Dr Urooj Ilyas

Dr Urooj Ilyas Islamic work Like Islamic stories, motivational stories, and hadith of the day.
(1)

میری ننھی سی بیٹی نے نیند سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر لیامی مجھے باتھ روم جانا ہےامی مجھے پانی پینا ہےامی میں بھوکی ہوںام...
26/07/2025

میری ننھی سی بیٹی نے نیند سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کر لی
امی مجھے باتھ روم جانا ہے
امی مجھے پانی پینا ہے
امی میں بھوکی ہوں
امی مجھے کہانی سنا دیں

کئی گھنٹے یوں ہی ٹال مٹول کرتے گزر گئے
اور میرا دن ویسے ہی بہت تھکا دینے والا تھا
آخر کار مجھ سے برداشت نہ ہوا
اور میں انجانے میں چیخ پڑی
سیدھا اس کے ننھے سے چہرے پر
بس کرو
کیوں کر رہی ہو ایسا
میری ہمت ختم ہو گئی ہے

وہ فوراً رو پڑی
اور بولی
امی
میں بڑی نہیں ہونا چاہتی
میں تو آپ کے دل میں سونا چاہتی ہوں

یہ اس رات کے کچھ دن بعد کی بات ہے
جب میں نے اسے اکیلے سونے کے لیے اس کے کمرے میں چھوڑنا شروع کیا تھا
میں روز اسے کہتی
تم اب بڑی ہو گئی ہو
اکیلی سونا سیکھو
پھر اس کے بازو کو چھو کر کہتی
دکھاؤ اپنی چھوٹی چھوٹی طاقتور عضلات
وہ مسکرا کر اپنا ننھا بازو اٹھاتی
اور میں اسے یاد دلاتی کہ وہ کتنی بہادر ہے

وہ مجھے ثابت کرنا چاہتی تھی
کہ وہ واقعی بڑی ہو گئی ہے
مضبوط ہو گئی ہے
لیکن درحقیقت وہ اندر سے بہت اداس تھی
بس بہانے بنا کر چاہتی تھی کہ میں اس کے قریب رہوں
اور سچ پوچھو
تو میں بھی اسے بہت یاد کر رہی تھی

میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا
اس کے آنسو صاف کیے
اور اسے اپنے گود میں لے لیا
کچھ ہی لمحوں میں وہ میری دھڑکن سن کر سو گئی
بس وہی تو چاہتی تھی
کہ ہمیشہ کی طرح
میری دھڑکن پر سو جائے

بچوں کو بعض اوقات تھوڑا وقت لگتا ہے
اس بات کو سمجھنے میں
کہ سونا اب الگ کمرے میں ہے
اگر ہم سختی کریں گے
تو یہ ان کے ننھے دلوں میں اداسی ڈال دے گی
ان کی معصوم روح پر بوجھ بن جائے گی

ایک دن آئے گا
جب وہ واقعی بڑے ہو جائیں گے
اور ہم ان کی ان چھوٹی چھوٹی جھپیوں کو
ان کی ضد
اور ہمیں پکڑ کے سونے کی خواہش کو
یاد کر کے مسکرائیں گے

یہ لمحے بہت قیمتی ہوتے ہیں
انھیں دل سے جینے کی ضرورت ہوتی ہے
نہ کہ جلدی میں دھکیلنے کی

حضرت جنید بغدادی رح کے پاس ایک عورت آئی ، اور پوچھا کے حضرت آپ سے ایک فتویٰ چاہئے کہ اگر کسی مرد کی ایک بیوی ہو تو کیا ا...
26/07/2025

