Hamza Ali

Hamza Ali Senior Software Engineer | Full Stack Developer | Advocate for Software Architecture & System Design | Content Creator I'm Hamza Ali (call me Hamza).

I'm a passionate full-stack Developer, Content Writer, & freelancer for Web Apps, chatbots, Web technologies, and Hybrid Mobile Apps, having a professional and progressive experience of more than 1.5+ years.

💥 “We need this to scale to millions of users.”Me (in 2023): "Sure, let's use MongoDB and hope for the best." 😅Fast forw...
06/07/2025

💥 “We need this to scale to millions of users.”
Me (in 2023): "Sure, let's use MongoDB and hope for the best." 😅
Fast forward to 2025 — I've just finished 4 chapters of Designing Data-Intensive Applications by Martin Kleppmann… and wow. I realize now how little I truly understood about system design, storage engines, or data models back then.
📚 Topics I’ve covered so far:
Relational vs document vs graph databases
B-Trees vs LSM-Trees (and why writes aren’t always cheap)
Encoding formats, schema evolution
The myth of the “perfect database”
🚧 Realization:
👉 I wasn’t solving the wrong problem — I was solving the right problem with the wrong mental model.
What changed?
I now ask “How will this system behave under load?” before I pick tools.
I think about read/write patterns, compaction, data locality
I finally understand what “data-intensive” really means (hint: it's not just about Big Data)
😂 Also, I now laugh nervously whenever I hear:
“Just throw a cache on it.”
✅ Solved problems:
Overfitting tech to hype instead of app needs
Making uninformed storage decisions
Not thinking about data evolution over time
Next up: replication and distributed systems.
Anyone else reading this masterpiece? Or had a “what was I thinking” moment with backend/data architecture?

06/07/2025

Developers can now replace the mindless scrolling habit into vibe coding
Because the real dopamine hit?

🔓 Day 1 of Sharing Tech Resources to Unlock Your Full Potential📌 Tool: JSON Crack — The Ultimate JSON Visualization Tool...
06/07/2025

🔓 Day 1 of Sharing Tech Resources to Unlock Your Full Potential
📌 Tool: JSON Crack — The Ultimate JSON Visualization Tool

Whether you're debugging APIs, exploring large datasets, or building complex configurations — wrangling raw JSON can get messy fast.
💡 JSON Crack turns any JSON into a beautiful, interactive graph to help you understand structure and relationships instantly.

✨ Why it’s a must-have:

Visualize complex nested JSON in seconds
Spot errors & patterns easily
Share and collaborate on JSON diagrams
Supports copy-paste or file uploads
👨‍💻 Perfect for:
Developers · Data Analysts · API Designers · Backend Engineers · Anyone working with structured data

📈 Bonus: It’s browser-based, free, and lightning fast.
Start now 👉 https://jsoncrack.com

18/06/2025

📖 علم معاشیات، سرمایہ دارانہ نظام اور صنعتی انقلاب
🎤 محاضرہ: جناب فصیح احمد صاحب
✒️ ضبط و ترتیب: فاطمہ شہزاد صاحبہ

________ Maarif معارف ________

الحمد للہ وکفی و الصلاۃ والسلام علیٰ اشرف الانبیاء اما بعد اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلا و ارزقنا اجتنابہ

سترہویں صدی سے پہلے علمِ معاشیات کا کوئی وجود موجود نہ تھا، کوئی اس علم سے آشنا نہ تھا۔ لوگ روایتی معاشروں میں رہا کرتے تھے، وہاں معیشت اور معاشرت میں کوئی تقسیم (Dichotomy) موجود نہ تھی، ایک پیوست معیشت (Embedded Economy) تھی جو خاندان، برادری اور قبیلوں (Organic Collectivities) کے درمیان منظم (Organized) ہوا کرتی تھی، ان معاشروں میں لوگ جو اشیاء پیدا (Produce) کرتے، انہیں خود ہی استعمال (Consume) کر کیا کرتے تھے، انہیں چند چیزیں خریدنے کے علاؤہ بازار نہ جانا پڑتا۔ پھر رفتہ رفتہ روایتی معاشرت کا اختتام ہوا، اور جدید صنعتی معاشرے وجود میں آئے اور سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز ہوا __

روایتی معاشروں کے برعکس جدید معاشروں میں معیشت اور معاشرت میں تقسیم (Dichotomy) موجود تھی، یہی وجہ تھی کہ جدید معاشروں میں روایتی معاشروں کے برعکس معیشت بھی غیر پیوست (Disembedded) تھی، یعنی خاندان، برادری اور قبیلے جو کبھی روایتی معاشروں میں Productive Unit اور Consuming Unit ہوا کرتے تھے اور ساتھ ہی Social Life بھی فراہم کیا کرتے تھے، وہ روایتی معاشرت کے اختتام اور صنعتی معاشرت کے قیام کے بعد صرف Consuming Unit کی حد تک محدود رہ گئے اور معیشت بینک، فرم اور کارپوریشنوں کے ذریعے منظم (Organized) ہونے لگی، ان تمام چیزوں کو سمجھنے کے لیے ہمیں علمِ معاشیات کے تاریخی تناظر کو سمجھنا ہوگا __

سترہویں صدی سے علمِ معاشیات کی فکری بنیادوں کا آغاز ہوا، جہاں ایک نیا آئیڈیا Idea Of Scarcity پیدا ہوا، Idea Of Scarcity کا تصور (Concept) یہ تھا کہ فطرت میں موجود وسائل محدود ہیں جبکہ انسانی خواہشات لا محدود ہیں، یعنی Idea Of Scarcity کا تصور یہ ہے کہ کس طرح محدود وسائل اور لا محدود خواہشات کے درمیان تعلق پیدا کیا جائے؟ اور یہی سے ایک علم تشکیل پایا جسے ہم ”علمِ معاشیات“ کہتے ہیں، Idea Of Scarcity کا مسئلہ اس سے پہلے کبھی انسانی تاریخ میں اور تہذیبوں کی تاریخ میں پیدا نہیں ہوا تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ روایتی معاشرت کے انسان کا مقصد فطرت کو قابو کرنے کے بجائے اس کی زندگی فطرت کے ساتھ تعاون پر مبنی تھی کیونکہ اسے فطرت کے اندر ہی رہنا تھا لیکن اٹھارویں صدی میں Idea Of Scarcity کا مسئلہ پیدا ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ اگر اس کی تاریخ کو تقسیم کیا جائے اور اسے تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو اٹھارہویں صدی کے انسان کا بنیادی مقصد فطرت کو قابو کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ اٹھارہویں صدی میں Scarcity کا مسئلہ پیدا ہوا لہذا Idea Of Scarcity کے مطابق وہ تمام فطری وسائل جو فطرت نے انسانوں کےلئے پیدا کئے ہیں محدود ہیں، جبکہ انسانی خواہشات لا محدود ہیں اور جدید انسان فطرت سے نکلنا چاہتا ہے، اسے قابو کرنا چاہتا ہے، یہی وہ تعلق ہے جس کے نتیجے میں Idea Of Scarcity Actulize ہوا اور یہ سوال کہ فطرت میں موجود وسائل محدود ہیں جبکہ انسانی خواہشات لا محدود ہیں اسے "سرمایہ دارانہ نظام" نے پیدا کیا جو اس تناظر میں پیدا ہوا تھا کہ جدید انسان کا بنیادی مقصد فطرت کو قابو کرنا ہے لہٰذا لا الہ الا انسان کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ فطرت کو اپنی عقل کے ذریعے سے قابو کیا جائے کیونکہ فطرت صرف انسان کی آزادی پر ہی نہیں بلکہ خواہشات پر بھی پابندیاں عائد کرتی ہے۔ خواہشات پر پابندیاں اس طرح سے عائد کرتی ہیں، مثال کے طور پر انسان چاہتا ہے کہ وہ سارا سال آم کھائے لیکن اسے گرمیوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے، انسان چاہتا ہے کہ وہ سارا سال کینو کھائے لیکن اسے سردیوں کا انتظار کرنا پڑتا ہے لہذا محدود وسائل سے لا محدود خواہشات پوری کرنے کےلئے جو نظام وجود میں آیا اسے ”سرمایہ دارانہ نظام“ کہتے ہیں اور اگر کسی چیز کو متناہی (Finite) سے لا متناہی (Infinite) میں تبدیل کرتے چلے جائیں تو وہ چیز سرمایہ دارانہ نظام میں شامل ہوتی چلی جائے گی لہٰذا Idea Of Scarcity کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ اب اس دنیا کے مسائل فطری طریقے سے حل نہیں ہو سکتے، اسی لیے اب انسان کو ہر چیز کی پلاننگ اور مینجمنٹ کرنا ہوگی اور یہی سے دو اصول (Discipline) بنائے گئے جن میں سے ایک کو ہم مائکرو اکنامکس اور دوسرے کو میکرو اکنامکس کے نام سے جانتے ہیں، اگر کسی معاشرے کے فرد (Individual) کا مطالعہ کرنا ہو تو مائیکرو اکنامکس، جبکہ اگر کسی معاشرے میں وسیع پیمانے پر انتظام و انصرام (Mass Management) کی ضرورت ہو تو وہ میکرو اکنامکس کے اصولوں کے تحت کی جاتی ہے __

