KPK: Moving Toward Solutions

  • Home
  • KPK: Moving Toward Solutions

KPK: Moving Toward Solutions Share your problems and post possible cost effective solution for it so that KPK govt should make it

15/09/2025

امی vs بیوی – اصل گُر"

آدھا ٹائم بیوی ناراض رہتی ہے اور آدھا ٹائم امی۔ بیچ میں بیچارے شوہر کے اعصاب فٹبال بنے رہتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ مرد فطرتاً ہر بات کا حل نکالنے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ بیوی کہے: "آپکی امی نے میری برائی کی" تو وہ فوراً پلان بنانے لگے گا کہ کس دن امی کو سمجھائے۔
امی کہے: "بہو نے کچن صاف نہیں کیا" تو اگلے لمحے بیوی کو لیکچر دے ڈالے گا۔

حالانکہ اصل میں کسی کو حل چاہیے ہی نہیں ہوتا 😅 عورت کو زیادہ تر چاہیے کہ کوئی اسکا دکھ سنے، بس! حل تو وہ خود نکال لیتی ہیں۔

امی چاہتی ہیں کہ ان کی بات کو اہمیت دی جائے، بیوی چاہتی ہے اسکے احساس کو مانا جائے۔
مطلب:

امی کے لئے respect space

بیوی کے لئے emotional space

👂 اب مرد کا گُر یہ ہے کہ بس سنے، دل سے سنے۔
امی کہیں: "کچن صاف نہیں تھا" → جواب: "امی آپکا صفائی پر دھیان واقعی کمال ہے۔"
بیوی کہے: "آپکی امی نے مجھے برا کہا" → جواب: "ہاں، یہ واقعی تکلیف دہ ہے۔"

دیکھیں، نوے فیصد مسئلے ویلیڈیشن سے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ حل دینے کی جلدی مت کریں، ایک کان سے سن کے دوسرے سے مت نکالیں، بلکہ سن کر احساس دلائیں کہ بات ویلیو رکھتی ہے۔

اور سب سے بڑی بات: کبھی ماں کے کہنے پر بیوی سے نہ لڑیں، اور کبھی بیوی کے کہنے پر ماں سے نہ۔ حالات کو خود دیکھیں اور پھر فیصلہ کریں۔

🔑 آخر میں یہی کہنا ہے کہ مرد اگر ہر وقت "فکسنگ موڈ" سے نکل کر "لسننگ موڈ" میں آ جائیں، تو آدھے جھگڑے وہیں ختم ہو جاتے ہیں۔

07/09/2025

زندگی کے سفر میں رشتے بالکل باغ کے پودوں کی طرح ہوتے ہیں۔ کچھ رشتے گلاب کی مانند خوشبو بکھیرتے ہیں، ان کے پاس بیٹھنے سے دل کو راحت ملتی ہے، جیسے روح کو ٹھنڈی ہوا چھو گئی ہو۔ ان کی باتیں روشنی کی کرن کی طرح انسان کے اندھیروں کو کم کر دیتی ہیں۔ یہ مثبت توانائی رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں، جو نہ صرف اپنے دل کو روشن رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کی راہوں کو بھی چراغ دکھاتے ہیں۔

مگر ہر باغ میں کچھ کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر قریب دکھائی دیتے ہیں مگر ان کی قربت تھکن، بے سکونی اور اندیشے چھوڑ جاتی ہے۔ یہ منفی توانائی والے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی باتوں میں کاٹ ہوتی ہے، ان کے رویوں میں بوجھ، اور ان کی موجودگی میں انسان کے دل کا سکون چھن جاتا ہے۔

چاہے وہ رشتہ دار ہوں، دوست ہوں یا ساتھی، انسان کے دل اور دماغ پر ان کی توانائی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ خوشبو والے رشتے زندگی کو جنت کا ٹکڑا بنا دیتے ہیں، اور زہریلے رشتے زندگی کو دوزخ کا عکس دکھا دیتے ہیں۔

اصل دانشمندی یہی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں روشنی بانٹنے والے رشتوں کو قریب رکھے، اور اندھیرا پھیلانے والے رشتوں سے فاصلہ رکھے۔ کیونکہ سکونِ دل اور اطمینانِ روح سب سے قیمتی تحفہ ہے، اور یہ صرف مثبت توانائی والے رشتوں کے پاس رہنے سے ملتا ہے۔

03/09/2025

کہانی .دو کردار 🌑

علی اور فہد بچپن کے دوست تھے۔ دونوں ہی زندگی کے امتحانات سے گزرے مگر مختلف انداز سے۔

علی کی کہانی (Personality Disorder)

علی ہمیشہ رشتوں میں مشکل پیدا کرتا۔ کبھی حد سے زیادہ کنٹرول کرتا، کبھی شک میں مبتلا ہو جاتا، کبھی دوسروں کے احساسات کو بالکل نظرانداز کرتا۔ وہ روزمرہ زندگی میں کام بھی کر لیتا تھا مگر اس کے رویے کی سختیاں رشتوں کو توڑ دیتی تھیں۔ لوگ اکثر کہتے، “یہ بڑا مشکل آدمی ہے، عجیب سا مزاج ہے”۔ اصل میں وہ شخصیت کی خرابی (Personality Disorder) کا قیدی تھا، مگر لوگ اسے پاگل نہیں کہتے تھے کیونکہ وہ حقیقت سے جُڑا ہوا تھا۔

فہد کی کہانی (Psychotic Disorder)

فہد دوسری طرف ایک دن کہنے لگا کہ اسے آوازیں آتی ہیں جو کوئی اور نہیں سنتا۔ کبھی کہتا کہ لوگ اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں، کبھی حقیقت اور وہم میں فرق کرنا بھول جاتا۔ اس کے خیالات اور رویے حقیقت سے بالکل کٹ گئے تھے۔ یہی وہ کیفیت تھی جسے لوگ عام زبان میں “پاگل پن” کہتے ہیں، مگر طبّی زبان میں یہ سائیکوسس (Psychotic Disorder) کہلاتی ہے۔