حضرت جنید بغدادی رح کے پاس ایک عورت آئی ، اور پوچھا کے حضرت آپ سے ایک فتویٰ چاہئے کہ اگر کسی مرد کی ایک بیوی ہو تو کیا اس کی موجودگی میں دوسرا نکاح جائز ہے ؟حضرت جنید بغدادی رح نے فرمایا بیٹی اسلام نے مرد کو چار نکاح کی اجازت دی ہے بشرطیکہ چاروں کی بیچ انصاف
کر سکے –
اس پر اس عورت نے غرور سے کہا کہ حضرت اگر شریعت میں میرا حسن دکھانا جائز ہوتا تو میں آپ کو اپناحسن دکھاتی اور آپ مجھے دیکھ کر کہتے کہ جس کی اتنی خوبصورت بیوی ہو اسے دوسری عورت کی کیا ضرورت؟؟اس پر حضرت نے چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے – وہ عورت چلی گئی جب حضرت ہوش میں آئے تو مریدین نے وجد کی وجہ پوچھی -حضرت نے فرمایا کہ جب عورت مجھے یہ آخری الفاظ کہ رہی تھی تو الله تعالیٰ نے میرے دل میں یہ الفاظ القا کیے کہ :اے جنید ! اگر شریعت میں میرا حسن دیکھنا جائز ہوتا تو میں ساری دنیا کو اپنا جلوہ کرواتا تو لوگ بے اختیار کہہ اٹھتے کہ جس کا اتنا خوبصورت الله ہو اسے کسی اور کی کیا ضرورت ہے.

کسی جنگل میں ایک بڑھیا رہا کرتی تھی، ایک دن کہیں سے ایک باز اڑتا ہوا اس کے پاس آگیا۔۔ بڑھیا نے کسی طرح اسے قابو کر کے مق...
25/07/2025

کسی جنگل میں ایک بڑھیا رہا کرتی تھی، ایک دن کہیں سے ایک باز اڑتا ہوا اس کے پاس آگیا۔۔ بڑھیا نے کسی طرح اسے قابو کر کے مقفل کردیا۔۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ وہ باز کو سدھا کر اس کی خوبیوں سے فائدہ اٹھاتی تو شاید وہ بڑھیا کو کئی خطرات سے بچا لیتا اور کئی طرح سے اسکی حفاظت کرتا لیکن بڑھیا بے چاری کو کیا پتہ کہ باز کی خوبیاں اس کی ٹیڑھی چونچ اور ناخنوں میں ہی پنہاں ہیں۔۔ اس نے باز کو سنوارنے کے غرض سے اس کے ناخن تراشے اور اس کی چونچ سیدھی کی ۔۔۔

الغرض اسے باقی تمام عام جانوروں جیسا بنانے کی خاطر بڑھیا نے اس کی تمام خوبیوں سے ہاتھ دھو دئے۔۔

ہم میں سے کئی لوگ اس کہانی کو سن کر اور پڑھ کر بڑھیا کی عقل پر ماتم کریں گے، کچھ شاید اسکی ہنسی اڑائیں کچھ اسکی قسمت پر افسوس کریں گے کہ ہاتھ آئی قیمتی چیز گنوا دی۔۔ مگر ہم سب کہیں نہ کہیں ، زندگی میں کہیں کوئی کردار نبھاتے ہوئے اسی بڑھیا کی طرح بن جاتے ہیں جہاں ہمیں اپنے ساتھ ہونے والے شخص کی انفرادیت نظر نہیں آتی اور ہم اسے اپنے حساب ڈھالنے کی کوشش میں اسکی ہر خوبی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں،

جس طرح کئی استاد بچے کو امتحان میں صرف اس لئے کم نمبر دیتے ہیں کہ اس نے جواب کو اپنے الفاظ میں لکھ دیا اور استاد کے لکھوائے ہوئے الفاظ نہیں رٹے ایسا بچہ پھر ساری عمر اپنی صلاحیت پر یقین نہیں کرپاتا۔۔

بہت ساری ساسیں بہو سے صرف اسلئے نالاں ہوتی ہیں کہ بہو دال میں ٹماٹر کیوں ڈالتی ہے کیونکہ انہوں نے کبھی دال میں ٹماٹر نہیں ڈالے، اور بہو سے اپنے جیسی دال پکوانے کے چکر میں وہ یہ محسوس ہی نہیں کر پاتیں کہ بہو کہ ہاتھ کی بنی دال کس قدر ذائقے دار ہے۔۔

نتیجتا بہو ساس سے بد ظن ہوتی ہے، مجبورا ان کی بات مانتے ہوئے ہمیشہ کے لئے اپنے ہاتھ کے ذائقے اور سب کے لئے کھانا پکانے کے شوق سے محروم ہوجاتی ہے۔۔ پھر یہی مشق وہ اپنی بہو کے ساتھ کر کے اپنا دل ٹھنڈا کرتی ہے اور بدگمانی کا یہ سفر یونہی رواں دواں رہتا ہے۔۔

