14/11/2025
ستائیسویں آئینی ترمیم کے بعد فیلڈ مارشل سید عاصم منیر صاحب کی مدت ملازمت میں اضافہ ہوا جبکہ اب لگ یہی رہا ہے کہ جب تک عمران خان صاحب کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے اس کو قید میں رکھا جائے گا۔
آئینی ترمیم کی منظوری کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان کے دو ججز جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس اطہر من اللہ
نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا ہے لیکن بے سود۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس ائینی ترمیم کا عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہیں۔
ڈیوائڈ اینڈ رول والا قصہ ہے پاکستان بننے سے پہلے شروع ہوا تھا اور اب بھی جاری ہے۔
دو ہزار 13 میں نوازشریف کو حکومت ملی، عمران خان دھرنے پر بیٹھ گئے، 126
دن دھرنا دیا، دھرنے میں امپائر کی انگلی کا ذکر کرتے جس کا اس وقت ہمیں سمجھ نہیں تھا لیکن بعد میں پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنماء جاوید ہاشمی صاحب جس نے جمہوریت کے لیے بے تحاشا قربانیاں دی ہے وہ عمران خان صاحب سے ناراض ہوئے اور پارٹی سے باغی ہو گیا، ان کا موقف تھا کہ عمران خان دھرنے میں ہر دن مجھ سے کہتے تھے کہ آج رات امپائر انگلی اٹھائے گا، وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے عمران سے پوچھا کون امپائر؟ تو اس نے اپنے شولڈرز پر انگلیاں رکھے کہ وہ یعنی ان کا مرادکوئی جنرل تھا، جس کے بعد میں نے عمران خان کو چھوڑ نے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ دھرنا صرف اس وجہ سے کامیاب نہیں ہوا کہ عمران خان صاحب کو ڈی چوک میں جتنے لوگ لانے کا کہا گیا تھا وہ تعداد پوری نہیں ہو رہی تھی اور یہ نواز شریف کی خوش قسمتی کی اس کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کے خواہش کے باوجود نہیں گری۔
دو ہزار 16 میں جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے آرمئ چیف کا حلف آٹھایا 2019
میں ان کی مدت ملازمت ختم ہو رہی تھی، پلان یہ بنا کہ نوازشریف کو 2018 کی عام انتخابات سے پہلے سیاسی میدان سے آوٹ کیا جائے اس کے بعد شاہ صاحب کو ایکسٹینشن مل جائے گی، 2017 میں نواز شریف پر مختلف کیسز بننا شروع ہوئے، آف شور کمپنیاں، لندن پلیٹ اور پھر بالااخر اس کو اس پر نااہل کیا گیا کہ نواز شریف ایک کمپنئ کے ملازم تھے تو اس کمپنی کے تنخواہ کے حوالے سے اس نے سچ نہیں بولا، اس وجہ سے منتخب وزیراعظم کو ہٹایا گیا اور نہ صرف ہٹایا گیا بلکہ اس کو تاعمر نااہل کیا گیا، نوازشرئف نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور عمران خان صاحب وزیراعظم بنے۔ نومنتخب وزیراعظم عمران خان صاحب نے 2019 میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو مزید تین سال کے لیے ایکٹینشن دیا۔
نومبر 2022 میں جنرل قمرباجوہ صاحب ریٹائرڈ ہونے والے تھے اور اپریل میں عمران خان کیخلاف کیسز بننا شروع ہوئے، ہوائیں اس کی مخالف سمت چلنے لگی اور ایکسٹینشن پانے والے آرمی چئف کے ریٹارئرمنٹ سے محض چند مہینے پہلے عمران خان کی حکومت عدم اعتماد کے زریعے ختم کی گئی، وہی عمران خان جو جنرل باجوہ کی تعریفیں کرتا تھا اب اسے منافق اور جھوٹا کہنا لگا لیکن اب سب بے معنی تھا۔
وہی عدالتیں جنہوں نے نوازشریف کو قصوروار ٹھہرایا تھا اب ایک ایک کیس میں نوازشریف کو معصوم اور بے گناہ قرار دے رہے تھے، تاریخ کا متنازعہ ترین چیف جسٹس میاں ثاقب نثار عمران کی ٹیم میں تھا جبکہ عمران خان کی دور حکومت میں تعصب کا نشانہ بننے والے جج فائز عیسی صاحب اب چیف جسٹس آف پاکستان تھے اور اس کی فیصلوں سے یہی تاثر مل رہی تھی کہ اب وہ نوازشریف کی ٹیم میں شامل ہوئے ہیں، سابقہ ڈی جی آئی ایس ائی جس کو آرمئ چیف لانے کے لیے عمران خان صاحب جنرل عاصم منیر کی سنیارٹی کو نظرانداز کرنا چاہتے تھے اب وہ آرمی چیف بن گئے ہیں اور وہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کو کسی قسم کا کوئی رعایت دینا حرام سمجھتے ہیں۔
کہنے کا مطلب ہے کہ یہاں عدالتیں بھی بکتی ہے، جنرلز بھی بکتے ہیں اور منتخب وزراء اعظم بھی بکتے ہیں۔
ہم عوام بے وقوف ہے، ادھے ایک فریق کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ادھے دوسرے فریق کے ساتھ، ادھے عوام ایک فریق کو صادق اور امین سمجھتے ہیں جبکہ ادھے عوام دوسرے فریق کو صادق اور آمین سمجھتے ہیں، ہم نے کبھی غلط کو غلط کہا نہیں ہے اور نہ ہی ہم میں اتنا سیاسی شعور ہے کہ اس تفریق کو سمجھے، اس طرح حکمرانوں کی حکمرانی چلتی ہے اور ہم عوام کا وقت گزرتا رہتا ہے