرب ہونے پر وہ واپس آئیں تو میں نے انہیں تفکر سے کہا کہ آپ آج پنکھا بند کرنا بھول گئی تھیں۔

خلاف توقع انہوں نے کسی پریشانی کا اظہار نہ کیا اور مجھے میرے تھیسس کا پوچھنے لگ گئیں۔ اگلے دن پھر ان کا پنکھا سارا دن چلتا رہا۔ میں نے اپنی روم میٹ سے ذکر کیا تو اس نے کچھ عجیب طرح سے میری طرف دیکھ کر کہا:’ یہاں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو لائٹس اور پنکھے ذمہ داری سے بند کرتے ہیں۔ اس کے بعد میرا وہاں دو دن کا مزید قیام تھا، ان کا پنکھا اور میرے دل پر آری ایک ہی رفتار سے چلتی رہی۔ اس کے بعد ان خاتون سے ملاقات نہ ہوسکی یا شاید انھوں نے بھی مجھے اکثر لوگوں کی طرح قنوطی سمجھ کر، جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہوگا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں بھی یہی تماشا دیکھا۔ پھر لا ئبریری اور سرکاری سکول میں بھی لوگوںکو اور یہاں تک کہ خود انتظامیہ کو بجلی بے دریغ ضائع کرتے دیکھا۔ اگر کسی کو ٹوکا تو ان پر اثرنہ ہوا۔

ساری زندگی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ان لوگوں کو بچپن میں کسی نے یہ بات نہیں بتائی کہ مرنے کے بعد ہر چیز کا حساب دینا ہوگا۔ ہمیں گھر کا ماحول کچھ اس طرح کا ملا تھا کہ ہر وقت آخرت، حساب، قبر کا ذکر رہتا اور والدین شرارت پر ڈانٹنے کے بجائے بس پل صراط کی تصویرکشی کردیتے جو تھپڑ سے بھی زیادہ مؤثر ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ ہما ری ماں جب سبزی بنایا کرتی تھیں تو پتے اور ڈنٹھل کوڑے میں پھینکنے کی بجائے ہم بچوں سے کہا کرتی تھیں کہ محلے میں کسی غریب گھر کی بکری یا بھینس کے آگے پھینک آؤ۔

ہم اگر چڑ کر کہتے کہ کوڑے میں پھینک دیں تو آگے سے لمبی بات سننا پڑتی کہ کوڑا جتنا کم بنے اتنا انسانوں کے لیے اچھا ہے اور بکری، بھینس کتنی خوش ہوگی کہ مزے دار کھانا ملا، اور اللہ بھی خوش ہوگا۔ اگر ماں سے بچت ہوتی تو بڑی بہن کے قابو آ جاتے جو ہر بور کام کے فائدے کچھ اس طرح سے گنواتیں کہ اپنی کم علمی کا احساس لیکر خوشی خوشی گلی کی نالی سے پلاسٹک بیگ تک نکال دیتے کہ پانی رواں رہے اور مچھر نہ پیدا ہوں۔ ہمارے بھائی اکثر والدہ سے کہا کرتے تھے:’’آپ نے آخرت کے حساب کو اتنا ضرب کیا کہ ہمارا زندگی کا حساب منفی ہوگیا‘‘۔

پاکستانی معاشرے میں بہت دفعہ مجھے، میرے بہن بھائیوں کو قنوطی ہونے کا طعنہ سننا پڑا اور سچ تو یہ ہے کہ مجھ پر دوسروں سے مختلف ہونے پر شرمندگی کا احساس ہمیشہ غالب رہا لیکن ٹور نٹو(کینیڈا) کی پبلک لائبریری میں ایک دن جب میرا چار سالہ بیٹا لائبریری سے باہر نکلنے کے لیے دروازہ کھولنے کے لیے خود کار بٹن دبانے لگا تو میں نے بے اختیار اسے روک کر کہا: ’’ہم دروازہ کھول سکتے ہیں، یہ ان لوگوں کے لیے ہے جنھیں دروازہ کھولنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

