Parwaaz

Parwaaz Writer

13/12/2025

Cute Baby Ai Interviews Videos 😀

11/12/2025

چال باز انسان

میں اک خوبصورت اداکارہ تھی اور وہ فلم پروڈیوسر تھا۔ میں اس پر مرتی تھی اور وہ کسی اور پر۔ میرا نام دل آرا اور میرے محبوب پروڈیوسر کا نام نور شاہ تھا۔ اور مشہور اداکارہ، جس پر نور شاہ فریفتہ تھا، اس کا نام دلربا تھا۔ یہ نام بھی اس پر خوب جچتا ہے، کیونکہ وہ واقعی دلربا تھی، لاکھوں دلوں کی دھڑکن۔ ایک دن میں مسٹر نور شاہ کے کمرے میں بیٹھی تھی کہ وہاں داربا آ گئی۔ نور شاہ صاحب کے دل کو جیسے قرار آ گیا ہو، ان کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ انہوں نے اپنی پسندیدہ ہستی کو آفس کی سب سے معتبر کرسی پر بٹھایا۔ اس عورت کی اتنی توقیر دیکھ کر میں جل تو گئی مگر اپنے تاثرات ظاہر نہ ہونے دیے۔ آخر میں بھی تو ایک اداکارہ تھی، اگرچہ صفِ اوّل کی نہ تھی، مگر اداکاری کے اسرار و رموز جانتی تھی۔

اس حسن پری کو میں نے گمان بھی نہ ہونے دیا کہ اس کی آمد سے مجھے تکلیف ہوئی ہے۔ مسٹر نور شاہ نے ابھی دو چار ادھر اُدھر کی باتیں ہی کی تھیں کہ دو اور مہمان آگئے۔ ایک اداکار جس کا نام فاضل تھا اور دوسرا اس کا بھائی، جو جرنلسٹ تھا۔ لہٰذا میں اس کا فرضی نام سوچنے کے بجائے اسے جرنلسٹ ہی لکھوں گی۔ فاضل نیا اداکار تھا۔ دلربا اس سے واقف نہ تھی۔ اس نے جب اس حسین نوجوان کو دیکھا تو اس کے بارے میں مسٹر نور شاہ سے سوالات کرنے لگی۔ دو چار سوالات کے بعد وہ براہِ راست فاضل سے مخاطب ہو گئی۔ نوجوان ہاں اور نہ میں جواب دیتا رہا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ نور شاہ صاحب کے چہرے کا رنگ بدل رہا تھا، کیونکہ وہ خود دلربا پر دل و جان سے فریفتہ تھے۔ داربا کی عادت تھی کہ شوٹنگ کے بعد وہ ایک لمحہ بھی اسٹوڈیو میں فضول نہیں ٹھہرتی تھی۔ کسی سے غیر ضروری بات نہیں کرتی تھی، نہ کسی کو بلاوجہ توجہ دیتی تھی۔ وہ کسی کو گھر بھی نہیں بلاتی تھی۔ اس کا یہ رکھ رکھاٗو اس کی نیک نامی کا بھی سبب تھا۔

اسی کی یہ ادائیں مسٹرنور شاہ کے دل کو اور بے چین کر دیتی تھیں۔ ایک وقت آیا کہ وہ اس اداکارہ کے بارے میں سنجیدہ ہو گئے ۔بتاتی چلوں کہ مسٹرنور شاہ اپنے دل سے مجبور تھے اور میں اپنے دل سے بے بس۔ میں ان سے محبت کرتی تھی اور وہ مجھے صرف ایک اچھا دوست سمجھتے تھے۔ جب انہیں کوئی راز کی بات کہنی ہوتی یا دل کا دکھ ہلکا کرنا ہوتا، تو ہلکا سا پیگ لے کر میرے پاس آ جاتے اور اپنا دکھ میری جھولی میں ڈال کر ہلکے پھلکے ہو جاتے۔ مجھے تو ہر حال میں ان کی خوشی عزیز تھی۔ میں اپنے حوصلے سے ان کی چبھتی باتیں بھی مسکرا کر برداشت کر لیتی تھی اور ظاہر نہ ہونے دیتی تھی کہ مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے۔

اس روز دلربا کی فاضل پر توجہ نے نور شاہ کے چہرے پر رنگ بدل دیے تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ دلربا آٹوگراف دینے کے بجائے اس کی ڈائری میں اشعار لکھ رہی ہے۔ یہ بات اس کے معمول کے خلاف تھی۔ وہ عموماً کسی ایسے ویسے سے بات کرتے وقت بار بار گھڑی کی طرف دیکھتی تھی۔ لیکن آج تو اسے وقت کا گزرنا بھی محسوس نہ ہو رہا تھا۔ہم نے اسے یہ کہتے بھی سنا کہ فاضل میں تم میں وہ جوہر دیکھ رہی ہوں کہ اگر صحیح معنوں میں استعمال کرو تو صفِ اوّل کے ہیرو بن سکتے ہو۔ مجھ سے پھر کبھی ملنا، میں تمہیں اداکاری اور کامیابی کے چند گر بتاؤں گی۔ فاضل نے کہا کہ یہاں ہی بتا دو دلربا جی۔ دلربا نے کہا کہ یہاں کیا بات ہو سکتی ہے، فاضل کبھی میرے گھر آؤ تو باتیں کریں گے۔ یہ کہہ کر اس نے ایک پرچے پر اپنا پتہ لکھ کر اسے دے دیا۔نور شاہ کے لیے یہ سب زیادہ برداشت نہ ہو سکا۔ انہوں نے فاضل کے ہاتھ سے پرچا لے کر کہا کہ تم ان کے گھر اکیلے کیسے جاؤ گے؟ تمہارے پاس تو گاڑی بھی نہیں۔ میں خود لے جاؤں گا تمہیں۔ دلربا نے اسے سخت نظروں سے دیکھا مگر خاموش رہی اور بولی کہ ٹھیک ہے نور شاہ، آپ ہی لے آئیے گا۔ اس کے بعد ایک دن نور شاہ صاحب کو فاضل کو دلربا کے گھر لے جانا ہی پڑا۔ انہوں نے سوچا کہ دلربا یوں تو انہیں لفٹ دیتی نہیں؛ چلو فاضل کے بہانے آنا جانا رہے گا اور کسی دن راستہ صاف ہو جائے گا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد جب نور شاہ صاحب نے فاضل کے انداز بدلے ہوئے دیکھے تو انہوں نے اسے دوبارہ ساتھ چلنے کو کہا، مگر وہ ٹال گیا۔اب وہ دلربا کا نام تک نور شاہ صاحب کے سامنے لینے سے کترانے لگا تھا۔ تب پروڈیوسر صاحب کو یقین ہو گیا کہ اس کا دلربا کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہو چکا ہے۔ کھوج لگانے پر معلوم ہوا کہ وہ روز ہی دلربا کے گھر جاتا ہے۔ یہ جان کر نور شاہ کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔

اس نے رقابت میں فنکاروں کو ایک عصرانہ دیا لیکن فاضل کو نہ بلایا، مگر دلربا کو خاص طور پر مدعو کیا۔ وہ بھی خوب سنور کر آئی، مگر اکیلی نہیں، فاضل اس کے ساتھ تھا۔ اس نے الگ جا کر نور شاہ سے معذرت کی کہ آج میرا ڈرائیور بیمار تھا اور گاڑی چلانے والا کوئی نہ تھا، تبھی میں نے فاضل کو تکلیف دی ہے۔ آپ مائنڈ کریں کہ میں آپ کی دعوت میں ایک بغیر بلائے مہمان کو کیوں لے آئی ہوں۔اس کے بعد دلربا نے فاضل کو باہر والی نشست پر بٹھا لیا اور خود پلیٹ میں کھانے پینے کی اشیاء ڈال کر دینے لگی۔ وہ سرو کرنے پر اتنی متوجہ رہی کہ نور شاہ صاحب کی سٹی گم ہو گئی، جیسے وہ فاضل کو توجہ دے کر اس کی اہانت کر رہی ہو۔ یہ منظر پروڈیوسر صاحب کو شدید ناراض کر گیا۔ میں نے سمجھ لیا کہ معاملہ نازک ہے۔ دلربا نے بے چین صاحب سے کار مانگی کہ ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا اور وہ ورکشاپ گئی ہوئی تھی۔ انہوں نے دل و جان سے اپنی گاڑی ان کے حضور پہنچادی، لیکن جب علم ہوا کہ یہ کار فاضل کے لیے مانگی گئی ہے تو ان کا کلیجہ دہل گیا۔دلربا روز نور شاہ کی گاڑی میں فاضل کے ساتھ ادھر ادھر جاتی رہی۔
اندھیری رات کا راز
مزید پڑھیں
صاحب نے بہت کوشش کی کہ دلربا اسے بھی ساتھ لے جائے، بے شک فاضل ساتھ ہو، لیکن انہوں نے اسے دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا اور سیر و سپاٹے کے لیے خود اپنی کار میں جانے لگے۔ جب پانی سر سے گزر گیا تو پروڈیوسر صاحب فاضل کے جرنلسٹ بھائی کے پاس گئے اور کہا کہ تمہارا بھائی ایک اداکارہ کے چنگل میں پھنس گیا ہے۔ اس طرح تو اس کا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔ ابھی اس کے کیریئر کی شروعات ہے اور دلربا کے ساتھ اس کے ہر قسم کے اسکینڈل بن رہے ہیں۔ ورنہ اس جیسا خوبصورت اور ہوشیار لڑکا تباہ ہو جائے گا۔پھر انہوں نے ایک خطرناک منصوبہ تیار کر لیا۔ فاضل کو اپنی نئی فلم میں ہیرو کے رول کی پیشکش کی اور خوشی میں گھر پر پارٹی رکھی۔ دلربا کو بھی بلایا۔ محفل میں انہوں نے گلاس میں افیم ملا کر وہ گلاس فاضل کے سامنے رکھ دیا۔ میں نے یہ حرکت دیکھ لی تھی، لہٰذا فاضل نے گلاس اٹھانے سے انکار کیا، تو میں نے دلربا کو اشارہ کیا۔ وہ نہایت ذہین عورت تھی، سمجھ گئی اور اٹھ کر نور شاہ کے پہلو میں جا بیٹھی۔ میں نے باتوں میں اس کا دھیان لگایا اور گلاس بدل دیا۔ اس طرح وہ ایک بڑے حادثے سے بچ گیا۔

فوراً دلربا نے وہ گلاس خود اٹھا لیا، مگر بس اپنے سامنے رکھ کر بیٹھی رہی۔یہ حربہ ناکام ہو گیا، مگرنور شاہ صاحب کی آتش ٹھنڈی نہیں ہوئی۔ انہوں نے ایک بار اسے ایکسپائرڈ جوس پلا دیا جس سے وہ زہر خوری کا شکار ہوا۔ اسپتال لے جانا پڑا، مگر جوان اور صحت مند آدمی تھا، بچ گیا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح سانپ بھی مر جائے گا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے گی، لیکن سانپ نہ مرا اور لاٹھی ٹوٹ گئی، یعنی نور شاہ صاحب نے ہمت ہار دی۔ تب وہ میرے پاس آئے۔ ہاتھ میں پیگ لیا ہوا تھا۔ کچھ ہوش اور کچھ عالم بے ہوشی میں رور کر اپنے دل کا دکھ بیان کرتے رہے۔ میں صبر کے ساتھ ان کے دکھ سنتی اور ان کو تسلی دیتی رہی، پھر بولے کہ تم بہت اچھی ہو۔ اب جو فلم بناؤں گا، تم ہی اس کی ہیروئن ہو گی۔ میں نے ان کی بات سن کر مسکرا دیا۔بعد میں انہوں نے آخری حربہ آزمایا اور فاضل اور دلربا کے اسکینڈل کو اخبارات میں چھپوا دیا، مگر اس سے ان کی صحت پر کوئی اثر نہ پڑا۔ انہوں نے خاموشی اختیار کر لی اور تردیدی بیان بھی نہ چھپوایا۔

نور شاہ صاحب اتنے بے چین تھے کہ ہر ایک سے کہتے، فاضل نہایت غلط آدمی ہے، اس کو آفس میں قدم نہ رکھنے دینا چاہیے۔ تب دوسرے پروڈیوسر جواب دیتے، آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، وہ نہایت اچھا آدمی ہے۔ شوٹنگ پر ٹائم پر آتا ہے، کسی کو پریشان نہیں کرتا۔ اس کا برتاؤ اعلیٰ ہے، تعلیم یافتہ ہے، نجانے کیوں آپ کو ٹھیک نہیں لگتا۔ دلربا نور شاہ سے ناراض ہو گئی اور اپنی فلم میں مزید کام کرنے سے انکار کر دیا، جب کہ نور شاہ کی یہ فلم آدھی سے زیادہ بن چکی تھی۔ وہ تاریخیں دینے سے کترانے لگے۔ نقصان کے اندیشے پر میں نے انہیں سمجھایا کہ آپ جلد دلربا والے سین مکمل کروا لیں، ایسا نہ ہو کہ آپ کا سرمایہ ڈوب جائے۔بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ فاضل سے رقابت کو پسِ پشت ڈال کر انہوں نے منت سماجت کر کے دلربا کو منا لیا اور تاریخیں لے لیں۔ دلربا نے بھی ہامی بھر لی اور کچھ سین شوٹ بھی کرائے۔
پیاسی بیوی
مزید پڑھیں
جب نور شاہ صاحب نے سیٹ تیار کرالیا اور لاکھوں روپے لگا دیے، متعلقہ لوگوں کو ایڈوانس بھی دے دی، تو اچانک فاضل اور داربا غائب ہو گئے۔ بعد میں ان کا یورپ سے فون آیا کہ انہوں نے شادی کرنا تھی، سو یورپ جانا پڑا کیونکہ وہاں ملک میں حالات ان کے لیے موافق نہ تھے۔ ہنی مون کے بعد دلربا شوٹنگ مکمل کر دیں گی، فی الحال دیگر سین کی شوٹنگ کر لی جائے۔ جس روز داربا اور فاضل کا فون آیا، نور شاہ صاحب کی حالت دیدنی تھی۔ بے حد دلگرفتہ اور اداس تھے۔ میرے پاس آئے، غم بہت زیادہ تھا۔ بہت پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ میں نے سنبھالا، سہارا دیا، سمجھایا، غم بانٹا۔ بہت دیر تک انہوں نے فاضل کو گالیاں دے کر دل کا غبار نکالا، اور جب دل ہلکا ہو گیا اور نشہ بھی ہلکا ہوا، تو میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولے کہ اب تم ایکسٹرا نہیں رہو گی۔ اب جب نئی فلم بناؤں گا وعدہ کرتا ہوں کہ تم ہی اس میں میری ہیروئن ہو گی۔

میں حسب معمول مسکرا دی۔بعد میں بھی کئی بار یہ وعدہ کیا، مگر ہیروئن نہ بنایا، یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔ آج بھی ان کو یاد کرتی ہوں تو دکھی ہو جاتی ہوں۔ وہ اگر مجھ کو دوست سمجھتے تھے تو میں بھی ان کی سچی دوست ہی تھی۔ میں ہیروئن بننے کے لالچ میں ان کی دوست نہیں بنی کیونکہ جانتی تھی کہ ہیروئن، ہیروئن ہوتی ہے اور ایکسٹرا، ایک راہی ہوتی ہے، جو میں تھی۔ یہ فلمی دنیا ایسی ہی ہوتی ہے، یہاں انسان کچھ بننے آتے ہیں، کچھ بن جاتے ہیں اور جو نہیں بن سکتے وہ ایسے تجربات سے گزرتے ہیں کہ تجربہ کار انسان بن جاتے ہیں۔

(ختم شد)

