RSN News

RSN News Rsn news is a news channels

بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسی دماغ ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن کا نام دنیا میں ریاضی اور طبیعات کی عظمت کی علامت سمجھا جاتا...
20/10/2025

بیسویں صدی کے عظیم ترین سائنسی دماغ ڈاکٹر البرٹ آئن اسٹائن کا نام دنیا میں ریاضی اور طبیعات کی عظمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

اس نے کائنات کی ساخت کو سمجھنے کے لیے ایسے اصول اور نظریات دیے جنہوں نے جدید سائنس کی بنیادیں بدل ڈالیں۔ لیکن اس عظیم شخصیت کی نجی زندگی بھی اتنی ہی پیچیدہ اور متنازع ہے جتنی اس کی سائنسی دریافتیں۔ خاص طور پر اس کی پہلی بیوی ملیوا ماریچ کی کہانی ایک ایسا باب ہے جسے اکثر نظرانداز کیا گیا۔ یہ وہ عورت تھی جس نے اپنی ذہانت، قربانی اور محنت کے باوجود تاریخ کے دھندلکوں میں اپنا نام کھو دیا، حالاںکہ کئی ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر ملیوا نہ ہوتی تو شاید آئن اسٹائن کی شہرت بھی اس طرح نہ بنتی۔

آج البرٹ آئن اسٹائن کا نام تو ہر خاص و عام نے سنا ہے، لیکن ان کی پہلی بیوی ملیوا ماریچ کی شخصیت اور ان کے ممکنہ سائنسی تعاون کی داستان زیادہ تر تاریخی صفحات میں ہی دب کر رہ گئی ہے۔

یہ محض ایک رومانوی کہانی نہیں، بلکہ ایک ایسی ذہین خاتون کی تکلیف دہ داستان ہے جس نے اپنے کیریر کی قربانی دے کر آئن سٹائن کی کام یابیوں میں ناقابل فراموش تعاون دیا، مگر آخرکار گم نامی اور تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئی۔ یہاں ان دونوں کے تعلق کے مختلف پہلوؤں کو معتبر ذرائع کی روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔

ملیوا ماریچ: ایک غیرمعمولی ذہین اور پختہ عزم رکھنے والی خاتون، ابتدائی زندگی اور تعلیمی سفر:ملیوا ماریچ اگست 1875 میں سربیا کے ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد اپنے علاقے کے معزز اور مال دار شخص تھے۔ ابتدائی تعلیم میں ہی ان کی غیرمعمولی ذہانت کے جوہر کھل کر سامنے آئے۔ ایک لڑکی ہونے کے باوجود، انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا عزم کرلیا، جو اس دور میں لڑکیوں کے لیے آسان نہیں تھا۔

زیورخ میں واقع سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ETH) میں داخلہ لینا ان کا خواب تھا، لیکن اس وقت یہ ادارہ صرف لڑکوں کے لیے تھا۔ ملیوا کے والد نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے محکمۂ تعلیم سے خصوصی اجازت حاصل کی، جس کے تحت انہیں زیورخ میں فزکس کے لیکچرز لینے کی اجازت مل گئی۔ یہ اس دور میں لڑکیوں کے لیے تعلیمی میدان میں ایک بڑی کام یابی تھی۔

شخصیت اور صلاحیتیں: ملیوا کے ہم جماعت انہیں نہایت ذہین اور کم گو لڑکی کے طور پر بیان کرتے تھے۔ وہ چیزوں کی گہرائی تک پہنچنے کی دل دادہ تھیں اور انہیں لیب ورک اور تجربات میں خاصی مہارت حاصل تھی۔ ان کی منظم طبیعت اور سائنسی صلاحیتیں بعد میں آئن اسٹائن کی بے ترتیب زندگی کو سنوارنے میں معاون ثابت ہوئیں۔

البرٹ آئن اسٹائن: ایک باغی اور غیرروایتی طالب علم، ابتدائی سال: البرٹ آئن اسٹائن 14 مارچ 1879 کو جرمنی کے شہر اولم میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ہرمین آئن اسٹائن ایک صنعت کار تھے جب کہ اس کی ماں پالین کوش ایک زمیںدار کی بیٹی تھی۔ آئن اسٹائن شروع سے ہی متجسس اور باغی طبیعت کا مالک تھا۔

اس کی باغیانہ طبیعت اور ڈسپلن نہ ہونے کی وجہ سے وہ جرمنی میں اپنی ہائی اسکول کی تعلیم مکمل نہ کر سکا اور آخرکار اس نے سوئٹزرلینڈ جا کر اپنی تعلیم مکمل کی۔ اکتوبر 1895 میں اس نے زیورخ میں واقع ETH کا داخلہ امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ اگلے سال اس نے آراو کے اسکول میں پڑھائی کی اور پھر ETH کا داخلہ امتحان پاس کرلیا۔

یونیورسٹی کی زندگی: آئن اسٹائن کو ETH کے شعبہ فزکس اور ریاضی میں داخلہ ملا۔ وہ یونیورسٹی میں کم لیکچرز لیتا تھا اور اپنا زیادہ تر وقت گھر پر پڑھائی میں صرف کرتا تھا۔ اس کا رجحان خود مطالعے کی طرف زیادہ تھا اور وہ رسمی تعلیم کے بجائے اپنے طریقے سے علم حاصل کرنا پسند کرتا تھا۔

تعلیمی دور میں ملاقات اور ابھرتا ہوا رشتہ: ملیوا اور آئن اسٹائن کی ملاقات ETH میں ہوئی، جو ان چند خواتین میں سے تھی جنہیں اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی۔ دونوں میں قربت بڑھتی گئی اور وہ نہ صرف ذاتی بلکہ سائنسی معاملات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھی بن گئے۔

تعلیمی کارکردگی کا موازنہ: 1900 میں کلاسز کے اختتام پر جب نتائج آئے تو ملیوا کے گریڈ 4.7 اور آئن اسٹائن کے 4.6 آئے۔ صرف اپلائیڈ فزکس میں ملیوا کو 5 جب کہ آئن اسٹائن کو صرف 1 نمبر ملا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ ملیوا لیب ورک اور تجربات میں آئن اسٹائن سے بہتر تھیں، جب کہ آئن اسٹائن کا رجحان نظریاتی پہلوؤں کی طرف زیادہ تھا۔

پہلا مشترکہ تحقیقی مقالہ: 13 دسمبر 1900 کو ان دونوں نے ایک ریسرچ آرٹیکل لکھا، لیکن اس پر صرف آئن اسٹائن کے دستخط تھے۔ اس بارے میں مورخین میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ ملیوا آئن اسٹائن کا نام روشن دیکھنا چاہتی تھی، اس لیے اس نے صرف اس کے نام سے مقالہ شائع کروایا، جب کہ کچھ کا ماننا ہے کہ اس دور میں خواتین کے لیے سائنسی مقالوں میں شریک مصنف کے طور پر نام درج کروانا مشکل تھا۔

