*ہندوستان شاہان مغلیہ کے عہد میں*
مصنف: مولانا سید محمد میاں دیوبندی
سابق ناظم اعلیٰ :جمعیت علمائے ہند
______________________________
*تعارف کتاب*
تاریخ کی کتابیں ہمیشہ دلچسپ ہوتی ہیں بشرطیکہ آپ تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہوں۔ یہ وہ کتابیں ہوتی ہیں جن سے ہمیں اپنے گزرے ہوئے کل کی خبر ملتی ہے اور موجودہ دور کے حالات کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سی باتیں ہمیں ان سے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ ناکامیوں کی داستانوں سےصحیح اور غلط کا اندازہ ہوتا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب *ہندوستان شاہانِ مغلیہ کے عہد میں* ایک تاریخی کتاب ہے۔ جسے مولانا سید محمد میاں نے تحریر کیا ہے۔
اس کتاب میں سلاطین مغلیہ کا نظامِ حکومت، ان کے دور کے تعلیمی حالات، عدل و انصاف، ہندو مسلم تعلقات اور ہندوستان کی خوش حالی، صنعتی و تجارتی ترقی، یورپین اقوام کی آمد، ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط، دولتِ مغلیہ کا زوال اور اس کے حقیقی اسباب سے مفصل بحث کی گئی ہے۔
عمومی طور پر تاریخ پر یک طرفہ نقطئہ نظر کی لکھی ہوئی کتابیں ملتی ہیں خصوصاً ہندوستان کی تاریخ کو قومی نقطئہ نظر سے سمجھنے کے لیے کتابیں ناپید ہیں۔
انگریزوں کے عہد تسلط میں جان بوجھ کر ایسی کتابوں کو عام کیا گیا جن میں مقامی تاریخ کو بدنام کرنے کا مرچ مصالحہ ڈالا گیا تھا جنہوں نے ہماری نئی نسل کو حقیقی تاریخ سے بیگانہ کردیا ہے۔
لیکن مولانا سیدمحمد میاں مرحوم جو ہندوستان میں علماء حق کے قافلے کے نمایاں فرد تھے انہوں نے فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بھاری پتھر اٹھایا ہے اور ہمیں مغلیہ عہد کے دور کی ایک ایسی تاریخی کتاب مہیا کردی ہے جو نہ صرف مروجہ خامیوں سے پاک ہے بلکہ وہ مغلیہ عہد کی تاریخ کے قومی نقطئہ نظر کے بہت سے خفیہ گوشوں کی نقاب کشائی بھی کرتی ہے۔
ہمیں پوری امید ہے مغلیہ عہد کی تاریخ کو قومی نقطئہ نظر سے بیان کرتی یہ کتاب آپ کے لیے انتہائی مفید ثابت ہوگی۔
یہ کتاب پرنٹ آن ڈیمانڈ کے تحت محدود تعداد میں تیار ہوئی ہے اور اس کی طباعت عکسی ہے یعنی اوریجنل کتاب کا فوٹو چھاپا گیا ہے۔ اس کےمحدود نسخے سٹاک میں موجود ہیں ۔
اس کے 272 صفحات ہیں اور اچھی کاغذ پر چھپی گئی ہے جس کی قیمت 1000 روپے ہے۔لیکن رعایتی قیمت 600روپے وصول کی جاتی ہے۔
اپنے پتے پر بذریعہ ڈاک منگوانے پر 100 روپیہ ڈاک خرچ کی مد میں اضافی وصول کیا جاتا ہے۔وٹس ایپ اور کال کے ذریعے مندرجہ ذیل نمبر پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ 03044802030
08/04/2024
طاہر خان سلفی کتب شناس اور کتاب دوست شخصیت کے حامل ہیں انہوں نے گزشتہ دنوں دارالشعور کے زیر اہتمام ترجمہ ہونے والی چند کتابیں پڑھی ہیں اس کے بعد انہوں نے مندرجہ ذیل اپنا تاثر دیا ہے۔
09/12/2023
06/12/2023
*پاکستانی صحافت میں سِفلہ پن کا راج*
تحریر : محمد عباس شاد، لاہور
اس وقت ہمارے ملک میں سیاست اور صحافت کے جو حالات جارہے ہیں، دن بہ دن سنجیدہ طبقوں کی اس سے بیزاری بڑھتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں جھوٹ، نفاق اور بے اُصولی اس درجے تک پہنچ چکی ہے کہ ایک شریف اور حساس انسان جیسے جیسے حالات و واقعات دیکھتا اور سنتا ہے اور اس پر مقتدر حلقوں اور سیاست دانوں کے رویوں پر غوروفکر کرتا ہے، ویسے ویسے کبیدۂ خاطر ہوتا جاتا ہے۔ اس پر طُرّہ یہ کہ سیاست اور صحافت ایسی ہم مزاج ہوئی ہیں کہ یہ مئے دو آتشہ ہوکر رہ گئی ہیں، لیکن سیاست اور صحافت کے اس پُر آشوب دور میں ایک باشعور آدمی کا جینا بھی لازم ہے۔ بقول شاعر ع
اُس حــــــال میں جینا لازم ہے،
جس حال میں جینا مشکل ہے!
