03/07/2025
*مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم کا ایک عظمت افروز واقعہ*
_____________________________
سردی کی ایک شام بلکہ رات کو،کیونکہ سات بجے رات ہی ہو جاتی ہے۔ ہم دو آدمی ازہرشاہ قیصر مرحوم اور میں ۔ لاہور جانے کے لئے دیوبند کے اسٹیشن پر پہنچے تو وہاں ہم نے مولانا (عبیداللہ) سندھی کو پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے دیکھا۔
میں نے سلام کیا تو وہ اس طرح خالی نظروں سے مجھے دیکھنے لگے ، جیسے پہچانتے تک نہیں ، ان کی بے نیازی اجنبیت سے مجھے اتنا صدمہ پہنچا کہ میں آگے بڑھ گیا ، ادھرادھر دھیان بٹانے کی کوشش کی لیکن آزردگی دور نہیں ہوئی ۔ میں نے چور نظروں سے دیکھا تو وہ پلیٹ فارم کے اس سرے سے اس سرے تک ٹہل رہے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ گھنٹی بج گئی، جو ٹرین کے قریب ترین اسٹیشن سے چھوٹنے کے بعد بجتی ہے، گھنٹی کی آواز سنتے ہی وہ پلیٹ فارم کے باہر چلے گئے ، لیکن دو تین منٹ بعد میں نے دیکھا کہ واپس چلے آرہے ہیں ، اس بار وہ سیدھے ہماری طرف آئے اور پوچھا ۔
کہاں جار ہے ہو ؟
میری آزردگی اس وقت تک باقی تھی ، میں نے بے رخی سے کہا ۔
لاہور جارہے ہیں ۔
کتنے پیسے ہیں تمہارے پاس ؟ ۲۵ روپیہ ہیں ۔ میں نے مختصراً جواب میں کہا
ایک ٹکٹ لاہور کا اور لے آؤ !
میں بھاگ کر ٹکٹ لے آیا تو انھوں نے یہ تک نہیں پوچھا کہ ٹکٹ لے آئے یا نہیں، بلکہ اب وہ بدستور مخدوم اور میں خادم بن گیا ۔
یہ بستر اٹھاؤ —-- اسے یہاں رکھو —---- یہاں بیٹھو !
ریل چل پڑی تو انہوں نے بڑی گہری نظر سے مجھے دیکھ کر کہا ۔ برا مان گیا تو ؟ اس کے بعد کہنے لگے کہ مجھے لاہور جانا تھا ، لیکن میرے پاس پیسے نہیں تھے ، اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ ایک آنہ دے کر تا نگہ میں اسٹیشن آجاتا لیکن لاہور تو مجھے جانا تھا ، میں نے خطوط لکھ دیئے تھے کہ میں اسی ریل سے آ رہا ہوں اس لئے میں نے بستر کندھے پر رکھا اور اسٹیشن آگیا۔
انقلابیوں کا کوئی کام پیسے کی وجہ سے نہیں رکتا۔ میرے سامنے سوال ہی نہیں تھا کہ پیسے ہیں یا نہیں ہیں ، یہ بات طے شدہ تھی کہ مجھے اس گاڑی سے جانا ہے ۔ اس لئے میں اسٹیشن پر چلا آیا ۔ اور اس تلاش میں رہا کہ کوئی جانکار ملے تو اس سے ٹکٹ منگوالوں ۔لیکن پلیٹ فارم پر اس سرے سے اس سرے تک ڈھونڈھنے کے باوجود کوئی واقف کار نظر نہیں آیا یہاں تک کہ گھنٹی بج گئی تومیں پلیٹ فارم سے باہر جا کر بھی دیکھ آیا۔ کوئی نہ ملا تو مجبورا تجھ سے ہی ٹکٹ لانے کو کہا ۔ کافی دیر تک پس و پیش میں رہا کہ تجھ سے کہوں یا نہ کہوں ۔ اور یہ بھی سوچتا تھا کہ تیرے پاس پیسے ہوں گے بھی یا نہیں ہوں گے ۔
میری عمری کیا تھی ، یہ غالباً 1941ء کی بات ہے، لیکن اتنی بات تو جانتا ہی تھا کہ:
اس بے سرو سامانی کی بات وہ کر رہا ہے ،جو بندوستان کی جلا وطن حکومت کا وزیر داخلہ رہ چکا ہے، جو افغانستان میں وزیر خارجہ اور ترکی میں افغانستان کا سفیر تھا، اور جو روس میں اشتراکی لیڈروں کا ہم نوالہ اور ہم پیالہ رہ چکا تھا ۔ لیکن اب وہ کہہ رہا تھا کہ :
اس نے بستر کندھے پر رکھا اور اسٹیشن آگیا کیونکہ اصل مسئلہ لاہور پہنچنے کا تھا یہ کوئی بات ہی نہ تھی کہ پیسے ہیں یا نہیں ہیں۔
لیکن ابھی حیرانی ختم کہاں ہوئی تھی کیونکہ اصل حیرانی تو اس وقت شروع ہوئی جب سہارن پور کا اسٹیشن گزر تے ہی بر اسٹیشن پر ملاقاتی ملنے شروع ہوئے ، اور چھوٹے سے چھوٹے اسٹیشن پر بھی ایک ہجوم پہلے سے منتظر دکھائی دیا۔ جو مولانا سندھی کا نعرہ بھی کبھی کبھار لگا دیتا ۔
