Prof-Muhammad Saghir Qamar

  • Home
  • Prof-Muhammad Saghir Qamar

Prof-Muhammad Saghir Qamar Inspirations and Innovations Columnist Daily "khabrain"

05/07/2025

کربلا۔۔۔ انتخاب کا معرکہ!!

بظاہر وہ تاریخ کے افق پر ایک شام خون آلود تھی...
ریت کا ہر ذرّہ سجدے میں گرا ہوا، اور وقت کا ہر لمحہ نوحہ خواں۔
کربلا میں تلواریں نہیں ٹوٹیں، ضمیر بیدار ہوئے۔ نیزے نہیں گرے، مگر خامشی نے چیخ ماری۔ یہاں موت نے جینا سکھایا، اور پیاس نے کردار کو وضو عطا کیا۔
کربلا میں صرف خنجر نہیں چلے، فیصلے ہوئے۔
فیصلہ یہ نہیں تھا کہ تلوار کسے کاٹے گی ؟
فیصلہ یہ تھا کہ کون سر جھکائے گا، اور کون قیامت تک سر بلند رہے گا۔
جب حرؓ نے راستہ بدلا، تو یہ صرف ایک سپاہی کا انحراف نہیں تھا، یہ ایک سماج کے بیدار ہونے کی گونج تھی۔
حرؓ نے ہمیں سکھایا کہ جب یزید ِوقت تمہیں صف میں کھڑا کرے ؛
اگر تمہارا ضمیر زندہ ہو،تو تم صفِ حسینؑ میں رہنا
چاہے تم پچھلے لمحے تک باطل کی چھاؤں میں ہی کیوں نہ رہے ہو۔
کربلا میں ووٹ نہیں تھے، مگر انتخاب تھا۔
کربلا میں بیلٹ باکس نہیں تھے، مگر ہر دل ووٹ ڈال رہا تھا۔ حسینؑ کے ساتھ، یا یزید کے ساتھ۔
یہی وہ نکتہ ہے جہاں کربلا سیاست سے بلند ہو کر ضمیر کا انتخاب بن گئی۔
آج کا یزیدہمیں قافلۂ حسینؑ کی طرف جانے سے روکتا ہمارے اندر حرؓ موجود ہے لیکن یزید دعوت دیتا ہے کہ آؤ،
ووٹ دو، تقریریں سنو، ترقیاں لو، اور
باطل کو طاقت دو۔یزید آج بھی کہتا ہے
"جو چاہو لے لو، بس میرے خلاف کھڑے نہ ہونا"
اور ہم... ہم کبھی خاموش ہو جاتے ہیں، کبھی نیوٹرل، کبھی مصلحت کے نام پر یزید کو ووٹ ڈال آتے ہیں۔
کربلا ہمیں چیخ کر کہتی ہے:
"خاموشی، مصلحت اور نیوٹرل ہونا — ظالم کو ووٹ دینے کے مترادف ہے!"
کیا تم نے دیکھا نہیں؟
خیمے جلے، بچے پیاسے مرے، مائیں تڑپیں،
لیکن ایک بھی سجدہ یزید کے نام پر نہ ہوا
ہمارا ووٹ بھی وہی فیصلہ ہے جو
حرؓ نے آخری لمحے میں کیا تھا۔
یا تم اپناووٹ یزید کو دو گے ,
یا حسینؑ کی صف میں کھڑے ہو کر،
وقت کو گواہ بنا کر کہو گے:
"میں نے ظالم کا انکار کیا ہے۔"
کربلا آج بھی جاری ہے۔
یزید آج بھی زندہ ہے، شکلیں بدل کر، نعروں میں لپٹ کر،
اور حسینؑ آج بھی تنہا ہے —
درست راستے پر، وعدے پر، سچائی پر۔
پمارا انتخاب باقی ہے... ظالم کو تخت دو گے؟
یا اپنا ووٹ، اپنا ضمیر، اپنا نام
کربلا کے قافلے میں شامل کرو گے؟
یہ دنیا آج بھی کربلا ہے... یہاں خاموشی جرم ہے، اور مصلحت بھی یزیدیت کا ایک چہرہ
فیصلہ کرو اور فیصلہ ایسا ہو جوکربلا کی
پیاس، لہو، اور استقامت کی لاج رکھ سکے۔
#محمدصغیرقمر