---

📌 فرق سمجھنے کا نکتہ

Personality Disorders:
شخصیت کا مستقل انداز، جو بچپن یا نوجوانی سے ہی جڑ جاتا ہے۔ یہ زیادہ تر رشتوں اور رویوں کو متاثر کرتا ہے، مگر انسان حقیقت سے کٹا ہوا نہیں ہوتا۔
👉 لوگ عام طور پر ایسے مریض کو پاگل نہیں سمجھتے۔

Psychotic Disorders:
حقیقت سے کٹ جانا۔ ہذیان (delusions) یا آوازیں سننا (hallucinations) جیسی علامات۔ انسان کی سوچ اور حقیقت میں فرق مٹ جاتا ہے۔
👉 یہی کیفیت ہے جسے لوگ عموماً “پاگل پن” کہتے ہیں۔

---

💊 علاج (Treatment)

Personality Disorders:

بنیادی علاج سائیکو تھراپی (CBT, DBT, Psychodynamic therapy) ہے۔

دوائیاں عموماً صرف علامات (مثلاً ڈپریشن، انگزائٹی یا غصے) کو کم کرنے کے لیے دی جاتی ہیں۔

دیرپا اور صبر آزما علاج، مگر مؤثر اگر مریض تعاون کرے۔

Psychotic Disorders:

اینٹی سائیکوٹک دوائیں علاج کی بنیاد ہیں (مثلاً Risperidone, Olanzapine وغیرہ)۔

ساتھ میں سائیکو ایجوکیشن اور فیملی سپورٹ بہت اہم ہے۔

بعض صورتوں میں اسپتال میں داخلہ بھی ضروری ہوتا ہے۔

---

🌿 نتیجہ

علی کو ضرورت تھی اپنے رویے کو آئینے میں دیکھنے اور تھراپی کے ذریعے بدلنے کی،
جبکہ فہد کو دوائیوں کے ساتھ حقیقت اور وہم میں فرق بحال کرنے کا علاج درکار تھا۔

یعنی، ہر مشکل انسان پاگل نہیں ہوتا، اور ہر پاگل پن صرف رویے کی خرابی نہیں ہوتا۔ دونوں کا فرق سمجھنا ہی اصل علاج کی پہلی سیڑھی ہے۔

03/09/2025

اے اللہ!
ہمیں ہمارے نفس کی قید سے آزاد کر دے،
ہمارے دل کو غصے، لالچ اور تکبر سے پاک فرما،
اور ہمیں وہ روشنی عطا کر جو صرف تیری قربت سے ملتی ہے۔
آمین 🤲

---

🌑 نفس کا قیدی (کہانی) 🌑

وہ شخص شہر کی روشن گلیوں میں چلتا تو لوگ اسے رشک بھری نظروں سے دیکھتے۔ دولت، شہرت اور طاقت—سب کچھ اس کے پاس تھا۔ مگر دل کی ویرانی کسی کو نظر نہیں آتی تھی۔

دنیا کی ہر لذت کو آزمایا، مگر سکون نہ پایا۔ خواہشوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے وہ اپنے ہی نفس کا قیدی بن گیا۔ جتنا پاتا، اتنی ہی پیاس بڑھتی جاتی۔

ایک دن آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو اپنی آنکھوں میں قید کی زنجیریں دیکھیں۔ سمجھ آیا کہ اصل دشمن باہر نہیں، اندر ہے۔ وہی نفس جو اسے اندھی دوڑ میں لگا کر بربادی کے دہانے تک لے آیا تھا۔

لیکن قید کی چابیاں بھی وہیں تھیں—توبہ، صبر اور اللہ کی یاد میں۔ اس نے پہلا قدم بڑھایا اور زنجیریں ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگیں۔

