Dr Nabiha Ali Khan

Dr Nabiha Ali Khan Dr. Nabiha Ali Khan is a multi-faceted professional with a dynamic career as an journalist, influencer, and clinical psychologist.

نکاح، سادگی اور سماجی تضادات ۔۔۔۔ایک فکری آئینہتحریر: ڈاکٹر تنویر قاسمنوٹ:( یہ تحریر میری پہلی قسط  ’’پاکستانی نفسیات او...
11/14/2025

نکاح، سادگی اور سماجی تضادات ۔۔۔۔ایک فکری آئینہ
تحریر: ڈاکٹر تنویر قاسم
نوٹ:( یہ تحریر میری پہلی قسط ’’پاکستانی نفسیات اور سماجی تجسس کا تجزیاتی مطالعہ‘‘ایک فکری مکالمہ" پر موصول ہونے والے مختلف ردِعمل کے جواب میں لکھی گئی ہے، تاکہ تمام آراء، اعتراضات اور سوالات کا ایک فکری و متوازن تجزیہ پیش کیا جا سکے۔)
چند دن قبل صحافی دوست حارث کھوکھر اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نبیحہ کی شادی کی تقریب سوشل میڈیا پر زیربحث رہی۔ظاہراً یہ ایک سادہ، پُر وقار نکاح تھا — نکاح خواں کے طور پر معروف عالمِ دین مولانا طارق جمیل موجود تھے، اور تقریب میں کسی قسم کی موسیقی، رقص یا غیر ضروری رسم کا شائبہ تک نہ تھا۔لیکن جیسے ہی اس تقریب کی تصاویر اور ویڈیوز منظرِ عام پر آئیں، عوامی ردعمل دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔کچھ نے اسے ایک مثالی اسلامی نکاح قرار دیا،جبکہ کچھ نے "سادگی" اور "نمائش" کے بیچ فرق پر سوال اٹھایا۔
۔۔۔۔ نکاح کی روح اور دین کی طرف واپسی
۔۔۔ایک ایسے دور میں جہاں شادی بیاہ محض ایک سوشل شو بن کر رہ گئے ہیں،اس نکاح کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس میں ، وقار اور مقصدیت جھلکتی تھی۔کوئی ناچ گانا نہیں،کوئی فضول رسم نہیں،اور سب سے بڑھ کر نکاح کو عبادت سمجھ کر ادا کیا گیا۔اس نکاح کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ تقریب کا اہتمام مولانا طارق جمیل کے گھر میں ہوا، جہاں انہوں نے نہایت والہانہ انداز میں شرکت کی۔بعض حلقوں نے اس بات پر تنقید کی کہ وہ "دلہن کے قریب کیوں بیٹھے"، تاہم جو لوگ مولانا کے اسلوبِ دعوت سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ قربت دراصل اخلاص اور شفقت کے اظہار کا حصہ ہے، نہ کہ رسمی روایت سے انحراف۔مولانا طارق جمیل جیسے جید عالمِ دین کی موجودگی نے اس تقریب کو روحانی رنگ دیا،اور ایک پیغام دیا کہ نکاح کو سستا، سادہ اور باعزت بنایا جا سکتا ہے۔
منفی ردِعمل ۔۔ سادگی یا نمائش؟
کچھ ناقدین کے مطابق تقریب میں مہنگے زیورات، برانڈڈ ملبوسات اور نمایاں آرائش دیکھنے میں آئی،جس سے "سادگی" کا تصور متاثر ہوا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہی وہ نمونہ ہے جو ایک عام آدمی کے لیے قابلِ تقلید ہو؟یہ اعتراض دراصل اس احساسِ محرومی کی علامت ہے جو ہمارے طبقاتی معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے۔سوشل میڈیا نے جہاں رشتوں کو قریب کیا ہے، وہیں اس نے دکھاوے اور موازنہ کا ایک نیا دائرہ بھی کھول دیا ہے۔