اسے بغیر ضرورت دبانے سے بجلی ضائع ہوتی ہے‘‘۔ میرے علم میں نہیں تھا کہ فرنٹ ڈیسک پر بیٹھی لائبریرین میری اپنے بیٹے سے گفتگو سن رہی ہے، اس نے میرے پاس آکر کہا:’’ یقیناً تم بہت اچھے ہاتھوں میں پلی ہو، ورنہ اپنی تیس سالہ ملازمت میں، میں نے شاید ہی کسی ماں کو اپنے بچے کو بغیر ضرورت بٹن دبانے سے منع کرتے دیکھا ہو‘‘اور جب ہمارے فیملی ڈینٹسٹ ڈاکٹر مارکن کو میں نے نہ استعمال ہونے والا بریسز کا سامان سیل بند حالت میں یہ کہہ کر واپس کیا کہ کسی اور کے کام آ جائے گا تو اس نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا اور کہا: ’’میرے سٹاف کو ان ہاتھوں سے تربیت پانی چاہئے جنھوں نے تمہاری تربیت کی ہے‘‘۔ہما رے والد ایک غیر ملکی کے ساتھ کسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ ناشتے کی میز پر اچانک بات کرتے کرتے وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور فورا ہی واپس آگیا۔ والد صاحب نے پوچھا خیریت تو تھی تو اس نے کہا:’’مجھے شک پڑا تھا جیسے میں کمرے کی لائٹ جلتی چھوڑ آیا ہوں‘‘۔

ہمیں سکولوں،گھروں ، ٹی وی پر ہر جگہ بجلی بچانے کی ترغیب دینی چاہیے، اس کے لئے ہر شخص کو خود مثال بننا پڑے گا۔ کیسی بد قسمتی ہے کہ غیر ملکیوں کے تہوار ، ان کی پھٹی جینز اور ڈسپوز ایبل کلچر تو اپنا لیا جاتا ہے لیکن بجلی بچانے جیسی اچھی عادت کو غیر اہم سمجھا جاتا ہے۔ کاش! یہ قوم پوری طرح سے ہی نقل کر لیتی تو ویلنٹائن ڈے منانے کے ساتھ بجلی بچانا بھی سیکھ لیتی۔ جہاں ہماری قدریں ملیا میٹ ہو رہی ہیں وہاں ملکی ترقی بھی ہو جاتی۔

منقول

میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں!​اس ایک دوست کا قصہ جسے اپنے ہی دوست کی بیوی سے عشق ہو گیا تھا۔معاشرے کے ہر مرد ک...
22/11/2025

میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں!
​اس ایک دوست کا قصہ جسے اپنے ہی دوست کی بیوی سے عشق ہو گیا تھا۔

معاشرے کے ہر مرد کے لیے عبرت ناک تحریر۔
​ریاض میں رہتے ہوئے کافی عرصہ ایسا گزرا جب ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا تھا۔ ظاہر ہے، پکانا آتا نہیں، اس لیے ہوٹل پر ہی اکتفا کرنا پڑتا تھا۔ مگر کھانے کی میز پر تنہا بیٹھتے ہوئے ایک نوالہ بھی حلق سے اتارنا گویا زہر کھانے کے برابر لگتا۔ چنانچہ، اپنی میز سے اٹھ کر کسی اور میز پر تنہا بیٹھے شخص کے پاس پہنچ جاتا۔ اپنے کھانے کا آرڈر دینے کے ساتھ کہتا: "یار، ہم دونوں مل کر کھانا کھاتے ہیں، باتیں بھی ہو جائیں گی، وقت کٹ جائے گا اور پیٹ بھی بھر جائے گا۔" میرے اس جملے کا جواب عموماً اچھا ہی ملتا تھا۔
​ایک دن ایک ایسے صاحب سے واسطہ پڑا جو شاید کسی بات پر ناراض تھے۔