سرمایایہ دارنہ نظام کی چار مابعد الطبیعاتی بنیادیں (Metaphysical Foundation) ہیں _

(۱) Use Value vs Exchange Value

سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ Use Value کے مقابلے میں Exchange Value کو برتری حاصل ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی شے کو اس کی فطری حالت میں فروخت نہیں کیا جاتا، بلکہ پہلے ان فطری اشیاء میں Value Addition کی جاتی ہے، جس سے ان اشیاء کی Exchange Value بنتی ہے اور پھر ان اشیاء کو مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے، جیسے پانی کو اس کی فطری حالت میں فروخت نہیں کیا جا سکتا، اسی لئے اس میں Value Addition کی جاتی ہے، پھر اسے بوتل میں پیک کیا جاتا ہے اور اس میں ٹیک سسٹم انٹر کیا جاتا ہے جیسے نیسلے واٹر اور ایکو فینا، اسی طرح کسی بھی فطری اشیاء کا اشتہار نہیں آتا، جیسے پھلوں کا کوئی اشتہار نہیں آتا بلکہ اس کے بجائے برانڈ کا اشتہار آتا ہے جیسے پھلوں کے جوس وغیرہ، اسی طرح آٹے کا کوئی اشتہار نہیں آتا بلکہ اس کے بجائے "اشرفی برانڈ" کا اشتہار آتا ہے کیونکہ اشتہاری نظام کی پہلی شرط (Condition) یہی ہوتی ہے کہ ان چیزوں کا اشتہار بنایا جائے جو غیر فطری (Unnatural) ہوں __

(۲) Quantitative Paradigm vs Qualitative Paradigm

سرمایہ دارانہ نظام میں ہمیشہ Quantitative Paradigm کو Qualitative Paradigm کے مقابلے میں بالا تر رکھا جاتا ہے، جیسے درخت کے Qualitative Aspect یہ ہیں کہ درخت ہمیں تازہ ہوا، چھاؤں اور بہترین ماحول مہیا کرتا ہے، زلزلے، طوفان اور سیلاب میں تحفظ فراہم کرتا ہے جبکہ درخت کا Quantitative Aspect یہ ہے کہ درخت کو کاٹ کر اس کی لکڑیوں سے فرنیچر انڈسٹری بنائی جاسکتی ہے، یا اس کے پلپ سے پیپر انڈسٹری لگائی جا سکتی ہے یا ان درختوں کو کاٹ کر اس جگہ کوئی ہاؤسنگ اسکیم شروع کی جا سکتی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں چیزوں کا Qualitative Paradigm غیر اہم جبکہ Quantitative Paradigm اہم بن جاتا ہے __

(۳) Finite vs Infinite

سرمایہ دارانہ نظام کسی منزل کا نام نہیں بلکہ یہ ایک دوڑ کا نام ہے لہٰذا اشیاء کو بھی انکی ساخت کے اعتبار سے ان کی محدودیت سے لامحدودیت کی طرف دھکیلا جاتا ہے، یعنی اشیاء کو متناہی سے لامتناہی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جو کہ اصلًا ناممکنات میں سے ہے لیکن چونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں منزل نہیں بلکہ دوڑ اہم ہوتی ہے، اس لئے چیزوں کو متناہی (Finite) سے لامتناہی (Infinite) میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ انہیں سرمایہ دارانہ نظام میں شامل (Involve) کیا جا سکے پھر متناہی چیزوں کو لامتناہی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے لامتناہی دولت (Infinite Wealth)، لامتناہی علم (Infinite Knowledge)، لامتناہی قوت (Infinite Power) کیونکہ متناہی (Finite) چیزیں گھروں، انسانوں اور خاندانوں کی ضروریات کو تو پورا کر سکتی ہیں، لیکن مارکیٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کی ہرگز نہیں۔ جیسے گھر تو دیسی مرغی پر چلائے جاسکتے ہیں لیکن مارکیٹ دیسی مرغی پر نہیں چل سکتی جبھی مارکیٹ میں Food Industry کو چلانے کےلئے سب سے پہلے مرغی کو دیسی سے فارمی (Broiler) میں تبدیل کیا گیا اور پھر Genetically Modified کر دیا گیا بالکل اسی طرح گائے کا دودھ جو فطری طریقے سے حاصل کیا جاتا ہے، وہ گھروں، خاندانوں اور انسانوں کی ضروریات تو پوری کر سکتا ہے لیکن مارکیٹ کی ہرگز نہیں، یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ کی ضروریات پوری کرنے کےلئے ضروری ہے کہ دودھ کو ڈیری فارمنگ میں انجکشن کے ذریعے غیر فطری طریقے سے حاصل کیا جائے تاکہ مارکیٹ کی ضروریات پوری ہو سکیں، بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام فطرت سے اپنی مرضی کے نتائج (Outcome) حاصل کرنا چاہتا ہے، جس کےلئے چیزوں کو متناہی (Finite) سے لامتناہی (Infinite) میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور چیزوں کو متناہی (Finite) سے لامتناہی (Infinite) میں تبدیل کرنا غیر فطری طریقے کے بغیر ممکن نہیں

(۴) Abstract vs Concrete

ٹھوس (Concrete) کا مطلب ہے کہ کسی چیز کے پیچھے ٹھوس انسانی تعلق موجود ہوں، یعنی چیز سامنے موجود ہو۔ جیسے دھاتی زر (Metallic Currency) ایک ٹھوس (Concrete) کرنسی ہے کیونکہ اس کی اپنی اندرونی قدر (Intrinsic Value) ہوتی ہے، یعنی دھاتی زر (Metallic Currency) کی قدر اس کے اپنے اندر موجود ہوتی ہے، جسے علیحدہ کرکے بھی مارکیٹ میں فروخت کیا جا سکتا ہے اور مکمل رقم حاصل کی جا سکتی ہے۔

اسی طرح ٹھوس (Concrete) کی کچھ مزید مثالیں یہ ہیں: دھاتی زر، روایتی معاشرے میں استاد اور شاگرد کا تعلق، لوگوں کے باہمی تعلقات، بازار، اور سماجی تعلقات پر مبنی معیشت جیسے خاندان، برادری اور قبیلہ __

تجرید (Abstract):

تجرید (Abstract) کا مطلب ہے کہ کسی چیز کے پیچھے ٹھوس انسانی تعلق موجود نہ ہوں، یعنی چیز سامنے موجود نہ ہو یا مکمل دکھائی نہ دے، یا پھر چیز جیسی نظر آئے ویسی نہ ہو۔ مثال کے طور پر جیسے کاغذی زر (Paper Currency) ایک Abstract Money ہے، یہ ایک Fictitious کرنسی ہے کیونکہ اس کی قدر اس کے اپنے اندر نہیں ہوتی، یعنی اس کی کوئی اندرونی قدر (Intrinsic Value) نہیں ہوتی۔ اسی لیے اگر کاغذی زر (Paper Money) کو علیحدہ کرکے مارکیٹ میں فروخت کیا جائے تو اس کی اندرونی قدر (Intrinsic Value) نہ ہونے کی وجہ سے اس کی اصل قیمت حاصل کرنا ممکن نہیں۔

جیسے اگر آج دنیا کی حکومتیں پیپر کرنسی کی قانونی حیثیت ختم کر دیں یا اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں، تو مارکیٹ میں کاغذی زر (Paper Money) ردی کے بھاؤ فروخت ہو گا۔

