Popkurnar Reviser

Popkurnar Reviser Reviews , , , ,

20/04/2025

خلاصہ: ایران-امریکا مذاکرات پر سب کچھ منحصر ہے
تحریر: عباس ناصر

ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات حال ہی میں عمان اور روم میں ہوئے، جن میں فریقین نے ایک ممکنہ معاہدے کی راہ ہموار کرنے کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا۔ یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں جب خطے کی صورت حال نہایت نازک ہے، اور اسرائیل، امریکا اور خلیجی ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت امریکی خارجہ پالیسی بظاہر بے ربط دکھائی دیتی ہے، لیکن اس کا بنیادی مقصد اسرائیل کے مفادات کا تحفظ ہے، کیونکہ امریکی سیاست میں مالی معاونت کرنے والے بڑے عناصر یہی چاہتے ہیں۔ غزہ میں حالیہ جنگ بندی بھی ٹرمپ کے اصرار پر ہوئی تاکہ وہ خود کو امن پسند رہنما کے طور پر پیش کر سکیں، لیکن اسرائیل نے جلد ہی اس کی خلاف ورزی کر دی اور دوبارہ فوجی حملے شروع کر دیے۔

ان حملوں کا نشانہ زیادہ تر عورتیں اور بچے بنے۔ ایک واقعے میں امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، اور ان میں سے ایک کا موبائل فون اسرائیلی جھوٹ کو بے نقاب کر گیا۔ تاہم، مغربی حکومتوں کی جانب سے کوئی مذمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ اسرائیل اور اس کے حامی مغربی ممالک میں احتجاج کے حق کو ’یہود دشمنی‘ قرار دے کر دبانے کی کوشش کر رہے ہیں، جو انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب امریکا ایران پر زور دے رہا ہے کہ وہ یورینیم کی افزودگی 90 فیصد (یعنی ہتھیاروں کے قابل) سے کم کر کے صرف سول استعمال تک محدود کرے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکا کے خلیجی اتحادی کسی بھی ممکنہ جنگ کے اثرات سے خوفزدہ ہیں۔ اسرائیل اگرچہ ایران کے جوہری پروگرام کو مکمل طور پر ختم کرانے پر زور دے رہا ہے، مگر امریکا کا مؤقف نسبتاً نرم ہے۔

امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے تسلیم کیا کہ اگر ایران افزودگی کو صرف شہری مقاصد تک محدود کر دے تو یہ قابل قبول ہوگا۔ تاہم، اسرائیلی دباؤ کے تحت واشنگٹن نے ان کے بیان سے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی۔ ان ہی دنوں سعودی وزیر دفاع کا دورۂ تہران بھی معنی خیز رہا، جس میں انہوں نے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔ یہ دورہ غالباً اس بات کی علامت تھا کہ سعودی عرب امریکا یا اسرائیل کی کسی فوجی کارروائی کی حمایت نہیں کرے گا۔

اسرائیل کے ایک میڈیا افشا سے پتہ چلا کہ وہ ایران پر حملہ کرنا چاہتا ہے

17/04/2025

#امريكا #ٹرمپ #ہیٹی
بشکریہ نیویارک ٹائمز
ترجمہ عاصم اعجاز

ہیٹی کا بحران: گینگز کے بڑھتے اثرات اور امریکہ کی ذمہ داری

ہیٹی کی صورتِ حال بد سے بدتر ہو چکی ہے، اور اگر امریکہ نے سنجیدہ اقدامات نہ کیے تو اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

پورٹ او پرنس میں راتوں کو جب گینگز کی یلغار ہوتی ہے، تو شہری مدد کے لیے ادھر ادھر فون کرتے ہیں۔ پولیس سے رابطہ کرنا بیکار ہے کیونکہ نہ جواب آتا ہے، نہ نفری ہے، نہ وسائل۔ ایسے میں لوگ کسی بھی ممکنہ ذریعے سے مدد چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے ایک مقامی رہنما پیئر ایکسپرانس کے مطابق، وہ روزانہ پولیس کے اعلیٰ افسران کو فون کر کے شہریوں کی فریادیں پہنچاتے ہیں، کبھی پولیس پہنچ جاتی ہے، کبھی نہیں۔