میں نے ان کی میز پر جا کر بیٹھتے ہوئے کہا کہ: "انکل چلیں! ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں، باتیں بھی کریں گے اور پیٹ بھی بھریں گے۔" وہ صاحب بولے: "کیوں میاں، چلو چلو، اپنا کھانا منگواؤ اور کھاؤ، آ جاتے ہیں مفت خورے کہیں کے۔" ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ پورا ہوٹل سمجھا کہ واقعی میں ان سے مفت کھانا کھلانے کی درخواست کر رہا ہوں۔ میں نے وضاحت کی کہ: "چاچا، کھانا میں اپنے پیسوں سے منگواؤں گا، بس آپ کے ساتھ بیٹھوں گا تو وقت کٹ جائے گا۔" خیر، وہ نہیں مانے اور میں اکثر کی طرح اس دن بھی کھانا کھائے بغیر میز سے اٹھ گیا۔ رات کو بسکٹ کھائے اور سو گیا۔ دیارِ غیر میں بھوکے سونا کوئی حیرت کی بات نہیں، اکثر ہی ایسا ہوتا ہے۔

​ایسی ہی ایک رات کھانا کھانے نکلا تو میز پر بیٹھے ایک نوجوان سے انہی جملوں کے ساتھ تعارف ہو گیا۔ وہ بہت خوش مزاج اور دل کا بڑا نوجوان تھا۔ میں یہاں اس کو نوفل کے نام سے متعارف کراؤں گا۔ نوفل کی عمر یہی کوئی 26، 27 سال ہو گی۔ ایک دوسرے کے بارے میں باتیں شروع ہوئیں تو معلوم ہوا کہ نوفل کی شادی 4 سال پہلے ہوئی تھی، مگر وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی ریاض آ گیا تھا۔ یہاں کے مسائل اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے پھر جا نہ سکا۔

​ہم ہر روز ہی رات کو ملاقات کرنے لگے۔ ایک رات کافی دیر سے وہ مجھے سڑک پر ملا۔ "ارے نوفل! اس وقت تم کیسے، کیا صبح کام پر نہیں جانا؟" میں نے اس کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے پوچھا۔ "نہیں مصطفیٰ بھائی، بڑی مشکل سے چھٹی لگی ہے۔ ایک دو دن میں ہی گاؤں جا رہا ہوں۔ 5 سال بعد جاؤں گا اور اب جا کر اپنی بیٹی کو دیکھوں گا۔" نوفل مجھے بتا چکا تھا کہ وہ شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آ گیا تھا، پھر اس کے گھر ایک بیٹی کی پیدائش ہوئی۔
​خیر، نوفل ایک دو دن میں گاؤں چلا گیا۔ بڑا خوش تھا۔ اس کا چمکتا چہرہ آج بھی یاد آتا ہے تو دل تڑپ اٹھتا ہے۔
​نوفل کو گئے ہوئے ایک ماہ ہو گیا تھا۔ ایک دن حسب روایت میں ہوٹل میں کھانا کھانے گیا تو نوفل ایک کونے میں میز پر خاموش اور اداس بیٹھا تھا۔ شیو بڑھی ہوئی، بال بکھرے ہوئے اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ "ارے نوفل، یہ کیا، تم کب آئے؟" میں نے میز کے قریب پہنچ کر سوال کیا۔

​نوفل میری جانب ایسے دیکھنے لگا جیسے وہ اور میں بالکل اجنبی ہوں، آج ہی ملاقات ہوئی ہو۔ پھر چند ہی لمحوں کے بعد نوفل نے میرا ہاتھ ایسے تھاما جیسے ہمارا صدیوں کا تعلق ہو، وہ میرا سگا ہو یا میں اس کا سب کچھ ہوں۔ میں نے نوفل کے ہاتھ پکڑتے ہوئے سوال کیا کہ: "کیا ہوا یار، تم تو گاؤں گئے تھے، کب آئے، کیا ہو گیا؟" مگر وہ خاموش تھا۔ میں نے کھانا منگوایا، بڑی مشکل سے اس نے چند لقمے لیے مگر کچھ نہ بولا۔ ہوٹل بھرا ہوا تھا، اس لیے بات کرنا مشکل تھا۔