اسی طرح تجرید (Abstract) کی کچھ مزید مثالیں یہ بھی ہیں: آن لائن کلاسز، کاغذی کرنسی، آن لائن خریداری، سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ، جدید تعلیمی نظام میں استاد اور شاگرد کے رسمی تعلقات، کمپنیاں، پانی کے اجزاء، اور مارکیٹ۔

جیسے جدید آرگنائزیشن ایک تجریدی ہستی (Abstract Entity) ہے جہاں تعلقات انسانی بنیادوں پر استوار ہونے کے بجائے تعلقات انسانی کے فنا پر تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ یہ ایک غیر شخصی، غیر انسانی، فرضی معاشرہ (impersonal, dehumanized, fictitious society) ہوتی ہے جہاں غیر شخصی تعلقات (Impersonal Relationships) ہوتے ہیں جو لوگوں کے درمیان اغراض کی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں۔ جبکہ ہمارے روبرو (Face to Face) تعلقات ایک ٹھوس (Concrete) تعلقات ہوتے ہیں، لیکن جب انسانی تعلقات کو تجریدی شکل دے دی جائے تو وہ ٹھوس نہیں رہتے۔ مثال کے طور پر، اسکرین کلچر ایک تجریدی ذریعہ (Abstract Medium) ہے، اسی لیے ایک ٹیلی ویژن پر گفتگو کرنے والا عالم دین کسی ٹھوس ناظرین (Audience) کے سامنے گفتگو کرنے کے بجائے نامعلوم (Anonymous) ناظرین کے سامنے گفتگو کرتا ہے اور ان کے پسند (Like) پر خوش ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام جدید ادارتی صف بندی کے ذریعے تجریدی ثقافت پیدا کرتا ہے اور تجرید کا عمل اتنا خطرناک ہوتا ہے کہ اس میں پتہ بھی نہیں چلتا کے تشدد کرنے والا کون ہے جیسے ماضی میں فرعون، چنگیز اور ہلاکو خان وغیرہ جو بھی ظلم کرتے تھے وہ صاف دیکھائ دیتا تھا، ان ظالموں کیلئے تاریخ میں کوئی دو رائے موجود نہیں، ان لوگوں کو ہر کوئی ظالم ہی مانتا ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں تجریدی ثقافت (Culture Of Abstraction) کی وجہ سے ظالم پہچان میں نہیں آتا اور نہ ہی ایک عام شخص اس تک پہنچ سکتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کی ایک خطرناک بات یہ ہے کہ وہ انسانی تعلقات کو بھی ایک تجریدی شکل دیتا ہے مثال کے طور پر لوگ ٹھیلے پر کینوں بیچنے والے کے کینوں چیک کر سکتے ہیں، اس کی بے ایمانی با آسانی پکڑ سکتے ہیں لیکن ایک مارٹ میں ہونے والی بے ایمانی پکڑنا ایک عام شخص کے بس کی بات نہیں، ایسے ہی اگر دودھ والا دودھ میں پانی ملائے تو لوگ اسے با آسانی پکڑ سکتے ہیں لیکن یہی لوگ مِلک پیک کو نہیں پکڑ سکتے۔

اسی طرح مارکیٹ بھی تجرید ہوتی ہے۔

• مارکیٹ ایک ایسا Principles ہے جو Society Of Relationship کو بھی Society Of Contract میں بدل دیتا ہے، ایک یتیم خانہ ہوں، ڈے کیئر سینٹر ہوں یا اولڈ ایج ہوم یہ سب ایک Marketize Relationship کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔

• مارکیٹ ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگ اغراض کی نیت سے آتے ہیں۔

• مارکیٹ انسانی تعلقات سے بالاتر ایک جدید ادارتی صف بندی ہے جہاں Relation نہیں Professional ہوتے ہیں اور professional Relationship Oriented نہیں بلکہ Goal Oriented ہوتے ہیں اور Professionalism ہونے کی پیشگی شرط کسی بھی معاشرے میں زیادہ سے زیادہ انفرادیت (Individualism) ہوتی ہے تا کہ اس معاشرے میں موجود لوگ پیشہ ور ماہر پر انحصار کریں۔

یعنی وہ سرگرمیاں جو روایتی معاشروں میں لوگوں کو اپنے خاندان، برادری اور قبیلوں (Organic Collectivities) سے ملا کرتیں تھیں، وہ آؤٹ سورس ہو کر پیشہ ور افراد (Professionals) کے پاس جانے لگیں تاکہ ان کے ماہر پیدا ہو سکیں۔ اور فرد (Individual) بننے کی پیشگی شرط (Pre-Condition) یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کا اجتماعی مطالعہ (Collective Study) کرنے کے بجائے اسے فرد (Individual) کی صورت میں کم کر کے (Reduce) فرد کے رویوں (Individual Behaviours) کا مطالعہ کیا جائے، اور جہاں فرد (Individual) موجود نہ ہوں وہاں فرد (Individual) پیدا کیے جائیں۔

جیسے MacIntyre کہتا ہے جہاں روایات (Tradition) نہیں ہوتی وہاں بیوروکریٹ لبرل ازم ہوتا یعنی معاملات تنظیمی نوعیت کے ہوتے ہیں لہٰذا جدید ریاست، جدید تعلیم، میڈیا اور مارکیٹ کے ذریعے فرد (Individual) پیدا کر کے سرمایہ دارانہ نظام کو سپلائی کئے جاتے ہیں __

سرمایہ دارنہ نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں پیدا کار (Producer) اور خریدار (Consumer) دونوں اپنی اپنی ضروریات کیلئے مارکیٹ پر انحصار کرتے ہیں یعنی سرمایادارانہ نظام مارکیٹ سے نکلنے والا نظام ہے اور مارکیٹ ایک Principal ہے جہاں پیداوار کا آغاز سرمائے (Principles) سے ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر جب کسان روائتی طریقے سے کھیتی باڑی کیا کرتے تھے تو نیچر اپنا بیچ خود اگاتی (produce) تھی لیکن جب انڈیا میں ۱۹۹۵ میں Agribusiness کی کمپنیاں آنی شروع ہوئیں تو ساتھ ہی Hybrid Seeds بھی آنا شروع ہو گئے ان بیجوں کی خاص بات یہ تھی کہ اگر ان بیجوں کو دوبارہ لگایا جائے تو ان سے فصل کاشت نہیں کی جاسکتی بلکہ یہ بیج کسانوں کو مونسانٹو اور بائر کراپ سائنس وغیرہ جیسی کمپنیوں سے دوبارہ خریدنا پڑتے ہیں لہذا اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ روایتی معاشروں میں وہ کسان جو تاریخی طور پر پیداکار (Producer) تھے سرمایادارنہ نظام اور مارکیٹ نے انہیں صارف (Consumer) میں تبدیل کر دیا اور مارکیٹ ایک تجرید (Abstract) ہے، جہاں لوگ اغراض کی نیت سے ملتے ہیں، جہاں اغراض کی بنیاد پر لوگوں کے درمیان تعلقات قائم ہوتے ہیں اور سرمایہ دارنہ نظام جہاں بھی جاتا ہے وہاں کچھ + ـ کے فرق کے ساتھ ایک ہی طرح کی معاشرت اور حالات تخلیق کرتا ہے __

تاریخی طور پر سرمایہ دارانہ نظام تین چیزوں کے بغیر کہی قائم نہیں ہوا۔

(۱) Divorce Between Direct Producer & Means Of Production

سرمایہ دارانہ نظام نے سب سے پہلے ذرائع پیداوار (Means Of Production) اور پیدا کار (Direct Producer) کے درمیان تقسیم (Divorce) پیدا کی، جسے بے دخلی (Dispossession) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر روایتی معاشروں میں لوگ اپنے یا اپنے خاندان، برادری اور قبیلے کیلئے اناج خود اگاتے اور خود ہی ان چیزوں کو استعمال کر لیا کرتے تھے، اپنے لئے پانی کا حصول خود ممکن بناتے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بعد جب لوگوں کو ان کے ذرائع گزر بسر سے بے دخل کر دیا گیا، تو انہیں یہ چیزیں ریاست اور مارکیٹ سے خریدنا پڑتی ہیں __