شادی سے پہلے کے بحرانی سال، غیرشادی شدہ حمل اور اس کے نتائج: 1901 میں آئن اسٹائن کے ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ ریلیٹیویٹی کے نظریے میں ملیوا نے آئن اسٹائن کا خاطر خواہ ساتھ دیا تھا۔ مگر اس وقت تک ملیوا حاملہ ہوچکی تھیں اور آئن اسٹائن ابھی تک بے روزگار تھا۔ اس صورتحال میں ملیوا کو واپس اپنے والدین کے پاس جانا پڑا۔

آئن اسٹائن اس وقت شادی کے لیے تیار نہیں تھا، چناںچہ ملیوا نے اپنا تعلیمی کیریئر جاری رکھنے کی آخری کوشش کی اور ایک خط لکھا، مگر پروفیسر ویبر، جنہوں نے آئن اسٹائن کے کیرئیر میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں، نے اسے مسترد کردیا۔

گم شدہ بیٹی کا معما: 1902 میں ملیوا نے ایک لڑکی کو جنم دیا، لیکن اس لڑکی کا مستقبل ایک معما بن کر رہ گیا۔ تاریخی ریکارڈز میں اس بچی کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ وہ بچپن میں ہی فوت ہوگئی، جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ اسے گود دے دیا گیا۔ اس سوال کا جواب شاید ہی کبھی مل سکے۔

شادی کے بعد کے سال: سائنسی تعاون کی عروج اور زوال بالآخر شادی: 1903 میں، جب ملیوا کے والد کا انتقال ہوچکا تھا اور آئن اسٹائن نے برن میں ایک پیٹنٹ آفس میں ملازمت حاصل کر لی تھی، دونوں نے بالآخر شادی کرلی۔ آئن اسٹائن ہفتے میں چھے دن آٹھ گھنٹے کام کرتا تھا، جب کہ ملیوا گھریلو کاموں میں مصروف ہو گئیں۔

میراکل ایئر (1905) میں ملیوا کا ممکنہ کردار: 1905 میں، جسے آئن اسٹائن کا ’’میریکل ایئر‘‘ کہا جاتا ہے، اس نے چار انقلابی مقالے شائع کیے، جن میں اضافیت کا خاص نظریہ اور E=mc² کا مساوات شامل تھے۔ اس دور میں ملیوا کے کردار پر مورخین میں اختلاف ہے:

· ملیوا کے بھائی کے مطابق، وہ دونوں راتوں کو مٹی کے تیل والے لیمپ کے نیچے بیٹھ کر اکٹھے کام کرتے، لکھتے، مسائل حل کرتے اور بحث کرتے تھے۔

· جب آئن اسٹائن بیمار ہوا تو ملیوا نے اس کے تمام پیپرز بار بار پڑھے اور انہیں پروف ریڈ کرکے اشاعت کے لیے بھجوایا۔

· ملیوا کے اپنے خطوط سے پتا چلتا ہے کہ وہ آئن اسٹائن کے سائنسی کاموں میں گہری دلچسپی لیتی تھیں اور ان پر ان سے تبادلہ خیال کرتی تھیں۔

جدول: ملیوا ماریچ کے آئن اسٹائن کے سائنسی کام میں ممکنہ شراکتوں کا خلاصہ

سائنسی کام ملیوا کے ممکنہ تعاون دست یاب شواہد: 1900 کا مقالہ مشترکہ طور پر تیار کیا گیا صرف آئن اسٹائن کے دستخط۔

خصوصی اضافیت (1905) ریاضیاتی حساب کتاب میں مدد ملیوا کے خطوط میں اشارے ، اور E=mc² تصور کی تیاری میں مباحثے آئن اسٹائن کے ساتھیوں کی گواہیاں۔

نیز براؤنی حرکت تجرباتی پہلوؤں پر مشاورت ملیوا کی تجرباتی مہارت۔

رشتے میں دراڑیں:1910 میں آئن اسٹائن کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا، لیکن اسی دوران اس کی اپنی کزن ایلسا کے ساتھ معاشقہ چلنے لگا، جو بالآخر ان کی علیحدگی کی سب سے بڑی وجہ بنا۔ یہ معاشقہ آئن اسٹائن اور ملیوا کے درمیان تعلقات میں دراڑیں ڈالتا چلا گیا۔

علیحدگی، طلاق اور اس کے بعدطلاق کی شرائط: 1919 میں دونوں نے طلاق لے لی۔ ملیوا نے طلاق کے لیے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ مستقبل میں ملنے والے نوبیل انعام کی رقم وہ لے گی۔ اس وقت وہ کم سن بچوں کے ساتھ ایک اپارٹمنٹ میں رہ رہی تھیں اور ساری زندگی اسی حالت میں گزاری۔

نوبیل انعام کی رقم کا تنازعہ:1925 میں آئن اسٹائن نے اپنے انعام کی رقم اپنے بیٹوں کو دینے کی وصیت کردی، جس پر ملیوا کو بے حد اعتراض تھا۔ آخرکار آئن اسٹائن نے 1922 میں ملنے والا نوبل انعام کی رقم ملیوا کو دے دی، جس سے انہوں اور ان کے بیٹوں نے گزارہ کیا۔

ملیوا کی خاموشی اور مایوسی: ملیوا نے اپنے والدین اور گاڈ پیرنٹس کو لکھے گئے ایک خط میں بتایا تھا کہ کس طرح اس نے آئن اسٹائن کی مدد کی اور کس طرح آئن اسٹائن نے اس کی زندگی تباہ کی، لیکن بعد میں اس نے اس خط کو تلف کردیا۔ ان کے بیٹے کے مطابق، ان کی ماں کا آئن اسٹائن کی سائنسی تحقیق میں ’’اچھا خاصا حصہ‘‘ تھا۔

تاریخی تناظر میں ملیوا کے کردار کا جائزہ جدید تحقیق کی روشنی میں: حالیہ برسوں میں، مورخین اور سائنس دانوں نے ملیوا کے ممکنہ تعاون کو تسلیم کرنا شروع کیا ہے۔ اگرچہ کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ ملیوا نے آئن اسٹائن کے نظریات میں براہ راست شراکت کی، لیکن یہ بات واضح ہے کہ:

٭ وہ آئن سٹائن کی سائنسی سوچ کی ساتھی اور ناقد تھیں۔

٭ انہوں نے ریاضیاتی حساب کتاب میں اس کی مدد کی۔

٭ انہوں نے اس کے خیالات کو پرکھنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔

٭ انہوں نے گھریلو ذمے داریاں سنبھال کر آئن سٹائن کے لیے سائنسی تحقیق کے لیے وقت مہیا کیا۔

