Ismaili Qasidas And Ginans

Ismaili Qasidas And Ginans We upload Qasidas and Ginans with music.

10/03/2025

جو علی کا نہیں وہ بنی ص کا نہیں
جو نبی ص کا نہیں، وہ کسی کا
نہیں

10/03/2025

من کنت مولا فھذا علی مولاہ کے بمصداق لفظ مولا علی و آل علی میں سے ہونے والے امام برحق کے لئے ہی مخصوص ہے۔ہم علی و اولاد علی کے علاؤہ کسی کو مولا ،ولی،امام،نہیں مانتے۔

09/29/2025

بارہ اکتوبر کو امام شاہ رحیم الحسینی کی سالگرہ ہے۔ہنزہ جماعت کی طرح غذر جماعت بھی گاہکوچ سٹی،طاوس،گوپس،پھنڈر اور اشکومن کے بازاروں کو سجاو۔اسماعیلی جھنڈیاں اور امام ع کی سالگرہ کی پوسٹرز سے اپنے شہروں کو سجاو۔

*امام سے مدد مانگنا یا استمداد* بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم  سوال :ہم اسماعیلی امام سے مدد مانگتے ہیں یا ہم لوگ جب ایک دوس...
09/19/2025

*امام سے مدد مانگنا یا استمداد*
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
سوال :ہم اسماعیلی امام سے مدد مانگتے ہیں یا ہم لوگ جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو یا علی مدد کہتے ہیں. یا امام سے مشکلات کا حل طلب کرتے ہیں جسے شیعہ اسلام میں استمداد کہتے ہیں جبکہ اسلام کے دیگر مسالک میں مدد صرف اللہ سے مانگتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قرآن میں ایسا کوئی ارشاد ہے جس سے یہ ظاہر ہو یا واضح ہوجا ئے کہ یا علی مدد کہنا جائز قرار پائے؟
جواب : جی ہاں اگر قرآن کو حکمت کی نظر سے دیکھیں یا پڑھینگے تو معلوم ہو جائے گا،کہ ہم اسماعیلی از روئے قرآن امام سے مانگتے ہیں،اور مدد طلب کرتے ہیں.
اس بارے میں قرآن میں بہت سے حکیمانہ آیات ہیں لیکن ہم مختصراً دو آیات کو لیتے ہیں اور اپنے بزرگان دین کی تسریحات کے مطابق دیکھتے ہیں، جیسا کہ سورہ ابرھیم کی آیت نمبر ۳۴ میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ
وَ اٰتٰىكُمْ مّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُؕ-وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ.
اور جو کچھ تم نے خدا سے مانگا سب تم کو دیا اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو گن نہیں سکتے ہو اس میں تو شک نہیں کہ انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
اس فرمان الٰہی سے ظاہر ہے،کہ حقیقی مومنیں نے جسمانیت میں یا روحانیت میں بزبانِ قال یا بزبانِ حال پروردگار سے جو کچھ طلب کیا وہ سب اُس نے انہیں دے رکھا ہے،اب ہم نے قرآن سے دیکھنا ہے،کہ۔خدا نے سب کچھ کس صورت میں مومنین کو دے رکھا ہے؟ اس کا جواب سورہ یٰسٓ کی آیت نمبر ۱۲ میں موجود ہے,خدا فرماتا ہے
وَ كُلََّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۔
اور ہم نے ہر چیز کو امامِ مبین (کی نورانیت) مین گھیر لیا یے، تو معلوم ہوا کہ خدا نے تمام چیزیں امام کی صورت میں ہم کو دی ہے، اور امام ہی خدا کی کلّ چیزوں کا خزانہ ہے. اب اس قانوں قدرت کے تحت کیا ہم اپنی مرضی سے امام سے مانگتے ہیں؟ نہیں قرآن کے حکم کے مطابق مانگتےہیں، اگر خدا کی تمام چیزین امام کی صورت میں ہم کو دی گئی ہیں،تو پھر ہمارے مطلُوب بھی امام ہی سے پورے ہونگے،امام سے ہی طلب کرنا ہوگا،کیونکہ خدا خود فرماتا ہے، کہ میں نے تمام چیزین روحانی طور پر امام مبین میں رکھا ہے، تو اس صورت میں ہمارے تمام روحانی مسائل امام سے ہی حل ہو جائیں گے ۔