اسی میل ملاقات کے درمیان انبالہ کا اسٹیشن آیا تو وہاں غیر معولی مجمع تھا، اور اس مجمع میں سب سے ممتاز شخصیت نواب غلام بھیک نیرنگ کی تھی ، جنہوں نے مولانا سے مصافحہ کرتے ہوئے ایک پتلا لفافہ ان کے ہاتھ میں دیا تو انھوں نے اسے بائیں ہاتھ دوسری اور تیسری انگلی کے درمیان پکڑ لیا۔ اور جالندھر تک تو مجھے یاد ہے ، کہ وہ اس لفافہ کو اسی طرح پکڑے رہے اور اس درمیان ہر اسٹیشن پر لوگ ان سے ملنے اور ان کا استقبال کرنے کے لئے آتے رہے۔
اس کے بعد نیند آگئی ، اس لئے کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا ، لیکن اتنا یاد ہے کہ صبح سویرے لاہور اسٹیشن آیا تو وہ لفافہ اسی طرح ان کی انگلیوں میں پھنسا ہوا تھا۔
اسٹیشن پر ان کے استقبال کرنے والوں کا سب سے بڑا ہجوم تھا ، جن لوگوں کی صورتیں اب تک یاد ہیں ، ان میں میاں افتخار الدین ، غلام رسول مہر ، عبد المجید سالک ، مولانا ظفر علی خاں ، ان کے صاحبزاد ے اختر علی خان شیخ حسام الدین، مولانا مظہر علی اظہر، مولانا داؤ د غزنوی، شورش کشمیری اور درجنوں دوسرے لوگ تھے ، اتنا ہجوم تھا کہ بیسیوں آدمی ہمارے اور ان کے درمیان حائل ہو گئے ۔ یہاں تک کہ خود انھوں نے ہی ادھر ادھر دیکھ کر کہا ۔
دولڑکے ہمارے ساتھ تھے ؟
جی ہم یہاں ہیں !
ازہرشاہ قیصر نے کہا۔ اس آواز پر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو لوگوں نے ادھرادھر دب کر راستہ بنا دیا ۔ ہم قریب پہنچے تو انھوں نے وہ لفافہ میری طرف بڑھایا دیکھو اس میں کیا ہے ؟
میں نے دیکھ کر کہا اس میں نوٹ ہیں ۔ سو (100) سو (100) روپے کے پانچ نوٹ ہیں۔
رکھو!
جی ۔ جی ۔ میں گھبرا گیا ۔ یہ آپ رکھئے ۔
یہ بہت زیادہ ہیں۔
ہم گولی ماردیں گے ۔ انھیں واقعی جلال آگیا ۔ بچہ ہے ۔ کئی آدمیوں نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ۔ بچہ نہیں ۔ کوڑ مغز ہے ۔ بے ادب سارے راستے سمجھاتا آیا ہوں کہ بڑوں کا حکم بے چون و چرا مان لینا چاہئے ۔ ساری تعلیم بیکار گئی ۔ پہلا ہی اثر حکم عدولی کی صورت میں ظاہر ہوا۔
میں دم بخود کھڑا رہ گیا وہ تو انقلاب زندہ باد ، مولانا سندھی زندہ باد کے نعروں کی گونج میں رخصت ہو گئے ۔ اور مجھے زندگی بھر کے لئے سبق دے گئے ۔
" انقلابیوں کا کوئی کام پیسے کی وجہ سے نہیں رکتا۔ اصل کام یہ ہے کہ مجھے لاہور جانا ہے "۔
اور وہ لاہور اس طرح پہنچے کہ ان کے پاس تانگہ کے لئے بھی ایک آنہ نہیں تھا۔ لیکن سارے راستے بادشاہوں کی طرح استقبال ہوا ۔ راستہ میں پیسہ ملا تو اس آدمی نے یہ تک نہیں دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں سو (100) سو (100) کے نوٹ ہیں یا ردی کاغذ ہیں ۔ اور جب معلوم ہوا تو اس خطیر رقم کو ردی کاغذوں کے پرزوں کی طرح اس لڑکے کے ہاتھ میں دے کر رخصت ہو گیا، جس نے اس کے لئے پانچ روپیہ کا لاہور تک کا ٹکٹ خرید لیا تھا ۔
جس زمانہ میں یہ واقعہ بیان ہو رہا ہے ، اس زمانے میں پانچ سو روپیہ کی کوئی حیثیت نہیں لیکن 45 برس پہلے کے جس زمانے میں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اس زمانہ میں سو (100) کے نوٹ کی اتنی بڑی قیمت تھی کہ اس کے بھنانے والے کو دستخط کر نے پڑتے تھے ۔
بس وہ دن ہے اور آج کا دن ، روپیہ پیسے کی پرواہ کبھی نہیں ہوئی ، جو کام چاہا کرلیا جتنا بڑا کام چاہا اس میں ہاتھ ڈال دیا کبھی بھول کر بھی خیال نہیں آیا کہ پیسہ کہاں سے آئے گا ۔
( افکار وعزائم از : جمیل مہدی)