کیا واقعی لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی اچھے ماحول کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہے؟ یا پھر مردوں کے دل میں یہ خاموش خدشہ موجود ہے کہ پڑھی لکھی عورتیں اپنے حقوق اور خودمختاری ک....
Whether you’re looking to enhance your meditation practice or attract more positive energy into your life, Crystal Quartz is a powerful ally.Make sure to lik...
30/04/2025
نکاح جیسا مقدس رشتہ… ہمارے ہاتھوں مذاق کیوں بن گیا ہے؟
ایزل خان
جیسے جیسے معاشرہ تعلیم یافتہ ہوتا جا رہا ہے، طلاق کی شرح میں اضافہ بھی دیکھا جا رہا ہے۔ کئی لوگ اس بات پر اپنی رائے دیتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ عورتیں اب کم برداشت کرتی ہیں، جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ خواتین کی زبان زیادہ دراز ہو گئی ہے۔ لیکن میرے خیال میں شادی شدہ زندگی کی ناکامی کے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید یہ تمام وجاہات مل کر یہ مسئلہ پیدا کرتی ہیں۔
آج کے تعلیم یافتہ دور میں بھی، بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نکاح کی اصل اہمیت اور مقصد کو پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جب انسان بڑا ہو جائے تو شادی کرنی چاہیئے یا پھر سوسائٹی میں جب دیگر لوگ شادی کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں بھی شادی کرنا ضروری لگتا ہے۔ لیکن اکثر ان کے ذہن میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ شادی صرف ایک معاشرتی رسم نہیں بلکہ ایک بڑی زمہ داری بھی ہوتی ہے۔
شادی کے بعد اگر شوہر کے پاس اتنے مالی وسائل نہ ہوں یا کوئی مشکلات درپیش ہو، تو یہ ضروری ہوتا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو حوصلہ دے اور طنز یا طعنے دینے کی بجائے مل کر زندگی کی راہ کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ فلاں کی بیوی نے اتنی شاپنگ کی، آپ نے میرے لئے کیا کیا ہے۔ اس طرح کے مادی تقاضے ان کے رشتے میں تلخی پیدا کر سکتے ہیں۔
ان حالات کے باعث بعض لڑکیاں غلط راستے اختیار کر لیتی ہیں اور ناجائز تعلقات قائم کر لیتی ہیں، جو نا صرف ان کی اپنی شادی شدہ زندگی کو نقصان پہنچاتے ہیں، بلکہ ان کے والدین کے لئے بھی شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔ شادی کا اصل مقصد محبت، بھروسہ، احترام اور ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے۔ معاشرتی دباؤ کے بجائے ان اصولوں کو بنیاد بنا کر زندگی گزارنی چاہیئے۔
آج میں آپ سب کے ساتھ ایک دل کو چھو جانے والی حقیقت پر مبنی کہانی شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ علاقے میں جہاں میں رہتی ہوں، وہاں ایک لڑکی کے بارے میں سننے کو ملا، جس کی شادی ایک سال پہلے ختم ہو گئی تھی، لیکن اس کی زندگی کی مشکلات یہاں ختم نہیں ہوئیں۔ اس لڑکی کی دو بڑی بیٹیاں اور ایک چھوٹا بیٹا تھا۔ اس کی شادی شدہ زندگی مالی اعتبار سے بہتر تھی کیونکہ شوہر ان کے تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی پیسے بھیجتا تھا۔ تاہم، اس کی خواہشات ابھی بھی تشنگی کا شکار تھیں۔
لڑکی نے اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کی کوشش میں ایک لڑکے سے فون پر بات چیت کرنا شروع کر دی۔ کچھ عرصہ بعد اس نے اس لڑکے کے ساتھ بھاگ کر سسرال چھوڑ دیا۔ تاہم، اس کے شوہر کی محبت اور ان دونوں کی بیٹیوں کی خاطر اس نے اپنی بیوی کو معاف کر دیا اور اسے گھر واپس بلا لیا۔ پھر بھی، یہی سب کچھ دوبارہ رونما ہوا، اور نتیجتاً شوہر نے اسے طلاق دے دی، جرگے کے فیصلے کے مطابق دونوں بڑی بیٹیاں اپنے باپ جبکہ چھوٹا بیٹا ماں کے حصے میں آیا۔