28/08/2025

میں گل رحمان ہوں، پختون زمین کا بیٹامیں ایک ایسے گھر میں پلا جہاں باپ کا لفظ قانون تھا، بیوی کی حیثیت صرف خدمتگار کی تھی، اور بچوں کی آواز کو خاموشی کا حکم ملتا تھا۔ ہمارے پختون معاشرے میں مرد کی طاقت اس کی دھمک میں سمجھی جاتی تھی۔ میں نے بھی یہی سیکھا کہ گھر کو چلانے کا واحد راز ہے زور، ڈر، اور حکم۔جب میں گھر لوٹتا، میری آواز گھر کی دیواروں سے ٹکراتی۔ غصہ میرا تاج تھا، اور ہر بات حکم۔ بیوی اگر تھک کر بھی کچھ کہتی، تو میری جھڑکی اسے خاموش کر دیتی:
“چپ کر! یہ سب تمہارا فرض ہے۔ عورت کا کام ہی گھر سنبھالنا ہے۔”بچے اگر کھیلتے یا ہنستے، تو میری ڈانٹ ان کی معصوم آوازوں کو دبا دیتی:
“خاموش ہو جاؤ! بس میری بات مانو!” شروع میں سب ڈر کر مان لیتے۔ میرا گھر میری سلطنت لگتا تھا، جہاں میری مرضی قانون تھی۔ مگر آہستہ آہستہ وہ سلطنت قبرستان میں بدل گئی۔ گھر کی دیواریں خاموش ہوئیں، اور دل اداس۔ایک رات، جب میں اپنے کمرے میں تھا، کچن سے دبی دبی سسکیوں کی آواز آئی۔ میری بیوی اپنی سہیلی سے فون پر کہہ رہی تھی:
“میں دن رات گھر کے لیے جسم و جان کھپاتی ہوں، مگر عزت ایک لمحے کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ کیا میری کوئی قیمت نہیں؟” اس کی آواز میں درد تھا، اور وہ درد میرے دل کو چھید گیا۔پھر ایک دن، میری بیٹی نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا:
“بابا جب گھر آتے ہیں، دل خوش ہونے کے بجائے ڈر سے دھڑکتا ہے۔” یہ الفاظ تلوار کی طرح میرے سینے میں اترے۔ میں نے تو اپنے گھر کو جنت بنانا تھا، مگر یہ کیا؟ میں نے اسے خوف کا قید خانہ بنا دیا تھا۔ اسی رات، مجھے اپنے نانا کی بات یاد آئی:
“بیٹا، زور سے دل خاموش ہو سکتے ہیں، مگر محبت کے بغیر کوئی دل نہیں جیتا جا سکتا۔” اس لمحے میں نے فیصلہ کیا کہ میں بدلوں گا۔ اپنی خود پسندی اور غرور کو توڑوں گا۔ مردانگی کا مطلب زور نہیں، محبت ہے۔ میں نے اپنی بیوی کو حکم دینا چھوڑ دیا۔ اس کی رائے مانگنے لگا۔ اس کی محنت پر دل سے شکریہ ادا کیا۔ میں نے کہا:
“تم اس گھر کی روح ہو۔ تمہارے بغیر یہ گھر ادھورا ہے۔” بچوں کو ڈانٹنے کے بجائے، میں نے انہیں گلے لگایا۔ ان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اپنی خوشی بنایا۔ میں نے کہا:
“تم میری جان ہو، میرا فخر ہو۔ اپنے خواب بتاؤ، میں تمہارا ساتھ دوں گا۔” آہستہ آہستہ میرا گھر دوبارہ زندہ ہو گیا۔ کھانے کی میز پر ہنسی گونجنے لگی۔ بچے بھاگ کر میرے پاس آتے اور کہتے:
“بابا! آج ہم نے سکول میں کیا کیا، سنیں!”
میری بیوی کی آنکھوں میں خوف کی جگہ چمک آگئی، اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ آج میں ہر پاکستانی شوہر اور باپ سے کہتا ہوں:
ہمارے معاشرے میں مردانگی کو زور سے ناپا جاتا ہے، مگر اصلی مردانگی محبت میں ہے۔ اپنے گھر کو سلطنت نہ بنائیں، جنت بنائیں۔ اپنی بیوی کو نوکرانی نہیں، اپنی زندگی کی شریک بنائیں۔ اپنے بچوں کو ڈرائیں نہیں، انہیں اپنا فخر بنائیں۔ خوف دل جیتتا نہیں، محبت جیتتی ہے۔ اور محبت ہی وہ طاقت ہے جو گھر کو جنت بناتی ہے۔ R

24/08/2025

✍️ کہانی: "زبان کا زخم"

کسی پہاڑی گاؤں میں دو دوست رہتے تھے، رحمت خان اور سعید خان۔
رحمت خان غریب تھا، مزدوری کرتا، سادہ لباس پہنتا، لیکن دل کا بہت نرم اور دوسروں کا خیال رکھنے والا۔
سعید خان کچھ خوشحال تھا اور اپنی حیثیت پر دوسروں کو نیچا دکھانے کی عادت ڈال لی تھی۔

گاؤں کے حجرے میں جب بھی سب لوگ بیٹھتے، سعید خان اکثر باتوں میں رحمت کو طنز اور طعنہ مارتا:

"اوے رحمت، تیرے جوتے تو اب بھی پھٹے ہیں؟"

"تمہارا بیٹا کھیتوں میں مزدوری کرتا ہے، اس کا مستقبل کیا ہوگا؟"

رحمت خان خاموشی سے برداشت کر لیتا، مگر اس کے دل پر یہ الفاظ تیر کی طرح لگتے۔

---

📍 ایک دن کا واقعہ

ایک دن سعید خان نے حد ہی کر دی۔
اس نے رحمت خان کے بونے بیٹے پر ہنسی اُڑاتے ہوئے کہا:
"دیکھو تو، یہ تو کبھی بڑا ہی نہیں ہوگا!"

رحمت خان نے گہری نظر سے اس کی طرف دیکھا اور پر سکون لہجے میں جواب دیا:
"سعید خان! کیا تم میرے بیٹے پر ہنس رہے ہو یا اس کے خالق پر؟"

یہ جملہ مجلس پر بجلی بن کر گرا۔ سب لوگ سن کر سہم گئے، اور سعید خان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔

---

📖 پھر قرآن کی آواز

اسی شام گاؤں کے حجرے میں ایک بزرگ عالم دین آئے۔ انہوں نے قرآن کی تلاوت شروع کی اور یہ آیت پڑھی:

> "وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ"
(ہلاکت ہے ہر طعنہ دینے والے اور عیب جوئی کرنے والے کے لیے۔) — [104:1]

پھر انہوں نے کہا:
"بیٹو! انسان کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ دل کو ایسے کاٹ دیتا ہے جیسے خنجر گوشت کو۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے لیے ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔"

---

📖 دوسری نصیحت

انہوں نے ایک اور آیت پڑھی:

> "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ..." — [49:11]
(اے ایمان والو! نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں، ہو سکتا ہے وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں...)

پھر کہا:
"تم نہیں جانتے جس پر تم ہنس رہے ہو، اللہ کے نزدیک وہ تم سے کہیں بلند ہو سکتا ہے۔"

---

📖 تیسری یاد دہانی

انہوں نے آخر میں یہ آیات بھی سنائیں:

> "وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ" — [68:10-11]
(اور کسی ایسے کثرت سے قسم کھانے والے ذلیل شخص کی بات نہ مانو، جو طعنے دیتا ہے اور عیب لگاتا ہے، اور لوگوں کے درمیان چغلی کرتا پھرتا ہے۔)

---

سعید خان کی آنکھیں کھلیں

یہ سب سن کر سعید خان کا دل لرز گیا۔
اسے اپنی تمام باتیں یاد آئیں، خاص طور پر رحمت خان کے بیٹے پر کی گئی بے ادبی۔
وہ سب کے سامنے اٹھا، رحمت کے قدموں میں بیٹھ گیا اور روتے ہوئے کہا:

"بھائی، مجھے معاف کر دو۔ میں نے تمہیں اور تمہارے بیٹے کو طعنوں سے دکھ دیا۔ آج قرآن کی آیات نے میرا دل بدل دیا ہے۔"

