
15/04/2025
تماشبین بندر اور لڑتے شیر
گھنے جنگل میں ایک دن شیر کے دو گروپوں کے درمیان خوفناک لڑائی چھڑ گئی۔ دونوں گروپوں میں برسوں پرانی دشمنی چلی آ رہی تھی، اور آخر کار وہ دن آ گیا جب صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔
جنگل کی خاموشی دھاڑوں سے گونج اٹھی۔ پنجوں کی چوٹ، دانتوں کی چرچراہٹ، اور زمین پر گرتی جھاڑیوں کی آوازیں پورے علاقے میں پھیل گئیں۔ خون کے چھینٹے فضا میں اڑ رہے تھے، اور کئی شیر بری طرح زخمی ہو گئے۔
لیکن جنگل کے ایک اونچے درخت پر بندروں کا ایک گروہ بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا۔ وہ نہ لڑائی روکنے گئے، نہ کسی طرف کا ساتھ دیا، بس آم کھاتے ہوئے مزے سے نیچے کا منظر دیکھتے رہے۔
“واہ، دیکھو اس نے کیسی زور سے مارا!” ایک بندر تالیاں بجاتے ہوئے بولا۔
“اگر میں شیر ہوتا نا، تو سیدھا گلے پر وار کرتا!” دوسرا بولا، جھولا لیتے ہوئے۔
جب لڑائی ختم ہوئی، کچھ شیر مر چکے تھے، کچھ لہولہان زمین پر پڑے تھے، اور باقی ادھ موئے واپس اپنے اپنے علاقے لوٹ گئے۔ تب بندر نیچے اترے، زخمی شیروں کے قریب جا کر بڑے فخر سے بولنے لگے:
“تم لوگوں نے غلط حکمتِ عملی اپنائی۔ اگر تم نے ہمیں پہلے مشورہ لیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا!”
ایک اور بندر بولا، “تم سب بزدل ہو، لڑنا نہیں آتا، صرف دھاڑنا جانتے ہو!”
زخمی شیر ان کی طرف دیکھتے تو تھے، مگر بول کچھ نہ سکے۔ وہ جانتے تھے کہ جو لڑائی کے وقت تماشا دیکھے، وہ کبھی لڑنے والوں کا دکھ نہیں سمجھ سکتا۔
سبق:
زندگی میں وہ لوگ جو مشکل وقت میں تماشائی بنے رہتے ہیں، اکثر بعد میں مشورے دے کر خود کو عقل مند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اصل ہمدرد وہی ہوتے ہیں جو میدان میں ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، چاہے زخمی ہی کیوں نہ ہوں۔