صنفی مسائل اور سائنسی تاریخ: ملیوا کی کہانی انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں خواتین سائنس دانوں کے سامنے آنے والی چیلینجوں کو واضح کرتی ہے۔ اس دور میں خواتین کے لیے سائنسی میدان میں نام کمانا انتہائی مشکل تھا، اور اکثر ان کی شراکتیں ان کے مرد ساتھیوں کے سائے میں دب کر رہ جاتی تھیں۔

ایک پیچیدہ سائنسی رفاقت کا ورثہ: البرٹ آئن سٹائن اور ملیوا ماریچ کی کہانی محض ایک رومانوی المیہ نہیں، بلکہ سائنسی تعاون، قربانی اور تاریخی انصاف کے سوالات پر مبنی ایک پیچیدہ داستان ہے۔ اگرچہ ہم شاید یہ کبھی قطعی طور پر نہ جان سکیں کہ ملیوا نے آئن اسٹائن کے کام میں کتنا تعاون دیا، لیکن یہ واضح ہے کہ وہ محض ایک خاموش تماشائی نہیں تھیں۔

ان کی کہانی ہمیں سائنسی ایجادات کے پیچھے چھپی انسانی کہانیوں کو تسلیم کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہر کام یاب سائنس داں کے پیچھے ایسے ہی متعدد افراد کا تعاون ہوتا ہے جن کے نام تاریخ کے صفحات میں گم ہوجاتے ہیں۔ ملیوا ماریچ انہی گمنام ہیروز میں سے ایک ہیں، جن کی قربانیوں اور تعاون نے بیسویں صدی کی سب سے بڑی سائنسی ذہانت کو پروان چڑھانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔

آئن اسٹائن اور ملیوا کی کہانی محض ایک محبت یا ناکام شادی کی کہانی نہیں بلکہ اس میں بیسویں صدی کی سائنسی تاریخ کے کئی اہم سوال چھپے ہیں۔ کیا آئن اسٹائن اکیلا جینیئس تھا یا اس کی کام یابی کے پیچھے ایک ذہین مگر نظرانداز شدہ عورت کی قربانیاں بھی شامل تھیں؟ اس کا حتمی جواب شاید کبھی نہ مل سکے، لیکن یہ حقیقت طے ہے کہ ملیوا ماریچ کے بغیر آئن اسٹائن کی زندگی ادھوری تھی۔

یہ داستان ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تاریخ اکثر بڑے ناموں کو یاد رکھتی ہے مگر ان کے ساتھ چلنے والے اور ان کی بنیادیں مستحکم کرنے والے کردار وقت کے دھندلکوں میں کھوجاتے ہیں۔ اگر ملیوا کو وہی مواقع ملتے جو مرد سائنسدانوں کو دیے جاتے تو شاید آج دنیا اسے بھی ایک عظیم سائنس داں کے طور پر پہچانتی۔

آج، ہم جب آئن سٹائن کے نام کو عزت سے یاد کرتے ہیں، تو مناسب ہے کہ ہم ان خواتین کو بھی خراج تحسین پیش کریں جنہوں نے اس کی کام یابی کے راستے ہم وار کیے اور ان میں ملیوا ماریچ کا نام سب سے اوپر ہے۔ ملیوا ہی وہ عورت تھی جس نے باغی آئن اسٹائن کو منظم کیا اور فزکس کی تاریخ تک بدل دینے میں ساتھ دیا۔

بھارت میں دیوالی کے موقع پر آتشبازی کے باعث لاہور پاکستان کا سب سے زیادہ آلودہ ترین شہر بن گیا۔ایئرکوالٹی (اے کیو) انڈ...
20/10/2025

بھارت میں دیوالی کے موقع پر آتشبازی کے باعث لاہور پاکستان کا سب سے زیادہ آلودہ ترین شہر بن گیا۔
ایئرکوالٹی (اے کیو) انڈیکس کی جانب سے جاری تازہ اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں اس وقت فضا انتہائی مضر ہے اور انڈیکس میں اسکور 225 تک پہنچ گیا ہے۔
ملتان 213 جبکہ سیالکوٹ 205 اسکور کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہا۔ گجرانوالہ 188، فیصل آباد 177، اسلام آباد میں 172 ایئر کوالٹی انڈس ریکارڈ کیا گیا۔
اس کے علاوہ پشاور کا ایئر کوالٹی انڈیکس 192 ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور میں ایئر کوالٹی انڈیکس کا 225 تک پہنچنا انسانی صحت کیلیے انتہائی مضر ہے۔

16 جنوری 1970 کے دن لیبیا کے وزیر اعظم بننے والے معمر قذاقی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کا اقتدار 42 سال طویل ہ...
20/10/2025

16 جنوری 1970 کے دن لیبیا کے وزیر اعظم بننے والے معمر قذاقی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ ان کا اقتدار 42 سال طویل ہو گا اور اس کا انجام کیسا ہو گا۔
اپنے دور اقتدار میں انھوں نے اپنے خلاف کسی بھی طرح کی مخالفت کو انتہائی بےدردی سے کچل کر رکھا۔ شائد یہی وجہ تھی کہ ان کے سامنے کوئی متبادل قیادت سامنے دکھائی نہ دی۔
اور پھر سنہ 2011 میں تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کا سیلاب کرنل معمر قذافی کو بھی بہا لے گیا۔
معمر قذاقی، جنھیں 20 اکتوبر سنہ 2011 کو باغیوں نے ہلاک کر دیا تھا، ایک بدو کسان کے بیٹے تھے لیکن وہ عرب دنیا کے بااثر رہنما کیسے بنے؟
فوج میں شمولیت اور ترقی
انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق معمر قذاقی 1942 میں پیدا ہوئے اور ان کے والد ایک بدو کسان تھے۔ تاہم معمر قذاقی سکول کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بن غازی میں یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرنے پہنچے۔

سنہ 1961 میں ان کی سیاسی وابستگیوں اور نظریات کے باعث انھیں جامعہ سبھا سے نکال دیا گیا تھا۔

معمر قذافی نے اس دوران یونیورسٹی آف لیبیا سے لا کی ڈگری حاصل کی۔ یہاں ان کے پاس لیبیا کی فوج میں بھرتی ہونے کا موقع تھا جس کے ذریعے اس وقت کے لیبیا میں نہ صرف بہتر تعلیم حاصل کی جا سکتی تھی بلکہ کسی بھی فرد کے لیے ایک پرکشش معاشی موقعے کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔

اسی لیے شاید انھوں نے اعلی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ان کا یہی فیصلہ تھا جس نے ایک دن انھیں اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ جوانی میں معمر قذافی مصر کے جمال عبدالناصر اور ان کی پالیسیوں کے مداح تھے۔

معمر قذافی نے بھی ان مظاہروں میں حصہ لیا جو انیس سو چھپن میں مصر کی جانب سے نہر سوئیز کو قومی تحویل میں لینے کے بعد برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے حملے کے خلاف عرب دنیا میں شروع ہوئے تھے۔