رحمت خان کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اس نے اپنے دوست کو گلے لگا لیا اور کہا:
"میں نے تمہیں پہلے ہی معاف کر دیا تھا۔ آؤ، اب ہم اپنی زبان کو دوسروں کی عزت کے لیے ڈھال بنائیں، زخم کا تیر نہیں۔"

---

🌿 سبق

طعنہ دینا، عیب جوئی اور مذاق اڑانا ایک معمولی بات نہیں، یہ اللہ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔

کسی کی تخلیق پر ہنسنا دراصل خالق پر ہنسنے کے مترادف ہے۔

مومن کی زبان سے دلوں کو سکون ملتا ہے، زخم نہیں۔

22/08/2025

علی بچپن سے ہی مقابلے کی دوڑ میں دھکیلا گیا۔ گھر میں نمبر اور گریڈ ہی سب کچھ تھے۔ ماں کہتی،
“اگلی بار پورے نمبر چاہئیں، ورنہ سب کے سامنے شرمندگی ہوگی۔”
باپ نصیحت کرتا،
“پڑھو بیٹا، اچھی نوکری، بڑی تنخواہ—بس یہی عزت ہے دنیا میں۔”

وقت گزرا، علی نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اچھی نوکری ملی، بڑی تنخواہ آئی۔ لیکن اندر سے وہ خالی رہا۔ دوست کامیاب ہوئے تو دل میں جلن، کسی کی تعریف ہوئی تو کڑواہٹ۔

جلد ہی کرپشن اور ناجائز کمائی نے اس کی زندگی بدل دی۔ شہر میں کوٹھی خریدی، بیوی نے کہا،
“اب لوگ ہمیں دیکھ کر رشک کریں گے۔”
بچوں کو مہنگے پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کرایا، لیکن وہ ضدی اور بگڑے ہوئے نکلے۔ ایک دن بیٹا روتے ہوئے بولا،
“ابو! میں کتنا بھی پڑھ لوں، آپ خوش نہیں ہوتے… میں ناکام ہوں۔”
علی نے سخت لہجے میں کہا،
“محنت کرو، ناکام ہونا ہماری فیملی کے لیے شرم کی بات ہے۔”
کچھ دن بعد وہی بیٹا اپنے کمرے میں مردہ پایا گیا۔

ادھر دفتر میں بھی حالات بگڑ چکے تھے۔ باس نے فائل پھینکتے ہوئے کہا،
“علی، تمہارے خلاف انکوائری شروع ہو گئی ہے۔ اوپر سے سوال ہو رہے ہیں کہ یہ ساری دولت کہاں سے آئی۔”
علی خاموش بیٹھا تھا۔ بڑی کوٹھی، گاڑیاں، بینک بیلنس—سب کچھ ہونے کے باوجود، اندر ایک ایسا خلا تھا جسے نہ پیسہ بھر سکا نہ شہرت۔

19/08/2025

آئینے کے قیدی

سارہ کی شادی عامر سے ہوئی تو سب نے کہا کہ وہ کتنا خوش نصیب ہے۔ عامر پر اعتماد، خوش لباس اور ہر محفل کا مرکز تھا۔ لیکن گھر کے دروازے بند ہوتے ہی اس کا دوسرا چہرہ سامنے آجاتا۔

عامر کو ہمیشہ تعریف چاہیے تھی۔ اگر سارہ کھانا پکاتی تو وہ کہتا:
"یہ تو کچھ خاص نہیں۔ میرے بغیر تو تم کچھ بھی نہیں کر سکتیں۔"

اگر سارہ کی کسی نے تعریف کی تو عامر فوراً بولتا:
"یہ سب میری وجہ سے ہے، ورنہ تمہاری کیا حیثیت تھی؟"

وہ دوسروں کے سامنے مسکراتا، لیکن سارہ کو تنہا اور غیر اہم محسوس کراتا۔ دھیرے دھیرے سارہ کی آواز دبتی گئی۔ لیکن ایک دن اس نے فیصلہ کر لیا۔ خاموشی توڑ دی۔

“عامر، تمہیں صرف اپنی ذات نظر آتی ہے۔ اس رشتے میں میری کوئی جگہ نہیں۔”

یہ کہہ کر وہ اپنا سامان سمیٹ کر گھر چھوڑ گئی۔

---

عامر ٹوٹا ہوا بیٹھا اپنے قریبی دوست زاہد کے پاس گیا۔

عامر (اداسی سے): یار زاہد، وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔ کہتی ہے میں خود غرض ہوں، صرف اپنی فکر کرتا ہوں۔ کیا واقعی میں ایسا ہوں؟

زاہد (سنجیدگی سے): دیکھ عامر، تجھے برا نہ لگے تو کچھ سوال پوچھوں؟

عامر: پوچھ۔

زاہد: کیا تجھے ہمیشہ دوسروں سے تعریف چاہیے ہوتی ہے؟ اگر نہ ملے تو غصہ آتا ہے؟

عامر (جھجکتے ہوئے): ہاں… شاید۔ تعریف نہ ملے تو لگتا ہے کہ میری اہمیت ہی نہیں۔

زاہد: کیا تو اکثر اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتا ہے؟

عامر (تھوڑی شرمندگی سے): سچ کہوں تو ہاں۔ مجھے لگتا ہے میں سب سے الگ اور برتر ہوں۔

زاہد: اور کیا جب سارہ کامیاب ہوتی تھی تو تجھے برداشت نہیں ہوتا تھا؟

عامر (خاموش رہ کر پھر سر جھکا کے): ہاں… اس کی کامیابی مجھے اپنی ناکامی لگتی تھی۔

زاہد: یہ سب نرگسیت (Narcissistic Personality Disorder) کی علامات ہیں۔ انسان باہر سے بڑا پُراعتماد لگتا ہے، لیکن اندر سے خود کو کمزور اور خالی محسوس کرتا ہے۔ اسی لئے بار بار دوسروں کی تعریف چاہتا ہے، دوسروں کو نیچا دکھا کے خود کو اوپر رکھتا ہے۔
عامر (حیران): کیا مطلب؟ میں نے کیا کمی کی؟