یہ کہانی ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ زندگی میں فیصلے کرتے وقت ہمیں کس قدر محتاط رہنا چاہیئے اور تعلقات میں وفاداری اور اعتماد کی اہمیت ہوتی ہے۔ کچھ مہینے اس لڑکی نے اپنے والد کے گھر میں گزارے، جہاں اس کی شادی ایک شخص سے ہوئی جسے پہلے سے طلاق ہو چکی تھی اور اس کے تین بچے تھے۔ شادی کے بعد یہ لڑکی بہت خوش تھی اور سب کچھ اچھا چل رہا تھا۔ کچھ عرصہ بعد، لڑکی حاملہ ہوگئی۔ ابھی دو دن پہلے مجھے اطلاع ملی کہ اس لڑکی کی ایک دوسری شادی شدہ مرد کے ساتھ فون پر دوستی ہو گئی تھی۔ یہ مرد عمر میں بڑا تھا اور وہ بھی شادی شدہ اور اس نے لڑکی کو کافی پیسے بھی بھیجے تھے، جو وہ اب واپس مانگ رہا ہے۔
جب اس معاملے کے بارے میں لڑکی کے شوہر اور ساس کو علم ہوا تو نتیجہ یہ نکلا کہ جب بچہ پیدا ہو گا، تو لڑکی کا شوہر اسے طلاق دے دے گا۔ جب میں نے یہ بات سنی تو میرا دل دہل گیا، کیونکہ ماں کی کی گئی بے وفائی کے باعث چار معصوم بچوں کی زندگیاں برباد ہوگئیں۔
نکاح جیسا پاکیزہ عمل ہمارے معاشرے میں کیوں مذاق بن گیا ہے؟ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ شادی کے بعد مرد و عورت ایک دوسرے کے پابند ہیں۔ نہ لڑکی کو اپنی ذاتی خواہشات اور مالی فوائد کی خاطر بے وفائی کی اجازت ہے، نہ مرد کو باہر کے تعلقات کا حق ہے۔ اگر شادی شدہ جوڑا ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنا پسند نہیں کرتا تو بہتر طریقے سے رشتہ ختم کریں، لیکن ایسی گھٹیا حرکات سے ایک دوسرے کے اعتماد کو مجروح نہ کریں۔
یہاں پر بات صرف عورتوں کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں بعض مرد حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ بیرون ملک رہتے ہوئے انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے، اور اس دوران ان کی بیویوں سے وفاداری کی امید رکھتے ہیں، لیکن خود اپنی زندگی میں بے وفائی کرتے ہیں۔
چند دن پہلے جب میں اپنے شوہر سے فون پر بات کر رہی تھی، جو بیرون ملک کام کرتے ہیں، تو میں نے ان کے روم میٹ کی آواز سنی جو بہت غصے سے کسی لڑکی سے بات کر رہا تھا۔ جب میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ معاملہ کیا ہے، تو انہوں نے بتایا کہ ان کا روم میٹ ایک لڑکی سے کچھ سالوں سے بات کر رہا ہے، اس وقت ان دونوں کا جگڑا چل رہا تھا، حالانکہ اس شخص کے چار بچے اور بیوی ہے۔
میرے شوہر نے بتایا کہ وہ لڑکی کو ہر دو تین دن بعد چالیس پچاس ہزار پیمنٹ بھیجتا ہے جبکہ اپنی بیوی کو پچھلے دو مہینے سے ایک روپیہ نہیں بھیجا ہے۔ جب میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو کیا کہتے ہیں، تو جواب ملا کہ اس نے اپنی بیوی کو کہہ دیا ہے کہ میرا کام نہیں ہے۔
یہ صورتحال میرے لیے بہت حیرت انگیز اور افسوسناک تھی۔ میں سب لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتی ہوں کہ اللہ نے جو رشتہ آپ کے لیے بنایا ہے، وہ بے حد خوبصورت ہے، اسی میں اپنی خوشی تلاش کریں۔ ہر انسان میں کچھ نہ کچھ کمی ہوتی ہے، مگر کوشش کریں کہ ایک دوسرے کو سمجھا سکے اور ہر حال میں خوش رہنا سیکھیں۔
آپ کی بیوی آپ کے گھر آپ کے نام پر بیٹھی ہے، چاہے وہ ظاہری طور پر خوبصورت نہ ہو، مگر اس کا دل اور اس کی مخلصی بے پناہ خوبصورت ہیں۔ عورتوں اور لڑکیوں کو یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اپنے شوہر کو ہر حال میں سپورٹ کریں، لعن طعن سے اجتناب کریں اور اپنی خواہشات کے لئے غلط راستے یا باہر کے مردوں کی طرف نہ دیکھیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ وفاداری اور مخلصی کی بنیاد پر اس پاکیزہ رشتے کو مضبوط بنائیں اور نکاح جیسے مقدس عمل کو داغدار نہ ہونے دیں۔
problems
22/03/2025
نظر انسان کو قبر تک اور اونٹ کو ہانڈی تک پہنچا دیتی ہے، حقیقت یا محض قیاس آرائی ؟
مزید تفصیل اس لنک میں https://tnnurdu.com/blog/157939/
نظر بد کی بدولت ماں باپ اپنے جوان بیٹے یا بیٹی کو کھو بیٹھ سکتے ہیں، جو ان کے بڑھاپے کی امید ہوتے ہیں۔ بوڑھے والدین اکثر جوان بیٹے اور بیٹیوں کی بیماری کا علاج کرانے کے...
