لینز Lens

  • Home
  • لینز Lens

لینز Lens The most trusted digital media outlet in Gilgit-Baltistan
(7)

22/08/2025
22/08/2025
22/08/2025
22/08/2025
22/08/2025

گلگت بلتستان - دریاغزر میں روشن گاؤں کے مقام پر بہت بڑا سیلابی ریلا آکر رک گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ پھنس گئے ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق صورتحال نہایت سنگین ہے اور روشن گاؤں کے لوگ فوری امداد اور انخلا کے منتظر ہیں۔

ایک خاتون نے کہا ہم حکام، ریسکیو ٹیموں، این جی اوز اور دنیا بھر کے انسان دوست افراد سے اپیل کرتے ہیں کہ فوری کارروائی کر کے ان معصوم جانوں کو بچایا جائے۔

22/08/2025
22/08/2025
21/08/2025

وکیل اورنگریب ہمارے بھائ ہیں
مجھے پتہ ہے آپ بہت پڑھے لکھے ہیں لیکن اس تعلیم کا کیا فائدہ جو آپ کے لیے روزگار کا زریعہ تو بنی لیکن تہزیب اور رسم رواج اور علاقائ کلچر سے نا آشنا رکھے
میری وکیل صاحب سے گزارش ہے اتنے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی اک سیاسی منشی کے طور پر کام کرنے سے بہتر ہے خود حلقے سے الیکشن لڑ کر عوام میں اپنا قد کاٹھ دیکھ لیں
ورنہ لوگوں کے دھرنوں میں جا کر تیار سٹیج سے معصومانہ اور بچگانہ حرکتیں اور باتیں کرنے سے کسی کو کوئ فرق نہیں پڑتا
شمس لون وزیر داخلہ گلگت بلتستان

21/08/2025

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت: قانونی ابہام، بین الاقوامی تناظر اور شراکتِ اقتدار کا مطالبہ

گلگت بلتستان برصغیر کی سیاسی تاریخ اور پاکستان کی آئینی ساخت میں ایک ایسا سوال ہے جو سات دہائیوں سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود تشنۂ جواب ہے۔ یہ خطہ جغرافیائی اعتبار سے برصغیر، چین اور وسط ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، تاریخی طور پر ریاست جموں و کشمیر کا حصہ رہا ہے، اور سیاسی طور پر پاکستان کے ساتھ 1947 سے وابستہ ہے۔ مگر آئینِ پاکستان کے صفحات میں یہ تاحال ایک ’’غیر مرئی‘‘ وجود رکھتا ہے۔ پاکستان کے چار صوبوں کے ساتھ وفاقی اکائیاں آئین کے آرٹیکل 1 میں درج ہیں، مگر گلگت بلتستان کا نام وہاں کہیں درج نہیں۔ یہی وہ آئینی انکار ہے جس نے اس خطے کے باسیوں کو دہائیوں تک بنیادی سیاسی حقوق، پارلیمانی نمائندگی اور مساوی شہریت سے محروم رکھا ہے۔

تاریخی اعتبار سے جب 1947 میں برصغیر تقسیم ہوا تو گلگت بلتستان کے عوام نے ڈوگرہ راج کے خلاف بغاوت کر کے اس خطے کو آزاد کرایا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ مگر پاکستان نے اس الحاق کو مکمل آئینی طور پر تسلیم کرنے کے بجائے اسے ایک عبوری حیثیت میں رکھا، اس دلیل کے ساتھ کہ چونکہ جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوامِ متحدہ میں موجود ہے اس لیے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانا ممکن نہیں۔ اس پالیسی نے اگرچہ سفارتی سطح پر ایک جواز فراہم کیا، مگر عوامی سطح پر اس نے محرومی اور احساسِ اجنبیت کو پروان چڑھایا۔

آئینِ پاکستان 1973 کی دفعہ 1(2) کے مطابق پاکستان کے چار صوبے اور وفاقی علاقے بیان کیے گئے ہیں، مگر گلگت بلتستان اس فہرست کا حصہ نہیں۔ دفعہ 257 میں کہا گیا ہے کہ اگر ریاست جموں و کشمیر کے عوام پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کریں تو پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات اس بنیاد پر ہوں گے جو وہ خود طے کریں گے۔ مگر یہ شق گلگت بلتستان کے بارے میں خاموش ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے عوام نے 1947 میں عملی طور پر الحاق کر لیا تھا۔ یہی آئینی خلا اس خطے کے مستقبل کو ایک ابہام میں رکھتا آیا ہے۔

