Azmat

Azmat I'm Berozgar I'm berozgar

22/04/2025

شوق زوال۔۔۔۔۔
از ایمان خان
قسط نمبر 2......

چلچلاتی دھوپ میں وہ چھوٹا سا گھر جھلس رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔سورج صاف آسمان پہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ایسے میں اس چھوٹے سے گھر کے ڈراٸینگ روم میں دو سہمی ہوٸی آنکھیں ہاتھ میں پکڑی چھری کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔

سامنے بیٹھی عورت جس نے ہاتھ میں چھری پکڑ رکھی تھی اس کی نظروں میں عجیب سی وحشت تھی اپنے خدوخال سے وہ نارمل لگتی تھی اور خوبصورت بھی۔۔۔۔۔لیکن اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔۔۔۔۔

نیچے ذمین پہ بیٹھے بچے نے نظریں چھری پہ گاڑھ رکھی تھی۔۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں خوف کے آثار واضح تھے۔۔۔۔

”جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔تکلیف کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔“؟؟

وہ اس کی ننھی سی بازو کو اپنے ہاتھ میں لیتے اس بچے سے مخاطب ہوٸی۔۔۔۔۔

چہرے پہ بلا کی سختی تھی بچے نے آنکھیں سختی سے مینچ لی۔۔۔۔۔۔

”جب کوٸی آپ کا بہت اپنا آپ سے نظریں چرا لے۔۔۔۔۔۔“

اس کے لہجے میں تھکان اتر آٸی۔۔۔۔۔۔۔

ساتھ اس کے بازو پہ ایک کٹ لگایا۔۔۔۔۔بچے نے دبی دبی سی چیخ ماری اس نے سر اٹھا کے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا بچے نے سر واپس گرا لیا لیکن تکلیف کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا

”تم جانتے ہو“؟؟یہ تکلیفیں یہ گھاٶ انسان کو مضبوط بناتے ہیں بہادر بناتے ہیں۔۔۔۔اس نے بچے کو بہلانا چاہا بچے نے سر نہیں اٹھایا

”تم بہادر نہیں بنو گے تو اپنے باپ سے بدلا کیسے لوگے ّ”دیکھو اس نے کیا کیا تمہاری ممی کے ساتھ ان کی ساری جوانی کھا گیا “اس کے لہجے میں افسردگی عود آٸی آنکھیں پانیوں سے بھر گٸ بچے نے دھیرے سے سر اٹھایا اس نے اپنی ماں کی آنکھوں میں آۓ پانی کے اس پار چھپی وحشت کو دیکھا۔۔۔سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ اس کا باپ اس کی ماں کی جوانی ہی تو کھا گیا تھا اور ممی کیا کچھ کرتی تھی اس کے لیے اور اگر بدلے میں اسے تھوڑی بہت تکلیف پہنچا دیتی تھی تو وہ کیا اتنا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔اس نے خود کو تسلی دی

”تو کیا لو گے تم اپنے باپ سے بدلا“؟؟

بچے کی آنکھوں سے بھڑکتی بدلے کی آگ کو اس نے اور ہوا دی تھی اس کے لہجے میں تجسس تھا۔۔۔۔

”ہاں ممی میں لونگا بدلا“اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا تھا جواب میں اس کی ماں کے چہرے پہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گٸ تھی۔۔۔۔۔۔اور اس چھوٹے بچے کی رگ و پے میں بےحسی اتر گٸ تھی۔۔۔۔۔۔

@@@@@

”اس نے چلتے چلتے یونہی راستے سے ایک پھول توڑا۔اور شرارت سے اسے ہاتھ میں پکڑ کے چلنے لگی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس اندر تک مسرور کر رہی تھی سیاہ سلک کی پاٶں کو چھوتی شرٹ نیچے چوڑی دار پاجامہ پہنے وہ ساری دنیا سے بے خبر بس چلتی ہی جارہی تھی سیاہ ریشمی بال کمر پہ جھول رہے تھے اور دوپٹہ ذمین کو چھو رہا تھا اور اس کے کانوں میں انزق کے الفاظ گونج رہے تھے اس نے سکول میں تین دفعہ انزق کی کال کاٹ دی تھی کیونکہ وہ بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی اب وہ خود کو کوس بھی رہی تھی کہ اسے انزق سے بات کر لینی چاہیۓ تھی اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھاٸی بھی اس کا ہاتھ پکڑے چل رہا تھا وہ اسی سکول میں پڑھتا تھا جہاں ایلاف پڑھاتی تھی وہ اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھی

اسی لمحے ایک کالی کرولا کار تیزی سے اس کے سامنے رکی اور اس کا راستہ روک لیا اس نے کچھ ناسمجھی کے ساتھ اس گاڑی سے اترتے اس آدمی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پستول تھا گھبراہٹ کے مارے اس نے اپنے بھاٸی کو اپنی کمر کے پیچھے چھپا لیا

وہ انہیں کی طرف بڑھ رہا تھا اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتی اس نے اس کی کلاٸی کو پکڑا اور تقریباً کھینچتے ہوۓ اسے گاڑی کی طرف لے جانے لگا اس کا چھوٹی بھاٸی مسلسل اسے پکار رہا تھا اس آدمی نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی لیکن وہ مسلسل اپنی بہن کا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا
اس آدمی نے غصے سے پلٹ کر دیکھا پھر ایک فاٸر اس کے دل پہ کیا خون کا ایک فورا ابل پڑا ایلاف نے ایک دلخراش چیخ ماری اس کا بھاٸی لڑکھڑا کے اس کے قدموں میں گرا تھا اس نے ہاتھ پاٶں مار کے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن وہ مکمل طور پہ اس شخص کی گرفت میں تھی اس نے اسے گاڑی میں پٹھ دیا تھا
گاڑی میں پہلے سے دو تین لوگ موجود تھے انہوں نے اسے بازو سے پکڑ کے قابو کیا تھا اسی لمحے اس دوسرے شخص نے اس کے منہ پہ رومال رکھ دیا تھا وہ بے ہوش ہو گٸ تھی۔۔۔۔۔

اور ڈراٸیور گاڑی ذن سے بھگا لے گیا تھا اس کے بھاٸی کا نیم مردہ وجود وہی پڑا تھا۔۔۔۔۔

@@@@@

گاڑی نا معلوم سے راستوں سے گزر رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی وہ کدھر جارہی تھی لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ وہ اس شخص کے ساتھ اب محفوظ ہے اس نے چور نظروں سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو اسے خرید کر لایا تھا۔۔۔۔وہ سن گلاسز ٹکاۓ مغرور سا شیشے سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔

”نھار کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اسے کس طرح مخاطب کرے۔۔۔۔۔

”آپ نے کتنے پیسوں میں خریدہ ہے مجھے“؟؟

اس نے اسے مخاطب کیے بنا اس سے پوچھا تھا

اس نے چونک کے پلٹ کے اسے دیکھا تھا

”کیوں تم نے پیسے لوٹانے ہے مجھے“؟؟

لہجہ تمسخرانہ تھا

لیکن نھار کو برا نہیں لگا تھا اس نے کم از کم اس کی امید کے برعکس جواب تو دیا تھا۔

”اگر موقع ملا تو ضرور لوٹا دوں گی“

اس نے خوش ہوتے ہوۓ سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔۔۔

”ہاں وہ تو ضرور لوٹاٶ گی تم کیونکہ آروی کسی پہ مفت کا احسان نہیں کرتا۔

وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوۓ پھر شیشے سے باہر دیکھنے لگا

