S R Media ایس آر میڈیا

S R Media  ایس آر میڈیا news, article, poetry no

منہ چھپا رہا ہے ہر سمت کا اندھیرا خورشید تم نے کیسا اعلان کر دیا تقریبا 12 بجے واٹس ایپ کے مختلف گروپوں پر معروف شاعر او...
10/01/2025

منہ چھپا رہا ہے ہر سمت کا اندھیرا
خورشید تم نے کیسا اعلان کر دیا

تقریبا 12 بجے واٹس ایپ کے مختلف گروپوں پر معروف شاعر اور زبان و قلم کے عظیم شناور جناب ڈاکٹر قاسم خوشی صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ڈاکٹر قاسم خورشیدِشی صاحب دبستان عظیم اباد کے ایک عظیم علمی ادبی شخصیت کے مالک تھے بلکہ ملک اور بیرون ملک اردو شاعری اور زبان کے حوالے سے جانے اور پہچانے جاتے تھے مجھ جیسے چھوٹوں سے بھی محبت کرتے تھے گزشتہ دنوں پٹنہ میں ہوئے قومی کونسل کے سہ روزہ سیمینار میں وہ شریک رہے اور انہوں نے ایک نشست کی صدارت اور ایک مشاعرے کی نشست کی نظامت بھی کی ان کی نظامت سے پتہ چلا کہ وہ کس قدر کے زبان و بیان پر قادر ہہیں وہ برجستہ شاعری کے ساتھ ساتھ ہندی اور اردو کے باریکیوں سے بخوبی واقف تھے جوانی میں انہوں نے کئی اہم میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دے کر ایس سی ای ار ٹی سے سبک دوش ہو کر علمی اور ادبی خدمات میں مصروف تھے گزشتہ دنوں جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی کتاب "دِل کی کتاب,, اپنے قلم سے لکھ کر کے مجھے دی اور کہا اس پر تبصرہ بھی لکھنا مگر اج میں نے جب ان کے انتقال کی خبر سنی تو مجھے کافی افسوس ہوا ایک ایسا انسان چلتا پھرتا جن کے بارے میں ابھی ایساتصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا
قاسم خورشید صاحب نے اپنی شاعری میں
کہا ہے
منہ کو چھپا رہا ہے ہر سمت کا اندھیرا
خورشید تم نے یہ کیسا اعلان کر دیا

اس اعلان سے ہر طرف مایوسی کی کیفیت طاری ہو گئی چونکہ ذہن و دماغ کسی بھی حد تک اس خبر کو سننے کے لیے تیار نہیں تھا
خورشید صاحب نے کہا ہے :

بہت بے اماں خورشید دنیا میں تیری مولا
یہاں پھیلی ہوئی ہے حشر سامان کہاں جائے

قاسم خورشید صاحب اپنے شعر میں اس دنیا کے اندر جاری بد امنی سے مایوس نظر آ رہے ہیں اس لیے شاید انہوں نے اس شعر میں اظہار کیا ہے
قاسم خورشید صاحب کو شاید اس کا ادراک تھا کہ ان کے جانے کے بعد ہم جیسے طالب علم ضرور غم اور مایوسی میں ڈوب جائیں گے اسی لیے انہوں نے کہا:

ایک خورشید ہے زمانے میں
جس کے دم سےاجالا رہتا ہے

اب وہ خورشید ڈوب چکا ہے اور ہم سب اس کی اب نکلنے کی امید بھی نہیں رکھ سکتے

ایک خورشید ڈوب جانے پر
دل سے اٹھتا ہوا دھواں دیکھا,


لیکن خورشید صاحب جس طریقے سے زبان و بیان پر قادر تھے اور جس طریقے سے علمی اور ادبی گفتگو ہوتی تھی اس پر ان کا شعر نے دیکھیں ہے :

مجھ میں خورشید ہے سخن زندہ
چند ایک ہم زبان تو رہنے دو

ان کا یہ شعر بھی پڑھتے جائیں

کون سی دنیا سے ائے اور کہاں اب جاؤ گے
اس طرح بھی بے سر و سامانیوں میں کون ہے

کیوں پشیماں ہو رہے ہیں میری بربادی پہ آپ
جانتے ہیں آپ بھی اسانیوں میں کون ہے ۔

آ ج تو خورشید بھی حیرت زدہ ہے سوچ کر
اس قدر شدت بھری تہ داریوں میں کون ہے ۔

اور غزل کا یہ شعر بھی پڑھیے
سفر اکیلا نہیں ہے تمہاری منزل کا
میرا خیال تیری راہ گزر میں رہتا ہے
کہاں چھپاؤ گے روشن جمال چہرے کو
نظر نواز نظارہ نظر میں رہتا ہے
بچھڑکےاس سےتوبرسوں گزر گئےخورشید
ہمارے ساتھ جو پھر بھی سفر میں رہتا ہے

اور چند اشعار مزید دیکھیے :

یہ زندہ رہی ہے رہے گی صدا
یہ اردو زبان ہے سیاست نہ کر
مجھے ڈوبنے کی ہدایت بھی ہے
میں خورشید ہوں میری چاہت نہ کر

اور دیکھیے:

وہ خاموش خورشید کیوں ہو گیا ہے
مقدر سزا کی امید کرتا ہے ۔

اور حمدیہ شاعری میں انہوں نے کہا ہے ۔

ایک چہرہ نورانی دینا
مولا انکھ میں پانی دینا
ایک مسیحا بن جاؤں میں
مجھ کو بھی سلطانی دینا
اپنی یاد میں شامل رکھنا
ہر لہجہ رحمانی دینا

نعت رسول میں انہوں نے کہا ہے ،
منور مدینہ امم دیکھنا
رسول خدااور عجم دیکھنا
کہاں دشت میں کوئی رم دیکھنا
ابھی تو ہے سوئے حرم دیکھنا
یہ خورشید کا ہے قلم دیکھنا
کسی روز ابھریں گے ہم دیکھنا

اور موت پر انہوں نے کہا

تنہا خورشید کو مرنا بھی گوارا ہے مگر
بس تیرے ساتھ ستم گر نہیں دیکھا جاتا

سعد احمد قاسمی
Quasim Khursheed
Lalu Prasad Yadav
Tanweer Hassan

قاسم خورشید نہیں رہے: اشرف فرید
10/01/2025

قاسم خورشید نہیں رہے: اشرف فرید

قاسم خورشید ایسے بھی کوئی جاتا ہے کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مشتاق احمد نوری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زندگی یوں بھی ...
10/01/2025

قاسم خورشید ایسے بھی کوئی جاتا ہے کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مشتاق احمد نوری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی

