Parwaaz

Parwaaz Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Parwaaz, Digital creator, .

ایک نوجوان ہسپانوی خاتون نے “اللہ” کے معنی بیان کیے، جب عرب ایسا کرنے میں ناکام رہے!یہ نوجوان ہسپانوی خاتون اس وقت اردن ...
18/08/2025

ایک نوجوان ہسپانوی خاتون نے “اللہ” کے معنی بیان کیے، جب عرب ایسا کرنے میں ناکام رہے!
یہ نوجوان ہسپانوی خاتون اس وقت اردن کی یرموک یونیورسٹی میں عربی زبان میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔ ایک دن، دوسرے سال کی کلاس کے دوران، پروفیسر فخری قطانہ نے اپنے طلبہ سے سوال کیا:
“تم میں سے کون اللہ کے نام کے بارے میں معجزاتی اور صوتی لسانی نقطہ نظر سے کچھ بتا سکتا ہے؟”
کسی نے ہاتھ نہیں اٹھایا، سوائے ایک نوجوان ہسپانوی خاتون کے، جس کا نام ہیلن تھا۔ وہ ہسپانوی اور مسیحی ہونے کے باوجود فصیح عربی بولتی تھی۔ اس نے کہا:
“عربی زبان میں سب سے خوبصورت لفظ جو میں نے پڑھا ہے، وہ ‘اللہ’ ہے۔ اس نام کا تلفظ انسانی زبان میں ایک منفرد موسیقیت رکھتا ہے، کیونکہ اس کے تمام حروف حلق سے ادا ہوتے ہیں، نہ کہ ہونٹوں سے۔
یہ الٰہی نام ہونٹوں سے ادا نہیں ہوتا، کیونکہ اس میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔ اب ‘اللہ’ کا تلفظ کریں اور سمجھیں کہ آپ اسے کیسے ادا کرتے ہیں!
آپ اس کے حروف کو اپنے حلق کے پچھلے حصے سے ادا کرتے ہیں، بغیر ہونٹوں کو حرکت دیے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص ‘اللہ’ کا ذکر کرنا چاہے تو اس کے آس پاس کے لوگ اسے محسوس بھی نہیں کر سکتے۔”
انہوں نے مزید کہا:
“اس نام کا ایک اور معجزاتی پہلو یہ ہے کہ اگر اس کے کچھ حروف نکال دیے جائیں، تب بھی اس کا مطلب باقی رہتا ہے۔
• جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ الٰہی نام عمومی طور پر ‘اللّٰهُ’ (Allahُ) کے ساتھ بولا جاتا ہے۔
• اگر ہم پہلا حرف (الف) ہٹا دیں، تو یہ ‘لِلّٰهِ’ (Lillah) بن جاتا ہے، جیسا کہ قرآن کی اس آیت میں ہے:
﴿وَلِلَّهِ ٱلۡأَسۡمَآءُ ٱلۡحُسۡنَىٰ فَٱدۡعُوهُ بِهَاۖ﴾
(اور اللہ ہی کے لیے سب اچھے نام ہیں، سو ان سے اسے پکارو۔) (سورۃ الأعراف: 180)
• اگر ہم ‘الف’ اور پہلا ‘لام’ ہٹا دیں، تو یہ ‘لَهُ’ (Lahu) رہ جاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:
﴿لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَمَا فِى ٱلۡأَرۡضِۗ﴾
(جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ سب اسی کا ہے۔) (سورۃ البقرہ: 255)
• اگر ہم پہلے ‘الف’ اور دوسرا ‘لام’ بھی ہٹا دیں، تو صرف ‘هُوَ’ (Hu) بچتا ہے، جو پھر بھی اللہ کی طرف اشارہ کرتا ہے، جیسا کہ یہ ذکر ہے:
﴿هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِي لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ﴾
(وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔) (سورۃ الحشر: 22)
• اگر ہم پہلا ‘لام’ ہٹا دیں، تو یہ ‘إِلَـٰه’ (Ilah) بن جاتا ہے، جیسا کہ آیا ہے:
﴿ٱللَّهُ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلۡحَىُّ ٱلۡقَيُّومُ﴾
(اللہ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو زندہ ہے، جو سب کا تھامنے والا ہے۔) (سورۃ البقرہ: 255)
*“اللہ” کے نام کا علمائے کرام نے گہرائی سے مطالعہ کیا ہے۔ توحید کا جملہ ‘لَا إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّه’ (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) تین حروف پر مشتمل ہے: الف، لام اور ہاء۔ یہ ہلکے حروف ہیں، جو ہونٹوں کی حرکت کے بغیر ادا کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید وضاحت کی:
“کیا آپ جانتے ہیں کیوں؟ تاکہ جب کوئی شخص مرنے کے قریب ہو، تو وہ اسے ہونٹوں یا دانتوں کو حرکت دیے بغیر آسانی سے ادا کر سکے۔”
آج، ہیلن کو ‘عابدہ’ (عبادت گزار) کہا جاتا ہے۔
“ہم عرب مسلمان ہونے پر فخر کرتے ہیں، لیکن ہم اللہ کے نام کی وضاحت نہیں کر سکے۔ اسے اسلام کی مبارک ہو۔”
“ہم ایسے پیغامات کیوں حذف کر دیتے ہیں جو دین کے بارے میں ہوتے ہیں، لیکن عام پیغامات کو مسلسل آگے بھیجتے ہیں؟ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
﴿بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً﴾
(مجھ سے (دین) پہنچاؤ، چاہے ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔) (بخاری: 3461)
“شاید اس پیغام کو کسی تک پہنچانے سے، آپ وہ آیت منتقل کریں جو قیامت کے دن آپ کے حق میں سفارش کرے۔”
آخر میں:
﴿لَا إِلَـٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِ﴾
(اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔)♥️❣️🌷🎖

لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے بنیں مشکلات پیدا کرنے والے نہیں۔ہر انسان کی زندگی ڈھیروں مسائل میں گھری ہوئ ہے اس پر...
18/08/2025

لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے بنیں مشکلات پیدا کرنے والے نہیں۔ہر انسان کی زندگی ڈھیروں مسائل میں گھری ہوئ ہے اس پر اور گرہیں باندھ کر مزید نہ الجھائیں۔ٹھیک ہے آپ کی زندگی کا ایک حصہ بہت سی محرومیوں کی نذر ہو گیا جس پر آپ کو رنج ہے لیکن اگر کوئ دوسرا اپنی زندگی کا وہی حصہ مکمل طور پر جی رہا ہے تو کیا ضروری ہے کہ اس سے حسد کیا جائے؟ جس طرح آپ پر برا وقت آتا ہے اور آپ بے بسی کی تصویر بنے کچھ نہیں کر پاتے اسی طرح لوگوں کی حصے کی آسانیاں بھی انہیں مل کر رہیں گی۔پھر چاہے آپ لاکھ چیخیں،چلائیں،احتجاج کریں سب بیکار۔۔
اپنا ظرف اونچا رکھیں خیر ہوگی ورنہ پھر اللہ کے حوالے🤍