(۲) Monopoly Of Means Of Production

سرمایہ دارانہ نظام نے روایتی معاشرت کا خاتمہ کرتے ہوئے لوگوں کو جن ذرائع پیداوار سے بے دخل (Dispossess) کیا، اس پر کچھ قوتوں کی اجارہ داری قائم کر دی، جیسے بینک، فرم اور کارپوریشن کے ہاتھوں میں وہ چیزیں دے دی گئیں جو روایتی معاشروں میں خاندان، برادری اور قبیلوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ جیسے آج پانی پر ریاست اور مارکیٹ کی اجارہ داری قائم ہے، ہمیں ریاست سے پانی لینا پڑتا ہے اور پانی کا بل دینا پڑتا ہے یا پھر ہمیں مارکیٹ سے نیسلے واٹر خریدنا پڑتا ہے __

(۳) Labour Class

وہ لوگ جنہیں سرمایہ دارانہ نظام نے ان کے ذرائع گزر بسر سے بے دخل (Dispossess) کیا، اب وہ کسی سرمایہ دار کے مزدور بن کر آئے، اور سرمایہ دارانہ نظام نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ Labour Person کو Labour Power سے علیحدہ کرکے Free Labour اور Wage Relation کا تصور پیدا کیا جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ، جو روایتی معاشروں میں مستقل اپنے ذرائع گزر بسر پر موجود رہتے تھے، ذرائع گزر بسر سے بے دخل کئے جانے کے بعد اپنی سروسز کسی سرمایہ دار کو ایک مخصوص وقت کیلئے بیچنے لگے __

سرمایہ دارنہ نظام میں یہ تین چیزیں سب سے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں:
(۱) سب سے پہلے لوگوں کو ان کے ذرائع پیداوار سے بے دخل (Dispossess) کیا گیا،
(۲) پھر ان ذرائع پیداوار پر کچھ قوتوں کی اجارہ داری (Monopoly) قائم کر دی گئی،
(۳) اور جن لوگوں کو ان کے ذرائع پیداوار سے بے دخل کیا گیا تھا، اب وہ لوگ ان لوگوں کے مزدور بن کر آنے لگے جن کی سرمایہ دارنہ نظام نے ان لوگوں کے ذرائع پیداوار پر اجارہ داری قائم کرا دی تھی۔

لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کا آغاز جہاں سے بھی ہوا، ان تین چیزوں کے بغیر نہیں ہوا۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو بے دخلی (Dispossession) کا سب سے بہترین طریقہ جدید تعلیم ہے۔ اگر کسی کچے علاقوں اور دیہاتوں میں جا کر اسکول کھول دیے جائیں، تو وہاں کے لوگ اپنے روایتی علم و ہنر سے ناواقف ہو جائیں گے، جو وہ اپنے علاقے سے سیکھتے ہیں، جیسے کھیتی باڑی کرنا وغیرہ۔ اور پھر جب یہ لوگ میٹرک کرنے کے باوجود بھی کسی ہنر سے واقف نہیں ہوتے تو وہ اپنی مزدوری کسی سرمایادار کو بیچنے لگتے ہیں۔

اس طرح مزدوروں کی ایک پوری فورس تیار کی جاتی ہے۔ یا کچھ لوگ میٹرک کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے کسی کالج میں داخلہ لے لیتے ہیں، لیکن کالج سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی وہ کسی ہنر سے واقف نہیں ہوتے۔ اسی لئے وہ کسی بڑے شہر میں نوکری کی تلاش میں نکل جاتے ہیں اور وہاں جا کر کارپوریٹ سیکٹر میں اپنی Services Sell کرنے لگتے ہیں۔ اسی لئے فی زمانہ مزدور بنانے کا بہترین طریقہ ”جدید تعلیم“ ہے۔

اگر گاؤں میں یہ کیمپین چلائی جائے کہ کھیتی باڑی کرنا جہالت ہے اور ساتھ ہی اسکول کھولتے چلے جائیں اور بچوں کو ان کے روایتی علم و ہنر سے بے دخل کرکے اسکول لے جائیں، تو اس طرح وہ مزدور بنتے چلے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا ظلم بے دخلی (Dispossession) ہے، لیکن سرمایہ دارانہ نظام میں یہ فطری عمل سمجھا جاتا ہے اس لئے لوگوں کو ذلیل و خوار کرکے ترقی کے نام پر بے دخل (Dispossess) کرکے مزدور بنا کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اس طرح لوگوں کی ساری بحث اس طرف چلی جاتی ہے کہ مزدوروں کیلئے روزگار ہے یا نہیں؟ یعنی عدل یہاں قائم ہونے لگتا ہے کہ روزگار ہے یا نہیں؟ جبکہ سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ بے روزگاری کا مسئلہ پیدا کیسے ہوا؟

سرمایہ دارانہ نظام ان تین چیزوں کے بغیر سوسائٹی میں کہی Encourage نہیں کر سکتا۔ فی زمانہ تیسری دنیا میں بے دخل (Dispossess) کرنے کا اسکول سے بہترین کوئی ہتھیار موجود نہیں۔ یعنی اگر Mass Schooling کر دی جائے تو Mass جاہل پیدا کئے جا سکتے ہیں۔ Mass Schooling کے نتیجے میں یہ لوگ اپنے تمام روائتی علم و ہنر سے ناواقف ہوں گے کیونکہ اسکول یہ تو نہیں سکھاتا کہ کھیتی باڑی کیسے کرنی ہے؟ اسکول تو وہ تعلیم دیتا ہے جس کا تعلق گاؤں کے آس پاس موجود ماحول سے ہوتا ہی نہیں۔

جبھی اسکولوں سے پڑھ کر نکلنے والے بچے مزدوروں کی ایک فوج ہوتے ہیں۔ اسی لئے جدید سرمایہ دارانہ معاشروں میں ریاستوں سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اپنے ہاں جدید سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندی کو بڑھائے، تاکہ مزدوروں کی کھپت کی جا سکے، ورنہ وہ نوکری کی تلاش میں بیرونِ ملک جاتے رہیں گے۔ یہ ایک طرح کا ظلم ہے کیونکہ اسکول کا بنیادی کام لوگوں کو ان کے روایتی علوم و فنون سے جاہل رکھنا ہے۔

اسی لئے اسکول صرف تعلیم نہیں دیتا بلکہ اسکول کا ایک بنیادی کام اجتماعی جہالت پیدا کرنا ہے۔ لیکن لوگوں کے نزدیک روایتی معاشرت پہلے ہی جہالت بن چکی ہوتی ہے، اسی لئے لوگوں کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اسکول کر کیا رہا ہے؟ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام ہی جاہلانہ ہے لہٰذا اسکول ہمیں اس جاہلانہ نظام سے اٹھا رہا ہے اور ایک بہت بڑے اسٹرکچر کی طرف لے جا رہا ہے۔

لوگ یہ نہیں سوچتے کہ اسکول کا بنیادی کام لوگوں کو روایتی علوم اور فنون سے جاہل بنانا ہے تاکہ لوگ خود سے کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں سکیں، بس وہ اس قابل ہو جائیں کہ اپنی مزدوری اچھے سے اچھے طریقے سے مارکیٹ میں بیچ سکیں۔ پھر اس کے لئے مختلف قسم کی بریڈنگ ہوتی ہے، کوٹ، پینٹ اور ٹائی پہنی جاتی ہے، Personality Grooming ہوتی ہے، Time Management وغیرہ کے کورسز ہوتے ہیں، تاکہ لوگ مارکیٹ میں اپنے آپ کو جا کر بیچ سکیں اور اسکول اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کسی علاقے میں جا کر Dispossession نہ پھیلا دی جائے اور پھر اس بے دخلی (Dispossession) کے نتیجے میں سب مزدوروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور اپنی مزدوری کسی سرمایہ دار کو بیچنے لگتے ہیں __

سرمایہ دارنہ نظام میں ارتکاز سرمایے کی دو جہتیں ہیں:

(۱) Vertical Accumulation

سرمایہ دارانہ نظام میں عمودی ازتکاز (Vertical Accumulation) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی سرمایہ دار آج دس فیصد شرح منافع پر کام کر رہا ہے اور اسے اس سال دس فیصد کے حساب سے بیس کروڑ کا نفع ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر آج میکڈونلڈ کو اپنے کاروبار سے دس فیصد کے حساب سے بیس کروڑ کا نفع ہوتا ہے، اور اگر اگلے سال بھی میکڈونلڈ کو اسی دس فیصد کے حساب سے بیس کروڑ کا نفع ہوتا ہے تو سرمایہ دارانہ نظام میں یہ نقصان کہلائے گا۔ کیونکہ شرح منافع کا مطلب یہ ہے کہ اگلے سال یہ منافع دگنا ہو جائے، یعنی نفع بیس کروڑ سے بڑھ کر چالیس کروڑ ہو جائے __