ہیٹی کے جرائم پیشہ گروہ اب پہلے جیسے نہیں رہے۔ وہ نہ صرف تعداد میں بڑھ گئے ہیں بلکہ ان کے پاس امریکہ سے اسمگل شدہ جدید اسلحہ بھی موجود ہے۔ ان میں اکثر کی قیادت سابق پولیس اہلکاروں کے ہاتھ میں ہے جو ریاستی حکمت عملیوں سے بخوبی واقف ہیں۔ یہ گینگ صرف جرائم تک محدود نہیں رہے بلکہ سیاسی عمل میں بھی شریک ہو چکے ہیں، یہاں تک کہ بعض انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

حکومت خود اتنی کمزور اور بدعنوان ہے کہ گینگز کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ برسوں سے سرکاری حکام نے ان گروہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، انہیں مسلح کیا اور بدلے میں سیاسی مفادات حاصل کیے۔ بین الاقوامی سطح پر ہیٹی کے کئی طاقتور افراد پر پابندیاں لگ چکی ہیں، جن میں سابق صدور اور وزرائے اعظم بھی شامل ہیں۔ موجودہ عبوری کونسل کے بعض ارکان پر بھی سنگین الزامات ہیں، اور وہ زیادہ تر داخلی اختلافات میں الجھے ہوئے ہیں۔

پولیس وسائل کی شدید کمی کا شکار ہے۔ نہ اہلکار کافی ہیں، نہ گاڑیاں، نہ تربیت، نہ اسلحہ۔ امریکہ کی جانب سے یو ایس ایڈ اور انٹر-امریکن فاؤنڈیشن کی بند ہوتی امداد نے صورت حال مزید خراب کر دی ہے۔ بنیادی صحت، خوراک اور تعلیم کا دارومدار اسی امداد پر تھا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں نے ان پروگراموں کو ختم کر دیا، جس سے لاکھوں افراد مزید غیرمحفوظ ہو گئے۔

ہیٹی کی بگڑتی صورتِ حال صرف اس کے اندرونی مسائل نہیں، بلکہ امریکہ کے لیے بھی ایک براہ راست خطرہ بنتی جا رہی ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور بڑی تعداد میں امریکہ کی سرحدوں کا رخ کر رہے ہیں۔ باقی پہلے کمنٹ میں

14/04/2025

The Business of Begging: A Nation's Silent Crisis by Aasim Ejaz In a country of over 240 million people, an alarming 38 million rely on begging as a source of income. Of these, 12% are men, 55% women, 27% children, and the remaining 6% are respectable individua...

The Business of Begging: A Nation's Silent Crisis by Aasim Ejaz In a country of over 240 million people, an alarming 38 ...
14/04/2025

The Business of Begging: A Nation's Silent Crisis by Aasim Ejaz

In a country of over 240 million people, an alarming 38 million rely on begging as a source of income. Of these, 12% are men, 55% women, 27% children, and the remaining 6% are respectable individuals forced into the practice by dire circumstances. Half of this population is concentrated in Karachi, followed by 16% in Lahore, 7% in Islamabad, and the rest across various cities. The average daily income of a beggar is Rs. 2000 in Karachi, Rs. 1400 in Lahore, and Rs. 950 in Islamabad. It raises a stark question: why would anyone opt for honest labor when begging is so profitable?

While white-collar workers struggle to make Rs. 25,000 to 35,000 a month through honest means, beggars earn a minimum of Rs. 60,000. Their entrepreneurial spirit has even taken them abroad—many now beg in Saudi Arabia and other Gulf states, earning Rs. 300,000 to 400,000 monthly. The tarnished image of Pakistan abroad doesn't concern them. When questioned, they respond shamelessly: “Pakistan itself is known as a beggar nation.” It's a grim reality—nearly 40 million people in the country depend solely on begging.