مشکل کی اس گھڑی میں آپ لوگوں نے جس طرح سے ہماری ڈھارس بندھائی، ہمیں ہمت دی اور اپنی پُرخلوص دعاؤں میں یاد رکھا، اور بے ش...
18/08/2025

مشکل کی اس گھڑی میں آپ لوگوں نے جس طرح سے ہماری ڈھارس بندھائی، ہمیں ہمت دی اور اپنی پُرخلوص دعاؤں میں یاد رکھا، اور بے شمار احباب بذاتِ خود ہمارے یہاں تشریف لائے۔
بخدا آپ کی لازوال محبت دیکھ کہ آنکھیں نَم ہیں۔
شدید مالی نقصان کے باوجود ہم خداوند کریم کا شکر بجا لاتے ہیں کہ ہم سب کی جانیں محفوظ ہیں۔ الحمداللہ 🙏

آئیبکس کاٹیج ہوٹل یا بزنس پوائنٹ نہیں بلکہ یار لوگوں کے لئے اک گھر اور والد محترم اور انکے رفقاءکے لئے ریٹائرمنٹ کے بعد وقت گزاری کا بہترین ٹھکانا تھا۔
ہم سے زیادہ لوئر نیلم ویلی کے باسیوں کی یادیں آئیبکس کاٹیج سے جُڑی ہونگی۔

خیر۔۔۔ ہم خدا کی رضا میں ہی راضی ہیں ۔
آپ لوگوں کا دِل سے بہت شکریہ ۔۔۔۔۔❤️❤️

وللہ کچھ ملال نہیں ، پہلے بھی ہم نے زیرو سے ہی شروع کیا تھا، پھر سے کرلیں گے۔
پھر سے یہاں رونقیں لگیں گی،پھر سے آپ کے ساتھ یہاں بیٹھ کہ چائے پئیں گے، پھر سے روشنیاں ہوں گی۔
انشاءاللہ زندگی اک بار پھر سے مسکرائے گی

انشاءاللہ ❤️

یرا بیٹا نیا نیا اسکول میں داخل ہوا تو میں نے اس سے پوچھا :" بیٹا آپ کے ماسٹروں کے کیا نام ہیں "وہ کہنے لگا۔۔۔ " کون سے ...
18/08/2025

یرا بیٹا نیا نیا اسکول میں داخل ہوا تو میں نے اس سے پوچھا :
" بیٹا آپ کے ماسٹروں کے کیا نام ہیں "
وہ کہنے لگا۔۔۔ " کون سے ماسٹر ابو ؟ "
میں نے کہا " بیٹے وہی ماسٹر جو آپ کے اسکول میں ہوتے ہیں "
" نہیں ابو ہمارے اسکول میں تو کوئی ماسٹر نہیں ہوتے " وہ بولا ۔
ہائیں ! " غضب خدا کا اسکول میں ماسٹر نہیں ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے "
" کہہ جو رہا ہوں کہ ہمارے اسکول میں ماسٹر نہیں ہیں "
" ماسٹر نہیں ہیں تو پھر تمھیں پڑھاتا کون ہے ؟ "
" ہمیں ٹیچر پڑھاتے ہیں "
" اچھا ۔۔۔۔۔۔ بہت خوب ۔۔۔۔ بہر حال آپ کے اسکول میں ہیڈ ماسٹر ہو گا "
" وہ بھی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ ہمارے پرنسپل ہیں "
تھوڑی دیر کے بعد میرا بیٹا کہنے لگا :
" ابو آپ کے زمانے میں تو ماسٹر ہوا کرتے تھے ناں تو ماسٹر اور ٹیچر میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ "
میں نے کہا ۔۔ " بھئی ماسٹر اور ٹیچر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
ماسٹر ہوتا ہے شلوار قمیص پہنے اوپر سے بند گلے کی واسکٹ ، سائیکل تھامے ، ہینڈل پر تھیلا لٹکائے ۔
خواہ مخواہ بچوں کو پڑھاتا رہتا ہے ۔ ٹیوشن نہیں پڑھاتا ۔
اب ٹیچر کے بارے میں تو تم ہی بتا سکتے ہو ہو کہ ٹیچر کیا ہوتا ہے ۔ ؟
" ابو ہمارا ٹیچر تو سوٹ پہنتا ہے اور اس کے پاس مائیکل جیکسن کی ڈھیر ساری کیسٹس ہیں ۔ "
" بس یہی فرق ہے ماسٹر اور ٹیچر میں "
آٹھویں جماعت میں ہمارے حساب کے استاد ماسٹر نادر خان تھے بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دراصل نادر شاہ ہیں ۔
ورینکلر فائنل کا امتحان سر پر آیا تو ماسٹر نادر خان کو بخار چڑھ گیا وہ دن رات ایک کر کے طالب علموں کو پڑھانے لگے ۔ رات کی کلاسیں اس طرح شروع ہوئیں کہ ایک روز ماسٹر صاحب نے چھٹی کے وقت حکم دیا کہ آج سے تمام لڑکے شام کا کھانا کھا کر سیدھے اسکول آئیں اور یہاں پر تین گھنٹے مزید پڑھائی ہو گی ۔
میں کھڑا ہو گیا :
" جناب ماسٹر صاحب جیسا کہ آپ جانتے ہی آج کل سردیوں کا زمانہ ہے سردی بہت ہے ہم چھوٹے چھوٹے بچے کس طرح اسکول پہنچیں گے "
" نہیں پہنچیں گے تو اگلے دن بیس بیس بید کھائیں گے چھوٹے چھوٹے بچے " ۔۔۔ ماسٹر صاحب گرج کر بولے ۔
" میں جی پھر کمبل لے آؤں ساتھ ۔۔۔۔ " میں نے گزارش کی ۔
" تو کمبل چھوڑ رضائی لے آنا ۔۔۔۔ پر آ جانا ورنہ " وہ بھنا گئے ۔
اس شام کھانے کے بعد میں نے گھر کی سب سے طویل و عریض رضائی سائکل کے کیرئیر پر باندھی اور اسکول پہنچ گیا ۔ شام کی نشست کے لئے کمرے میں سے ڈیسک اور کرسیاں وغیرہ اٹھا کر صفیں بچھا دی گئی تھیں اس لئے میں نے آرام سے ایک کونے میں رضائی رکھی اور اسے اوڑھ کر بڑے مزے سے ٹیک لگا کر براجمان ہو گیا ۔
ماسٹر نادر کمرے میں داخل ہوئے طالب علموں کی تعداد دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ بلیک بورڈ صاف کر کے اس پر کچھ سوال لکھنے لگے تو ان کی نظر مجھ پر پڑی ۔
" اوئے تو حقہ پینے آیا ہے یہاں مستنصر ۔۔۔۔۔۔۔ یہ رضائی کس کی ہے ؟ "
میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے کہا :
" ماسٹر صاحب میری ہے اور آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ تو کمبل چھوڑ رضائی لے آنا ۔ "
ماسٹر صاحب کے چہرے کی رنگت بدلی دانت کچکچائے لیکن وہ کچھ بولے نہیں اور نظریں نیچی کر کے پڑھانے لگے چونکہ سردی تو تھی اس لئے آہستہ آہستہ باقی لڑکوں کی ٹانگیں اور ہاتھ میری رضائی کی گرمی میں پہنچنے لگے تھوڑی دیر بعد نصف سے زیادہ کلاس میری رضائی سے لطف اندوز ہو رہی تھی ۔
اس موقع پر ماسٹر نادر خان نے بلیک بورڈ پر الجبرے کا ایک سوال لکھا :
" آہاں رضائی والے باو نکال یہ سوال "
اب ظاہر ہے یہ صریحاً خود کشی کی دعوت تھی میں نے رضائی کو اپنے آپ سے علیحدہ کیا اس سوال کو دیکھا جو میری موت تھا ۔ ماسٹر نادر کے ہاتھ میں پکڑے بید کو دیکھا جو میرا منتظر تھا اور بلیک بورڈ کی جانب آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگا یہی وہ لمحہ تھا جب پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت نوازش کو کمرے میں روشن بجلی کے واحد بلب کے بٹن کو آف کر دینا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ عین اس وقت جب میں تختہ دار پر چڑھنے کو تھا روشنی گل ہو گئی اور دھما چوکڑی مچ گئی ۔ ماسٹر صاحب اپنا بید اٹھائے اندھیرے میں ہی حساب کتاب لگاتے مجھ پر وار کرنے لگے لیکن میں واپس اپنی رضائی میں پہنچ چکا تھا جس کی دبیز تہیں میرے لئے ڈھال کا کام دے رہی تھیں ۔ اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بیشتر لڑکے کھسکتے کھسکتے کلاس روم سے بھاگ گئے اور ان میں ، میں بھی شامل تھا اپنی رضائی سمیت ۔۔۔۔۔۔
بہت عرصے بعد ایک روز میری دکان پر ایک بوڑھا شخص آیا جس کی مونچھیں مردہ ہو چکی تھیں آواز میں تھرتھراہٹ تھی اور آنکھیں بجھ رہی تھیں میں نے ہاتھ آگے کیا تو اس نے مجھے گلے لگا لیا ۔
" مستنصر میں بڑے فخر سے لوگوں کو کہتا ہوں کہ تو میرا شاگرد ہے " ۔۔میری آنکھوں میں نمی کی ہلکی تہہ اتر آئی ۔ یہ ماسٹر نادر خان تھے
ہاں ماسٹر اور ٹیچر میں بہت فرق ہوتا ہے ۔
مستنصر حسین تارڑ کی کتاب " گزارا نہیں ہوتا" سے اقتباس.

