11/14/2025
نکاح، سادگی اور سماجی تضادات ۔۔۔۔ایک فکری آئینہ
تحریر: ڈاکٹر تنویر قاسم
نوٹ:( یہ تحریر میری پہلی قسط ’’پاکستانی نفسیات اور سماجی تجسس کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ایک فکری مکالمہ" پر موصول ہونے والے مختلف ردِعمل کے جواب میں لکھی گئی ہے، تاکہ تمام آراء، اعتراضات اور سوالات کا ایک فکری و متوازن تجزیہ پیش کیا جا سکے۔)
چند دن قبل صحافی دوست حارث کھوکھر اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نبیحہ کی شادی کی تقریب سوشل میڈیا پر زیربحث رہی۔ظاہراً یہ ایک سادہ، پُر وقار نکاح تھا — نکاح خواں کے طور پر معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل موجود تھے، اور تقریب میں کسی قسم کی موسیقی، رقص یا غیر ضروری رسم کا شائبہ تک نہ تھا۔لیکن جیسے ہی اس تقریب کی تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں، عوامی ردعمل دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔کچھ نے اسے ایک مثالی اسلامی نکاح قرار دیا،جبکہ کچھ نے "سادگی" اور "نمائش" کے بیچ فرق پر سوال اٹھایا۔
۔۔۔۔ نکاح کی روح اور دین کی طرف واپسی
۔۔۔ایک ایسے دور میں جہاں شادی بیاہ محض ایک سوشل شو بن کر رہ گئے ہیں،اس نکاح کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں ، وقار اور مقصدیت جھلکتی تھی۔کوئی ناچ گانا نہیں،کوئی فضول رسم نہیں،اور سب سے بڑھ کر نکاح کو عبادت سمجھ کر ادا کیا گیا۔اس نکاح کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ تقریب کا اہتمام مولانا طارق جمیل کے گھر میں ہوا، جہاں انہوں نے نہایت والہانہ انداز میں شرکت کی۔بعض حلقوں نے اس بات پر تنقید کی کہ وہ "دلہن کے قریب کیوں بیٹھے"، تاہم جو لوگ مولانا کے اسلوبِ دعوت سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ قربت دراصل اخلاص اور شفقت کے اظہار کا حصہ ہے، نہ کہ رسمی روایت سے انحراف۔مولانا طارق جمیل جیسے جید عالمِ دین کی موجودگی نے اس تقریب کو روحانی رنگ دیا،اور ایک پیغام دیا کہ نکاح کو سستا، سادہ اور باعزت بنایا جا سکتا ہے۔
منفی ردِعمل ۔۔ سادگی یا نمائش؟
کچھ ناقدین کے مطابق تقریب میں مہنگے زیورات، برانڈڈ ملبوسات اور نمایاں آرائش دیکھنے میں آئی،جس سے "سادگی" کا تصور متاثر ہوا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہی وہ نمونہ ہے جو ایک عام آدمی کے لیے قابلِ تقلید ہو؟یہ اعتراض دراصل اس احساسِ محرومی کی علامت ہے جو ہمارے طبقاتی معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں رشتوں کو قریب کیا ہے، وہیں اس نے دکھاوے اور موازنہ کا ایک نیا دائرہ بھی کھول دیا ہے۔
مولانا طارق جمیل ۔۔ دعوت و حکمت کا سفر
مولانا کی شخصیت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اس طرح کی تقریبات میں شرکت یہ سب ان کے دعوتی اسلوب کا حصہ ہے۔مولانا ہمیشہ سے میڈیا، فلم انڈسٹری، کھیل، سیاست اور سماجی حلقوں کی معروف شخصیات سے ذاتی تعلق رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ تعلقات تبلیغی مواقع ہیں ۔ان کے ذریعے وہ دین کی بات کو نرم، محبت آمیز لہجے میں لوگوں کے دلوں تک پہنچاتے ہیں۔
مولانا اکثر کہتے ہیں:"مجھے تنقید کی پرواہ نہیں، میری نیت کو میرا رب جانتا ہے۔"یہی وہ اعتماد ہے جس نے ان کی دعوتی کاوشوں کو ہزاروں دلوں تک پہنچایا۔
ایک غیر معمولی پہلو ۔۔۔عمر، انتخاب اور نکاح کا حلال راستہ
اس نکاح کا ایک اور پہلو بھی قابلِ ذکر ہے جو عموماً معاشرتی پردوں میں دب جاتا ہے۔حارث کھوکھر عمر میں اپنی شریکِ حیات ڈاکٹر نبیحہ سے چھوٹے ہیں،اور ڈاکٹر نبیحہ کی یہ دوسری شادی ہے۔یہ حقیقت بجائے خود ایک مثبت سماجی پیغام ہے۔ایک مرد کا بڑے ظرف کے ساتھ عمر اور سماجی رویوں سے بالاتر ہو کر نکاح کا فیصلہ کرناقابلِ تحسین عمل ہے۔
حارث کھوکھر نے اس قدم سے یہ پیغام دیا کہ اسلام میں نکاح کی بنیاد عمر یا سابقہ ازدواجی حیثیت نہیں، بلکہ نیت، کردار اور محبت پر ہے۔
انہوں نے معاشرتی جمود کو توڑتے ہوئے ایک حلال، عزت دار اور باوقار راستہ اپنایا ۔جو دراصل نوجوان نسل کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج خود حارث کھوکھر نے میرے اسی موضوع پر لکھے گئے پہلے کالم پر تحسین کا پیغام دیا،اور کہا کہ “آپ نے وہ بات کہہ دی جو دل میں تھی۔”یہ اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خود بھی اس سماجی گفتگو کو تعمیری تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
سماجی تناظر ۔۔ تضادات کا آئینہ
یہ واقعہ صرف ایک شادی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی شعور کی جھلک ہے۔ہم مذہب چاہتے ہیں مگر فیشن بھی،سادگی کے قائل ہیں مگر نمائش سے متاثر بھی۔یہی تضاد ہمارے فکری بحران کی اصل جڑ ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایمان اور اظہار دونوں کے بیچ ایک نرم لکیر ہے ۔
جو اعتدال، نیت اور شعور سے قائم رہتی ہے۔
حارث کھوکھر اور ڈاکٹر نبیحہ کی شادی اس لحاظ سے ایک "علامتی واقعہ" ہے ۔یہ صرف دو افراد کا نکاح نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے۔
اس نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ:نکاح میں دکھاوا اور سادگی کا توازن کیسے ہو؟مذہبی شخصیات کو سوشل تعلقات میں کیا حدود اپنانی چاہییں؟
اور کیا عمر یا سماجی اسٹیٹس محبت اور نکاح کے راستے میں رکاوٹ ہیں؟اگر ہم ان سوالوں پر سنجیدگی سے غور کریں،
تو شاید یہ شادی ہمارے لیے صرف ایک سماجی واقعہ نہیں بلکہ ایک فکری موڑ بن جائے۔