کیوں تیرا راہ گزر یاد آیا

دس بجے کے قریب شبانہ عشرت کا فون آیا۔کچھ معلوم ہوا آپ کو ؟ کیا ہوا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ قاسم خورشید نہیں رہے۔میں نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا پگلا گئی ہو کیا۔اول فول بکنے لگی۔اس نے بتایا کہ فیس بک پر خبر ہے میرے پوچھنے پر اس نے کہا کہ انوار الہدیٰ کا نام بتایا۔مین نے انوار کو فون لگایا کہ کہاں کہاں کی خبر لگا دیتے ہو۔اس نے بتایا کہ بھائی یہ سچ ہے۔میں گم پھر بھی نہیں مانا اس کے گھر فون کیا تو جواب ندارد۔پھر فون کیا اب کی بار ایک مغموم سی آواز نے تصدیق کردی۔میں چپ ہوگیا اور یہ سوچتا رہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے لیکن یہ تو ہوچکا تھا۔
میں چپ چاپ پڑا رہا سوچا چلو چل کر دیدار یار کر لوں لیکن ہمت نہ ہو سکی میں خود کو تیار نہ کرسکا۔
میں سہہ پہر نوگھروا گیا ۔جس ڈرائنگ روم میں اس سے ملاقات ہوتی تھی وہاں وہ گہری نیند سو رہا تھا۔جی میں آیا آواز دوں آٹھ پیارے لیکن چپ رہا کہ ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے۔کھڑا دیکھتا رہا سوچا ایک تصویر لے لوں لیکن ہمت نہ ہوئی۔چپ رہا کس سے باتیں کرتا۔ٹکر ٹکر ٹھنڈے تابوت کو دیکھتا رہا۔اچانک محسوس ہوا کہ گلا رندھ رہا ہے۔اٹھا اور چل دیا کسی نے روکا بھی نہیں کہ روکنے والا تو سو رہا تھا۔
گھر آکر چپ چاپ پڑ رہا بیگم نے وجہ پوچھی جواب نہ پاکر سمجھ گئی چائے پی کر سوگیا
کھانے پر لوگوں نے اٹھایا کھایا پھر چپ ہورہا۔پھر موبائل کھولا تو صفدر کی تحریر نے چونکا دیا۔بہت سی باتوں کا میں گواہ رہا ہوں۔
سوچ رہا ہوں ایسے بھی کوئی جاتا ہے کیا ؟ پہلے سے کوئی اطلاع نہیں نہ ہی چیتاونی یہ کیا تک ہے بھائی چادر اٹھائی تان کر سوگئے۔کل تک ساہتیہ اکادمی کے پروگرام میں اچھل کود کر رہا تھا۔سب سے ملنا ڈرامائی آواز سے سحر میں مبتلا کرنا دو بار تو مجھ سے بھی مٹ بھیڑ ہوئی وہی والہانہ پن۔مجھے کیا پتہ تھا کہ اچانک بہت لمبے سفر پر نکل جائےگا۔
قاسم خورشید سے پہلی ملاقات کب ہوئی تھی مجھے یاد نہیں اس زمانے میں ،میں پٹنہ سے باہر ہوا کرتا تھا جب بھی پٹنہ آتا کہیں نہ کہیں اس سے ملاقات ہو جاتی ایک بار نوگھروا میں اس نے میری لئے ایک محفل سجائی مجھ سے کہانی سنی گئی داد سے نوازا گیا لیکن اب
نوگھروا کون بلائےگا۔
میں جب 2015 میں بہار اردو اکادمی کا سکریٹری بنا تو ملاقات تواتر سے ہوتی رہی۔جب بھی کوئی بیرونی مہمان اکادمی آتے تو میں فوری طور پر قاسم خورشید،خورشید اکبر،عالم خورشید ،صفدر امام قادری اور کچھ اور احباب کو بلالیا کرتا ایک محفل جم جاتی۔کتنی کتاب ریلیز ہوئی کتنوں کی چادر پوشی ہوئی کتنوں کے اعزاز میں محفل سج گئی۔بس اتنے احباب پوری محفل سجا دیتے اور اکادمی کی لاج رہ جاتی۔
قاسم خورشید ڈاکٹر عبد الغفار کے کلاس فیلو تھے ان کے یہاں بھی کئی بار اکادمی کے مسائل پر گفتگو ہوئی۔وہ جب آتا محفل جوان ہو جاتی۔اس کے دل میں اتنی محبت اور انداز میں اتنا والہانہ پن ہوتا کہ سامنے والا حیرت زدہ رہ جاتا۔
دور درشن پر آئینہ پروگرام میں شرکت کے لئے وہی دعوت دیتا،موضوع طے کرتا اور نظامت بھی اسی کے ذمے ہوتی۔سرکاری طور پر جتنے مشاعرے ہوتے وہ ایک مسٹ کے طور پر شامل ہوتا اور دیگر شعرا کے انتخاب میں اس کا دخل ضرور ہوتا۔اس سے مل کر کبھی یہ علم ہی نہ ہوسکا کہ اس کے دل میں کسی سے ناراضگی ہے۔بڑی بڑی باتوں کو ایک بلند قہقہے میں اڑا دینا اس کی فطرت تھی۔وہ جس محفل میں رہا بہت دیر تک چپ نہیں رہتا۔جب بولتا تو چپ نہیں ہوتا اس کے پاس واقعات کا خزانہ ہوتا کبھی کسی کی نقل بھی ڈرامائی انداز میں اتارتا اور لوگ قہقہے لگاتے۔دوستوں کے کام آتا ایک بار میری بیگم کو اپنے پی ایچ ڈی کا انٹرویو دینے دربھنگہ جانا تھا میں نے فون کیا کہ اپنی کار بھیج دو۔وقت پر کار آگئی۔
میرے یہاں برابر ادبی محفل جمتی اور مشاعرے ہوتے اس کی موجودگی ضرور ہوتی۔اکثر وہ محفل کی جان ہو جاتا سارے لوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے۔اگر قبل سے ناراض بھی ہوتے تو اس کا والہانہ پن بہت دنوں تک ناراض نہیں رہنے دیتا۔
اس کی زندگی میں بہت سے غم آئے لیکن اس نے ظاہر ہونے نہیں تھا۔لاولد ہونے کا غم مستقل تھا لیکن چہرے سے یاسیت کا اظہار کبھی نہیں ہونے دیا۔اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا وہ کہیں اور بھی جاسکتا ہے
گزشتہ دنوں این سی پی یو ایل میں بچوں کے ادب پر ایک ورک شاپ ہوا مجھے بھی جانا تھا۔میں نے شمس اقبال سے کہا کہ میں بیمار رہتا ہوں اس لئے تنہا کمرے میں نہیں رہ سکتا اس نے مجھے قاسم خورشید کے ساتھ ایک کمرے میں رکھا۔جب تک رہا وہ میری ایک ایک ضرورت کا خیال رکھتا۔کھانا کھانے سے لیکر کونسل جانے اور آنے میں وہ ہمیشہ ساتھ رہا اور مجھے کبھی کسی کمی کا احساس نہ ہونے دیا۔
رات کے ایک بج رہے ہیں اور میں یہ تحریر لکھ کر دل کا بوجھ ہلکا کررہا تاکہ سکون حاصل ہو۔
ہرشخص کو اس سرائے فانی سے جانا ہے۔جانے کا اندیشہ لگا رہتا ہے ۔مجھے 2011 میں دل کا شدید دورا پڑا۔چالیس گھنٹے بعد میڈیکل ہلپ ملا اب تک تین دورے جھیل چکا ہوں۔اسے تو دل کا عارضہ بھی نہ تھا۔بیمار ہونے کی اطلاع بھی نہ ملی اچانک اس طرح چلانا اب تک ہضم نہیں ہورہا۔میں ہی کیا کوئی بھی یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ایسا بھی سکتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ یہ ہوچکا۔تابوت میں اس کی لاش کو میں بہت دیر تک دیکھتا رہا کہ شاید کوئی اور ہو لیکن وہی پر سکون چہرہ ۔لگنے لگا کہ اب بول دےگا کہ ارے نوری بھائی کھڑے کیوں ہیں بیٹھ جائے نا لیکن وہ بندہ ایسی نیند میں تھا اب حشر میں ہی ملاقات ہوگی۔
جانے والا چلا جاتا ہے لیکن اپنی یادوں کی کہکشاں چھوڑ جاتا ہے۔
قاسم خورشید تم بہت یاد آؤگے۔اللہ اپنی مغفرت سے نوازے تم سے راضی ہو اور اپنی رحمتوں سے شرابور کردے ۔

رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموشپھر کہاں روشنی رہے گی یہاںہم جو خورشیدؔ خواب ہوجائیںصفدر امام قادریکالج آف کامرس، آرٹس این...
10/01/2025

رونقِ بزم قاسم خورشید: خاموش

پھر کہاں روشنی رہے گی یہاں
ہم جو خورشیدؔ خواب ہوجائیں

صفدر امام قادری

کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

۶۸؍برس کی عمر ، رنگ برنگے لباس میں دوڑتا بھاگتا آدمی، ایک مجلس سے دوسری اور وہاں سے پھر کسی تیسری بزم کا مہمان، اردو والوں کی محفل ہو یا ہندی اور دوسری زبانوں کے افراد کا کوئی مجمع ہو، سیاست دانوں کا حلقہ ہو یا مذہبی رہنمایان کی کوئی تقریب ہو؛ یہ شخص ہر جگہ موجود ہوتا اور پورے طور پر نمایاں۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے چالیس پینتالیس برس پرانا رشتہ تھا، سو ایک خاص بلند آہنگی اور تصنع کے قریب پہنچی ہوئی پاٹ دار آواز جسے بعد کے دور میں مشاعروں کے اسٹیج پر ڈرامائیت کے اضافے کے ساتھ انھوںنے استحکام بخشا ۔ ۱۹۸۰ء سے پہلے ڈراموں کی دنیا میں داخل ہوئے، افسانے لکھنے لگے۔ اردو اور ہندی دونوں محفلوں میں شامل اسی دور میں ہو گئے تھے۔ ہندی محفلوں کی حد تک شعر گوئی کا باضابطہ عمل تھا جو بعد میں ایک بڑے حلقے تک انھیں پہنچانے میں معاون رہا۔ شاعری اور شعری محفلوں سے ان کی افسانہ نگاری بھی پیچھے چھوٹ گئی مگر شہرت ان کے قدموں کے آگے آگے چل رہی تھی۔ مقامی سے لے کر بین الاقوامی محفلوں تک عظیم آباد میں آپ کوئی بھی فہرست سازی کیجیے، ان کی جگہ پکی ہوتی تھی۔ مشاعرہ ہو، سے می نار ہو، اجرا تقریب ہو، اردو کا جلسہ ہو یا ہندی کا؛ وہ بہ امتیاز ہر جگہ بلائے جاتے۔ پچیس سے اٹھائیس ستمبر ۲۰۲۵ء کو ساہتیہ اکادمی کے عالمی جشن میں ہر دن دوڑتے بھاگتے ملتے ملاتے اور تصویریں کھنچاتے نظر آئے۔ خدا کے علاوہ کسے معلوم تھا کہ زندگی نے صرف چوبیس گھنٹے کی مہلت ان کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ منگل کی صبح ساڑھے آٹھ کے بعد ہماری محفلوں کے روح و رواں قاسم خورشید ہمیشہ کے لیے ہم سے دور ہو چکے تھے۔
۲؍جولائی ۱۹۵۷ء کو موجودہ جہان آباد کے مردم خیز علاقے کاکو میں پیدا ہوئے۔ والد کا سایہ بہت پہلے سر سے اُٹھ گیا۔ والدہ اور ماموں جاوید صاحب نے تعلیم و تربیت کا بوجھ اپنے کاندھے پر اٹھایا۔ شعبۂ اردو ، پٹنہ یونی ورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد پریم چند کے مشہور ناول ’’گئودان‘‘ کے ادبی احتساب پر تحقیق مکمل کی۔ آل انڈیا ریڈیو، پٹنہ میں عارضی انائونسر، محکمۂ راج بھاشا میں معاون مترجم، بہار ایجوکیشنل ٹیلی ویژن میں اسکرپٹ رائٹر، ڈپٹی پروڈکشن انچارج اور ایس سی ای آر ٹی ، بہار میں لینگویجز شعبوں کے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بچوں کے لیے بڑی تعداد میںٹیلی فلمیں بنائیں ۔ ۱۹۸۴ء میں محترمہ شاہدہ وارثی سے ان کی شادی ہوئی، قدرت نے سعادتِ اولاد سے انھیں محروم رکھا۔غالب کی طرح انھوںنے ایک بچی گود بھی لی تو اس نے بھی بے وقت کی جدائی دے کر مزید زخم دے دیا۔یہ غم اب ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا۔ انھوںنے سلطان گنج واقع نوگھروا محلے میں اپنی آخری سانسیں لیں۔
قاسم خورشید واقعی باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ یہ محاورہ بہتوں کے لیے رسمی طور پر پیش کیا جاتا ہوگا مگر قاسم خورشید حقیقی معنوں میں باغ و بہار شخصیت رکھتے تھے۔ آپ جتنی دیر ساتھ رہیں، بات بات میں ٹھہاکے لگانے کا انداز، محفل میں دوسروں کی پژمردگی کو ہمیشہ زائل کر دیتا تھا۔ اکثر و بیش تر ادبا و شعرا اپنے علم، ادبی مقام اور فضیلت کا بوجھ لیے محفلوں میں موجود ہوتے ہیں۔ قاسم خورشید ایسی محفلوں میں تنہا شخص تھے جو ایک منٹ میں اس لبادے کو اٹھاکر پھینک دیتے اور عام انسانی سطح پر نہ صرف یہ کہ خود چلے آتے بلکہ ایک سے ایک جغادری حضرات کو بھی اسی ہنسی اور ٹھٹھول میں شریک کر لیتے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ قاسم خورشید کے ساتھ رہیے تو مہینوں کا اضمحلال اور گردوغبار سب فنا ہوجاتا ہے۔ ان کی مقبولیت اور ہر حلقے میں پسندیدگی کی یہ ایک خاص بات تھی۔