زاہد: کمی نہیں، بلکہ زیادتی۔ تم ہمیشہ اپنی تعریف چاہتے ہو۔ جب کوئی تمہاری تعریف نہ کرے تو تم برداشت نہیں کرتے۔ تم دوسروں کے احساسات کو معمولی سمجھتے ہو، خاص طور پر سارہ کے۔

عامر (مدافعانہ لہجے میں): ارے یہ تو ہر شوہر کرتا ہے۔

زاہد: نہیں، ہر شوہر اپنی بیوی کو بے وقعت نہیں کرتا۔ یہ وہ علامات ہیں جو "نارسیسزم" یعنی "خود پسندی کی بیماری" میں دیکھی جاتی ہیں۔

عامر (چونک کر): بیماری؟ کیا میں پاگل ہوں؟

زاہد: نہیں، پاگل پن نہیں۔ یہ ایک شخصیت کا عارضہ ہے۔ نارسیسٹک پرسنالٹی ڈس آرڈر۔ اس میں انسان کو اپنی اہمیت غیر معمولی لگتی ہے، مسلسل تعریف کی ضرورت رہتی ہے، اور دوسروں کے احساسات کی پرواہ کم ہو جاتی ہے۔ تمہاری عادتیں اسی کی عکاسی کرتی ہیں۔

عامر (خاموش ہو کر): تو کیا یہ ٹھیک ہو سکتا ہے؟

زاہد: بالکل۔ مگر پہلا قدم یہ ہے کہ تم تسلیم کرو کہ مسئلہ تمہارے اندر ہے۔ علاج کے لئے ماہرِ نفسیات یا سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ وہ تھراپی کر کے تمہیں یہ سکھائیں گے کہ کس طرح دوسروں کے جذبات کو سمجھنا ہے، کس طرح غصے اور تنقید کو برداشت کرنا ہے، اور اپنے رویے کو بدلنا ہے۔

عامر (آہستہ آہستہ): تو تم کہنا چاہتے ہو کہ اگر میں یہ سب نہ بدلوں تو...؟

زاہد: تو تم تنہا رہ جاؤ گے، آئینے سے باتیں کرتے رہو گے، اور کوئی تمہارے پاس ٹھہرنا نہیں چاہے گا۔ لیکن اگر تم مدد لینے پر راضی ہو جاؤ تو تم اپنی زندگی اور رشتے دونوں بچا سکتے ہو۔

عامر پہلی بار خاموش بیٹھا، اُس کی آنکھوں میں وہ غرور نہیں تھا جو ہمیشہ جھلکتا تھا۔ اُس نے دھیرے سے کہا:
"شاید واقعی مجھے مدد کی ضرورت ہے۔"

عامر (پریشان ہو کر): تو پھر میں کیا کروں؟ کیا یہ بدل سکتا ہے؟

زاہد (نرمی سے): ہاں، بدل سکتا ہے۔ لیکن پہلا قدم یہ ہے کہ تُو مان لے کہ تجھے یہ مسئلہ ہے۔ پھر کسی ماہرِ نفسیات یا سائیکاٹرسٹ سے رجوع کرے۔ وہ تجھے تھراپی کے ذریعے سمجھائے گا کہ تو دوسروں کے جذبات کو کیسے سمجھے اور خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کرنے کی عادت کیسے کم کرے۔

عامر (سوچتے ہوئے): یعنی اگر میں علاج کراؤں تو شاید رشتے بہتر ہو سکیں؟

زاہد: بالکل۔ لیکن یاد رکھ، یہ وقت اور محنت مانگتا ہے۔ تُجھے خود سیکھنا ہوگا کہ سارہ جیسے لوگ قربانی نہیں دیتے تاکہ کوئی انہیں کچل دے، بلکہ وہ ساتھ دینے کے لئے ہوتے ہیں۔ اگر تُو یہ سمجھ لے، تو شاید کبھی وہ واپس بھی آجائے۔

---

عامر پہلی بار آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر خاموش رہا۔ آج اُس نے اپنی مسکراہٹ یا کپڑوں کی نہیں، بلکہ اپنے خالی پن کی جھلک دیکھی۔ زاہد کی باتیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔

شاید یہ شروعات تھی — آئینہ ٹوٹا نہیں تھا، مگر اُس میں پہلی بار سچ نظر آنے لگا تھا۔

18/08/2025

🌿 دو خاندانوں کی کہانی: زمرد خان اور بہادر خان

حصہ اول: بچپن کے دن

زمرد خان کا گھر:
زمرد اپنے بیٹے شمس کے پاس بیٹھا تھا، جو کھیل ہارنے کے بعد سر جھکائے دل شکستہ تھا۔ صحن میں گلاب کے پھول ہوا میں لہرا رہے تھے، اور باورچی خانے سے بی بی گل کے ہاتھوں کے بنے پراٹھوں کی خوشبو آ رہی تھی۔

زمرد خان (نرمی سے، شمس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے):
"شمس، بیٹا، زندگی ایک کھیل ہے، جہاں ہار اور جیت موسموں کی طرح بدلتے ہیں۔ اصل بہادری یہ نہیں کہ تم کبھی نہ گرے، بلکہ یہ کہ گر کر اٹھ جاؤ اور اپنے دل کی روشنی کو بجھنے نہ دو۔ پھول اپنی خوشبو سے پہچانے جاتے ہیں، کانٹوں سے نہیں۔"

شمس (آنکھوں میں اداسی، لیکن ہلکی چمک کے ساتھ):
"ابا، جب دوست ہنستے ہیں تو دل دکھتا ہے… کیسے برداشت کروں؟"

زمرد خان (گہری مسکراہٹ کے ساتھ):
"ہنسی تو ہوا کا جھونکا ہے، بیٹا۔ آتی ہے، گزر جاتی ہے۔ اپنے دل کی آواز سنو، وہ تمہیں تمہاری اصلیت سے جوڑے گی۔"

بی بی گل (دروازے سے جھانکتی ہوئی، مسکرا کر):
"زمرد، تمہاری محبت نے اس گھر کو باغ بنا دیا، اور شمس کے دل کو ایک روشن چراغ!"