12/03/2025
Eid collection 2025
゚
02/03/2025
Eid collection 2025
DM for order now
28/02/2025
High Quality Cynthetic Leather Handbag With 3 Portion
Long Belt Included
*Price 2000
* Free home Delivery
8 Colors Update
Contact us 03101573273
26/02/2025
جنازہ ہے تو کیا ہوا؟، تم نئی نویلی دلہن ہوں، سج دھج کر جاؤ انکے گھر
پشتون روایات اور تبدیلی کی ضرورت: ایک ذاتی تجربہ
ایزل خان
میرا تعلق پشتون برادری سے ہیں، جو تاریخ سے مالا مال اور وسیع ثقافتی تنوع کی حامل ہے۔ دیگر نسلی گروہوں کی طرح، پشتون معاشرے میں بھی ہر علاقے کے لوگ اپنے منفرد رسم و رواج اور زندگی کا طرز رکھتے ہیں، جو ان کے جداگانہ ہونے کی دلیل ہیں۔
پشتون برادری کی بات کی جائے تو یہ بھی کئی روایات اور رسم و رواج کی حامل ہے جو نسلوں سے چلی آ رہی ہیں، اور یہ لوگ اپنے ابتدائی قول و فعل کے مطابق اپنی ثقافت کو نہایت پیار اور شفقت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ رسمیں مذہبی تعلیمات کے خلاف ہیں اور ان کو مذہب کی روح سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً، بعض پشتون خاندانوں میں خاندانی تنازعات کو انتقام اور خون خرابے کے ذریعے حل کرنے کی روایت عام ہے، جو اسلام میں منع کی گئی ہے کیونکہ اسلام معافی اور صلح کی تعلیم دیتا ہے۔
اسی طرح، بعض مقامات پر خواتین کی تعلیم کو محدود کرنے یا ان کے حقوق کو دبانے جیسی روایات بھی دیکھی جا سکتی ہیں، جو اسلام کی روح کے خلاف ہیں جو علم کی فراہمی اور خواتین کے حقوق کو تحفظ دیتی ہے۔ ان روایات کا ثقافتی پس منظر مضبوط ہو سکتا ہے، لیکن اسلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق ہر فرد کے حقوق اور انصاف کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔
شاید آپ کو میرے ساتھ یہ اتفاق کرنا پڑے کہ جب میں مختلف علاقوں میں غیر مانوس رسمیں دیکھتی ہوں تو یہ کچھ لمحوں کے لیے واقعی مجھےحیران کر دیتی ہیں۔ میں سوچتی ہوں،”یہ رسم و روایات کس طرح وجود میں آئیں ہیں؟ کس نے یہ شروع کیا؟ یہ کب اور کیسے ختم ہونگی؟” خاص کر موجودہ اکیسویں صدی میں، جب تعلیم اور علم کی موجودگی میں اضافہ ہو رہا ہے، پھر بھی ایسے معاملات کو دیکھ کر انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ اس کے باوجود، آج کے نوجوان، خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان نقصان دہ اور غیر ضروری رسومات کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔
میری اپیل ان تمام لڑکیوں اور نوجوانوں سے ہے جو سمجھتے ہیں کہ تعلیم محض کتابوں سے علم حاصل کرنے کا نام نہیں، بلکہ یہ شعور اور علم کو معاشرے میں پھیلانے کا بھی ذریعہ ہے۔ لہذا، ضروری ہے کہ ہم ان رسم و رواج، روایات، اور قدیم طریقوں سے پیچھا چھڑائیں جو اب اہمیت نہیں رکھتے، تاکہ ایک صاف ستھرے اور علم سے بھرپور مستقبل کی تعمیر کی جا سکے۔