پاکستانی عدالتیں بھی اس سوال پر خاموش نہیں رہیں۔ Al-Jehad Trust Case (1999) میں سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی حقوق اور آزاد عدلیہ کا حق حاصل ہے۔ بعدازاں، Civil Aviation Authority v. Supreme Appellate Court Gilgit-Baltistan (PLD 2019 SC 353) میں عدالت نے یہ تسلیم کیا کہ گلگت بلتستان کے عوام پاکستان کے شہری ہیں، مگر چونکہ یہ علاقہ آئینی صوبہ نہیں اس لیے مکمل آئینی تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ عدالت نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ اس خطے میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے اقدامات کرے۔

ان عدالتی فیصلوں کے باوجود ریاست نے انتظامی آرڈرز کے ذریعے جزوی حل پیش کیے۔ 2009 میں "گلگت بلتستان (Empowerment and Self Governance) Order" کے تحت مقامی اسمبلی اور وزیراعلٰی کا عہدہ قائم کیا گیا، مگر اصل طاقت بدستور وفاقی نمائندہ (گورنر اور وزارتِ امورِ کشمیر و گلگت بلتستان) کے ہاتھ میں رہی۔ 2018 میں "گلگت بلتستان آرڈر" نافذ کیا گیا جس میں کچھ مزید اختیارات دیے گئے، مگر عوامی سطح پر اسے مسترد کر دیا گیا کیونکہ اسے ایک بار پھر آئینی انکار اور نمائشی جمہوریت سمجھا گیا۔

بین الاقوامی سطح پر گلگت بلتستان کا مسئلہ جموں و کشمیر کے تنازعے کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرارداد S/1100 (13 اگست 1948) اور قرارداد (5 جنوری 1949) جموں و کشمیر کے عوام کو حقِ خودارادیت دیتی ہیں۔ ان قراردادوں میں گلگت بلتستان کو بھی شامل سمجھا جاتا ہے، لہٰذا پاکستان نے ہمیشہ اسے آئینی صوبہ بنانے سے گریز کیا تاکہ عالمی برادری میں اس کے موقف کو نقصان نہ پہنچے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا عالمی قراردادوں کی غیرعملی حیثیت کا خمیازہ گلگت بلتستان کے عوام ہمیشہ بھگتتے رہیں گے؟ بین الاقوامی قانون کے مطابق، اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 1(2) حقِ خودارادیت کی ضمانت دیتا ہے، جبکہ International Covenant on Civil and Political Rights (1966) بھی عوام کو سیاسی شمولیت کا حق دیتا ہے۔ ان اصولوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کے عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنا عالمی قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر بھی اس سوال کا گہرا اثر ہے۔ اگر گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنایا جاتا ہے تو بھارت اسے متنازعہ علاقے کو ضم کرنے کی کوشش قرار دے گا۔ بھارت نے پہلے ہی سی پیک (China–Pakistan Economic Corridor) کی مخالفت کی ہے، جو گلگت بلتستان کے راستے گزرتا ہے۔ چین کے لیے یہ خطہ اسٹریٹجک شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی بنیاد ہے۔ لہٰذا گلگت بلتستان کا آئینی مستقبل نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور بھارت کے لیے بھی براہِ راست اسٹریٹجک مفہوم رکھتا ہے۔

ریاستِ پاکستان کے ادارے خصوصاً فوج اور آئی ایس آئی اس سوال پر سب سے زیادہ اثرانداز ہیں۔ عسکری نقطہ نظر سے گلگت بلتستان دفاعی اعتبار سے پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ سیاچن، کارگل اور لداخ کے محاذ پر یہاں کے جوانوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ مگر یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ اسی دفاعی بیانیے کے نام پر اس خطے کو ہمیشہ آئینی مساوات سے محروم رکھا گیا۔ عوامی احتجاج کو اکثر ’’غداری‘‘ اور ’’ملک دشمنی‘‘ کے نام پر دبایا گیا، جبکہ ریاستی وسائل سے حقیقی ترقی نہیں دی گئی۔