قاسم خورشید کا پہلا میدان ڈراموں کا تھا، ہدایت کاری سے لے کر اداکاری تک۔ڈرامے تو انھوںنے چھوڑ دیے مگر ہر غیر رسمی محفل میں ان کی اس صفت کے تراشے ہمیں ملتے رہتے تھے۔ جب اردو کے نقاد اور اساتذہ نجی محفلوں میں موجود ہوں، آپ قاسم خورشید سے پٹنہ یونی ورسٹی میں پڑھنے کے زمانے کے واقعات اور خاص طور سے اپنے اساتذہ کے اندازِ تدریس کا تذکرہ چھیڑ دیجیے، اب ایک گھنٹہ سے کم وقت میں کسی کا کام نہیں چلے گا۔ پروفیسر محمد مطیع الرحمان کے عروض پڑھانے کا واقعہ ہو اور قاسم خورشید کے ساتھ عین تابش کی مشترکہ چُہل بازی۔ اسی طرح حمیرا خاتون دیوانِ غالب کے پہلے شعر کی تشریح کس انداز میں کرتیں، اس کا محاکاتی بیان ان سے سنتے جائیے۔ کلیم عاجز کی نرم گفتاری میں تدریس کا لطف اور قاسم خورشید کی ہو بہ ہو نقشہ کھینچنے کی صلاحیت۔ تیس چالیس برس پرانا شعبۂ اردو آپ کی آنکھوں کے سامنے اپنی توانائی، اپنی رنگینی اور بوقلمونی کے ساتھ آپ کے سامنے آجائے گا۔ یہ پُرمزاح پیش کش صرف اپنے اساتذہ کے لیے مخصوص نہیں تھی۔ عظیم آباد کے بزرگ ادیبوں اور بہت سارے معاصرین کے لیے بھی نجی محفلوں میں قاسم خورشید کے پُرمذاق انداز کو ہم سب نے ملاحظہ کیا ہے ۔ کیف عظیم آبادی، شفیع جاوید، وہاب اشرفی، رمز عظیم آبادی، ستیش راج پشکرنا، پروفیسرممتاز احمد؛کس کس مرحوم کو یاد کیا جائے! کمال یہ کہ کسی سے کوئی پرخاش نہیں۔ نہ کینہ پالا اور نہ ہی حسد کا جذبہ رکھا۔ یہ مزاح اور مذاق اسی محفل میں دفن کرکے وہ کارزارِ حیات پہ آگے بڑھے۔
ایک مصنف کی حیثیت سے قاسم خورشید کی پہلی پہچان صنف افسانہ کے حوالے سے ہوئی۔ پہلا افسانہ ۱۹۷۷ء میں رسالہ ’زبان و ادب‘ میں ’روک دو‘ عنوان سے شائع ہوا۔ پوسٹر، کینوس پر چہرے اور ریت پر ٹھہری ہوئی شام؛ ان کے تین افسانوی مجموعے ہیں۔ ڈرامے کا ایک مجموعہ ’تماشہ‘، تنقیدی مضمون کا مجموعہ’متن اور مکالمہ‘ اور مقالۂ تحقیقی ’ادبی منظرنامے پر گئودان‘ ان کی دیگر مطبوعات ہیں۔ ’دل کی کتاب‘ عنوان سے انھوںنے اردو میں اپنا شعری مجموعہ بھی شائع کیا۔ بچوں سے متعلق کہانیوں کے مختصر مجموعے بھی شائع ہوئے۔ ان کے علاوہ ’تھکن بولتی ہے‘ اور ’دل تو ہے بنجارہ‘ ہندی شعری مجموعے شائع ہوئے۔ ہندی میں چار افسانوی مجموعے تھار پر زندگی ، کوئی ہاتھ، گُنجا کی نیتی اور کشن پور کی مسجد منظر عام پر آئے۔ منتخب افسانوں کے انگریزی تراجم "waves" کے عنوان سے سید افروز اشرفی نے کیے جو اَب سے کوئی دو دہائی قبل مجموعے کی شکل میں سامنے آئے۔ ان کے علاوہ کیف عظیم آبادی کے کلام کو دیوناگری میں ’سنولائی دھوپ‘ کے نام سے اور رضا نقوی واہی ، مرزا کھونچ اور کریک بتیاوی کے ظریفانہ کلام کا انتخاب ہندی میں ’ٹوٹے ہوئے چہرے‘ کے نام سے کیا۔ غالباً ۱۹۸۲ء میں ’لکیریں‘ کے نام سے ایک سائیکلوسٹائل رسالہ نکالا جس کا ایک ہی شمارہ منظر عام پر آسکا۔ اس طرح ایک بھری پری اور زرخیز ادبی زندگی گزری جو کم و بیش نصف صدی کو محیط ہے۔ مختلف صنفوں میں خدمات انجام دینے والے کی پہچان کا ایک مسئلہ بہرطور قائم رہتا ہے کہ اسے بنیادی طور پر کس شعبے سے جوڑ کر دیکھا جائے؟ اردو کے پرانے قارئین انھیں افسانہ نگار سمجھتے ہیں اور پوسٹر، کیل،سائمن بوسکی جیسے افسانوں کی وجہ سے یاد رکھنا چاہتے ہیں مگر گذشتہ دو دہائیوں کے درمیان جب وہ ہندی کوی سمیلنوں بالخصوص سرکاری جلسوں میں اپنی لازمی موجودگی اور شعر خوانی سے محظوظ کرنے لگے، اس دور کے لکھنے والوں کے لیے وہ ایک شاعر اور پرفارمر کی حیثیت سے قبول کیے جانے لگے۔ قدرت نے چاہے نصف اول ہو یا نصف آخر، انھیں بہرطور مقبولیت دی اور اپنی شخصیت کے وقار اور اثر سے وہ قبول عام کے درجے پر ہمیشہ فائز رہے۔
قاسم خورشید رواں طبیعت کے مالک تھے۔ ایک دور میں مشاعروں اور دوسرے جلسوں کی نظامت نے بھی انھیں پہچان عطا کی تھی۔ بڑے مشاعروں کی نظامت اب بھی وہ کرتے رہے۔ ایک پروقار آواز کا جادو تو تھا ہی مگر بیان کی روانی اور حسبِ ضرورت شگفتگی اسے استحکام عطا کرتے تھے۔ بولتے ہوئے نہ لفظوں کی تلاش انھیں کرنی ہوتی تھی اور نہ ہی جملے تیار کرنے ہوتے تھے ۔ وہ اپنے آپ ڈھلتے جاتے اور قاسم خورشید کی زبان سے نکل کر سکہ رائج الوقت ہوجاتے۔ اس روانیِ طبیعت اور آواز کے زیر و بم سے انھوںنے کتنی محفلوں کی مردہ سماعتوں کو تازہ دم کیا، ادبا و شعرا کی چپقلشوں کو اپنے قدموں سے روند نے میں کامیابی پائی اور ادبا و شعرا کی مجموعی تعظیم پہ ایک حرف نہیں آنے دیا۔ اس ہنر نے انھیں عظیم آباد کی محفلوں میں اپنے سے بہتر لکھنے والوں کے مقابلے میں انھیں زیادہ عزت دلائی۔
قاسم خورشید کی شخصیت میں ایک عجیب و غریب مقناطیسیت تھی۔اس لیے ان کے گرویدہ وہ بھی ہیں جو انھیں دل سے پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر وقت سارے تعصبات اور تمام کمالات کا بوجھ اپنے دوستوں یا ادبا و شعرا کی محفلوں پر لادتے نہیں تھے۔ جن کے ساتھ نباہ مشکل ہے، کسی فضیحت سے پہلے خود ہی الگ ہوگئے، کوشش کی کہ آمنے سامنے مبارزت کی صورت نہ پیدا ہو اور پرانا دوست دشمن نہ ہوجائے۔ اس حکمت اور بیان کی شگفتگی نے عام طور پر قاسم خورشید کے ارد گرد ایک خوش گوار ماحول قائم رکھاجسے وہ اپنی خوش گپیوں اور ٹھہاکوں سے تروتازہ رکھتے تھے۔ اب یہ مقناطیسیت ، یہ خوش گفتاری اور ٹھہاکوں کا شور ہماری محفلوں سے ہمیشہ کے لیے غیاب میں چلا گیا۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا۔ (جاری۔۔۔)
[مضمون نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈسائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں۔]

