Manqoolat

Manqoolat Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Manqoolat, News & Media Website, .

- founded by Syed Nizamuddin
- a online newspaper
- a source of neutral information
- a channel of authentic facts
- a preserver of our viewers opinions
- independent concepts and information
- digital media Plattform

26/07/2025

انسانی رویوں کے چار اہم انداز: جدید معاشرتی علوم اور اسلامی حکمت کی روشنی میں

تحریر و پیشکش: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی
گزشتہ سے پیوستہ تیسری اور آخری قسط

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آج کا ہمارا موضوع بہت اہم ہے اور ہر انسان کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ہم اس مضمون میں "انسانی رویوں کے چار بنیادی انداز" پر گفتگو کریں گے جو نہ صرف ذاتی تعلقات بلکہ ہمارے معاشرتی اور سماجی نظام پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ کیوں کچھ لوگ ہمیشہ مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کرتے ہیں اور معاشرے کے لیے مددگار ثابت ہوتے ہیں، جبکہ کچھ افراد صرف اپنے ذاتی فائدے کے لیے کام کرتے ہیں، بعض اپنی مشکلات کے باوجود دوسروں کی فلاح کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، اور پھر کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں میں نقصان دہ فیصلے کرتے ہیں، چاہے وہ خود بھی نفع نہ اٹھائیں؟
ان رویوں کو سمجھنا آج کے دور میں انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہماری دنیا پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور تیزی سے بدل رہی ہے۔ تو آئیں، ہم ان چار کرداروں کو جدید معاشرتی تحقیق، قرآن و حدیث، اور تصوف کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انسانی رویوں کے چار مرکزی انداز
تصور کریں کہ کسی گاؤں میں مختلف لوگ رہتے ہیں جو چار بنیادی انداز میں پیش آتے ہیں:
1. معاشرتی تعاون کرنے والے (Pro-social / مثبت تعاون کرنے والے)
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذاتی فلاح کے ساتھ دوسروں کے فائدے کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ جیسے جو میلاد، محلے کے فلاحی پروگرام، اور دیگر تقریبات کا اہتمام کرتی ہے، جہاں سب کو فائدہ پہنچتا ہے اور ماحول خوشگوار ہوتا ہے۔
یہ لوگ معاشرتی رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں اور ہر کسی کے لیے خوشخبری کا پیغام لے کر آتے ہیں۔
قرآنی پہلو:
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:
"وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ" (سورۃ القلم: ۴)
یعنی واقعی آپ (محمد ﷺ) بہت عظیم اخلاق کے مالک ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات میں واحد کامل اخلاق کی نمایاں خصوصیت رکھتے ہیں، جو pro-social رویے کی اصل تعریف ہے۔
2. موقع پرست اور خودغرض لوگ (Opportunistic / ایک طرفہ خود غرض)
یہ افراد صرف اپنی ذاتی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں، دوسروں کا نقصان ہو یا نہ ہو ان کے لیے فرق نہیں پڑتا۔ فرض کریں کوئی ایسا شخص جو دفتر میں اپنے کام کبھی پورے فرض سے نہیں کرتا لیکن غیر منصفانہ طریقے سے کامیابیاں حاصل کر لیتا ہے۔
یہ لوگ سماجی نظام میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں اور معاشرتی بھروسہ کو ختم کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کی خبردار کیا ہے جو دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں، ظلم کرتے ہیں اور خود غرضی میں مصروف رہتے ہیں۔
3. خود نقصان اٹھا کر دوسروں کی مدد کرنے والے (Over-adapted / Self-damaging helpers)
یہ وہ افراد ہیں جو دوسروں کے لیے اتنے مخلص ہوتے ہیں کہ اپنی صحت، مالی یا ذہنی حالت کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔

اسلام میں مدد و تعاون کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، لیکن اسلام معتدل رویہ اپنانے کی تلقین کرتا ہے تاکہ کوئی اپنی ذات کو نقصان نہ پہنچائے۔
4. غیرمعقول تباہ کن رویہ رکھنے والے (Irrational / Destructive)
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے، بلکہ دوسروں کے لیے بھی نقصان دہ فیصلے کرتے ہیں، اور اکثر ان فیصلوں کا خود بھی شعور نہیں ہوتا۔ جیسے کوئی سیاسی یا کاروباری فیصلہ جو ذاتی مفادات سے پاک ہو بلکہ مکمل غیر منطقی ہو اور معاشرہ یا ادارہ تباہ کر دے۔
ایسے رویے کو "ghaflah" (غفلت) کے ساتھ بھی تعبیر کیا جاتا ہے جو تصوف میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھی جاتی ہے۔

باب ۲: معاشرتی نقصان اور تباہ کن رویہ
جب غیر معقول اور تباہ کن رویے طاقت یا اختیار کے مواقع پر آ جاتے ہیں، تو نتیجہ انتہائی مایوس کن ہوتا ہے۔
مثلاً سیاسی قیادت میں غیر منطقی فیصلے قوم کو معاشی بحران اور سماجی انتشار کی طرف لے جاتے ہیں۔ کاروباری حلقوں میں خودغرض اور غیر ذمہ دار عملی حکمت عملی اداروں کی تباہی کا سبب بنتی ہے۔
ڈائیٹرش بون ہوفر نے فرمایا کہ:
"طاقت اکثر ایسے لوگوں کو جال میں پھنساتی ہے جو حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں۔"
یہی حال آج کل کے سوشل میڈیا کا بھی ہے جہاں سطحی اور جذباتی پیغامات کو ترجیح دی جاتی ہے، جبکہ سنجیدہ مباحثے پیچھے رہ جاتے ہیں۔
باب ۳: روحانی زاویہ — قرآن، حدیث و تصوف کی روشنی میں
قرآن پاک میں مسلمان کو اخلاق حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفس کے ساتھ عدل کا حکم دیتا ہے — جس کا مطلب ہے توازن اور انصاف۔
حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ:
"إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ"
یعنی میں بھیجا گیا ہوں تاکہ بہترین اخلاق کی تکمیل کروں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمارا کردار اور رویہ دین کا اہم حصّہ ہے۔
تصوف میں نفس کے اندرونی صفائی اور خودی کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے تاکہ انسان اپنی انا کو قابو پائے، اور مسلسل خود شناسی و اصلاح سے کامل بنے۔
باب ۴: روزمرہ میں اطلاق – چند عملی تجاویز
خوداحتسابی:
کیا آپ کبھی اتنا دوسروں کی مدد کرنے لگے ہیں کہ اپنی صحت اور ذہنی سکون کو نظر انداز کر بیٹھے؟ آپ کو اپنی حدود کا ادراک ہونا چاہیے۔
کبھی غور کریں، آپ کی ہر عمل کی نیت کیا ہے؟ کیا آپ کی کارروائی آپ کے اور دوسروں کے لیے فائدہ مند ہے؟