​میں نوفل کو لے کر ریاض میں حارہ کی سڑک پر نکل آیا۔ ہم ایک سڑک کے کونے پر موجود چبوترے پر بیٹھ گئے۔ میں نے پھر پوچھا، اصرار کیا، دھمکی دی کہ اگر مجھے نہیں بتایا تو میں بھی ملنا چھوڑ دوں گا۔ نوفل ایسا لگ رہا تھا جیسے گونگا ہو گیا ہو۔ آنکھیں سوال کر رہی تھیں مگر زبان گنگ تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ فضاؤں اور آسمانوں میں ہے، زمین پر تو اسے کچھ نہیں مل رہا۔ کافی دیر ایسے ہی گزر گئی اور پھر میں غصے میں اٹھ کر جانے لگا۔ "ٹھیک ہے، جب مجھے کچھ نہیں سمجھتے تو چھوڑو، میں چلا جاتا ہوں۔"

​اب نوفل اٹھا اور مجھ سے لپٹ گیا، ایسے رونے لگا جیسے بچہ بلک بلک کر روتا ہے۔ نوفل کی ہچکیاں ہی بند نہیں ہو رہی تھیں۔ "مصطفیٰ بھائی! یہ میں نے کیا کر دیا، میرے ساتھ کیا ہو گیا، مصطفیٰ بھائی میں نے تو سوچا بھی نہ تھا۔"
​"نوفل! ہوا کیا ہے یار، بتاؤ تو سہی، خیر ہے ناں؟"
​"مصطفیٰ بھائی، میری بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی!" یہ کہہ کر نوفل پھر رونے لگا۔ "مصطفیٰ بھائی میرا قصور ہے، میں نے اس کے ساتھ غلط کیا۔ وہ پڑھی لکھی تھی، کوئی دیہاتن نہیں تھی، میں نے غلط کیا۔ آپ جانتے ہیں، میں شادی کے ایک ماہ بعد ہی سعودی عرب آ گیا تھا۔

میری بیوی روز کہتی کہ تم واپس آ جاؤ، روکھی سوکھی کھا لیں گے مگر ساتھ رہیں گے، مگر میں اپنا گھر بنانے کی دھن میں تھا۔ بس یار! اتنا کما لوں کہ گھر بنا لوں۔ ماں کہتی تھیں کہ بہنوں کی شادی کے لیے جمع کر لو۔ وقت گزرتا گیا، میری بیٹی بھی پیدا ہو گئی۔"
​نوفل نے کہا کہ: "میرے بچپن کا دوست تھا، ارشد۔ ہم دونوں ایک ہی محلے میں پلے بڑھے تھے۔ میرے گھر میں کوئی بھی کام ہوتا، میں اپنے دوست ارشد کو فون کر دیتا کہ تیری بھابھی یہ کہہ رہی تھی، ذرا تو یہ کام کر دے۔ یوں اسے میں کسی نہ کسی کام کے لیے اکثر اپنے گھر جانے کا کہتا تھا۔ ارشد روز ہی گھر چلا جاتا تھا۔ امی اور بہنیں بھی اسے جانتی تھیں۔ میں اگر یہاں سے جانے کا کبھی ارادہ کرتا تو امی مجھے بہنوں کی شادی اور گھر کے مسائل گنوا دیتیں اور میں پھر رک جاتا۔

​میری بیٹی اب ماشاء اللہ 4 سال کی ہو گئی ہے۔ میں اس مرتبہ آزاد کشمیر میں اپنے گاؤں گیا، مگر وہاں تو سب کچھ ہی بدل چکا تھا۔ میری بیوی میری نہیں رہی، میری بیٹی مجھے پاپا نہیں سمجھتی، مصطفیٰ بھائی، میں تو برباد ہو گیا۔"
​میں نے حوصلہ دیا کہ پوری بات کرو، پھر کیا ہوا؟

​اس نے کہا: "میں گھر گیا تو مجھے پہلے ہی دن محسوس ہو گیا کہ میری بیوی میرے آنے سے خوش نہیں۔ میری بیٹی تو مجھے جانتی ہی نہیں تھی۔ اس سے صرف فون پر یا اسکائپ پر ہی بات ہوئی تھی۔ اگلے دن ارشد آیا تو میری بیٹی 'پاپا، پاپا' کہتے ہوئے اس سے جا لپٹی۔ اسے دیکھ کر میری بیوی کے چہرے پر بھی خوشی نمایاں ہو گئی۔ میں پریشان تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ایک ہفتہ ایسے ہی گزر گیا۔ میں سب کچھ محسوس کرتا رہا۔ پھر میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ آخر یہ گڑیا میرے پاس کیوں نہیں آتی، وہ ارشد کی گود میں چلی جاتی ہے، مجھ سے کتراتی ہے؟"