ایسی ہی کچھ مثالیں ہمارے دفاتر میں بھی ملتی ہیں جہاں اپنی انفرادیت اورcreativity دکھانے والا شخص سب کو سخت نا پسند ہوتا ہے اور باس اس سے اپنے طریقے سے کام کروانا چاہتا ہے نتیجتا وہ شخص demotivate ہو کر اپنی صلاحیت کو بے موت مار دیتا ہے۔۔

اور پھر بہت سال اسی demotivation کے ساتھ کام کر کر کے جب وہ باس کی کرسی تک پہنچتا ہے تب تک اسے بھی صلاحیات دکھانے والے ایسے تمام لوگوں کی انفرادیت سے سخت چڑ ہو چکی ہوتی ہے

ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا یہ رویہ بہت عام ہے، ہم کسی کو بھی وہ جیسا ہے ویسے قبول نہیں کرسکتے اور اسے اپنے ذہن کے مطابق کسی اور روپ میں کچھ اور خوبیوں کے ساتھ ڈھالنا چاہتے ہیں۔۔ شاید ہمارا بس چلے تو ہم لوگوں کا ناک نقشہ، ان کا رنگ، قد کاٹھ سب کچھ اپنی مرضی سے تبدیل کردیں۔۔

یہ عدم برداشت گھروں سے نکل کر دفاتر اور مجموعی طور پر نہ صرف ملک کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے بلکہ قوم کو اخلاقی اعتبار سے بھی کمزور کرچکی ہے۔۔

اللہ ہم سب کو اپنے آس پاس کے لوگوں سے عزت و احترام کا معاملہ کرنے کی، ان کی انفرادیت کو قبول کرنے کی اور انہیں اپنے جیسا بنانے کی توقعات سے دور رہنے کی توفیق دے۔

آمین یا رب العالمین

25/07/2025

رات کو بغیر دوائیوں کے سوتے ہو اور صبح بغیر تکلیف کے اٹھتے ہو تو کہو !
الـحــمـدالـلّٰـہ

ایک دن، ایک چھوٹا سا لڑکا دوڑتا ہوا گھر آیا، اُس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔"استاد نے کہا کہ یہ خط صرف آپ کو دینا ہے... اور ...
25/07/2025

ایک دن، ایک چھوٹا سا لڑکا دوڑتا ہوا گھر آیا، اُس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔
"استاد نے کہا کہ یہ خط صرف آپ کو دینا ہے... اور آپ کے سوا کوئی اور اسے نہ پڑھے"، اُس نے اپنی ماں سے کہا۔
ماں نے خاموشی سے خط پڑھا۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، مگر اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اُس نے کہا:
"استاد نے لکھا ہے کہ تم ایک نابغہ ہو (جینئس ہو)، اور اسکول میں نہ اتنی سہولیات ہیں اور نہ ہی ایسے اساتذہ جو تمہیں صحیح طرح پڑھا سکیں۔ اس لیے وہ تجویز دیتے ہیں کہ میں تمہیں گھر پر خود پڑھاؤں۔"
اور پھر ماں نے وہی کیا — محبت، صبر اور اپنے بیٹے پر یقین کے ساتھ۔
سال گزر گئے۔ ماں کا انتقال ہو گیا۔ اور وہ بچہ بڑا ہو کر تاریخ کے عظیم ترین موجدوں میں سے ایک بن گیا — تھامس ایلوَا ایڈیسن۔
ایک دن، جب وہ بڑا ہو چکا تھا، اُسے وہی پرانا خط کہیں سے مل گیا۔ تجسس میں اُس نے اُسے کھولا — اور جو پڑھا، وہ اسے ہلا کر رکھ گیا۔
اصل میں خط میں لکھا تھا:
"آپ کا بچہ ذہنی طور پر کمزور ہے۔ ہم اُسے اپنے اسکول میں مزید رکھنے کے قابل نہیں۔"
ایڈیسن بہت دیر تک روتا رہا۔ پھر اُس نے اپنی ڈائری میں لکھا:
"میں ایک ایسا بچہ تھا جسے سیکھنے میں دشواری تھی۔ مگر میری ماں نے اتنا حوصلہ رکھا کہ مجھے یہ یقین دلایا کہ میں ایک نابغہ ہوں۔ اور یوں میں واقعی ایک نابغہ بن گیا۔"
حیرت انگیز ہے، ہے نا؟
وہ چاہتی تو سچ بتا کر اُسے توڑ سکتی تھی۔ مگر اُس نے ایک اور راستہ چُنا۔
اُس نے وہ الفاظ دیے جو اُس کے بیٹے کے لیے زندگی بھر کے لیے پر بن گئے۔
یہی الفاظ کی طاقت ہے۔
اور یہی ہے کسی پر اُس وقت یقین کرنا جب پوری دنیا اُس پر شک کرتی ہے۔
یاد رکھیں:
جو باتیں آپ ایک بچے سے کہتے ہیں، وہ ہمیشہ اُس کے دل میں رہتی ہیں۔
لہٰذا اپنے الفاظ کی حفاظت کریں۔
کیونکہ یہ تباہ بھی کر سکتے ہیں — اور بچا بھی سکتے ہیں۔
توڑ بھی سکتے ہیں — اور سنوار بھی سکتے ہیں۔
اور اُس ماں کی طرح — کسی اور کے الفاظ کو اپنی پہچان نہ بننے دیں۔
اپنی کہانی خود لکھیں۔
اور سب سے بڑھ کر… کبھی ہار نہ مانیں