.........اور خورشید غروب ہو گیاقاسم خورشید صاحب کے گھر سے ابھی فوراً لوٹا ہوں. ایک مدت بعد ان کے یہاں جانا ہوا. وہ کب سے...
10/01/2025

.........اور خورشید غروب ہو گیا

قاسم خورشید صاحب کے گھر سے ابھی فوراً لوٹا ہوں. ایک مدت بعد ان کے یہاں جانا ہوا. وہ کب سے بلا رہے تھے. شاید میرے نہیں آنے کی ناراضگی ہو. انھوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی.... لیکن وہاں تو اور بھی لوگ تھے. کیا وہ سب سے ناراض تھے.....؟ میں نے انھیں کبھی ناراض نہیں دیکھا اور کسی نے شاید ہی انھیں کبھی ناراض دیکھا ہو. وہ ہمیشہ مسکراتے بلکہ قہقہہ لگاتے ملتے تھے. وہ، ان کی اہلیہ (محترمہ شاہدہ وارثی) اور میری والدہ (سلمی بلخی) ہم جماعت تھے. والد گرامی (ڈاکٹر ریحان غنی) سے ان کے اچھے مراسم تھے. اس رشتہ سے اکثر وہ مجھے بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے تھے. ہندی اور اردو دونوں محفلوں میں یکساں مقبولیت رکھتے تھے. اردو اور ہندی کے ادبی حلقے میں ان کا اچھا اثر و رسوخ بھی تھا. انھوں نے مجھے چھوٹے بڑے کئی مشاعروں میں مدعو کیا بلکہ سچی بات تو یہی ہے کہ مشاعروں کی دنیا میں مجھے سب سے پہلے انھوں نے ہی متعارف کروایا. برا ہو اس ادبی گروہ بندیوں کا کہ میں نے رفتہ رفتہ اپنی ادبی سرگرمیوں کو محدود کر لیا. قاسم خورشید صاحب سے بھی تھوڑی دوری ہو گئی لیکن اس کے بعد بھی ان سے جب جب ملاقات ہوئی وہ اسی والہانہ انداز میں ملے، گلے سے لگایا، فرداً فرداً سب کی خیریت پوچھی اور ہر بار گھر آنے کی دعوت دی.
قاسم خورشید صاحب "اردو نیٹ جاپان" کے بڑے مداح تھے. اردو نیٹ جاپان میں ان کی کوئی تخلیق شائع ہوتی تو اسے اپنی فیس بک ٹائم لائن پر بہت اہتمام سے پوسٹ کرتے. کوئی چیز شائع ہونے سے چھوٹ جاتی تو یاددہانی کرواتے. "دربھنگہ ٹائمز" کا ذکر بھی وہ بہت فخریہ انداز میں کرتے تھے. ان کی کئی چیزیں" دربھنگہ ٹائمز" میں شائع ہوئیں.
وہ انتہائی مثبت فکر کے حامل تھے. گزشتہ سال شعبہ فارسی پٹنہ یونیورسٹی کے ریفرشر کورس کے ایک سیشن میں وہ بحیثیت ریسورس پرسن شریک ہوئے. کسی نے کالج اور یونیورسٹی میں طالب علموں کی اردو سے دوری کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیا. قاسم خورشید صاحب نے کہا کہ آپ سب استاد ہیں. آپ کو اسی کام کے لیے بھیجا گیا ہے. آپ طالب علموں سے گلہ شکوہ کرنے نہیں گئے ہیں. ان کے مسائل حل کرنے گئے ہیں. ان کی حوصلہ افزائی کیجیے، حوصلہ شکنی نہیں.
قاسم خورشید صاحب کے تعلق سے بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، لوگ لکھیں گے بھی لیکن اس وقت ان کے اچانک چلے جانے سے ادبی حلقہ سکتے میں ہے. زندگی کی بے ثباتی ہماری بے بسی پر ویسا ہی قہقہہ لگا رہی ہے جیسا قہقہہ قاسم خورشید صاحب لگایا کرتے تھے. قاسم خورشید صاحب ایک فن کار تھے. فن کا کمال یہی ہے کہ وہ ہمیں چونکا دے. فن کار کی کامیاب تخلیق ہمیں اختتام پر ہی چونکاتی ہے. قاسم صاحب بھی کسی کی تخلیق تھے. تخلیق کار نے ہمیں ایسا چونکایا ہے کہ اس کہانی کا اثر بہت دیر تک ہمارے دل و دماغ پر قائم رہے گا اور ہم اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گے کہ خورشید وقت سے پہلے بھی غروب ہو سکتا ہے................
کامران غنی صبا
پٹنہ 30 ستمبر 2025

آہ : ڈاکٹر قاسم خورشید نہیں رہے ۔ اردو داں طبقے کے لیے نہایت ہی افسوسناک خبر ۔ اردو ادب میں آپ کی قربانیوں کو بھلایا نہی...
09/30/2025

آہ : ڈاکٹر قاسم خورشید نہیں رہے ۔ اردو داں طبقے کے لیے نہایت ہی افسوسناک خبر ۔ اردو ادب میں آپ کی قربانیوں کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ آپ کے ناگہانی موت نے سبھوں کو جھنجھوڑ دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کے گزر جانے کا یقین ہی نہیں ہو رہا ۔
٢٣ اگست کو باپو ٹاور میں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے سہ روزہ پروگرام میں آپ سے ملاقات ہوئ تھی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب خدابخش لائیبریری نے میرا تعارف کرایا اور ایس آر میڈیا کی کارکردگی کے تعلق سے آپ کو بتایا تو آپ کافی خوش ہوۓ۔ اللہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین
قمر اعظم صدیقی
بانی و ایڈمن
ایس آر میڈیا

ہندی سمیت ہندوستان کی تمام زبانیں ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی پہچان ہیں : ڈاکٹر شمس اقبالقومی کونسل برائے فروغ اردو زب...
09/30/2025

ہندی سمیت ہندوستان کی تمام زبانیں ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی پہچان ہیں : ڈاکٹر شمس اقبال
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان میں ہندی پکھواڑا کے تحت مسابقہ مضمون نگاری