11/12/2025

محبت نہیں ملتی

جیسے تم اب میرا ساتھ دے رہی ہو ، کیا عمر بھر اسی طرح ساتھ دے سکو گی ؟ میں نے جواب میں لکھ دیا۔ ہاں، ہم زیادہ دیر چھت پر نہیں رکھتے تھے۔ مبادا امی کو شک ہو جائے۔ وہ بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو کسی لڑکی کو برائی پر اکساتا۔ محبت کی آگ کی چنگاری نے اپنا رنگ دیکھایا اور ایک دن امی نے ہمیں دیکھ لیا۔
👇👇
ہم ایسے شہر میں رہتے تھے ، جہاں کالج میں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پڑھتے تھے۔ اس تھوڑی سی آبادی والے شہر میں صرف یہی ایک کالج تھا، لہٰذا مجھے مجبوراً کو ایجو کیشن میں داخلہ لینا پڑا۔ اس کالج میں حبیب بھی زیر تعلیم تھا۔ یہ لڑکا مجھ سے ایک سال بڑا ہو گا، گرچہ ہم پڑوسی تھے لیکن میں اس سے بات نہیں کرتی تھی۔ جب سے یہ لوگ ہمارے پڑوسی ہوئے تھے، میں نے کبھی اس سے بات نہ کی تھی، لہٰذا یہ حجاب کالج میں بھی برقرار تھا۔ یہ چھٹی کا دن تھا۔ میں نے کپڑے دھو کر چھت پر بندھی الگنی پر ڈالے ہی تھے کہ کچھ دیر میں آسمان ن پر پر گھنے بادلوں سے ڈھک گیا اور موسم سہانا ہو گیا۔ گھرے ہوئے بادل دیکھ کر مجھے دھلے ہوئے کپڑوں کی فکر ہوئی، سو دوبارہ ترنت چھت پر پہنچی اور کپڑے اتار کر ٹوکری میں رکھنے لگی، تب ہی میری نظر پڑوس کی چھت پر موجود حبیب پر پڑی۔

وہ بھی اپنے گیلے کپڑے اتارنے آیا تھا۔ شاید اس کی ماں نے اسے اوپر بھیجا تھا۔ گھٹنوں کی مریضہ ہونے کے سبب وہ زینہ چڑھنے سے قاصر تھیں، بہر حال میں نے حبیب کی طرف توجہ نہ دی۔ جب میں ٹوکری اٹھا کر اپنے زینے کی جانب مڑی تو اس نے منڈیر کے قریب آکر آواز دی۔ سنو شاہانہ ! وہ بولا۔ مجھے کچھ نوٹس درکار ہیں، اگر آپ کے پاس ہوں تو براہ کرم چھت کی منڈیر پر رکھ دیں، میں اٹھا لوں گا۔ میں نے منہ اوپر کر کے بادلوں کی طرف دیکھا اور مسکرادی۔ وہ سمجھ گیا کہ بارش ہونے کو ہے ، اگر نوٹس بھیگ گئے تو ، تب ہی اس نے کہا۔

بارش نہ ہو تو رکھ دیجئے گا۔ میں اچھا کہہ کر زینہ اتر آئی۔ سوچا کہ ممکن ہے اس کو نوٹس فوری طور پر درکار ہوں ،اس سے ایک کلاس آگے یعنی فائنل میں تھی اور کل ہی پچھلی کلاس کے نوٹس نکال کر ایک جانب رکھ دیے تھے ، کہ یہ اب میرے لیے بے کار تھے۔ میرے دل کے اندر موجود نیکی نے میرے ضمیر سے کہا۔ ان نوٹس کو ردی میں پھینکنے سے تو بہتر ہے اس کو ہی دے دوں، جس کو اس کی ضرورت ہے۔ کسی ضرورت مند طالب علم کے کام آجائیں گے ، تو اچھا ہے۔ انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ اسی وقت میں نے نوٹس کا پلندہ اٹھایا اور جا کر منڈیر پر دھر دیا۔

اب دل پر بار بار یہ خیال بجلی کی طرح گزرتا تھا کہ جانے اس نے نوٹس اٹھائے یا نہیں۔ دوپہر کو چھت پر جا کر جھانکا۔ شکر ہے بارش نہ ہوئی تھی، مگر بنڈل اسی طرح موجود تھا۔ دل میں آیا کہ واپس اٹھا لوں لیکن پھر ایسا نہ کر سکی۔ ایک عجیب سی بے چینی شام تک دامن گیر رہی، تمام دن کسی کام میں دل نہ لگا۔ دھیان اسی بنڈل کی جانب ہی لگا رہا، جو پڑوسی کی منڈیر پر دھرا تھا۔ سوچ رہی تھی اگر اس نے نہ اٹھایا تو امی کو کہوں گی اسے دے دیں۔ پانچ بجے شام کام سے فارغ ہو کر پھر بنڈل دیکھنے چھت پر آ پہنچی، جہاں حبیب میرے انتظار میں موجود تھا۔ اس نے مجھے پہلے تو سلام کیا اور پھر شکریہ کہا۔

کوئی بات نہیں، میرے لیے تو یہ نوٹس اب بے کار تھے ، آپ کے کام آجائیں تو اچھی بات ہے۔ یہ کہہ کر میں جلدی سے ز ینہ اتر کر صحن میں آ گئی اور وہ کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ان دنوں ہم آٹھ افراد اپنے گھر میں ایک پر سکون زندگی گزار رہے تھے۔ میں اپنی دو بہنوں سے بڑی تھی۔ میرا ایک بھائی بڑا اور دو چھوٹے تھے۔ ہم سب بہن بھائیوں میں میں بہت محبت تھی۔ ہمارا یہ ذاتی گھر تھا، جس میں برسوں سے ره رہے تھے لیکن ہم لڑکیاں پڑوس میں کہیں آتی جاتی نہیں تھیں۔ اگر کبھی ضرورت پڑتی، خوشی غمی کے موقعوں پر امی ہی اڑوس پڑوس میں جاتی تھیں۔ تب ہی میں اب تک حبیب کے گھر بھی نہیں گئی تھی۔ اس واقعے کے پورے تین ماہ تک میں گھر میں سمٹ کر بیٹھ گئی اور کبھی حبیب سے رابطہ نہ کیا۔ اس دوران اس نے کالج میں ایک دو بار مجھ سے بات کرنی چاہی مگر میں نے موقع ہی نہ دیا۔ وہ فطرتاً شریف اور اپنی والدہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو چکا تھا۔

ماں نے اسے بڑی دقتوں سے پالا تھا۔ اس کے ماموں ، اپنی بیوہ بہن کی مالی مدد کیا کرتے تھے ، تب ہی حبیب امیر زادوں جیسا لاڈلا یا آوارہ مزاج نہ تھا۔ وہ لاپروا قسم کا لڑکا نہیں تھا، اسے اپنی والدہ کی بیوگی اور حالات کی سنگینی کا خوب احساس تھا۔ وہ محنت سے دل لگا کر پڑھ بھی رہا تھا۔ اس کی شرافت کو دیکھ کر ہی میرے دل میں اس کی عزت بنی تھی۔ حبیب کی والدہ کبھی کبھار ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ ایک دن انہوں نے باتوں باتوں میں بتایا کہ حبیب کا ہاتھ جھلس گیا ہے۔ تب ہی امی نے سوچا کہ پڑوسن ہیں، جا کر ان کے لڑکے کو پوچھ آنا چاہیے۔ چونکہ میرے دل میں اس کے لیے خاص جگہ بن گئی تھی، اسی وجہ سے میں نے کہا۔ امی میں بھی آپ کے ساتھ چلتی ہوں۔ امی نے اعتراض نہ کیا، بولیں۔ ٹھیک ہے ، چلی چلو – امی ، حبیب سے باتیں کرنے لگیں تو مجھے بھی اس سے بات کرنے کا موقع ملا۔ پوچھا کہ تمہارا ہاتھ کیسے جھلسا ؟ وہ کہنے لگا۔ امی کے گھٹنوں میں درد رہتا ہے۔

ان کو پکانے میں دقت ہو رہی تھی۔ سوچا کہ میں ناشتہ بنا لوں، بس اس طرح ہاتھ پر شعلے کی لپک لگی ، چولہا جلاتے ہوئے مجھلس گیا۔ مجھے دکھ ہوا کہ امتحان نزدیک تھے اور اس کے سیدھے ہاتھ میں تکلیف تھی۔ سوچا، یہ کیسے لکھ پائے گا اور کیونکر پیپر دے گا۔ اب اس کی بے بسی پر میرا دل موم کی طرح پگھل گیا۔ جانے دل میں کیا آیا کہ میں نے ایک رقعہ لکھا اور آخر کار اس خاردار راستے کا انتخاب کر لیا، جس پر چل کر لوگ ہمیشہ زخمی ہی ہوتے ہیں۔ رقعے میں ، میں نے لکھا تھا۔ اگر تمہارے ہاتھ میں زیادہ تکلیف ہے ، تم چاہو تو پریکٹیکل جنرل مجھ سے لکھوا لو۔ میرے پاس اپنا موجود ہے ، مجھے تمہارا جنرل بنانے میں دقت نہ ہو گی۔ چونکہ ہمارے مضمون ایک تھے ، اس لیے میں اس کی مدد کر سکتی تھی۔ جواب میں اس نے شکریہ لکھا اور جب میں صحن میں بیٹھی تھی، اس نے اپنے گھر کی چھت سے یہ رقعہ ہمارے صحن میں پھینک دیا۔