دروازے کی چابی کی آواز… کبھی اطمینان، کبھی دردمیں نے ایک طلاق کا واقعہ خود سنا،نہ کوئی بے وفائی تھی، نہ مار پیٹ، نہ بڑی ...
24/07/2025

دروازے کی چابی کی آواز… کبھی اطمینان، کبھی درد

میں نے ایک طلاق کا واقعہ خود سنا،

نہ کوئی بے وفائی تھی، نہ مار پیٹ، نہ بڑی لڑائی…

بس ایک سادہ سی بات، جو بیوی نے کہی،

لیکن اس کے پیچھے ایک گہرا درد چھپا تھا:

"میرے پیٹ میں درد ہونے لگتا ہے جب اُس کے آنے کا وقت ہوتا ہے۔"

یہ جملہ میرے دل میں تیر کی طرح لگا۔

اور ایک اور خاتون نے برسوں پہلے کہا تھا:

"میں چاہتی تھی کہ میرے بچے کبھی سمجھ سکیں، کہ میں روز کس قیمت پر یہ برداشت کرتی ہوں… صرف اس لیے کہ اُن کے ابو کی چابی کی آواز آئے، اور انہیں لگے وہ محفوظ ہیں۔"

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دروازے کی چابی کی آواز صرف ایک معمولی سی آواز ہے؟

تو شاید آپ نے کبھی کسی عورت کا خاموش رونا نہیں سُنا۔

ایک عورت کہتی ہے

"جیسے ہی اُس کی چابی کی آواز آتی ہے، مجھے گھٹن محسوس ہوتی ہے… لگتا ہے میری آزادی، میری عزت ختم ہوگئی۔ اُس کے بغیر میں خود کو انسان سمجھتی ہوں، اور جیسے ہی وہ آتا ہے… دل چاہتا ہے میں مرجاؤں۔ اُس کے قدموں کی چاپ مجھے جلاد یاد دلاتی ہے۔"

اور بعض مرد…

اُن کا گھر میں ہونا، سکون نہیں… ایک عذاب بن جاتا ہے۔

جیسے جاسوس ہو، ہر کسی پر نظر رکھتا ہے، بات بات پہ جھگڑتا ہے۔

بچے شاید اُس سے محبت کرتے ہوں… لیکن بیوی، اس محبت کی قیمت اپنی صحت اور اعصاب سے چکاتی ہے۔

ایک بیوی کہتی ہے

"میرے لیے سکون تو صرف میرے ابو کی چابی کی آواز تھی… جو آتے ہی ہمیں گلے لگا لیتے تھے۔"

اور ایک اور کہتی ہے

"فرق ہی نہیں پڑتا، وہ ہو یا نہ ہو۔ گھر جیسے ایک ہوٹل ہے اُس کے لیے… آتا ہے، کھاتا ہے، سوتا ہے، کپڑے دھوتا ہے، بچوں سے سلام دعا کرتا ہے، اور دوستوں کے ساتھ نکل جاتا ہے۔ نہ اُسے پتہ ہوتا ہے کہ دن کیسا گزرا، کون بیمار ہے، کون پریشان ہے… بس کھانے کی میز پر تھوڑی سی بات سن لیتا ہے۔"