ازکتاب یا علی مدد

امام شناسی کی اہمیتاس بابرکت دور میں استاد معظم قدس اللہ سرّہ  نے مولائے کائنات کی شفقت سے جس کائناتی عِلم سے عاَلم انسا...
09/17/2025

امام شناسی کی اہمیت
اس بابرکت دور میں استاد معظم قدس اللہ سرّہ نے مولائے کائنات کی شفقت سے جس کائناتی عِلم سے عاَلم انسانیت کو نوازا اس مبارک عِلم کا سہارا لیتے ہوئے، امام شناسی کی اہمیت پر کچھ نکات تحریر کرنے کی حقیر سی کوشش کرتے ہیں۔
یقیناً زمانے کے امام علیہ السلام کی شناخت دین کی سب سے بڑی بنیاد ہے، دین کے جو احکام ہیں، فرائض ہیں، سنتیں ہیں، نوافل ہیں، یہ تمام کے تمام اس ذات پاک کے گرد گھوتی ہیں،اسلئے امام زمان کی شناخت دین میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے مومنین و مومنات! امام شناسی کی اہمیت کے بارے میں پیغمبر خدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے فرمایا ہے:۔
لَو خَلَتِ الاَرضُ مِن اِمَامِ الوَقتِ سَاعَتہً لَماَدَت بِاَھلِھَا یعنی، اگر زمین ایک گھنٹہ کیلے امامِ زمان سے خالی رہ جائے تو وہ اپنے بسانے والوں کے ساتھ نیست ہو جائے گی، اسے آپ اندازہ کیجیے مومنین و مومنات آج اس دنیا میں ہم کتنے نیک بخت ہیں۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ امام شناسی کے حوالے سے فرماتا ہے، مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة وَالجاھلُ فِی النّاریعنی ، جو شخص اپنے زمانے کے امام کو پہچانے بغیر مر جاتا ہے وہ گویا جہالت کی موت مر جاتا ہے اور جاہل دورزاخ میں ہے۔
اسلئے مومنین و مومنات آپ خود اندازہ کیجیے زمانے کے امام علیہ السلام کی شناخت کتنی اہمیت کے حامل ہے،اسی طرح امام شناسی کے اہمیت کے حوالے سے حکیم پیر ناصر خسرو اپنے گرانقدار تصنیف وجہ دین میں فرماتے ہیں:۔
"جب خدا نے جانوروں کو کھانے پینے والا نفس دیا تو اس نے عناصر ستاروں اور آسمانوں کو نباتات اگانے کے کام پر لگا دیا جس سے جانوروں کے اجسام کی پرورش ہوتی رہتی ہے کیونکہ صانع حکیم کی حکمت میں یہ ہرگز مناسب نہیں کہ وہ ایک ایسے حاجتمند کو پیدا کرے جسکی حاجت پوری کرنے والے کو پیدا نہ کیا ہو، کیونکہ اس نہ ایسا نہ کیا تو یہ حقیقی مہربانی نہ ہو گی بلکہ بخالت ہو گی۔
ظاہر ہے کہ وہ مہربان صانع حکیم بخالت سے پاک و برتر ہے، پس ہم نے یہ ثابت کر دیا کہ اس مقدس یعنی فطری عقل کے پرورش کے لئے انسانوں کے درمیان کسی مربّی یعنی پرورش کرنے والا کا ہونا لازمی ہے"