29/06/2025

عالمی نمبردار۔ خاموشی کا سامراج

دنیا کے نقشے پر ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے غزہ۔
نہ اس کے پاس کوئی ایٹم بم ہے، نہ جدید طیارے، نہ بحری بیڑے۔اس کے پاس صرف بیٹیاں ہیں، جن کے جھولے شہید ہو چکے؛اور مائیں ہیں، جو قبریں گنتے گنتے سو گئی ہیں۔مگر "عالمی نمبردار" کو غزہ کی یہ بیٹیاں دکھائی نہیں دیتیں۔اقوامِ متحدہ کا چارٹر روزِ اوّل سے "انصاف" اور "انسانی حقوق" کا علمبردار بنا، مگر جب فلسطینی بچے ملبے تلے دفن ہوتے ہیں، تب ویٹو کی صلیب پر انصاف کو مصلوب کر دیا جاتا ہے۔
اسرائیلی بمباری پر صرف "تشویش" ظاہر کی جاتی ہے، اور اگر کوئی ملک آواز بلند کرے تو اسے "دہشتگردوں کا ہمدرد" کہہ کر خاموش کرا دیا جاتا ہے۔یہ کیسا عدل ہے جو قاتل کا وکیل بن جائے؟یہ کیسا انصاف ہے جو مظلوم کی لاش پر خاموش کھڑا ہو؟
عالمی نمبردار کا میڈیا بڑا فنکار ہے۔جب ایک اسرائیلی سپاہی کوخراش لگ جاۓ تو اس کی تصویر بریکنگ نیوز بن جاتی ہے۔لیکن جب ایک فلسطینی ماں پانچ بیٹوں کی لاشوں پر بین کرتی ہے،تو کیمرہ رخ موڑ لیتا ہے،اور خبر یہ بنتی ہے:
"حم اس نے راکٹ داغے، اسرائیل نے جوابی کارروائی کی!"
کیا اس دنیا میں معصوم خون کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے؟
عالمی نمبردار نہ صرف خاموش تماشائی ہے، بلکہ کئی بار تو اس جنگ کا خفیہ مددگار بھی ہوتا ہے ۔فلسطینی بچوں کے قاتلوں کو اسلحہ بھی وہی دیتا ہے،حمایت بھی وہی کرتا ہےاور عالمی عدالت سے استثنیٰ بھی وہی دلواتا ہے۔
کیا یہ وہی دنیا ہے جو یوکرین کے لیے ماتم کرتی ہے؟
کیا غزہ کی مائیں کم انسان ہیں ؟کیا دنیا کو صرف تب ہوش آئے گا جب غزہ مکمل طور پر مٹ چکا ہو گا؟
کیا عالمی ضمیر صرف یورپ کے بچوں پر جاگتا ہے؟
کیا مسلمان کے بچوں کا خون اتنا سستا ہے کہ عالمی نمبردار اسے چند الفاظ سے بہا دے؟
اے عالمی نمبردار!
تُو زمین کا بادشاہ ہو سکتا ہے،
مگر تاریخ کا انصاف تُو خرید نہیں سکتا۔
دن آئے گا جب غزہ کی مٹی خود گواہی دے گی۔
دن آئے گا جب ٹوٹے جھولوں سے بھی صدائیں اٹھیں گی۔
اور اس دن نہ تیرا ویٹو کام آئے گا،
نہ تیرے ہتھیار۔
#محمدصغیرقمر

28/06/2025
26/06/2025

دنیا کے بڑے ممالک اگر واقعی انسانیت کے خیرخواہ ہوتے…
تو جنگیں ٹوئٹر پر ہوتیں، اور بچے میدانوں میں کھیلتے!
لیکن افسوس… یہاں بچے مرتے ہیں اور ٹرینڈز زندہ رہتے ہیں۔ 🧒📉💔

25/06/2025

"جوہری دُھواں اور سیاسی سناٹا"
تحریر: صغیر قمر

ایران پر حالیہ اسرائیلی اور امریکی حملوں نے مشرقِ وسطیٰ کے افق پر ایک بار پھر بارود کی بو بکھیر دی ہے۔ تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا—لیکن کیا نشانہ واقعی مؤثر تھا؟ کیا عمارتیں گر جانے کا مطلب پروگرام کا خاتمہ ہے؟ کیا تہران اتنا کمزور ہو گیا ہے کہ چند میزائلوں سے گھٹنے ٹیک دے؟
ایسا ہرگز نہیں۔