اور اس سب کے بیچ

ایسی بھی بیویاں ہیں… جو "چابی کی آواز" کا بےچینی سے انتظار کرتی ہیں

ایک کہتی ہے

"مجھے اُس آواز سے عجیب سا سکون ملتا ہے… جیسے گھر کی چھت واپس آگئی ہو، جیسے کوئی حفاظت کا ہاتھ میرے سر پہ آگیا ہو۔ اُس کے آنے سے جیسے دل کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب سب ٹھیک ہے۔"

بچے دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آتے ہیں… شاید اُس کے ہاتھ میں چاکلیٹ ہو، یا کوئی چھوٹا سا تحفہ…

اور یوں لگتا ہے جیسے گھر کو زندگی مل گئی ہو۔

بعض مرد اپنے کام کے باعث مہینوں سفر پر رہتے ہیں،

لیکن عورت کے لیے اُس کے شوہر کی چابی کی آواز ہی سب کچھ ہوتی ہے۔

وہ اکیلی سوتی ہے… ڈر سے نہیں، بلکہ اُس تنہائی سے، اُس بوجھ سے جو صرف وہ اٹھا رہی ہوتی ہے۔

اسے شوہر کے صرف دو لفظوں کی ضرورت ہے

میں تمہیں سُن رہا ہوں… میں تمہارے ساتھ ہوں

جو مرد اپنی بیوی کے دل میں محبت بوتا ہے

اُسے کئی گنا بڑھ کر وہی محبت، وہی پیار، وہی سکون لوٹ کر ملتا ہے

اور جو مرد اپنی بیوی کے دل کو توڑ دیتا ہے…

سختی، سرد مہری، اور ظلم سے…

وہ چاہے جتنا بھی گھر، بچے، اور مال رکھ لے… اندر سے اکیلا ہی رہتا ہے

زندگی بہت انصاف پسند ہے…

جو کچھ آپ بوتے ہیں، وہی کاٹتے ہیں

نہ کم، نہ زیادہ۔

دروازے کی چابی کی آواز آپ کے لیے کیا ہے؟ سکون… یا تکلیف؟

!براۓ فروخت ماں باپ کی کہانی"ماں باپ برائے فروخت؟" یہ سن کر حیران مت ہوں۔ ذرا اس کہانی کو بھی سن لیجیے۔ایک اخبار میں ایک...
23/07/2025

!براۓ فروخت ماں باپ کی کہانی

"ماں باپ برائے فروخت؟"
یہ سن کر حیران مت ہوں۔ ذرا اس کہانی کو بھی سن لیجیے۔

ایک اخبار میں ایک اشتہار شائع ہوا:
"بوڑھے ماں باپ کو 10 ہزار یورو میں فروخت کر رہا ہوں۔
میرے والد کی عمر 91 سال ہے، انہیں بھولنے کی بیماری ہے۔ میری ماں 89 سال کی ہے اور وہ بھی صرف مدد سے ہی اپنا کام انجام دے سکتی ہیں۔"

اس اشتہار کو دیکھ کر لوگوں نے دنوں تک بحث کی۔
کسی نے کہا: "یہ کیسی بے غیرتی ہے؟"
کسی نے کہا: "حکام اس پر کارروائی کیوں نہیں کرتے؟"
کچھ نے تو یہ تک کہا: "یا اللہ! یہ تو گناہ ہے!"
اور کچھ نے کہا: "یہ تو پاگل پن ہے، اتنے پیسے دے کر کون کسی کو خریدتا ہے؟"

یہ اشتہار ایک ایسے جوڑے نے بھی دیکھا جن کے اپنے والدین کافی پہلے وفات پا چکے تھے۔
انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان "برائے فروخت" بوڑھے والدین کو خرید کر ان کی خدمت کریں گے۔

انہوں نے مانگی گئی رقم بینک کے ذریعے ٹرانسفر کی، اور پھر دیے گئے پتے پر پہنچے تاکہ ان بزرگوں کو اپنے ساتھ لے جائیں۔

پتہ ایک عظیم الشان حویلی کا نکلا۔ وہ حیرت سے اسے دیکھتے رہ گئے۔
دروازہ کھلا، ایک خوشحال اور باوقار بزرگ ان کا استقبال کرنے آئے۔

