05/07/2025
کربلا۔۔۔ انتخاب کا معرکہ!!
بظاہر وہ تاریخ کے افق پر ایک شام خون آلود تھی...
ریت کا ہر ذرّہ سجدے میں گرا ہوا، اور وقت کا ہر لمحہ نوحہ خواں۔
کربلا میں تلواریں نہیں ٹوٹیں، ضمیر بیدار ہوئے۔ نیزے نہیں گرے، مگر خامشی نے چیخ ماری۔ یہاں موت نے جینا سکھایا، اور پیاس نے کردار کو وضو عطا کیا۔
کربلا میں صرف خنجر نہیں چلے، فیصلے ہوئے۔
فیصلہ یہ نہیں تھا کہ تلوار کسے کاٹے گی ؟
فیصلہ یہ تھا کہ کون سر جھکائے گا، اور کون قیامت تک سر بلند رہے گا۔
جب حرؓ نے راستہ بدلا، تو یہ صرف ایک سپاہی کا انحراف نہیں تھا، یہ ایک سماج کے بیدار ہونے کی گونج تھی۔
حرؓ نے ہمیں سکھایا کہ جب یزید ِوقت تمہیں صف میں کھڑا کرے ؛
اگر تمہارا ضمیر زندہ ہو،تو تم صفِ حسینؑ میں رہنا
چاہے تم پچھلے لمحے تک باطل کی چھاؤں میں ہی کیوں نہ رہے ہو۔
کربلا میں ووٹ نہیں تھے، مگر انتخاب تھا۔
کربلا میں بیلٹ باکس نہیں تھے، مگر ہر دل ووٹ ڈال رہا تھا۔ حسینؑ کے ساتھ، یا یزید کے ساتھ۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں کربلا سیاست سے بلند ہو کر ضمیر کا انتخاب بن گئی۔
آج کا یزیدہمیں قافلۂ حسینؑ کی طرف جانے سے روکتا ہمارے اندر حرؓ موجود ہے لیکن یزید دعوت دیتا ہے کہ آؤ،
ووٹ دو، تقریریں سنو، ترقیاں لو، اور
باطل کو طاقت دو۔یزید آج بھی کہتا ہے
"جو چاہو لے لو، بس میرے خلاف کھڑے نہ ہونا"
اور ہم... ہم کبھی خاموش ہو جاتے ہیں، کبھی نیوٹرل، کبھی مصلحت کے نام پر یزید کو ووٹ ڈال آتے ہیں۔
کربلا ہمیں چیخ کر کہتی ہے:
"خاموشی، مصلحت اور نیوٹرل ہونا — ظالم کو ووٹ دینے کے مترادف ہے!"
کیا تم نے دیکھا نہیں؟
خیمے جلے، بچے پیاسے مرے، مائیں تڑپیں،
لیکن ایک بھی سجدہ یزید کے نام پر نہ ہوا
ہمارا ووٹ بھی وہی فیصلہ ہے جو
حرؓ نے آخری لمحے میں کیا تھا۔
یا تم اپناووٹ یزید کو دو گے ,
یا حسینؑ کی صف میں کھڑے ہو کر،
وقت کو گواہ بنا کر کہو گے:
"میں نے ظالم کا انکار کیا ہے۔"
کربلا آج بھی جاری ہے۔
یزید آج بھی زندہ ہے، شکلیں بدل کر، نعروں میں لپٹ کر،
اور حسینؑ آج بھی تنہا ہے —
درست راستے پر، وعدے پر، سچائی پر۔
پمارا انتخاب باقی ہے... ظالم کو تخت دو گے؟
یا اپنا ووٹ، اپنا ضمیر، اپنا نام
کربلا کے قافلے میں شامل کرو گے؟
یہ دنیا آج بھی کربلا ہے... یہاں خاموشی جرم ہے، اور مصلحت بھی یزیدیت کا ایک چہرہ
فیصلہ کرو اور فیصلہ ایسا ہو جوکربلا کی
پیاس، لہو، اور استقامت کی لاج رکھ سکے۔
#محمدصغیرقمر