​بیوی نے کہا: "آپ کو میں کہتی رہی کہ آپ آ جائیں مگر آپ نے پیسے کمانے کے لیے میری ایک نہ سنی۔ آج گڑیا ارشد کو ہی اپنا پاپا سمجھتی ہے کیونکہ ہر موقع پر وہی تو موجود رہا۔ اس نے گڑیا کی ہر فرمائش پوری کی۔ نجانے آپ یہ کیوں نہیں سمجھ پائے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ آج آپ کا دوست ارشد مکمل طور پر ہمارے گھر میں آ چکا ہے اور اسی گھر کا ایک فرد ہو گیا ہے۔"
​"تو کیا مطلب میری کوئی اوقات نہیں؟" میں نے سوال کیا تو بیوی نے کہا کہ: "اس میں میرا قصور نہیں، آپ شادی کے ایک ماہ بعد ہی چلے گئے تھے۔ آج 5 سال بعد آئے ہیں۔ اس عرصے میں ارشد ہی وہ شخص تھا جس نے ہم ماں بیٹی کا ہر طرح خیال رکھا۔ آج ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی ہے اور ہم ایک ساتھ رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔"

​میں یہ سن کر صدمے میں آ گیا۔ میں نے کہا کہ: "تم جانتی ہو تم کیا کہہ رہی ہو؟" میں نے چیختے ہوئے پوچھا۔ بیوی نے کہا: "ہاں، میں جانتی ہوں مگر میں مجبور ہوں، میں اب آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ میرے دل میں اب آپ کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ارشد بھی یہی چاہتے ہیں۔ آپ مجھے چھوڑ دیں تاکہ ہم نئی زندگی شروع کر سکیں۔"
​میں سیدھا ارشد کے پاس گیا اور پوچھا کہ: "تم نے یہ کیا کیا، میرے ہی گھر میں ڈاکہ ڈال دیا؟"

​ارشد نے جواب دیا کہ: "میں نے کوئی ڈاکہ نہیں ڈالا۔ تم اپنے گھر کی رکھوالی کہاں کر رہے تھے، تم تو اپنا گھر میرے حوالے کر گئے تھے اور جو رکھوالی کرتا ہے، وہی گھر کا مالک ہوتا ہے۔ میں مجرم ہوں مگر مجھ سے بڑے مجرم تم ہو۔ تمہاری بیوی ہر عید پر مہندی لگائے اور گجرا سجائے تمہارا انتظار کرتی تھی۔ میں آتا تو تمہاری بیٹی سے کہتا تھا کہ آپ کی مما اچھی لگ رہی ہیں۔ یہ سن کر گڑیا کی ماں بھی خوش ہو جاتی تھی۔ یوں ہی وقت گزرتا گیا اور ہماری سوچوں اور خیالات میں یکسانیت پروان چڑھتی رہی۔ نوفل، اب تم اپنی بیوی کو چھوڑ دو۔ اس معاملے کو ایک خوبصورت موڑ دے کر خیر باد کہہ دو۔ میں تمہاری بیوی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، تمہاری بچی بھی مجھے اپنا باپ سمجھتی ہے۔ تمہاری بیوی تمہاری رہی اور نہ تمہاری بیٹی تمہیں پہچانتی ہے۔ تم کرکٹ کے اس 12ویں کھلاڑی کی مانند ہو جو ٹیم میں ہوتا ہے مگر کھیل کا حصہ نہیں ہوتا۔"

​ارشد کی باتیں ہتھوڑا بن کر میرے اوپر برس رہی تھیں۔
​اس نے کہا، مصطفیٰ بھائی! "نہایت تلخ رہا یہ سفر میرا۔ میری زندگی کی ساتھی کسی اور کی ہم قدم ہو گئی۔ زیادہ افسوس یہ ہے کہ میری ماں اور بہنیں جن کے لیے میں نے اتنے برس تنہا گزار دیے، جن کی وجہ سے میرا گھر برباد ہو رہا تھا، انہیں کوئی افسوس نہیں تھا۔ انہوں نے میری بیوی پر ان گنت الزامات لگا دیے مگر میں جانتا تھا کہ یہ قصور اس کا نہیں، میرا ہے۔ میرے پاس آج بہت دولت ہے مگر میں حقیقی دولت کھو بیٹھا ہوں۔"