(۲) Horizontal Accumulation

سرمایہ دارنہ نظام میں افقی ارتکاز (Horizontal Accumulation) کا مطلب یہ ہے کہ ذرائع پیداوار کھینچ کھینچ کر ایک خاص مرکز میں جمع ہونا شروع ہو جائیں، جسے انگریزی میں Metropolis کہتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی ایک خاص بات اس کا Metropolis ہونا ہے، یعنی ایک خاص جگہ مرکز بن جائے اور باقی جگہیں مضافات (Periphery) میں تبدیل ہو جائیں۔

مثال کے طور پر Metropolis کا مطلب یہ ہے کہ جیسے افریقہ سے غلام خریدے پھر انہیں امریکہ کے کھیتوں میں لے جا کر کام کرایا جائے اور پھر ان سے جو سرمایہ حاصل ہوا اسے لندن منتقل کر دیا۔ تو اس طرح ایک پورا Triangle بن گیا جس میں لندن Metropolis بن گیا اور باقی جگہیں مضافات (Periphery) میں تبدیل ہو گئیں۔

جبکہ اسلامی تہذیب اور فتوحات تاریخی طور پر Metropolis Style نہیں تھیں کیونکہ پہلے مدینہ دارالحکومت تھا، پھر دمشق، پھر کوفہ، پھر بغداد اور پھر نیشاپور بن گیا۔ اسی لئے ہم اسے Metropolis نہیں کہہ سکتے، کیونکہ اسلام جہاں بھی گیا ہے وہ جگہ اس کا مسکن بن گئی۔ اور عصر حاضر میں اسلام کا یورپ سے تنازع بھی یہی ہے کہ اسلام جہاں جاتا ہے اپنے لئے جگہ بنانا شروع کر دیتا ہے کیونکہ اللہ نے ساری دنیا کو مسجد کہا ہے۔

اسلام جہاں جاتا وہاں لوگوں کو اپنے اسٹرکچر میں ڈھال لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مدینہ سے زیادہ اسلام کہیں اور نظر آئے، کیونکہ اسلام میں Metropolis کی کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ سرمایہ دارانہ نظام میں افقی ارتکاز کا مطلب ہے کہ ذرائع پیداوار کو کھینچ کھینچ کر ایک جگہ سے دوسرے مراکز میں لایا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ جب کسی علاقے سے کوئی چیز بے دخل (Dispossess) ہو رہی ہوتی ہے تو وہی چیز کسی دوسرے علاقے میں Possess ہو رہی ہوتی ہے۔ جیسے جب مغرب میں سرمایہ دارانہ نظام آنا شروع ہوا تو ذرائع پیداوار خاندان، برادری اور قبیلوں سے کھینچ کھینچ کر بینک، فرم اور کارپوریشنوں کے پاس آنا شروع ہو گئے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خاندان، برادری اور قبیلے سب ختم ہو گئے اور سب فرد (Individual) میں تبدیل ہو گئے۔ پھر سب کو کسی کارخانوں، اداروں اور سرمایہ داروں کی ملازمت اختیار کرنا پڑی۔

یہیں سے آ کر اٹھارہویں صدی میں صنعتی انقلاب کا آغاز ہوا اور یورپ میں کچھ مراکز قائم ہوئے جیسے لندن اور مانچسٹر وغیرہ، جہاں خاندان، برادری اور قبیلوں سے ذرائع پیداوار بینک، فرم اور کارپوریشنوں میں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔ پھر وہ شہر جو روایتی معاشروں میں کبھی دیہاتوں پر انحصار کیا کرتے تھے، وہ صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے پیدا کردہ معاشرت اور حالات کے بعد شہروں پر انحصار کرنے لگے۔

اور صنعتی انقلاب کے بعد وہ ذرائع پیداوار جو Labour Intensive تھے، Capital Intensive ہو گئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیداوار Human Intensive سے Technological Intensive ہو گئی۔ اور جب پیداوار ٹیکنالوجی کے ذریعے بڑھنے لگی تو وہ پیسہ جو انسانوں پر لگتا تھا، ٹیکنالوجی پر لگنے لگا۔

اور جدید معیشت چونکہ Metropolis Cities سے چلتی ہے، تو اس معیشت کو چلانے کیلئے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کا آغاز ہوا، جسے Urban Migration کہتے ہیں۔ کیونکہ لوگوں کو روایتی معاشرت کے اختتام کے بعد ان کے ذرائع پیداوار سے بے دخل (Dispossess) کر دیا گیا تھا، اسی لئے انیسویں صدی میں جدید شہروں کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں پانچ بڑے مسائل پیدا ہوئے جو کبھی انسانی تاریخ میں پیدا نہیں ہوئے تھے یا محال تھے، لیکن آج انہیں فطری مسائل سمجھا جاتا ہے __

(۱) Town Planning

روائتی معاشرت کے اختتام کے بعد جب شہروں کی جانب نقل مکانی کا آغاز ہوا تو سب سے پہلا مسئلہ ٹاؤن پلاننگ کا پیدا ہوا، پھر تاریخِ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کا آغاز ہوا، جسے Urban Migration کہتے ہیں، جس کے نتیجے میں مختلف قسم کے مسائل نے جنم لیا۔ اس میں سے ایک مسئلہ بھیڑ (Congestion) بھی تھا، لہٰذا اس مسئلے سے نمٹنے اور بھیڑ (Congestion) کے آرڈر کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹاؤن پلاننگ کرکے شہروں میں ایسے جدید تعمیراتی کام کیے گئے، جس سے شہروں میں لوگوں کی آمد و رفت کو برقرار رکھا جا سکے __

(۲) Social Planning

سوشل پلاننگ اور ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور خاندان کے جنازے پر قائم ہوتا ہے۔ سوشل پلاننگ فلاحی ریاست (Welfare State) کی ترقی یافتہ شکل کا نام ہے۔ روایتی معاشروں سے جب لوگ کھینچ کھینچ کر شہروں کی جانب آنا شروع ہوئے تو پہلے وہ کسی خاندان، برادری اور قبیلوں سے وابستہ تھے، لیکن شہروں میں آ کر وہ سب فرد (Individual) بن گئے۔ پھر ان لوگوں کے لیے سوشل پلاننگ کی گئی، کیونکہ ان لوگوں کا شہروں کے ساتھ وہ تعلق نہیں تھا جو دیہاتوں کے ساتھ تھا، نہ ہی آپس میں وہ تعلق تھا جو دیہات میں تھا۔ مثال کے طور پر لوگ گاؤں میں کوئی ایسا کام نہیں کرتے جس سے گاؤں کا نقصان ہو، لیکن شہر میں ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے شہر کا نقصان ہو __

(۳) Economic Planning

جب لوگ دیہاتوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کرنے لگے تو سوال یہ پیدا ہوا کہ اب اپنی معاشرتی ضروریات کو کیسے پورا کریں؟ یہی سے دو ڈیسیپلن سیٹ ہوئے، جن میں سے ایک کو ہم مائکرو اکنامکس اور دوسرے کو میکرو اکنامک کے نام سے جانتے ہیں اور اگر کسی معاشرے میں فرد (Individual) کا مطالعہ کرنا ہو تو مائکرو اکنامکس، جبکہ اگر کسی معاشرے میں وسیع پیمانے پر انتظام و انصرام (Mass management) کی ضرورت ہو تو میکرو اکنامک کے اصولوں کے مطابق کی جاتی ہے۔

صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے خاندان ایک Productive Unit بھی تھا، Consuming Unit بھی تھا اور Social Life بھی فراہم کرتا تھا، لیکن صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے بعد وہ خاندان، جو روایتی معاشروں میں ایک Productive Unit بھی تھا، Consuming Unit بھی تھا اور Social Life بھی فراہم کرتا تھا، صرف Consuming Unit کی حد تک محدود ہو گیا۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام چیزیں خاندان سے کس طرح سے چھینی گئیں؟