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نوع انسان کی جسمانی و روحانی پرورش کے لئے ایک ایسی شخصیت کا وجود ضروری ہے جو رسول کے بعد بحیثیت امام موجود رہے اور لوگوں کو زمانے کے حالات کے مطابق ہدایت دے۔
اگر کسی انسان کو اس نور امامت سے ہدایت نہیں ملے گی تو وہ اندھیرے میں بھٹک جائیگا اس لئے امام سورج کی مانند روشن اور نور ہے۔
جس کے بارے میں پیر شہاب الدین شاہ الحسینی فرماتے ہیں کہ:۔
"اگر تم چاہو کہ کسی کے سامنے آفتاب کے وجود کی دلیل پیش کرو اور یہ ثابت کرنا چاہو کہ اس وقت سورج نکل رہا ہے تو تمہارے پاس اس سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہے کہ تم اس آدمی کو سورج کے سامنے لیجا کر کھڑا کر دو اور کہہ دو کہ دیکھو یہ سورج ہے کیونکہ جب سورج ظاہر ہو رہا ہے تو وہ خود اپنے وجود کی دلیل ہے۔
اسلئے پیر نامدار فرماتے ہیں :۔
چشم سر بی آفتاب آسمان بیکار گشت
چشم دل بی آفتاب دین چرا بیکار نیست
یعنی، جب سر کی آنکھ اس ظاہری آسمان کے سورج کے بغیر بیکار ہے تو پھر دل کی آنکھ دین کے آسمان کے بغیر کیسے بیکار نہیں ہے؟
یہ نورانی آفتاب زمانے کے امام کی صورت میں ظاہر اور موجود ہے اسکے وجود کے بغیر یہ دنیا ویران ہو جائے گا جس طرح سورج کے غائب ہونے سے کائنات کی ہر شے کی تباہی کا تصور سامنے آتا ہے اسی طرح سے امام علیہ السلام جو انسان کی جسمانی اور روحانی فلاح و بہبود کا سورج ہے۔قرآن فرقان مجید میں " نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ" اور "ذُرِّیَّۃًۢ بَعْضُہَا مِنْۢ بَعْضٍ" کے قانوں کے مطابق خلیفہ خدا دنیا سے اوجھل ہو نہیں سکتا ،بلکہ قیامت تک اپنی روحانی فیوض و برکات سے مومینوں کو فیض یاب کرتا رہے گا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں اسماعیلی مذہب میں پیدا کرنے پر خداوند برحق کی شکرگزاری عملی طور پر بجا لاکر اس کے فرامین پر من و عن عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے، تاکہ ہمیں علم و دانش سے منور کرکے عالمِ انسانیت کے لئے حقیقی بہشت بنادے۔آمین!
آخر میں استاد معظم کہ اس شعر کے ساتھ، اس تحریر کا اختتام کرنا چاہوں گا۔
نور حق جب ظاہر نہ ہو عالم انسان میں
کوئی آندھا کس طرح کہلائے گا قران میں۔
شکریہ