میں نے فورا اٹھایا، کھول کر پڑھا۔ لکھا ہوا تھا، جیسے تم اب میرا ساتھ دے رہی ہو ، کیا عمر بھر اسی طرح ساتھ دے سکو گی ؟ میں نے جواب میں لکھ دیا۔ ہاں، اگر تم ساتھ دو گے تو میں بھی تمہارا ساتھ دوں گی۔ لکھنے کو تو یہ بات لکھ دی، پھر بہت پشیمان کے بھی ہوئی کہ جس راہ کو جانتی نہیں، کیوں اس پر قدم رکھ دیا۔ کسی کو ہم سے سفر بنانے سے پہلے آزمانا تو چاہیے تھا کہ یہ عمر بھر ساتھ دے بھی سکے گا کہ نہیں۔ اس کے بعد ہمارے در میان با قاعدہ رقعہ بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں رقعہ لکھ کر اس کی چھت پر پھینک آتی ، اسی طرح جب وہ دیکھتا کہ میں اپنے صحن میں اکیلی بیٹھی ہوں تو وہ چھوٹے سے پتھر یا کنکر میں رقعہ لپیٹ کر اپنی چھت سے پھینک دیتا جو میرے سامنے آ گرتا، یوں ہمیں کسی پیامبریا ڈاکیے کی ضرورت نہ پڑتی تھی۔ چھت کے ساتھ چھت ملی ہوئی تھی، ہمیں بات کرنا بھی آسان تھا اور خط و کتابت کی ترسیل بھی آسان تھی۔

ہم زیادہ دیر چھت پر نہیں رکھتے تھے۔ مبادا امی کو شک ہو جائے۔ وہ بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو کسی لڑکی کو برائی پر اکساتا۔ وہ اچھے مستقبل کے لیے محنت کرنا اور اپنی بیوہ ماں کے دکھ سمیٹنا چاہتا تھا۔ یہ بات اس نے مجھ سے کئی بار کہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ بس ایک نظر تم کو دیکھ لیتا ہوں تو محنت کرنے کی امنگ بڑھ جاتی ہے اور تم کو حاصل کرنے کا خیال مجھ کو طاقتور بنا دیتا ہے۔ اس نے بس ایک بار مجھے کہا کہ تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ ان ہی دنوں، ایک روز امی اور بھائی کو ایک عزیز کے انتقال پر لاہور جانا پڑا ، تب میں نے حبیب سے کہا کہ تم ہمارے گھر آ جائو۔ یہ دسمبر کی ایک رات تھی ، وہ ساڑھے دس بجے ہمارے گھر آیا۔ کافی پریشان تھا۔ میں نے سبب پوچھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

میں نے اپنی زندگی میں پہلا مرد کو دیکھا جو آنسو بہارہا تھا۔ دل کانپ اٹھا، پوچھا مجھے بتادو ، کیا بات ہے ؟ تم کو کیا پریشانی ہے ؟ اس نے بتایا کہ ایک نہیں دو پریشانیاں ہیں۔ ایک تو داخلہ فیس بھجوانی ہے اور پیسے پورے نہیں ہو ر ہے اور دوسرے امی میری منگنی کسی رشتہ دار کی بیٹی سے کرنا چاہتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا میں تم کو کھو دوں گا۔ پہلا مسئلہ تو ابھی حل ہو جائے گا، فیس کے پیسوں کی فکر مت کرو، البتہ دو سر امسئلہ تو تمہارا ہے ، اس کو تم ہی نے حل کرنا ہے، میں تو نہیں حل کر سکتی۔ میں نے اس کو داخلہ فیس کے لیے رقم دی۔ اس نے اس شرط پر لی کہ جب اس کی امی کو مرحوم شوہر کی پنشن کے پیسے ملیں گے تو وہ لوٹا دے گا۔

مجھے یہ رقم واپس لینی ہو گی اور یہ وہ بطور قرض قبول کرے گا۔ ٹھیک ہے، لیکن تم ابھی داخلہ فیس تو بھرو، کیونکہ یہ تو مقررہ تاریخ تک دینا ہوتا ہے۔ یہ قرض ہے اور میں واپس لے لوں گی۔ دوسرے مسئلے کے بارے میں بھی اسے تسلی دی کہ بھئی جب وقت آئے گا، دیکھا جائے گا۔ ابھی سے تم کس فکر میں پڑ گئے ہو، پہلے پیپرز تو سکون سے ہو لینے دو۔ پہلے ہی تمہاری انگلیاں جھلسی ہوئی ہیں۔ کسی طور حبیب نے پیپرز دے دیئے۔ ایک دن اس کی خالہ اپنے گھر والوں کے ساتھ آئی، ان کے گھر کچھ گہما گہمی دکھائی دی۔ ان کے جانے کے بعد حبیب کا رقعہ مجھے ملا کہ بالآخر اس کے گھر والوں نے ہماری راہیں جدا کر دی ہیں۔

اس کی منگنی، خالہ زاد سے کر دی گئی تھی۔ یہ سن کر میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ کافی دن تک ، جب آنسو گرتے تھے تو پھر تھمتے نہیں تھے۔ اس نے مجھے اشارے سے چھت پر بلایا۔ ہم دونوں مل کر خوب روئے تھے۔ یہ میری اس سے دوسری اور آخری ملاقات تھی۔ اب دو ہی راستے تھے کہ ہم ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں یا پھر والدین کی رضا پر راضی ہو کر سر جھکا لیں اور خاموش ہو جائیں۔ اس نے کہا تھا کہ اب تم ہی فیصلہ کرنا، تم جو فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہوگا۔ مجھے اپنے گھر والوں سے زیادہ اس کی بیوہ ماں کی خوشی کا خیال تھا، جس نے بہت دکھوں اور تکلیفوں کو جھیل کر اسے پالا تھا اور حبیب اس کی کل کائنات تھا۔ اب ہم محتاط ہو گئے لیکن ایک دوسرے کے لیے پہلے سے زیادہ محبت بڑھ گئی۔ جدا ہونے کے خیال سے ہی دل بیٹھا جاتا تھا، تاہم یہ حقیقت تھی کہ کسی نہ کسی طرح زندگی کا یہ سفر اب اکیلے ہی طے کرنا تھا۔ میں گریجویشن کے بعد فارغ تھی۔ تب ہی میرے والدین نے بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہونا ضروری سمجھا اور میرا رشتہ والدہ نے اپنے رشتہ داروں میں طے کر دیا۔ جب مجھ سے پوچھا گیا تو میرا جواب سوائے آنسوئوں کے اور کیا ہو سکتا تھا کیونکہ حبیب کی تو منگنی ہو چکی تھی۔
خاموش محبت
مزید پڑھیں
ان دنوں میں صدمے سے نیم جان تھی تو حبیب بھی غم سے نڈھال تھا۔ چند ماہ مایوسی سے دکھ جھیلتے رہنے کے بعد بالآخر میری منگنی ہو گئی اور میں نے خاموشی سے تقدیر کے فیصلے کو یہ سوچ کر تسلیم کر لیا کہ ضروری تو نہیں ہم جس کو چاہیں یا پسند کریں، اس کے ساتھ ہماری شادی بھی ہو جائے۔ حبیب نے مجھ سے زیادہ دکھ محسوس کیا اور شدید بیمار ہو گیا کہ اس کی جان کے لالے پڑ گئے۔ اس کی ماں کا رو، رو کر برا حال تھا۔ امی بھی عیادت کرنے اسپتال گئیں، تب وہاں اس کی والدہ نے بیٹے کے دکھ کی وجہ سے میری والدہ کو آگاہ کر دیا۔ حبیب کی حالت دیکھ کر امی کو احساس ہوا کہ یہ لڑکا تو میری لڑکی سے واقعی دل سے محبت کرتا ہے ، تب ہی تو اتنا بیمار پڑا ہوا ہے۔