صنعتی معاشرت کے بعد سرمایہ دارانہ پیداواری نظام تین مراحل پر مشتمل ہے، اور سرمایہ دارانہ نظام تین چیزوں کو Conquest کرنے کے علاوہ لوگوں کی زندگی میں کہیں داخل نہیں ہوا۔ جیسے وسیع پیمانے پر سرمایہ دارانہ نظام کا قائم ہو جانا، یعنی عام لوگوں کی زندگی سے اس کا براہِ راست تعلق نہ ہونا۔ جیسے پاکستانی معاشرت میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو صرف ایلیٹ کلاس ہی کرتے ہیں، یہ چیزیں ابھی تک عام لوگوں تک نہیں پہنچیں۔ لہٰذا ان چیزوں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے __

(۱) Conquest Of Goods

سرمایہ دارنہ نظام سے پہلے اشیاء کی پیداوار روایتی معاشروں میں خاندان، برادری اور قبیلوں (Organic Collectivities) کے درمیان منظم ہوا کرتی تھی، ان معاشروں میں لوگ جو اشیاء پیدا کرتے انہیں خود ہی استعمال کر لیا کرتے تھے یہی وجہ تھی کہ بہت ہی کم چیزیں خریدنے انہیں بازار جانا پڑتا لیکن سرمایہ دارانہ نظام آنے کے بعد سب سے پہلا کام یہ ہوا کہ اشیاء کی پیداوار کو گھریلوں دائرے (Household) سے نکال کر Colonize کیا گیا اور پھر ان اشیاء پر بینک، فرم، اور کارپوریشنوں کی اجارہ داری (Monopoly ) قائم کر دی گئی لہٰذا سرمایہ دارانہ نظام کے بعد وہ تمام اشیاء جو سرمایہ دارانہ نظام سے پہلے لوگ خود اگاتے اور خود ہی استعمال کر لیا کرتے تھے اب انہیں یہ اشیاء مارکیٹ سے خریدنا پڑتی __

(۲) Conquest Of Services

سرمایہ دارانہ نظام نے دوسرے مرحلے میں انسانی تعلقات اور خدمات (Services) کو Colonize کیا، جیسے روایتی معاشروں میں لوگ اپنے یتیموں، پاگلوں، بوڑھوں اور بچوں کی دیکھ بھال خود کیا کرتے تھے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام آنے کے بعد یہ کام گھریلو دائرے (House Hold) سے نکل کر اولڈ ایج ہوم، ڈے کیئر سینٹر اور یتیم خانوں کے سپرد ہو گئے۔

اسی طرح، روایتی معاشروں میں شادی بیاہ کی تقریبات گھروں میں ہی ہوا کرتی تھیں جہاں لوگ خود مہمانوں کے لیے کھانا تیار کر کرتے تھے، لیکن آج کھانے کی فراہمی کا ایک مکمل پیشہ (کیٹرنگ) وجود میں آ چکا ہے اور روایتی معاشروں میں گھروں میں جو شادی بیاہ کا رواج تھا، اب وہ ختم ہو چکا ہے۔ اس کی جگہ یہ تقریبات شادی ہالوں یا بینکوئٹ میں منعقد کی جانے لگی ہیں۔

یعنی وہ تمام چیزیں جو روایتی معاشروں میں لوگوں کو اپنے تعلقات سے ملا کرتی تھیں، سرمایہ دارانہ نظام کے بعد یہ چیزیں Outsource کرکے مارکیٹ اور معاشی اداروں کے سپرد کر دی گئیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال سروس اکانومی کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے، اور اس کی ترقی یافتہ شکل فلاحی ریاست پر مبنی معیشت (Caring Economy) میں دیکھی جا سکتی ہے __

(۳) Product Cycles

سرمایہ دارانہ نظام کی ضروریات اور جدید نظامِ زندگی کو قائم و دائم رکھنے کے لیے جو اشیاء و خدمات (Goods & Services) مارکیٹ میں آتی ہیں، انہیں "پراڈکٹ سائیکل" (Product Cycles) کہتے ہیں۔ یہ کوئی اشیاء (Goods) بھی ہو سکتی ہیں یا پھر خدمات (Services) بھی ہو سکتی ہیں، یعنی ایسی اشیاء و خدمات پیدا کرنا جو تاریخ میں موجود ہی نہیں تھیں جیسے نئی نئی اشیاء و خدمات پیدا کر کے انہیں لوگوں کی زندگی کا حصہ بناتے چلے جانا، آج اسی بنیاد پر پوری "یونیورسل مارکیٹ سولائزیشن" (Universal Market Civilization) قائم ہو چکی ہے۔ جیسے: ٹشو پیپر، اسمارٹ واچ، برقی دانتوں کا برش، ایئرفونز، روبوٹ ویکیوم کلینر، فٹنس بینڈ، اور اسی طرح کی مزید نئی نئی چیزیں مسلسل پیدا کی جا رہی ہیں۔

جبکہ اس کے برعکس کچھ خدمات (Services) ایسی ہوتی ہیں جو روایتی معاشروں میں بھی موجود تھیں، جیسے: ماں بچوں کی پرورش کرتی تھی، لیکن آج یہ کام ڈے کیئر سینٹر کے پاس چلا گیا۔ بوڑھوں کی دیکھ بھال جو روایتی معاشروں گھروں میں ہی کی جاتی تھی، آج وہ اولڈ ایج ہوم کے سپرد کی جا چکی ہے۔ لیکن ان چیزوں کا تعلق "سوشل پلاننگ" سے ہے، "پراڈکٹ سائیکل" سے نہیں __

سرمایہ دارانہ نظام نے تین چیزوں ٹاؤن پلانگ، سوشل پلانگ اور اکنامکس پلانگ کے بعد جو معاشرت تخلیق کی اس کے نتیجے مں پانچ بڑے مسائل نے جنم لیا جو انسانی تاریخ میں کہی موجود نہیں تھے۔

(۱) صحت Health
(۲) تعلیم Education
(۳) صفائی Hygiene
(۴) روزگار Employment
(۵) جرم Crime
(۶) غربت Poverty

یہ مسائل جنہیں آج ہم فطری مسائل سمجھتے ہیں،انسانی تاریخ میں کبھی پیدا نہیں ہوئے تھے __

(۱) Poverty & Employment

روایتی معاشروں میں ذرائع پیداوار بینک، فرم اور کارپوریشنوں کے بجائے خاندان، برادری اور قبیلوں کے پاس ہوا کرتے تھے، اور لوگ اپنے اپنے خاندان، برادری اور قبیلوں میں رہا کرتے تھے، جہاں یہ لوگ اپنے لئے پیداوار بھی کرتے اور اپنی پیدا کی ہوئی اشیاء کو خود استعمال بھی کرتے۔ یعنی خاندان ایک Productive Unit بھی تھا اور Consuming Unit بھی تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان معاشروں میں لوگوں کو غریب ہونے کا کوئی ڈر نہ ہوتا، لیکن پھر بھی اگر کوئی غریب ہو جاتا تو جب بھی وہ اپنی برادری کا حصہ رہتا، جہاں اسے صرف اس بات کا ڈر رہتا کہ کوئی اسے خاندان، برادری یا قبیلے سے نکال نہ دے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر کوئی شخص خاندان کا حصہ ہوتا، تو خاندان ہی سے اس کی کفالت ہوتی رہتی تھی۔

تمام تہذیبوں میں غریب ہونے کا مطلب صرف معاشی غریب ہونا نہیں تھا۔ احادیث میں غریب کا مطلب معاشی غریب ہونا نہیں، جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے: غریب ہے وہ قرآن جو کسی ظالم حکمران کے ہاتھ میں ہو، غریب ہے وہ مسجد جہاں لوگ نماز پڑھنے نہ آئیں۔ روایتی معاشروں میں خود کو غریب رکھنا ایک بہت بڑی قدر تھی، اور اس کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے ہم اسے فقر کہتے ہیں۔ مذہبی تہذیب میں فقر اختیار کرنا ایک نیکی کی علامت سمجھا جاتا تھا، جو Dignified Poverty کہلاتی ہے۔ مذہبی معاشروں میں مسابقت نیکی اختیار کرنے میں ہوتی تھی۔