​"میں نے ایئرپورٹ سے ہی بیوی کو طلاق نامہ ارسال کر دیا تھا تاکہ وہ 'دُلہن' جو 5 سال تک اپنے پہلے شوہر کی راہ تکتی رہی تھی، اب اسے مزید انتظار نہ کرنا پڑے اور وہ دوسرے شوہر کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار سکے۔"

​یہ کہہ کر نوفل پھر خاموش ہو گیا۔ حارہ کی سڑک پر رات کے 2 بجے سنسناتی گاڑیاں مجھے خوف زدہ کر رہی تھیں۔ نوفل کے اندر سے اٹھنے والا شور تنہائی میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ میرے پاس نوفل کے لیے کوئی الفاظ نہیں تھے۔ میں اسے گھر جانے کی تلقین کرتے ہوئے واپس اپنے کمرے میں آ گیا۔
​اس دن کے بعد نوفل نظر نہیں آیا۔ پھر کئی ماہ بعد ہوٹل سے ہی معلوم ہوا کہ نوفل اب دنیا میں نہیں رہا۔
​نجانے اس کہانی میں نوفل قصوروار تھا، اس کی بیوی گنہگار تھی یا امی اور بہنوں نے اپنی خواہشات کے لیے ایک گھر برباد کر دیا تھا...

شاہزیب خانزادہ اپنی فیملی کے ساتھ شاپنگ کر رہا تھا اسے حراساں کیا گیا، یہ موقف ہے کچھ دانشوروں کا کہ جی وہ اپنی فیملی کے...
17/11/2025

شاہزیب خانزادہ اپنی فیملی کے ساتھ شاپنگ کر رہا تھا اسے حراساں کیا گیا، یہ موقف ہے کچھ دانشوروں کا کہ جی وہ اپنی فیملی کے ساتھ تھا ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا، تؤ میرا جواب یہ ہے کہ جس دن یہ بشریٰ بی بی کی ماہواری پر 30 منٹ کا خبرنامہ دے کر گھر واپس آیا تھا تب اسکی بیوی نے پوچھا تھا کہ تم نے ایسا بیشرم پراپگنڈا کیوں کیا? کیا اسکو یہ خیال آیا کہ میرے اپنے گھر میں بھی خواتین ہیں جن کا ایک تقدس ہے، آج بھی اسکی رپورٹنگ اس معاملے پر پڑی ہے جس کو سن کر یقین نہیں ہوتا کہ یہ فیملی کے ساتھ بیٹی بیوی یا بہن کے سامنے دیکھی گئی اور دکھائی گئی، اور جب اس سے صرف سوال کیا تؤ اعتراض? کیا چاہتے ہو آپ کہ کسی سے کچھ پوچھا ہی نہ جائے کسی کو کچھ کہا ہی نہ جائے عدلیہ بھی چپ رہے لوگ بھی چپ رہیں اور یہ جب چاہیں جس کی چاہیں عزت نیلام کر دیں ایک پردہ دار خاتون کی ماہواری پر بیشرم رپورٹ کریں اور کوئی ان کی شان میں گستاخی نہ کرے کیوں? عزت صرف انکی عورتوں کی ہے? فیملی صرف ان کی ہے? نہیں سرکار اپنے گھٹیا تجزیے اپنے پاس رکھیں یہ جب جب جہاں جہاں جس پاکستان کے سامنے آئیں گے سوال ہو گا اور جواب دینا پڑے گا، کہیں چھپ نہیں سکو گے عورتوں کے پیچھے بھی نہیں 🫵🏻

یہ پینٹنگ میرے10 سال کے بیٹے نے بنائی ہے اور اس کے بار بار کہنے کے بعد میں یہ اپنے پیج پر لگا رھا ہوں اس نے بولا اپ کو ڈ...
04/11/2025