فوجی تربیت مکمل کر نے کے بعد 1965 میں معمر قذاقی کو مذید تربیت کے لیے برطانیہ بھیج دیا گیا۔

لیبیا کی فوج میں معمر قذاقی نے غیر معمولی تیزی سے ترقی کی اور اسی اثنا میں شاہی خاندان کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

لیبیا میں بادشاہت کے خلاف بغاوت کا منصوبہ فوجی تربیت کے دور سے ہی قذافی کے ذہن میں تھا اور بالآخر سنہ 1969 میں برطانیہ سے تربیت حاصل کر کے لوٹنے کے بعد انھوں نے بن غازی شہر کو مرکز بنا کر فوجی بغاوت کر دی اور خود لیبیا کے رہنما بن کر ابھرے۔
بغاوت اور تیل
یکم ستمبر 1969 کو کرنل قذاقی کی قیادت میں فوج نے لیبیا کے بادشاہ کے اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ خود قذاقی فوج کے کمانڈر ان چیف بن گئے اور ساتھ ہی ساتھ انقلابی کونسل کے نئے چیئرمین کی حیثیت سے ملک کے سربراہ بھی۔ لیکن انھوں نے کرنل کا رینک ہی لگائے رکھا۔
طاقت میں آتے ہی قذاقی نے امریکی اور برطانوی فوجی اڈوں کو ختم کرتے ہوئے 1970 میں ہی اطالوی اور یہودی آبادیوں کو بھی ملک بدر کر دیا۔ 1973 میں کرنل قذاقی نے ملک کے تیل کے تمام اثاثے قومی تحویل میں لے لیے۔ انھوں نے ملک میں شراب نوشی اور جوا کھیلنے پر بھی پابندی عائد کر دی۔
اس دوران انھوں نے بین الاقوامی تیل کمپنیوں کے ایگزیکٹوز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جو لوگ پانچ ہزار سال تک بغیر تیل کے زندہ رہے، وہ اپنے جائز حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں مزید کچھ سال اور بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔‘
ان کی جانب سے کیا گیا یہ چیلنج کام کر گیا اور لیبیا ترقی پذیر ممالک میں وہ پہلا ملک بنا جس نے اپنی تیل کی پیداوار کا بڑا شیئر حاصل کر لیا۔ دوسرے عرب ممالک نے جلد اس نظیر کو جواز بناتے ہوئے سنہ 1970 کی دہائی میں عرب پیٹرو بوم یعنی عرب ممالک میں تیل کے انقلاب کی بنیاد رکھی۔
یوں لیبیا ’کالے سونے‘ سے منافع حاصل کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں تھا کیونکہ یہاں تیل کی پیداوار باقی خلیجی ممالک جتنی تھیں لیکن افریقہ میں اس ملک کی کُل آباد صرف 30 لاکھ تھی، جو افریقہ میں بہت کم تھی۔ یوں تیل نے لیبیا کو بہت جلدی بہت امیر بنا دیا۔

کرنل قذاقی اسرائیل سے مزاکرات کے شدید مخالف تھے اور اسی وجہ سے وہ عرب دنیا میں ایک ایسے سربراہ بن کر ابھرے جنھوں نے مصر اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو بھی مسترد کیا۔ قذاقی کی حکومت نے متعدد ہمسایہ ممالک میں بغاوت کی کوششوں کی مدد بھی کی۔
قذاقی کا نظریہ
1970 کے اوائل میں قذافی نے ایک کتاب، ’گرین بک‘، کے ذریعے اپنا سیاسی نظریہ پیش کیا جس میں اسلامی سوشلزم کو ترجیح دی جس کے تحت معاشی شعبوں کو قومی تحویل میں لینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔

اس کتاب کے مطابق معاشرے کے مسائل کا حل جمہوریت یا کسی اور نظام میں نہیں، جسے قذاقی نے سب سے بڑی جماعت کی آمریت کا نام دیا، بلکہ ان کے مطابق حکومت ایسی کمیٹیوں کے ذریعے کرنی چاہیے جو تمام چیزوں کی ذمہ دار ہوں۔
1979 میں قذاقی نے لیبیا کی باضابطہ قیادت تو چھوڑ دی لیکن ان کے دعووں کے برعکس، کہ وہ محض ایک انقلابی رہنما ہیں، طاقت اور اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہی رہے۔
بیرونی مداخلت، دھماکے اور پابندیاں
بین الاقوامی سٹیج پر کرنل قذاقی اور ان کی حکومت غیر متوقع رویے کی وجہ سے مشہور ہوئی کیوں کہ انھوں نے دنیا بھر میں مختلف گروہوں کو پیسہ فراہم کیا جن میں امریکی بلیک پینتھرز اور نیشن آف اسلام تک شامل تھے۔ قذافی نے شمالی آئرلینڈ میں آئرش رپبلکن آرمی کی بھی حمایت کی۔

لیبیا کے خفیہ ایجنٹ بیرون ملک ناقدین کو نشانہ بناتے رہے اور قذافی کی حکومت پر متعدد جان لیوا واقعات کا الزام لگا۔ پھر 1986 میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو نہایت اہم موڑ ثابت ہوا۔

یہ واقعہ جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ایک ایسے کلب میں ہونے والا دھماکہ تھا جہاں امریکی فوجی جایا کرتے تھے۔ اس دھماکے کا الزام لیبیا کے ایجنٹوں پر لگا۔

امریکی صدر رونلڈ ریگن نے دو فوجیوں کی ہلاکت کے بعد طرابلس اور بن غازی پر فضائی حملوں کا حکم دیا۔ تاہم بھاری نقصان اور شہریوں کی ہلاکت، جن میں مبینہ طور پر کرنل قذافی کی منھ بولی بیٹی بھی شامل تھیں، خود لیبیا کے طاقتور قذافی بچ نکلے۔
اس کے بعد 1988 میں پین ایم کا مسافر طیارہ سکاٹ لینڈ کے شہر لاکربی میں تباہ ہوا تو 270 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کا الزام بھی لیبیا پر عائد ہوا۔
لاکربی معاہدہ
قذافی نے ابتدا میں لاکربی دھماکے کے دو مشتبہ ملزمان کو سکاٹ لینڈ کے حوالے کرنے سے انکار کیا تو پابندیوں اور مزاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو 1999 میں اس وقت ختم ہوا جب قذافی نے ان دونوں کو آخرکار حوالے کر دیا۔ ان میں سے ایک کو عمر قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دوسرے کو بری کر دیا گیا۔

اگست 2003 میں لیبیا نے اقوام محتدہ کو لکھے جانے والے ایک خط میں اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی اور حادثے کے متاثرین کو تقریبا دو عشاریہ سات ارب ڈالر کا معاوضہ ادا کیا۔ اس کے جواب میں ستمبر 2003 میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے لیبیا پر عائد پابندیاں ختم کر دیں۔