ایران کے صدر اور وزیر خارجہ کے بیانات گویا اس دُھند کو چیرتے ہوئے صاف پیغام دے رہے ہیں:
"جوہری پروگرام رکے گا نہیں، بڑھے گا۔" #
یہ بیان محض سیاسی لفاظی نہیں، بلکہ ایک حکمتِ عملی کا اظہار ہے۔ ان حملوں کے بعد جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ صرف بیانات تک محدود نہیں رہا۔ ایرانی پارلیمنٹ نے ایک غیرمعمولی قدم اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) سے تعاون معطل کرنے کا بِل منظور کر لیا ہے۔ اب یہ بِل گارڈین کونسل کے پاس جائے گا، جہاں اسے نہ صرف قانونی زاویے سے پرکھا جائے گا بلکہ "شرعی" اعتبار سے بھی جانچا جائے گا۔
اگر وہاں سے منظوری مل گئی تو بِل سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے دروازے پر دستک دے گا۔ وہاں سے اجازت ملی تو حکومت اس بِل کو باقاعدہ پالیسی کی صورت میں نافذ کر دے گی۔
یعنی ایران نے ایک مکمل آئینی و داخلی راستہ اختیار کرتے ہوئے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ "ہم دباؤ سے نہیں ڈرتے، بلکہ اپنی راہ خود متعین کرتے ہیں۔"
یہ لمحہ صرف ایران کے لیے نہیں، بلکہ پوری مسلم دنیا کے لیے ایک آئینہ ہے۔ کیا کسی اور مسلم ملک نے اپنے قومی مفاد کی خاطر عالمی اداروں سے علیحدگی کا حوصلہ دکھایا؟ کیا کسی اور نے اپنی سالمیت کے دفاع میں داخلی اتفاقِ رائے سے قدم بڑھایا؟
ایران پر چاہے جتنا بھی تنقید ہو، لیکن اس کی "مزاحمتی حکمت عملی" (resistance strategy) ایک الگ درس دیتی ہے۔ آج جب کہ دنیا طاقت کے مظاہرے کو انصاف کا پیمانہ بنا چکی ہے، ایران نے اصول کو ترجیح دی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل نے شاید یہ سوچا تھا کہ چند حملے تہران کو جھکا دیں گے۔ مگر وہ بھول گئے کہ ایران صرف میزائلوں سے نہیں، نظریے سے بھی مزاحمت کرتا ہے۔
اب سوال یہ نہیں کہ حملے کامیاب ہوئے یا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا جوہری دھواں چھٹنے کے بعد دنیا ایک اور غیر وابستہ، خودمختار اور مزاحمتی ملک کو قبول کر پائے گی؟

#محمدصغیرقمر

22/06/2025

ایران پر حملہ، امریکا کی سیاسی قبر کاکتبہ!!

دنیا کی سیاست میں بعض فیصلے تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں۔ کچھ فیصلے قوموں کو سربلند کرتے ہیں اور کچھ فیصلہ سازوں کو عبرت بنا دیتے ہیں۔ امریکا کا ایران پر حملہ بھی ایسا ہی ایک فیصلہ ہے، جسے تاریخ "عقل کے اندھوں کا اقدام" قرار دے گی۔
یہ حملہ صرف ایک خودمختار ریاست پر بمباری نہیں، بلکہ ایک نظریے، تہذیب اور صبر آزما قوم کے وقار پر حملہ ہے۔ ایران محض جغرافیہ نہیں، ایک مزاحمتی فکر ہے۔ وہ فکر جو کربلا سے جنم لیتی ہے، جو صبرِ سے طاقت پاتی ہے، اور جو مسلمانوں کے جذبوں کو جوان کرتی ہے، جو دنیا کو بتاتے ہیں کہ جنگوں میں صرف ہتھیار نہیں، ایمان بھی لڑتا ہے۔
امریکا جس غرور کے نشے میں ایران پر حملہ آور ہوا، وہ تاریخ کی سینکڑوں مثالوں کے باوجود زوال کی طرف اندھا سفر ہے۔ ویتنام سے افغانستان تک، امریکا نے سبق نہیں سیکھا۔ اس نے اپنی جنگیں بھاری بجٹ، تباہ کن ٹیکنالوجی اور بین الاقوامی لابیز کے سہارے لڑی ہیں، مگر وہ یہ بھول گیا کہ نظریہ بندوق سے نہیں مرتا۔ ایران ایک نظریہ ہے۔ وہ قوم جو چالیس سالہ پابندیوں، معاشی محاصروں، اور دھمکیوں کے باوجود جھکی نہیں، وہ ایک حملے سے کیسے جھک سکتی ہے؟
ایران پر حملہ دراصل پورے مشرقِ وسطیٰ کو جلانے کا آغاز ہے۔ یہ حملہ نہ صرف عالمی امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ امریکا کے اپنے وجود کے لیے بھی ایک دلدل ثابت ہو سکتا ہے۔ ایران کی سرزمین پر قدم رکھنا کسی جلتی ہوئی چنگاری پر پاؤں رکھنا ہے۔ اور امریکا کو یاد رکھنا چاہیے کہ آگ کا دائرہ، دشمن اور دوست میں فرق نہیں کرتا — سب کو لپیٹ لیتا ہے۔
ایرانی عوام اس حملے کو اپنی غیرت کا امتحان سمجھیں گے۔ انہیں یقین ہے کہ شہید زندہ رہتے ہیں، اور مزاحمت شکست نہیں کھاتی۔ یہ حملہ اگر کسی قوم کو ختم کر سکتا ہے تو وہ امریکا کی اخلاقی برتری ہے، جو پہلے ہی انسانی حقوق کی پامالی، فلسطین و کشمیر پر منافقت، اور اقوام متحدہ کے قوانین کو روندنے کی شکل میں کئی بار دفن ہو چکی ہے۔
یہ جنگ صرف میزائلوں اور ڈرونز کی جنگ نہیں ہو گی۔ یہ ارادوں، اصولوں اور روح کی جنگ ہو گی۔ اور روح ہمیشہ فولاد سے زیادہ مضبوط ثابت ہوتی ہے۔
امریکا اگر اب بھی سنجیدہ ہے، تو وہ جنگ کی راہ چھوڑ کر بات کی راہ اپنائے۔ بصورتِ دیگر، یہ حملہ اس کی سیاسی قبر کا کتبہ ثابت ہو گا۔
#محمدصغیرقمر