---

بہادر خان کا گھر:
دوسری طرف، بہادر خان کا گھر سرد اور خاموش تھا۔ اسد، اس کا بیٹا، کھیل ہارنے کے بعد ایک تاریک کونے میں چھپا بیٹھا تھا، آنکھیں آنسوؤں سے تر، دل خوف میں جکڑا ہوا۔

بہادر خان (غرور اور غصے سے گرجتے ہوئے):
"بزدل! یہ آنسو کیا ہیں؟ مرد کبھی نہیں روتے! فلاں کا بیٹا دیکھ، کتنا دلیر ہے! تم سے شرم آتی ہے!"

اسد کی ماں (تلخ لہجے میں):
"یہ لڑکا ہمارے خاندان کی ناک کاٹنے آیا ہے!"

اسد کی آواز دب گئی، دل خوف کی زنجیروں میں قید۔ (پشتو کہاوت: زړہ پہ ویره کے بند وی، غگ نہ کوی۔)

---

حصہ دوم: جوانی کی کشمکش اور معاشرتی دباؤ

زمرد خان کا گھر:
شمس اسکول میں ایک روشن ستارہ بن چکا تھا۔ وہ نہ صرف پڑھائی میں آگے تھا بلکہ مہربانی، خودشناسی، اور دوسروں کے لیے ہمدردی سے سب کے دلوں کو جوڑتا تھا۔

استاد (فخر سے):
"شمس، تمہارے جیسے لڑکوں سے یہ گاؤں روشن ہے۔ تمہاری محنت اور اخلاق ہم سب کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔"

شمس (عاجزی سے):
"استاد جی، یہ سب میرے والدین کی محبت اور رہنمائی کا کرشمہ ہے۔ انہوں نے مجھے سکھایا کہ 'درخت کو پانی دو تو سایہ دے گا، آگ دو تو جل جائے گا۔'"

---

بہادر خان کا گھر:
اسد معاشرتی دباؤ اور والد کی سختی میں پھنس گیا۔ اسکول میں وہ لڑائی، جھوٹ اور شرارت میں ڈوبا رہا۔ دل میں غصہ، تنہائی اور خود سے نفرت کا قید تھا۔ لیکن کہیں دل کی چھوٹی سی آواز اسے بلاتی رہی کہ وہ بہتر ہو سکتا ہے۔

حصہ سوم: جرگہ

گاؤں میں جرگہ بلایا گیا۔ مسئلہ: نوجوانوں میں بدمعاشی، نشہ، اور گمراہی۔

بزرگ (شمس سے):
"شمس، بتاؤ، ان گمراہ دلوں کو کیسے راہ پر لاؤ گے؟"

شمس (پرجوش):
"ڈانٹ سے نہیں، محبت سے۔ تنقید سے نہیں، حوصلے سے۔ کھیل، سچی بات چیت، اور دوستی سے دل بدلتے ہیں۔ میرے ابا کہتے ہیں: 'لوہا گرم ہو تو اسے موڑ لو، لیکن زیادہ مارو تو ٹوٹ بھی سکتا ہے۔'"

اسد کو پولیس نے زخمی حالت میں پکڑا۔

بہادر خان (غصے سے):
"میں نے اسے سختی سے مرد بنانے کی کوشش کی! لیکن یہ نالائق بس ہماری ناک کٹواتا ہے!"

جرگے کا بزرگ:
"بہادر، تم نے اسے طاقت سکھائی، لیکن رحم نہیں۔ سختی دی، لیکن محبت نہیں۔ اصل بہادری دوسروں کو توڑنے میں نہیں، اپنے غصے اور انا پر قابو پانے میں ہے۔"

---

حصہ چہارم: امید کی نئی صبح

شمس نے اسد سے ملاقات کی۔

شمس (دوستانہ، گہرے جذبے سے):
"اسد، زندگی ایک موقع ہے۔ ہم سب گرتے ہیں، لیکن جو اٹھتا ہے، وہی مرد ہے۔ تمہارے اندر وہ روشنی ہے جو دنیا کو روشن کر سکتی ہے۔ آؤ، مل کر ایک نیا راستہ بنائیں۔"

اسد (پہلی بار دل سے مسکراتے ہوئے):
"شمس، کیا واقعی میرے جیسا کوئی بدل سکتا ہے؟"

شمس (مطمئن لہجے میں):
"ہر دل میں ایک بیج ہوتا ہے، اسد۔ اسے محبت کا پانی دو، تو وہ پھول بنے گا۔"

---

حصہ پنجم: ایک نئی نسل کی اصلاح

شمس اور اسد نے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے کھیل کا میدان بنایا۔
وہ نہ صرف کھیل سکھاتے بلکہ نوجوانوں سے ان کے خواب، خوف اور امیدوں کی باتیں کرتے۔ اسد نے اپنی کہانی سنائی کہ وہ کیسے روشنی کی طرف آیا۔

بہادر خان:
"زمرد، تم نے اپنے بیٹے کو روشنی دی، اور میں نے اپنے بیٹے کو آگ۔ آج تمہارے بیٹے نے میرے بیٹے کو بچا لیا۔ اب ہم سب مل کر گاؤں کو ایک نیا باغ بنائیں گے۔"

---

سبق اور مثبت تربیت

محبت، رہنمائی اور حوصلہ بچوں کو ستاروں کی طرح چمکاتے ہیں۔

سختی، تنقید اور معاشرتی دباؤ انہیں اندھیروں میں گم کر دیتے ہیں۔

خودشناسی، امید کی بحالی اور انسانی رشتوں کی طاقت انسان کو اپنی اصلیت سے جوڑتی ہے۔