لیبیا نے بڑے پیمانے پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بھی ترک کر دیا اور 1989 میں تباہ ہونے والے ایک فرانسیسی مسافر طیارے کے ساتھ ساتھ برلن کلب کے متاثرین کو بھی معاوضہ ادا کیا۔
مغرب سے بہتر تعلقات
لاکربی معاہدہ اور کرنل قذافی کی جانب سے خفیہ جوہری اور کیمیائی پروگرام کا اعتراف اور اسے ترک کرنے کے اعلان نے مغربی طاقتوں سے بہتر تعلقات کا راستہ ہموار کر دیا۔

بین الاقوامی پابندیاں ختم ہو جانے کے بعد لیبیا کی بین الاقوامی سیاست میں واپسی ہوئی جس کے بعد متعدد رہنماوں، بشمول برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر، نے قذاقی کے شاندار محل میں ان کے بدو خیمے کا دورہ بھی کیا۔

یہ خیمہ کرنل قذافی کے بین الاقوامی دوروں میں ان کے ساتھ ہی یورپ اور امریکہ کا سفر کیا کرتا تھا۔ اس دور میں لیبیا نے مغربی اسلحہ ساز کمپنیوں اور تیل کی کمپنیوں کے ساتھ متعدد کاروباری معاہدے کیے۔

منفرد طریقے اپنانے کے لیے مشہور کرنل قذافی اکثر ٹیلی ویژن پر خیموں میں مقیم دکھائی دیتے جہاں وہ غیرملکی رہنماؤں کا استقبال بھی کرتے جبکہ کہا جاتا ہے کہ ان کے ذاتی محافظوں میں خواتین کی اکثریت تھی۔
مخالف انقلاب اور طاقت کا استعمال
فروری 2011 میں تیونس اور مصر میں عوامی مظاہروں نے زین العابدین اور حسنی مبارک کے طویل اقتدار کو ختم کیا تو لیبیا میں معمر قذافی کے خلاف بھی مظاہرے شروع ہو گئے۔

ملک بھر میں یہ سلسلہ پھیلنے کے بعد قذافی کی حکومت نے انھیں بزور طاقت ختم کرنے کی کوشش کی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مظاہرین پر گولیوں چلانے سے لیکر مظاہروں کے خلاف لڑاکا طیاروں اور ہیلی کاپٹرز تک کا استعمال کیا۔

بین الاقوامی کمیونٹی سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی لیبیا کی حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال کی مذمت کی جبکہ دوسری جانب خود کرنل قذافی کی حکومت کے سینئر عہدیداران بھی متنفر ہوتے چلے گئے۔ وزیر قانون مستعفی ہوئے اور متعدد سفیروں نے بھی حکومت کی مذمت کی۔

22 فروری کو کرنل قذافی نے سرکاری ٹی وی پر ایک خطاب میں مستعفی ہونے سے انکار کرتے ہوئے مظاہرین کو ’غدار‘ قرار دیا۔ انھوں نے دعوی کیا کہ اپوزیشن القاعدہ کی سرپرستی میں ہے اور مظاہرین نشہ آور ادویات استعمال کر رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ مظاہرین کے خلاف ان کا دفاع کریں۔

لیکن رفتہ رفتہ قذافی کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی چلی گئی اور ان کے مخالفین فروری کے آخر تک لیبیا میں بڑی علاقے پر قبضہ کر چکے تھے۔ اس کے بعد طرابلس کا بھی محاصرہ کر لیا گیا جہاں قذافی تنہا رہ چکے تھے اور ان پر مستعفی ہونے کا دباؤ بڑھ رہا تھا۔

26 فروری کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے قذافی حکومت پر نئی پابندیاں عائد کر دیں اور ان کے خاندان کے اثاثے بھی منجمند کر دیے۔ 28 فروری کو اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ کرنل قذافی سے منسلک 30 ارب ڈالر کے اثاثے منجمند کیے جا چکے ہیں۔

اسی دن مغربی میڈیا کو دیے جانے والے انٹرویو میں کرنل قذافی نے دعوی کیا کہ عوام اب بھی ان سے محبت کرتی ہے اور انھوں نے اس الزام سے انکار کیا کہ ان کی حکومت نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔ انھوں نے یہ دعوی بھی دہرایا کہ ان کے مخالفین القاعدہ کی سرپرستی میں کام کر رہے ہیں۔

کرنل قذاقی کی فوج نے بھی حیران کن طریقے سے بہت سے علاقے باغیوں سے واپس قبضے میں لے لیے۔ ایسے میں جب لیبیا کی فوج بن غازی کی جانب پیش قدمی کر رہی تھی، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے 17 مارچ کو عسکری مداخلت کے لیے ووٹ دیا اور نیٹو کی جانب سے فضائی بمباری نے کرنل قذافی کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔

مارچ کے اواخر میں کرنل قذافی کی حکومت کو اس وقت بڑا دھچکہ پہنچا جب دو سینئر حکام نے وفاداری تبدیل کر لی۔ تاہم قذافی طرابلس پر کنٹرول رکھتے تھے اور انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ہر ممکن طریقے سے مزاحمت کریں گے۔

30 اپریل کو نیٹو فضائیہ نے طرابلس میں قذافی کے باب العزیزیہ پر حملہ کیا جس میں ان کے چھوٹے بیٹے سیف العرب اور تین پوتے ہلاک ہو گئے۔ اس حملے میں قذافی کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئے۔ تاہم نیٹو نے اس الزام سے انکار کیا کہ وہ ایسی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں جس میں قذافی کو ہلاک کرنا مقصود ہے۔
کرنل قذافی کی ہلاکت
27 جون کو قذافی، ان کے بیٹے اور انٹیلیجنس چیف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے جس کے بعد اگست میں باغی طرابلس میں داخل ہوئے اور 23 اگست کو قذافی کے ہیڈکوارٹر باب العزیزیہ کمپاوئنڈ پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ تاہم خود قذافی کا کچھ پتہ نہ تھا اور انھوں نے متعدد آڈیو پیغامات میں لیبیا کی عوام سے باغیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا کہا۔

باغیوں کی جانب سے قذافی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ایک عشاریہ سترہ ملین ڈالر کی انعامی رقم کا اعلان بھی کیا گیا۔ ایسے میں سرت کا محاصرہ ہوا اور بعض اطلاعات کے مطابق کرنل قذافی نے اپنے چند حامیوں کے ساتھ عبوری کونسل کے جنگجوؤں کا محاصرہ توڑ کر نکلنے کی کوشش کی۔