مولانا طارق جمیل ۔۔ دعوت و حکمت کا سفر
مولانا کی شخصیت کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ اس طرح کی تقریبات میں شرکت یہ سب ان کے دعوتی اسلوب کا حصہ ہے۔مولانا ہمیشہ سے میڈیا، فلم انڈسٹری، کھیل، سیاست اور سماجی حلقوں کی معروف شخصیات سے ذاتی تعلق رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ تعلقات تبلیغی مواقع ہیں ۔ان کے ذریعے وہ دین کی بات کو نرم، محبت آمیز لہجے میں لوگوں کے دلوں تک پہنچاتے ہیں۔
مولانا اکثر کہتے ہیں:"مجھے تنقید کی پرواہ نہیں، میری نیت کو میرا رب جانتا ہے۔"یہی وہ اعتماد ہے جس نے ان کی دعوتی کاوشوں کو ہزاروں دلوں تک پہنچایا۔
ایک غیر معمولی پہلو ۔۔۔عمر، انتخاب اور نکاح کا حلال راستہ
اس نکاح کا ایک اور پہلو بھی قابلِ ذکر ہے جو عموماً معاشرتی پردوں میں دب جاتا ہے۔حارث کھوکھر عمر میں اپنی شریکِ حیات ڈاکٹر نبیحہ سے چھوٹے ہیں،اور ڈاکٹر نبیحہ کی یہ دوسری شادی ہے۔یہ حقیقت بجائے خود ایک مثبت سماجی پیغام ہے۔ایک مرد کا بڑے ظرف کے ساتھ عمر اور سماجی رویوں سے بالاتر ہو کر نکاح کا فیصلہ کرناقابلِ تحسین عمل ہے۔
حارث کھوکھر نے اس قدم سے یہ پیغام دیا کہ اسلام میں نکاح کی بنیاد عمر یا سابقہ ازدواجی حیثیت نہیں، بلکہ نیت، کردار اور محبت پر ہے۔
انہوں نے معاشرتی جمود کو توڑتے ہوئے ایک حلال، عزت دار اور باوقار راستہ اپنایا ۔جو دراصل نوجوان نسل کے لیے ایک روشن مثال ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آج خود حارث کھوکھر نے میرے اسی موضوع پر لکھے گئے پہلے کالم پر تحسین کا پیغام دیا،اور کہا کہ “آپ نے وہ بات کہہ دی جو دل میں تھی۔”یہ اعتراف اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ خود بھی اس سماجی گفتگو کو تعمیری تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
سماجی تناظر ۔۔ تضادات کا آئینہ
یہ واقعہ صرف ایک شادی نہیں بلکہ ہمارے معاشرتی شعور کی جھلک ہے۔ہم مذہب چاہتے ہیں مگر فیشن بھی،سادگی کے قائل ہیں مگر نمائش سے متاثر بھی۔یہی تضاد ہمارے فکری بحران کی اصل جڑ ہے۔ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ایمان اور اظہار دونوں کے بیچ ایک نرم لکیر ہے ۔
جو اعتدال، نیت اور شعور سے قائم رہتی ہے۔
حارث کھوکھر اور ڈاکٹر نبیحہ کی شادی اس لحاظ سے ایک "علامتی واقعہ" ہے ۔یہ صرف دو افراد کا نکاح نہیں بلکہ ایک فکری مکالمہ ہے۔
اس نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ:نکاح میں دکھاوا اور سادگی کا توازن کیسے ہو؟مذہبی شخصیات کو سوشل تعلقات میں کیا حدود اپنانی چاہییں؟
اور کیا عمر یا سماجی اسٹیٹس محبت اور نکاح کے راستے میں رکاوٹ ہیں؟اگر ہم ان سوالوں پر سنجیدگی سے غور کریں،
تو شاید یہ شادی ہمارے لیے صرف ایک سماجی واقعہ نہیں بلکہ ایک فکری موڑ بن جائے۔