As a nation, we've long lost our collective self-respect. The fault lies squarely with our rulers, whose self-interest has rotted the system. In a country plagued by corruption, nepotism, and the death of merit, millions of qualified youth roam jobless. A recent revelation exposed how fake hiring over the past 32 years drained Rs. 6 billion from Punjab’s local government funds.

Corruption now measures in billions. Scandals in the Benazir Income Support Program and Zakat Fund involve senior officials. The Balochistan government has even decided to shut down the Zakat department due to uncontrollable corruption and costs. Honest earning is becoming rare. Loot and fraud have become the new normal.

The Business of Begging: A Nation's Silent Crisis by Aasim Ejaz In a country of over 240 million people, an alarming 38 million rely on begging as a source of income. Of these, 12% are men, 55% women, 27% children, and the remaining 6% are respectable individua...

         The Business of Begging: A Nation's Silent Crisis by Aasim Ejaz In a country of over 240 million people, an ala...
14/04/2025


The Business of Begging: A Nation's Silent Crisis by Aasim Ejaz

In a country of over 240 million people, an alarming 38 million rely on begging as a source of income. Of these, 12% are men, 55% women, 27% children, and the remaining 6% are respectable individuals forced into the practice by dire circumstances. Half of this population is concentrated in Karachi, followed by 16% in Lahore, 7% in Islamabad, and the rest across various cities. The average daily income of a beggar is Rs. 2000 in Karachi, Rs. 1400 in Lahore, and Rs. 950 in Islamabad. It raises a stark question: why would anyone opt for honest labor when begging is so profitable?

While white-collar workers struggle to make Rs. 25,000 to 35,000 a month through honest means, beggars earn a minimum of Rs. 60,000. Their entrepreneurial spirit has even taken them abroad—many now beg in Saudi Arabia and other Gulf states, earning Rs. 300,000 to 400,000 monthly. The tarnished image of Pakistan abroad doesn't concern them. When questioned, they respond shamelessly: “Pakistan itself is known as a beggar nation.” It's a grim reality—nearly 40 million people in the country depend solely on begging.

As a nation, we've long lost our collective self-respect. The fault lies squarely with our rulers, whose self-interest has rotted the system. In a country plagued by corruption, nepotism, and the death of merit, millions of qualified youth roam jobless. A recent revelation exposed how fake hiring over the past 32 years drained Rs. 6 billion from Punjab’s local government funds.

Corruption now measures in billions. Scandals in the Benazir Income Support Program and Zakat Fund involve senior officials. The Balochistan government has even decided to shut down the Zakat department due to uncontrollable corruption and costs. Honest earning is becoming rare. Loot and fraud have become the new normal. Those who now criticize corruption are often those who simply d

   #شہبازشریف  #زرداری  #پاکستانیChaudhry Fawad Hussainسیاسی اتحاد: پاکستان کی معاشی بحالی کی گمشدہ کڑیتحریر وقار اسلمتر...
12/04/2025

#شہبازشریف #زرداری #پاکستانی
Chaudhry Fawad Hussain
سیاسی اتحاد: پاکستان کی معاشی بحالی کی گمشدہ کڑی

تحریر وقار اسلم

ترجمہ عاصم اعجاز

بشکریہ فرائیڈے ٹائمز

پاکستان کی معیشت میں بحالی کے آثار نمایاں ہیں—جاری کھاتوں میں فاضل رقم اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ جیسے اشاریے موجود ہیں—لیکن پائیدار استحکام سیاسی اتحاد، طویل المدتی اصلاحات، اور بیرونی معاشی دباؤ کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہے۔