اور وہ اس کے الفاظوں میں الجھ کے رہ گٸ۔۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤

وہ ابھی اپنا کام ختم کر کے میس میں گیا تھا وہ ایلاف کو کال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس سے پہلے وہ تھوڑا آرام کرنا چاہتا تھا اس نے نظر اٹھا کہ گھڑی کو دیکھا جو شام کے سات بجا رہی تھی ”ایلاف گھر آچکی ہو گی اس نے خود ہی اندازہ لگایا پھر بیڈ پہ بیٹھا جھک کے بوٹ کے تسمے کھولنے لگا جیب میں پڑا موباٸل تھرتھرایا تو اس نے ذرا اوپر ہو کے جیب سے موباٸل نکال کے دیکھا اسکرین پہ اپنے خالو کا نمبر دیکھ کے اس نے کچھ حیرت سے کال پک کی تھی وہ اسے بہت کم کال کرتے تھے۔۔۔۔۔

”ہیلو۔۔۔۔۔۔“

اس نے مدہم لہجے میں کہتے ہوۓ اپنی حیرت چھپانے کی کوشش کی تھی

دوسری طرف سے جو آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراۓ وہ اس کی روح کی دھجیاں اڑا گۓ جسم کا سارا خون اس کے چہرے پہ جم گیا۔۔۔۔اس نے بامشکل خود کو سنبھالا ۔۔۔۔۔

”کدھر لے کے گۓ ہیں وہ ایلاف کو خالو اور ریحان ٹھیک ہے کیا۔۔۔۔۔”؟؟

وہ حواس باختہ سا اٹھ کھڑا ہوا اسے اپنی آواز کسی کھاٸی سے آتی ہوٸی محسوس ہوٸی۔۔۔۔۔

دوسری طرف سے ریحان کی موت کی خبر اسے سناٸی گٸ تھی اسے شدید دھچکا لگا تھا لیکن وہ کچھ کہنے کے قابل کہاں رہا تھا۔۔۔۔۔۔

اس نے خالو کو تسلی دے کے کال کاٹ دی وہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ یہ سب کیا ہوا ہے۔۔۔۔ایک طرف خالو جان کو اس کی ضرورت تھی اور دوسری طرف ایلاف مشکل میں تھی ریحان کی موت الگ صدمہ تھی وہ سر ہاتھوں میں دیۓ وہی بیڈ پہ بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد وہ کچھ سوچنے کے قابل ہوا موباٸل ایک دفعہ پھر بج اٹھا تھا

اس نے تیزی سے موباٸل ہاتھ میں لیا وٹس ایپ پہ کسی نمبر سے ویڈیو کال آرہی تھی۔۔۔۔۔

اس نے کچھ سوچ کے کال پک کی دوسری طرف کا منظر صاف تھا اندھیری جگہ پہ ایک شخص منہ پہ ماسک چڑھاۓ کھڑا تھا

اس کے پیچھے کرسی پہ سر گراۓ ایلاف پڑی تھی جسے رسیوں میں جکڑ رکھا تھا وہ بے چینی سے اٹھ کھڑا ہوا وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ سب کس کی وجہ سے ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

”کون ہو تم ایلاف سی کیا دشمنی ہے تمہاری مجھ سے بات کرو۔۔۔۔۔۔“

وہ دھاڑا تھا

دوسری طرف سے قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔۔۔۔

”دشمنی تو تم سے ہی ہے اتنی خوبصورت لڑکی سے بھلا کس کی دشمنی ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔“

ایلاف کے چہرے پہ بکھری زلفوں کو ہٹاتے وہ ذومعنی لہجے میں کہتے ہوۓ اس کے اندر تک آگ لگا گیا

اسے لگا کسی نے کھولتا ہوا پانی اس پہ گرا دیا ہے۔۔۔۔۔

”ہاتھ مت لگاٶ اسے۔۔۔۔“

وہ چیخا۔۔۔۔۔

”آواز نیچی رکھو کیپٹین انزق۔۔۔۔۔“

وہ بھی پیچھے پلٹ کے سختی سے بولا تھا

انزق نے بہت مشکل سے خود پر قابو کیا تھا

”اچھا ٹھیک ہے تم ایلاف کو چھوڑ دو تمہاری جو بھی شراٸط ہے مجھے بتاٶ میں وہ پوری کروں گا لیکن تم
ایلاف کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کرو گے۔۔۔۔“

اس نے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا تھا بات کے اختتام پہ اس کا لہجہ التجاٸیہ ہو گیا تھا

”ہاں شراٸط تو پوری کرنی پڑے گی چڑیا جو ہماری قید میں ہے۔۔۔۔“

اس شخص نے قہقہہ لگاتے ہوۓ جتایا۔۔۔

اور انزق کا خون کھول کے رہ گیا۔۔۔۔۔۔

”ہاں تو پہلی شرط یہ ہے کہ تم لوگوں کی قید میں ہمارے جتنے بھی قیدی ہیں سب رہا کرنے ہونگے۔۔۔۔۔۔“

وہ اب اس ویران جگہ پہ چکر کاٹتے ہوۓ اسے بتارہا تھا۔۔۔۔۔

”اور دوسری اور اہم شرط آج رات لڑکیاں اسمگل کی جاٸینگی اس میں تم ہماری مدد کرو گے بولو قبول ہے۔۔“

رک کے اسے دیکھا تھا

”ہاں قبول ہے ایلاف کو ہاتھ مت لگانا۔۔۔۔“

اس نے ایک دفعہ پھر منت کی تھی۔۔۔۔

”ٹھیک ہے کام ہو جاۓ تو میں خود رابطہ کرونگا۔۔۔۔۔۔۔“

کال کٹ چکی تھی۔۔۔۔۔

اور وہ اضطرابی کیفیت میں وہی کھڑا تھا۔۔۔۔۔

کچھ سوچ کے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔

❤❤❤❤

ماحول میں عجیب سا تناٶ عجیب سی خاموشی تھی۔۔۔۔۔وہ ٹیبل پہ بازو ٹکاۓ سر جھکاۓ بیٹھا بہت بے بس نظر آرہا تھا۔۔۔۔۔میز کی دوسری طرف بیٹھے جرنل کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔۔

”انزق ہم ان کی شراٸط نہیں مان سکتے۔۔۔۔۔“

انہوں نے ٹھہرے ہوۓ لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔۔۔

”انزق نے دھیرے سے سر اٹھایا تھا۔۔۔۔

اس کی آنکھوں میں پہلے خفکی پھر غصہ ابھرا تھا۔۔۔۔

”اگر آپ میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔تو میں خود کر لوں گا سب۔۔۔۔“

وہ غصیلی نظروں سے گھورتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا وہ اس وقت نارمل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔

”جذباتی مت بنو۔۔۔“

انہوں نے ٹوکا تو وہ زخمی سا مسکرایا۔۔۔۔۔

”سر وہ بیوی ہے میری۔۔۔۔۔“

وہ ٹیبل پہ ذور سے ہاتھ مار کے بولا۔

آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ایک ایک لفظ پہ ذور دیتے ہوۓ جتایا۔۔۔۔۔

آنکھیں غصے اور ضبط کی شدت سے لال ہو رہی تھی۔۔۔۔۔

کنپٹی اور بازوٶں کی رگیں ابھری ہوٸی تھی۔۔۔

سامنے بیٹھے آفیسر نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔

”اور یہ مت بھولو انزق۔۔۔۔۔۔کہ اس کے شوہر ہونے سے پہلے تم ایک آرمی آفیسر ہو۔۔۔۔۔“

سرد لہجے میں کہتے ہوۓ انہوں نے جتاتی ہوٸی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔

”سر وہ اس کے ساتھ غلط کریں گے اس کی کوٸی غلطی نہیں ہے وہ بہت معصوم ہے سر ۔۔۔۔۔۔اسے بچا لیں۔۔۔۔۔۔“

اس نے بے بسی سے کہتے ہوۓ سر جھکا لیا

آواز مدہم ہو گٸ تھی۔۔۔۔۔۔

”ہم ہر ممکن کوشش کریں گے اور کر رہیں ہے کہ رات سے پہلے پہلے اسے بازیاب کروا لیں۔۔۔۔۔“

انہوں نے اٹھ کے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے تسلی دی۔۔۔۔۔۔۔

”اور سر اگر بازیاب نہ کروا سکے تو۔۔۔۔۔۔“

اس نے نظر اٹھا کے دیکھا

اس کی نظر میں تڑپ کے ساتھ ایک سوال بھی تھا۔۔۔۔

❤❤❤❤❤

گاڑی ایک جھٹکے سے رکی ۔۔۔آروی کے ماتھے پہ لکیریں نمودار ہوٸی۔۔۔۔۔۔

ڈراٸیور نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

لیکن کوٸی فاٸدہ نہ ہوا ۔۔۔۔۔آر وی کے کہنے پر وہ ڈراٸیور گاڑی سے اترا وہ باہر نکل کے گاڑی کا جاٸزہ لینے لگا۔۔۔۔ہر طرف اندھیرہ پھیلا ہوا تھا رات کے ساۓ گہرے ہو چکے تھے نھار بوکھلا کے اٹھی اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گٸ اس کے حواس بحال ہوۓ تو سامنے کا منظر صاف ہوا آروی کسی کے ساتھ کال پہ بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔

”سر گاڑی کی خرابی سمجھ نہیں آرہی مکینک کو دیکھانی پڑے گی۔۔۔۔

ڈراٸیور نےشیشے سے جھانک کے اطلاع دی تھی

”ٹھیک ہے میں دوسری گاڑی منگوا لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔“

”سر موسم خراب ہونے کے آثار ہیں اور سفر بھی کافی لمبا ہے پہاڑی علاقہ ہے لینڈ سلاٸیڈنگ کا بھی خطرہ ہے آج ایک اور رات آپ یہی مری میں گزار لیں صبح اسلام آباد کے لیے نکل جاٸینگے۔۔۔۔۔“

ڈراٸیور نے مشورہ دیا۔۔۔۔۔

”ہوں ٹھیک ہے لیکن ملک میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہا تمہاری بات ہوٸی ہے کیا“؟وہاں سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔“؟؟

اس نے ڈراٸیور سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔

”ہاں صبح ہوٸی تھی بات ۔۔۔۔۔وہ کہہ رہے تھے آج کچھ اہم کام سر انجام دینے ہیں وہی مصروف رہوں گا۔۔۔۔۔“

ڈراٸیور نے وہی کھڑے کھڑے اطلاع دی

نھار بس خاموشی سے سن رہی تھی۔۔۔۔

آروی کے ذہن میں کچھ کلک ہوا۔۔۔۔۔۔پھر وہ چپ چاپ گاڑی سے اتر گیا۔۔۔۔۔

ڈراٸیور ڈراٸیور کو اشارہ کیا اس نے نھار کی ساٸیڈ کا دروازہ کھولا نھار چپ چاپ اتر کے آروی سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہو گٸ وہ اسے وہی رکنے کا اشارہ کرکے فون کان کے ساتھ لگا کے اس سے تھوڑے فاصلے پہ جاکے کھڑا ہو گیا

تیسری رنگ پہ کال پک ہو گٸ تھی ملک کی الرٹ سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراٸی۔۔۔۔۔۔“

لڑکی اٹھا لاۓ ہو ملک۔۔۔۔۔“؟

اس نے محتاط لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔

”ہاں آروی ہمارے پاس ہی موجود ہے ابھی بے ہوش ہے کپٹین سے رابطہ کیا ہے ۔۔۔۔۔سارے مطالبات سامنے رکھے ہیں لیکن ابھی تک کوٸی پیش رفت سامنے نہیں آٸی۔۔۔۔۔۔“

ملک نے ماسک چہرے سے اتار کے ایک طرف رکھتے اسے تفصیل بتاٸی۔۔۔۔۔

”آپ آج رات پہنچ جاٸینگے نا آروی۔۔۔۔۔۔“؟؟

کچھ سوچ کے اس نے پوچھا تھا۔۔۔۔۔

”نہیں گاڑی خراب ہو گٸ ہے آج رات یہی گزارنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔“

اس نے پلٹ کے کار کی طرف دیکھتے مایوسی سے کہا۔۔۔۔

نھار اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔

”ٹھیک ہے آروی آپ ابھی مت آٸیں یہاں سب سنبھال لونگا میں۔۔۔۔۔“اس کے چہرے پہ شاطرانہ مسکراہٹ پھیل گٸ

”اور ہاں ملک ۔۔۔۔۔اسے کچھ یاد آیا۔۔۔۔۔

”اس لڑکی کے ساتھ کچھ غلط مت ہونے دینا اس کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔“

اس نے نرمی سے اسے حکم دیا۔۔۔۔۔

ملک کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔

”آپ فکر ہی مت کریں سر۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے طابعداری سے کہہ کے کال کاٹ دی۔۔۔۔۔

کال کاٹ کے وہ نھار کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔

”ٹیکسی بک کرواٸی “ اور نھار کو ساتھ لے کے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔

اس بات سے بے خبر کے وہ کس پلینگ کا شکار ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔

”گڈ جاب احسان۔۔۔۔۔“

آروی کے یہاں سے جاتے ہی ڈراٸیور کو ملک کا میسج موصول ہوا تھا۔۔۔۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
Like r cmnts lazmi kijiyega ta k next episode jldi mil saky

22/04/2025

شوق زوال
ایمان خان
قسط نمبر 1.....

نیلے آسمان پہ بادلوں کے ننھے ننھے ٹکڑوں کا نے اونچے پہاڑوں پہ حصار باندھ رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ان کی گرفت۔۔۔۔۔۔پہاڑوں پہ اس قدر۔۔۔۔۔۔مضبوط تھی کے لکڑی کے بنے ان چھوٹے چھوٹے گھروں کو سفید دھویں نے کسی۔۔۔۔۔نور کی طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔۔۔۔۔۔ٹھنڈی ہواٸیں وادی کے اردگرد محو رقص تھی۔۔۔۔۔۔یہاں پریاں اترتی تھی۔۔۔۔۔۔۔یہاں ٹھنڈے پانی کے چشمے بہتے تھے۔۔۔۔۔۔اگر دنیا میں جنت ہوتی تو یقیناً وہ وادی کالام ہوتی۔۔۔۔۔۔

لکڑی کا بنا وہ خوبصورت سا گھر جس کے ایک طرف میٹھے پانی کا چشمہ بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔اونچے شہتوت کے درخت مدہم دھن پہ دھیرے دھیرے جھوم رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔

لکڑی کی بنی کھڑکی کی دوسری طرف۔۔۔۔۔سنگار میز پہ پڑا موباٸل کتنی دیر سے بج رہا تھا۔۔۔۔

نرم و نازک پیر قالین پہ چلتے ہوۓ سنگار میز کی طرف بڑھے۔۔۔۔۔

فون اٹھا کے ایک نظر فون اسکرین پہ چمکتے نمبر پر ڈالی۔۔۔۔۔تو اس کے چہرے پہ تبسم بکھر گیا۔۔۔۔۔

لمبے سیاہ ریشمی بال جو کمر پر جھول رہے تھے انہیں ایک ادا سے پیچھے جھٹکتے۔۔۔۔۔۔اس نے فون کانوں کے ساتھ لگایا۔۔۔۔۔

بے تاب سی آواز اس کے کانوں کے ساتھ ٹکراٸی۔۔۔۔۔

وہ کھلھلا کے ہنسی۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف مصروف شہر کے اس گرم سے آفس میں بیٹھے شخص۔۔۔۔۔۔۔نے کچھ ناراضگی سے فون اسکرین کو دیکھا۔۔۔۔۔۔

”کہا تھی تم۔۔۔۔۔۔“؟؟

سوال نروٹھے پن سے کیا گیا تھا۔۔۔۔۔

”آپ کے دل میں۔۔۔۔۔۔“

اس نے دوسری طرف موجود شخص کی حالت سے مزا لیتے ہوۓ دو بدو کہا۔۔۔۔۔۔

”وہاں تو تم ہمیشہ سے ہو۔۔۔۔۔۔۔“

ابھی کدھر تھی۔۔۔۔۔۔۔“؟؟

غصہ ذرا کم ہوا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن ناراضگی ہنوز قاٸم تھی۔۔۔۔۔۔

”میں باہر۔۔۔۔۔پرندوں کو دانہ ڈال رہی تھی۔۔۔۔۔۔“

اس نے تکیے کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوۓ سنجیدگی سے کہا

وہ کرسی سے اٹھ کے گلاس ڈور کے پاس جاکے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔

کراچی کی ساری رونقیں واضح تھی۔۔۔۔۔۔

”تم ہمیشہ مجھے نظر انداز کیوں کرتی ہو۔۔۔۔۔۔“؟؟

اس نے دھیرے سے شکوہ کیا تھا۔۔۔۔

”اس کی تو جیسے دکھتی رگ پہ کسی نے ہاتھ رکھ دیا تھا

وہ فوراً سیدھی ہو کے بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔

”میں نے کب نظر انداز کیا تمھیں۔۔۔۔۔۔“

اس نے ماتھے پہ بل ڈال کے تفتیشی لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

ہر وقت یہی تو کرتی ہو۔۔۔۔

اس نے ہنسی دبا کے اسے چھیڑا تھا۔۔۔۔۔۔

”نہیں میں ایسا کچھ نہیں کرتی یہ سب تو تم کرتے ہو مجھے اپنی ڈیوٹی بہت عزیز ہے میں مصروف ہوتا ہوں۔۔۔۔۔۔“

اس نے چڑ کے اس کی نقل اتاری تھی

وہ کھڑکی سے ہٹ کے۔۔۔۔۔۔کرسی پہ بیٹھ کے کھلکھلا کے ہنسا تھا۔۔۔۔۔۔

”ذرا جو تم اپنے شوہر کی عزت کرتی ہو۔۔۔۔۔۔“

اس نے مصنوعی خفکی دیکھاٸی۔۔۔۔۔

”ذرا جو میرا شوہر میری قدر کرتا ہو۔۔۔۔۔۔“

وہ کہاں کسی سے پیچھے رہنے والی تھی۔۔۔۔۔

”استغفراللہ ناقدری لڑکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔“

”اور کس طرح کرتے ہیں قدر۔۔۔۔۔“

وہ صدمے سے کرسی سے اچھل پڑا تھا۔۔۔۔۔

”جیسے دوسرے لڑکے کرتے ہیں۔۔۔۔چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں ان کے ساتھ ہوتے ہیں یہاں تو کچھ بھی کرو تمہیں چھٹی ہی نہیں ملتی۔۔۔۔۔۔“

اس نے دوپٹے کو انگلی پہ لپیٹتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔ملامت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔

”فوجیوں کی ایسی ہی ذندگی ہوتی ہے یار۔۔۔۔۔۔“اور تمہیں تو فخر ہونا چاہیۓ۔۔۔۔۔۔تم ایک فوجی کی بیوی ہو۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے پیچھے ٹیک لگاتے ہوۓ اسے بہلایا۔۔۔۔۔۔

”بس میجر صاحب آپ کو صرف باتیں ہی کرنی آتی ہیں۔۔۔۔۔“

اس نے جل کر کہا تھا۔۔۔۔۔

”نہیں پیار بھی کرنے آتا ہے آپ موقع ہی نہیں دیتی۔۔۔۔۔“

اس نے مسکرا کر۔۔۔۔۔۔شرارتی لہجے میں کہا

تو وہ سرخ ہو گٸ۔۔۔۔۔۔۔

”کیا ہوا بیگم صاحبہ شرما گٸ آپ۔۔۔۔۔۔“؟؟

اس نے ٹھہر کے معصومیت سے پوچھا۔۔۔۔۔

”مجھے تھوڑا کام ہے ۔۔۔۔۔میں بعد میں کال کرتی ہوں۔۔۔۔۔“

اس نے جان چھڑانی چاہی۔۔۔۔۔۔۔

”مجھ سے بھی بڑھ کر کوٸی ضروری کام ہے۔۔۔۔۔“

اس نے مصنوعی ناراضگی سے۔۔۔۔۔۔اسے چڑایا۔۔۔۔۔۔

”جی بہت ذیادہ ضروری کام ہیں۔۔۔۔۔۔“

اس نے سنجیدگی سے جواب دیا

تو اس کا منہ بن گیا۔۔۔۔۔۔

”پھر بھی ”آٸی لو یو۔۔۔۔۔“

اس نے معصومیت سے کہا۔۔۔۔۔تو جواباً وہ اپنی ہنسی نہ دبا سکی۔۔۔۔۔۔اور کھلکھلا کے ہنس دی۔۔۔۔۔

اور یہ ہنسی فون کی دوسری طرف بیٹھے شخص کی کل کاٸنات تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے کچھ بھی جواب دیۓ بغیر۔۔۔۔۔۔۔کال کاٹ دی۔۔۔۔۔

کتنی ہی دیر وہ موباٸل کو دیکھ کے مسکراتی رہی پھر اٹھ کھڑی ہوٸی۔۔۔۔۔

”سامنے سنگار میز کے شیشے میں اس کا عکس واضح تھا۔۔۔۔۔۔۔

اس کی رنگت۔۔۔۔۔۔صاف اور چہرہ روشن تھا۔۔۔۔۔۔کھڑکی سے باہر سورج نکل آیا تھا۔۔۔۔۔۔۔سورج کی کرنیں اس کے چہرے کو چھو کے گزر رہی تھی۔۔۔۔۔۔گول چہرہ۔۔۔۔۔۔دودھیا رنگت ۔۔۔۔۔متناسب نقوش۔۔۔۔۔۔خوبصورت گہری۔۔۔۔۔۔۔سبز رنگ آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔جن پہ پلکوں کا پہرہ تھا۔۔۔۔۔۔۔اونچی کھڑی ناک۔۔۔۔۔۔۔اور گلاب کی پنکھڑیوں جیسے لب۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دبلی پتلی سی نازک سی لڑکی تھی جس نے کالے رنگ کا پاٶں کو چھوتا انارکلی فراک پہن رکھا تھا۔۔۔۔۔۔جو اس کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔لیکن اس کی شخصیت کا خاصہ اس کے لمبے ریشمی بال تھے۔۔۔۔۔۔۔جو کمر سے تھوڑے نیچے تک تھے۔۔۔۔۔۔

وہ اگر دور بیٹھے اس شخص کی دھڑکن تھی تو اس میں کچھ خاص بات ضرور تھی

اسے اپنی قسمت پہ رشک آیا۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ مذید خوش ہوتی اسے یاد آیا اس نے اپنے بھاٸی کو سکول بھیجنا ہے بابا کو چاۓ دینی ہے۔۔۔۔۔۔

وہ تیزی سے پلٹی۔۔۔۔۔۔اور سامنے دیوار کے ساتھ لگی اس
وردی والے شخص کی تصویر دیکھ کے وہی ٹھہر گٸ اس پہ ہاتھ پھیر کے۔۔۔۔۔اسے اپنے اندر تک سکون اترتا محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔

پھر اپنے پاگل پن پہ خود ہی مسکرا کے وہ کمرے سے باہر نکل گٸ۔۔۔۔۔۔۔۔
❤️❤️❤️❤️❤️❤️

چھوٹی کوٹھڑی نما۔۔۔۔۔۔جگہ گھپ اندھیرے میں ڈوبی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔۔۔وہاں سے ہوتے ہوۓ جاٶ تو اندر چھوٹا کمرہ روشن تھا جس میں مختلف کمپیوٹرز پڑے تھے اور ان پہ تیزی سے کام کرتے۔۔۔۔۔۔۔الرٹ سے وردی میں ملبوس۔۔۔۔۔۔۔کچھ لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہلکے ذرد روشنی۔۔۔۔۔۔۔۔پورے کمرے میں پھیلی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔

اور بڑی سی کرسی پہ بیٹھا۔۔۔۔۔۔بلیک جیکٹ والا وہ شخص۔۔۔۔۔۔جس کی عقابی نظریں سامنے پڑے کمپیوٹر پر جمی تھی۔۔۔۔۔۔۔

اور انگلیاں تیزی سے کی بورڈ پر چل رہی تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے چہرے پر ہیٹ گرا رکھی تھی جس کی وجہ سے اس کا چہرہ واضح نہیں تھا۔۔۔۔۔

لیکن اس کے نقوش تنے ہوۓ تھے اور چہرے پہ عجیب سی ناگواری تھی

کمرے میں سناٹا تھا۔۔۔۔۔۔۔

”سر۔۔۔۔۔۔“

محتاط سے لہجے میں اسے پکارا گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اس نے پلٹ کے نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔

”سر۔۔۔۔۔۔“

دوسری بار آواز ذرا مدہم تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے چونک کے گردن موڑی تھی۔۔۔۔۔

سامنے وردی میں ملبوس ایک شخص سر جھکا کے۔۔۔۔۔۔کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔

”ایک بری خبر ہے۔۔۔۔۔۔“

”آواز آہستہ انداز مودبانہ تھا۔۔۔۔۔۔“

اس کے چہرے پہ ناگواری کی جگہ۔۔۔۔۔۔سختی نے لے لی۔۔۔۔۔۔

”یہاں سے جو لڑکیاں اسمگل کی تھی۔۔۔۔۔۔۔“وہ امریکہ نہیں پہنچ سکی انہیں راستے میں ہی۔۔۔۔۔۔۔بازیاب کروا لیا گیا۔۔۔۔“

وہ کاروباری انداز میں اطلاع دے رہا تھا لیکن اس کے چہرے پہ خوف واضح تھا۔۔۔۔۔۔

”یہ اس ہفتے کی تیسری بری خبر ہے۔۔۔۔۔۔“

بھاری آواز مگر ٹھہرے ہوۓ لہجے میں۔۔۔۔۔۔۔۔پوچھا گیا تھا یا جتایا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

”سر ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میجر کا پتہ لگوا لے۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے فوراً صفاٸی دی۔۔۔۔۔۔۔

”کتنے دنوں سے کوشش ہی کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔اس کوشش میں کتنا نقصان ہو گیا ہے ہمارا۔۔۔۔۔۔“

وہ فوراً سے دھاڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا؟۔۔۔۔۔۔

کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے سب افراد نے گردن موڑنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی بلکے سر جھکا لیا تھا۔۔۔۔۔۔

”مجھے یہ جھکے ہوۓ سر نہیں چاہیۓ مسٸلے کا حل چاہیۓ۔۔۔۔۔۔“

اس نے ان کے قریب سے چکر کاٹتے ہوۓ جیسے انہیں وارن کیا۔۔۔۔۔۔

”ایک دن کے اندر اندر۔۔۔۔۔۔“

اس نے ایک ایک لفظ پہ ذور دیا۔۔۔۔۔۔۔

کمرے میں سناٹے ہنوز قاٸم تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی کے قدموں کی چاپ نے ماحول میں ارتعاش پیدا کیا تو اس نے گردن گھما کے دیکھا۔۔۔۔۔۔

”پیچھے کھڑے شخص کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔۔۔۔۔۔

تپش بھری مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔

”اس کے تنے ہوۓ نقوش ڈھیلے پڑ گۓ۔۔۔۔۔۔

وہ جانتا تھا اس کے نوے فیصد مساٸل کا حل۔۔۔۔۔۔۔تو اس شخص کے پاس ہوتا تھا۔۔۔۔۔

”سر آپ کو انہیں۔۔۔۔۔۔ڈانٹنے کی ضرورت نہیں جو کام آپ چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ان بس کا تھا بھی نہیں۔۔۔۔۔۔“

بات کرتے کرتے۔۔۔۔۔۔وہ کرسی پہ بیٹھا۔۔۔۔۔۔اور مکاری سے ہنسا تھا۔۔۔۔۔۔

وہاں بیٹھے کسی بھی شخص نے سر نہیں اٹھایا تھا

ہیٹ پہنے اس شخص نے ایک ابرو سوالیہ اٹھایا تھا۔۔۔۔۔۔

”سر میرے پاس آپ کے اس مسٸلے کا ایسا حل ہے کہ اس کے بعد۔۔۔۔۔۔۔آپ کو کوٸی مسٸلہ درپیش نہیں آۓ گا۔۔۔۔۔۔۔“

وہ چہرے پہ مسکراہٹ سجاۓ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔۔۔ایک نظر اطراف پہ دوڑاٸی پھر اپنے ازلی لالچی انداز میں گویا ہوا۔۔۔۔۔۔۔

ہیٹ والا شخص خاموش کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔

ہلکی ذرد روشنی میں اس نے ایک تصویر ہیٹ والے شخص کی طرف بڑھاٸی تھی۔۔۔۔۔۔

اس نے تصویر ہاتھ میں لیتے سامنے کھڑے اپنے سب سے خوشیار آدمی کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔

جس نے کالے رنگ کا تھری پیس سوٹ پہن رکھا تھا۔۔۔۔۔بالوں کو جیل لگا کے پیچھے کی طرف سیٹ کر رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ہلکی روشنی میں اس کا چہرہ واضح نہیں تھا لیکن اس کی عمر پچاس سے ساٹھ سال کے لگ بھگ تھی

ہیٹ والے شخص نے ناسمجھی سے ہاتھ میں پکڑی تصویر کو دیکھا۔۔۔۔۔۔

”پھر سر اٹھا کے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔۔۔۔۔
”یہ وہی شخص ہے جس کی آپ کو تلاش ہے۔۔۔۔۔۔۔“

”میجر۔۔۔۔۔۔انزق فیض عالم۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے سنجیدگی سے یہ نام لیا۔۔۔۔۔۔

”آر وی نے سر اٹھا کے ستاٸشی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔پھر اس کے چہرے سے مسکراہٹ غاٸب ہوٸی یہ نام اس نے بارہا سن رکھا تھا

دوسری طرف کھڑا شخص ہنوز مسکرا رہا تھا۔۔۔۔۔

وہ چلتا چلتا بلب کے نیچے آکے کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔

اس کا چہرہ واضح ہوا تھا

اس کی اندر کی طرف دھنسی ہوٸی آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی ایک آنکھ بند سفید رنگ کی تھی۔۔۔۔۔۔اور دوسری آنکھ بند وہ صرف ایک آنکھ سے دیکھ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔چہرے کے ساتھ چپکی داڑھی۔۔۔۔۔۔۔“

اس کے چہرے پہ عجیب سی مکاری تھی۔۔۔۔۔

وہاں موجود تمام افراد دوبارہ سے اپنے کام میں مشغول ہو چکے تھے۔۔۔۔۔۔

”کہاں ملے گا یہ۔۔۔۔۔۔“؟؟

آر وی نے پرسوچ نظروں سے۔۔۔۔۔۔تصویر کا جاٸزہ لیتے ہوۓ سوال کیا تھا۔۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر پتھریلے تاثرات واضح تھے

کوٸی کرب کوٸی ماضی کا دکھ

لیکن اس وقت وہ سب کے سامنے اپنی پرسنلز ڈسکس نہیں کر سکتا تھا

اس نے پیشہ ورانہ انداز کا خ*ل چڑھا لیا۔۔۔۔۔

”اس کی منکوحہ کو یہاں لے آٸیں۔۔۔۔۔۔سر کے بل چلتا ہوا آۓ گا آر وی“

عام نارمل لہجے میں کہتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔اس نے جیسے آر وی کو بہت کچھ سمجھایا تھا۔۔۔۔۔۔

”آر وی نے کچھ سمجھتے ہوۓ سر ہلا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

”تم جانتے ہو عورت کو نشانہ بنانا میرا اصول نہیں ہے۔۔۔۔۔۔“

سرسری لہجے میں کہتے ہوۓ وہ دو قدم آگے گیا

”آر وی جیسے بادشاہ کی جان طوطے میں قید ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح اس کی جان اس کی منکوحہ میں ہے۔۔۔۔۔۔“

وہ بتاتے ہوۓ آر وی کے سامنے آکے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔

”ساری معلومات نکلواٸی ہیں کیا تم نے۔۔۔۔۔۔“؟؟

اس نے تصویر کو ٹیبل پہ رکھتے ہوۓ سنجیدگی سے پوچھا۔۔۔۔۔

”نکلواٸی ہیں معلومات آج کل کراچی میں کام کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔“اور آپ کے وفادار کو ٹارگٹ کرنے والا بھی یہی شخص تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میری معلومات کے مطابق ابھی بھی ہمارے کچھ بندے ان کے قبضے میں ہیں اس نے آخری کارڈ کھیلا تھا

وہ کمال خوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔۔آگ بھڑکانے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔

توقع کے عین مطابق اس نے پلٹ کر جیسے ۔۔۔۔۔۔۔تصدیق چاہی۔۔۔۔۔۔

”آنکھوں میں خون اتر آیا۔۔۔۔۔۔

”دو دن کا وقت ہے ملک۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکی کو یہاں لے کے آٶ۔۔۔۔۔۔۔لیکن تم اسے کوٸی نقصان نہیں پہنچاٶ گے ہم عورت کو نقصان نہیں پہنچاتے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم صرف اس لڑکی کی مدد سے۔۔۔۔۔۔اس میجر کو یہاں لاٸیں گے۔۔۔۔۔۔۔اور اپنے مطالبات منواٸیں گے۔۔۔۔۔۔“

اس نے حکم دیا تو ملک نے طابعداری سے سر ہلایا

لیکن ساتھ ہی اس کے چہرے پہ شاطرانہ مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔۔۔۔

آر وی دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گیا تھا۔۔۔۔۔۔

اس بات سے بے خبر کے بدلے کی آگ بھڑک رہی تھی لیکن کسی اور کے سینے میں۔۔۔۔۔

❤️❤️❤️❤️

جھلملاتی روشنیوں سے مزین سے کوٹھا۔۔۔۔۔۔جس کی اونچی چھت پہ زیورات اور میک اپ سے لدی پھدی عورتیں۔۔۔۔۔۔۔عجیب سے اجنبی چہرے روندی ہوٸی خواہشیں۔۔۔۔۔۔خالی آنکھیں۔۔۔۔۔۔ذندہ لاشیں۔۔۔۔۔۔جنہیں میک اپ سے تراشا گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔

نیم برہنہ وجود ۔۔۔۔۔۔۔یہاں آنے والے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔

اسے اس ماحول سے عجیب سی کوفت ہورہی تھی۔۔۔۔۔

اب تو رو رو کے اس کا گلہ بھی بیٹھ گیا تھا آنکھیں سوج گٸ تھی۔۔۔۔۔۔

اس کے چہرے پہ تھپڑوں کے نشان واضح تھے۔۔۔۔۔۔

”اے لڑکی بس ختم کر دے اپنا ڈرامہ۔۔۔۔۔۔۔“میں تجھے بیٹھا کے کھلا نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔“

بھاری بھرکم وجود والی ایک عورت ۔۔۔۔۔۔مارے طیش کے اس کی طرف بڑھی تھی اور اس کا منہ اتنی سختی سے اپنے ہاتھوں میں بھینچا تھا کہ اس کو اپنے جبڑوں میں شدید قسم کا درد محسوس ہوا۔۔۔۔۔۔

وہ عورت جس نے سرخ ریشمی ساڑھی پہن رکھی تھی ۔۔۔۔۔۔جو اس کا بھدہ وجود چھپانے کے لیے ناکافی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس میں اس کے نشیب و فراز صاف ظاہر تھے۔۔۔۔۔۔بالوں کا اونچا جوڑہ بنا کے گجرہ پہن رکھا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور چہرے پہ میک اپ کر رکھا تھا جو اس کے چہرے پہ آٸی عمر کی لکیریں چھپانے کے لیے نا کافی تھا۔۔۔۔۔۔چہرے پہ مکاری کا بسیرہ تھا۔۔۔۔۔۔

”مجھے گھر جانے دو۔۔۔۔۔خدا کے لیے۔۔۔۔۔“

ذمین پہ بیڈ کے پاس بیٹھی اس لڑکی نے اپنے آپ میں سمٹتے ہوۓ ہاتھ جوڑ کے باقاعدہ منت کی تھی۔۔۔۔۔۔

”کیوں۔۔۔۔۔۔گھر کیوں جانے دیں۔۔۔۔۔“پیسے تیرا باپ پورے کرے گا۔۔۔۔۔جس نے تجھے بیچ دیا ہے۔۔۔۔۔۔“

اس عورت نے اس کی عمر کا لحاظ نہ کرتے ہوۓ اپنے بھاری ہاتھ سے ۔۔۔۔۔۔جارحانہ انداز میں ایک تھپڑ اس کے چہرے پہ رسید کیا۔۔۔۔۔

وہ بلک اٹھی۔۔۔۔۔۔

”سن ذیادہ ڈرامہ کیا نہ تو مجھ سے برا کوٸی نہیں ہو گا۔۔۔۔۔۔تیار ہو جا آج رات کے رقص میں۔۔۔۔۔تو رقاصہ کے ساتھ جاۓ گی۔۔۔۔۔“

