
10/01/2025
منہ چھپا رہا ہے ہر سمت کا اندھیرا
خورشید تم نے کیسا اعلان کر دیا
تقریبا 12 بجے واٹس ایپ کے مختلف گروپوں پر معروف شاعر اور زبان و قلم کے عظیم شناور جناب ڈاکٹر قاسم خوشی صاحب کے انتقال کی خبر موصول ہوئی ڈاکٹر قاسم خورشیدِشی صاحب دبستان عظیم اباد کے ایک عظیم علمی ادبی شخصیت کے مالک تھے بلکہ ملک اور بیرون ملک اردو شاعری اور زبان کے حوالے سے جانے اور پہچانے جاتے تھے مجھ جیسے چھوٹوں سے بھی محبت کرتے تھے گزشتہ دنوں پٹنہ میں ہوئے قومی کونسل کے سہ روزہ سیمینار میں وہ شریک رہے اور انہوں نے ایک نشست کی صدارت اور ایک مشاعرے کی نشست کی نظامت بھی کی ان کی نظامت سے پتہ چلا کہ وہ کس قدر کے زبان و بیان پر قادر ہہیں وہ برجستہ شاعری کے ساتھ ساتھ ہندی اور اردو کے باریکیوں سے بخوبی واقف تھے جوانی میں انہوں نے کئی اہم میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دے کر ایس سی ای ار ٹی سے سبک دوش ہو کر علمی اور ادبی خدمات میں مصروف تھے گزشتہ دنوں جب ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے اپنی کتاب "دِل کی کتاب,, اپنے قلم سے لکھ کر کے مجھے دی اور کہا اس پر تبصرہ بھی لکھنا مگر اج میں نے جب ان کے انتقال کی خبر سنی تو مجھے کافی افسوس ہوا ایک ایسا انسان چلتا پھرتا جن کے بارے میں ابھی ایساتصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا
قاسم خورشید صاحب نے اپنی شاعری میں
کہا ہے
منہ کو چھپا رہا ہے ہر سمت کا اندھیرا
خورشید تم نے یہ کیسا اعلان کر دیا
اس اعلان سے ہر طرف مایوسی کی کیفیت طاری ہو گئی چونکہ ذہن و دماغ کسی بھی حد تک اس خبر کو سننے کے لیے تیار نہیں تھا
خورشید صاحب نے کہا ہے :
بہت بے اماں خورشید دنیا میں تیری مولا
یہاں پھیلی ہوئی ہے حشر سامان کہاں جائے
قاسم خورشید صاحب اپنے شعر میں اس دنیا کے اندر جاری بد امنی سے مایوس نظر آ رہے ہیں اس لیے شاید انہوں نے اس شعر میں اظہار کیا ہے
قاسم خورشید صاحب کو شاید اس کا ادراک تھا کہ ان کے جانے کے بعد ہم جیسے طالب علم ضرور غم اور مایوسی میں ڈوب جائیں گے اسی لیے انہوں نے کہا:
ایک خورشید ہے زمانے میں
جس کے دم سےاجالا رہتا ہے
اب وہ خورشید ڈوب چکا ہے اور ہم سب اس کی اب نکلنے کی امید بھی نہیں رکھ سکتے
ایک خورشید ڈوب جانے پر
دل سے اٹھتا ہوا دھواں دیکھا,
لیکن خورشید صاحب جس طریقے سے زبان و بیان پر قادر تھے اور جس طریقے سے علمی اور ادبی گفتگو ہوتی تھی اس پر ان کا شعر نے دیکھیں ہے :
مجھ میں خورشید ہے سخن زندہ
چند ایک ہم زبان تو رہنے دو
ان کا یہ شعر بھی پڑھتے جائیں
کون سی دنیا سے ائے اور کہاں اب جاؤ گے
اس طرح بھی بے سر و سامانیوں میں کون ہے
کیوں پشیماں ہو رہے ہیں میری بربادی پہ آپ
جانتے ہیں آپ بھی اسانیوں میں کون ہے ۔
آ ج تو خورشید بھی حیرت زدہ ہے سوچ کر
اس قدر شدت بھری تہ داریوں میں کون ہے ۔
اور غزل کا یہ شعر بھی پڑھیے
سفر اکیلا نہیں ہے تمہاری منزل کا
میرا خیال تیری راہ گزر میں رہتا ہے
کہاں چھپاؤ گے روشن جمال چہرے کو
نظر نواز نظارہ نظر میں رہتا ہے
بچھڑکےاس سےتوبرسوں گزر گئےخورشید
ہمارے ساتھ جو پھر بھی سفر میں رہتا ہے
اور چند اشعار مزید دیکھیے :
یہ زندہ رہی ہے رہے گی صدا
یہ اردو زبان ہے سیاست نہ کر
مجھے ڈوبنے کی ہدایت بھی ہے
میں خورشید ہوں میری چاہت نہ کر
اور دیکھیے:
وہ خاموش خورشید کیوں ہو گیا ہے
مقدر سزا کی امید کرتا ہے ۔
اور حمدیہ شاعری میں انہوں نے کہا ہے ۔
ایک چہرہ نورانی دینا
مولا انکھ میں پانی دینا
ایک مسیحا بن جاؤں میں
مجھ کو بھی سلطانی دینا
اپنی یاد میں شامل رکھنا
ہر لہجہ رحمانی دینا
نعت رسول میں انہوں نے کہا ہے ،
منور مدینہ امم دیکھنا
رسول خدااور عجم دیکھنا
کہاں دشت میں کوئی رم دیکھنا
ابھی تو ہے سوئے حرم دیکھنا
یہ خورشید کا ہے قلم دیکھنا
کسی روز ابھریں گے ہم دیکھنا
اور موت پر انہوں نے کہا
تنہا خورشید کو مرنا بھی گوارا ہے مگر
بس تیرے ساتھ ستم گر نہیں دیکھا جاتا
سعد احمد قاسمی
Quasim Khursheed
Lalu Prasad Yadav
Tanweer Hassan