حد بندی اور توازن:
ایثار اچھی روایت ہے، مگر خود کو برباد کرنا نہیں۔ اسلام ہمیں سیکھاتا ہے کہ یعنی مؤمن وہ ہے جو اپنے بھائی سے محبت کرتا ہے اور خود کا بھی خیال رکھتا ہے۔

معاشرتی تعاون اور تنقید کی تہذیب:
موقع پرست اور خود غرض افراد کے سامنے حساس اور دانشمندانہ انداز اپنائیں۔ ضبط نفس اور دانشمندی کے ساتھ اصلاح کی کوشش کریں۔

باب ۵: اجتماعی بہتری — مثبت پیغام اور حوصلہ افزائی
ہم سب مل کر سماجی رویوں کو بدل سکتے ہیں، اگر ہم اپنی خامیوں کو سمجھ کر انہیں درست کرنے کی طرف قدم بڑھائیں۔
آئن اسٹائن نے کہا تھا:
"حماقت لافانی ہے، لیکن اسے سمجھ کر ہم احتیاط کر سکتے ہیں۔"
ڈائیٹرش بون ہوفر کا یہ بیان بھی یاد رکھیں:
"حماقت انسانی فلاح کا سب سے بڑا دشمن ہے۔"
آئیے، ہم سب مل کر ایک ایسا معاشرہ بنائیں جہاں عقل، اخلاق اور انسانیت کا بول بالا ہو۔ اپنے خیالات اور تجربات نیچے تبصروں میں ضرور شیئر کریں تاکہ ہمارا مکالمہ جاری رہے اور ہم سب بہتر سمجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھیں۔

گزشتہ سے پیوستہ ( دوسری قسط ) مضامین سورۂ یسین قسط نمبر دو(2) تحریر: سید نظام الدین چشتی فرینکفرٹ جرمنیقرآنِ مجید کی سور...
23/07/2025

گزشتہ سے پیوستہ ( دوسری قسط )
مضامین سورۂ یسین قسط نمبر دو(2)
تحریر: سید نظام الدین چشتی فرینکفرٹ جرمنی

قرآنِ مجید کی سورۂ یٰسین میں اللہ تعالیٰ ایک ایسی کیفیت کا ذکر فرماتے ہیں جو انسانی فہم و شعور کے زوال کی نشاندہی کرتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
"ہم نے ان کی گردنوں میں طوق ڈال دیے ہیں جو ٹھوڑیوں تک جا پہنچے ہیں، اس لیے وہ سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ اور ہم نے ان کے آگے ایک دیوار کھڑی کر دی اور ان کے پیچھے ایک دیوار، اور انہیں ڈھانک دیا، سو انہیں کچھ سوجھتا نہیں."
یہ آیات ایسے افراد "جن کو کچھ سوجھتا نہیں ہے" کے رویے کو بیان کرتی ہیں جو ضد، تکبر اور ہٹ دھرمی کے باعث حق کو دیکھنے اور سمجھنے سے قاصر ہو چکے ہیں۔ ان کی عقل و شعور پر پردہ پڑ چکا ہے۔ وہ زندہ تو ہیں، مگر شعوری طور پر مردہ ہو چکے ہیں۔ یہی وہ حالت ہے جسے قرآن فہمی اور حیاتِ عقل سے انحراف کے طور پر بیان کرتا ہے — اور یہی حماقت کی انتہا ہے۔

قرآن اور تاریخ اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ جب حماقت، طاقت کے ساتھ مل جاتی ہے، تو یہ امتزاج انسانی تمدن کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جاتا ہے۔ قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور فرعون جیسے کردار نہ صرف اپنی ضد اور غرور کے سبب ہلاک ہوئے، بلکہ انہوں نے معاشروں کو بھی اپنے ساتھ تباہ کیا۔ ان کی تمام تر ترقی، محلات، نظام، اور طاقت ایک لمحے میں مٹی کا ڈھیر بن گئے۔ ایک چیخ یا ایک زلزلہ، اور سب کچھ خاک میں مل گیا۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہر زمانے میں ایسے افراد کی تعداد کم رہی ہے، مگر ان کے اثرات گہرے اور دیرپا ہوتے ہیں۔ وہ دانائی اور حکمت رکھنے والوں سے ہمیشہ خوفزدہ رہے ہیں، کیونکہ عقل کی روشنی ان کی حماقت کی اندھیر نگری کو بے نقاب کر دیتی ہے۔ ایسے رویے نہ صرف فرد کی تباہی کا سبب بنتے ہیں بلکہ ایک پوری قوم کو بھی لے ڈوبتے ہیں۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
سورۂ البقرہ آیت نمبر 13 " اور جب ان سے کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح لوگ ایمان لائے ہیں، تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے بے وقوف ایمان لائے ہیں؟ سن لو! بے شک وہ خود ہی بے وقوف ہیں اور لیکن وہ نہیں جانتے."