گویا ظلمتوں کی آندھیوں میں سچائیوں کی قندیل جلانا ہی اصل مردانگی ہے۔ باشعور اہلِ دل ایسے ہی حالات میں ضمیر کے تقاضوں کو محسوس کیا کرتے ہیں اور حالات پر چالاک طبقوں کی ملمع سازی کے پردے چاک کرکے اپنی چشمِ فراست سے حالات کو بے نقاب اور حقائق کی روشنی میں واقعات کو بے حجاب کردیا کرتے ہیں۔
متحدہ ہندوستان میں تحریکاتِ آزادی کے دوران ہمارے ہاں اُردو صحافت کا جو ایک معیار قائم ہوا تھا، وہ آزادی، حریت اور بے باکی کا ایک استعارہ بن گیا تھا۔ اُردو کے اخبارات، جرائد اور رسائل نے استعماری نظام کے خلاف مقامی لوگوں کے سینوں میں آزادی کی ایک جوت جگادی تھی، جس پر فرنگیوں نے یہاں کے اہلِ قلم پر ایسے ایسے ستم ڈھائے کہ بیسویں صدی میں معاصر دنیا کے اندر اس کی مثال ملنا محال ہے۔ اس طرح کی جدوجہد سے اس خطے میں اُردو صحافت کا آغاز نظامِ ظلم کے مقابلے میں عوام کی جنگ لڑنا ٹھہرا تھا، جس کے سبب بیرونی قوتیں اپنا بوریا بستر لپیٹ لے جانے پر مجبور ہوگئی تھیں۔
اس کے بر عکس پاکستان میں میڈیا کے ادارے جانب داری، ڈِس انفارمیشن اور عوام دشمن کردار کا استعارہ بن گئے ہیں۔ دراصل پاکستانی میڈیا صحافت نہیں‘ کاروباری ادارے ہیں۔ ان کا صحافتی اَقدار، جدوجہدِ آزادی اور نظامِ ظلم کے خلاف کوئی کردار نہیں ہے۔ ہمارے صحافتی اداروں اور پرائیویٹ *چینلز کے بیش تر مالکان پراپرٹی ٹائیکون ہیں* ۔ انھوں نے ایک طرف بڑی بڑی ہاؤسنگ سکیموں کے تحت خود اپنی سوسائٹیاں بنا رکھی ہیں اور دوسری طرف ملک کے طول و عرض میں ان کا پراپرٹی کا وسیع کاروبار ہے۔ وہ صحافتی اَقدار کے تحفظ کے نام پر اپنے کاروبار کے لیے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتے۔ وہ ع
چلو تم اُدھر کو ، ہوا ہو جِدھر کی
کے اصول پر کاربند ہیں۔ بس وہ اپنے خبر نامے میں ٹماٹر پیاز کے بھاؤ تاؤ پر چند جملے غریب کے حق میں بول دیتے ہیں، جس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ میڈیا عوام کا نمائندہ اور ریاست کے جبر کے مقابلے میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوگا۔ حال آں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ سرمایہ داری نظام میں میڈیا ہمیشہ اسی نظام کا ساجھے دار ہوتا ہے، جس کی چَھتَّرچھاؤں کے نیچے وہ پَل بڑھ رہا ہوتا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں چینلز طاقت ور طبقوں کے ماؤتھ پیس (mouthpiece) بن کے رہ جاتے ہیں۔ جب بھی کبھی عوام سے نظام کو خطرہ ہوتا ہے تو *یہی میڈیا* اس نظام کا اوّلین محافظ ہوتا ہے۔