پاکستانی نفسیات اور سماجی تجسس کا تجزیاتی مطالعہ  ڈاکٹر تنویر قاسم:میرے ایک صحافی دوست حارث کھوکھر نے حال ہی میں معروف ا...
11/14/2025

پاکستانی نفسیات اور سماجی تجسس کا تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر تنویر قاسم:
میرے ایک صحافی دوست حارث کھوکھر نے حال ہی میں معروف اینکر اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نبیحہ سے شادی کی ہے۔ نبیحہ سے میری واقفیت صرف ٹاک شوز تک محدود رہی، لیکن حارث سے گہری شناسائی ہے۔ دونوں کو شادی کی مبارک باد۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے ہی ہم نیویارک کے نومنتخب میئر زہران ممدانی کی کامیابی پر گفتگو سے فارغ ہوئے، سوشل میڈیا پر نبیحہ اور حارث کی شادی نئے مباحث کا مرکز بن گئی۔
کس نے نکاح پڑھایا، حق مہر کتنا تھا، کون سا لباس پہنا گیا، کون کون شریکِ تقریب تھا — یہ سب وہ سوالات تھے جو ایک بار پھر ہمارے معاشرتی ذہن کی اندرونی ساخت کو عیاں کر گئے۔
یہ رویہ، یعنی دوسروں کی نجی زندگی میں غیر معمولی دلچسپی، محض اتفاق یا تفریح نہیں؛ بلکہ ایک سماجی و نفسیاتی بحران کی علامت ہے۔ اس رجحان کو تین سطحوں پر سمجھنا ضروری ہے: نفسیاتی، سماجی، اور مذہبی۔
۱۔ نفسیاتی زاویہ: محرومی اور فرار
پاکستانی معاشرہ عمومی طور پر نفسیاتی عدم اطمینان کا شکار ہے۔
لوگ اپنی ناکامیوں، محرومیوں، اور بے یقینی سے توجہ ہٹانے کے لیے دوسروں کی زندگیوں میں جھانکنے لگتے ہیں۔ یہ دراصل Frustration Displacement یعنی "مایوسی کے اخراج" کی ایک صورت ہے — جب انسان اپنی مایوسی یا دباؤ کو دوسروں کے حالات پر تبصرے کی صورت میں نکالتا ہے۔
دوسروں کی شادی یا طلاق پر گفتگو ایک عارضی احساسِ بالادستی دیتی ہے؛ گویا ہم بہتر فیصلے کر سکتے ہیں، یا ہمارے حالات دوسرے سے اچھے ہیں۔ یہ احساس وقتی سکون تو دیتا ہے، مگر طویل مدت میں معاشرتی اضطراب کو بڑھا دیتا ہے۔
۲۔ سماجی پہلو: میڈیا کلچر اور طبقاتی حسد
ہمارے معاشرتی تجسس کی ایک بڑی جڑ میڈیا کلچر ہے۔
ٹی وی ٹاک شوز سے لے کر یوٹیوب و لاؤنج گپ شپ تک، ہر جگہ دوسروں کی زندگی موضوعِ گفتگو ہے۔
شادی، طلاق یا خلع جیسے حساس معاملات اب عوامی تفریح بن چکے ہیں۔
سوشل میڈیا نے اس تجسس کو اجتماعی کھیل میں بدل دیا ہے: واٹس ایپ گروپس میں “کس نے نکاح پڑھایا؟ مہر کتنا تھا؟” جیسے سوالات معمول بن چکے ہیں۔
اس کے پیچھے طبقاتی حسد بھی کارفرما ہے۔ عام لوگ مشہور یا خوشحال طبقے کی شادیوں کو حسرت اور مایوسی کے امتزاج سے دیکھتے ہیں۔ یہ حسد رفتہ رفتہ طنز، تبصرے اور اخلاقی فتووں میں بدل جاتا ہے۔ یوں معاشرتی حسد، تجسس اور اخلاقی منافقت ایک ہی دائرے میں گھومنے لگتے ہیں۔
۳۔ مذہبی و اخلاقی پہلو: حیا اور سترپوشی کا زوال
اسلام نے انسان کی نجی زندگی کے احترام کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔
قرآن میں صاف ہدایت ہے:
"وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا"
(الحجرات: 12)
یعنی: "تجسس مت کرو، اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔"
مگر ہمارے معاشرے نے "خبر" اور "دلچسپی" کے نام پر اخلاقی تجسس کو جائز بنا لیا ہے۔
اب حیا اور سترپوشی کا وہ تصور جو اسلامی معاشرت کا زیور تھا، رفتہ رفتہ میڈیا مائنڈ سیٹ کے شور میں دب چکا ہے۔
رسول ﷺ نے فرمایا: “جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے، اللہ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔”
افسوس کہ ہم نے یہ سنت بھلا دی ہے، اور دوسروں کی پردہ دری کو “رپورٹنگ” یا “تبصرہ” کا نام دے دیا ہے۔
۴۔ نتیجہ: اجتماعی ذہنی و اخلاقی بحران
یہ رویہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ:
نفسیاتی طور پر غیر مطمئن ہے،
سماجی طور پر غیر مقصدی،
اور اخلاقی طور پر حیا و سترپوشی کے اسلامی اصول سے دور جا چکا ہے۔
ہم نے فکری تجسس (علم، مطالعہ، تحقیق) کو چھوڑ کر اخلاقی تجسس (دوسروں کی زندگی میں مداخلت) اپنا لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ قوم کا اجتماعی شعور "سوچنے" سے زیادہ "جھانکنے" کا عادی ہو چکا ہے۔
۵۔ اصلاحی راستہ
اگر ہم اس بیماری سے نجات چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی فکری سمت درست کرنا ہوگی۔
تعلیمی اداروں میں اخلاقی و سماجی تربیت کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
میڈیا ادارے سنسنی کے بجائے نجی زندگی کے احترام کو فروغ دیں۔
مساجد اور دینی مراکز سے حسنِ ظن، ستر پوشی، اور خیرخواہی کے بیانیے کو عام کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل اخلاقیات (Digital Ethics) کی آگاہی مہمات چلائی جائیں۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دوسروں کی زندگی پر تبصرہ کرنا علم نہیں — کمزوری ہے۔
اصل فخر اس میں ہے کہ ہم اپنی زندگی میں علم، کردار اور عمل سے وہ مثال قائم کریں جو دوسروں کو تجسس نہیں، تقلید پر آمادہ کرے۔
جب قومیں علمی و فکری سرگرمیوں سے خالی ہو جاتی ہیں، تو ان کی تفریح دوسروں کے راز بن جاتے ہیں۔
پاکستانی معاشرے کو اب “جھانکنے” سے زیادہ “سمجھنے” کی عادت ڈالنی ہوگی —
تبھی ہم فرد کی نجی حرمت اور اجتماعی شعور کے درمیان توازن پیدا کر سکیں گے