آج کا دور بھی ایسی ہی فکری تاریکی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ معاشرتی سطح پر حماقت ایک مرض بن چکی ہے، جو سوشل میڈیا کے ذریعے شدت اختیار کر چکی ہے۔ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کے قالب میں پیش کیا جاتا ہے۔ عقل و دلیل کے بجائے نعرے، تعصب، اور جذباتیت نے جگہ لے لی ہے۔ اجتماعی رویے بھی انہی اقوام کی یاد دلاتے ہیں جن کا انجام قرآن میں عبرت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

ایسے حالات میں انسان کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنے باطن کا جائزہ لے۔ حماقت صرف کسی اور کا مسئلہ نہیں، یہ ایک داخلی بیماری بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے قول و فعل، اپنی فکر اور سوچ کی تطہیر کریں۔ حق کی پہچان کے لیے قرآن سے رشتہ مضبوط کریں اور ان طرزِ فکر سے اجتناب کریں جو حماقت کو فروغ دیتے ہیں۔

زندگی کا اصل جمال اسی میں ہے کہ انسان عدل، رحم، دانائی اور تقویٰ کی روش پر گامزن ہو۔ اللہ کی زمین پر وہی لوگ باقی رہتے ہیں جو ان اقدار پر قائم ہوں۔ باقی تمام آوازیں، چاہے کتنی ہی بلند ہوں، بالآخر ایک چیخ کی گونج میں خاموش ہو جاتی ہیں۔

یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو رک کر سوچنا چاہیے کہ کیا ہم بھی اسی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
یا ہم اب بھی توبہ، اصلاح اور فہم کی راہ اختیار کر کے اس انجام سے بچ سکتے ہیں؟

ہم اس مضمون کی آئندہ قسط میں ماڈرن ہیومن سائنسز کے سبجیکٹ میں اس کیفیت کی جو تعریف کی گئی اسے اسلام تعلیمات کی روشنی میں بیان کریں گے۔
جاری ہے...

جب غرور اللہ کے  عذاب کو دعوت دیتا ہےمضامین سورۂ یسین۔ قسط نمبر ایک(1) تحریر: سید نظام الدین فرینکفرٹ جرمنی مسلمانوں پر ...
22/07/2025

جب غرور اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے

مضامین سورۂ یسین۔ قسط نمبر ایک(1)
تحریر: سید نظام الدین فرینکفرٹ جرمنی

مسلمانوں پر کئے جانے والے مظالم پوری دنیامیں کہیں پر بھی ہوں انکی فکر اور سوچ کو مفلوج کررہے ہیں۔
انسانیت کی تاریخ اس کائنات میں زیادہ پرانی نہیں ہے۔ لیکن اس دنیا کی تباہی کے ذمہ دار ہمیشہ وہ احمق رہے ہیں جو طاقت بل بوتے پر انسانیت پر حکومت کرنے لگتے ہیں۔
جہاں بر بھی انسانیت اور انصاف کو سر عام پیروں تلے کچلا جارہا ہے۔ وہاں پر ایک جاہل اور بے وقوف طاقور بن چکا ہے۔ اور انہی لوگوں کے ماننے والے طاغوت اور طاغوتی نمائندے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جب انسان گناہوں کو
سوچنے اور پچھتانے کا مقام سمجھنے کے بجائے فخر کا ذریعہ بنا لیتا ہے، تو انسانیت کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ ایسا ہی حال فرعون کے دور میں تھا۔ اس نے خود کو خدا کہلوایا، کمزوروں پر ظلم کیا، اور اپنی طاقت پر اتنا ناز کیا کہ سوال کرنا بھی جرم بن گیا۔ نتیجہ؟ زوال، رسوائی اور اللہ کا عذاب۔

قرآن ہمیں قومِ عاد اور قومِ ثمود کی مثالیں دیتا ہے – وہ قومیں جو غرور، سرکشی اور حق کی مخالفت میں اندھی ہو گئیں۔ سورۃ یٰسین میں ان پر آنے والے عذاب کا ذکر ہے:
"وہ ایک چیخ تھی، اور سب کچھ ختم ہوگیا۔"

جاری ہے-----

Agriculture: Farm to marketانٹرویو عنوان:پاکستان میں سبزی اور پھل مہنگے کیوں؟ ایک کسان نمائندے سے گفتگوانٹرویو لینے والا...
17/07/2025

Agriculture: Farm to market

انٹرویو عنوان:
پاکستان میں سبزی اور پھل مہنگے کیوں؟ ایک کسان نمائندے سے گفتگو

انٹرویو لینے والا: خرم ندیم (صحافی)
انٹرویو دینے والا: علی رضا (کسان یونین کے نمائندے)

# # # # # # # # # # # #€€€€€€€€ # # # # #

سوال 1: علی صاحب، آپ ہمیں یہ بتائیں کہ پاکستان میں پھل اور سبزیاں اتنی مہنگی کیوں ہو گئی ہیں؟
جواب: بہت اچھا سوال ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری زراعت کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے۔ کسان دن رات محنت کرتا ہے لیکن مارکیٹ میں اس کی پیداوار جب پہنچتی ہے تو اس میں پانچ چھ بیوپاری شامل ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہر ایک اپنا منافع لیتا ہے اور آخر میں جو قیمت صارف کو ادا کرنی پڑتی ہے، وہ اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جب کہ کسان کو شاید لاگت کے برابر بھی نہیں ملتا۔