یہاں میں آپ کو ایک اپنی ذاتی کہانی اور تجربہ بتاؤں گی کہ جب میری شادی ہوئی تو یہاں کے لوگوں کو میں نے بہت زیادہ روایات میں ڈوبا ہوا دیکھا۔ ہر انسان کی سوچ کچھ نہ کچھ کرنے تک محدود ہوتی ہے جس سے کوئی کہے گا کہ ہائے کیا اچھی روایات پر چل رہے ہیں۔
اس دلدل میں، آپ یہ نہیں دیکھتے کہ میں صرف لوگوں کو خوش کرنے اور متاثر کرنے کے لیے انسانی اخلاقیات اور مذہب سے کس حد تک پیچھے جا رہا ہوں۔ یہ سب میرے لیے بہت حیران کن تھا، میں اس طرح اس دلدل میں کبھی نہیں رہنا چاہتی تھی۔ میں نے یہاں ایک بات نوٹ کی ہے کہ جب خاندان میں کوئی فوت ہو جاتا تو خاندان کی دیگر خواتین، جن میں سے زیادہ تر، نئے کپڑے خریدتی ہیں، جیسے کوئی شادی کی تیاری کرتا ہے۔ اس لیے کہ میت کے گھر بے شمار لوگ آتے ہیں اگر میرے کپڑے بالکل نئے یا ایک جیسے رنگ کے نہ ہو تو لوگ باتیں کرنے لگتے ہیں۔
یا اگر کوئی لڑکی نئی نئی شادی شدہ ہو یا لڑکا نیا شادی شدہ ہو اور دو، تین ماہ یا ایک سال کے اندر گھر یا خاندان کا کوئی فرد فوت ہو جائے تو اہل خانہ یا لڑکی میت والے گھر جاتی ہے۔ تو گھر کی تمام عورتیں دلہن سے کہتی ہیں کہ اپنے آپ کو سجاؤ، اپنے زیورات پہناؤ، خوبصورت کپڑے پہنو، اگر تم سادہ اور بغیر زیور پہننے میت کے گھر جاؤگے تو سب باتیں کریں گے کہ یہ سسرال کے گھر میں خوش نہیں ہے۔
میری شادی کے تقریباً ایک ماہ بعد، میرے شوہر کی خالہ کی انتقال ہو گیا، جب ہم سب ایک فیمیلی کے طور پر وہاں جانے کی تیاری کی تو میں تیار ہو گئی۔ لیکن میں نے سادہ لباس اور حجاب پہنا ہوا تھا، میری نند میرے کمرے میں آئی اور مجھ سے کہا کہ اتنے سادہ حلیے میں میت کے گھر میں نہ جانا، کیونکہ وہاں لوگ باتیں کرے گے۔ میں نے حیرانی سے اس سے پوچھا کہ لوگ کیوں باتیں کرتے ہیں؟ اس نے کہا، "اپنے زیورات پہن لو، اپنا میک اپ کرو، اور اپنے کپڑے بدلو۔” میں اس پر ہنسی اور کہا، "تم مجھ سے مذاق کر رہی ہو، ہم شادی میں نہیں جا رہے، ہم جنازے میں جا رہے ہیں، اس نے کہا، "میں جانتی ہوں کہ ہم جنازے میں جا رہے ہیں۔ یہاں لوگ دلہن کے زیورات نہ پہننے یا خوش نا ہونے کی بات کر رہے ہیں۔”
میرے لیے یہ بات بالکل حیران کن تھی کہ اس دور میں بھی ہمارے ذہن اتنے پسماندہ ہیں۔ حتیٰ کہ جنازوں میں بھی، ہم اپنی سجاوٹ، نئے کپڑوں اور اور کلرز میچ کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں۔جب ہم وہاں پہنچے تو میری نند کی بات سچ تھی۔ لاش گھر میں پڑی ہے اور پورا خاندان سوگوار ہے۔ تمام خواتین ایک دوسرے سے میرے بارے میں پوچھ رہی تھیں کہ کیا اب اس لڑکی کی شادی ہو گئی ہے؟وغیرہ وغیرہ میت کے جنازے پر اسکی بیٹیاں رو رہی تھیں اور تمام عورتوں میں سے کوئی بھی اسے تسلی دینے نہیں آئی۔ ان کی ایک بیٹی بیہوش ہوگئی۔
میں نے اس کی بیٹیوں کو تسلی دی، میں نے بے ہوش لڑکی کو جگایا، تمام خواتین حیرت سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ اگرچہ میں نے لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کے لیے ایسا نہیں کیا، لیکن انسانی ہمدردی اور جذبات نے مجھے مجبور کیا۔ بعد میں، میری ساس، نند اور دیگر خواتین نے مجھے بتایا کہ تمام خواتین آپ کی تعریف کر رہی تھی کہ وہ کتنی با احساس ہیں۔