انہوں نے کچھ سوچ کر اس کی امی سے کہا کہ ہمیں اپنے بچوں کی خوشی کے بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔ دونوں ہی فرماں بردار ہیں کہ جہاں ہم نے منگنی کو کہا، کر لی اور ہمار ا دل نہیں دکھایا تو ہمیں بھی ان کا دل نہیں دکھانا چاہیے۔ دعا ہے کہ تمہارا بیٹا جلد صحت یاب ہو جائے تو پھر ہم اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ حبیب صحت یاب ہو کر ملازمت کرنے لگے گا تو منگنیاں توڑی جاسکتی ہیں، اپنے بچوں کی خوشی کی خاطر فیصلے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ جب یہ حبیب نے سنا تو گویا پھر سے جی اٹھا۔ اس بیمارمیں پھر سے جان پڑ گئی اور وہ تیزی سے صحت یاب ہونے لگا۔ ایک امید کی کرن نے اس کے بے جان وجود میں نئی روح پھونک دی تھی۔

امید انسان کی سب سے بڑی خوشی اور طاقت ہے، اگر امید نہ ہو تو انسان وقت سے پہلے جان ہار دیتا ہے۔ حبیب نے مجھے حاصل کرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دی اور بالآخر ایک اچھی ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کو ایک پرائیویٹ کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ اچھی تنخواہ تھی اور الائونس وغیرہ بھی تھا۔ جب یہ خبر اس کی ماں نے امی کو سنائی تو وہ کچھ پریشان سی ہو کر سوچ میں پڑ گئیں۔ تاہم میری خوشی کی خاطر انہوں نے میری منگنی ختم کرنے کا اعلان کر دیا اور بہانہ بنایا کہ میری بیٹی ایم اے کرنا چاہتی ہے اور ابھی شادی کی بجائے اعلیٰ تعلیم کے حق میں ہے، لہٰذا ہم نے اس کی شادی کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے۔ میرے منگیتر کے والدین نے بہت زور لگایا کہ ہم دو سال کی مہلت دیتے ہیں۔ یہ ایم اے کرلے، پھر شادی کر لیں گے مگر ہمیں تو رشتہ ختم کرنا تھا۔
خاموش محبت
مزید پڑھیں
لہذا والدہ نے ان کی ہر آرزو پر پانی پھیر دیا۔ اسی طرح حبیب کی والدہ نے بھی کسی بہانے سے اس کی منگنی ختم کرا دی۔ انسان چاہے جتنا زور لگا لے ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔ حبیب کی ماں نے شادی کے لیے امی سے ایک سال کی مہلت مانگی تھی ، تاکہ کچھ رقم جمع ہو تو شادی پر اخراجات کا انتظام کر سکیں۔ خدا کی کرنی ایک سال بعد حبیب کی ملازمت ہی جاتی رہی۔ جب اس کی والدہ نے امی جان کو یہ خبر سنائی تو والدہ کو مایوسی نے گھیر لیا۔ انہوں نے حبیب کی امی سے کہا۔ پرائیویٹ ملازمتیں تو ایسی ہی ہوتی ہیں۔ کمپنی والے کبھی رکھتے ہیں تو کبھی نکال دیتے ہیں۔ جانے پھر ایک تمہارے لڑکے کو کب ملازمت ملے۔ تمہارے مرحوم شوہر کی پنشن سے اتنے تھوڑے پیسے ملتے ہیں کہ تم دونوں ماں بیٹے کی گزر بسر بھی صحیح طرح نہیں ہو پاتی۔ بہن اللہ سے اچھی امید رکھو۔

ہم نے اپنے بچوں کو خوشیاں پوری کرنے کی خاطر ان کی منگنیاں توڑی ہیں تو اب کچھ حوصلہ کرنا ہی پڑے گا۔ اللہ نے چاہا تو جلد حبیب کی دوبارہ ملازمت ہو جائے گی۔ والدہ نے چھ ماہ تک خاموشی اختیار کیے رکھی۔ چھ ماہ بعد میرے لیے ایک اور بہت اچھا رشتہ آگیا۔ لڑکا سعودی عرب میں انجینئر تھا اور یہ خوش حال لوگ تھے۔ اتنی اچھی فیملی کہ ایسا رشتہ قسمت والوں کو ملتا ہے۔ اب والدہ پھر سے سوچ میں پڑ گئیں۔ ان لوگوں سے کہا کہ چھ ماہ کی مہلت دے سکتے ہیں تو ٹھیک ہے، ابھی بات پکی نہیں ہو سکتی۔ انہیں میں پسند آگئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم چھ ماہ انتظار کر لیتے ہیں۔ جب تک آپ کی طرف سے جواب نہ مل جائے گا کہیں اور بات نہ چلائیں گے۔

ادھر چھ ماہ بھی گزر گئے ، حبیب کو ملازمت نہ ملی۔ تب ماں، آنٹی سے حتمی بات کرنے گئیں۔ کہا کہ سال بھر انتظار کر لیا مگر تمہارے لڑکے کو ملازمت نہیں ملی۔ آخر کب تک میں اپنی لڑکی کو بٹھا رکھوں گی۔ جانے کب ملازمت ملے تمہارے پاس تو کوئی اثاثہ بھی نہیں کہ تمہار ا لڑکا دکان ہی کھول کر ذریعہ روزگار پیدا کر لے۔ امی کی نیت بدل گئی تھی۔ جب سعد کے گھر والے دوبارہ اس کا رشتہ لائے کہ ہم نے چھ ماہ انتظار کر لیا ہے ، اب ہم کو جواب چاہیے ۔ تب امی نے فوراً ان کو ہاں کر دی اور حبیب سے منگنی ختم کردی تا کہ ہم دھوکے میں رہیں اور نہ آپ ، کیونکہ وہ حبیب کے ساتھ رشتہ کر کے اب پچھتا رہی تھیں۔

جہاں پہلے میری منگنی ہوئی تھی ، وہ بھی ایک خوش حال گھرانہ تھا جبکہ حبیب ایک نادار یتیم لڑکا تھا، سوائے گریجویشن کے اس کے پاس اور تعلیم یا ہنر بھی نہیں تھا۔ امی نے سوچا کہ اتنی غربت میں بیٹی کا رشتہ دے کر غلطی کر رہی ہوں جبکہ خوشحالی، زندگی کی خوشیوں کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ میری بیٹی عمر بھر غربت میں زندگی گزارے گی۔ رہی خوشیوں کی بات تو بچوں کے شادی اور محبت کے بارے میں ان کے اپنے فیصلے جذباتی ہوتے ہیں۔
عشق کا امتحان
مزید پڑھیں
تھوڑے دنوں میں ہی جب شاہانہ امیر گھر کے سکھ دیکھے گی تو پچھلی کہانی بھول جائے گی۔ امی نے تو پھر بھی چھ ماہ مزید صبر کیا تھا۔ والد صاحب حبیب سے میری منگنی کے حق میں نہ تھے کہ وہ خوشحال لوگ نہیں تھے مگر والدہ کے کہنے سے چپ ہو رہے تھے۔ حبیب کی ماں کو جواب دے کر امی نے میری شادی کی تاریخ سعد کے والدین کو دے دی۔ جب شادی کے بعد پہلی بار میکے گئی تو پتا چلا کہ حبیب یہ صدمہ نہ سہ سکا اور پھر سے بیمار ہو کر اسپتال پہنچ گیا ہے۔ میں سوائے اس کی سلامتی کی دعا مانگنے کے اور کچھ نہ کر سکی۔

شادی کے ایک ماہ بعد ہی میں اپنے شوہر کے ساتھ سعودی عرب چلی گئی، جہاں مجھے ایک خط ملا جو میری سہیلی کے پتے پر آیا تھا۔ وہ ہمارے قریب رہتی تھی۔ اس کا شوہر میرے خاوند کے ساتھ ایک ہی کمپنی میں کام کرتا تھا۔ نائلہ نے بند لفافہ مجھے لا کر دیا۔ وہ سمجھی میرے گھر سے خط آیا ہے، کیونکہ میں نے امی والوں کو نائلہ کا پتا دیا ہوا تھا۔ لفافہ کھولا تو حبیب کی تحریر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ جانے کیسے اس نے ہمارے گھر سے یہ پتا حاصل کیا تھا۔ لکھا تھا، میرے لیے اب جینا محال ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ میں ہی اپنی والدہ کے لیے سب کچھ ہوں۔ کہتے ہیں کہ ہر کام میں بھلائی ہوئی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہماری جدائی میں کون سی نیکی پوشیدہ ہے۔

میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تمہاری عزت پر حرف آئے، لہٰذا اطمینان رکھو ، اب ہمارے درمیان کوئی رابطہ کوئی خط و کتابت نہیں ہو گی ، اس لیے یہ خط تحریر کیا ہے۔ تم میرا خیال بالکل بھلا دینا۔ میں تم کو قصور وار نہیں سمجھتا، لہٰذا کسی پچھتاوے میں نہ آنا، اداس نہ رہنا، اپنے والدین کی لاج رکھنا، شوہر کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرنا اور کبھی لڑ جھگڑ کر میکے نہ آنا کیونکہ اب یہی تمہارے حق میں بہتر ہے۔ میرے دل میں تمہارے لیے جیسا احترام پہلے تھا اب بھی ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ زندگی کی بعض حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جنہیں قبول کر لینا ہی بہتر ہوتا ہے ۔
خیالی محبوبہ
مزید پڑھیں
اس کے بعد کبھی حبیب کا کوئی خط نہیں آیا، نہ کبھی بات چیت ہوئی اور نہ اس نے فون پر رابطے کی کوشش کی۔ کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ حبیب کا دل ہمارے محلے سے ایسا کھٹا ہوا کہ وہ لوگ اپنا مکان ہی بیچ کر چلے گئے۔ کہاں گئے ؟ یہ کسی کو معلوم نہ ہو سکا۔ یوں تو انسان قدم قدم پر دھو کے کھاتا ہے اور قدم قدم پر دکھ بھی اٹھاتا ہے لیکن ہمارا قصور کوئی نہ تھا، سوائے اس کے کہ حبیب کو نوکری نہ ملی۔ اسی وجہ سے اسے زندگی کی سب سے بڑی خوشی سے جدائی مل گئی –

10/12/2025

سوکن کا راز


میرا میاں اک لڑکی کو گھرلے آیا۔ مجھے سامنے دیکھ کر وہ جھجکنے لگی۔ میاں جی بولے۔ نیلم ! کیوں جھجک رہی ہو، اپنا ہی گھر ہے۔ منزہ اچھی بیوی ہے۔ تم اس سے حسن سلوک کی توقع رکھو۔ یہ سوکن بن کر نہیں بہن بن کر تمہارے ساتھ گزارہ کرے گی۔ میاں کےمنہ سے یہ الفاظ سُن کر مجھے چکر سا آگیا۔ پیروں تلے زمین ہی نکل گئی۔
👇👇
ہمارے گھر میں خوشیاں تھیں ، خوش حالی تھی، تبھی سکون تھا کہ دولت چھاجوں برس رہی تھی۔ بے شک دُنیا میں، سردی، گرمی، خزاں و بہار آتے جاتے رہتے ہیں۔ بہار بھی چار دن کی ہوتی ہے مگر مجھے لگتا تھا کہ میرے گھر کی بہار سدا یو نہی رہے گی۔ اچانک وقت نے کروٹ لی اور میرے میاں رشوت کے الزام میں اپنے سرکاری عہدے سے برطرف کر دیئے گئے اور ہمارے بہت بُرے دن آگئے۔

ہماری بھی فاقوں تک نوبت پہنچ گئی۔ اب سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا۔ میں محض میٹرک پاس تھی کیونکہ شادی نو عمری میں ہو گئی تھی۔ ملازمت کا تو سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں ؟ میرے ایک دور کے کزن وکیل تھے۔ ان کے پاس سوالی بن کر گئی تو انہوں نے بڑی مشکل سے فتح کی ضمانت کروائی کیونکہ ضمانت بھرنے کو پیسہ بھی پاس نہ تھا۔ ایک گاڑی بچی تھی وہ دے کر میاں جی کی جان چھڑائی۔ ان دنوں جی اس قدر پریشان رہتا تھا کہ سوچتی تھی، جنگل میں جا بسوں یا خود کشی کرلوں۔

میاں صاحب بھی سوچ سوچ کر ہلکان ہوئے جاتے تھے کیونکہ ان کی عادت تھی، جو کماتے تھے اڑا دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ جب بہتی گنگا ہے یونہی سدا بہتی رہے گی۔ وہ نوکری کرنے سے عاجز تھے۔ افسری کی تھی، چھوٹی موٹی ملازمت کیونکر کر سکتے تھے۔ رشوت خوری بھی کلنک کا ٹیکہ بن کر ان کے کیریئر کے اوپر چپک گئی تھی۔ آخر رشتہ دار بھی کب تک مدد کرتے ؟جب مایوسی کی انتہا ہو گئی تو میرے شوہر ایک دن یہ کہہ کر گھر سے نکل گئے کہ اگر آج روزگار کی کوئی سبیل نہ نکلی تو گھر لوٹ کر نہیں آئوں گا۔ میں تمام دن روتی رہی، ان کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہی۔

شام ہوئی دیکھا کہ میاں صاحب آرہے ہیں اور ایک برقعہ پوش عورت ان کے پیچھے چلی آرہی ہے۔ حیران ہوئی کہ یہ کون ہے ؟ عورت نے گھر کی دہلیز پار کر کے نقاب جو پلٹا۔ آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ کالے برقعے کی باریک نقاب میں چہرہ ایساد مکتا ہوا کہ جیسے بادلوں میں چاند۔ میں نے عورت کو کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔ وہ جھجکنے لگی۔ میاں جی بولے۔ نیلم ! کیوں جھجک رہی ہو، اپنا ہی گھر ہے۔ منزہ اچھی بیوی ہے۔ تم اس سے حسن سلوک کی توقع رکھو۔ یہ سوکن بن کر نہیں بہن بن کر تمہارے ساتھ گزارہ کرے گی۔ میاں کے منہ سے یہ الفاظ سُن کر مجھ کو چکر سا آگیا۔

جہاں کھڑی تھی وہاں ہی بیٹھ گئی۔ پہلے تو سمجھی کہ میں خواب کی حالت میں ہوں۔ سوکن کا لفظ پگھلا ہوا سیسہ بن کر کانوں میں اتر گیا تھا۔ یا خُدا یہ کیسا عذاب نازل ہو گیا مجھ پر اور میرے بچوں پر ؟ میں نے تو مانگی تھی خوشحالی کی دُعا اور پڑ گئی مجھ پر سوتن کی صورت یہ مصیبت ! تھوڑی دیر تو چارپائی کی پٹی پر گم صم بیٹھی رہی، گویا کوئی بے روح جسم ، آنکھیں کھولے اپنی بے نور آنکھوں سے دنیا کو تکتا ہو۔میاں نے جھنجھوڑا۔ منزہ! کیا ہوا ہے ؟ اگر یہ آگئی ہے تو اپنی قسمت ساتھ لائی ہے اور ہر کوئی اپنی قسمت کا کھاتا ہے۔تیری قسمت اور تیرے بچوں کے نصیب پر تو مہر لگ گئی ہے۔ اس کو اس وجہ سے ساتھ لے آیا ہوں کہ شاید اسی کے نصیب سے ہمیں اور ہمارے بچوں کو کھانے کو کچھ مل جائے۔ اور ہوا بھی یہی۔ نیلم بڑی بھاگوان نکلی۔

اس کے آتے ہی ہماری تنگ دستی اس کا روشن چہرہ دیکھ کر بھاگ گئی۔ نیلم کسی کمپنی میں ملازم تھی لیکن وہ ملازمت پر اس طرح تیار ہو کر جاتی تھی کہ جیسے کسی شریف اور باحیا کو زبردستی بنائو سنگھار پر مجبور کر کے ڈیوٹی پر بھیجا جارہا ہو۔ میک آپ سے سجی، شوخ لباس پہن کر شام کو ڈیوٹی پر چلی جاتی تو صبح کو لوٹتی۔ آتے ہی پڑ کر سو جاتی۔ میں نے میاں جی سے پوچھا۔ آخر یہ کیسی ملازمت ہے؟ بولے، ایک بڑی کمپنی ہیں ریسپشنسٹ ہے۔