09/17/2025

میری طرف سے دنیا بھر میں بسنے والے اسماعیلیوں کو یاعلی مدد۔مولا آپ سب کو خوش رکھے۔آمین

اثنا عشری اور اسماعیلی شیعہحضرت امام جعفر الصادق ع کی وفات پر امامی شیعہ کئ گروہوں میں بٹ گئے۔ایک بڑی تعداد نے آپ ع کے ب...
09/17/2025

اثنا عشری اور اسماعیلی شیعہ

حضرت امام جعفر الصادق ع کی وفات پر امامی شیعہ کئ گروہوں میں بٹ گئے۔ایک بڑی تعداد نے آپ ع کے باحیات بڑے فرزند عبداللہ الفطح کو اپنے امام کے طور پر تسلیم کیا۔ان شیعوں نے جو فطیحہ کے نام سے معروف ہیں دسویں صدی تک اپنی نمایاں حیثیت برقرار رکھی۔تاہم جب اپنے والد کے فورأ بعد عبداللہ کا انتقال ہوا تو ان کے حامیوں کی اکثریت ان کے سوتیلے بھائی موسی الکاظم کے ساتھ جاملے جن کو پہلے ہی امامیہ کے ایک دھڑے نے اپنے والد کے جانشین کے طور پر تسلیم کیا تھا۔موسی نے,جو بعد میں اثناعشریوں کے امام ہفتم شمار ہوئے,تمام سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کیا جو ایک ایسی امامی روایت تھی جسے ان کے جانشینوں نے برقرار رکھا۔799ء میں موسی کی وفات پر ان کے حامیوں کی ایک جماعت نے ان کے بڑے فرزند علی بن موسی الرضا کی امامت کو تسلیم کیا جو بعد میں عباسی خلیفہ المامون ,جس نے علویوں کے ساتھ ایک عارضی مصلحت کی کوشش کی تھی,کے ولئ عہد بن گئے۔جب 818ء میں علی الرضا کا انتقال ہوا تو ان کے پیروکاروں میں سے اکثر نے امامت کو مزید چار اماموں تک آگے بڑھایا,جبکہ دوسروں نے مختلف علوی اماموں کی پیروی کی۔بہرحال امامیہ کا یہی ذیلی گروہ ہی تھاجو بعد میں اثناعشریہ یا بارہ اماموں کو ماننے والوں کے نام سے معروف ہوا۔یہ لقب ان تمام امامی شیعوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جنہوں نے بارہ اماموں کے ایک سلسلے کو تسلیم کیا جس کا آغاز علی ابن ابیطالب سے ہوتا ہے اور محمد بن الحسن پر ختم ہوتا ہے جن کی مہدی کی حیثیت سے ظہور کا 873ء میں ان کی غیبت کے وقت سے انتظار کیا جاتا ہے۔اثناعشری شیعت 1501ء سے ایران کا سرکاری مذہب رہا ہے۔

اس عرصے میں امام جعفر صادق ع کی ع وفات پر امامی شیعہ سے دو دوسری جماعتیں جدا ہوگئ جو حضرت امام جعفر صادق ع کے جانشین حضرت اسماعیل بن جعفر ع کی حمایت کرتی تھی جن پر اصلی نص ہوئی تھی۔کوفہ میں متمرکز ان جماعتوں کو قدیم ترین اسماعیلی کہا جاسکتا ہے جن کو بہت جلد تیزی کے ساتھ وسعت پانے والی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں منظم کیا گیا جو شیعت کی سیاسی طورپر سب سے سرگرم بازو کی نمائیندگی کرتے تھے۔نویں صدی کے وسط تک اسماعیلی دعوت یا کہ سیاسی و مذہبی مشن اسلامی دنیا کے بہت سے علاقوں میں ظاہر ہونے لگی تھی۔اس دعوت کے شیعی پیغام کی ,جو عباسیوں کے خلاف ایک مہم اور اسماعیلی امام کی حکومت کے ماتحت عدل و انصاف کے وعدے پر مبنی تھا,متعدد داعیوں یا مشنریوں کے ذریعے بڑی کامیابی کے ساتھ ایران,یمن,وسطی ایشیا اور دوسری جگہوں میں تبلیغ کی گئ,جس نے معاشرے کے مختلف طبقات کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

899ء تک اسماعیلی ائیمہ جنہوں نے اب تک مختلف مراکز سے مخفی طور پر اس تحریک کی قیادت کی تھی ان خفیہ مقامات سے ظاہر ہوگئے۔اسی زمانے کے قریب ہی اسماعیلی جماعت کے ایک گروہ نے جو بعد میں قرمطی کے نام سے معروف ہوا عقیدہ سے متعلق بعض مسائیل پر تحریک کی مرکزی قیادت سے اختلاف کیا اور جدا ہوگیا۔یہ قرمطی منحریفین جنہوں نے بہت جلد مشرقی عرب کے بحرین میں ایک اپنی طاقتور ریاست قائم کی وفادار اسماعیلی اور دوسرے مسلمانوں کے خلاف طویل تباہ کن سرگرمیوں میں مصروف رہے۔قرمطیوں کی تباہ کن سرگرمیاں 930ء میں مکہ پر ان کے حملوں کی صورت میں عروج کو پہنچیں جس سے ان مسلمانوں نے جو اسماعیلیوں کے دشمن تھے پوری اسماعیلی تحریک کو بدنام کرنے کے لئے غلط فائیدہ حاصل کیا۔

