17/11/2025
اصول پرستی کی جیت: بنگلہ دیش نے دنیا کو ایک مثال دے دی
بنگلہ دیش کی سیاست اور معاشرت نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ قومیں صرف معاشی ترقی سے نہیں بنتیں، اصل بنیاد کردار اور اصول ہوتے ہیں۔ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش کی معیشت نے بڑا سفر طے کیا۔ فی کس آمدن 2500 ڈالر تک پہنچی، رواں سال یہ 2700 ڈالر ہو گئی، فارن ریزرو بیس ارب ڈالر سے اوپر گیا، اور ٹیکسٹائل ایکسپورٹ نے دنیا میں اپنا نام بنایا۔ بڑے بڑے برانڈز نے اپنی پروڈکشن ڈھاکہ منتقل کی۔ یہ سب اعداد و شمار واقعی قابلِ ذکر ہیں۔
مگر قوم کا اصل معیار یہ نہیں ہوتا کہ معیشت کتنی مضبوط ہے، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انصاف کے لیے کہاں کھڑی ہوتی ہے۔
جب سرکاری کوٹہ کے خلاف بنگلہ دیش میں احتجاج ہوا تو عوام نے کھل کر آواز بلند کی۔ ریاستی تشدد کے باوجود وہ پیچھے نہ ہٹے۔ انہوں نے واضح کہا کہ چاہے پورا ملک بھی مار دو، پھر بھی ہم نہیں رکیں گے۔ ہماری ایک ہی مانگ ہے: انصاف۔
یہی وہ جرات تھی جس نے دنیا کی نظروں کو اپنی طرف گھما دیا۔
آج اسی حسینہ واجد—جس نے ملک کو معاشی بلندیوں پر پہنچایا—کو نہتے شہریوں پر گولیاں چلانے اور جانیں لینے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی ہے۔ یہ سزا ملتی ہے یا نہیں، یہ الگ بات ہے، لیکن فیصلہ خود میں ایک بڑی مثال ہے۔ اس نے ثابت کیا کہ اصول حکمرانوں سے بڑے ہوتے ہیں، اور انسانی جان کسی بھی معاشی کارکردگی سے زیادہ اہم ہے۔
قابلِ غور بات یہ ہے کہ کوئی بنگالی دانشور یہ نہیں کہہ رہا کہ چونکہ حسینہ واجد نے ملک کو ترقی دی تھی اس لیے انہیں معاف کیا جائے۔ کسی نے نہیں کہا کہ وہ ایکسپورٹس کی بانی تھیں یا انہوں نے فی کس آمدن بھارت اور پاکستان سے دوگنی کی، اس لیے وہ ہیرو ہیں۔
بنگالی قوم ایک نکتے پر متحد ہے:
جو شہریوں پر ظلم کرے، وہ سزا کا مستحق ہے۔ چاہے وہ کتنی ہی کامیابیاں کیوں نہ لے آئے۔
یہ فیصلہ پوری دنیا کے لیے سبق ہے۔ ترقی صرف سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں آتی، ترقی وہاں ہوتی ہے جہاں انصاف کا ترازو ہمیشہ مظلوم کے حق میں جھکتا ہو۔
بنگلہ دیش نے آج ایک اصولی فیصلہ کیا ہے، اور اس فیصلے نے پوری دنیا کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