جب سیاسی استحکام ناپید ہو تو معیشت کی گاڑی لڑکھڑاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت ہمیشہ سیاسی ہلچل سے جڑی رہی ہے۔ معاشی استحکام کا خواب صرف اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب قومی سطح پر سنجیدہ سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

مارچ 2025 تک پاکستان نے کچھ قابلِ ستائش معاشی اشاریے حاصل کیے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہتری عارضی ہے یا دیرپا؟ 2023 میں پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کے جاری کھاتوں کے خسارے کا سامنا تھا، لیکن موجودہ مالی سال میں 944 ملین ڈالر کا فاضل دیکھا گیا ہے—جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ مزید یہ کہ مارچ 2025 تک ترسیلاتِ زر 17.8 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، جو معاشی لحاظ سے اطمینان بخش علامت ہے۔

یہ اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اگر سیاسی نظام مستحکم رہے تو معیشت کو حقیقی رفتار مل سکتی ہے۔ مگر یہ امید محض خوش قسمتی یا اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ کئی داخلی و خارجی عوامل اس میں شامل ہیں—آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی، درآمدات پر سخت کنٹرول، محتاط برآمدی حکمت عملی، اور سب سے بڑھ کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد—یہ سب وہ اجزا ہیں جو معاشی بہتری کی تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔

تاہم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بجلی کے نرخ فی یونٹ 28 روپے سے بڑھا کر 58 روپے کیے گئے۔ اب وزیرِاعظم شہباز شریف نے ان نرخوں میں 7.48 روپے فی یونٹ کمی کی ہے، جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ تاہم یہ کوئی غیرمعمولی کامیابی نہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن ملکی سطح پر ان میں کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی، کیونکہ معاشی دباؤ اور گردشی قرضے حکومتی فیصلوں کو محدود کیے ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے وفود نے حالیہ مہینوں میں پاکستان کے تین دورے کیے، محض مالی امداد کے لیے نہیں بلکہ اصلاحات پر زور دینے اور طرزِ حکمرانی کے تعین کے لیے بھی۔

ایک سیاسی تجزیہ کار کی حیثیت

#پاکستان #شہبازشریف #زرداری
سیاسی اتحاد: پاکستان کی معاشی بحالی کی گمشدہ کڑی

تحریر وقار اسلم

ترجمہ عاصم اعجاز

بشکریہ فرائیڈے ٹائمز

پاکستان کی معیشت میں بحالی کے آثار نمایاں ہیں—جاری کھاتوں میں فاضل رقم اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ جیسے اشاریے موجود ہیں—لیکن پائیدار استحکام سیاسی اتحاد، طویل المدتی اصلاحات، اور بیرونی معاشی دباؤ کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہے۔

جب سیاسی استحکام ناپید ہو تو معیشت کی گاڑی لڑکھڑاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت ہمیشہ سیاسی ہلچل سے جڑی رہی ہے۔ معاشی استحکام کا خواب صرف اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب قومی سطح پر سنجیدہ سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

مارچ 2025 تک پاکستان نے کچھ قابلِ ستائش معاشی اشاریے حاصل کیے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہتری عارضی ہے یا دیرپا؟ 2023 میں پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کے جاری کھاتوں کے خسارے کا سامنا تھا، لیکن موجودہ مالی سال میں 944 ملین ڈالر کا فاضل دیکھا گیا ہے—جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ مزید یہ کہ مارچ 2025 تک ترسیلاتِ زر 17.8 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، جو معاشی لحاظ سے اطمینان بخش علامت ہے۔

یہ اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اگر سیاسی نظام مستحکم رہے تو معیشت کو حقیقی رفتار مل سکتی ہے۔ مگر یہ امید محض خوش قسمتی یا اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ کئی داخلی و خارجی عوامل اس میں شامل ہیں—آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی، درآمدات پر سخت کنٹرول، محتاط برآمدی حکمت عملی، اور سب سے بڑھ کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد—یہ سب وہ اجزا ہیں جو معاشی بہتری کی تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔

تاہم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بجلی کے نرخ فی یونٹ 28 روپے سے بڑھا کر 58 روپے کیے گئے۔ اب وزیرِاعظم شہباز شریف نے ان نرخوں میں 7.48 روپے فی یونٹ کمی کی ہے، جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ تاہم یہ کوئی غیرمعمولی کامیابی نہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن ملکی سطح پر ان میں کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی، کیونکہ معاشی دباؤ اور گردشی قرضے حکومتی فیصلوں کو محدود کیے ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے وفود نے حالیہ مہینوں میں پاکستان کے تین دورے کیے، محض مالی امداد کے لیے نہیں بلکہ اصلاحات پر زور دینے اور طرزِ حکمرانی کے تعین کے لیے بھی۔

ایک سیاسی تجزیہ کار کی حیثیت سے میں نے ان تبدیلیوں ک

 #پاکستان    #شہبازشریف  #زرداریسیاسی اتحاد: پاکستان کی معاشی بحالی کی گمشدہ کڑیتحریر وقار اسلمترجمہ عاصم اعجاز بشکریہ ف...
12/04/2025

#پاکستان #شہبازشریف #زرداری
سیاسی اتحاد: پاکستان کی معاشی بحالی کی گمشدہ کڑی

تحریر وقار اسلم

ترجمہ عاصم اعجاز

بشکریہ فرائیڈے ٹائمز

پاکستان کی معیشت میں بحالی کے آثار نمایاں ہیں—جاری کھاتوں میں فاضل رقم اور ترسیلاتِ زر میں اضافہ جیسے اشاریے موجود ہیں—لیکن پائیدار استحکام سیاسی اتحاد، طویل المدتی اصلاحات، اور بیرونی معاشی دباؤ کے خلاف مزاحمت پر منحصر ہے۔

جب سیاسی استحکام ناپید ہو تو معیشت کی گاڑی لڑکھڑاتی ہے۔ پاکستان کی معیشت ہمیشہ سیاسی ہلچل سے جڑی رہی ہے۔ معاشی استحکام کا خواب صرف اسی وقت شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے جب قومی سطح پر سنجیدہ سیاسی ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

مارچ 2025 تک پاکستان نے کچھ قابلِ ستائش معاشی اشاریے حاصل کیے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ بہتری عارضی ہے یا دیرپا؟ 2023 میں پاکستان کو 1.1 ارب ڈالر کے جاری کھاتوں کے خسارے کا سامنا تھا، لیکن موجودہ مالی سال میں 944 ملین ڈالر کا فاضل دیکھا گیا ہے—جو ایک مثبت اشارہ ہے۔ مزید یہ کہ مارچ 2025 تک ترسیلاتِ زر 17.8 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، جو معاشی لحاظ سے اطمینان بخش علامت ہے۔

یہ اعداد و شمار اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ اگر سیاسی نظام مستحکم رہے تو معیشت کو حقیقی رفتار مل سکتی ہے۔ مگر یہ امید محض خوش قسمتی یا اتفاق کا نتیجہ نہیں، بلکہ کئی داخلی و خارجی عوامل اس میں شامل ہیں—آئی ایم ایف سے مذاکرات کی بحالی، درآمدات پر سخت کنٹرول، محتاط برآمدی حکمت عملی، اور سب سے بڑھ کر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اعتماد—یہ سب وہ اجزا ہیں جو معاشی بہتری کی تصویر کو مکمل کرتے ہیں۔

تاہم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب بجلی کے نرخ فی یونٹ 28 روپے سے بڑھا کر 58 روپے کیے گئے۔ اب وزیرِاعظم شہباز شریف نے ان نرخوں میں 7.48 روپے فی یونٹ کمی کی ہے، جس سے عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے۔ تاہم یہ کوئی غیرمعمولی کامیابی نہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں لیکن ملکی سطح پر ان میں کوئی واضح کمی دیکھنے میں نہیں آئی، کیونکہ معاشی دباؤ اور گردشی قرضے حکومتی فیصلوں کو محدود کیے ہوئے ہیں۔