اگر پاکستان گلگت بلتستان کو پانچواں آئینی صوبہ بناتا ہے تو اس کے کئی نتائج ہوں گے۔ ایک طرف عوام کو مکمل شہریت، پارلیمانی نمائندگی، مالی وسائل میں حصہ اور آئینی تحفظ ملے گا، دوسری طرف بھارت اور کچھ بین الاقوامی قوتیں شور مچائیں گی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں سات دہائیوں سے غیر مؤثر ہیں اور بھارت نے خود آرٹیکل 370 کو ختم کر کے اپنے وعدوں سے انحراف کیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس یہ اخلاقی جواز موجود ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو مزید محرومی میں نہ رکھے۔

یہ محض قانونی یا سفارتی سوال نہیں بلکہ ایک اخلاقی اور انسانی سوال ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام نے پاکستان کے لیے اپنی وفاداری کا ہر امتحان پاس کیا ہے۔ وہ برفانی چوٹیوں پر اپنی جانیں قربان کرتے رہے، وہ پاکستان کے پرچم کو سربلند رکھتے رہے، اور اپنی زمین کو سی پیک کے لیے پیش کیا۔ مگر اس کے بدلے انہیں آئینی کتاب میں ایک مکمل سطر تک نہ ملی۔ یہ رویہ نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ پاکستان کے اپنے وفاقی ڈھانچے کو کمزور کرتا ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس سوال سے پہلو تہی نہ کرے۔ یا تو گلگت بلتستان کو مکمل صوبائی حیثیت دی جائے، یا پھر اسے ایک خصوصی آئینی حیثیت دی جائے جو عوام کو مکمل شہری حقوق اور نمائندگی فراہم کرے۔ یہ اقدام پاکستان کے وفاق کو مضبوط کرے گا، عوامی اعتماد کو بحال کرے گا، اور دنیا کو یہ پیغام دے گا کہ پاکستان اپنے شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے۔

21/08/2025

گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کی بے ضابطگیوں کی تحقیقات مکمل

گلگت: چیف سیکریٹری گلگت بلتستان ابرار احمد مرزا کی ہدایت پر قائم کردہ اعلیٰ سطحی کمیٹی نے محکمہ تعلیم میں ہونے والی بھرتیوں کی حوالے سے جامع جانچ پڑتال مکمل کر لی ہے۔ کئی ہفتوں کے محنت طلب کام کے بعد ریکارڈ کی روشنی میں متعلقہ اتھارٹی کو رپورٹ ارسال کردی ۔ کمیٹی کی عبوری رپورٹ میں 1996 سے جاری بھرتیوں میں سنگین بے ضابطگیوں کے انکشافات سامنے آئے ہیں، جو تعلیمی نظام میں شفافیت اور احتساب کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ کمیٹی نے دستیاب شواہد اور دستاویزات کی جانچ کے بعد اس بعد کی نشاندہی کی ہے کہ بعض بھرتیوں میں سرکاری ملازمت کے لیے مقرر کردہ عمر کے معیار کو نظرانداز کیا گیا۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پیشہ ورانہ قابلیت اور ضروری اسناد کے بغیر بھرتیاں کی گئیں ہیں جو کہ سرکاری قوائد کی خلاف ورزی ہے ، کمیٹی کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ کے مطابق بعض تقرریوں میں با ضابطہ سرکاری حکم نامے اور ضروری دستاویزات کی ضروری پڑتال کے بغیر تقرریوں کی منظوری دی گئی ہے ۔ کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھرتی کے عمل میں امیدواروں کی دستاویزات کی کمی یا مکمل طور ریکارڈ غائب پایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 1899 سے زائد بے ضابطگیاں ریکارڈ کی گئی ہیں، جو نظام میں اصلاحات کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتی ہیں۔ یہ تحقیقات گلگت بلتستان کی حکومت کے اس عزم کی عکاسی کرتی ہیں کہ آئندہ بھرتیوں میں صرف میرٹ، شفافیت اور احتساب کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ اقدام نہ صرف تعلیمی نظام کو بہتر بنائے گا بلکہ عوام کا سرکاری اداروں پر اعتماد بھی بحال کرے گا۔ حکومتِ گلگت بلتستان عوام الناس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس جراتمندانہ اور مثبت قدم کی حمایت کریں اور تعلیمی اصلاحات کے لیے جاری کوششوں میں اپنا تعاون فراہم کریں۔
پریس ریلیز

21/08/2025

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when لینز Lens posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to لینز Lens:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share