11/12/2025

فیملی ❤️

مخلص ساتھیوں سے شیئر کرنے کی گزارش ہے مثبت مہم میں ساتھ دیں 💔 قوم کے باشعور طبقے سے گزارش 💔آج دل دکھتا ہے جب ایسے لوگوں ...
11/12/2025

مخلص ساتھیوں سے شیئر کرنے کی گزارش ہے مثبت مہم میں ساتھ دیں
💔 قوم کے باشعور طبقے سے گزارش 💔

آج دل دکھتا ہے جب ایسے لوگوں کی پوسٹس دیکھی جاتی ہیں جو خود کو باشعور کہتے ہیں، مگر شعور سے “ع” نکال کر صرف شور مچاتے ہیں۔
ڈاکٹر نبیحہ علی خان اور حارث کھوکھر کی شادی کوئی تماشا نہیں — ایک پاکیزہ رشتہ ہے جو سنتِ رسول ﷺ پر عمل کی خوبصورت مثال ہے۔

افسوس ہوتا ہے جب لوگ عمر کو بنیاد بنا کر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔
ذرا سوچئے!
نبی کریم ﷺ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی تو دونوں کی عمریں کیا تھیں؟ کیا کسی نے وہاں عمر کو “ایشو” بنایا تھا؟
نہیں — کیونکہ وہاں ایمان تھا، احترام تھا، محبت تھی۔

آج کے دور میں ہمیں چاہیے کہ ہم دوسروں کی نجی زندگی پر بات کرنے کے بجائے اپنے اخلاق اور کردار پر نظر ڈالیں۔
خدارا، دوسروں کی خوشیوں پر سوال نہ اٹھائیں۔
جینے دیں، جینے دیں، اور زمین پر خدا بننے کی کوشش نہ کریں۔

🤲 اللہ تعالیٰ ہم سب کو مثبت سوچ، وسیع ظرف، اور زبان کی حفاظت عطا فرمائے۔

11/10/2025

Dinner 🍽️ From Food Blogger Rabia Khan Sadozai... Thank You

11/10/2025

جو بھی فین کومنٹس میں Mashallah (ماشاءالله) لکھیں گا، اس کو ڈاکٹر نبیہہ علی خان کے والیمے میں دعوت دی جائے گی۔ ایک فین کا انتخاب کیا جائے گا۔ پیج ایڈمن

11/10/2025

غلط کام کرنے کی بجائے نکاح کیا ہے۔ ڈاکٹر نبیہہ علی خان

11/10/2025

آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔۔۔ ڈاکٹر نبیہہ علی خان

11/10/2025

ڈاکٹر نبیہہ علی خان کے کپڑے کتنے کے تھے؟

11/09/2025

ساس اور سسر کے لیے خاص تحائف اور حارث نے بھی مجھے بہت قیمتی تحفہ دیا۔

11/09/2025

Cute Anchor Saifullah Kaleem on my Wedding

11/09/2025

ڈاکٹر نبیہہ علی خان کی شادی

Address

Tucson, AZ
85641

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Nabiha Ali Khan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share