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے صدر دفتر میں ’ہندی پکھواڑا‘ کی مناسبت سے 23 ستمبر 2025 کو ہندی زبان میں مسابقہ مضمون نگاری کا انعقاد کیا گیا، جس میں کونسل کے مختلف شعبوں سے 12 ملازمین نے حصہ لیا۔ آج اس مقابلے کے نتائج کا اعلان کیا گیا، جس میں پہلی، دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والوں کے علاوہ دو شرکا کو تشجیعی انعامات سے بھی نوازا گیا۔ تشجیعی انعام کی شکل میں فیضان الحق اور منیت کمار کو پانچ سو روپے نقد اور توصیفی اسناد دی گئیں، جبکہ پرتیک نے پہلی، شمیم عالم نے دوسری اور دشینت پنڈت نے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ تینوں کو بالترتیب تین ہزار، دو ہزار اور ایک ہزار روپے کے ساتھ توصیفی اسناد سے بھی نوازا گیا۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ زبانیں صرف اظہار کا ذریعہ نہیں ہوتیں بلکہ دلوں کو جوڑنے اور رشتوں کو مضبوط کرنے کا اہم فریضہ بھی انجام دیتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہندی سمیت ہندوستان کی تمام زبانیں ہماری مشترکہ تہذیب و ثقافت کی پہچان ہیں اور ان سب کا تحفظ اور فروغ ہماری ذمے داری ہے ۔
اس موقعے پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ہندی کے پروفیسر رحمن مصور نے ہندی زبان کی قانونی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دستور نے 1949 میں ہندی کو راج بھاشا کے طور پر اپنایا تھا۔ انھوں نے راج بھاشا اور راشٹر بھاشا کے فرق پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندی کو مشکل زبان سمجھنا محض غلط فہمی ہے، اسے سیکھنا اور بولنا نہایت آسان ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ زبانوں کو زندہ رکھنا ضروری ہے کیونکہ ان کے ذریعے ہم اپنی ثقافت و روایت سے جڑتے ہیں۔
تقریب میں ہندی مترجم نوشاد احمد نے مہمانوں کا استقبال کیا اور ڈاکٹر شمع کوثر یزدانی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر، اکیڈمک) کے اظہار تشکر کے ساتھ تقریب کا اختتام عمل میں آیا ۔ اس موقعے پر قومی اردو کونسل کی گورننگ کونسل کے رکن جناب محمد عبدالستار، ڈاکٹر سید ظفر اسلم، ڈاکٹر منور حسن کمال، ڈاکٹر نسیم احمد نسیم اور کونسل کا تمام عملہ موجود رہا۔
(رابطہ عامہ سیل)

ڈاکٹر قاسم خورشید کی رحلت میرا ذاتی سانحہ ہے : ڈاکٹر شمس اقبال نئی دہلی : اردو کے مشہور شاعر، ادیب و فکشن نگار ڈاکٹر قاس...
09/30/2025

ڈاکٹر قاسم خورشید کی رحلت میرا ذاتی سانحہ ہے : ڈاکٹر شمس اقبال

نئی دہلی : اردو کے مشہور شاعر، ادیب و فکشن نگار ڈاکٹر قاسم خورشید کی غیر متوقع رحلت پر قومی اردو کونسل کے صدر دفتر میں تعزیتی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے قومی اردو کونسل کے ڈائرکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ قاسم خورشید صاحب کی رحلت میرا ذاتی سانحہ ہے، کیوں کہ میرے ان سے نہایت گہرے اور خالص دوستانہ روابط تھے ۔ انھوں نے کہا کہ تقریباً روزانہ میری ان سے بات ہوتی تھی اور وہ ذاتی امور کے علاوہ مختلف ادبی موضوعات پر بڑی دلچسپی سے تبادلۂ خیالات کرتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ قاسم خورشید ایک ہمہ جہت صلاحیت کے حامل تخلیق کار تھے اور اردو و ہندی دونوں زبانوں میں انھوں نے کہانیاں لکھیں ، یہی وجہ ہے کہ انھیں دونوں حلقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ ڈاکٹر شمس اقبال نے ان کی مختلف النوع خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کونسل سے بھی ان کا گہرا تعلق تھا اور یہاں سے ان کی کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں، فی الحال وہ ہمارے ماس میڈیا پینل کے ممبر بھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ ایسے مخلص اور بافیض شخص کا یوں اچانک ہمارے بیچ سے اٹھ جانا تمام علمی و ادبی حلقوں کے لیے سخت تکلیف دہ حادثہ ہے اور ہم ان کے جملہ پسماندگان و اہل خانہ کو دلی تعزیت پیش کرتے ہیں۔ اس موقعے پر ڈاکٹر نسیم احمد نسیم نے بھی مرحوم کی ادبی خدمات اور شخصیت پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ڈاکٹر قاسم خورشید نہایت اچھے ادیب ہونے کے ساتھ بہت با اخلاق اور ملنسار انسان بھی تھے، ان کا یوں اچانک رخصت ہونا ہم سب کے لیے سخت المناک حادثہ ہے۔ اس موقعے پر کونسل کی گورننگ کونسل ، کے رکن جناب محمد عبدالستار، ڈاکٹر سید ظفر اسلم اور ڈاکٹر منور حسن کمال سمیت کونسل کا سارا اسٹاف موجود رہا اور ڈاکٹر قاسم خورشید کے لیے دعاے مغفرت کی گئی ۔

قاسم خورشید ادبی زندگی سے بھرپور شخصیت کا نام تھا : اردو کونسل ہندقاسم خورشید کی اچانک رحلت ادبی دنیا کے لیے بڑا اندوہنا...
09/30/2025

قاسم خورشید ادبی زندگی سے بھرپور شخصیت کا نام تھا : اردو کونسل ہند
قاسم خورشید کی اچانک رحلت ادبی دنیا کے لیے بڑا اندوہناک ہے : اسلم جاوداں