یہ ملٹی نیشنل کمپنی ہے، تنخواہ بہت ہے لیکن ڈیوٹی رات کو کرنا پڑتی ہے۔ وہ کیوں ؟ یہ تو عورت ذات ہے، مستقل رات کی ڈیوٹی کیوں لگائی ہے ؟ وہ اس لئے کہ اکثر یورپی ممالک میں جہاں جب دن ہوتا ہے تب ہمارے ملک میں رات ہوتی ہے ، اس وجہ سے یہاں رات کو کام کرناپڑتا ہے۔ مجھ کو اپنے صاحب کی یہ بات سمجھ میں نہ آئی تو چپ ہو رہی۔ رات کو تو وہ میرے پاس ہی ہوتے تھے، پھر بھلا مجھے اس سے کیا تکلیف تھی۔ وہ میرے گھر بار کے کسی معاملے میں دخل نہ دیتی تھی ، صرف دوپہر کا کھانا کھاتی، صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا اس کا باہر سے ہوتا تھا۔ وہ ہم سے کچھ مانگتی، نہ کبھی جھگڑے والی بات کی۔ چند دن میں مجھ کو اس کے بارے جو خدشات تھے وہ دور ہو گئے۔

میرے میاں سے اس کا تعلق، بس بات چیت کی حد تک تھا۔ باہر کہیں ملتے ہوں تو خدا معلوم ، میں نے کبھی ان کی جاسوسی نہ کی اور نہ ہی کر سکتی تھی۔ میں تو گھر کی چار دیواری میں رہنے والی عورت تھی۔ چھٹی والے دن وہ اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی۔ کپڑے استری کر کے الماری میں رکھتی، میلے کپڑے دھوبی کو بھجواتی ، دل کرتا تو اپنی پسندیدہ ڈش بنا لیتی اور میرے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹانے کی کوشش بھی کرتی۔ یوں لگتا جیسے وہ کوئی نیک روح ہو۔

اس کے قدم ایسے مبارک تھے کہ ہمارے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ اس کے آنے کے بعد سے کسی چیز کی کمی نہ رہی تھی۔ میرے بچے اچھے سے اچھا کھاتے ، عمدہ سے عمدہ پہنتے۔ معلوم نہیں اس کی تنخواہ کتنی تھی۔ وہ اپنی کمائی میرے میاں کے ہاتھ میں رکھ دیتی تھی۔ میں نے کبھی ان معاملات میں دخل نہ دیا، میرے گھر کے فاقے دُور ہو گئے تھے سو مجھے آم کھانے سے مطلب تھا نہ کہ پیٹر گننے سے۔ مجھے قسمت پر یقین تھا۔ اب اگر قسمت میں سوتن ہی لکھی تھی تو اس سے اچھی سو تن کہاں مل سکتی تھی، جو کمائو بھی تھی اور میرے میاں سے دُور بھی رہتی تھی۔ میاں جی کا کہنا تھا کہ یہ بے سہار او مجبور ہے اسے بس پناہ دی ہے۔

گھر پر تو میرا ہی راج تھا اور پہلے سے بڑھ کر تھا۔ صرف ایک چیز مجھ کٹھکتی تھی کہ یہ عورت نت نئے اور بہت عمدہ کپڑے ۔ پہنتی تھی۔ کھانا بھی میرے میاں اس کے لئے بہت اچھا پکواتے تھے اور جب وہ سورہی ہوتی تو ہم کو خاص ہدایت تھی کہ شور نہ ہو ، کوئی اس کو نہ جگائے۔ اس کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ میں نے ان باتوں پر کڑھنے کو بیکار جانا۔ جب کوئی اتنا فائدہ پہنچائے تو اتنا تو برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہمارے یہاں آکر وہ اور زیادہ نکھر گئی تھی کیونکہ میں بھی اس کا خیال رکھنے لگی تھی اور اس کے ساتھ پیار سے بات کرتی تھی۔

مجھے لگتا تھا کہ وہ پیار کی پیاسی ہے ، تاہم اس کی عادت تھی کہ وہ بات بہت کم کرتی تھی۔ اس کی تنخواہ سے ہی ہمارے میاں نے گاڑی بھی لے لی۔ وہ روزانہ شام کو گاڑی پرنیلم کو ڈیوٹی پر چھوڑ جاتے اور واپسی میں وہ خود آجاتی تھی۔ کہتی کہ کمپنی کی گاڑی چھوڑ جاتی ہے- وقت اسی معمول سے گزرتا رہا۔ زندگی کی گاڑی یکسانیت کے ساتھ چلتی جارہی تھی۔ میرے بچے اب بڑے ہو گئے تھے۔ وہ مجھے امی اور نیلم کو چھوٹی امی کہتے تھے۔ ایسا ان کے والد نے ان کو سکھایا تھا۔

مجھے بھی اس پر اعتراض نہ تھا۔ وہ میرے بچوں سے پیار کا اظہار کرتی اور اکثر ان کے لئے تحفے تحائف بھی لاتی تھی۔ اس وجہ سے بچے بھی اس سے پیار اور احترام سے پیش آتے تھے۔ ہماری زندگی پھر سے پُر سکون ہو گئی کہ ایک ہی ڈگر پر چل پڑی تھی۔ ایک روز اچانک جانے کس بات پر نیلم کا میرے شوہر سے جھگڑا ہو گیا۔ وہ رورہی تھی، یہ منارہے تھے۔ جب وہ نہ مانی تو ہمارے صاحب بڑ بڑاتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔ اس روز نیلم ڈیوٹی پر بھی نہ گئی۔ اس کے بعد تو وہ کئی دنوں تک بستر پر پڑی رہی اور ڈیوٹی سے چھٹی لے لی۔ میں دیکھ رہی تھی کہ فتح جی بہت پریشان رہنے لگے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی ایسا تنازع تھا جس کے باعث گھر کا سکون گویا اتھل پتھل ہونے والا تھا۔ ایک دن تو ان دونوں کے بیچ اتنا جھگڑا ہوا کہ میاں صاحب تشدد پر اتر آئے اور نیلم نے زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔

بچے اسکول گئے ہوئے تھے۔ میں باورچی خانے سے بھاگی ہوئی گئی۔ آج میں نے پہلی باران کے درمیان دخل دینا چاہا کیونکہ یہ جھگڑا ایک غیر معمولی بات تھی۔ میرے پہنچنے پر فتح نے اُسے مارنا پیٹنا بند کر دیا مگر اس نے رونا بند نہ کیا۔ میں نے کہا کہ میں کئی روز سے تم لوگوں کو جھگڑتے دیکھ رہی ہوں۔ بات کیا ہے ؟ باجی آج تو میں آپ کو ساری بات بتا کر رہوں گی، چاہے پھر یہ مجھے زندہ رکھیں یا مار ڈالیں۔ اتنا سننا تھا کہ میرے شوہر کے چہرے پر ہوائیاں اُڑنے لگیں بلکہ ان کے چہرے کا رنگ ہی اُڑ گیا اور وہ خاموش ہو کر ملتجی نظروں سے اسے دیکھتے رہے پھر عالم پریشانی میں بغیر کچھ بولے گھر سے چلے گئے۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور نیلم کو پیار سے گلے لگالیا۔ اس کو تو جیسے برسوں سے کسی غمگسار کی ضرورت تھی۔ میں بھی آخر ایک انسان تھی سینے میں دل رکھتی تھی۔
اک بیوی کی وفا
مزید پڑھیں
وہ میری سوتن تھی تو کیا ہوا، اس نے کبھی مجھے تکلیف نہ پہنچائی تھی۔ جب میں نے اس کے آنسو پونچھے ، بکھرے ہوئے بالوں کو سنوارا ، پیار کیا تو وہ پھٹ پڑی۔ اس نے بتایا کہ تمہارے میاں نے ایک شخص سے رقم لینی تھی اور یہ خاصی بڑی رقم تھی۔ اس وقت انہوں نے اس بندے کو دی تھی جب یہ اپنے عہدے پر فائز ہوا کرتے تھے اور دولت کی ان کو کمی نہ تھی۔ جب کنگال ہو گئے تو اس شخص خاور سے تقاضہ کیا کہ میرے سے جو بطور قرض لئے تھے اب واپس کرو۔

بار بار کے تقاضے پر بھی وہ رقم نہ لوٹا پایا تو انہوں نے کہا کہ اچھا اگر رقم نہیں دے سکتے تو بدلے میں کچھ اور دے دو۔ اپنا مکان، زیور یا کوئی ملکیت ، تب اس کم ظرف نے مجھے ان کے حوالے کر کے کہا۔ ٹھیک ہے، تم اسی کو لے جائو اور سمجھ لو کہ میں نے تمہارا قرض چکتا کر دیا ۔ اب تمہاری مرضی تم ، اس سے شادی کرو، کسی کو دے دو یا بیچ دو۔ آج سے میں اس کی ملکیت سے تمہارے حق میں دست بردار ہوتا ہوں۔