کرنل قذافی اور ان کے ساتھی جو گاڑیوں میں سوار تھے لڑتے ہوئے مخالف جنگجوؤں کی صفوں میں سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے۔ گاڑیوں کے اس قافلے میں کرنل قذافی کی فوج کے سربراہ ابو بکر یونس اور قذافی کے بیٹے معتصم بھی شامل تھے جب نیٹو افواج میں شامل فرانسیسی طیارے نے گاڑیوں کے اس قافلے پر حملہ کیا۔

نیٹو کے اس حملے میں اسلحے سے لیس 15 گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ لیکن کرنل قذافی اور ان کے کچھ ساتھی اس حملے میں بچ گئے اور انھوں نے پانی کی نکاسی کے دو بڑے پائپوں میں پناہ لے لی مگر جنگجو جلد ہی قریب پہنچ گئے۔

سالم بکیر نامی ایک جنگجو نے بعد میں رائٹرز کو بتایا کہ ’پہلے ہم نے اینٹی ائر کرافٹ گنوں سے کرنل قذافی اور ان کے ساتھیوں کی طرف فائرنگ کی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ پھر ہم پیدل ان کی طرف گئے۔ جب ہم اس جگہ کے قریب پہنچے جہاں کرنل قذافی اور ان کے ساتھی چھپے ہوئے تھے تو اچانک ہی قذافی کا ایک جنگجو اپنی بندوق ہوا میں لہراتے ہوئے باہر نکل آیا اور جیسے ہی اس نے مجھے دیکھا تو اس نے مجھ پر فائرنگ شروع کر دی۔‘

سالم بکیر نے کہا کہ ’اس جنگجو نے چیخ کر کہا کہ میرے آقا یہاں ہیں، میرے آقا یہاں ہیں اور وہ زخمی ہیں۔‘ سالم بکیر کا کہنا تھا کہ ہم نے کرنل قذافی کو باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ اس وقت انھوں نے کہا یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن ایک اور شخص نے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ عینی شاہد ہے کہا کہ اس نے دیکھا کہ نائن ایم ایم گن سے کرنل قذافی کے پیٹ پر گولی ماری گئی۔
اطلاعات کے مطابق کرنل قذافی کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا۔ الجزیرہ ٹی وی چینل پر جو فوٹیج نشر کی گئی اس میں قذافی شدید زخمی حالت میں تھے اور ان کے مخالف جنگجو اسی حالت میں ان کے ساتھ مار پیٹ کر رہے تھے۔ اس کے بعد واقعات کا جو سلسلہ ہے وہ واضح نہیں لیکن قومی عبوری کونسل کے وزیراعظم محمود جبرائیل نے بعد میں صحافیوں کو بتایا کہ کرنل قذافی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق ان کی موت گولیاں لگنے سے ہوئی۔

محمود جبرائیل کے مطابق کرنل قذافی کو زندہ پکڑا گیا تھا اور انھوں نے کوئی مزاحمت نہیں کی تھی لیکن جب انھیں ایک گاڑی میں ڈال کر وہاں سے لے جایا جا رہا تھا تو وہ گاڑی دونوں جانب سے جنگجوؤں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کی زد میں آ گئی اور ایک گولی کرنل قذافی کے سر میں لگی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔

محمود جبرائیل کے مطابق ڈاکٹر یہ تعین نہیں کر پائے کہ یہ گولی عبوری کونسل کے کسی جنگجو کی تھی یا کرنل قذافی کے حامی کی۔
بادشاہوں کے بادشاہ اور خلافت کا خواب
کرنل قذافی ایک آمرانہ حکمران تھے جنھوں نے چار دہائیوں تک لیبیا پر حکمرانی کی۔ ان کا خاندان تیل اور دیگر معاہدوں کی وجہ سے امیر ہوا اور کہا جاتا ہے کہ معمر قذافی کی پالیسیاں، جن کے تحت دولت تقسیم کی گئی، وفاداریاں خریدنے کے لیے تھیں۔

تاہم قذافی نے بہت سے بڑے منصوبے شروع کروائے جن میں سے ایک کے تحت ملک کے شمال میں پانی کی فراہمی کا انتظام کیا گیا۔ وہ اپنے لباس کے ساتھ ساتھ اپنے خطابات اور بیانات کی وجہ سے بھی مشہور تھے۔ ایک ایسے ہی بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ فسلطینیوں اور اسرائیلیوں کو ایک ہی ریاست میں اکھٹا ہو جانا چاہیے کیوں کہ زمین اتنی زیادہ نہیں کہ دو الگ الگ ریاستیں بن سکیں۔

ان کا یہ رویہ عرب لیگ کے اجلاسوں میں بھی دکھائی دیتا چاہے وہ سگار کا دھواں ہو یا پھر خود کو افریقہ کے ’بادشاہوں کا بادشاہ‘ قرار دینا۔

اگست 2008 میں افریقہ کے دو سو بادشاہوں اور سربراہان نے قذافی کو بن غازی میں یہ خطاب دیا تھا جہاں انھوں نے افریقہ کی ایک فوج، ایک کرنسی اور ایک پاسپورٹ بنانے کی مہم کا اعلان کیا تھا۔

وقت کے ساتھ قذافی کے نظریے بھی بدلتے رہے۔ آغاز میں انھوں نے عرب قوم کو یکجا کرنے کا نعرہ بلند کیا تھا اور خود کو جمال عبدالناصر جیسے عرب قوم پرست رہنما کے طور پر پیش کیا تھا۔

لیکن جب ان کو اندازہ ہوا کہ یہ خواب پورا ہونا مشکل ہے تو انھوں نے افریقہ کی جانب دیکھنا شروع کیا اور خود کو افریقہ کے رہنما کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا۔

تاہم پھر ایک وقت ایسا آیا جب انھوں نے اسلامی دنیا کو توجہ کا مرکز بنایا اور یہ بھی کہا کہ شمالی افریقہ میں سنی اور اہل تشیع کے اختلافات کو ختم کرنے کے لیے دوسری فاطمی خلافت قائم کی جائے۔

ممبئی: بھارت کے  معروف لیجنڈری اداکار  اسرانی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ہندی سنیما کے ورسٹائ...
20/10/2025

ممبئی: بھارت کے معروف لیجنڈری اداکار اسرانی 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ہندی سنیما کے ورسٹائل اداکار شری گووردھن اسرانی طویل علالت کے بعد آج شام ممبئی میں چل بسے۔اداکار کے بھتیجے نے ان کی وفات کی تصدیق کی ہے ۔

5 دہائیوں پر محیط اپنے شاندار کیریئر میں اسرانی نے ہندی فلم انڈسٹری کو بے شمار یادگار کردار دیے اور ناظرین کے دلوں میں ایک خاص مقام بنایا۔