تمام روایتی تہذیبوں میں Needs کو Define کرنے کا Mechanism اور انہیں Fullfil کرنے کی Capacity لوگوں کے پاس تھی۔ مثال کے طور پر ایک دیہات ہے جہاں لوگ رہ رہے ہوتے ہیں، وہاں ان کی ضروریات بھی اسی دیہاتی ماحول (Ecology) سے آ رہی ہوتی تھیں، جیسے وہاں مکان بنانے، پانی نکالنے اور آگ جلانے کی صلاحیت لوگوں کے پاس موجود ہوتی ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے بعد Needs کو Define کرنے کا Mechanism اور انہیں Fullfil کرنے کی Capacity دونوں ہی لوگوں کے ہاتھوں سے نکل کر ریاست اور مارکیٹ کے ہاتھوں میں چلی گئیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو گاؤں میں کھانا بنانا ہوتا ہے تو وہ لوگ لکڑیاں جمع کرکے بنا لیتے ہیں، لیکن اگر شہروں میں کھانا بنانا ہو تو لوگوں کو لازمی ریاست سے سوئی گیس کا Connection لینا پڑتا ہے کیونکہ شہری زندگی اور جدید تعمیراتی عمارتوں میں لکڑیاں جلانا ممکن نہیں۔

اور یہی سے جدید غربت نے جنم لیا، جسے ہم Objectified Poverty کہتے ہیں، کیونکہ ایک ایسی معاشرت یا نظامِ زندگی جس میں غربت پیدا ہو رہی ہوتی ہے اور پراڈکٹ سائیکل کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا انجن مستقل نئی نئی اشیاء و خدمات (Goods & Services) پیدا کر رہا ہوتا ہے، جس سے لوگوں کی ضروریات مستقل Redefine ہو رہی ہوتی ہیں۔ جبکہ مذہبی تہذیب کا بنیادی مقصد لوگوں کو Domination of Want سے آزاد کرانا ہے، جبکہ ترقی کا بنیادی منہج لوگوں کو Domination Of Wants میں لانا ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے جہ جدید انسان ایک Perpetual Needy Individual ہوتا ہے، یعنی دائمی Needy Individual ہوتا ہے، جس کی ضروریات مستقل بڑھتی رہتی ہیں اور اس کے پاس ان ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اگر مارکیٹ اور ریاست ٹھیک چل رہی ہوتی ہے تو لوگوں کے حالات بھی ٹھیک چل رہے ہوتے ہیں، اور اگر ریاست اور مارکیٹ ٹھیک نہیں چل رہے ہوں تو لوگ مر بھی سکتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام نے جدید غربت کا مسئلہ پیدا کیا، جو کہ روایتی تہذیبوں میں تقریباً ناپید تھا لیکن سرمایہ دارانہ معاشرت کے نتیجے میں جب غربت کا مسئلہ پیدا ہوا تو ۱۷۸۹ء میں بے روزگاری (Unemployment) کی اصطلاح ایجاد ہوئی۔ پھر بگڑتے ہوئے معاشی حالات، سرمایاداروں کی مسابقت اور سستی لیبر کی تلاش کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کو بھی روزگار ملنے لگا، اور ریاست کا کام روزگار پیدا کرنا ہوگیا، جبکہ روایتی معاشروں میں کوئی بے روزگار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہاں روزگار کسی میگا مشین کے ذریعے سے پیدا نہیں ہوتا تھا بلکہ روایتی معاشروں میں لوگوں کا اپنا روزگار ہوتا تھا __

(۲) Health & Hygiene

روایتی طب میں مریض ایک Experimental Figure (تجرباتی نمونہ) نہیں تھا بلکہ Experiential Reality (تجرباتی حقیقت) تھا، یعنی مریض کی جو Suffering (تکلیف) ہوتی تھی وہ Personalized Suffering (شخصی تکلیف) ہوتی تھی۔ ترقی بنیادی طور پر کیا ہوتی ہے؟ ترقی بنیادی طور پر Human Agency (انسانی اختیار) کو Impersonal Structure (غیر شخصی ڈھانچے) کے تابع کر دینے کا نام ہے، یعنی وہ معاملات جو شخصی ہوتے ہیں، وہ کسی Organizing Center of Power (طاقت کے منظم مرکز) کے پاس منتقل ہو جائیں۔ اسی لیے روایتی معاشروں میں جو طب تھی وہ Disease Specific (مرض کے لحاظ سے مخصوص) کے بجائے Person Specific (شخص کے لحاظ سے مخصوص) ہوتی تھی، یعنی Person to Person Vary (شخص بہ شخص مختلف) کرتی تھی۔ انسان کو شخصی منہج میں دیکھا جاتا تھا اور تیسرا کام یہ تھا کہ انسان کو کلیت میں دیکھا جاتا تھا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بیمار ہے تو اس کے ماحولیاتی عوامل، جسمانی عوامل، ذہنی عوامل اور روحانی عوامل بھی ہو سکتے ہیں۔ ان تمام عوامل کی بنیاد پر روایتی طب میں علاج کیا جاتا تھا۔ چوتھی چیز جو تھی وہ Food-Medicine Dichotomy (خوراک اور دوا کی دوئی) ہے، جبکہ روایتی طب میں Food-Medicine Dichotomy نہ تھی، لیکن آج جدید انسان کے ذہن میں Food-Medicine Dichotomy موجود ہے، جیسے کھانا اچھا ہوتا ہے اور دوا کڑوی ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر، آج گندم سے بھوسی کو الگ کرکے روٹی بنائی جاتی ہے، اس سے روٹی کی جمالیات میں اضافہ ہوتا ہے اور بھوسی علیحدہ کرکے مارکیٹ میں قبض دور کرنے کے لیے فروخت کر دی جاتی ہے۔

پانچویں چیز یہ تھی کہ جب لوگ نئے نئے صنعتی سرمایہ دارانہ معاشرت میں آنا شروع ہوئے تو انہوں نے ایک نیا ماحول دیکھا، جہاں ان کے آس پاس کا ماحول بالکل مختلف تھا کیونکہ اجتماعی نقل مکانی (Mass Migration) کے نتیجے میں شہروں میں بھیڑ اس قدر بڑھ گئی تھی جس کی وجہ سے گندگی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اسی لیے انیسویں صدی میں ٹی بی کے امراض نے جنم لیا، جس کی بنیادی وجہ شہروں میں ہونے والی بھیڑ تھی، اور یہیں سے Hygiene (صفائی) کا تصور پیدا ہوا، جس کے لیے ایک نظریہ آیا جسے Germ Theory of Disease (امراض کا جرثومہ نظریہ) کہتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ اب جو لوگ بیمار ہوں گے وہ جراثیم، وائرس اور بیکٹیریا کی وجہ سے ہوں گے۔

لہٰذا Germ Theory of Disease کے بعد سے انسانوں کی صحت انسانوں کے ہاتھ سے نکل گئی، جبکہ Germ Theory of Disease سے پہلے انسان کو معلوم ہوتا تھا کہ اسے کیسے صحتیاب ہونا ہے۔ لیکن Germ Theory of Disease کے بعد سے سوال یہ پیدا ہونے لگا کہ یہ کون سا Germ ہے؟ اس کی کیا Classification (درجہ بندی) ہے؟ یہ تو صرف Report (رپورٹ) ہی بتائے گی اور پھر اس کے بعد Doctor (طبیب) ہی بتائے گا کہ آپ صحت مند ہیں یا نہیں __

(۳) Education

روایتی معاشروں میں انسان ایک معاشرتی، روحانی اور اخلاقی وجود تھا، جبکہ صنعتی انقلاب اور سرمایہ دارانہ نظام کے بعد جس معاشرت نے جنم لیا، وہاں انسان خالصتاً ایک معاشی اور سیاسی مخلوق بن گیا اور اس کا بنیادی جوہر Productive & Financial Unit بن گیا۔ لہٰذا مارکیٹ اور ریاست کو چاہیے، اگر وہ کامیاب مارکیٹ اور ریاست بننا چاہتی ہے، تو اپنے ملازمین اور شہریوں پر سرمایہ کاری کرے، جیسے فرسٹ ورلڈ میں ریاست شہریوں کے لیے Recreational Activities یعنی پارک اور سیاحت وغیرہ پر سرمایہ کاری کرتی ہے۔