02/06/2025

I gained 54,969 followers, created 101 posts and received 283 reactions in the past 90 days! Thank you all for your continued support. I could not have done it without you. 🙏🤗🎉

02/06/2025

سید علی گیلانی کے نام‼
اے چراغِ شبستانِ حریت!
اے سایہ کوہِ ہمالیہ!
اے وہ صدا، جو وادی میں اذان بن کر گونجی،
اے وہ روح، جو ظلمتوں میں ضمیرِ امت کو جگاتی رہی
یہ خط، ہوا کے دوش پر،
آپ کی قبر پر رکھے اس تنہا پتھر کی طرف بڑھ رہا ہے
جسے دشمن نے دیواروں میں چھپایا،
اور ہم نے دلوں میں بسایا۔
گیلانی صاحب!
جب آپ کی آنکھیں بند ہوئیں،تو جیسے کشمیر کی گھاٹیوں نے سانس لینا چھوڑ دیا،اور چشموں نے رواں ہونا ترک کر دیا۔
پرندے خاموش ہو گئے،اور اذان کے الفاظ تھر تھرا گئے۔مگر آپ کی ''لا الہ الا اللہ'' کی للکار،اب بھی آسمانِ حریت میں گونجتی ہے۔
آپ کی یاد میں پہاڑوں پر دھند کچھ دیر رکی،درختوں نے سر جھکایا،اور قیدی پرندوں کی چیخوں نے ظلم کے قصر ہلا دیے۔
مجھے یاد ہے،جب آپ نے کہا تھا:”ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے''
تو اس دن کشمیر کے بچے،نعرہ بن گئے تھے اور قبریں بھی مسکرا اُٹھی تھیں۔
گیلانی صاحب!ہم نے آپ کے جنازے پر نعرے نہیں لگائے،نہ شعلے برسائے،ہم نے صرف خاموشی سیاپنی پلکوں پر ایک وعدہ لکھا:
کہ ہم آپ کی راہ کے چراغ بنیں گے۔اب ہر بچہ اپنے اسکول بیگ میں ''حریت'' چھپا کر جاتا ہے،ہر ماں اپنی لوریاں ”آزادی'' کے لفظ سے شروع کرتی ہے،
اور کشمیر کی مٹی اپنی خوشبو میں آپ کی قربانیوں کو سنبھالے ہوئے ہے۔
ہم جانتے ہیں،آپ کی قبر پر بھی پہرہ ہے،مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جس قبر پر ایمان پہرہ دیتا ہے،وہ مٹی کبھی بے وفانہیں ہوتی۔
گیلانی صاحب!
آج کشمیر آپ کو آواز دیتا ہے،پھولوں کی نہیں،آنسوؤں کی خوشبو میں لپٹی دعاؤں کے ساتھ۔اور کہتا ہے:
''اب ہم وہ خواب نہیں جنہیں دشمن مسل دے،ہم وہ چراغ ہیں جنہیں آپ نے جلایا ہے۔''اللہ آپ کوشہداء کے قافلے میں وہ مقام دے جہاں جنت کی ہوائیں
آپ کے الفاظ سے مہکیں۔اور ہم…
آپ کے قول پر قربان ہونے کو تیار ہیں۔

والسلام،
آپ کی وادی کا زخمی لیکن زندہ رہنے والا سپاہی

Address

OH

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Prof-Muhammad Saghir Qamar posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Prof-Muhammad Saghir Qamar:

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share