
18/07/2025
22 محرم 61ھ سرِ امام حسینؑ راہب کے کلیسا میں😭🏴
راہب نے سرِ مقدس کو صندوق سے نکالا اور خون آلود خاک آلود سر کو مُشک و عنبر اور عرقِ گلاب سے دھو کر نفیس و ظریف سجادہ زمین پر بچھایا اور اس پر رکھا۔
"کافوری شمعیں اردگرد روشن کیں اور حیرت سے اس نورانی سر کو دیکھا۔ وہ زار و قطار روتا، آنسو بہاتا اور دل جلی آہیں بھرتا تھا"
پھر زانوئے ادب طے کرکے بیٹھ گیا اور رو کر سر کی طرف دیکھا اور کہا:
'اے کائنات کے سرورؑ کے سر! اور اے آدمؑ کی اولاد سے بہتر کے سر! مجھے یقین ہوگیا ہے کہ آپؑ اس جماعت سے ہیں جس کی صفات میں نے تورات و انجیل میں پڑھی ہیں۔ آپؑ کو ہستئ خدا کی حقانیت کی قسم! جس نے آپؑ کو یہ مقام و منزلت عطا فرمائی کہ تمام محترماتِ کائنات، خواتینِ عظام آپؑ کی زیارت کو آئیں اور آپؑ پر گریہ و زاری کرتی رہیں۔ مجھے بتائیے کہ آپؑ کون ہیں؟
فوری طور پر ذوالجلال کے حکم سے وہ سرِ مطہر بولا اور فرمایا:
میںؑ زمانے کا ستم رسیدہ ہوں، کوفیوں کی تلوار کا شہید ہوں اور شامیوں نے مجھے خون میں غلطاں کیا۔ میںؑ اپنے شہر سے اور اپنے خاندان سے دور پیغمبرِؐ اسلام کا فرزند ہوں۔
راہب نے عرض کی اے مظلومؑ! میں آپؑ کے قربان جاؤں ذرا واضح فرمائیں۔
امامؑ نے فرمایا: اے راہب! میرے حسب و نسب کا پوچھتا ہے یا میری پیاس کے متعلق پوچھتا ہے؟
اگر نسب پوچھتا ہے تو میںؑ پیغمبرِ اکرمؐ کا فرزند اور والئؐ مدینہ کی بیٹیؑ کا بیٹاؑ ہوں اور پھر امامؑ نے اپنے اوپر ہونے والے تمام مصائب سنائے۔ وہ راہب صبح تک آہ و نالہ میں مشغول رہا۔ کبھی روتا، کبھی ماتم کرتا اور کبھی نوحہ کرتا اور کبھی افسوس سے ہاتھوں کو رگڑتا تھا۔
صبح کو یہ راہب اپنے کمرے سے نکلا اور وہاں موجود تمام نصرانیوں کو جمع کیا اور اُنکو تمام واقعات سے مطلع کیا خود بھی روتا رہا اور تمام نصرانیوں کو بھی رلاتا رہا۔ وہ اسقدر روئے کہ فرطِ غم میں گریبان چاک کرلئے اور سر میں خاک ملالی نیز نوحہ کرتے ہوئے امام زین العابدینؑ کے پاس آئے۔
جب نصاریٰ کی نظر امام سجادؑ پر پڑی تو دیکھا چند قیدی خواتین و بچے جنہیں زنجیروں اور رسیوں سے باندھا ہوا ہے وہ پریشان حال خاک پر سوئے ہوئے ہیں۔ نصرانیوں نے جب قیدیوں کی یہ حالت دیکھی تو انکی چیخیں نکل گئیں اور زار و قطار رونے لگے گریبان چاک کئے اور امام سجادؑ کے قدموں میں گر پڑے اور کلمہء شہادت پڑھ کے مسلمان ہوگئے۔ پھر راہب نے وہ واقعات بیان کئے جو رات کو اس نے دیکھے تھے اور عرض کی کہ میں قربان جاؤں ہمیں اجازت دیں تاکہ ہم کلیسا سے باہر جاکر لشکر ابنِ زیاد پر شب خون لگائیں، انکے ظلموں کی وجہ سے ہمارے دلوں میں غصوں کو ہم خالی کرسکیں۔ اگر ہم قتل ہوگئے تو آپؑ کا نُدبہ ہونگے۔
امامؑ نے انکے حق میں دعا کی اور فرمایا: تمہارا اسلام لانا قبول ہے اور لشکرِ ابن زیاد کو اپنے حال پر چھوڑ دو۔ بہت جلدی انکو اپنے کیے کی سزا ملے گی۔ ہم تو اللہ کی قضا و قدر پر راضی ہیں۔
(مدینہ سے مدینہ تک، ص 486،48
Duaالتماسِ