میں ہمیشہ غیر ضروری رسم و رواج کے خلاف رہی ہوں اور میں ہمیشہ اپنے آپ سے اور اپنے خاندان سے شروع کرتے ہوئے اسے تبدیل کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کرتی آرہی ہوں۔ یہ آسان نہیں تھا، اور میں نے کئی بار اس کے بارے میں ملی جلی باتیں سنی ہیں، لیکن میں ثابت قدم رہی کیونکہ میں جانتی ہوں کہ تبدیلی میں وقت لگتا ہے۔
صرف ایک بار میں نے اپنے گھر والوں کی طرف سے یہ ایک رسم، جس میں خود کو سجانے کی درخواست پر رضامندی ظاہر کی اور وہ بھی اس لیے کہ میری شادی کا اتنا عرصہ نہیں ہوا تھا،ہم ایک دوسرے کی عادتوں کو اتنا نہیں سمجھتے تھے۔
اس کے بعد، میں نے آج تک دوبارہ ایسا نہیں کیا، اور کچھ حد تک، میں نے اپنے سسرال کی فیمیلی میں بھی اس رواج کو کم کیا ہے۔ ذہنوں میں مثبت تبدیلی لانے کی کوشش کریں، چاہے وہ آپ کے بزرگ ہوں یا آپ کے نوجوان، اگر کوئی چیز یا کام اسلام، اخلاقیات، یا انسانیت کے خلاف ہو تو روایت کے نام پر اس کی مخالفت کریں اور عوام میں بیداری پھیلائیں
Tag #بلاگز #بلاگر #حقوق #خواتین کی تعلیم #فرسودہ روایات # پشتون برادری
19/02/2025
آخر پروفیشنلزم ہے کیا؟
ایزل خان
پیشہ ورانہ مہارت ایک ایسی خصوصیت ہے جو ہر کام کے میدان میں کامیابی کے لیے لازم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے کام میں مہارت رکھتے ہوں اور اپنے پیشے کی تمام جدید تکنیکی اور نظریاتی تبدیلیوں سے آگاہ رہیں۔ پیشہ ورانہ مہارت بلاشبہ اعلیٰ معیار کی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے ایک کلیدی عنصر ہے، جس کا مقصد ایک ایسا ماحول بنانا ہوتا ہے جہاں ہر شخص اپنے اخلاقی اور پیشہ ورانہ اصولوں کی پابندی کرتا ہو۔
پروفیشنلزم کے کیا تقاضا ہے؟
اگر ہم پیشہ ورانہ مہارت کے تقاضوں کی بات کریں، تو یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے منتخب کردہ میدان (کام)میں ماہر ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس مخصوص شعبے کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں اور اپنے آپ کو بہتر انسان بننے کے لئے مسلسل محنت کرتے رہیں۔
آپ اپنے آپ کو نئی ٹیکنالوجی اور تکنیکوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنا چاہئے تاکہ آپ جدید طریقوں کو اپنا سکیں۔ اس کے علاوہ، آپ کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھے اخلاقی تعلقات بنانا اور ان کے ساتھ تعاون کرنا بھی آنا چاہئے ۔ ان تقاضوں کی پابندی کر کے ایک پیشہ ور نہ صرف اپنے کیریئر کو اگے بڑھا سکتا ہے بلکہ اپنے ادارے کے لیے بھی ایک قیمتی، فایدہ مند انسان بن سکتا ہے۔
آج کل بہت سی لڑکیاں اور خواتین آنلائن کام کرتی ہے،جیسے کہ آنلائن کاروبار ،فری لانسنگ،نیٹورک مارکیٹنگ ،ٹیچنگ،اور بھی بہت سی آنلاین کام ۔۔۔