*🌧️ بادل پھٹ گئے مگر آنکھیں نہ پھٹیں 🌧️  انا للہ وانا الیہ راجعون* 🤲*پاکستان کے گوشے گوشے میں بادل پھٹ رہے ہیں، کہیں زمی...
18/08/2025

*🌧️ بادل پھٹ گئے مگر آنکھیں نہ پھٹیں 🌧️ انا للہ وانا الیہ راجعون* 🤲
*پاکستان کے گوشے گوشے میں بادل پھٹ رہے ہیں، کہیں زمین لرز رہی ہے، کہیں پہاڑ سرک رہے ہیں، کہیں پھتر پانی کی طرح بہہ رہے ہیں اور کہیں بڑے بڑے درخت تنکوں کی طرح بہہ رہے ہیں، کہیں لاشیں اٹھائی جا رہی ہیں، مگر ہماری آنکھوں سے آنسو نہیں بہہ رہے۔ ہم آفاتِ کو بھی مفاد پرستی، سیاست، اور پیسہ کمانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں*
*کہاں ہیں وہ رہبر و مبلغ علماء کرام جو قوم کو رب کی طرف پلٹنے کی دعوت دیں؟؟؟*
*قوم قبیلہ پرستی، نفرت اور مفاد پرستی میں ڈوبی ہوئی ہے، علماء و صوفیاء دنیا داری میں لگے ہیں*
*حکمران سود و مادیت کی دوڑ میں فنا ہیں*
*صحافت اللہ کے عذاب سے مناظر بیچ کر کما رہی ہے*
*یہ بادلوں کا پھٹنا، پہاڑوں کا سرکنا اور لاشوں کا بہنا اللہ کی ناراضگی کے سوا کچھ نہیں۔ مگر ہم پھر بھی رو نہیں رہے، استغفار سے غافل ہیں۔ علاج ایک ہی ہے: ہر فرد اپنے گناہوں کی معافی مانگے، اللہ کے خوف سے جب آنکھوں سے پانی بہتا ہے پھر عذاب کی شکل میں نہیں بہتا*
*یا رب! ہمارے حال پر رحم فرما، دلوں کو نرم کر دے، حلال رزق عطا فرما، فتنوں اور نفرتوں سے بچا، امت کو ایک کر دے، اور ایسے حکمران عطا فرما جو رحم دل ہوں۔ یا اللہ ہمیں وہ آنکھیں دے جو تیرے خوف سے روئیں اور وہ زبان دے جو کلمہ طیبہ پر جم جائے*
*آمین یا رب العالمین*
🚨 *اس وقت کرنے والے کام* :-👇
نماز کی پابندی،
قرآن کی تلاوت،
استغفار کی کثرت،
جھوٹ کا چھوڑنا،
حلال رزق کمانا وغیرہ

بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے ات...
18/08/2025

بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ
ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔
ایک بوڑھے نے اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے بتایا: ہم نے ملک کے مسائل حل کرنے کیلئے ایک شاندار منصوبہ ڈھونڈ لیا ہے ۔۔۔
اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ
ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا بھی جیل میں ڈالا جائے۔
راہگیر نے حیرت سے دونوں کو دیکھا اور پوچھا: وہ تو ٹھیک ہے مگر ساتھ گدھے کو کیوں قید کیا جائے؟
دونوں بوڑھوں نے فلک شگاف قہقہہ لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھا، اور
ایک بوڑھے نے دوسرے سے کہا: دیکھا رحیمے: آگیا یقین تجھے میری بات پر ، میں نہیں کہتا تھا کہ
یہ قوم اپنے بارے کبھی پریشان نہیں ہو گی، سب کو بس گدھے کی ہی فکر ہو گی...