لیکن چونکہ ہمارا تعلق تیسری دنیا کے ممالک سے ہے، اس لیے یہاں شہریوں اور ملازمین پر اتنی سرمایہ کاری نہیں کی جاتی کیونکہ ہمارے یہاں ابھی تک انفراسٹرکچر ہی کے کام چل رہے ہیں، جبکہ فرسٹ ورلڈ میں اگر دیکھا جائے تو سب سے زیادہ سرمایہ کاری شہریوں پر کی جاتی ہے، کیونکہ اگر ریاست اپنے شہریوں پر سرمایہ کاری کرے گی، جیسے اگر وہ زیادہ پارک بنائے گی، تو بدلے میں اسے زیادہ منافع ہو گا۔ لوگوں کی قوتِ خرید میں اضافہ ہو گا اور قوتِ خرید میں اضافہ اسی وقت ممکن ہے جب لوگوں کا معیارِ زندگی بلند ہو، کیونکہ اگر لوگ غریب اور بے روزگار ہو جائیں گے تو اکنامک انجن، جو اتنی ساری اشیاء پیدا کر رہا ہے، وہ کون خریدے گا؟

لہٰذا جدید تعلیم کا بنیادی مقصد ہے انسان کو Productive Unit میں تبدیل کرنا اور فرد میں سے ذہانت تلاش کرکے اسے خاص منہج پر تعمیر کرنا۔ اگر فرد کو اخلاقیات اور روحانیت سے کاٹ کر خاص منہج پر تعمیر کیا جائے تو انسان ایک Productive Unit بن سکتا ہے۔ اور سرمایہ دارانہ معاشرت میں جدید تعلیم کے تین مقاصد ہیں جنہیں وہ Inculcate کرتی ہے، اور اگر کوئی ادارہ یہ تین کام نہیں کر رہا تو لوگ خود کہیں گے یہ تعلیمی نظام بیکار ہے، کیونکہ صنعتی انقلاب کے بعد یہی تین اعلیٰ اقدار تھیں جو جدید تعلیم کے ذریعے لوگوں میں منتقل کی جانے لگیں:

(۱) Work
(۲) Efficiency
(۳) Discipline

ایک بچہ جو جدید تعلیم حاصل کر کے کسی اسکول سے نکل رہا ہے، اور اگر وہ کام کے معاملے میں سست ہونے کے بجائے Efficient اور Discipline ہے، تو لوگ خود کہیں گے کہ یہ تعلیمی نظام بہترین ہے اس کے برعکس اگر یہ تینوں چیزیں نہیں ہو رہی ہو، اس کے بجائے تعلیم کردار پیدا کر رہی ہو، تو لوگ خود کہیں گے کہ یہ تعلیمی نظام ٹھیک نہیں ہے۔

کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں کردار اور صلاحیتوں کی تقسیم واضح ہے۔ کردار کی وہ اہمیت نہیں ہوتی جو صلاحیتوں کی ہوتی ہے، یعنی کردار کم سے کم ہوتا جائے اور صلاحیتیں بڑھتی اور نکھرتی جائیں۔ ایک سیکولر معاشرے میں رہنے اور صنعتی معاشرے کو چلانے کی بنیادی شرط صلاحیتیں ہیں، جبکہ اس کے برعکس مذہبی معاشروں میں سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی صوفی یا بزرگ درس دیتا ہے تو لوگ اس کے گرد جمع ہوتے ہیں، کیونکہ وہ ایک روحانی مخلوق ہوتا ہے، چاہے اس میں صلاحیت ہوں یا نہ ہوں۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کے لیے کردار کی نہیں بلکہ صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک سیکولر معاشرے میں کردار کو نہیں، صلاحیتوں کو تلاش کیا جاتا ہے۔ لوگوں کے کردار کے بجائے ان کی Capabilities دیکھی جاتی ہیں، کیونکہ کردار دیکھنا ایک غیر سیکولر عمل ہے جس سے آپ ایک اقداری بحث کی جانب چلے جائیں گے، کیونکہ اقداری علم کو کردار کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ اقتداری علم کو صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

لہٰذا بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام نے جو تیسری چیز پیدا کی، اسے ڈیسیپلن کہتے ہیں۔ مذہبی معاشرے میں رعب اور ضبط کا مرکز انسان کے اندر تھا، جبکہ ڈیسیپلن ایک ایسی چیز ہوتی ہے جس میں رعب اور ضبط کا مرکز باہر ہوتا ہے۔ ایک انسان کو اندر سے ڈھالنے کا نام ہے، جبکہ دوسرا انسان کو باہر سے بنانے کا نام ہے۔ ڈیسیپلن (Discipline) بنیادی طور پر Organization Behaviour کو کہتے ہیں۔

دنیا کی ہر بڑی یونیورسٹیوں میں مینجمنٹ سائنس میں Organization Behaviour کے کورسس کرائے جاتے ہیں۔ جدید انسان چونکہ ادارتی (Institutional) مخلوق ہے اور اس کی پیدائش ہسپتال میں ہوئی ہے اور اسے آگے بھی اپنی زندگی اداروں میں گزارنی ہے، لہٰذا اگر اسے ایک اچھی مخلوق بننا ہے تو اسے Organization Behaviour سیکھنا ہوگا لہذا ڈیسیپلن یافتہ مخلوق جو ہوتی ہے وہ اپنے باہر کے اصولوں کے مطابق چل رہی ہوتی ہے۔

جیسے اگر کوئی یورپ اور امریکہ جائے تو وہ دیکھے گا کہ وہاں ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم میں رکھوانے سے زیادہ بڑا جرم سگنل توڑنا ہے، جبکہ بہت سے لوگ یورپ سے آکر بتاتے ہیں کہ ہم نے وہاں سے بہت اعلیٰ اقدار سیکھیں۔ دراصل یہ لوگ ڈیسیپلن کو اخلاق کے ساتھ مدغم کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ سب سے اعلیٰ اقدار کے حقدار تو ان کے والدین ہیں۔ اگر یورپ میں اتنے ہی اعلیٰ اقدار ہیں تو ان کے والدین اولڈ ایج ہوم میں کیوں رہتے ہیں؟ جن کے بارے میں خدا کا حکم ہے: "انہیں اُف تک نہ کہو"۔

لہٰذا جدید تعلیم اگر یہ تین اقدار Work, Efficiency اور Discipline کو لوگوں میں Inculcate کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ بہت ہی اعلیٰ مخلوق پیدا کر رہی ہے __

(۴) Crime

جدید سرمایہ دارانہ معاشرت میں لوگ چونکہ کسی خاندان، برادری یا قبیلوں میں نہیں رہتے اور ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام میں بہت بڑی بڑی تعداد محرومین کی ہوتی ہے، لہذا یہی محرومی جرائم کو جنم دینے کی بنیادی وجہ بنتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی کامیابی یہ ہے کہ صرف پانچ فیصد اقلیت کو نوازا جائے اور باقی اکثریت کے لیے ان پانچ فیصد لوگوں کی زندگیاں مشعلِ راہ بن جائیں۔ اس لیے اسی فیصد لوگ جدید نظامِ تعلیم میں صرف اسی لیے شمولیت اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ محرومی سے نکل کر کسی طرح اس پانچ فیصد اقلیت میں شامل ہو سکیں کیونکہ انہیں بتایا جاتا ہے کہ اگر وہ اسکول نہیں جائیں گے تو وہ محروم رہ جائیں گے۔

سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسا نظام ہے جس میں ہر وقت ہر کسی کو محروم ہو جانے کا خوف ہوتا ہے کیونکہ Scarcity کے تصور کے مطابق دنیا میں موجود وسائل محدود ہیں، جبکہ انسانی خواہشات لامحدود ہیں۔ اسی لیے ان وسائل کو صرف مسابقت کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو مسابقت میں پیچھے رہ جاتے ہیں، پھر وہ مختلف طریقے سے ردِ عمل کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مجرم بن جاتے ہیں، کچھ پاگل ہو جاتے ہیں، کچھ چور بن جاتے ہیں، کچھ کے ساتھ کچھ اور مسائل ہو جاتے ہیں۔

پھر انہیں کھپانے کے لیے فلاح و بہبود (Welfare State) کا نظام آتا ہے۔ جبھی ہم دیکھتے ہیں کہ صنعتی انقلاب کے بعد جب یہ پانچ بڑے مسائل پیدا ہوئے، تو انیسویں صدی کے شہروں میں یہ چار مراکز بنے جو شہری زندگ

Address

Karachi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Hamza Ali posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Hamza Ali:

Share