جری وجسور، دینی حمیت کےپیکر
مولاناسیدشمس الدین صاحب شہید
(تحریر:محمد زاھدشاہ،مدیر الجمعیة )
سن 1974ء مارچ ہی کا مہینہ اور13تاریخ تھی ، جب شاہراہ عزیمت واستقامت کا عظیم قافلہ سالارمولاناسید شمس الدین ہم سے چھن گیا۔ شہید نے اپنی مختصر عملی زندگی میں جرات و جسارت کے نقوش رفقاء جمعیت کے دلوں پر قائم کئے ۔آپ کوجناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ۖکیساتھ نسبت کا شرف حاصل ہے۔ اس عظیم نسبت کی لاج رکھنے میں آپ نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی،آپ کے آخری خطاب کا یہ جملہ اس کی تابندہ مثال ہے جب انہوں نے رحیم یار خان ایک جلسے میں فرمایا کہ:میں اپنےنانا(حضورعلیہ السلام) کےدین پراس طرح کٹ مروں گا کہ دنیا حیران رہ جائےگی''پھرواقعی وہ نوجوان ختم نبوۃ پر قربان ہو گیااس نےجو کچھ کہا ،وہ کر دکھایا ۔
مولاناشمس الدین شہید 1364ھ میں ژوب (بلوچستان)کے معروف سادات خاندان کے بزرگ مولانا سید محمد زاہد کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور میٹرک ژوب ہائی سکول سے کیا۔ اس کے بعد دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ،مدرسہ مخزن العلوم خان پور ،جامعہ بنوری ٹائون کراچی اور مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں کسب فیض کیا ۔طالبعلمی کے دور میں آپ جمعیت طلبہ اسلام سے وابستہ رہے اور کچھ عرصہ کیلئے بلوچستان کے صدر بھی رہے ۔
دورہ حدیث سے فارغ ہو کر واپس گھر گئے تو 1970ء کے انتخابی ہنگاموں کا آغاز ہو چکا تھا۔ اب جمعیت علما اسلام کا پلیٹ فارم ان کی جولانگاہ بننے والا تھا۔ انہیں عملی سیاست سے اگرچہ کوئی لگا ؤ نہیں تھا لیکن علاقے کے نواب سردار تیمور شاہ جو گیزئی کو بلا مقابلہ کامیاب ہوتے دیکھ کر آپ نے نعرہ مستانہ بلند کیا۔ لوگوں نے ڈرایا، سمجھایا، انجام سے باخبر کیا اور نواب کے غیض و غضب سے بچنے کی تلقین کی ۔مگر تجربہ کار،باوسائل اور طاقتور نواب کے سامنے ایک بے سروسامان اورنا تجربہ کار نواجوان ڈٹ گیا۔ جس کی عمربمشکل 26 سال تھی ۔مقابلہ ہوااور خوب ہوا کہ کاروں اور جیپوں کے مقابلے میں سائیکل سوار اور پیدل کارکنوں نے بھر پور انتخابی جنگ لڑی اور جب نتائج کا اعلان ہوا تو کئی نسلوں سے چلے آنے والے اجارہ دار خاندان کی سیاسی اجارہ داری کا بت دھڑام سے زمین پر آرہا۔ یوں چھبیس سالہ نوجوان نے ایک نواب کو پہلی مرتبہ ہزاروں ووٹوں سے شکست دیدی ، سید شہید کے بقول اس الیکشن مہم میں ان کے کل سات سوروپے خرچ ہوئے۔ جبکہ مد مقابل نواب کے انتخابی اخراجات لاکھوں سے متجاوز تھے ۔
سید شمس الدین شہید کو قدرت نے جرات وبیباکی سے نواز ا تھااور لوگوں نے اس میں چھپے جوہر کو اسی روز دیکھ لیا تھا جب ''سبی ''کے سالانہ دربار میں گورنرریاض حسین قبائلی سرداروں کیساتھ محو گفتگو تھے کہ اچانک دربارمیں اذان کی آواز بلند ہوئی۔ گورنر نے لوگوں سے پوچھا:''یہ کون دیوانہ ہے ؟'' جواب ملا کہ یہ دیوانہ نہیں بلکہ بلو چستان اسمبلی کا نو منتخب رکن مولوی شمس الدین ہے'' پھر اذان دینے کے بعد سیدشمس الدین گورنرکے پاس آئے اور کہا کہ آپ ہمارے حاکم اعلی ہیں، اس لیے آج نماز آپ پڑھا ئیں گے ، گورنر نے معذرت کر دی ۔ بظاہر یہ سیدھا سا واقعہ ہے مگر اس نے مولاناسید شمس الدین شہید کے اندر چھپی ہوئی بے باکی اوربسالت کو نمایاں کر دیا۔