پاکستان کے عوام کی قسمت میں شاید یہی لکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے خاندان ڈوب جائیں، زندگیاں اجڑ جائیں اور بستیاں ویران ہو...
17/08/2025

پاکستان کے عوام کی قسمت میں شاید یہی لکھ دیا گیا ہے کہ خاندان کے خاندان ڈوب جائیں، زندگیاں اجڑ جائیں اور بستیاں ویران ہو جائیں۔ کبھی پہاڑ سے مٹی کے تودے سب کچھ لپیٹ لے جاتے ہیں، کبھی بارش کا ریلہ گھروں کی بنیادیں بہا کر لے جائے ۔ ان کے لیے نہ کوئی پختہ نظام ہے، نہ کوئی منصوبہ بندی، نہ زندگی کی آسانیاں۔ ہر بار کہانی وہی دہرا دی جاتی ہے، متاثرہ خاندانوں کو اتنے لاکھ روپے امداد ۔۔۔۔ یہ امداد زندگیاں اور ہنستے بستے گھر واپس لا سکتی ہے ؟ جس کے بال بچے اور مویشی اب مت گئے وہ آپ کے پانچ لاکھ کا کیا کرے گا ؟ اس قوم کو امداد نہیں منصوبہ بندی اور انتظام سے بچاؤ ۔۔۔ مگر کون بچائے ؟
جن کے محل محفوظ ہیں انہیں کیا خبر پانی کے ریلے میں بہنے والی چیخ کتنی بھیانک ہوتی ہے ۔۔ ملبے سے لاشیں تلاش کرنے والے خود لاش بن جاتے ہیں۔

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

ایک صاحب کی بڑی بیٹی بتا رہی تھیں کہ دو دن پہلے ابو نے کسی لہر میں آ کر امی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی جوانی میں ایک معاش...
17/08/2025

ایک صاحب کی بڑی بیٹی بتا رہی تھیں کہ دو دن پہلے ابو نے کسی لہر میں آ کر امی کو بتایا کہ انہوں نے اپنی جوانی میں ایک معاشقہ بھی کیا تھا تاہم وہ بری طرح ناکام رہا۔ مگر انہوں نے اس کسک کو دور کرنے کیلیئے اپنی بڑی بیٹی یعنی کہ میرا نام اپنی محبوبہ کے نام پر رکھا تھا۔
بچی بتا رہی تھی کہ بات مذاق میں تھی اور مذاق مذاق میں ہی آئی گئی ہو گئی تھی، ویسے تو گھر ویسا ہی ہے اور کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہو رہی ماسوائے اس کے کہ:
اب جب بھی امی مجھے بلاتی ہے تو آواز دیتے ہوئے یوں کہتی ہے : ایدھر آ نی کُتیئے!
😂😂

زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے،2000 کے بعد پیدا ہونے والی جنریشن بدقسمتی سے اس لذت، سکون اور محبت سے محروم رہی جو نوے کی ...
17/08/2025

زندگی تیز بہت تیز چلی ہو جیسے،
2000 کے بعد پیدا ہونے والی جنریشن بدقسمتی سے اس لذت، سکون اور محبت سے محروم رہی جو نوے کی دہائی کی جنریشن کو ملی، ہم نے زندگی کے اصل رنگ اپنی آخری ہچکیاں لیتے ہوۓ دیکھے اور انہیں الوداع کیا، ہم نے مٹی کے چولہوں پر کڑتی ہوی چاے کا بہترین ذائقہ لیا اور مٹی کے برتنوں میں بنتے سالنوں کی مہک سے خود کو لطف اندوز کیا،
ہم نے سکول ڈیسک یا بنچ پر بیٹھ کر ساتھ والے بنچ پر اپنا بستا رکھ کر کہا کے یہ جگہ میرے دوست کی ہے یہاں وہ بیٹھے گا، ہم نے نانی اور دادی سے وہ کہانیاں بھی سنی جن کے حصار میں جوانی تک مبتلا رہے، ہم نے دو دو روپے جمع کر کے گیندیں خریدی شام دیر تک کرکٹ کھیلا اور گھر لیٹ آنے پر مار کھائی، آج محسوس ہوتا ہے کے کرکٹ میچ کے دوران کوی ایک بڑا آکر ضرور کہتا تھا کے مجھے صرف دو گیندیں کھیلنی ہیں چلا جاؤں گا بہت چڑھ آتی تھی اس وقت مگر آج سمجھ آتی ہے کے وہ دو گیندیں کھیلنے والا کیوں ضد کیا کرتا تھا،
ہم نے مہمانوں کی آمد پر جشن کا ماحول دیکھا گھر میں اور ان کے الوداع ہونے پر ان کی طرف سے محبت کے طور پر ملے دس روپیوں کو قارون کے خزانے کے برابر سمجھا، پھر مہمانوں کی پلیٹ میں بچے ہوے بسکٹوں پر ہاتھ صاف کیا جس کا بعض اوقات ازالہ بھی کرنا پڑا😄
کلاس روم سے ٹیچر کے ساتھ کاپیاں اٹھا کر سٹاف روم تک لے جانا اپنے لیے اعزاز سمجھا، ٹیسٹ کے دوران ایک خالی پیج کے لیے کلاس میں بھیک مانگی😝 کبھی کبھار کسی کی کاپی ہاتھ لگی تو تین چار دن کی ٹیسٹوں کے لیے پیج نکال کر جیب میں ڈال دیے،
ہم نے پڑوس کے گھروں میں سالن دیتے اور لیتے دیکھا، ہم نے پڑوسیوں کے آے ہوے مہمانوں کو اپنے گھر لے آنے کو اپنا اعزاز سمجھا،
جمعے والے دن بیگ میں آدھی کتابوں کو رکھتے وقت کی خوشی محسوس کی اور ہم نے آخری پیریڈ کے دوران چھٹی کے لیے بجتی ہوی گھنٹی کے لیے وہ بیتابی کا مزہ لیا،
نوے فیصد لوگ ہو ہی نہیں سکتا کے کسی نے کلاس روم سے چاک چوری نہ کیا ہو یا گھر جاتے راستے میں آے کسی پھلدار پودے پر پتھر مار کر پھل نہ کھاے ہوں یہ الگ بات تھی کے اکثر اوقات پھلوں کے ساتھ مالکان کی طرف سے بہت کچھ سننے کو ملا مگر ہم نے پرواہ نہیں کی اور درگزر فرمایا اور دوسرے دن پھر روایت جاری رکھی😝
ہمارے سکول دور میں امیر وہی سمجھا جاتا تھا جس کے پاس جومیٹری بکس ہوتا تھا، پانی کے لیے ایک بوتل جو اکثر کاندھوں پر لٹکای جاتی تھی اور جو ٹفن میں گھر سے کھانا لے آتا تھا، ہاں یہ الگ بات تھی کے ہمارے ہوتے ہوے وہ کھانا اسے کبھی کبھار ہی نصیب ہوتا تھا😝
گلاب لمحوں کے مخمل پر کھیلتے بچپن،
پلٹ کے آ ، میں تجھ سے شرارتیں مانگوں،
ٹیچر کی غیر حاضری کے لیے مانگی ہوی دعا بہت کم ہی قبول ہوتی تھی، اکثر راہ سے واپس آجاتی تھی، فارغ پریڈ میں ہم اکثر اپنے اجداد کی بڑھای بیان کرتے ہوے خود سے بناے قصے سنایا کرتے تھے، آج بھی میرے ایک دوست شاہ صاحب کا سنایا ہوا قصہ ہمیں اسی طرح یاد ہے کچھ سمندر کے حوالے سے تھا😝 بہت سارے دوست سمجھ گئے ہوں گے،😀😀
کبھی ہاتھوں کے ناخنوں کی وجہ سے اسمبلی میں مار نہیں کھای جیسے ہی چیکینگ شروع ہوتی دانتوں سے فوراً صفایا کر دیتے تھے😝
ہماری امیدیں بہت ٹوٹی ہیں اکثر رات کو ہوتی بارش میں سکون سے سوتے تھے کے کل صبح بارش ہونے کی وجہ سے سکول نہیں جایں گے مگر صبح اٹھتے ہی نکلی ہوی ایسی دھوپ دیکھتے تھے اور ایسے دیکھتے جیسے کوی معجزہ ہو گیا ہو😭😭 اس ٹوٹتی امید کا دکھ کسی ماتم کے دکھ سے کم نہیں ہوتا تھا،
ہم راستے میں بیٹھتے تو بیگ جھولی میں رکھتے تھے نیچے نہیں ڈرتے تھے کے اس میں اسلامیات کی کتاب ہوتی ہے، ہم بازار میں کہی اگر جاتے اور وہاں کسی ٹیچر پر نظر پڑھ جاتی تو واپس بھاگتے ہوے یہ بھی بھول جاتے تھے کے بازار آے کس لیے تھے، ہم نے گرمیوں کی دوپہر میں نیند نہ آنے کے باوجود بھی مجبوراً سونے کی اکٹینگ کی جو کسی بڑی ازیت سے کم نہ ہوتی تھی،
ہم نے احترام دیکھا، خلوص محبت بھائی چارہ اور ہمدردی دیکھی، ہم نے لوگوں کے لوگوں کے ساتھ دعوے اور رشتوں کی اصل مٹھاس دیکھی، ہم نے کچے گھروں پر گرتی ہوی بارش کے پہلے قطروں سے مٹی سے اٹھتی ہوئی خوشبو کو محسوس کیا، ہم نے انسان کو انسان کے روپ میں دیکھا، ہم نے عشاء کے بعد فوراً سونے پر نیند کا مزہ چکھا اور فجر کے بعد پھوٹتی روشنی کا نور دیکھا، سچ پوچھو تو ہم نے عام سے پتھر کو بھی کوہِ نور دیکھا ....