17/08/2025

✍️ فیس بُک کہانی (سیریز کا پہلا حصہ،)

خاموش دیواریں

درہ آدم خیل کے گاؤں میں گل رحمان اپنے خاندان کے ساتھ رہتا تھا۔ محنتی اور ایماندار آدمی تھا، دو دو نوکریاں کرتا تاکہ بچوں کو پڑھا سکے اور گھر کو سہولت دے سکے۔ مگر گھر کی دیواروں کے اندر عجیب سا سکوت تھا—ایسا سکوت جس میں الفاظ نہیں، مگر دلوں کی تھکن اور شکوے چھپے تھے۔

زرغونہ اکثر شکایت کرتی:
"گل رحمان، میں دن رات گھر سنبھالتی ہوں۔ کبھی تعریف کے دو بول تو بول دیا کرو۔"

گل رحمان جواب دیتا:
"زرغونہ، ہمارے پشتون کلچر میں کہاں یہ رواج ہے کہ شوہر بیوی کو کھل کر سراہیں؟ ہم زبان سے نہیں، عمل سے دکھاتے ہیں۔"

لیکن گل رحمان کو یہ احساس نہیں تھا کہ زرغونہ کے لئے سب سے بڑا زخم کہیں اور سے لگ رہا تھا۔

---

ساس اور بہو

گل رحمان کی ماں ہمیشہ اپنی بیٹیوں کی تعریف کرتی رہتی:
"میری بیٹیاں اپنے گھروں میں ایسے جادو کرتی ہیں۔ صفائی دیکھو، کھانے پکانے کا انداز دیکھو۔"

زرغونہ دل ہی دل میں سوچتی:
"کاش ایک دن یہ میری بھی تعریف کر لیں کہ میں دن رات اسی گھر کے لئے کام کرتی ہوں۔"

ساس اگر کبھی بہو کا ذکر کرتی بھی تو صرف کمی نکالنے کے لئے:
"زرغونہ، یہ صفائی اچھی نہیں۔ کھانا ذائقے دار نہیں۔ میری بیٹی ہوتی تو کمال کر دیتی۔"

بیٹیاں ہفتے میں ایک آدھ دن میکے آتیں تو ساس ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیتی۔ لیکن بہو، جو سال کے 365 دن اسی گھر میں قربانی دیتی، اس کے حصے میں صرف تنقید آتی۔

---

خاموش جنگ

زرغونہ نے کئی بار گل رحمان کو کہا:
"میں جتنی محنت کرتی ہوں، کبھی آپ کی ماں نے میرا شکریہ ادا کیا؟ وہ تو صرف اپنی بیٹیوں کو بہتر ثابت کرتی ہیں۔ کیا میرا وجود صرف خدمت کے لئے ہے؟"

گل رحمان بیچ میں خاموش رہتا، کیونکہ ماں کے سامنے بولنے کی ہمت نہ تھی۔ لیکن یہ خاموشی زرغونہ کے دل کو اور سخت کرتی گئی۔

آخر کار زرغونہ نے کہا:
"اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ گھرانہ سلامت رہے تو ہمیں الگ رہنا ہوگا۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں اس گھر کی بیٹی نہیں بلکہ بوجھ ہوں۔"

یوں ساس کی appreciation کی کمی نے ایک اور جوائنٹ فیملی کو توڑ دیا۔

---

سوچنے کا لمحہ

گل رحمان نے ایک رات سوچا:
"ماں نے اپنی بیٹیوں کو عزت دی، ان کی تعریف کی، اور وہ اپنے گھروں میں خوش رہیں۔ لیکن اگر انہوں نے بہو کو بھی بیٹی کی طرح سراہا ہوتا تو میرا گھر بھی جنت بن سکتا تھا۔"

قرآن کی آیت اس کے ذہن میں آئی:
"اور بھلائی اور نیکی میں ایک دوسرے کا ساتھ دو، لیکن گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کا ساتھ نہ دو۔" (المائدہ 2)

---

تبدیلی کی شروعات

اگلی صبح زرغونہ نے خود پہل کی۔ ساس کے لئے کھانا رکھا اور کہا:
"اماں جی، آپ کے بیٹوں اور بیٹیوں نے آپ کی تربیت سے سب کچھ سیکھا ہے۔ آپ واقعی قربانی دینے والی ماں ہیں۔"

یہ پہلی بار تھا کہ بہو نے مثبت الفاظ استعمال کئے۔
ساس کچھ دیر خاموش رہی، پھر آہستہ سے بولی:
"زرغونہ، میں نے کبھی زبان سے نہیں کہا، مگر تمہارے کام کے بغیر یہ گھر چل ہی نہیں سکتا۔"

گل رحمان نے بھی کہا:
"اماں، زرغونہ کے ساتھ بھی وہی محبت اور شکریہ کیجئے جو آپ اپنی بیٹیوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ یہ بھی تو آپ کی بیٹی جیسی ہے۔"

ساس کی آنکھوں میں نرمی آئی۔ اور پہلی بار زرغونہ نے محسوس کیا کہ اُس کی محنت کو پہچانا گیا ہے۔

---

نتیجہ

جب تعریف اور شکریہ کا ماحول پیدا ہوا تو گھر کا بوجھ ہلکا لگنے لگا۔
زرغونہ نے کہا:
"ایک دوسرے کی تعریف کرنے سے ہی گھر آباد رہتا ہے۔ اگر شکریہ کلچر نہ ہو تو جوائنٹ فیملی بھی ٹوٹ جاتی ہے۔"

---

سائنسی حقیقت

ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ جب رشتوں میں appreciation کا اظہار نہ ہو تو دل میں resentment (کڑواہٹ) جمع ہوتی ہے جو تعلقات توڑ دیتی ہے۔
امریکہ کی ایک تحقیق کے مطابق، خاندانوں میں شکریہ اور تعریف کا کلچر stress hormones کو کم کرتا ہے اور اعتماد بڑھاتا ہے۔
جوائنٹ فیملی سسٹم اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب ساس بہو کو بیٹی کی طرح سراہے اور بیوی شوہر کی محنت کو پہچانے، ورنہ شکریہ کی کمی سے رشتے بکھر جاتے ہیں۔