پٹنہ : ۔ ڈاکٹر قاسم خورشید ایک شاعر ایک افسانہ گر ایک ڈرامہ نویس اور ایک زندہ دل انسان تھے ۔ ان کی شخصیت ادبی زندگی سے بھرپور تھی ان کی اچانک رحلت سے پوری ادبی دنیا سوگوار ہے ۔ یہ باتیں اردو کونسل ہند کی ایک تعزیتی پیغام میں کہی گئیں ۔ اردو کونسل ہند کے ناظم اعلی اسلم جاوداں نے کہا کہ ڈاکٹر قاسم خورشید کی شخصیت ادبی زندگی سے بھرپور تھی ان کی تخلیقات ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں تھیں ۔ لہذا ہندی اور اردو دونوں کی محفلوں میں یکساں مشہور اور مقبول تھے ۔ وہ اپنے اخلاق اور خوش گفتاری کے باعث سب کی پسندیدہ شخصیت تھے ۔ ان کی اچانک رحلت ہندی اور اردو دونوں کی ادبی دنیا۔کے لیے بہت افسوسناک اور اندوہناک ہے ۔اردو
کونسل ہند کے رکن شفیع مشہدی نے کہا کہ قاسم خورشید کی موت کا مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے ۔ ایک اچھا شاعر ، افسانہ نگاراور زندہ دل انسان ہم لوگوں کے درمیان سے چلا گیا ہے ۔اس کا غم ناقابل فراموش ہے ۔ پروفیسر عبدالصمد صاحب نے کہا کہ قاسم خورشید زندگی کی توانائی اور ادبی ہمہ ہمی سے بھرپور انسان تھے ۔ مجھے ان کا بدل کوئی نہیں نظر ارہا ہے ۔اردو کونسل ہند کے کارگزار صدر امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ قاسم خورشید ادب کی دنیا کی باغ و بہار شخصیت کا نام تھا ۔ ان کی رحلت سے اردو اور ہندی دونوں کی محفلیں اداس ہو گئی ہیں ۔ مجھے ذاتی طور پر ان کی ناگہانی موت پر گہرا صدمہ پہنچاہے ،ڈاکٹر ہمایوں اشرف میں کہا کہ ان کی موت کی خبر سن کر مجھے سکتہ لگ گیا اور مجھے یقین نہیں ہو رہا ہے کہ ادبی دنیا کا اتنا مشہور اور مقبول قلم کار اتنی خاموشی سے چلا گیا ۔ کونسل کے نائب صدر مولانا ابوالکلام قاسمی اور مولانا امانت حسین نے ڈاکٹر قاسم خورشید کے انتقال پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ ابھی ان کے جانے کے دن نہیں تھے۔ڈاکٹر سرور حسین اورڈاکٹر اصف سلیم میں کہا کہ قاسم خورشید ادبی دنیا کی ایک ہردلعزیز شخصیت تھے ، ان کی اچانک رحلت ایک بڑا ادبی سانحہ ہے ۔کونسل کے ناظم ڈاکٹر یعقوب اشرفی ، پرویز انجم اور سید مجتبی حسن نے بھی ان سے اپنے ذاتی تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا وہ ایک اچھے شاعر ، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس تھے ۔ اس کے علاوہ ایک دل اور اخلاق مند انسان سے ہے ، ان کی موت سے اردو دنیا کو یقینا خسارہ ہوا ہے ۔

اسلم جاوداں
ناظم اعلی
اردو کونسل ہند
رابطہ : 7903117915

مشہور شاعر و ادیب قاسم خورشید کے انتقال پر اردو و ہندی ادب سوگوارپٹنہ: اردو اور ہندی کے معروف شاعر، ادیب اور افسانہ نگار...
09/30/2025

مشہور شاعر و ادیب قاسم خورشید کے انتقال پر اردو و ہندی ادب سوگوار
پٹنہ: اردو اور ہندی کے معروف شاعر، ادیب اور افسانہ نگار قاسم خورشید منگل کی صبح پٹنہ کے سلطان گنج نو گھروا میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔ ان کی عمر تقریباً 65 برس تھی۔ان کی نمازِ جنازہ بدھ کی صبح 10 بجے شاہ اَرزاں میں ادا کی جائے گی اور تدفین شاہ گنج قبرستان میں عمل میں آئے گی۔قاسم خورشید کئی شعری مجموعوں کے خالق تھے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’روک دو‘‘ مئی 1977 میں شائع ہوا تھا۔ اب تک ان کے تقریباً پچاس افسانے ملک کی معیاری رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’تھکے ہوئے لوگ‘‘ اشاعت کے مرحلے میں ہے۔شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے ڈرامے، ریڈیو فیچر اور تحقیقی و تنقیدی مضامین بھی تحریر کیے۔ وہ نہ صرف اردو میں بلکہ ہندی میں بھی کہانیاں لکھتے تھے اور ہندی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کرنے کا کام بھی کرتے رہے۔قاسم خورشید اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں یکساں طور پر مقبول تھے۔ ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن تکنیکی آپریشن اے آئی بی ڈی (ملیشیا، سی آئی ای ٹی)۔ ISRO احمد آباد۔اسکرپٹنگ کورس (سی آئی ای ٹی، نئی دہلی) وغیرہ کورس کئے اور ڈائریکٹر انچارج ایجوکیشنل ٹیلی ویژن بہار کے عہدے پر فائز ہیں۔قاسم خورشید الیکٹرانک پرنٹ میڈیا کے ماہر، ممتاز فکشن نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر تھے، جو ہندی، اردو اور انگریزی تینوں زبانوں میں تخلیق کرتے تھے۔ ان کے 22 کتابیں مختلف اصناف میں شائع ہو چکی ہیں، جن میں ڈرامے، شاعری، کہانیاں اور تنقید شامل ہیں۔ ان کی تازہ ترین تصانیف "دستکیں خاموش ہیں" اور "دل کی کتاب" ہیں۔قاسم خورشید کو ان کی فکشن تخلیقات پر صدرِ جمہوریہ ہند نے بھی اعزاز سے نوازا، جن میں "در سے آگے" خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ حال ہی میں انہوں نے بحرین میں منعقدہ عالمی مشاعرے میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔انہوں نے درجنوں دستاویزی فلمیں اور ٹیلی فلمیں تخلیق کیں اور طویل عرصے تک تعلیمی ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر اِنچارج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

ان کی تصانیف کے نام ہیں (1)پوسٹر (اردو کہانیاں)،(2)تھکن بولتی ہے (ہندی شاعری)،(3)دل تو ہے بنجارا(شعری مجموعہ)(4)قانون ساز کائونسل میں اقلیت (سیاسی تجزیہ)،(5)متن اور مکالمہ(تخلیقی تنقید)،(6)ریت پر ٹھہری ہوئی شام (کہانیاں)،(7)کینوس پر چہرے(کہانیاں)
(8)ڈر سے آگے (ہندی کہانی) صدر جمہوریہ ہند سے اجراء شدہ و انعام یافتہ،(9)تھار پر زندگی (ہندی کہانی)،(10)کوئی ہاتھ (ہندی کہانی)،(11)گُنجا کی نینی (ہندی کہانی) ،(12)کشن پور کی مسجد(ہندی کہانی،( 13) تماشا (اُردو اسٹیج ڈرامے)،(14) ادبی منظر نامے پرگؤدان(تنقید)
(15 ) انگریزی کہانیاں Waves۔ انکی تالیف میں (1)سنولائی دھوپ(کیف کی غزلیں)
(2)ٹوٹے ہوئے چہرے(طنز و مزاح)انکی زیر اشاعت تصانیف (1)درد گزرا ہے دبے پائوں
(ٹیلی ڈرامے)،(2)چوہے (اسٹیج ڈرامے)۔انکے والد کا نام سید غلام ربانی ہے2اور اہلیہ شاہدہ وارثی ہیں۔قاسم خورشید 2 جولائی کو 1957 کو کاکو، ضلع جہان آباد (بہار) میں پیدا ہوئے ۔ بی۔ اے آنرز (پٹنہ کالج)، ایم۔ اے (پٹنہ یونیورسٹی) اور پی ایچ ڈی (پٹنہ یونی ورسٹی) سے کیا
ان کے انتقال سے اردو و ہندی ادب کی دنیا میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے پُر کرنا مشکل ہے۔
قاسم خورشید صاحب نہیں رہے
جیسے ہی قاسم خورشید کے انتقال کی خبر آئی تو لوگوں کو یقین ہی نہیں آیا ہے ۔ لوگ موت کی تصدیق کیلئے ادھر ادھر فون کرنے لگے چونکہ کل تک وہ ساہتیہ اکادمی کے فنکشن میں دیکھے گئے اور لگاتار وہ اپنی شمولیت کی تصویر فیس بک پر ڈال رہے تھے ۔ انکے رفقا اور ملنے جلنے والے انکی گھر کی طرف رخ کرنے لگے ۔