میرے والد پولیس انسپکٹر تھے۔ جس دن میری پیدائش ہوئی، اسی دن ایک پولیس مقابلے میں اُنہیں گولی لگ گئی، اور وہ شہید ہو گئے۔...
17/08/2025

میرے والد پولیس انسپکٹر تھے۔ جس دن میری پیدائش ہوئی، اسی دن ایک پولیس مقابلے میں اُنہیں گولی لگ گئی، اور وہ شہید ہو گئے۔ یوں میری پیدائش کے ساتھ ہی مجھ پر نحوست کا لیبل لگا دیا گیا۔ دادی نے مجھے منحوس قرار دیا، اور وہ ہر وقت مجھے اسی نام سے پکارا کرتیں۔ ان کے اس رویے کا اثر ماں پر بھی ہوا، اور یوں ماں کو بھی مجھ سے ایک انجانی سی چِڑ ہونے لگی۔ اب ہم تایا اور تائی کے رحم و کرم پر تھے۔ تائی کو ویسے بھی میری ماں پسند نہیں تھی، اور اب جب وہ بیوہ ہو کر ان کے در پر آ بسی تھی، تو ان کا رویہ اور بھی سخت ہو گیا۔ وہ اکثر ماں کو طعنوں سے نوازتیں اور کبھی اچھے سلوک کا مظاہرہ نہ کرتیں۔ میرا رنگ سانولا تھا۔ تایا کی بڑی بیٹی مجھے “کاجل” کہہ کر پکارتی تھی، شاید رنگت کے سبب، شاید کسی اور وجہ سے، نہ جانے اس میں محبت تھی یا تحقیر، مگر رفتہ رفتہ میرا نام ہی “کاجل” پڑ گیا۔ سب گھر والے مجھے اسی نام سے بلاتے تھے، جیسے کاجل کی سیاہی کی طرح میں نے بھی ان کی زندگی سیاہ کر دی ہو۔ جوں جوں بڑی ہوتی گئی، لوگوں کی نظر میں میری “نحوست” بھی بڑھتی گئی۔ اس رویے نے مجھے تنہائی پسند بنا دیا۔ میں کسی سے بات نہ کرتی، بس خاموشی سے اپنے کاموں میں لگی رہتی۔ میری ہم نشین بس گھر کی دیواریں تھیں، یا میرے خواب، یا پھر میری ایک سہیلی نازش، جو ہم عمر تھی اور پڑوس میں رہتی تھی۔میں نے پانچویں جماعت اچھے نمبروں سے پاس کی۔ پڑھنے کا شوق تھا، آگے بڑھنے کی خواہش تھی، مگر ماں نے روک دیا۔ بولیں، گھر بیٹھو، کام کرو۔ میرے اور تمہاری تائی کے گھر کے کام مجھ سے نہیں ہوتے۔ جب سے بیوہ ہوئی ہوں، جیٹھ کھانے کو تو کچھ نہیں دیتے، اوپر سے ان کی بیوی نے مجھے نوکر سمجھ لیا ہے۔ خود بیماری کا بہانہ بنا کر پلنگ پر پڑی رہتی ہے۔ میرے صرف دو بھائی تھے، بہن کوئی نہ تھی۔ ظاہر ہے، لڑکے تو گھر کے کاموں میں ہاتھ نہیں بٹاتے۔ ماں کے ہاتھ کا سہارا بننے والی تو لڑکیاں ہی ہوتی ہیں، اس لیے مجھے تائی کے گھر کے کاموں میں لگا دیا گیا۔ مجھے اپنے گھر سے نفرت ہونے لگی تھی۔ نہ باپ کی شفقت نصیب ہوئی، نہ ماں کا پیار۔ دل میں شاید ماں کو محبت ہو، مگر کبھی ظاہر نہ کی۔ اسی لیے میں اندر سے بجھ کر رہ گئی۔ میری ہم عمر لڑکیاں شوخ و چنچل تھیں، مگر میں سنجیدہ، خاموش طبیعت کی ہو گئی۔ نازش اکثر کہتی، تم تو ابھی سے بڑی بی بن گئی ہو۔ وہ میرے دکھ کو سمجھتی تھی، جانتی تھی کہ میں ناحق سزا کاٹ رہی ہوں، اس جرم کی جو کبھی کیا ہی نہیں، بس پیدا ہوتے ہی یتیم ہو گئی۔ نازش مجھے دلاسہ دیتی، تسلیاں دیتی، مگر میرے دل کی کلی ہمیشہ مرجھائی رہتی۔ ان دنوں میری زندگی بے رنگ تھی… مگر پھر، ایک دن زندگی نے مجھے بالکل نیا روپ دکھایا۔ میں فجر کی نماز ہمیشہ اپنے گھر کی چھت پر ادا کیا کرتی تھی۔ اس روز بھی حسبِ معمول نماز پڑھ رہی تھی۔ دعا مانگنے کے بعد جیسے ہی نظریں اٹھائیں، نازش کے گھر کی چھت پر ایک نوجوان کھڑا نظر آیا، جو میری ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ پیر پٹختی ہوئی جھنجھلا کر نیچے چلی آئی۔ دوپہر کو نازش مٹھائی لے کر آئی تو میں نے فوراً پوچھا کہ تمہارے گھر کون بد معاش آیا ہے۔ وہ حیرت سے بولی، تم کس کی بات کر رہی ہو؟ میں نے صبح والا سارا واقعہ سنا دیا۔ وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی کہ اچھا تو تم سجاد بھائی کی بات کر رہی ہو؟ تمہیں سخت غلط فہمی ہوئی ہے۔ وہ میرے ماموں زاد ہیں، بہت شریف انسان ہیں۔ لاہور سے ایم بی اے کیا ہے، آج ہی ان کا رزلٹ آیا ہے اور انہوں نے بہت اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ اسی خوشی میں مٹھائی لائی ہوں۔ اس کی بات سن کر دل کو کچھ سکون ملا۔ اس کے بعد بھی کئی بار سجاد سے سامنا ہوا۔ اس کی نظروں میں سچائی اور شرافت کے سوا کچھ نہ پایا، لیکن پھر بھی میں نے ہمیشہ نظر انداز کرنا ہی مناسب سمجھا۔ایک دن نازش دو خواتین اور ہماری ہم عمر ایک لڑکی کے ساتھ میرے گھر آئی۔ میں نے ان سب کو ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ تھوڑی دیر بعد نازش مجھے الگ لے جا کر بولی کہ یہ سجاد کی خالہ، ماں، اور بہن ہیں۔ یہ تمہارے رشتے کے لیے آئی ہیں۔ میں حیرت و پریشانی میں ڈوب گئی کہ نازش، یہ میرا رشتہ لینے کیسے آگئیں؟ نہ دیکھا، نہ بھالا؟ وہ مسکرا کر بولی کہ دیکھنے بھالنے ہی تو آئی ہیں۔ سجاد بھائی نے انہیں فون کر کے لاہور سے بلایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسی ہی لڑکی کی تلاش تھی۔ امی ان کے ساتھ بیٹھی باتیں کرتی رہیں۔ رخصت ہوتے ہوئے وہ میرے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دیتی ہوئیں چلی گئیں۔ امی اُن سے مل کر بہت خوش تھیں۔ یہ رشتے کی بات طے کر کے گئی تھیں۔ زندگی میں پہلی بار امی نے مجھے گلے سے لگایا اور ڈھیروں دعائیں دیں۔ ان کا وہ شفقت بھرا رویہ دیکھ کر میں فوراً راضی ہو گئی۔ سجاد کے خاندان کے لاہور واپس جانے سے قبل ہی شادی کی تاریخ طے ہو چکی تھی۔ مجھے دلہن بنایا گیا، بارات آئی، خوب رونق اور ہنگامہ ہوا، فائرنگ بھی ہوئی۔ لیکن اچانک یہ جشن چیخ و پکار میں بدل گیا
یہ کہانی ایک سنگین موڑ لے چکی تھی۔ شادی کی رات، جب بارات کے لوگ خوشیاں منا رہے تھے، اچانک ایک بھاری آواز سنائی دی۔ فائرنگ کی آواز سے ماحول میں خوف کا سایا پھیل گیا۔ دروازے پر ہلچل مچ گئی اور لوگ بدحواسی میں ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ اسی دوران میری دلہن کی حالت بھی غیر ہو گئی۔ دل میں ایک عجیب سا خوف اور بے چینی چھا گئی تھی۔

شادی کے تمام رسومات کے بعد جب ہم ہنسی خوشی باہر نکلے، تب ہی کچھ لوگوں نے شادی کی تقریب میں بے جا دخل اندازی کرنا شروع کر دی۔ ان لوگوں کا تعلق سجاد کے پرانے دوستوں سے تھا جو ہمارے حالات کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے تھے۔ ان کی غیر معمولی حرکتوں نے میری ماں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ وہ سجاد کے خاندان کے حوالے سے سوچ رہی تھی کہ آیا یہ واقعتاً وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ میری بیٹی کا رشتہ طے ہوا ہے؟ یا ان کے درمیان کوئی اور راز چھپا ہوا ہے؟

اسی لمحے سجاد کی آنکھوں میں ایک الجھن اور بے چینی نظر آئی۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے کوئی فیصلہ کن بات کہنا چاہ رہا ہو، لیکن وہ خاموش رہا۔ اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ گم ہو چکا تھا، اور اس کا چہرہ پریشانی سے مغموم نظر آ رہا تھا۔ میری ماں نے سجاد کی طرف آنکھوں سے سوال کیا، مگر وہ کچھ نہ بولا۔ اس نے مجھے نرگس کی طرح گلے لگایا اور کہا، "سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، تم پریشان نہ ہو۔"

لیکن میری بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ میری دلہن بننے کی خوشی غم میں بدل چکی تھی۔ میں نے دل میں عہد کیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، میں سجاد سے سچ کا پتا چلاؤں گی۔