ملک کے نشریاتی اداروں کی تشکیل‘ تعلیم و تربیت اور شعوری بیداری کے برعکس موجودہ مروّجہ سیاست کے زیرِ اثر ہوچکی ہے، جس کے نتیجے میں یہ ادارے ایسی ڈگر پر چل نکلے ہیں کہ ان سے کسی بھلے کی اُمید رکھنا عبث ہے۔ ایسے ہی ہمارے میڈیا میں بیٹھے بعض سیاسی پارٹیوں کے حلیف اینکرز نے گرفتار یا نظروں سے اچانک اوجھل ہوجانے والے سیاسی افراد کے انٹرویوز کا ایک نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جن کا نہ صرف صحافتی اَقدار بلکہ عام انسانی اَخلاقیات میں بھی کوئی جواز فراہم نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ انٹرویوز دھڑادھڑ ہورہے ہیں اور اس پر کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی جارہی۔
ایسے ہی اس ملک کی سیاست محض داؤ گھات کا کھیل ہوکر رہ گئی ہے کہ کون سی پارٹی کس موقع پر کون سا داؤ کھیل کر مخالف کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ سیاست دانوں نے اپنے مدِ مقابل کا سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی خانگی اورنجی زندگی (بلکہ بیڈرومز تک) میں تاک جھانک شروع کر دی گئی ہے۔ آج کل یہ موضوعِ سخن ہمارے میڈیا کے سب بیانیوں پر غالب آتا نظر آ رہا ہے۔ جیسے عوام کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں، صرف یہ مسئلہ باقی رہ گیا ہے، جسے فی الفور حل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ ایسی منفی سیاست کی بھٹّی کو ہمارا میڈیا مسلسل ایندھن فراہم کررہا ہے۔
ہماری سیاست اور صحافت کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ *اس میں اَور سب کچھ ہے، مگر نہیں ہے تو عوام کہیں بھی نظر نہیں آتے۔* ہمیں روز مرہ خبروں میں الیکشن کمیشن، عدالتیں، نگران حکومت اور پارٹیاں چھوڑنے والے لیڈروں کی خبریں اور ان کے اعترافی بیانات اور پریس کانفرنسز کی بھرمار ہے۔ ان سب کے درمیان عوام کیا چاہتے ہیں؟ ان کا کہیں ذکر نہیں ہے، بلکہ انھیں استعماری دور کی طرح ڈنڈوں سے ہانکا جارہا ہے۔
ہمارے سیاست دانوں کے ہاں قومی اور اجتماعی مقصدیت کا ہمیشہ فقدان اور محض اقتدار کا حصول سرِفہرست رہتا ہے۔ آج بھی ایک پارٹی کو اقتدار کے سِنْگھاسَنْ تک پہنچنے کے لیے پورے پورے مواقع فراہم کیے جارہے ہیں، لیکن ان کے *اتحادی‘ سیاسی بالاخانے میں بیٹھے ہلکی تال پر ڈھولکی بجارہے* ہیں کہ اگر *مقتدر قوتوں کا پلان اے فیل ہوتا ہے تو پلان بی میں وہ پورے پورے فٹ ہوجائیں* گے۔ ہماری سیاست نے گزشتہ دو ڈھائی سالوں میں کیا کیا کروٹیں لی ہیں؟ اس کا حال بلوچستان سے پی ڈی ایم کے دو اتحادی سیاست دانوں نے اپنے انٹرویوز میں کھول دیا ہے، جس سے بڑے بڑے جُغادَری سیاسی پنڈتوں کے قول و فعل کا تضاد طشت ازبام ہوچکا ہے۔ ان حقائق کو جاننے کے باوجود ہماری نوجوان نسل کو خوف اور مایوسی کے بجائے ان تلخ حالات کا زہر پینے اور قوم کے مستقبل کے لیے امرت اُگلنے کی وہ نازک اور جان سوز ذمہ داری اپنے سر لینا ہوگی، جس کی بدولت قوم سماجی تبدیلی کی مشکل گھاٹی کو عبور کرسکنے کے قابل ہوجائے۔
Be the first to know and let us send you an email when Darul Shaour Magazine posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.