09/17/2025
اثنا عشری اور اسماعیلی شیعہ
حضرت امام جعفر الصادق ع کی وفات پر امامی شیعہ کئ گروہوں میں بٹ گئے۔ایک بڑی تعداد نے آپ ع کے باحیات بڑے فرزند عبداللہ الفطح کو اپنے امام کے طور پر تسلیم کیا۔ان شیعوں نے جو فطیحہ کے نام سے معروف ہیں دسویں صدی تک اپنی نمایاں حیثیت برقرار رکھی۔تاہم جب اپنے والد کے فورأ بعد عبداللہ کا انتقال ہوا تو ان کے حامیوں کی اکثریت ان کے سوتیلے بھائی موسی الکاظم کے ساتھ جاملے جن کو پہلے ہی امامیہ کے ایک دھڑے نے اپنے والد کے جانشین کے طور پر تسلیم کیا تھا۔موسی نے,جو بعد میں اثناعشریوں کے امام ہفتم شمار ہوئے,تمام سیاسی سرگرمیوں سے اجتناب کیا جو ایک ایسی امامی روایت تھی جسے ان کے جانشینوں نے برقرار رکھا۔799ء میں موسی کی وفات پر ان کے حامیوں کی ایک جماعت نے ان کے بڑے فرزند علی بن موسی الرضا کی امامت کو تسلیم کیا جو بعد میں عباسی خلیفہ المامون ,جس نے علویوں کے ساتھ ایک عارضی مصلحت کی کوشش کی تھی,کے ولئ عہد بن گئے۔جب 818ء میں علی الرضا کا انتقال ہوا تو ان کے پیروکاروں میں سے اکثر نے امامت کو مزید چار اماموں تک آگے بڑھایا,جبکہ دوسروں نے مختلف علوی اماموں کی پیروی کی۔بہرحال امامیہ کا یہی ذیلی گروہ ہی تھاجو بعد میں اثناعشریہ یا بارہ اماموں کو ماننے والوں کے نام سے معروف ہوا۔یہ لقب ان تمام امامی شیعوں کی طرف اشارہ کرتا ہے جنہوں نے بارہ اماموں کے ایک سلسلے کو تسلیم کیا جس کا آغاز علی ابن ابیطالب سے ہوتا ہے اور محمد بن الحسن پر ختم ہوتا ہے جن کی مہدی کی حیثیت سے ظہور کا 873ء میں ان کی غیبت کے وقت سے انتظار کیا جاتا ہے۔اثناعشری شیعت 1501ء سے ایران کا سرکاری مذہب رہا ہے۔
اس عرصے میں امام جعفر صادق ع کی ع وفات پر امامی شیعہ سے دو دوسری جماعتیں جدا ہوگئ جو حضرت امام جعفر صادق ع کے جانشین حضرت اسماعیل بن جعفر ع کی حمایت کرتی تھی جن پر اصلی نص ہوئی تھی۔کوفہ میں متمرکز ان جماعتوں کو قدیم ترین اسماعیلی کہا جاسکتا ہے جن کو بہت جلد تیزی کے ساتھ وسعت پانے والی ایک انقلابی تحریک کی شکل میں منظم کیا گیا جو شیعت کی سیاسی طورپر سب سے سرگرم بازو کی نمائیندگی کرتے تھے۔نویں صدی کے وسط تک اسماعیلی دعوت یا کہ سیاسی و مذہبی مشن اسلامی دنیا کے بہت سے علاقوں میں ظاہر ہونے لگی تھی۔اس دعوت کے شیعی پیغام کی ,جو عباسیوں کے خلاف ایک مہم اور اسماعیلی امام کی حکومت کے ماتحت عدل و انصاف کے وعدے پر مبنی تھا,متعدد داعیوں یا مشنریوں کے ذریعے بڑی کامیابی کے ساتھ ایران,یمن,وسطی ایشیا اور دوسری جگہوں میں تبلیغ کی گئ,جس نے معاشرے کے مختلف طبقات کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
899ء تک اسماعیلی ائیمہ جنہوں نے اب تک مختلف مراکز سے مخفی طور پر اس تحریک کی قیادت کی تھی ان خفیہ مقامات سے ظاہر ہوگئے۔اسی زمانے کے قریب ہی اسماعیلی جماعت کے ایک گروہ نے جو بعد میں قرمطی کے نام سے معروف ہوا عقیدہ سے متعلق بعض مسائیل پر تحریک کی مرکزی قیادت سے اختلاف کیا اور جدا ہوگیا۔یہ قرمطی منحریفین جنہوں نے بہت جلد مشرقی عرب کے بحرین میں ایک اپنی طاقتور ریاست قائم کی وفادار اسماعیلی اور دوسرے مسلمانوں کے خلاف طویل تباہ کن سرگرمیوں میں مصروف رہے۔قرمطیوں کی تباہ کن سرگرمیاں 930ء میں مکہ پر ان کے حملوں کی صورت میں عروج کو پہنچیں جس سے ان مسلمانوں نے جو اسماعیلیوں کے دشمن تھے پوری اسماعیلی تحریک کو بدنام کرنے کے لئے غلط فائیدہ حاصل کیا۔
ابتدائی اسماعیلی دعوت کی کامیابی اس وقت اوج کمال کو پہنچی جب 909ء میں اسماعیلی ائیمہ کی براہ راست زیر قیادت شمالی افریقہ میں فاطمی خلافت قائم ہوئی جو اپنا سلسلہ حضرت علی اور رسول اللہ ص کی بیٹی حضرت فاطمہ ع تک لے جاتے تھے۔فاطمی خلفاء اور ائمہ نے بڑی کامیابی کے ساتھ عباسیوں کے حق کو چیلنج کیا تھا,اب عباسیوں اور ان کے علماء کے مناظرانہ حملوں کے براہ راست ہدف بن گئے جو عباسیوں کو جائز اور درست سمجھتے تھے۔بعد کے اوقات میں اسماعیلی خود بھی متعدد بڑی جماعتوں اور چھوٹے چھوٹے ذیلی گروہوں میں تقسیم ہوگئے۔اسماعیلیت کی نزاری شاخ کے قائیدین کے 1090ء میں ایران اور شام میں اپنے قلمروؤں کے حامل ایک خاص ریاست کی بنیاد کھی جس کا مرکز الموت کا پہاڈی قلعہ تھا۔اس وقت دنیا کے اسماعیلیوں کی بہت بڑی تعداد جس کا تعلق اکثریتی نزاری شاخ سے ہے اپنے انچاسویں ذندہ اور حاضر امام کی حیثیت سے ہز ہائنس پرنس کریم آغاخان کو تسلیم کرتی ہے۔
ازکتاب : قرون وسطی میں مسلم معاشروں کے اسماعیلی
مصنف : ڈاکٹر فرہاد دفتری
مترجم : ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب