22/04/2025
شوق زوال۔۔۔۔۔
از ایمان خان
قسط نمبر 2......
چلچلاتی دھوپ میں وہ چھوٹا سا گھر جھلس رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔سورج صاف آسمان پہ پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ایسے میں اس چھوٹے سے گھر کے ڈراٸینگ روم میں دو سہمی ہوٸی آنکھیں ہاتھ میں پکڑی چھری کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔۔
سامنے بیٹھی عورت جس نے ہاتھ میں چھری پکڑ رکھی تھی اس کی نظروں میں عجیب سی وحشت تھی اپنے خدوخال سے وہ نارمل لگتی تھی اور خوبصورت بھی۔۔۔۔۔لیکن اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔۔۔۔۔
نیچے ذمین پہ بیٹھے بچے نے نظریں چھری پہ گاڑھ رکھی تھی۔۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں خوف کے آثار واضح تھے۔۔۔۔
”جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔تکلیف کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔“؟؟
وہ اس کی ننھی سی بازو کو اپنے ہاتھ میں لیتے اس بچے سے مخاطب ہوٸی۔۔۔۔۔
چہرے پہ بلا کی سختی تھی بچے نے آنکھیں سختی سے مینچ لی۔۔۔۔۔۔
”جب کوٸی آپ کا بہت اپنا آپ سے نظریں چرا لے۔۔۔۔۔۔“
اس کے لہجے میں تھکان اتر آٸی۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ اس کے بازو پہ ایک کٹ لگایا۔۔۔۔۔بچے نے دبی دبی سی چیخ ماری اس نے سر اٹھا کے کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھا بچے نے سر واپس گرا لیا لیکن تکلیف کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہوا تھا
”تم جانتے ہو“؟؟یہ تکلیفیں یہ گھاٶ انسان کو مضبوط بناتے ہیں بہادر بناتے ہیں۔۔۔۔اس نے بچے کو بہلانا چاہا بچے نے سر نہیں اٹھایا
”تم بہادر نہیں بنو گے تو اپنے باپ سے بدلا کیسے لوگے ّ”دیکھو اس نے کیا کیا تمہاری ممی کے ساتھ ان کی ساری جوانی کھا گیا “اس کے لہجے میں افسردگی عود آٸی آنکھیں پانیوں سے بھر گٸ بچے نے دھیرے سے سر اٹھایا اس نے اپنی ماں کی آنکھوں میں آۓ پانی کے اس پار چھپی وحشت کو دیکھا۔۔۔سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ اس کا باپ اس کی ماں کی جوانی ہی تو کھا گیا تھا اور ممی کیا کچھ کرتی تھی اس کے لیے اور اگر بدلے میں اسے تھوڑی بہت تکلیف پہنچا دیتی تھی تو وہ کیا اتنا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔اس نے خود کو تسلی دی
”تو کیا لو گے تم اپنے باپ سے بدلا“؟؟
بچے کی آنکھوں سے بھڑکتی بدلے کی آگ کو اس نے اور ہوا دی تھی اس کے لہجے میں تجسس تھا۔۔۔۔
”ہاں ممی میں لونگا بدلا“اس نے پورے اعتماد سے جواب دیا تھا جواب میں اس کی ماں کے چہرے پہ ایک اطمینان بھری مسکراہٹ پھیل گٸ تھی۔۔۔۔۔۔اور اس چھوٹے بچے کی رگ و پے میں بےحسی اتر گٸ تھی۔۔۔۔۔۔
@@@@@
”اس نے چلتے چلتے یونہی راستے سے ایک پھول توڑا۔اور شرارت سے اسے ہاتھ میں پکڑ کے چلنے لگی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اس اندر تک مسرور کر رہی تھی سیاہ سلک کی پاٶں کو چھوتی شرٹ نیچے چوڑی دار پاجامہ پہنے وہ ساری دنیا سے بے خبر بس چلتی ہی جارہی تھی سیاہ ریشمی بال کمر پہ جھول رہے تھے اور دوپٹہ ذمین کو چھو رہا تھا اور اس کے کانوں میں انزق کے الفاظ گونج رہے تھے اس نے سکول میں تین دفعہ انزق کی کال کاٹ دی تھی کیونکہ وہ بچوں کو پڑھانے میں مصروف تھی اب وہ خود کو کوس بھی رہی تھی کہ اسے انزق سے بات کر لینی چاہیۓ تھی اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھاٸی بھی اس کا ہاتھ پکڑے چل رہا تھا وہ اسی سکول میں پڑھتا تھا جہاں ایلاف پڑھاتی تھی وہ اس کے ساتھ چھوٹی چھوٹی باتیں کرتی آگے بڑھ رہی تھی
اسی لمحے ایک کالی کرولا کار تیزی سے اس کے سامنے رکی اور اس کا راستہ روک لیا اس نے کچھ ناسمجھی کے ساتھ اس گاڑی سے اترتے اس آدمی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں پستول تھا گھبراہٹ کے مارے اس نے اپنے بھاٸی کو اپنی کمر کے پیچھے چھپا لیا
وہ انہیں کی طرف بڑھ رہا تھا اس سے پہلے کے وہ کچھ سمجھتی اس نے اس کی کلاٸی کو پکڑا اور تقریباً کھینچتے ہوۓ اسے گاڑی کی طرف لے جانے لگا اس کا چھوٹی بھاٸی مسلسل اسے پکار رہا تھا اس آدمی نے اسے چپ کروانے کی کوشش کی لیکن وہ مسلسل اپنی بہن کا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کررہا تھا
اس آدمی نے غصے سے پلٹ کر دیکھا پھر ایک فاٸر اس کے دل پہ کیا خون کا ایک فورا ابل پڑا ایلاف نے ایک دلخراش چیخ ماری اس کا بھاٸی لڑکھڑا کے اس کے قدموں میں گرا تھا اس نے ہاتھ پاٶں مار کے خود کو چھڑوانے کی کوشش کی لیکن وہ مکمل طور پہ اس شخص کی گرفت میں تھی اس نے اسے گاڑی میں پٹھ دیا تھا
گاڑی میں پہلے سے دو تین لوگ موجود تھے انہوں نے اسے بازو سے پکڑ کے قابو کیا تھا اسی لمحے اس دوسرے شخص نے اس کے منہ پہ رومال رکھ دیا تھا وہ بے ہوش ہو گٸ تھی۔۔۔۔۔
اور ڈراٸیور گاڑی ذن سے بھگا لے گیا تھا اس کے بھاٸی کا نیم مردہ وجود وہی پڑا تھا۔۔۔۔۔
@@@@@
گاڑی نا معلوم سے راستوں سے گزر رہی تھی وہ نہیں جانتی تھی وہ کدھر جارہی تھی لیکن وہ اتنا ضرور جانتی تھی کہ وہ اس شخص کے ساتھ اب محفوظ ہے اس نے چور نظروں سے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے اس شخص کو دیکھا جو اسے خرید کر لایا تھا۔۔۔۔وہ سن گلاسز ٹکاۓ مغرور سا شیشے سے باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔
”نھار کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اسے کس طرح مخاطب کرے۔۔۔۔۔
”آپ نے کتنے پیسوں میں خریدہ ہے مجھے“؟؟
اس نے اسے مخاطب کیے بنا اس سے پوچھا تھا
اس نے چونک کے پلٹ کے اسے دیکھا تھا
”کیوں تم نے پیسے لوٹانے ہے مجھے“؟؟
لہجہ تمسخرانہ تھا
لیکن نھار کو برا نہیں لگا تھا اس نے کم از کم اس کی امید کے برعکس جواب تو دیا تھا۔
”اگر موقع ملا تو ضرور لوٹا دوں گی“
اس نے خوش ہوتے ہوۓ سمجھداری کا مظاہرہ کیا۔۔۔
”ہاں وہ تو ضرور لوٹاٶ گی تم کیونکہ آروی کسی پہ مفت کا احسان نہیں کرتا۔
وہ ذومعنی انداز میں کہتے ہوۓ پھر شیشے سے باہر دیکھنے لگا
اور وہ اس کے الفاظوں میں الجھ کے رہ گٸ۔۔۔۔۔۔
❤❤❤❤❤
وہ ابھی اپنا کام ختم کر کے میس میں گیا تھا وہ ایلاف کو کال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس سے پہلے وہ تھوڑا آرام کرنا چاہتا تھا اس نے نظر اٹھا کہ گھڑی کو دیکھا جو شام کے سات بجا رہی تھی ”ایلاف گھر آچکی ہو گی اس نے خود ہی اندازہ لگایا پھر بیڈ پہ بیٹھا جھک کے بوٹ کے تسمے کھولنے لگا جیب میں پڑا موباٸل تھرتھرایا تو اس نے ذرا اوپر ہو کے جیب سے موباٸل نکال کے دیکھا اسکرین پہ اپنے خالو کا نمبر دیکھ کے اس نے کچھ حیرت سے کال پک کی تھی وہ اسے بہت کم کال کرتے تھے۔۔۔۔۔
”ہیلو۔۔۔۔۔۔“
اس نے مدہم لہجے میں کہتے ہوۓ اپنی حیرت چھپانے کی کوشش کی تھی
دوسری طرف سے جو آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراۓ وہ اس کی روح کی دھجیاں اڑا گۓ جسم کا سارا خون اس کے چہرے پہ جم گیا۔۔۔۔اس نے بامشکل خود کو سنبھالا ۔۔۔۔۔
”کدھر لے کے گۓ ہیں وہ ایلاف کو خالو اور ریحان ٹھیک ہے کیا۔۔۔۔۔”؟؟
وہ حواس باختہ سا اٹھ کھڑا ہوا اسے اپنی آواز کسی کھاٸی سے آتی ہوٸی محسوس ہوٸی۔۔۔۔۔
دوسری طرف سے ریحان کی موت کی خبر اسے سناٸی گٸ تھی اسے شدید دھچکا لگا تھا لیکن وہ کچھ کہنے کے قابل کہاں رہا تھا۔۔۔۔۔۔
اس نے خالو کو تسلی دے کے کال کاٹ دی وہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ یہ سب کیا ہوا ہے۔۔۔۔ایک طرف خالو جان کو اس کی ضرورت تھی اور دوسری طرف ایلاف مشکل میں تھی ریحان کی موت الگ صدمہ تھی وہ سر ہاتھوں میں دیۓ وہی بیڈ پہ بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد وہ کچھ سوچنے کے قابل ہوا موباٸل ایک دفعہ پھر بج اٹھا تھا
اس نے تیزی سے موباٸل ہاتھ میں لیا وٹس ایپ پہ کسی نمبر سے ویڈیو کال آرہی تھی۔۔۔۔۔
اس نے کچھ سوچ کے کال پک کی دوسری طرف کا منظر صاف تھا اندھیری جگہ پہ ایک شخص منہ پہ ماسک چڑھاۓ کھڑا تھا
اس کے پیچھے کرسی پہ سر گراۓ ایلاف پڑی تھی جسے رسیوں میں جکڑ رکھا تھا وہ بے چینی سے اٹھ کھڑا ہوا وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ سب کس کی وجہ سے ہو رہا تھا۔۔۔۔۔
”کون ہو تم ایلاف سی کیا دشمنی ہے تمہاری مجھ سے بات کرو۔۔۔۔۔۔“
وہ دھاڑا تھا
دوسری طرف سے قہقہہ بلند ہوا تھا۔۔۔۔۔
”دشمنی تو تم سے ہی ہے اتنی خوبصورت لڑکی سے بھلا کس کی دشمنی ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔“
ایلاف کے چہرے پہ بکھری زلفوں کو ہٹاتے وہ ذومعنی لہجے میں کہتے ہوۓ اس کے اندر تک آگ لگا گیا
اسے لگا کسی نے کھولتا ہوا پانی اس پہ گرا دیا ہے۔۔۔۔۔
”ہاتھ مت لگاٶ اسے۔۔۔۔“
وہ چیخا۔۔۔۔۔
”آواز نیچی رکھو کیپٹین انزق۔۔۔۔۔“
وہ بھی پیچھے پلٹ کے سختی سے بولا تھا
انزق نے بہت مشکل سے خود پر قابو کیا تھا
”اچھا ٹھیک ہے تم ایلاف کو چھوڑ دو تمہاری جو بھی شراٸط ہے مجھے بتاٶ میں وہ پوری کروں گا لیکن تم
ایلاف کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں کرو گے۔۔۔۔“
اس نے اسے نرمی سے سمجھانا چاہا تھا بات کے اختتام پہ اس کا لہجہ التجاٸیہ ہو گیا تھا
”ہاں شراٸط تو پوری کرنی پڑے گی چڑیا جو ہماری قید میں ہے۔۔۔۔“
اس شخص نے قہقہہ لگاتے ہوۓ جتایا۔۔۔
اور انزق کا خون کھول کے رہ گیا۔۔۔۔۔۔
”ہاں تو پہلی شرط یہ ہے کہ تم لوگوں کی قید میں ہمارے جتنے بھی قیدی ہیں سب رہا کرنے ہونگے۔۔۔۔۔۔“
وہ اب اس ویران جگہ پہ چکر کاٹتے ہوۓ اسے بتارہا تھا۔۔۔۔۔
”اور دوسری اور اہم شرط آج رات لڑکیاں اسمگل کی جاٸینگی اس میں تم ہماری مدد کرو گے بولو قبول ہے۔۔“
رک کے اسے دیکھا تھا
”ہاں قبول ہے ایلاف کو ہاتھ مت لگانا۔۔۔۔“
اس نے ایک دفعہ پھر منت کی تھی۔۔۔۔
”ٹھیک ہے کام ہو جاۓ تو میں خود رابطہ کرونگا۔۔۔۔۔۔۔“
کال کٹ چکی تھی۔۔۔۔۔
اور وہ اضطرابی کیفیت میں وہی کھڑا تھا۔۔۔۔۔
کچھ سوچ کے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔
❤❤❤❤
ماحول میں عجیب سا تناٶ عجیب سی خاموشی تھی۔۔۔۔۔وہ ٹیبل پہ بازو ٹکاۓ سر جھکاۓ بیٹھا بہت بے بس نظر آرہا تھا۔۔۔۔۔میز کی دوسری طرف بیٹھے جرنل کا چہرہ سپاٹ تھا۔۔۔۔
”انزق ہم ان کی شراٸط نہیں مان سکتے۔۔۔۔۔“
انہوں نے ٹھہرے ہوۓ لہجے میں کہا تھا۔۔۔۔۔۔
”انزق نے دھیرے سے سر اٹھایا تھا۔۔۔۔
اس کی آنکھوں میں پہلے خفکی پھر غصہ ابھرا تھا۔۔۔۔
”اگر آپ میری مدد نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔تو میں خود کر لوں گا سب۔۔۔۔“
وہ غصیلی نظروں سے گھورتے ہوۓ اٹھ کھڑا ہوا وہ اس وقت نارمل نہیں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔
”جذباتی مت بنو۔۔۔“
انہوں نے ٹوکا تو وہ زخمی سا مسکرایا۔۔۔۔۔
”سر وہ بیوی ہے میری۔۔۔۔۔“
وہ ٹیبل پہ ذور سے ہاتھ مار کے بولا۔
آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے ایک ایک لفظ پہ ذور دیتے ہوۓ جتایا۔۔۔۔۔
آنکھیں غصے اور ضبط کی شدت سے لال ہو رہی تھی۔۔۔۔۔
کنپٹی اور بازوٶں کی رگیں ابھری ہوٸی تھی۔۔۔
سامنے بیٹھے آفیسر نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اسے دیکھا۔۔۔۔۔۔
”اور یہ مت بھولو انزق۔۔۔۔۔۔کہ اس کے شوہر ہونے سے پہلے تم ایک آرمی آفیسر ہو۔۔۔۔۔“
سرد لہجے میں کہتے ہوۓ انہوں نے جتاتی ہوٸی نظروں سے اسے دیکھا۔۔۔۔۔
”سر وہ اس کے ساتھ غلط کریں گے اس کی کوٸی غلطی نہیں ہے وہ بہت معصوم ہے سر ۔۔۔۔۔۔اسے بچا لیں۔۔۔۔۔۔“
اس نے بے بسی سے کہتے ہوۓ سر جھکا لیا
آواز مدہم ہو گٸ تھی۔۔۔۔۔۔
”ہم ہر ممکن کوشش کریں گے اور کر رہیں ہے کہ رات سے پہلے پہلے اسے بازیاب کروا لیں۔۔۔۔۔“
انہوں نے اٹھ کے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے اسے تسلی دی۔۔۔۔۔۔۔
”اور سر اگر بازیاب نہ کروا سکے تو۔۔۔۔۔۔“
اس نے نظر اٹھا کے دیکھا
اس کی نظر میں تڑپ کے ساتھ ایک سوال بھی تھا۔۔۔۔
❤❤❤❤❤
گاڑی ایک جھٹکے سے رکی ۔۔۔آروی کے ماتھے پہ لکیریں نمودار ہوٸی۔۔۔۔۔۔
ڈراٸیور نے گاڑی سٹارٹ کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
لیکن کوٸی فاٸدہ نہ ہوا ۔۔۔۔۔آر وی کے کہنے پر وہ ڈراٸیور گاڑی سے اترا وہ باہر نکل کے گاڑی کا جاٸزہ لینے لگا۔۔۔۔ہر طرف اندھیرہ پھیلا ہوا تھا رات کے ساۓ گہرے ہو چکے تھے نھار بوکھلا کے اٹھی اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گٸ اس کے حواس بحال ہوۓ تو سامنے کا منظر صاف ہوا آروی کسی کے ساتھ کال پہ بات کر رہا تھا۔۔۔۔۔
”سر گاڑی کی خرابی سمجھ نہیں آرہی مکینک کو دیکھانی پڑے گی۔۔۔۔
ڈراٸیور نےشیشے سے جھانک کے اطلاع دی تھی
”ٹھیک ہے میں دوسری گاڑی منگوا لیتا ہوں۔۔۔۔۔۔“
”سر موسم خراب ہونے کے آثار ہیں اور سفر بھی کافی لمبا ہے پہاڑی علاقہ ہے لینڈ سلاٸیڈنگ کا بھی خطرہ ہے آج ایک اور رات آپ یہی مری میں گزار لیں صبح اسلام آباد کے لیے نکل جاٸینگے۔۔۔۔۔“
ڈراٸیور نے مشورہ دیا۔۔۔۔۔
”ہوں ٹھیک ہے لیکن ملک میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہا تمہاری بات ہوٸی ہے کیا“؟وہاں سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔۔“؟؟
اس نے ڈراٸیور سے پوچھا تھا۔۔۔۔۔
”ہاں صبح ہوٸی تھی بات ۔۔۔۔۔وہ کہہ رہے تھے آج کچھ اہم کام سر انجام دینے ہیں وہی مصروف رہوں گا۔۔۔۔۔“
ڈراٸیور نے وہی کھڑے کھڑے اطلاع دی
نھار بس خاموشی سے سن رہی تھی۔۔۔۔
آروی کے ذہن میں کچھ کلک ہوا۔۔۔۔۔۔پھر وہ چپ چاپ گاڑی سے اتر گیا۔۔۔۔۔
ڈراٸیور ڈراٸیور کو اشارہ کیا اس نے نھار کی ساٸیڈ کا دروازہ کھولا نھار چپ چاپ اتر کے آروی سے تھوڑے فاصلے پر کھڑی ہو گٸ وہ اسے وہی رکنے کا اشارہ کرکے فون کان کے ساتھ لگا کے اس سے تھوڑے فاصلے پہ جاکے کھڑا ہو گیا
تیسری رنگ پہ کال پک ہو گٸ تھی ملک کی الرٹ سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکراٸی۔۔۔۔۔۔“
لڑکی اٹھا لاۓ ہو ملک۔۔۔۔۔“؟
اس نے محتاط لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔
”ہاں آروی ہمارے پاس ہی موجود ہے ابھی بے ہوش ہے کپٹین سے رابطہ کیا ہے ۔۔۔۔۔سارے مطالبات سامنے رکھے ہیں لیکن ابھی تک کوٸی پیش رفت سامنے نہیں آٸی۔۔۔۔۔۔“
ملک نے ماسک چہرے سے اتار کے ایک طرف رکھتے اسے تفصیل بتاٸی۔۔۔۔۔
”آپ آج رات پہنچ جاٸینگے نا آروی۔۔۔۔۔۔“؟؟
کچھ سوچ کے اس نے پوچھا تھا۔۔۔۔۔
”نہیں گاڑی خراب ہو گٸ ہے آج رات یہی گزارنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔“
اس نے پلٹ کے کار کی طرف دیکھتے مایوسی سے کہا۔۔۔۔
نھار اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔۔
”ٹھیک ہے آروی آپ ابھی مت آٸیں یہاں سب سنبھال لونگا میں۔۔۔۔۔“اس کے چہرے پہ شاطرانہ مسکراہٹ پھیل گٸ
”اور ہاں ملک ۔۔۔۔۔اسے کچھ یاد آیا۔۔۔۔۔
”اس لڑکی کے ساتھ کچھ غلط مت ہونے دینا اس کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔“
اس نے نرمی سے اسے حکم دیا۔۔۔۔۔
ملک کے چہرے پہ شیطانی مسکراہٹ ابھری۔۔۔۔
”آپ فکر ہی مت کریں سر۔۔۔۔۔۔۔“
اس نے طابعداری سے کہہ کے کال کاٹ دی۔۔۔۔۔
کال کاٹ کے وہ نھار کی طرف بڑھا۔۔۔۔۔
”ٹیکسی بک کرواٸی “ اور نھار کو ساتھ لے کے وہاں سے چلا گیا۔۔۔۔۔
اس بات سے بے خبر کے وہ کس پلینگ کا شکار ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔
”گڈ جاب احسان۔۔۔۔۔“
آروی کے یہاں سے جاتے ہی ڈراٸیور کو ملک کا میسج موصول ہوا تھا۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
Like r cmnts lazmi kijiyega ta k next episode jldi mil saky