انکے انتقال سے اردو اور ہندی کا ادبی حلقہ سوگوار ہے ۔ اظہار تعزیت کرنے والوں میں شفیع مشہدی، اردو ڈائریکٹوریٹ کے ڈائریکٹر ایس ایم پرویز عالم، گورنمنٹ اردو لائبریری کے چیرمین ارشد فیروز، بی پی ایس سی کے سابق چیرمین امتیاز احمد کریمی، مشتاق احمد نوری ،ایس ایم اشرف فرید، ڈاکٹر ریحان غنی، ڈاکٹر اشرف النبی قیصر، ڈاکٹر انوارالہدیٰ ، پروفیسر صفدر امام قادری، عطا عابدی، اشفاق احمد، شمیم قاسمی ، فخر الدین عارفی، کلیم اللہ کلیم دسوت پوری، اکبر رضا جمشید، پرویز عالم علمی مجلس، سمیر پریمل،سنجئے کمار کندن، انجنئیر ابو رضوان، ابو سفیان، ڈاکٹر آصف سلیم، محمد عتیق الرحمٰن شعبان، ڈاکٹر جاوید اختر، نئیر استھانوی، عمران صغیر، نواب عتیق الزماں، سلمان غنی، ڈاکٹر کامران غنی صبا، ذیشان احمد، شیدا بگھونوی، شکیل احمد کاکوی، فضیل احمد، سید کشن آرزو، آصف علی، رومان الفضی یوسف، محمد معیز الدین، سید انور جمال، نورالہدیٰ ، خالد رشید ، فہیم احمد، محمد اعجاز ، شمیم رضوی، عرفان سعید، تسنیم کوثر سعید، ڈاکٹر صابر رضا رہبر، فرید اختر، نصیراحمد وسیم اختر حیدر، معین گریڈیہوی، محفوظ الرشید، سید شاہ حسین احمد، ہمایوں اختر، شاہ فیض الرحمن، ڈاکٹر عبدالودود قاسمی، محمد نور عالم، منصور خوشتر، سرفراز عالم، کلیم قمر اعظم صدیقی ،الرحمن، ، انوار الحسن وسطوی، حبیب مرشد خاں۔ عاشق، منمیت سنگھ البیلا، صوفیہ شاہین، شادمہ حسن، زینت شیخ وغیرہ کے نام شامل ہیں ۔

ڈاکٹر قاسم خورشید کا انتقال ادبی اور تعلیمی دنیا کا بڑا نقصان۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی پٹنہ ٣٠/ ستمبر (پریس ریلیز) م...
09/30/2025

ڈاکٹر قاسم خورشید کا انتقال ادبی اور تعلیمی دنیا کا بڑا نقصان۔ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
پٹنہ ٣٠/ ستمبر (پریس ریلیز) معروف ادیب، شاعر، افسانہ، ڈرامہ، فنکشن، تنقید نگار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر قاسم خورشید کا منگل کی صبح کوئی ساڑھے آٹھ بجے ان کی رہائش گاہ واقع سلطان گنج نو گھروا پٹنہ میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہو گیا، اس دردناک واقعہ پر مشہور عالم دین، اردو میڈیا فورم اور کاروان ادب کے صدر مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی نے اپنے تعزیتی بیان میں فرمایا کہ ڈاکٹر قاسم خورشید کے انتقال سے علمی، ادبی اور تعلیمی دنیا کا بڑا نقصان ہوا ہے، جس کی تلافی مستقبل قریب میں ہوتی نظر نہیں آتی ،مفتی صاحب نے فرمایا کہ ان کے اندر ادبی ذوق اور شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا، انہوں نے اپنی شاعری ہندی میں شروع کی تھی اور ان کی دو غزلیں پہلی مرتبہ ہندی کے مشہور رسالہ پرگتی شپل سماج میں شائع ہوئی تھیں، انہوں نے نثرکے مختلف اصناف ناول، افسانہ، ڈرامہ وغیرہ میں بھی طبع آزمائی کی، ادبی دنیا میں ان کی کتابوں میں سے کینوس پر چہرے، دل کی کتاب، پوسٹر، تھکن بولتی ہے وغیرہ میں بڑی مقبولیت حاصل کی، وہ زمانہ تک این سی آئی آر ٹی مہندرو کے ڈائریکٹر رہے اور اس حوالے سے ان کی تعلیمی خدمات انتہائی وقیع ہیں، جب موجودہ امیر شریعت مولانا احمد ولی فیصل رحمانی دامت برکاتہم العالیہ نے امارت پبلک اسکول کے لیے نصاب کی ترتیب کے لیے کمیٹی بنائی تو خاص کر ان کو اس کمیٹی کا رکن بنایا، اس سلسلے کی دو میٹنگوں میں انہوں نے شرکت بھی کی، وہ میری تحریروں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور موقع بہ موقع اس کی تعریف بھی کیا کرتے تھے،میری کتاب" آدھی ملاقات" پر انہوں نے وقیع مقدمہ" آدھی ملاقات کے مفتی محمد ثنا الہدیٰ قاسمی" کے عنوان سے لکھا تھا۔
وہ امارت شرعیہ جب بھی آتے ڈاکٹر نثار احمد کے ساتھ آتے اور کسی کام سے اتے ہوں ،آدھا پون گھنٹہ میرے پاس ضرور گذارتے ،مختلف موضوعات پر گفتگو کرتے ،ادب اور تعلیم کے حوالے سے میں ان کی غیر معمولی صلاحیت اور علمی رسوخ کا ہمیشہ قائل رہا، خوب رو اور خوش اخلاق آدمی تھے عظیم آباد میں ان کی شخصیت سدا بہار سمجھی جاتی تھی، خزاں اور بادصر صر کے ظاہری اثرات میں نے ان کے چہرے پر کبھی نہیں دیکھا، ایسے علمی ادبی اور تعلیمی شخصیت کے یک بیک جدا ہونے کا اثر دل و دماغ پر بہت ہے ،یک بیک ہمارے اعتبار سے خدا کے یہاں کوئی کام اچانک، یک بیک ناگہانی اور اچانک نہیں ہوتا، ان کے یہاں تو ہر کام کا وقت ہوتا ہے قاسم خورشید صاحب کا وقت مقرر آگیا تھا ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے، اردو میڈیا فورم کے صدر مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نے قاسم خورشید صاحب کی مغفرت اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کی دعا فرمائی، انہوں نے فرمایا کہ ابھی غم تازہ ہے جلدی ان کی خدمات پر ایک مضمون لکھوں گا ۔
کچھ کہ سناؤں گا جو طبیعت سنبھل گئی

Address

Bhairopur
Sacramento, CA

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when S R Media ایس آر میڈیا posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to S R Media ایس آر میڈیا:

Share