بلوچستان اسمبلی کے باقاعدہ آغاز پر آپ کو صوبائی اسمبلی کا ڈپٹی سپیکر چن لیا گیا۔جبکہ جمعیة علما اسلام کے تنظیمی انتخابات میں جمعیت کے صوبائی امیر کی حیثیت سے جماعتی قیادت کی ذمہ داری بھی آپ کو سونپ دی گئی اور یہ سب کچھ اتنی پر عجلت میں ہوا۔ کہ خودر شک کو بھی رشک ہونے لگا۔ یوں آپ نے 27سال کی عمر میں صوبائی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا۔
بلو چستان اور صوبہ سرحد میں نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومتیں جب قائم ہوئیں تو آپ نے حکومت کے دوران بھی اپنی بے باکی کا جراتمندانہ مظاہرہ فرمایا ۔ بعد از اں جب مخلوط حکومت ختم کر دی گئی تو آپ کو وزارت علیا کالالچ دیا گیا۔ انہی دنوں قادیانیت کے خلاف سرگرم اور فیصلہ کن جد و جہدکر کے آپ نے اس مسئلے کو از سر نو زندہ کیا۔ اسی دوران آپ گرفتاراور اغوا بھی ہوئے ۔ مسلح دستوں کے محاصرے میں رہے اور دنیا میں کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ شمس الدین کہاں ہیں ؟ آپ کیلئے ہڑتالیں ہوئیں، جلوس نکالے گئے ،احتجاجی جلسے ہوئے ،نوجوانوں نے بھوک ہڑتال کی۔ قومی اسمبلی میں واویلا کیا گیا ۔ ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی گئی تب جا کر انہیں ظلم و استبداد کے پنجے سے نجات ملی اور پتہ چلا کہ اس نوجوان کو اسلحے اور ہتھیار کے حصار میں بٹھا کر وزارت اعلی کی پیشکش کی جاتی رہی اور بینک چیک پیش کئے جاتے رہے مگر اقتدار اور دولت اس نوجوان کے سامنے آکر اپنی کشش اور سکت سے محروم ہو چکی تھی۔
قید ہی دنوں کے میں نام نہاد و زیر اعلی جام میرغلام قادر کی طرف سے وزارت علیا کی پیشکش کو اس درویش نے یوں مضحکہ میں ٹال دیا کہ ''ایک قیدی وزیر اعلی کیسے بن سکتا ہے ؟'' پھر وہ منظر کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے ایک اعلی عہدیدار نے سید شہید کو بلایا، بزعم خود سمجھایا اور ایک چیک ہاتھ میں تھما دیا جس پر دستخط تو کئے گئے تھے، مگر رقم کا اندراج نہیں تھا اور کہا گیا کہ تم بھٹو کی حمایت کرو ہم تم کو بلو چستان کا وزیر اعلی بنادیں گے اور چیک پر جتنی رقم تم چاہو لکھ لو ''سید شہید نے چیک پرزہ پرزہ کر کے پھینک دیا اور یہ کہہ کر نکل گئے کہ'' جو شخص خدا کے آگے بک چکا ہو اسے اور کوئی نہیں خرید سکتا "
وقت کے سب سے بڑے شاطرڈپلومیٹ ذو الفقار علی بھٹو نے ڈپلومیسی کے جال میں انہیں پھنسانا چاہا ۔ مگر بھٹو کی عیاری اور ڈپلو میسی بھی اس نوجوان کے ایمان میں نقب نہ لگا سکی۔ چنانچہ جب سید شہید سے کہا کہ''مولوی صاحب آپ لوگ بڑے اچھے ، دیانت داراوربا اصول ہیں صاحب کردار ہیں۔ میں ملک میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں مگر مجھے اچھے ساتھی نہیں ملتے ۔اگر آپ لوگ نیپ کا ساتھ چھوڑ کر میرے ساتھ آ جائیں تو ملک و قوم کیلئے بہت کچھ کر سکتا ہوں''
مولانا شمس الدین شہیدکہنے لگے : ''بھٹو صاحب !یہ ٹھیک ہے کہ ہم با اصول ہیں، لیکن فرمائیے کہ اقتدار کیلئے نیپ کا ساتھ چھوڑنے کے بعد بھی ہم با اصول رہیں گے ؟'' یہ الفاظ سن کر ذوالفقارعلی بھٹو کی زبان گنگ ہو جاتی ہے اور اہل حق کے قافلے کا ایک نوجوان اپنے ایمان اور کردار کی دولت کو صحیح سلامت بچاتے ہوئے کامیاب و کامران واپس پلٹ آتا ہے۔