اس دن کے بعد، شادی کے دوسرے دن، جب ہم سجاد کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے اس کے گھر گئے، وہاں کی فضا بالکل مختلف تھی۔ سجاد کی ماں اور بہنیں بہت دوستانہ تھیں، مگر ان کے چہروں پر ایک بے چینی اور ادھورے تاثرات تھے۔ وہ سب میرے بارے میں کچھ زیادہ ہی محتاط نظر آ رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتوں سے ایسا محسوس ہوا کہ سجاد کا خاندان مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک دن سجاد اور میں اکیلے بات کرنے بیٹھے۔ میں نے اس سے دل کی بات کی، "سجاد، مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے۔ تمہارے خاندان کے لوگ میرے بارے میں اتنی عجیب سی نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں؟ کیا ان کے دل میں کچھ خدشات ہیں؟"

سجاد خاموش رہا، اور پھر اس نے گہری سانس لی اور کہا، "نہیں، وہ سب کچھ سمجھتے ہیں، مگر کچھ ایسی باتیں ہیں جنہیں ہم نہیں سمجھا پائے ہیں۔"

اس کا یہ جواب مجھے اور زیادہ پریشان کر گیا، اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں سچائی کو جان کر ہی دم لوں گی۔

سجاد اور اس کے خاندان کا راز آخرکار میرے سامنے آیا۔ وہ راز کچھ ایسا تھا جس سے میری دنیا کی تمام بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ سجاد کے خاندان کے لوگ دراصل ایک ایسا راز چھپائے ہوئے تھے جس کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں پتا تھا۔ یہ راز صرف سجاد اور اس کے قریبی لوگوں تک محدود تھا۔

"تمہارے والد کے بارے میں کچھ باتیں ہیں جو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں۔" سجاد نے ایک دن میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔

میں نے فوراً اس کی طرف دیکھا، اور اس کا جواب دل میں گہرائی تک گزر گیا۔ وہ جو کچھ کہہ رہا تھا، اس کا دل میں ایک غم اور خوف بھی تھا۔

"میرے والد نے تمہارے والد کے ساتھ کچھ ایسا کیا تھا جو تمہیں نہیں پتا۔"

اس لمحے میں ایسا محسوس ہوا کہ میری دنیا ٹوٹ چکی ہے۔ سجاد کے والد کے بارے میں جو کچھ سنا تھا، وہ حقیقت بن کر میرے سامنے آ رہا تھا۔ میں نے اپنے والد کو ہمیشہ ایک ہیرو کی طرح سمجھا تھا، لیکن اب اس کی زندگی کا ایک اور رخ سامنے آ رہا تھا۔

اب مجھے سوچنا تھا کہ کیا یہ سچائی میرے لئے برداشت کرنا ممکن ہو گا یا نہیں۔

Part 2 بہت دیر تک میں اور ریحان ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے تھے۔ مجھے اپنی غیر معمولی حالت کی فکر تھی اور ساتھ ہی ساتھ ...
17/08/2025

Part 2

بہت دیر تک میں اور ریحان ایک دوسرے سے بات نہیں کر رہے تھے۔ مجھے اپنی غیر معمولی حالت کی فکر تھی اور ساتھ ہی ساتھ اس آدمی کے بارے میں بھی کچھ معلوم کرنا چاہتی تھی جو ابھی ابھی میرے بھائی کو پکڑ کر رکھے ہوئے تھا۔ فہد نے میرے ساتھ بیٹھتے ہی ریحان سے کہا، "بھائی، میں نے کچھ نہیں کیا تھا، بس ایک مالٹا توڑنے کی کوشش کی تھی۔"

ریحان نے ایک ہنسی کے ساتھ اس کی بات سنی اور پھر بولا، "کوئی بات نہیں، بچہ ہے، غلطی ہو جاتی ہے۔"

میں نے چپ چاپ سر ہلایا، حالانکہ اندر سے کچھ اور ہی ہو رہا تھا۔ ریحان کی آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی جس سے میں بے آرام ہو رہی تھی۔ وہ بہت نرم دل، مہذب، اور توجہ دینے والا لگ رہا تھا، لیکن کچھ تھا جو مجھے اس میں جاذبیت کے ساتھ ساتھ پریشانی کا احساس دلاتا تھا۔

"آپ آرام سے بیٹھیں، آپ کو کچھ چاہیے؟" اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

میں نے دل میں خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کی اور کہا، "نہیں، شکریہ۔"

باتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، اور میری بے چینی کم ہونے لگی۔ ریحان نے مجھے اپنے بارے میں مزید بتایا کہ وہ کہاں سے آیا تھا، اس کا بچپن کیسے گزرا تھا اور کس طرح وہ اپنے والدین سے علیحدہ ہو کر یہاں آ کر رہنے لگا۔ میں نے کچھ دیر اس کی باتیں سنیں اور پھر فہد کے بارے میں کچھ سوالات کیے، "فہد کو کیا سزا دی جائے گی؟"

ریحان کی آنکھوں میں ایک چمک آ گئی، "نہیں، اسے کچھ نہیں ہوگا۔ یہ معمولی بات ہے۔" اس نے فہد کی طرف مسکرا کر دیکھا۔ "لیکن مجھے تم دونوں سے کچھ کہنا تھا، تم دونوں جب بھی میرے باغ میں آنا چاہو، تمہیں اجازت ہے۔ بس، کچھ پھل توڑنے سے پہلے مجھے بتا دیا کرو۔"

میں نے خاموشی سے سر ہلایا، لیکن دل میں سوچا کہ شاید یہ ایک معمولی بات ہو، لیکن اس کی نظر میں ایک گہرائی تھی جو میرے دل میں سوالات چھوڑ گئی۔ ریحان نے ہمیں کچھ دیر تک باتوں میں مشغول رکھا، پھر مجھے واپس جانے کا اشارہ کیا۔

"آپ چلیں، میں آپ کو دروازے تک چھوڑ دیتا ہوں۔" اس نے اپنے کھلے دل سے کہا۔

میں اور فہد دونوں باہر نکل آئے اور ریحان نے ہمارے ساتھ چل کر دروازے تک ہمارا ساتھ دیا۔ جیسے ہی ہم دروازے کے قریب پہنچے، ریحان نے کہا، "آئندہ جب بھی یہاں آؤ، مجھے بتا دینا۔ اور ہاں، کوئی مسئلہ ہو تو بلا جھجھک بتا دینا۔" اس کی آواز میں ایک خاص قسم کی تسلی تھی جو مجھے قدرے خوش کر گئی۔

"ٹھیک ہے، شکریہ۔" میں نے مسکرا کر کہا اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔

جب ہم اپنے گھر واپس آئے، میرے دماغ میں بس یہی سوال گونج رہا تھا کہ ریحان کیا حقیقت میں اتنا نرم دل ہے، یا پھر کچھ اور چھپائے ہوئے ہے۔ پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے ساتھ مزید باتوں سے آگاہ ہونا چاہیے تاکہ میں اس کے بارے میں مزید جان سکوں۔ یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ کتنے دنوں تک یہاں رہنے والے تھے اور کیا وہ پھر کبھی ہمارے سامنے آئیں گے، لیکن کچھ تھا جو میرے اندر ہچکچاہٹ پیدا کر رہا تھا۔