آئی ایم ایف کے وفود نے حالیہ مہینوں میں پاکستان کے تین دورے کیے، محض مالی امداد کے لیے نہیں بلکہ اصلاحات پر زور دینے اور طرزِ حکمرانی کے تعین کے لیے بھی۔

ایک سیاسی تجزیہ کار کی حیثیت سے میں نے ان تبدیلیوں ک

09/04/2025

#ایرانیان #امریکا #ایران #امریکہ

رائے | کیا ایران-امریکہ جنگ کی بحث کو اب ختم کیا جا سکتا ہے؟

تحریر: کوروش ضیابری

ترجمہ عاصم اعجاز

بشکریہ: این ڈی ٹی وی

جب تہران ایک واضح حکمتِ عملی کی عدم موجودگی میں لڑکھڑا رہا ہے تو واشنگٹن کی مثالی سوچ پر حقیقت پسندی غالب آتی دکھائی نہیں دیتی۔ ایران اور امریکہ کے درمیان افہام و تفہیم ایک مدت سے باقی ہے، اور جب بھی یہ ممکن ہوگی، دنیا اس سے ضرور فائدہ اٹھائے گی۔

اگر ایران-امریکہ تعلقات کے خدوخال میں کوئی بات ہے جو فوری طور پر تبدیل ہوتی نظر نہیں آتی، تو وہ اس رشتے کا تھکا دینے والا اور فرسودہ ہونا ہے۔ جب 2000 کی دہائی میں ایران کے صدر محمود احمدی نژاد اور امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش کے درمیان تعلقات کشیدگی کی انتہا کو پہنچے، تو بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ اس سے زیادہ خطرناک صورتحال ممکن نہیں۔ لیکن آج جب جنگ کی صدائیں دوبارہ سنائی دے رہی ہیں، تو تاریخ کے پس منظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ تاریک صورتحال نئی نہیں۔

جب بش نے ایران کو ’برائی کے محور‘ کا حصہ قرار دیا، تو جنگ کے خدشات ہر جانب چھا گئے۔ ایران کے رہنما اس وقت اتنے سفارتی نہیں تھے جتنے آج ہیں، اور وہ امریکی فوجی طاقت کو کھلے عام چیلنج کرتے تھے۔ 29 اپریل 2010 کو جزیرہ کیش میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے احمدی نژاد نے کہا: “دنیا کے کسی بھی کونے سے ایران کی طرف گولی چلانے کے لیے اٹھنے والا ہاتھ، بازو سمیت کاٹ دیا جائے گا۔”

فوجی کارروائی کبھی آخری راستہ نہیں رہی

واشنگٹن میں ایران کے خلاف فوجی کارروائی کو کبھی بھی آخری حل کے طور پر نہیں دیکھا گیا۔ خاص طور پر ریپبلکن پارٹی میں ایران کے خلاف جنگ کی حمایت ایک عمومی بلکہ اکثر مرکزی نقطہ نظر رہی ہے۔ حتیٰ کہ ’کوڈ پنک‘ جیسے امن کے حامی گروہوں کو حد سے زیادہ ترقی پسند اور غیر حقیقت پسند قرار دیا گیا۔

2008

میں، سابق وائٹ ہاؤس ڈائریکٹر پیٹ بیکینن نے کہا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے بش کی صدارت کے اختتام سے قبل ایران پر حملے کا اشارہ دیا تھا۔ انہوں نے اپریل میں کانگریس کے سامنے پیٹریاس کی گواہی کو ایران پر ممکنہ حملے کی تیاری کے طور پر لیا۔