ابتدائی اسماعیلی دعوت کی کامیابی اس وقت اوج کمال کو پہنچی جب 909ء میں اسماعیلی ائیمہ کی براہ راست زیر قیادت شمالی افریقہ میں فاطمی خلافت قائم ہوئی جو اپنا سلسلہ حضرت علی اور رسول اللہ ص کی بیٹی حضرت فاطمہ ع تک لے جاتے تھے۔فاطمی خلفاء اور ائمہ نے بڑی کامیابی کے ساتھ عباسیوں کے حق کو چیلنج کیا تھا,اب عباسیوں اور ان کے علماء کے مناظرانہ حملوں کے براہ راست ہدف بن گئے جو عباسیوں کو جائز اور درست سمجھتے تھے۔بعد کے اوقات میں اسماعیلی خود بھی متعدد بڑی جماعتوں اور چھوٹے چھوٹے ذیلی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔اسماعیلیت کی نزاری شاخ کے قائیدین کے 1090ء میں ایران اور شام میں اپنے قلمروؤں کے حامل ایک خاص ریاست کی بنیاد کھی جس کا مرکز الموت کا پہاڈی قلعہ تھا۔اس وقت دنیا کے اسماعیلیوں کی بہت بڑی تعداد جس کا تعلق اکثریتی نزاری شاخ سے ہے اپنے انچاسویں ذندہ اور حاضر امام کی حیثیت سے ہز ہائنس پرنس کریم آغاخان کو تسلیم کرتی ہے۔

ازکتاب : قرون وسطی میں مسلم معاشروں کے اسماعیلی
مصنف : ڈاکٹر فرہاد دفتری
مترجم : ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب

بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر اسماعیلی مذہب حق پر ہوتی تو اسماعیلیوں کی تعداد اتنی قلیل کیوں ہے؟تو میرا اک شارٹ کٹ جواب ا...
09/16/2025

بعض دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر اسماعیلی مذہب حق پر ہوتی تو اسماعیلیوں کی تعداد اتنی قلیل کیوں ہے؟تو میرا اک شارٹ کٹ جواب ان کے لئے یہ ہے کہ اگر دیکھا جائے تو دنیا کی آبادی میں مذہبی اعتبار سے سب سے ذیادہ آبادی عیسائیوں کی ہے جو کہ دنیا کی کل آبادی کے تقریبأ 33 فیصد کے قریب ہے۔اور وہ حق پر ہوئے؟جاننا چاہیے کہ کسی بھی مذہب کی حقانیت کا اندازہ اس کی تعداد سے نہیں کیا جاسکتا بلکہ ان دلائیل و براہین کے ذریعے کیا جاتا جو اس مذہب کے ماننے والے اپنی مذہب کی حقانیت میں اپنے مخالفین کو پیش کرتے ہیں۔سو اسماعیلی بزرگان دین کی کتب عالیہ علم و حکمت کی لازوال خزائین ہیں اور دلائیل و براہین سے پر ہیں۔اب جو کوئی بھی شخص اس پاک مذہب کی حقیقت کو جاننے کا خواہی ہے تو اسکو چاہیے کہ اس مذہب برحق کی تعلیمات کی مکمل جانکاری حاصل کرے اور اس کے بعد خود فیصلہ کرے کہ آیا یہ مذہب برحق ہے یا نہیں؟واللہ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی بھی پاک دل انسان اگر تعصب سے بالاتر ہوکر اسماعیلی تعلیمات کا مطالعہ کرے گا تو یقینأ اس کی عقل و روح اس پاک مذہب کی حقیقتوں سے اس کو نوازے گا۔اسکے برعکس کوئی جنونی یا جاہل شخص اس دین اسلام کی حقیقی شاخ سے بغض و دشمنی دل میں رکھ کر اور تعصب کی نگاہ سے اک دو اسماعیلی کتب کا مطالعہ بھی کرے گا تو تواسکو کچھ فائدہ نہیں ہوگا اور وہ اپنی روایتی فتوی لگانے نکلے گا جو کہ چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔

۔۔ یہ ہم سب  بخوبی جانتےہیں۔کہ ہماری شیع اسماعیلی فرقہ کی عقیدہ امامت پر قائم ہے۔اور یہ سلسلہ امامت ایک روحانی و نورانی ...
09/14/2025

۔۔ یہ ہم سب بخوبی جانتےہیں۔کہ ہماری شیع اسماعیلی فرقہ کی عقیدہ امامت پر قائم ہے۔اور یہ سلسلہ امامت ایک روحانی و نورانی امامت ہیں۔۔
جیسا کہ ہماری اسماعیلی بنیادی عقیدہ میں جب روحانی امامت پوشيده سے ظاہر ہوتا ہے۔تو مولاعلی علیہ السلام سے شروع ہوتا ہے۔مگر اس سے پہلے جب امامت پوشیدہ تھا۔۔تو آدم سےلیکر محمدﷺ تک جس شجر نسب کا زکر محمدﷺ نے کیا ہے۔جو اکثر اسلامی کتابوں اور عُلامہ دین اہل ظاہر کی تقریروں اور کتابوں میں بھی آپ نے دیکھا اور سنا ہوگا۔وہی شجر نسب پیغمبر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں بنی کنانہ اور بعد میں بنی ھاشم کے بزرگوں کی سلسلہ سے ہوتا ہوا ابی طالب تک آیا ہے۔۔اور اُوپر جاکے اس ولایت کا سرا آدم علیہ السلام تک ملتا ہے۔۔جب یہ سلسلہ نورِ ولایت عبدالمطلب تک پہنچتا ہے۔تو ناطق اور اساس یا وصی کی صورت میں ظاہری طور پر تقسیم ہوتا ہے۔ (اس طرح پہلے بھی صاحب شریعت کے دور میں ہوتا رہا ہے۔پھر صاحب طریقت کے دور میں ایک ہی ہوتا ہے)۔پھر ایک سلسلہ عبدالمطلب کے بیٹے عبداللہ سے ہوتا ہوا محمدﷺ تک پہنچا ہے۔جو ناطق یعنی آخری پیغمبر تھا۔اور خدا کی طرف سے شریعت اور دین اسلام لےایا ہے۔تو دوسری جانب پیغمبرِ محمدﷺ کے "وصی "یعنی شریعت کی تاویلات کو بتانے والا اور جانشین کے شجرہ نسب عبدالمطلب کے بعد اس کے فرزند امام ابی طالب علیہ السلام سے مولاعلی علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔۔یہ دونوں یعنی محمد ﷺ اور مولاعلی علیہ السلام حقیقت میں ایک ہی روح القدسی میں یعنی نور میں سے تھے۔۔جیسا کہ احادیث میں بھی زکر اتا ہے۔کہ
حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا :

1⃣
مناقب سیدنا علی صفحہ نمبر ٢٧
ترجمہ میں اور علی علیہ السلام ایک نور سے ھیں۔

اسی طرح حضرت رسول خدا ﷺ نے مزید فرمایا:
2⃣< خُلِقتُ اٴنا وَ عَلِيٌّ مِنْ نُوْرٍ وَاحِد>
وھی مصدر ص ۳۴۔
مجھے اور علی علیہ السلام کو ایک نور سے خلق کیا گیا۔

3⃣شبلنجی کھتے ھیں کہ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تشریف لائے تو حضرت رسول خدا ﷺ نے فرمایا:

Address

Plano, TX

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ismaili Qasidas And Ginans posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share