
08/06/2025
قبائلی جرگہ سسٹم اور انصاف
سسٹم پشتون معاشرے کا ایک ایسا قدیم روایتی نظام ہے، جو صدیوں سے تنازعات کے حل، دشمنیوں کے خاتمے اور سماجی توازن برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتا آیا ہے۔ اس نظام کی جڑیں اس قدر گہری ہیں کہ بعض اوقات ریاستی اداروں سے زیادہ اعتماد اسی پر کیا جاتا ہے۔ تاہم آج کے جدید دور میں اس نظام کے بارے میں دو متضاد خیالات پائے جاتے ہیں۔ ایک طرف کچھ لوگ اسے انصاف، صلح اور روایت کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں، تو دوسری جانب ناقدین اسے ایک ایسا نظام قرار دیتے ہیں جو انسانی حقوق اور آئینی اقدار سے متصادم ہو چکا ہے۔
جرگہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ جلد فیصلہ سناتا ہے اور فریقین کو مہنگی و پیچیدہ عدالتی کارروائیوں سے نجات دلاتا ہے۔ جرگے کے ذریعے لوگ مقامی زبان، رسم و رواج اور عزت کے دائرے میں رہتے ہوئے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ یہ نظام ایک طرح کی "اجتماعی دانش" پر مبنی ہوتا ہے، جہاں بزرگ، قبائلی رہنما یا تجربہ کار افراد دونوں فریقوں کی بات سن کر فیصلہ کرتے ہیں۔ جرگہ نہ صرف پیسوں کا بوجھ کم کرتا ہے بلکہ دشمنیوں کو صلح میں بدلنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
تاہم جرگے کے یہ فائدے تب نقصان میں بدل جاتے ہیں جب اس کا استعمال طاقتور افراد اپنے مفاد کے لیے کرنے لگیں۔ اور جرگہ ممبران جیسے مقامی زبان میں جرگہ باز کہا جاتا ہے نے باقاعدہ وکیلوں کی طرح پسہ کے نام پر بڑی بڑی فیسیں وصول کرنے لگے ہیں اس کے علاؤہ جرگہ میں اکثر اوقات خواتین کو سنا ہی نہیں جاتا، بلکہ ان کے متعلق فیصلے ان کی غیر موجودگی میں کیے جاتے ہیں۔ بعض جرگے ایسے فیصلے بھی دیتے ہیں جو ریاستی قانون اور انسانی وقار کے منافی ہوتے ہیں، مثلاً "سوارہ"، جس میں لڑکی کو صلح کے بدلے دے دیا جاتا ہے۔ یہ عمل نہ صرف ظلم ہے بلکہ آئین پاکستان اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
جرگہ نظام میں نمائندگی کا فقدان بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان، خواتین، اور عام لوگ اکثر اس عمل سے باہر رکھے جاتے ہیں، جس سے فیصلے صرف مخصوص طبقے کے مفاد میں آتے ہیں۔ مزید یہ کہ جدید دور کے پیچیدہ مسائل، جیسے سائبر کرائم یا معاشی فراڈ جیسے معاملات، اس نظام کے دائرہ فہم سے باہر ہیں۔
اس صورتحال میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جرگہ کو مکمل ختم کر دیا جائے؟ یا اسے جدید اصولوں کے مطابق بہتر بنایا جائے؟ مکمل خاتمہ شاید ممکن بھی نہ ہو اور مناسب بھی نہیں، کیونکہ یہ نظام قبائلی معاشرے کا حصہ ہے۔ البتہ اسے قانون کے دائرے میں لانا، آئینی نگرانی میں چلانا، خواتین کو شامل کرنا، اور تعلیم یافتہ، غیر جانب دار افراد کو اس کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
آج کے باشعور قبائلی نوجوان کے لیے اصل سوال یہ ہے: ہم اپنی روایت کو کیسے بچائیں اور اسے ظلم کے آلے میں تبدیل ہونے سے کیسے روکیں؟ اگر جرگہ انصاف کا نام ہے تو پھر ہر فرد کے ساتھ مساوی سلوک ہونا چاہیے چاہے وہ مرد ہو یا عورت، غریب ہو یا امیر۔خاموش رہنا آسان ہے، لیکن سوال اٹھانا ہی تبدیلی کی پہلی سیڑھی ہے۔ اس لیے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے روایتی نظام کا تنقیدی جائزہ لیں، اور جہاں ضرورت ہو وہاں اصلاح کریں، تاکہ جرگہ صرف روایت نہ رہے بلکہ صحیح معنوں میں انصاف کا نام بن جائے۔
قبائلی اضلاع میں جرگہ سسٹم کو مزید بہتر بنانے اور ان کے خامیوں کو دور کرنے کے لیے آپ بھی اپنی تجاویز پیش کریں