اس جوڑے نے کہا:
"ہم ان بوڑھے ماں باپ کو لینے آئے ہیں، جن کا اشتہار آپ نے دیا تھا۔ رقم بھی آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر چکے ہیں۔"

وہ بزرگ مسکرائے اور کہا:
"خوش آمدید۔ لیکن کیا آپ مجھے یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے ان دو بوڑھوں کے لیے اتنی بڑی رقم کیوں دی؟"

بزرگ نے ان سے پوچھا:
"آپ کو صرف ان سے مسئلے، پریشانیاں اور تیمارداری کی ذمہ داریاں ملیں گی، یہ جانتے ہوئے بھی آپ نے اتنی بڑی رقم کیوں دی؟"

نوجوان جوڑے نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، پھر جواب دیا:
"ہم دونوں بچپن میں ہی اپنے والدین سے جدا ہو گئے تھے۔ کم عمری میں ان کے بغیر زندگی گزارنا پڑی۔ ہمیں ان کی بہت یاد آتی ہے۔

ہمارے دو چھوٹے بچے ہیں، جو نانا نانی، دادا دادی کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ان کی گود میں بیٹھیں، ان کے ساتھ وقت گزاریں، ان سے کہانیاں سنیں، ان کے ساتھ کھیلیں اور سوئیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ ایسے بزرگوں کے ساتھ پرورش پائیں جن سے وہ ادب و احترام سیکھیں۔"

یہ سن کر بزرگ آدمی نے اپنی بیوی کو آواز دی۔ وہ ایک چھڑی کے سہارے مگر آرام سے چلتے ہوئے کمرے میں آئیں۔ چہرے پر پیاری مسکراہٹ تھی۔ بزرگ جوڑا محبت بھرے انداز میں مسکرایا اور کہا:
"ٹھیک ہے، ہم آپ کے ساتھ چلیں گے۔ وہی ماں باپ ہم ہیں جن کا اشتہار تھا۔"

نوجوان جوڑا حیرت سے دنگ رہ گیا:
"لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اشتہار میں تو لکھا تھا کہ آپ کو فروخت کرنے والے مجبور، لاچار اور ضرورت مند لوگ ہیں۔ مگر آپ تو بالکل ویسے نہیں لگتے!"

بوڑھے جوڑے نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، مسکرائے۔
پھر خاتون نے تجسس سے ان سے کہا:
"ہم نے محبت اور سمجھداری کے ساتھ زندگی گزاری، محنت کی، کمائی کی، اور یہ عالی شان محل بنایا۔ لیکن قسمت نے ہمیں اولاد نہیں دی۔

ہم نے فیصلہ کیا کہ اپنی تمام دولت کسی اچھے انسان کو دیں گے۔ لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کیسے تلاش کریں۔
تب یہ اشتہار دینے کا خیال آیا۔

اب ہم بہت خوش ہیں کہ ہمارا مال صحیح ہاتھوں میں جا رہا ہے۔"

پھر مسکرا کر کہا:
"محبت اور خلوص کبھی ضائع نہیں جاتا،
یہ نہ صرف لینے والے کے لیے قیمتی ہوتا ہے، بلکہ دینے والے کے دل کو بھی مالا مال کر دیتا ہے۔
محبت اور خلوص ضروری ہے۔

23/07/2025

گھر سے باہر دیر ہو جانے پر والدین کی کال آنے پر شکر ادا کریں اور اپنے نصیب پر ناز کریں ..

23/07/2025

مجھے رشک آتا ہے اپنے مقدر. پر ہمیں وہ نبی ملا جو نبیوں
کا سردار ہے

23/07/2025

کسی نے ایک درویش سے پوچھا دنیا میں سب دکھی کیوں ہے؟درویش نے ہنس کر جواب دیا خوشیاں سب کے پاس ہے بس ایک کی خوشی دوسرے کا درد بن جاتی ہے۔

23/07/2025

شکر ہے خدانے عزت . ذلت . جان۔
رزق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے،
انسان کے ہاتھ ہوتا تو۔ روز قیامت آتی،

ایک روز ایک عالم دین ایک بڑھیا کے پاس سے گزرے۔انہوں نے دیکھا کہ وہ خاموشی سے چرخہ کات رہی ہے۔عالم نے اُس سے سوال کیا،"بڑ...
23/07/2025