اس سے بہت سے لوگوں کو آنلائن کام کرنے کے مواقع کھل جاتی ہے لیکن بد قسمتی سے اسکے ساتھ ساتھ ایک چیز بہت تیزی سے چل رہی ہے، وہ ہے آنلائن ہراسمنٹ ، اس کے کونسی وجوہات ہوسکتی ہے؟
اس کی کچھ وجوہات ہوسکتی ہے،جیسے کہ حالات کا پیچیدہ ہونا، لوگوں کے رویوں میں تبدیلی، یا بعضی اوقات لڑکیاں اپنی مجبوریاں بتاتی ہے کہ ہم کیوں جاب کرنا چاہتی ہیں،جس کے نتیجے میں باس فری ہونی کے کوشش کرتا ہے، اور لڑکیوں کو سبز باغ دیکھاتے ہے۔
بعض کیسز میں یہ بھی ہوتا ہے، لڑکیوں کو کہتا ہے کہ میں آپ کے ضروریات پوری کرتا ہوں یا ہیلپ کرنا چاہتا ہوں،لڑکیاں دھوکہ کھا جاتی ہے۔
پھر باس مختلف ڈیمانڈز کرتے ہے،لڑکیاں پھنس چکی ہوتی ہے وہ ہر بات ماننے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔اسی طرح اور بھی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہے ۔
ایسی صورتحال میں لڑکیوں کو کیا کرنا چاہئے ؟
ایسی صورتحال میں، لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ سائبر سیکیورٹی کے بارے میں آگاہی حاصل کریں۔ اس کے علاوہ، آن لائن ہراسانی کی صورت میں فوراً متعلقہ ویب سائٹ پر رپورٹ کرنا اور اگر ممکن ہو تو قانونی مدد حاصل کرنے کے بارے میں بھی غور کرنا چاہئے۔
موجودہ قوانین کے تحت اپنی حفاظت کے حقوق کا علم بھی ہونا ضروری ہے اور لڑکیوں کو چاہئے کے اپنی بہن،بہائی اور والدین کو آگاہ کریں، والدین کو چاہئے کے متاثرہ لڑکی کی مدد کریں غصے اور سختی سے کام نہ لیں کیونکہ یہ مسئلہ بگاڑ سکتی ہے، ایسی طرح خواتین کو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی پرائیویسی سیٹنگز کو بہتر بنانا چاہیے۔
اس سے ان کی ذاتی معلومات صرف قابل اعتماد افراد تک محدود رہیں گی اور اجنبیوں کے لیے ان تک رسائی مشکل ہو جائے گی۔
اور آن لائن خواتین کو محتاط رہنا چاہئے اور اپنی ذاتی معلومات جیسے ایڈریس، فون نمبر، اور ذاتی زندگی کے بارے میں کسی بھی غیر ضروری تفصیلات کو شیئر کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔
دھمکیاں اور توہین آمیز پیغامات رپورٹ کرنے چاہئے اگر کسی بھی خاتون کو آن لائن دھمکیاں یا توہین آمیز پیغامات ملیں، تو انہیں فوراً اس پلیٹ فارم کے انتظامیہ کو رپورٹ کرنا چاہئے تاکہ فوری کارروائی کی جا سکے۔
پروفیشنل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارمز پر محتاط رہنا چاہئے جب خواتین آن لائن نوکریوں کے لیے درخواست دیتی ہیں، تو انہیں ہمیشہ یقین دہانی کرنی چاہئے کہ جو کمپنی یا فرد ان سے رابطہ کر رہا ہے، وہ جائز اور قابل اعتماد ہیں۔ بے بنیاد اور مشکوک درخواستوں سے بچنا ضروری ہے
آن لائن خود کو مضبوط بنانا چاہئے خواتین کو اپنے حقوق اور آن لائن ہراسانی کے قوانین کے بارے میں آگاہی حاصل کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کا مقابلہ کرسکیں اور فوری قانونی کارروائی کے لیے تیار رہی
Be the first to know and let us send you an email when Earn Money Online posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.