اسی دوران فہد نے میرے ساتھ چپ چاپ باتیں شروع کر دیں، "وہ ریحان بھائی اچھے لگے، آپ کو نہیں لگتا؟"

میں نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے کہا، "بس، یہی کہہ لو کہ تمہیں باغ میں مالٹے توڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔"

فہد ہنسا، "ہاں، لیکن وہ تو اچھے لگتے ہیں نا؟"

"تم کیا سوچ رہے ہو؟" میں نے جواب دیا۔

"بس وہ بہت خوبصورت ہیں، اور ان کا انداز بھی بہت مختلف تھا۔" فہد کی آواز میں ایک غیر معمولی جذبہ تھا، اور میری آنکھوں میں وہ سوال دوبارہ چمک اٹھا جو میں ریحان کے بارے میں سوچ رہی تھی۔

گھر آ کر میں نے اپنے آپ کو تھوڑا سا پرسکون کرنے کی کوشش کی اور سوچا کہ جو بھی ہو، زندگی میں کچھ چیزیں خود بخود سامنے آ جاتی ہیں۔ اور شاید ریحان کا ہمارے ساتھ تعلق ایک نیا آغاز ہو سکتا تھا، لیکن اس کے ساتھ جو کچھ بھی آئے گا، وہ وقت ہی بتائے گا۔

Part 1دل لگی یا محبت ہم لوگ شہر سے نزدیک رہتے تھے جہاں سے کھیتوں والا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ یہیں ریحان کا گھر تھا۔ گھر سے...
17/08/2025

Part 1

دل لگی یا محبت

ہم لوگ شہر سے نزدیک رہتے تھے جہاں سے کھیتوں والا علاقہ شروع ہوتا تھا۔ یہیں ریحان کا گھر تھا۔ گھر سے آگے باغ اور پھر کھیت تھے۔ پہلے یہاں ریحان نہیں رہتا تھا، نو کر اور کچھ رشتے دار رہتے تھے ، ریحان تو اب کچھ دنوں سے آکر رہنے لگا تھا۔میں نے ریحان کو کبھی نہیں دیکھا تھا، بس اتنا پتا تھا کہ ہمارے گھر کے پاس ملک صاحب کی زمین اور باغ ہیں جس میں ان کا بڑا سا پختہ مکان تھا مگر اس مکان میں وہ کبھی کبھی آتے تھے کیونکہ ملک صاحب گائوں میں رہتے تھے جہاں ان کی دو بیویاں تھیں۔ ریحان انہی ملک صاحب کا پہلوٹی کا بیٹا تھا۔ ریحان کی ماں اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ اس کو سوتیلی ماں نے پالا تھا جس کی کوئی اولاد نہ تھی، البتہ ریحان کی تیسری سوتیلی ماں اس سے جلتی تھی اور اس کے لئے طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی رہتی تھی جس کی وجہ سے ریحان گھر سے باہر رہتا تھا۔ پہلے وہ شہر کے ہاسٹلوں میں رہا۔ جب تعلیم مکمل کر لی تو اس کے والدین نے اس کے حصے کی زمین اور جائداد اس کے سپرد کر دی۔ اس طرح ریحان مالی لحاظ سے ایک حد تک خود کفیل ہو گیا۔ریحان کے حصے میں جو زمین ، مکان، باغ اور کھیت آئے، یہ وہی تھے جو ہمارے گھر کے نزدیک تھے۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے وہ خود بھی آکر رہنے لگا۔ ریحان اپنے بوڑھے نوکر کے ساتھ اکیلا ہی رہتا تھا لیکن مجھے اس بات کا پتا نہیں تھا نکھ میں نے یہاں اپنے پڑوس میں ریحان کو پہلے بھی دیکھا نہیں تھا، البتہ ملک صاحب کو ضرور دیکھا تھا۔ اس دن میں بھی گھر میں اکیلی تھی، صرف میرا چھوٹا بھائی فہد میرے ساتھ تھا۔ کچن میں کوئی کام کر رہی تھی کہ فہد نجانے کس وقت گھر سے باہر نکل گیا۔وہ گھر سے نکل کر سیدھا پڑوس میں چلا گیا کیونکہ باغ کا پھاٹک اکثر کھلا رہتا تھا۔ فہد پہلے بھی کنو اور مالٹے توڑنے کے شوق میں باغ میں گھس جایا کرتا تھا، اس وقت نوکر وغیرہ ہوتے جو فہد کو پڑوس کا بچہ سمجھ کر کچھ نہیں کہتے تھے لیکن آج نوکر کے بجائے مالک نے اس کو مالٹے کے درخت پر چڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔ ہمارا کچن باغ کی دیوار کے ساتھ ہی تھا۔ اچانک مجھے اپنے بھائی کی چیخ سنائی دی۔ برتن جو میں دھو رہی تھی، میرے ہاتھ سے گر گیا۔ میں ننگے پائوں دوڑتی ہوئی اوپر چھت پر گئی۔ جاکر دیکھا کوئی شخص باغ میں میرے بھائی کو پکڑے کھڑا تھا۔ اس آدمی کی پیٹھ میری جانب تھی۔ میں سمجھی کہ ملک صاحب کا کوئی رشتہ دار یا مہمان ہے۔ میں نے چھت پر سے اونچی آواز میں کہا۔ بابا جی ! میرا بھائی ہے، اس کو چھوڑ دو۔ میں سمجھ رہی تھی کہ کوئی بوڑھا ہو گا۔ وہ بغیر میری طرف منہ کئے بولا۔ ذرا نیچے آکر اپنے بھائی کی چوری تو دیکھو، کتنے پھل اس نے اجاڑ ڈالے ہیں۔گھر میں کوئی نہ تھا اس لئے مجھے ہی فہد کو چھڑانے جانا پڑا۔ جب میں باغ کے اندر داخل ہوئی تو دیکھا سامنے ایک اجلا اجلا، خوبصورت نوجوان کھڑا ہے۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی فہد کو چھوڑ دیا۔ وہ دوڑ کر میرے پاس آگیا۔ میں اس کو لے کر واپس جانے لگی تو ریحان نے کہا کہ آپ ہمارے گھر پہلی مرتبہ آئی ہیں، ذرا بیٹھئے تو سہی، آیئے کمرے میں آجائیے۔ میں فہد کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس کے مکان میں چلی گئی۔ اس کا ڈرائنگ روم بہت خوبصورتی سے سجا ہوا تھا۔ اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں بہت ڈری بیٹھی تھی۔ (مکمل کہانی کے لئے آپ ہماری پروفائل کی اگلی پوسٹ دیکھیں۔ شکریہ!
)

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Parwaaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share