ایک روز ایک عالم دین ایک بڑھیا کے پاس سے گزرے۔
انہوں نے دیکھا کہ وہ خاموشی سے چرخہ کات رہی ہے۔
عالم نے اُس سے سوال کیا،
"بڑھیا! کیا تمام عمر صرف چرخہ ہی کاتا ہے، یا خدا کو بھی کبھی پہچانا؟"
بڑھیا نے مسکرا کر کہا،
"بیٹا، خدا کی پہچان تو میں نے اسی چرخے میں کر لی ہے۔"
عالم کو حیرت ہوئی۔ پوچھا،
"اچھا یہ بتاؤ، کیا تمہارے نزدیک خدا واقعی ہر وقت موجود ہے؟"
بڑھیا نے بغیر رکے چرخہ چلاتے ہوئے جواب دیا،
"ہاں، ہر گھڑی، ہر لمحہ، دن ہو یا رات، میرا رب موجود ہے۔"
عالم نے پھر سوال کیا،
"اس بات کی دلیل کیا ہے؟"
بڑھیا نے چرخہ ایک لمحے کو روک دیا اور کہا،
"یہی میرا چرخہ اُس کی موجودگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔"
عالم حیران ہوا۔
"کیسے؟ صرف چرخے سے تم نے یہ کیسے سمجھا؟"
بڑھیا نے نرمی سے وضاحت کی،
"جب تک میں اپنے ہاتھ سے اسے چلاتی رہتی ہوں، یہ مسلسل گھومتا رہتا ہے۔
لیکن جیسے ہی میں ہاتھ روک دیتی ہوں، یہ بھی رک جاتا ہے۔
اگر ایک چھوٹے سے لکڑی کے چرخے کو چلانے والا چاہیے،
تو کیا زمین، آسمان، چاند، سورج جیسے عظیم نظام بغیر کسی چلانے والے کے خود بخود چل سکتے ہیں؟"
پھر وہ بولی،
"جس طرح میرے چرخے کو میرا ہاتھ درکار ہے،
ویسے ہی اس کائنات کے ہر ذرے کو ایک رب کی قدرت درکار ہے۔
اگر وہ رب پل بھر کو بھی یہ نظام چھوڑ دے،
تو سب کچھ رک جائے، ختم ہو جائے۔
مگر ہم نے آج تک سورج کو اپنی رفتار سے ہٹتے،
یا چاند کو اپنے مدار سے نکلتے نہیں دیکھا۔
اسی لیے جان لیا کہ وہ رب ہر لمحہ موجود ہے،
اور یہ سب کچھ اُسی کے حکم سے چل رہا ہے۔"
عالم نے ایک اور سوال کیا،
"اچھا، یہ بتاؤ، جو آسمان و زمین کا نظام چلا رہا ہے،
کیا وہ ایک ہے یا دو؟"
بڑھیا نے سادہ مگر گہری بات کہی،
"یقیناً وہ ایک ہی ہے، اور اس کی دلیل بھی میرا چرخہ ہے۔"
عالم نے مزید وضاحت چاہی۔
بڑھیا نے کہا،
"میں جب اپنی مرضی سے چرخے کو ایک ہی سمت میں گھماتی ہوں،
تو یہ میرے حکم کے مطابق چلتا ہے۔
اگر کوئی اور ہاتھ بھی اس میں دخل دیتا،
تو یا تو رفتار بدل جاتی،
یا چرخہ رک جاتا، یا ٹوٹ جاتا۔
لیکن چونکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا،
تو ثابت ہوا کہ اسے چلانے والی صرف میں ہوں۔
اسی طرح اگر اس کائنات کو چلانے والے دو رب ہوتے،
تو کبھی دن رات کا نظام بگڑ جاتا،
کبھی ستارے اپنی جگہ سے ہٹ جاتے،
کبھی زمین کی گردش میں فرق آ جاتا۔
مگر چونکہ سب کچھ اپنے وقت پر، اپنے انداز میں جاری ہے،
تو سمجھ لو کہ رب صرف ایک ہے، اور وہی ہر شے پر قادر ہے۔"
عالم خاموش ہو گیا۔
اس بڑھیا کی سادہ سی بات میں ایسا علم، ایسا یقین،
اور ایسی بصیرت تھی،
جو شاید سینکڑوں کتابیں بھی نہ سکھا سکیں

Address

Dubai

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Dr Urooj Ilyas posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share