ایسے اندازے تو بہت پہلے سے گردش میں تھے کہ تہران اور واشنگٹن آمنے سامنے آ سکتے ہیں، اور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔ ایران کے جوہری اور فوجی مراکز پر بمباری کی پیش گوئ

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور کینیڈین قوم پرستی کا ابھاردی فرائیڈے ٹائمز، 7 اپریل 2025ترجمہ: عاصم اعجازصدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر ق...
07/04/2025

ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی اور کینیڈین قوم پرستی کا ابھار

دی فرائیڈے ٹائمز،

7 اپریل

2025

ترجمہ: عاصم اعجاز

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیر قیادت امریکہ نے جب کینیڈین مصنوعات پر نیا ٹیرف عائد کیا، تو اس کا غیر متوقع نتیجہ شمالی سرحد پر دیکھنے کو ملا: کینیڈین قوم پرستی کی نئی اور تیز لہر۔ جو اقدام محض تجارتی توازن کے لیے اپنایا گیا تھا، وہ اب ایک ثقافتی اور سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس نے کینیڈین شناخت کو ایسے انداز میں بدلا ہے جس کی کم ہی توقع تھی۔

اپریل 2025 کو نافذ کیے گئے ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی، جنہیں انہوں نے "یومِ آزادی" قرار دیا، کے تحت کینیڈا سے امریکہ جانے والی برآمدات پر 25 فیصد ٹیکس لگایا گیا، جس کے بعد گاڑیوں، اسٹیل اور ایلومینیم پر اضافی محصولات بھی عائد ہو گئیں۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیانات کے مطابق ان اقدامات کی وجہ قومی سلامتی کے خدشات بتائی گئی، خصوصاً فینٹینیل کی سرحد پار ترسیل اور تجارتی عدم توازن۔ ٹرمپ عرصے سے یہ مؤقف اپنائے ہوئے ہیں کہ کینیڈا، میکسیکو اور چین امریکہ کا معاشی استحصال کر رہے ہیں، ایک بیانیہ جو وہ 1980 کی دہائی سے دہراتے آئے ہیں۔ اس بار، صورت حال زیادہ سنگین ہو گئی ہے، کیونکہ ٹرمپ کی جانب سے بار بار کینیڈا کو "اکیاونواں ریاست" بنانے کی دھمکیاں اس تجارتی جنگ کو اشتعال انگیز رخ دے چکی ہیں۔

کینیڈین عوام کا ردعمل شدید رہا ہے۔ وزیر اعظم مارک کارنی، جو اس بحران کے دوران اقتدار میں آئے، نے سخت جوابی اقدامات کا اعلان کیا۔ 4 اپریل کو کینیڈا نے 29.8 ارب ڈالر مالیت کی امریکی مصنوعات پر جوابی ٹیرف لگا دیے، جن میں اسٹیل، ایلومینیم، بوربن، اور زرعی مصنوعات شامل ہیں۔ "ہم کینیڈین مفادات کا ہر حال میں دفاع کریں گے،" کارنی نے کہا، ان کا لہجہ ان کے پیشرو جسٹن ٹروڈو سے کہیں زیادہ سخت تھا، جنہیں ٹرمپ اکثر طنزیہ انداز میں "گورنر" کہتے رہے ہیں۔

تاہم پالیسی اقدامات سے بڑھ کر ایک گہری تبدیلی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ کینیڈا بھر میں، وینکوور کی سپر مارکیٹوں سے لے کر اوٹاوا کے دستکاری مراکز تک، معاشی قوم پرستی ابھر کر سامنے آ چکی ہے۔ حالیہ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ 60 فیصد سے زائد کینیڈین امریکی مصنوعات کے بجائے ملکی اشیاء کو ترجیح دے رہے ہیں—جو ماضی کے سرحد پار خریداری کے رجحان سے یکسر مختلف ہے۔ اونٹاریو کے لیکر کنٹرول بورڈ نے امریکی شراب پر پابندی لگا دی ہے

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Popkurnar Reviser posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Popkurnar Reviser:

Share