گھٹنوں کے بل بیٹھ کے منہ سے پان تھوکتے ہوۓ۔۔۔۔۔۔اس نے مکروہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔۔۔۔۔۔

وہ سہمی ہوٸی نظروں سے اسے دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔۔۔

”اے لڑکی۔۔۔۔“

ہاتھ سے تالی بجا کے۔۔۔۔۔۔اپنی مخصوص وفادار کو بلایا۔۔۔۔۔

”اس چاند سے چہرے کو۔۔۔۔۔۔۔چمکا دے کہ آج کی رات۔۔۔۔۔۔۔یہ اسٹیچ پہ آگ لگا دے۔۔۔۔

انگلی اس کے چہرے پہ پھیرتے۔۔۔۔۔۔۔کاروباری لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔

جواب میں وہ۔۔۔۔۔گھٹنوں میں سر دے کے بیٹھ گٸ۔۔۔۔۔۔

لڑکی نے مودبانہ انداز میں سر ہلا دیا۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے کے وہ مذید کچھ کہتی

دروازے پہ دستک ہوٸی۔۔۔۔۔

”ستارہ باٸی آصف شاہ صاحب آۓ ہیں۔۔۔۔۔۔۔“

دروازے پہ کھڑی لڑکی نے اطلاع دی۔۔۔۔

وہ عجلت میں اٹھ کھڑی ہوٸی۔۔۔۔۔

”ہاۓ میں کیسے بھول گٸ آج شاہ صاحب نے آنا تھا۔۔۔۔۔“تو نے بیٹھایا انہیں چاۓ پانی کا پوچھا۔۔۔۔۔۔“؟؟

ماتھے پہ ہاتھ مارتے اس نے تیزی سے کہا۔۔۔۔۔

پھر آنکھ کے اشارے سے۔۔۔۔۔۔۔اس لڑکی کو حکم دیتی وہ باہر نکل گٸ۔۔۔۔۔۔

ذمین پہ گھٹنوں میں سر دے کے بیٹھی لڑکی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔

❤❤❤❤❤

یہ شام بھی دوسری شاموں کی طرح۔۔۔۔۔۔رنگین سی تھی کوٹھے پہ مختلف چہروں کی بھرمار تھی۔۔۔۔۔۔کچھ چہرے اجنبی کچھ شناسا تھا۔۔۔۔۔۔۔رنگوں بھری اس شام میں آگ لگانے کے لیے رقاصہ نے اسٹیچ سنبھال لیا تھا۔۔۔۔۔برہنہ وجود یہاں سے وہاں پھرتی سے گھوم رہے تھے اور گاہکوں کے لیے سگریٹ اور شراب کا انتظام کیا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

نیچے سفید چادر بچھاٸی گٸ تھی جس پہ مختلف عمروں کے لوگ بیٹھے بھوکی نظروں سے اسٹیچ پہ کھڑی رقاصہ کو دیکھ رہے تھے جو اپنے حسن سے بجلیاں گرانے کو تیار کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔

اس کے ساتھ مدد کے لیے دوسری ایک دو لڑکیاں بھی کھڑی تھی۔۔۔۔۔

جب ایک طرف سے ایک سولہا سترہ سال کی لڑکی کو لایا گیا۔۔۔۔۔

تمام نظریں اس طرف اٹھی تھی پھر جیسے اسی طرف جم گٸ تھی۔۔۔۔۔۔۔

سواۓ ایک نظر کے۔۔۔۔۔۔

جو نظریں ذمین پہ جماۓ دنیا جہاں سے بے گانہ بیٹھا تھا

وہ لڑکی اپنے اوپر جمی اتنی ساری گندی نظروں کو دیکھ کے کنفیوز ہو گٸ تھی

اس نے اس وقت ایک لال رنگ کی چمچماتی ساڑھی پہن رکھی تھی۔۔۔۔۔جو اس قدر فٹ تھی کہ ایک نظر میں ہی اس کے وجود کے تمام حصے واضح نظر آنے لگتے تھے۔۔۔۔۔۔اس کی دودھیا کلاٸیاں بھی واضح تھی۔۔۔۔۔اس کے چہرے پہ طریقے سے میک اپ کیا گیا تھا تو اس کا چہرہ اور نکھر گیا تھا دودھیا رنگت اور چمک رہی تھی۔۔۔۔۔میک اپ نے اس کے تیکھے نقوش کو اور حسین بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔اور اس کے لمبے سیاہ بال جو کمر پہ جھول رہے تھے وہ حسن کا ایک مجسمہ تھا جس کو تمام لوگ للچاٸی ہوٸی نظروں سے دیکھ رہے تھے وہ حسین تھی بہت حسین لیکن اس وقت اس کا حسن بے مول ہو رہا تھا۔۔۔۔۔

یہ نصیب کے ہی کھیل تھے کہ وہ لڑکی جو کبھی اپنے سر سے دوپٹہ نہیں اترنے دیتے تھی آج یوں سب کے سامنے نیم برہنہ وجود لیے کھڑی تھی

اس کا دل چاہا وہ چیخ چیخ کے روۓ۔۔۔۔۔۔

لیکن ستارہ باٸی کی تنبیہی نگاہیں اسے بہت کچھ باور کروا گٸ تھی

وہ سست چال چلتی۔۔۔۔۔آگے بڑھنے لگی۔۔۔۔۔

اسٹیچ پہ رقص شروع ہو گیا تھا

دور بیٹھی اس شخص کی نظر اوپر اٹھی تھی۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں کے سامنے سے دھند ہٹی تو اس نے ٹھہر کے اس لڑکی کو دیکھا تھا۔۔۔۔۔

وہ کتنی ہی دیر اسے ہی دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔جو بامشکل ہاتھ پیر ہلا رہی تھی

اس کا چہرہ افسردہ تھا صاف دیکھاٸی دے رہا تھا یہ کام اس سے زبردستی کروایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔

وہ حسن تھا۔۔۔۔۔۔اور دور بیٹھا یہ شخص حسن کا شیداٸی۔۔۔۔۔

یہاں حسن بکتا تھا اور وہ اسی حسن کو۔۔۔۔۔۔خریدنے آتا تھا۔۔۔۔۔۔

وہاں بیٹھے لوگ جسم پہ نوٹ نچھاور کر رہے تھے

اور وہ لڑکی گھبراہٹ کے مارے پیچھے ہٹ رہی تھی

وہ جتنی دیر اسٹیچ پہ تھی اس کی نظروں کے حصار میں تھی۔۔۔۔۔

کچھ سوچ کے وہ اٹھا۔۔۔۔۔دور بیٹھی ستارہ باٸی کو ہاتھ سے اشارہ کر کے ایک طرف بلایا

ستارہ باٸی وہاں بیٹھے لوگوں سے معذرت کرتی اس طرف آٸی جہاں وہ کھڑا تھا

نظریں ابھی تک اسٹیچ پہ جما رکھی تھی۔۔۔۔

”کیا ہوا شاہ صاحب“؟؟

کوٸی کمی رہ گٸ ہے کیا۔۔۔۔۔“؟؟

ستارہ باٸی نے قدرے اونچی آواز میں فکرمندی سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔۔

”نہیں۔۔۔۔۔۔“

اس نے اسٹیچ سے نظریں ہٹا کے ستارہ باٸی کی طرف دیکھا تھا۔۔۔۔۔

”وہ لڑکی جو لال ساڑھی میں ہے“؟کون ہے۔۔۔۔۔“؟؟

اس نے اس لڑکی کا جاٸزہ لیتے ہوۓ متجسس لہجے میں پوچھا تھا۔۔۔۔۔

ستارہ باٸی نے اسٹیچ کی طرف دیکھا

پھر مکاری سے مسکراٸی۔۔۔۔۔۔

منہ میں ڈالا پان تھوکا۔۔۔۔۔

”وہ نیا مال ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن کمبخت لڑکی۔۔۔۔۔۔اپنے حسن سے انجان ہے۔۔۔۔۔۔“

حباثت سے ہنستے ہوۓ کہا گیا تھا۔۔۔۔

”میں ایک رات کی قیمت ادا کرنے کی لیے تیار ہوں۔۔۔۔۔“

اس کی آنکھوں میں شیطانیت ابھری تھی۔۔۔۔۔

”صاحب جی یہ نٸ ہے۔۔۔۔۔“

”رقم منہ بولی دوں گا۔۔۔۔۔“

اس سے پہلے کے ستارہ باٸی ٹالتی۔۔۔۔۔۔۔اس نے ستارہ باٸی کا منہ بند کروا دیا۔۔۔۔۔۔

وہ کچھ سوچنے لگی۔۔۔۔۔۔

”ٹھیک ہے صاحب جی۔۔۔۔۔۔۔“

وہ مسکراتے ہوۓ مان گٸ تھی۔۔۔۔۔۔

تھوڑی دیر بعد محفل ختم ہوٸی تھی نھار نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن ابھی ایک اور قیامت اس کی منتظر تھی

ابھی وہ کمرے میں بیٹھی اپنی پچھلی بربادی پر ہی نوحہ کناں تھی کہ ستارہ باٸی ایک دفعہ پھر اس کے سر پر پہنچ چکی تھی

اس نے ڈرتے ڈرتے ستارہ باٸی کے مکروہ چہرے کی طرف دیکھا

”تیار ہو جاٶ لڑکی۔۔۔۔۔۔تیری ایک رات کی رقم دی ہے صاحب جی نے۔۔۔۔۔۔“

بالوں کو ایک ادا سے پیچھے جھٹکے اس نے اطلاع دی تھی

اور یہ اطلاع اس کے لیے سوہان روح تھی۔۔۔۔۔۔

وہ سیدھا ستارہ باٸی کے قدموں میں گری تھی۔۔۔۔۔

”خدا کے لیے یہ ظلم نہ کریں مجھ پہ رحم کریں۔۔۔۔۔“

اس نے بلکتے ہوۓ ہاتھ جوڑ دیۓ تھے۔۔۔۔۔۔

”یہ کوٸی ظلم نہیں ہے۔۔۔۔۔۔یہ تیرے حسن کا حق ہے نادان لڑکی ۔۔۔۔۔۔تو ایک دفعہ مان جا یہ دنیا تیرے قدموں میں ہو گی۔۔۔۔۔“

ستارہ باٸی نے لہجے میں مٹھاس بھر کے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔۔۔۔

”نہیں خدا کے لیے۔۔۔۔۔۔“مجھے جانے دیں۔۔۔۔۔“

اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوۓ ستارہ باٸی کے پیر پکڑ لیے

ستارہ باٸی ہنکار بھر کے اس سے پیر چھڑاتی۔۔۔۔۔دھڑام سے اس کے منہ پر دروازہ بند کر گٸ۔۔۔۔۔

وہ پلنگ پہ سمٹ کے بیٹھی اپنی حالت زار پہ ماتم کرتی رہ گٸ۔۔۔۔۔۔

جب دھیرے سے دروازہ کھلا اس نے سہمی ہوٸی نظروں سے اوپر دیکھا

سامنے ایک پچیس چھبیس سال کا خوبرو شخص کھڑا تھا جس نے کالے رنگ کی کاٹن کی شلوار قمیض پہن رکھی تھی۔۔۔۔۔بالوں کو جیل کی مدد سے سیٹ کر رکھا تھا سامنے کے دو بٹن کھلے تھے گلے میں سونے کا لاکٹ۔۔۔۔۔۔اور چہرے کے ساتھ چپکی داڑھی غرور جیسے اس کی ذات کا خاصہ تھا۔۔۔۔۔

مجھے ہاتھ مت لگاٸیے گا۔۔۔۔۔۔۔

اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہی بیڈ پہ سمٹ پہ بیٹھی سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی بدک کے پیچھے ہٹی۔۔۔۔۔۔

اس نے ماتھے پہ بل ڈال کے اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔

”نٸ آٸی ہو کیا کوٹھے پہ۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے وہی کھڑے ذرا نرمی سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔

”میں نہیں جانتے میں ادھر تک کس طرح پہنچی لیکن خدا کے لیے۔۔۔۔۔۔آپ مجھ سے دور رہیں۔۔۔۔۔۔“

اس سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیۓ۔۔۔۔۔۔

”بلکے آپ مجھے یہاں سے لے جاٸیں۔۔۔۔۔۔۔“

وہ کچھ سوچ کے اس کے کندھے کے ساتھ لپٹ گٸ۔۔۔۔۔۔

اس نے اسے پیچھے ہٹانا چاہا لیکن وہ اس کے کندھے کے ساتھ لگ کے کھڑی ہو گٸ تھی۔۔۔۔۔۔۔

”ہٹو پیچھے لڑکی ذیادہ دماغ خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔“

اس نے ذرا سختی سے اسے خود سے دور کیا

وہ ڈبڈباٸی آنکھوں سے اسے دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔۔

”آپ مجھے یہاں سے لے جاٸیں میں اس جگہ نہیں رہنا چاہتی مجھے یہاں سے لے جاٸیں ۔۔۔۔۔۔۔میں یہاں سے نکلنے کے بعد آپ کی ہر بات مانوں گی۔۔۔۔۔۔

اس نے التجا کی تو اس نے ٹھہر کے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔۔

اور تیزی سے باہر نکل گیا

وہ مایوسی سے اسے دیکھ کے رہ گٸ۔۔۔۔۔۔

وہ کمرے سے نکلنے کے بعد سیدھا ستارہ باٸی کے کمرے میں گیا تھا۔۔۔۔۔۔

”صاحب جی اتنی جلدی کیسے آگۓ آپ۔۔۔۔۔۔“؟؟

اس نے پان تھوکتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔

وہ اوپر جو لڑکی ہے میں اسے خریدنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔“

اس نے ماتھے کو دونوں انگلیوں سے مسلتے۔۔۔۔۔۔سرسری کہا تو وہ منہ میں انگلی دبا کے اسے دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔

”اتنی جلدی کیا جادو کر دیا اس نے صاحب جی۔۔۔۔۔۔“

ستارہ باٸی نےکچھ راذداری سے پوچھا۔۔۔

”بکواس نہیں کام کی بات۔۔۔۔۔۔کتنے میں دو گی۔۔۔۔۔۔“

اس نے ذرا سرد لہجے میں کہا۔۔۔۔۔

تو وہ کھسیانی ہو گٸ۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ابھی تک اندر بیٹھی رو رہی تھی۔۔۔۔۔۔ملازمہ کی دستک پہ اس نے سر اٹھایا

”اٹھو لڑکی تیار ہو جاٶ تجھے کسی صاحب نے خرید لیا ہے۔۔۔۔۔۔۔“

اس نے پھٹی پھٹی نظروں سے سامنے کھڑی لڑکی کو دیکھا

اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہیں آیا۔۔۔۔۔

Continue...

Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Azmat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share