سوال 2: کیا صرف بیوپاری ہی ذمہ دار ہیں یا حکومت کی کوئی ناکامی بھی شامل ہے؟
جواب: دونوں ذمہ دار ہیں۔ حکومت نے کبھی سنجیدگی سے کسان کے مسائل کو نہیں سنا۔ بیوپاری مافیا اتنا مضبوط ہو چکا ہے کہ وہ مارکیٹ پر کنٹرول رکھتا ہے۔ اوپر سے کوئی موثر پالیسی یا نگرانی کا نظام بھی نہیں ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ نہ کسان خوشحال ہے نہ عوام۔

سوال 3: کیا دوسرے ممالک نے اس مسئلے کا کوئی کامیاب حل نکالا ہے؟
جواب: بالکل۔ بھارت میں امول جیسی کوآپریٹو تنظیمیں کامیابی سے کسانوں سے دودھ اور اجناس لے کر براہ راست صارف تک پہنچاتی ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں کسانوں کی یونینیں اور کوآپریٹو ادارے مضبوط اور خود مختار ہیں۔ ان کے ہاں کسان اپنی قیمت خود مقرر کرتا ہے، اور مارکیٹ میں کسی ایک گروپ کو اجارہ داری حاصل نہیں ہوتی۔

سوال 4: پاکستان میں کوآپریٹو ماڈلز کیوں کامیاب نہیں ہو سکے؟
جواب: یہاں بدقسمتی سے سیاسی مداخلت، بدعنوانی، اور کسانوں میں اتحاد کی کمی نے ایسے کسی بھی ماڈل کو پنپنے نہیں دیا۔ کئی بار کوششیں ہوئیں لیکن یا تو قیادت مفاد پرست نکل آئی یا حکومت نے سنجیدگی سے مدد نہیں کی۔ جب تک کسانوں میں اتحاد، تعلیم اور پیشہ ورانہ تنظیم سازی نہیں ہوگی، کامیابی مشکل ہے۔

سوال 5: آپ کے خیال میں اس مسئلے کا عملی حل کیا ہو سکتا ہے؟
جواب: ہمیں ایک شفاف، جدید اور کسان دوست نظام کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے کسانوں کو منظم کر کے کوآپریٹو تنظیمیں بنانی چاہئیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مارکیٹ ریفارمز کرے، منڈیوں میں براہ راست کسان کی رسائی ممکن بنائے اور بیوپاری مافیا کو قانون کے تحت لائے۔ اگر کسان کو اس کی محنت کا درست معاوضہ ملے اور صارف کو مناسب قیمت پر چیزیں ملیں تو پورا نظام بہتر ہو سکتا ہے۔

لومڑی کی کٹی ہوئی دُم — گروہی دباؤ، سچائی کی ثابت قدمی اور باطنی صداقت کی داستانتحریر: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطب...
09/07/2025

لومڑی کی کٹی ہوئی دُم — گروہی دباؤ، سچائی کی ثابت قدمی اور باطنی صداقت کی داستان

تحریر: خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی

کہتے ہیں، ایک دن ایک لومڑی شکار میں جا پھنسی۔ تڑپتے تڑپتے اپنی دُم کھو بیٹھی۔ بےآبروئی کا بوجھ لیے جب وہ واپس اپنی بستی پہنچی، تو اس نے ایک چال چلی۔ اس نے دیگر لومڑیوں کو جمع کیا اور کہا:
"اے میری قوم! دُم محض ایک بوجھ ہے۔ یہ صرف زمانۂ جاہلیت کی علامت ہے، نہ زینت ہے، نہ کارآمد۔ آؤ، ہم سب اپنی دمیں کاٹ دیں۔ یوں ہم نئے زمانے کا آغاز کریں گے۔"

مگر ایک بوڑھی لومڑی نے غور سے سنا، تب مسکرا کر بولی:
"اے پیاری! اگر تُو یہ بات خود دُم رکھتے ہوئے کہتی، تو ہم مان لیتے۔ مگر تیری تو اپنی دُم ہے ہی نہیں۔"

یہ حکایت ہمیں سکھاتی ہے: جو شخص اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے سب کو گرا دینا چاہے، وہ دراصل نہ صرف خود فریب کھاتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی راہِ باطل پر بلاتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں — آزادی اور بصیرت کی دعوت

قرآنِ کریم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ زبردستی ایمان نہیں آتا، اور حق و باطل کی راہیں واضح کر دی گئی ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت 256 فرماتی ہے:

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ

دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ یقیناً ہدایت گمراہی سے ممتاز ہو چکی ہے۔

یہ آیت صرف عقیدے کے انتخاب کی آزادی نہیں دیتی، بلکہ ہر فکری غلامی سے نجات کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ اعلان ہے کہ انسان کو اپنی بصیرت سے کام لینا چاہیے، نہ کہ دوسروں کے جذبات یا دھوکہ دہی کے پیچھے چلنا چاہیے

معاشرتی دباؤ — وہ زہر جو خاموشی سے رگوں میں اترتا ہے

آج کا انسان، اس سماج میں جیتا ہے جہاں ایک جیسا نظر آنا "محفوظ" سمجھا جاتا ہے۔ اختلاف کرنے والا "خطرہ" بن جاتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں سچائی، آسانی کے لیے قربان کر دی جاتی ہے۔

برٹرینڈ رسل کا قول ہے:

> "اگر سب ایک ہی بات پر متفق ہوں، تو بھی ضروری نہیں کہ وہ بات درست ہو۔"

یہی بات اس حکایت میں جھلکتی ہے۔ جو لومڑی شور مچاتی ہے، اس کی آواز سچ کی ترجمان نہیں بن جاتی۔ سچ وہی ہوتا ہے جو دل کی گہرائی سے نکلے، نہ کہ محرومی کا لبادہ اوڑھے۔

