
22/02/2025
پاکستان کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں کچے راستے اور مٹی کے گھر عام تھے، تین آدمی ایک ویران میدان میں کھڑے تھے۔ ان کے چہرے دھوپ سے جھلسے ہوئے اور آنکھوں میں امید کے سائے جھلک رہے تھے۔ وہ ننگے پاؤں تھے، ان کے پاؤں کیچڑ اور دھول سے بھرے ہوئے تھے، مگر ان کے دل میں ایک خواب تھا—ایک بہتر زندگی کا خواب۔
سامنے، سنہری دھوپ میں، ایک باوقار سردار کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر جلال تھا، ہاتھ میں تسبیح، اور پاؤں میں چمکتی ہوئی پشاوری چپل۔ وہ طاقتور لگ رہا تھا، جیسے کسی بڑی سلطنت کا مالک ہو۔
تینوں آدمیوں نے عاجزی سے ہاتھ جوڑ لیے۔ ان میں سے ایک، جو سب سے عمر رسیدہ تھا، دھیرے سے بولا، "سردار جی، ہمیں کام دے دو، ہمارے بچے بھوکے ہیں۔"
سردار نے کچھ لمحے سوچا، پھر نیچے ان کے ننگے پاؤں پر نظر ڈالی اور مسکرا کر کہا، "تم لوگ ننگے پاؤں ہو، لیکن ہمت نہیں ہاری۔ کام تو میں دوں گا، مگر پہلے بتاؤ، اگر تمہارے پاس بھی یہ چپل ہوتیں، تو کیا تم بھی سردار ہوتے؟"
تینوں آدمی ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ سردار نے اپنی پشاوری چپل اتاری اور زمین پر رکھ دی۔ "یہ چپل پہن کر بتاؤ، تم کیسا محسوس کرتے ہو؟"
سب سے جوان آدمی نے جھجکتے ہوئے چپل پہنی، اور فوراً ہی اس کے چہرے پر ایک عجیب سا غرور آ گیا۔ "اب میں بھی سردار لگ رہا ہوں!" وہ بولا۔
سردار ہنسا، "چپل سے کوئی سردار نہیں بنتا، ہمت سے بنتا ہے! اگر تم واقعی کچھ کرنا چاہتے ہو تو میں تمہیں کام بھی دوں گا اور راستہ بھی دکھاؤں گا۔ لیکن یاد رکھو، یہ چپل پہننے سے نہیں، محنت کرنے سے عزت ملتی ہے!"
یہ سن کر تینوں آدمیوں نے نظریں جھکا لیں۔ ان کے دل میں ایک نیا احساس جاگا۔ سردار نے انہیں کام دے دیا، اور کچھ دنوں بعد وہ اپنی محنت سے اپنے لیے نئی چپلیں خریدنے کے قابل ہو گئے—مگر اس بار، وہ صرف چپل والے نہیں، اپنی تقدیر کے سردار بن چکے تھے۔