یہ پینٹنگ میرے10 سال کے بیٹے نے بنائی ہے
اور اس کے بار بار کہنے کے بعد میں یہ اپنے پیج پر لگا رھا ہوں
اس نے بولا اپ کو ڈیلی کے اتنے لائک کمنٹ ملتے ہیں اج اپ میری بنائی ہوئی پینٹنگ لگائیں اور مجھے بتائیں اس پر کتنے لائک ائے ہیں
تو پلیز دل کھول کر لائک کمنٹ کریں تاکہ میرا بیٹا خوش ہو جائے
جزاک اللہ

آمین یارب العلمین 🙏🙏
28/10/2025

آمین یارب العلمین 🙏🙏

Now the real challenge begins 🔥
27/10/2025

Now the real challenge begins 🔥

اگر آپ اس چاچے کو جانتے ہیں، تو پھر اپنی صحت کا خاص خیال رکھا کریں ، بزرگی آپ کے در پر دستک دے چُکی ہے۔🤥😁
24/10/2025

اگر آپ اس چاچے کو جانتے ہیں، تو پھر اپنی صحت کا خاص خیال رکھا کریں ، بزرگی آپ کے در پر دستک دے چُکی ہے۔🤥😁

پنجاب حکومت نے گاڑی کی ٹرانسفر میں دیر کرنے پر بھاری جرمانے عائد کر دیےجرمانے کی تفصیلات:• موٹر سائیکل اور سکوٹر:31–60 د...
13/10/2025

پنجاب حکومت نے گاڑی کی ٹرانسفر میں دیر کرنے پر بھاری جرمانے عائد کر دیے

جرمانے کی تفصیلات:

• موٹر سائیکل اور سکوٹر:

31–60 دن: 1,000 روپے
61–90 دن: 2,000 روپے
91–120 دن: 4,000 روپے

• دیگر گاڑیاں (کار، جیپ وغیرہ):

31–60 دن: 10,000 روپے
61–90 دن: 20,000 روپے
91–120 دن: 30,000 روپے

120 دن سے زیادہ تاخیر قانونی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے.

ٹرانسفر بروقت کریں، جرمانے سے بچیں.

‏پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیکر افغانستان سے دھوکہ کیا؟اکثر افغانی آپ کو یہ فضول بکواس سناتے نظر آئیں گے، ہم آپ کے سامنے...
10/10/2025

‏پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیکر افغانستان سے دھوکہ کیا؟

اکثر افغانی آپ کو یہ فضول بکواس سناتے نظر آئیں گے، ہم آپ کے سامنے حقیقت رکھتے ہیں۔

ایک بندے کو چوری کی لت لگ گئی، ہر دوسرے دن چوریاں کرتا، اسکا ایک دوست تھا جو کہ بڑا مخلص تھا، وہ اپنے دوست کو ہمیشہ بچانے کی کوشش کرتا، جب بھی اسکا دوست چوری کرتے ہوئے پکڑا جاتا تو وہ لوگوں کو بولتا کہ بیشک مجھ سے نقصان پورا کرلو لیکن اسکو کچھ نا بولو، یہ میرا دوست ہے۔

پھر ایک دن وہ شخص چوری سے بڑھتے بڑھتے ڈکیتیاں کرنا شروع ہوگیا، اسکے دوست نے بڑا سمجھایا کہ ایسا نا کرو لیکن وہ بندا یہ سمجھتا تھا کہ چونکہ اسکا دوست اسکی ہر چوری کے بعد لوگوں کا نقصان پورا کردیتا ہے لہذا وہ ڈکیتیاں بھی ڈالے گا تو اسکا دوست اسکو بچا لے گا کیونکہ وہ بیوقوف دوست حد سے زیادہ مخلص ہے۔