کمدوسروں کے جذبات یا دھوکہ دہی کے پیچھے چلنا چاہیے۔

مغربی دانشوروں کی نظر میں اسکی تعریف فرد کی صدا ہجوم کے شور میں

فریڈرک نطشے، جو تہذیبوں کی جڑوں کو کھود کر دیکھتا ہے، ہمیں سکھاتا ہے کہ انسان اپنی سچائی کو پہچانے — چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو۔
وہ کہتا ہے:
"جو کچھ انسان ہونا چھوڑ دے، وہی اس کے زوال کی نشانی ہے۔"
اس حکایت میں باقی لومڑیاں اپنی دُم کاٹنے پر رضامند ہو جاتی ہیں — نہ اس لیے کہ وہ دلیل سے قائل ہوئیں، بلکہ اس لیے کہ تنہا ہونے سے ڈرتی ہیں۔ اور یہی لمحہ ہے جب سچائی دم توڑتی ہے اور دکھاوا غالب آتا ہے۔

صداقت کی لغت

اس حکایت میں ایک آئینہ ہے — ہر اس دل کے لیے جو معاشرتی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے، سچ کی چھاؤں میں جینا چاہے۔

:صداقت کی لغت یوں ترتیب پاتی ہے
ضمیر🙏
بہتر راستہ 💝
حریت☂️
استقامت💓
تدبر💓
سچائی💡

جو دل ان الفاظ کو محض یاد نہیں رکھتا بلکہ اپنی زندگی کا اصول بناتا ہے، وہی اس فانی دنیا میں باقی رہتا ہے۔

وقتی مفاد یا وسیع تر مفاد: ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پاکستان کی علاقائی پالیسی کا امتحانتحریر:نظام الدین سیدفرینکفرٹ جرمنیمن...
20/06/2025

وقتی مفاد یا وسیع تر مفاد: ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پاکستان کی علاقائی پالیسی کا امتحان

تحریر:نظام الدین سید
فرینکفرٹ جرمنی
منقولات

جنرل عاصم منیر کی حالیہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تاریخی ملاقات نے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور علاقائی حکمت عملی میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔

اصولی طور پر اس طرح کی ملاقاتیں ماضی کا حصہ بھی رہی ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف مرحوم نے جو کہ انتہائی حاضر دماغ اور حالات پر نظر رکھنے والے انسان تھے ایک بہترین طریقے سے اپاکستان کے معاملات کو بین الاقوامی سیاست میں منوایا ۔ سب دیکھنا یہ ہے ۔ کہ پاکستانی فیلڈ جنرل عاصم منیر بھی جنرل پرویز مشرف کی راہ پر چلتے ہوئے انہی کی طرح کامیاب ہونگے؟

مندرج ذیل اس ملاقات کے حوالے سے ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔

اس ملاقات کو بعض حلقے وقتی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں تو بعض اسے پاکستان کی طویل المدتی خارجہ پالیسی اور اس کے روایتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کے لیے ایک کڑا امتحان سمجھتے ہیں۔

ٹرمپ کے خیالات اور ملاقات کا پس منظر کیا تھا اور انھوں نے کس طرح اپنا نقطه نظر بیان کیا۔
صدر ٹرمپ نے اس ملاقات میں نہ صرف جنرل منیر کی تعریف کی بلکہ انہیں "انتہائی ذہین" قرار دیتے ہوئے اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے بھارت کے ساتھ جنگ کو روکا۔ ٹرمپ نے کہا:
> "دو بہت ذہین لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس جنگ کو جاری نہ رکھا جائے، ورنہ یہ ایٹمی جنگ بن سکتی تھی۔"

ٹرمپ نے ایران-اسرائیل کشیدگی کے تناظر میں بھی پاکستان کے کردار کو سراہا اور کہا کہ پاکستان ایران کو "بہتر جانتا ہے" اور اس کی خطے میں اہمیت برقرار ہے۔ اس ملاقات میں تجارتی تعلقات، انسداد دہشت گردی تعاون اور علاقائی استحکام پر بھی بات ہوئی۔

سید طلعت حسین جو کہ پرو اسٹیبلشمنٹ صحافی ہیں کا تجزیہ:
سینئر اینکر سید طلعت حسین نے اپنے پروگرام میں اس ملاقات کے پس منظر اور محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تعلقات اکثر "ٹرانزیکشنل" یعنی وقتی مفادات پر مبنی رہے ہیں۔ طلعت حسین نے نشاندہی کی کہ امریکہ کو پاکستان پر طالبان سے تعلقات اور 'ڈبل گیم' کا شبہ رہتا ہے، جبکہ پاکستان کو بھارت-امریکہ قربت پر تحفظات ہیں۔ ان کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کو خود بھی نہیں معلوم کہ اس تعلق کو کیسے آگے بڑھانا ہے، اور یہ دونوں ممالک کے لیے تشویش کی بات ہے۔
پاکستان اور امریکا کے اسٹرٹیجک ایکسپرٹ ملیحہ لودھی کا تجزیہ:

سابق سفیر ملیحہ لودھی نے اس صورتحال کو بدلتے ہوئے عالمی منظرنامے کے تناظر میں دیکھا۔ ان کے مطابق دنیا اب کثیر قطبی ہو رہی ہے اور پاکستان کو اپنی معاشی طاقت اور سیاسی استحکام پر توجہ دینی ہوگی۔ لودھی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ افغانستان میں براہ راست مداخلت کے بجائے اسے دہشت گردی کا مرکز نہ بننے دینے پر زیادہ فوکس کر رہی ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں اصل پیش رفت پاکستان کی معاشی و سیاسی مضبوطی سے مشروط ہے۔