1972ء میں جب نیپ اور جمعیت کی مخلوط حکومت کو ختم کرنے کے بعد9اور 13کا جھگڑا چلا ۔نیپ اور جمعیت کے تیرہ ارکان تھے اور صوبائی حکومت کے نو(9)ارکان تھے۔ لیکن پھر بھی نام نہاد وزیر اعلی جام غلام قادرصوبے کا حکمران بنا رہا۔ عجیب ریاضی تھی عجیب حساب تھا کہ نو،تیرہ سے زائد تھے۔ اس نئے حساب کایوں چرچا ہواکہ پہلے 9میں اضافہ کی کوشش کی گئی اور جب 9 میں اضافہ نہ ہو سکا تو پھر13میں کمی کی گئی اور اس کا پہلا نشانہ مولانا سیدشمس الدین بنے۔ 13مارچ 1974ء کوایک شقی القلب کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنتے وقت ان کی عمر بمشکل تیس برس تھی، لیکن اس مختصر عرصے میں انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ملی سیاست اور کاروان دعوت و عزیمت میں جو مقام حاصل کیا ،وہ یقینا قابل رشک ہے۔ان کی شہادت کی خبر اہل بلوچستان پر بجلی بن کر گری، لوگ سڑکوں پر نکل آئے ،دفعہ 144نافذ کی گئی، لوگ اس ظلم اور بربریت کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ کوئٹہ شہر کے وسط میں 14مارچ 1974ء کی صبح کو پولیس نے غمزدہ ہجوم کو گھیرے میں لے لیا پہلے قندھاری بازار کو "لاک"کیا مگر ہجوم آگے بڑھتا رہا۔ آنسو گیس کی شیلنگ ہوئی ، پھر بے تحاشا فائرنگ کی گئی۔ بی بی سی کے مطابق چھ افراد اس سانحہ میں مارے گئے اور کئی کو گرفتار کر لیا گیا۔ پھر دفعہ 144کی خلاف ورزی پر مقدمہ چلا۔ وکلاء میدان میں کو دے اور تیرہ تیرہ وکلا ایک ایک مقدمہ میں پیش ہونے کیلئے تیار ہوئے۔
یہ سید شمس الدین کی مجاہدانہ زندگی کی چند جھلکیاں تھیں، انہی کارناموں کے باعث قافلہ ولی للہی کے ہر فرد نے ان کی شہادت کو اپنے گھر کا غم سمجھا۔آج سید شمس الدین شہید ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کی خدمات ، جدو جہد ، کردار ، روایات اور جرات و جسارت کے ناقابل فراموش مظاہرکھلی کتاب کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
آئیے!عہد کریں کہ شمس الدین شہید کی یاد کو اپنے عمل میں ہمیشہ زندہ رکھیں گے اور اس عظیم مرد قلندر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حق و صداقت اور عدل و انصاف کی جدوجہد کو اپنی صلاحیتوں اور وسائل کا خراج پیش کرتے رہیں گے کہ زندہ قومیں اپنے شہیدوں کی یاد میں اسی طرح تازہ رکھتی ہیں۔
29/08/2024
بدنام زمانہ
لکھ دیا ڈیلی میل نے
29/08/2024
چلو وڑگیا کے بعد ڈرررر /ٹرررر بھی دیکھ لیں
یوتھیوں کمر کس لو اس پر ویڈیو بنانے کے لئے
Expose
29/08/2024
30 برس بعد کفن سلامت
میں ابھی اس وائرل ویڈیو کی تصدیق کے حوالے سے احرار کے جنرل سیکریٹری محترم ڈاکٹر عمر فاروق احرار صاحب کو فون کرنے کا سوچ رہا تھا کہ ان کی پوسٹ نظر سے گزر گئی۔ انہوں نے تصدیق کی ہے کہ جانشین امیر شریعت حضرت مولانا سید ابو معاویہ ابوذر بخاری نور اللّٰه مرقدہ کا مرقد حالیہ شدید بارشوں کے دوران کھل گیا۔ قبرستان جانے والے کسی بھائی نے اس کی ویڈیو بھی بنا دی۔ جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کھلی قبر کے اندر سے کفن نظر آرہا ہے۔ حالانکہ آپ کی وفات کو کم و بیش 3 عشرے (30 برس) گزر چکے ہیں۔ تاہم قبر پر جلدی مٹی ڈال دی گئی۔ بلاشبہ یہ حضرت کی ایک کرامت ہے۔ حق تعالیٰ اپنے نیک بندوں کے ساتھ ایسا خصوصی معاملہ فرماتے ہیں۔ جس کے کئی نظائر موجود ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر صاحب سے اس حوالے سے تفصیلی مضمون لکھنے کی درخواست کی ہے اور انہوں نے وعدہ بھی فرمایا ہے۔
بشکریہ ضیاء چترالی
Be the first to know and let us send you an email when Jamiat News HD posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.