اسی طرح ایک دن ڈکیتیاں کرتے ہوئے اس بندے نے فائرنگ کرکے دو لوگوں کو گولیاں مار دیں۔ اب پورے علاقے کی پولیس ایکٹو ہوئی، پولیس نے حکم نامہ جاری کیا کہ جس نے بھی اس ڈکیت کو پناہ دی، وہ بھی سولی پر چڑھایا جائے گا۔ پولیس اس ڈکیت کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسکے دوست تک پہنچ گئی۔ پولیس نے واضح بولا کہ اگر تم نے اسکا پتہ نا بتایا تو تم بھی رگڑے جاو گے۔ اب وہ ڈکیت کا دوست سوچنے لگا کہ چوریاں اس ڈکیت نے خود کیں، ڈکیتیاں خود ڈالیں، مجھے تو سوائے نقصان کے کچھ نہیں ملا، اس دفعہ مجھے اپنے بچوں اور اپنے گھر والوں کی فکر کرنا چاہئے اور یہی سوچ کر اس نے پولیس کو ڈکیت کا پتہ بتا دیا۔

جیسے ہی وہ ڈکیت گرفتار ہوا تو پورے علاقے میں اپنے دوست کو بدنام کردیا کہ اس نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے، اس نے پولیس کو میرا پتہ بتایا ہے۔ اس سے برا دوست کسی کو نہیں مل سکتا۔

بالکل یہی افغانستان نے پاکستان کے ساتھ کیا۔

دہشتگرد گروپس افغانستان نے پالے،
دنیا بھر کے دہشتگردوں کو پناہ افغانستان نے دی،
طالبان حکومت میں پاکستانی نہیں افغان تھے،
پاکستان نے کبھی انکو ایسا کرنے کا نہیں بولا،

پاکستان کی غلطی بس انکو روس کے خلاف انکی اپنی جنگ میں مدد کرنا، انکی اندرونی خانہ جنگی ختم کروانا اور 60 لاکھ افغانیوں کو پناہ دینا تھا، جس پر یہ سمجھنے لگے کہ ہم امریکہ کو براہ راست دھمکیاں دیں گے تو پاکستان ہماری جگہ لڑے گا کیونکہ پاکستان وہ بیوقوف دوست جو ہمیشہ ہمارے ہر الٹے کام میں ساتھ دے گا۔

کیا پاکستان کو پاگل کتے نے کاٹا تھا جو تمھاری جنگ لڑیں؟ کیا تم نے کبھی 1965، 1971، 1999 کی جنگ پاکستان کے لئے لڑی؟ امریکہ سے پھڈا تمھارا؟ تمھاری جگہ امریکہ سے لڑائی پاکستان مول لے؟ کیا تمہیں پاکستان نے دہشتگرد گروپس پالنے کا بولا تھا؟

پھڈا تمھارا؟
مسلہ تمھارا؟
لڑائی تمھاری؟
اور تمھاری جگہ پاکستان امریکہ سے لڑے؟

اس سوچ کے تحت یہ افغانی بولتے ہیں کہ پاکستان نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔ اندازہ کریں کہ کتنا دماغ خراب ہے انکا۔

اسی پاکستان کی نسبت ایران اور دیگر وسطی ایشیائی اسلامی ریاستوں نے مرغی کے ڈربے کی طرح افغان مہاجرین کو رکھا لیکن ان سے انکو کوئی مسلہ نہیں، انکی یہ عزت کرتے ہیں۔

پاکستان کا نمک ایسا ہے جو کسی ۔۔۔۔ کو راس نہیں آتا۔

لوڑا وول وارڈٹ (Laura Wolvaardt)نہ صرف کمال کی بلے باز ہے بلکہ بےحد خوبصورت اور پرکشش شخصیت بھی رکھتی ہے میدان میں اس کی...
10/10/2025

لوڑا وول وارڈٹ (Laura Wolvaardt)
نہ صرف کمال کی بلے باز ہے بلکہ بےحد خوبصورت اور پرکشش شخصیت بھی رکھتی ہے میدان میں اس کی موجودگی ہی کھیل کو نکھار دیتی ہے۔ وہ ایک تیز اوپنر ہے، جس نے ون ڈے میں 9 سنچریاں اور 35 نصف سنچریاں بنائی ہیں، جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں بھی زبردست کارکردگی دکھائی ہے
اس وقت دنیا میں واحد اوپننگ بیٹسمین

لوڑا ہی ہے جسے
میں بہت پسند کرتا ہوں۔

Address

Riyadh

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Entertainment News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share