زلمے خلیل زاد کی تنقید کو مندرجہ ذیل میں بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے اس ملاقات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق پاکستانی فوج نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ "ڈبل گیم" کھیلا ہے: ایک طرف امریکی امداد لی، دوسری طرف دہشت گردوں کو پناہ دی۔ خلیل زاد کے مطابق جنرل منیر کے ایجنڈے میں امریکی سرمایہ کاری، افغانستان میں امریکی مفادات کی حفاظت، چین کے ساتھ رابطے اور اپنی سیاسی حیثیت کو مضبوط کرنا شامل تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل منیر پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور پاکستان میں سیاسی قیدیوں کی موجودگی اور بلوچستان میں شورش جیسے مسائل بدستور موجود ہیں۔

ٹرمپ کی پالیسی پاکستان کے لئے کیا ہے؟ وقتی رومانس یا اسٹریٹیجک تبدیلی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کی پاکستان کے ساتھ حالیہ گرمجوشی کو زیادہ تر ذاتی اور وقتی مفادات سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ جیسے ہی خطے میں ایران-اسرائیل کشیدگی بڑھی، امریکہ نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کو دوبارہ تسلیم کیا۔ ٹرمپ نے پاکستان کو چین سے دور کرنے اور امریکی منڈیوں سے جوڑنے کے لیے تجارتی مراعات، جدید اسلحہ اور اقتصادی تعاون کی پیشکش کی۔ تاہم، اس کے جواب میں پاکستان کو چین اور ایران جیسے روایتی اتحادیوں کے ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
علاقائی اور داخلی اثرات پر اس ملاقات کے اثرات کا تجزیہ:

-بھارت بھی اس ملاقات کو بھارت میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے، کیونکہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بدل سکتا ہے۔
چین کے خلاف امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کو چین کے اثر سے نکالا جائے، لیکن پاکستان کے لیے یہ توازن برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔
داخلی سیاست میں اس ملاقات نے پاکستان میں سول-ملٹری توازن اور سیاسی شفافیت پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اس بات پر تنقید کر رہی ہیں کہ اہم فیصلے بند کمروں میں ہو رہے ہیں-

آخر میں تجزیاتی رائے کے طور پر کہا جاسکتا یے۔ کہ جنرل منیر اور صدر ٹرمپ کی ملاقات پاکستان کے لیے وقتی سفارتی کامیابی ضرور ہے، لیکن اس کے طویل المدتی اثرات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ پاکستان کس طرح اپنے روایتی اتحادیوں، داخلی سیاست اور خطے میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ سید طلعت حسین، ملیحہ لودھی اور زلمے خلیل زاد جیسے تجزیہ کاروں کی آراء اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ "وقتی رومانس" پاکستان کے لیے ایک بڑے اسٹریٹیجک امتحان سے کم نہیں۔

US President Donald Trump on Wednesday praised Pakistan Army Chief Asim Munir for his alleged role in preventing an escalation of the conflict between India and Pakistan, as he hosted the latter for a lunch meeting at the White House.

18/06/2025

اسرائیل کی عسکری مہم جوئی: حکمت سے عاری ایک خطرناک خودفریبی

جب ایک قوم اپنی بقا اور سلامتی کے نام پر ایسی مہمات میں الجھ جائے جن کے نتائج بارہا تاریخ کے آئینے میں ناکامی کی صورت میں سامنے آ چکے ہوں، تو یہ نہ صرف اس قوم بلکہ پورے خطے کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ اسرائیل کی حالیہ پالیسیاں، بالخصوص ایران کے خلاف فضائی حملوں کی تیاری، ایک ایسی ہی خودفریبی کی مثال ہیں، جو نہ صرف عسکری بلکہ اخلاقی طور پر بھی ایک بند گلی (Dead End) کی طرف بڑھ رہی ہیں۔
اس تناظر میں اسرائیل کی مہم جوئی جو کہ صرف جنگی جنون کی مظہر ہے، بلکہ ایک ایسی راہ ہے جس کا انجام مزید خونریزی، عدم استحکام اور عسکری شدت پسندی کی نئی لہر ہو گا — اور یہی دراصل ایک زیادہ ریڈیکل ایران کی پیدائش کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

فضائی طاقت: ایک آزمودہ اور ناکام حکمت عملی

پہلی عالمی جنگ کے بعد سے لے کر اب تک، چالیس سے زائد بڑے فضائی حملوں بشمول یوکرین کی موجودہ اور غزہ پر تا حال جاری بمباری کی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی کسی ریاستی نظام کو گرانے یا کوئی سیاسی یا جغرافیائی تبدیلی لانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے برعکس، ان حملوں نے صرف قوم پرستی کو بڑھایا، داخلی مزاحمت کو طاقت بخشی اور خارجی مداخلت کے خلاف رائے عامہ کو مزید سخت کر دیا۔

امریکہ اور روس جیسے عسکری جائنٹ بھی صرف فضائی طاقت کے بل بوتے پر مطلوبہ اسٹریٹجک اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اسرائیل، جو ان کے مقابلے میں نسبتاً محدود وسائل رکھتا ہے، اسی ناکام حکمت عملی کو دہرا رہا ہے، حالانکہ نتائج کا اندازہ پہلے ہی لگایا جا سکتا ہے۔

ایران کا ایٹمی پروگرام اور اس کی حقیقت

ایران کی نیوکلیئر تنصیبات، جیسا کہ نطنز یا فردو، زمین کے اندر کئی میٹر گہرائی میں موجود ہیں۔ ان کو تباہ کرنے کے لیے امریکہ کے مخصوص "بنکر بسٹر" بم درکار ہیں، جو اسرائیل کے پاس موجود نہیں۔ البتہ بو شہر کا ایٹمی ری ایکٹر ایک ممکنہ ہدف ہو سکتا ہے، لیکن اس پر حملے کے نتائج نہ صرف ایران بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لیے ماحولیاتی تباہی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ تابکاری کے بادل سرحدوں کی تمیز نہیں رکھتے۔