اسرانی کا فلمی سفر 50 برس سے زائد رہا اور انہوں نے 350 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی۔ انہوں نے مزاحیہ اور معاون کرداروں کے ذریعے بھارتی سنیما میں ایک مضبوط شناخت قائم کی۔1970 کی دہائی اسرانی کے کیریئر کا سنہری دور ثابت ہوئی، جب وہ سب سے زیادہ مقبول اور قابلِ اعتماد کریکٹر ایکٹرز میں شمار ہونے لگے۔

وہ 'میرے اپنے'، 'کوشش'، 'باورچی'، 'پریچے'، 'ابھی مان'، 'چپکے چپکے'، 'چھوٹی سی بات' 'رفو چکر' اور 'شعلے' جیسی مشہور فلموں میں جلوہ گر ہوئے۔فلم شعلے میں جیل وارڈن کا ان کا کردار آج بھی ناظرین کے ذہنوں میں تازہ ہے۔

اس کے علاوہ فلم دھمال، بھول بھلیا اور بنٹی اور ببلی 2 میں بھی انہوں نے اپنی اداکاری سے شہرت حاصل کی۔ اسرانی نے اپنی کامک ٹائمنگ اور منفرد ڈائیلاگ ڈلیوری کے ذریعے خود کو ایک بے مثال فنکار کے طور پر منوایا۔

اسرانی کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد شوبز انڈسٹری کی جانب سے گہرے دکھ کا اظہار کیا جارہاہے۔

الیکشن کمیشن(election commission) نے فیصل آباد اور ساہیوال کے 5حلقوں میں ضمنی انتخابات کا نیا شیڈول جاری کر دیا۔ترجمان ...
20/10/2025

الیکشن کمیشن(election commission) نے فیصل آباد اور ساہیوال کے 5حلقوں میں ضمنی انتخابات کا نیا شیڈول جاری کر دیا۔
ترجمان الیکشن کمشنر پنجاب کے مطابق فیصل آباد اور ساہیوال کے 5 حلقوں میں ضمنی انتخابات 23 نومبر کو ہونگے،این اے 96، این اے 104، این اے 143، پی پی 98 اور پی پی 203 میں پولنگ ہوگی۔
ریٹرننگ آفیسرز کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی آخری تاریخ 24 اکتوبر مقرر کی گئی ہے،ایپلٹ ٹریبونل اپیلوں پر فیصلہ 31 اکتوبر تک کرے گا،امیدواروں کی نظرِ ثانی شدہ فہرست یکم نومبر کو شائع کی جائے گی۔
امیدواروں کی دستبرداری کی آخری تاریخ 3 نومبر مقرر کی گئی ہے،انتخابی نشانات الاٹ کرنے کی تاریخ 4 نومبر طے کی گئی ۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت شیڈول جاری کیا گیا ہے،الیکشن کمیشن نے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔

Shahid Afridi  or Misbah Ul Haq
20/10/2025

Shahid Afridi or Misbah Ul Haq

آئی سی سی ویمنز  کرکٹ ورلڈکپ میں سری لنکا اور بنگلادیش کے میچ کے دوران غیر معمولی اسٹمپنگ کا واقعہ پیش آیا جس پر کھلاڑ...
20/10/2025

آئی سی سی ویمنز کرکٹ ورلڈکپ میں سری لنکا اور بنگلادیش کے میچ کے دوران غیر معمولی اسٹمپنگ کا واقعہ پیش آیا جس پر کھلاڑی اور کمنٹیٹرز بھی حیران رہ گئے۔
پیر کو بھارت کے ڈی وائی پاٹل اسٹیڈیم میں سری لنکا اور بنگلادیش ویمنز کے میچ کے دوران سب سے عجیب اور منفرد اسٹمپ آؤٹ دیکھنے میں آیا۔
ہوا کچھ یوں کہ سری لنکا کی اننگز کے 20 ویں اوور میں بنگلادیشی بولر ناہیدہ نے آف اسٹمپ کے باہر گیند کروائی جس پر سری لنکن بیٹر دلہاری نے بیک فٹ پر شاٹ کھیلنے کی کوشش کی۔
لیکن گیند سری لنکن بیٹر کے بیٹ کے اندرونی حصے سے ٹکرا کر آف اسٹمپ کے قریب اچھلی اور وکٹ کیپر نگار سلطانہ کی دائیں ٹانگ سے لگ کر واپس اسٹمپ پر جا لگی۔
نگلادیشی کھلاڑیوں نے پہلے تو کچھ ردعمل نہ دیا لیکن پھر معمولی سی اپیل کی جس پر فیلڈ امپائر نے فیصلہ تھرڈ امپائر کے حوالے کر دیا۔
جب ری پلے دیکھا گیا تو سب حیران رہ گئے کیوں کہ سری لنکن بیٹر کا پچھلا پاؤں اس لمحے معمولی سا ہوا میں تھا جب گیند بنگلادیشی وکٹ کیپر کی ٹانگ سے لگ کر اسٹمپ کو لگی اور بیلز گری۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو پاکستان کی ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کردیا۔شاہین آفریدی جنو...
20/10/2025

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی کو پاکستان کی ون ڈے ٹیم کا کپتان مقرر کردیا۔
شاہین آفریدی جنوبی افریقا کے خلاف 3 ایک روزہ میچوں کی سیریز کے لیے قومی ون ڈے ٹیم کی قیادت کریں گے، یہ سیریز 4 نومبر سے 8 نومبر تک فیصل آباد کے اقبال اسٹیڈیم میں کھیلی جائے گی۔
شاہین شاہ آفریدی کی تقرری کا فیصلہ اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں کیا گیا، اجلاس میں ہیڈ کوچ مائیک ہیسن، ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس عاقب جاوید اور قومی سلیکشن کمیٹی کے اراکین شریک تھے۔
لیفٹ آرم فاسٹ بولر شاہین شاہ آفریدی اب تک 66 ایک روزہ اور 92 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں جن میں انہوں نے مجموعی طور پر 249 وکٹیں حاصل کیں، اس کے علاوہ وہ 32 ٹیسٹ میچوں میں 120 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
شاہین شاہ آفریدی نے اس سے قبل رواں سال کے اوائل میں نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ میچوں کی ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی پاکستان کی قیادت کی تھی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل محمد رضوان پاکستان کی ون ڈے ٹیم کی کپتانی کررہے تھے۔

سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی نے تجویز دی ہے کہ دارالحکومت کو اسلام آباد سے لاہور منتقل کیا ...
19/10/2025

سابق چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) شبر زیدی نے تجویز دی ہے کہ دارالحکومت کو اسلام آباد سے لاہور منتقل کیا جائے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ ایف بی آر میں اصلاحات نہیں لا سکا۔
انہوں نے مذہبی جماعتوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور کمیونسٹوں اور نیشنلسٹوں کا شہر تھا۔ لیکن لبرل عناصر کو ختم کر کے اسے تباہ کر دیا گیا۔
شبر زیدی نے تقریب سے خطاب کے دوران تجویز دی کہ دارالحکومت کو اسلام آباد سے لاہور منتقل کیا جانا چاہیے۔
اس موقع پر مقررین نے شبر زیدی کی آٹو بائیوگرافی کو ایک ایماندار، صاف گو اور کھرے شخص کی کتاب قرار دیتے ہوئے کہا کہ شبر زیدی نے اپنی کتاب میں ملک کے معاشی اور معاشرتی ڈھانچے کی خامیوں کو اجاگر کیا ہے۔

