
02/12/2024
انسانیت شرما گٸ! عرش پہ أہوں کی دستک۔
تحریر ۔۔۔۔نجیب اللہ خان
وہ اکھڑی سانس میں مسلسل بول رھا تھا، أنسو موتیوں کی طرح اسکی أنکھوں سے گر رھے تھے، اور مناسب وقفوں ںسے گفتگو کو ایک ھی جملے پہ سمیٹ رھا تھا، کہ شکر ھے اللہ نے أخرت رکھی ھے ورنہ مظلوم تو دکھ سے پھٹ جاتے۔
سرکار کے بقول وہ انتشاری تھا، جی ھاں عجیب و غریب انتشاری . . . جس کے ھاتھ خالی، پاوں میں پھٹے ھو تے جوتے، وہ میلو ں فاصلہ طے کرتا ھوا اسلام أباد پہنچا، وہ زخمیوں کی مرحم پٹیاں کرتا، ساتھی مظاھرین کیلۓ کھانے پینے کا انتظام کرتا، لیکن جب اس نے اپنے ساتھیوں کو شھید ھوتا ھوا دیکھا، تو اس اعصاب جواب دے گۓ۔اس نے لمبی أہ بھری اور کہا میرا لیڈر اگر چاھتا تو اس وقت دنیا کے امیر زادوں میں شمار ھوتا لیکن اس نے پر طعیش زندگی اس ملک کیلۓ قربان کر دی، تین کینسر ھاسپٹل بناۓ۔ کرپٹ نظام پہ ھاتھ ڈالا، انسانی حقوق کی بات کی، ملکی وقار خود ارادی بحال کی۔ اقوام عالم میں مظلوم کی أواز بنا، حرمت رسولﷺ کا مقدمہ لڑا۔ غریب کو صحت کارڈ سے نوازا، مضبوط جی ڈی پی چھوڑ کر گیا۔ اور جب احتساب کی بات أٸ۔ تو ایک گھڑی کا کیس گھڑا گیا۔ اور وہ بھی اڑ گیا۔ پھر تہ در تہ جھوٹے کیسز کے انبار لگا دیے گۓ۔ شکر ھے کہ أخرت ھے ورنہ مظلوم تو غم سے پھٹ جاتا۔۔۔۔
لاشیں ہی لاشیں، محافظوں کے ہاتھ معصوم شھریوں کے خون پہ رنگین۔۔۔
ادھر سے آواز آئی، "ہم پرامن ہیں، صرف اپنا حق چاہیے"
مگر جواب میں گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی، خون کی سرخی نے سڑکوں کو رنگ دیا. . .
کتنی ماؤں کی گود اجڑ گئیں، کتنے باپ اپنے سہاروں سے محروم ہو گئے
کتنے گھروں کے چراغ بجھ گئے، کتنی بہنوں کے بھائی چھن گئے۔حکمران لاشوں پر ہنستے رہے
،طاغوت طاقت کے نشے میں ماڈل ٹاؤن کا سانحہ دہراتا رہا،حکمران طنزیہ ٹوٸیٹ کرتے رھے، کلیجے چبانے والوں کے متعلق سنا تھا، اللہ نے دکھا بھی دیا۔
ظلم کی کہانیاں دہائی دیتی رہیں، لیکن کان سننے کو تیار نہ ہوئے، انسانی حقوق کے علمبردار ادارے کہاں ہیں؟عدالتیں کہاں ہیں؟اور امر بلمعروف و نھی عن المنکر کے واعظین و علماۓ حق کہاں ہیں؟
اور ہم بے بس، خاموشی سے تکتے رہے۔۔
انسانیت شرما گئی، عرش پہ آہوں کی دستک ہوئی
کبھی تو اس ظلم کا حساب ہوگا۔ یہ خونِ ناحق زمین کی گہرائیوں میں دفن نہیں ہوگا
یہ گواہی دے گا، اور انصاف کا سورج ایک دن ضرور طلوع ہوگا۔۔