اب میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ شخص کون تھا؟ میں نے سوال کیا۔ وہ جو بھی تھا آپ اس کو نہیں جانتیں۔ بتا بھی دوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ میرے والد کا ایک دُشمن تھا اور اس نے مجھے بچپن میں اغوا کر لیا تھا۔ جب تک اس کی ماں زندہ رہی، میں محفوظ رہی۔ اس نیک بی بی نے میرا خیال رکھا اور کوئی تکلیف نہ ہونے دی – اس کی کوئی بیٹی نہ تھی۔ بس ایک ہی بیٹا تھا یہی خاور بدبخت جس نے مجھے اغوا کرایا تھا۔ جب میں سولہ برس کی ہو گئی تو وہ عورت فوت ہو گئی اور یہ آدمی جو بد قماش تھا، اسے جوئے کی بُری لت بھی تھی، اس نے اپنی ساری دولت جوئے میں ہار دی۔ بہر حال تمہارا میاں مجھے لے کر گھر آگیا مگر پہلے سمجھا دیا کہ میری بیوی کو یہی بتانا کہ تم میری دوسری بیوی ہو، حالانکہ تمہارے آدمی نے مجھ سے کبھی نکاح نہیں کیا۔

خاور نے مجھے اپنے دوستوں کو خوش کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا مگر تمہارے آدمی نے تو بے حیائی کی حد کر دی۔ اس نے مجھے با قاعدہ ایک ایسی عورت کی سپردگی میں دے دیا، جو ہر روز مجھے کسی گاہک کے حوالے کرتی ہے۔ جو ر قم طے ہوتی ہے، وہ اس میں سے اپنا کمیشن لیتی ہے اور باقی کمائی تمہارا شوہر لے لیتا ہے۔ اس نے مجھے با قاعدہ کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ میرا والد تو میرے غم میں چل بسا تھا۔ دنیا میں میرا کوئی نہیں ہے۔
اللہ کی پکڑ
مزید پڑھیں
یہ راز میرے سینے میں دفن تھا۔ میں تمہارے گھر میں رہ کر اس ماحول سے مانوس ہو گئی۔ میری شدید خواہش تھی کہ میرا بھی گھر ہو، بچے ہوں جو مجھے امی کہیں۔ میرا خیال تھا کہ فتح خان مجھ سے نکاح کرلے گا، مجھے بیوی بنالے گا تو عزت کی زندگی جی لوں گی۔ گھر اور بچے تو مل گئے جو دراصل تمہارے ہیں مگر شوہر نہ ملا کیونکہ فتح خان نے مجھ سے نکاح نہیں کیا، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گھنائونی زندگی میں جھونک دیا ہے۔ رہی اولاد کی خواہش، توجو عورت کبھی کسی کی دلہن نہ بنی ہو ، جسے کبھی بیوی کا رتبہ نہ ملا ہو۔

بھلا اس کو اولاد پیدا کرنے کا کیا حق ہے۔ ایسے بچے ہو بھی جائیں تو ان پر کس کی ولدیت کا لیبل لگے گا؟ بس اسی سوال پر ہمارے درمیان جھگڑا ہو۔ میں نے اس ظالم لالچی انسان سے کہا کہ تمہاری خاطر میں خاموش رہی کیونکہ میرا کوئی گھر نہیں تھا، میں نے اس گھر کی چھت کے لئے ہر ظلم برداشت کیا اور تم نے میری عزت کے بدلے دام کھرے کئے اس کمائی سے اپنے کنبے کی پرورش کر رہے ہو تو کیا تم میرے ہونے والے بچے کی پرورش نہیں کر سکتے ؟ اس کو اپنے نام کی ولدیت نہیں دے سکتے؟ اس کو کیوں پیدا ہونے سے قبل مار دینا چاہتے ہو۔ یہ بد نصیب تمہارے بچوں کے ساتھ رہ کر پل جائے گا۔

کم از کم میری ممتا کی تشنگی تو ختم ہو جائے گی مگر اس آدمی کو یہ گوارا نہیں ہے، حالانکہ میری ناپاک کمائی سے یہ اپنی اولاد کا پیٹ بھرتا ہے مگر میری اولاد کو اپنا نام دینا اس کو گوارہ نہیں، یہ کیسی غیرت ہے۔ یہ مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں اپنی کوکھ اجاڑ دوں اور میں اس پر راضی نہیں، تبھی یہ مجھ سے جھگڑ رہا ہے۔ یہ کہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
بربادی کا فیصلہ
مزید پڑھیں
وہ اتنا روئی کہ میں بھی اس کے ساتھ رونے لگی۔ اس بات نے مجھے کتنا گہرا صدمہ دیا بتا نہیں سکتی۔ کاش نیلم مجھے یہ سب نہ بتاتی تو میں اس طرح نہ اجڑتی۔ بعض اوقات ناواقفیت بھی ایک نعمت ہوتی ہے اور جب اسرار عیاں ہوا تو یہ نا قابل برداشت ہو گا۔ میرا کلیجہ پھٹنے لگا۔ جس شخص کو میں مجازی خُدا جان کر اس کی پوجا کرتی رہی، جس کو میں نے اپنا سب کچھ جانا، حتی کہ سوتن کو قبول کر لیا۔ وہی عظمت اور انسانیت کا پیکر ، وہی میرا سرتاج اس قدر کم ظرف، خود غرض اور انسانیت سے گرا ہوا نکلے گا، یہ مجھے معلوم نہ تھا۔ میں اسی احساس سے تڑپ کر رہ گئی کہ میرے معصوم بیچے ، ایک مظلوم عورت کی مظلومیت کی کمائی کھا کر پرورش پاتے رہے تھے ۔ اف کس قدر روح فرسا حقیقت تھی۔ میں نے نیلم کو گلے لگایا اور اپنے بھائی کو فون کر کے کراچی سے بلوا کر تمام حقیقت سے آگاہ کیا۔

وہ بچارے خود کراچی کی ایک مل میں کام کر کے اپنے کنبے کا پیٹ پال رہے تھے لیکن کم کمائی کے باوجود ان میں غیرت تھی۔ انہوں نے کہا کہ تم اس شخص سے طلاق چاہتی ہو تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اس پر نیلم رونے لگی تو وہ بولے۔ اگر تم واقعی مجبور ہو اور اس دنیا میں تمہارا کوئی نہیں، تو آج سے تم بھی میری بہن ہو۔ اپنی مرضی سے فتح خان کو چھوڑ سکتی ہو تو میں تم کو بھی پناہ دوں گا اور تمہاری شادی کسی نیک آدمی سے کروادوں گا، جیسا تم کو منظور ہو۔ بھائی نے میری طلاق بھی کروادی گرچہ یہ نہ چاہتی تھی مگر بھائی نے سمجھایا کہ اس شخص کا اعتبار نہیں۔ جب یہ ایک غیر عورت کی غلط کمائی کھا سکتا ہے تو سمجھو کہ اس کی غیرت اور ضمیر دونوں کی موت ہو چکی ہے۔ کیا خبر کل یہ اپنے گھر کی خواتین کے بارے کیا سوچے۔
دو ہم سفر
مزید پڑھیں
اس کو نہ کمانے کی اور حرام خوری کی عادت ہو چکی ہے۔ ہم نے بھائی کے گھر آکر چند دن تنگی ترشی میں کاٹے، پھر میرے بیٹے کی تعلیم مکمل ہو گئی تو بھائی نے اسے بھی مل میں لگوا دیا۔ اس طرح ہمارے کنبے کو کفیل میسر آگیا۔ نیلم کی شادی بھائی نے اپنے ایک دوست سے کروادی جس کی ایک بچی تھی اور بیوی فوت ہو چکی تھی۔ وہ بھی مل میں ملازم تھا۔ تنخواہ زیادہ نہ تھی پھر بھی نیلم خوش تھی کہ اس کو اپنا گھر اور اپنی عزت کا رکھوالا مل گیا تھا۔ سچ ہے، عورت شریف ہو تو غربت میں بھی گزارہ کر لیتی ہے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Parwaaz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share