دوپہر کو کچھ وقت تک سونا سنت نبوی ﷺ ہے اور اسے صحت کے لیے مفید بھی قرار دیا جاتا ہے۔قیلولے یا دوپہر کی نیند کے حوالے سے ...
19/10/2025

دوپہر کو کچھ وقت تک سونا سنت نبوی ﷺ ہے اور اسے صحت کے لیے مفید بھی قرار دیا جاتا ہے۔

قیلولے یا دوپہر کی نیند کے حوالے سے کافی تحقیقی کام ہوا ہے اور دوپہر کے کھانے کے بعد سستی محسوس ہونے پر چند منٹ تک سونے میں کوئی حرج نہیں۔

دوپہر کی اس مختصر نیند سے یادداشت بہتر ہوتی ہے، کام سے متعلق کارکردگی بڑھتی ہے، مزاج خوشگوار ہوتا ہے، ذہنی ہوشیاری بڑھتی ہے جبکہ تناؤ گھٹ جاتا ہے۔

یہاں اس عادت کے چند بہترین فوائد درج ذیل ہیں۔یادداشت بہتر ہوتی ہے
تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ نیند اچھی یادداشت کے لیے اہم ہوتی ہے۔

دوپہر کو کچھ وقت کی نیند سے دن کے آغاز کی چیزوں کو یاد رکھنے میں اتنی ہی مدد ملتی ہے جتنی پوری رات کی نیند سے ملتی ہے۔

دوپہر کی نیند آپ کو بھلکڑ بننے سے بچاتی ہے۔توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے
قیلولے سے نہ صرف یادداشت بہتر ہوتی ہے بلکہ یہ دماغ کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت بہتر بناتا ہے۔

ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دوپہر کو سونے کے عادی افراد دن بھر کی تفصیلات کو آسانی اکٹھا کر لیتے ہیں۔ملازمت کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے
جب آپ دن بھر ایک ہی کام بار بار کرتے ہیں، آپ کی کارکردگی دن گزرنے کے ساتھ بدتر ہو جاتی ہے۔تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ دوپہر کی نیند سے آپ کو تسلسل سے کام کرنے میں مدد ملتی ہے۔مزاج خوشگوار ہوتا ہے
اگر آپ اداسی یا مایوسی محسوس کر رہے ہیں تو کچھ دیر کے قیلولے سے مزاج پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

درحقیقت کچھ دیر آرام کرنے سے بھی مزاج خوشگوار ہوتا ہے۔ذہنی ہوشیاری بڑھتی ہے
اگر دوپہر کے کھانے کے بعد سستی یا غنودگی محسوس ہوتی ہے، تو ایسا متعدد افراد کے ساتھ ہوتا ہے۔دوپہر کے کھانے کے بعد طاری ہونے والی یہ غنودگی حقیقی ہوتی ہے اور کچھ منٹ کے قیلولے سے ذہن کو الرٹ کرنے میں مدد ملتی ہے۔مختصر قیلولے کے بڑے فوائد
قیلولہ کا دورانیہ جتنا کم ہوگا، صحت کو اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔ماہرین کے مطابق 30 منٹ یا اس سے کم وقت کا قیلولہ کرنا چاہیے، ورنہ زیادہ سونے سے تھکاوٹ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

دوپہر کی نیند کا دورانیہ جتنا زیادہ ہوگا، ذہنی سستی اتنی زیادہ ہوگی اور کام پر توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوگا۔قیلولہ کیفین سے زیادہ بہتر
اگر آپ تھکاوٹ محسوس کر رہے ہیں اور کام یا تعلیمی سلسلے کو برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے، تو کافی یا چائے کی بجائے مختصر قیلولہ زیادہ مفید ثابت ہوسکتا ہے۔کیفین کے مقابلے میں قیلولے سے یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔رات کو دیر تک جاگنا ہے؟ تو قیلولہ مددگار ثابت ہوسکتا ہے
اگر آپ کو علم ہو کہ رات کو نیند پوری کرنے کا موقع نہیں ملے گا (مثال کے طور پر سفر کی وجہ سے) تو دوپہر کی نیند سے مدد حاصل کرسکتے ہیں۔

اس صورتحال میں قیلولہ کا دورانیہ جتنا طویل ہوگا، اتنا زیادہ بہتر ہوگا۔تناؤ میں کمی آتی ہے
اگر آپ کو بہت زیادہ دباؤ کا سامنا ہے تو دوپہر کو کچھ دیر کی نیند سے تناؤ میں کمی آتی ہے اور مدافعتی صحت بہتر ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس حوالے سے 30 منٹ کا قیولہ بہترین ہوتا ہے۔دل کے لیے بھی مفید
دوپہر کو نیند سے دل کی صحت کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔ایک تحقیق میں دریافت کیا کہ جو افراد دوپہر کو سونے کے عادی ہوتے ہیں، ان میں بلڈ پریشر کی سطح گھٹ جاتی ہےتخلیقی صلاحیت بہتر ہوتی ہے
قیلولے سے تخلیقی صلاحیتوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور آپ اپنے کام کے لیے نئے راستے ڈھونڈنے میں کامیاب رہتے ہیں۔رات کی اچھی نیند میں مدد ملتی ہے
اگرچہ سننے میں عجیب لگے گا مگر دوپہر کو سونے سے معمر افراد کی رات کی نیند بھی بہتر ہوتی ہے۔تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ دوپہر ایک سے 3 بجے کے درمیان 30 منٹ کی نیند اور شام میں چہل قدمی سے رات کے وقت اچھی نیند کا حصول آسان ہوتا ہے۔تو کس وقت قیلولہ کرنا چاہیے؟
دوپہر کی نیند کے زیادہ سے زیادہ فوائد کے حصول کے لیے آپ کو درست وقت کا انتخاب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

بیشتر افراد کا ماننا ہے کہ دوپہر 2 سے 30 بجے کے درمیان سونا بہتر ہوتا ہے، جب لوگ قدرتی طور پر سستی محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔البتہ آپ کے لیے بہترین وقت کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ رات کو آپ کی نیند کیسی تھی۔

اگر آپ دوپہر کو سستی محسوس نہیں کر رہے تو ذرا تاخیر سے قیلولہ بہتر ہوتا ہے۔

اگر رات کو نیند پوری نہیں ہوئی تو جلد قیلولہ کرلینا چاہیے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when RSN News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share