جنگ کا دھوکہ اور زمینی حقائق

فرض کریں کہ اسرائیل کسی بڑی عسکری کارروائی میں کامیاب بھی ہو جائے، تو بھی کوئی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کتنی متاثر ہوئی۔ اس کا پتہ صرف زمینی معائنہ سے لگایا جا سکتا ہے، جو عملی طور پر ناممکن ہے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی، ایران اتنا یورینیم بچا چکا ہو گا کہ وہ مختصر وقت میں دوبارہ اپنی نیوکلیئر صلاحیت کو بحال کر سکتا ہے۔ یوں یہ تمام مہم ایک بے نتیجہ مشق ثابت ہو گی۔

اسلامی تناظر: طاقت کا صحیح مصرف

اسلامی تعلیمات میں جنگ آخری حل ہے، نہ کہ سیاسی ترجیحات کی تکمیل کا ذریعہ۔ قرآن کریم ہمیں انصاف، توازن اور حکمت کے ساتھ معاملات کو سلجھانے کی تلقین کرتا ہے:

> "وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ"
(سورۃ الانفال 8:61)

اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو تم بھی صلح کی طرف مائل ہو جاؤ، اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔

عالمی سطح پر فکری بحران

فارن افیئر جیسے معتبر ادارے اب صرف رپورٹنگ نہیں کر رہے، بلکہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں: کیا دنیا اس وقت صرف عسکری ڈیڈ اینڈ پر کھڑی ہے؟ کیا جنگ کے سوا کوئی اور راستہ نہیں؟

یہ سوالات یورپ میں بھی گونج رہے ہیں، جہاں امن، مکالمہ اور قانونی حلوں پر ہمیشہ زور دیا گیا ہے۔ چین اگر پُل نہیں بن سکتا، تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ دنیا نے عقل کو قربانی کا بکرا بنا کر صرف عسکری طاقت پر انحصار کیا ہے۔

جنگی جنونیوں کے بیچ اصل جنگ اب فہم و فراست کی ہے، جہاں قوموں کو یہ طے کرنا ہے کہ وہ تاریخ سے سبق سیکھیں گی یا اسے دہراتی رہیں گی — ہر بار زیادہ تباہی کے ساتھ۔

الداعی الی الخیر
خاکسار پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی

16/06/2025

آج کی مسلم امہ بقا کی جنگ میں اصولوں کی اہمیت:

مسلمانوں کی تاریخ پر اگر ایک سنجیدہ نظر ڈالی جائے تو ایک تلخ حقیقت بار بار سامنے آتی ہے: جب بھی امت مسلمہ کو بیرونی دشمن کا سامنا کرنا پڑا، اندرونی اختلافات اور خلفشار نے اسے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ حالیہ ایران-اسرائیل جنگ اس کی تازہ مثال ہے، جہاں دشمن نے اندرونی غداروں کے ساتھ مل کر قیادت اور دفاعی نظام کو ایک ہی وار میں کمزور کر دیا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس نے پوری امت کو ہلا کر رکھ دیا، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ اندرونی طور پر دشمن کی مدد کرتے ہیں، وہ یقیناً غدارِ قوم ہیں۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا پچاس برس تک عوام کو ریاستی طاقت سے دبانے نے اس غداری کی راہ ہموار نہیں کی؟

پاکستان کی تاریخ میں بقا کی جنگ
پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ بھی اسی المیے کی عکاس ہے۔ یہاں ہر طبقہ اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور رہا ہے۔ یہ جنگ بظاہر فطری عمل ہے، خاص طور پر ایک نوآزاد ریاست کے ابتدائی دور میں، لیکن افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ اس جدوجہد میں طاقتور طبقات نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ کمزور طبقات کو اپنی مرضی کے مطابق مواقع اور میدان فراہم کیے گئے، اور اصل آزادی اور سچائی پس پشت ڈال دی گئی۔

اصل خرابی کی جڑ
پاکستانی معاشرے کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ طاقتور حلقے ہمیشہ کھیل کے امپائر رہے ہیں۔ جب بھی کسی نے ان کے فیصلے کو چیلنج کیا، بساط ہی الٹ دی گئی۔ پس پردہ قوتیں ہمیشہ ڈوریاں ہلاتی رہیں اور ہار جیت کا فیصلہ انہی کے ہاتھ میں رہا۔ عام آدمی یا کمزور طبقہ صرف ایک مہرہ بن کر رہ گیا، جس کی چالیں بھی محدود اور طے شدہ تھیں۔

سیاست اور عوام
آج پاکستان کی ہر سیاسی جماعت اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے کہ بغیر طے شدہ "پیرامیٹرز" کے کچھ بھی ممکن نہیں۔ عوام کو ہر دور میں مختلف نعروں اور وعدوں کے ذریعے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔ ڈیجیٹل دور نے اس کام کو اور بھی آسان بنا دیا ہے، جہاں جھوٹ اور سچ کا فرق مٹتا جا رہا ہے اور سچائی کو دبانا پہلے سے زیادہ سہل ہو گیا ہے۔

شخصیت پرستی: ایک بڑی کمزوری
ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری شخصیت پرستی ہے۔ ہم اصولوں اور قوانین کے بجائے افراد کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہمارا پسندیدہ ہے تو اس کا جھوٹ بھی سچ لگتا ہے، اور اگر ناپسندیدہ ہے تو اس کی سچائی بھی ہمیں قبول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بار بار دھوکہ کھاتے ہیں، جیسا کہ اب تک کے ادوار میں ہوا، اور آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔

اصلاح کی راہ
اگر ہم واقعی بہتری چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرتی جدوجہد کو اصولوں اور قوانین کی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔ ہر فرد اور ہر طبقہ کو چاہیے کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر سچائی اور انصاف کی راہ اپنائے۔ یہ سفر یقیناً مشکل اور کٹھن ہے، لیکن یہی ہمارے دین کی اصل تعلیمات بھی ہیں۔ ہمیں خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آیا ہم شخصیت پرستی میں مبتلا ہیں یا اصولوں کی بنیاد پر جدوجہد کے لیے تیار ہیں۔

نتیجہ
اگر ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھا تو آنے والے وقت میں بھی ہم دھوکہ کھاتے رہیں گے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات درست کریں اور ایک اصولی و سچی جدوجہد کی بنیاد رکھیں تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک بہتر اور انصاف پر مبنی معاشرہ مل سکے۔

الداعی الی الخیر
خاکسار: پیرزادہ سید نظام الدین قطبی چشتی

15/06/2025

سامراج کا طاقتور طبقہ اور پاکستان کا اصل مسئلہ

تحریر: خاکسار پیرزادہ نظام الدین قطبی چشتی

پاکستان اس وقت بیک وقت سیاسی، معاشی اور سماجی بحرانوں کے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ آئے روز نئے مسائل جنم لے رہے ہیں، لیکن جب ان بحرانوں کی جڑ تلاش کی جائے تو اکثر تجزیہ نگار عوام کی بے حسی یا ریاستی اداروں کی کوتاہیوں کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ تاہم حقیقت اس سے کہیں زیادہ گہری ہے۔

اصل مسئلہ "رولنگ ایلیٹ" یعنی وہ اشرافیہ ہے جو مختلف اداروں سے تعلق رکھتی ہے، مگر مقصد سب کا ایک ہی ہے: طاقت، وسائل اور اختیار پر مکمل قبضہ۔ یہ طبقہ اپنے آپ کو قانون، انصاف، اخلاقیات اور احتساب سے بالاتر سمجھتا ہے اور تمام ریاستی وسائل کو اپنے لیے مخصوص کرنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں کرتا۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ستم ظریفی

سرمایہ دارانہ نظام (کیپٹلزم) کی بنیاد ہی وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم پر رکھی گئی ہے۔ طاقتور طبقہ اپنے لیے معاشی کیک کا سب سے بڑا ٹکڑا رکھ لیتا ہے اور عوام کو صرف ٹکڑوں پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں یہ تقسیم ہر شعبے میں نظر آتی ہے — تعلیم سے لے کر صحت تک، بجٹ سے لے کر سبسڈی تک۔

پاکستانی اشرافیہ ہر طرح کی سہولتوں سے لطف اندوز ہو رہی ہے، جبکہ عوام مہنگائی، بے روزگاری، عدم تحفظ اور بنیادی سہولیات کی کمی جیسے کربناک مسائل سے دوچار ہیں۔ یہ وہی سامراجی سوچ ہے جس کے خلاف تحریکیں اٹھیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں وہی سوچ آج ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔

دفاعی بجٹ یا اشرافیہ کا بجٹ؟

دفاعی بجٹ کا معاملہ بھی خاص تجزیے کا متقاضی ہے۔ اصولی طور پر، پاکستان جیسے ملک کو سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں اضافہ کرنا چاہیے، خاص طور پر جب یہ اخراجات ڈالر میں ہوتے ہیں، اور ڈالر کی قیمت پچھلے تین برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔

مگر تشویش کی بات یہ ہے کہ جب ہم اشرافیہ کے غیر ترقیاتی اخراجات دیکھتے ہیں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ اصل ترجیح قومی سلامتی نہیں بلکہ ذاتی آسائشیں ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکمران طبقے کے ذاتی مفادات پر ہونے والے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ دفاعی بجٹ کا اضافہ 20 فیصد سے بھی کم رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ "قومی مفاد" کی آڑ میں درحقیقت ذاتی مفاد کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

مذہب، حب الوطنی اور سچائی کی قربانی

بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب اور حب الوطنی جیسے پاکیزہ جذبات کو اشرافیہ کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کوئی اس ظالمانہ نظام پر سوال اٹھاتا ہے، اسے فوری طور پر "غدار" اور "پاکستان دشمن" کا لیبل دے دیا جاتا ہے۔ اس مائنڈ سیٹ نے نہ صرف سچائی کا گلا گھونٹا ہے بلکہ ایک اجتماعی نفاق کو جنم دیا ہے۔

سوال یہ ہے: غدار کون ہے؟ وہ جو سچ بولتا ہے، یا وہ جو اس نظام کے جھوٹ کو مضبوطی فراہم کرتا ہے؟ کیا آج کی اشرافیہ ان مقدس اسلامی شخصیات سے بھی برتر ہو گئی ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں تنقید کو کھلے دل سے سنا، برداشت کیا، اور اصلاح کو قبول کیا؟

اگر صحابہ کرامؓ اور خلفائے راشدینؓ نے اپنے خلاف اعتراضات پر صبر کیا، تو آج کی اشرافیہ کس بنیاد پر تنقید سے چراغ پا ہوتی ہے؟ اور پھر ریاستی طاقت کے زور پر سچ بولنے والوں کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے، ان پر الزامات لگائے جاتے ہیں، ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ اور ان کے چاہنے والے بغیر سوچے سمجھے ان پر لعن طعن کرتے ہیں — کیا یہ ظلم کا ساتھ دینا نہیں؟

وقت ہے بیداری کا

یہ وقت ہے کہ ہم حقیقت کو پہچانیں، سچائی سے منہ نہ موڑیں، اور اس نظام کی اصلاح کی طرف قدم بڑھائیں۔ سچ بولنے والوں کو تنہا نہ چھوڑیں، بلکہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ کل کوئی ہمیں بھی ضمیر کے کٹہرے میں کھڑا نہ کرے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو پہچاننے، قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین ثم آمین

07/06/2025

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Manqoolat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Manqoolat:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share