---

سبق

ساس اگر اپنی بیٹی کو بیٹی کہہ کر تعریف کرتی ہے تو بہو کو بھی بیٹی مان کر سراہنا چاہئے۔ بیوی اگر شوہر کی محنت کو مانتی ہے تو شوہر کو بھی بیوی کی قربانی کو پہچاننا چاہئے۔
شکریہ کے چند لفظ گھر کو جوڑتے ہیں، ان کی کمی گھر کو توڑ دیتی ہے۔ 🌿

17/08/2025

✍️ فیس بُک پوسٹ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته 🌸

میں نے اپنی زندگی اور اردگرد کے معاشرے میں کچھ رویے دیکھے ہیں جو بظاہر "نارمل" لگتے ہیں مگر حقیقت میں یہ ہمارے گھروں، رشتوں اور دلوں میں فاصلے پیدا کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم چند چھوٹی چھوٹی باتوں کو بدل لیں تو ہماری زندگیاں جنت بن سکتی ہیں۔

اسی مقصد کے لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں وقتاً فوقتاً چھوٹی کہانیاں لکھوں گا، جو حقیقت پر مبنی نہیں ہوں گی بلکہ اصلاحی اور سیکھنے کے لیے ہوں گی۔ یہ کہانیاں خاص طور پر ہمارے پختون/پشتون معاشرے کی چند کمزوریوں اور عادات پر روشنی ڈالیں گی—ایسی عادات جنہیں ہم روایت سمجھ کر اپنا لیتے ہیں، حالانکہ وہ دراصل ہمارے لیے نقصان دہ ہیں۔

📌 ڈسکلیمر: یہ کہانیاں مکمل طور پر فرضی ہوں گی۔ اگر کسی کردار یا واقعے سے کسی کی حقیقی زندگی سے مشابہت ہو تو یہ محض اتفاق ہوگا۔ مقصد صرف اور صرف سماجی اصلاح اور سوچ میں تبدیلی ہے۔

امید ہے آپ ان کہانیوں کو دل سے پڑھیں گے اور ان پر غور بھی کریں گے۔ 🌿
آئیے ہم سب مل کر اپنے گھروں اور دلوں کو خوشیوں سے بھرنے کی کوشش کریں۔

03/03/2025

Quran and science.
Here’s a comprehensive list of scientific miracles in the Quran, categorized by field:

---

Astronomy & Cosmology

1. The Big Bang Theory – "Have those who disbelieved not considered that the heavens and the earth were a joined entity, and We separated them and made from water every living thing?" (21:30)

Suggests that the universe was once a singular entity before expanding, aligning with the Big Bang Theory.

2. The Expansion of the Universe – "And the heaven We constructed with strength, and indeed, We are [its] expander." (51:47)

Matches Edwin Hubble’s discovery that the universe is expanding.

3. The Protective Atmosphere – "And We made the sky a protective ceiling, but they turn away from its signs." (21:32)

The atmosphere protects Earth from harmful solar radiation and meteors.

4. The Orbits of Celestial Bodies – "And He is the One Who created the night and the day, the sun and the moon, each swimming in an orbit." (21:33)

Describes the motion of celestial bodies, discovered in modern astronomy.

5. The Black Hole Concept – "So I swear by the receding stars, those that run and disappear." (81:15-16)

Some scholars relate this to black holes, which consume matter and light.

---

Earth & Geology

6. Mountains as Pegs for Stability – "And We placed within the earth firmly set mountains, lest it should shift with them." (21:31)

Geology confirms that mountains have deep roots, stabilizing the crust.

7. The Barrier Between Seas – "He has set free the two seas meeting together. Between them is a barrier which they do not transgress." (55:19-20)

Oceanography confirms distinct water properties prevent immediate mixing.

8. The Darkness in the Deep Ocean – "Or [they are] like layers of darkness in a vast deep sea, covered by waves, above which are waves, above which are clouds—darknesses, some of them upon others." (24:40)

Describes deep-sea conditions, unknown before modern submarine exploration.

9. The Earth’s Rotation – "You see the mountains and think them firmly fixed, but they pass away as the clouds pass away." (27:88)

Suggests the Earth’s movement, though it appears stationary.

---

Biology & Medicine

10. Embryology & Fetal Development – "We created man from an extract of clay. Then We made him a drop in a secure resting place. Then We made the drop into a clinging clot, then We made the clot into a lump, then We made the lump into bones, and We clothed the bones with flesh." (23:12-14)

Describes stages of human embryonic development, later confirmed by science.

11. Pain Receptors in the Skin – "Every time their skins are burned, We will replace them with new skins so they may taste the punishment." (4:56)

Confirms that pain receptors are in the skin, not deep tissues.

12. The Creation of Pairs in Living Beings – "And of everything We created pairs, that you may remember." (51:49)

Modern genetics shows reproduction is based on pairs (male/female, chromosomes, etc.).

13. The Importance of Water for Life – "And We made from water every living thing. Will they not then believe?" (21:30)

Science confirms all living organisms depend on water.

---

Physics & Chemistry

14. Iron Sent from Space – "And We sent down iron, in which is great military might and benefits for the people." (57:25)

Science confirms iron originates from supernova explosions in space.

15. The Existence of Subatomic Particles – "And not an atom's weight in the heavens or in the earth escapes Him, nor anything smaller than that or greater, but it is in a clear Register." (34:3)

Suggests the existence of tiny particles, like atoms and subatomic particles.

16. The Function of the Wind in Pollination – "And We send the fertilizing winds." (15:22)

Describes wind pollination, a key biological process.

---

Psychology & Human Behavior

17. Lying and the Prefrontal Cortex – "A lying, sinful forelock!" (96:16)

Neuroscience confirms that decision-making, morality, and deception are linked to the prefrontal cortex.

18. The Effect of Stress on the Heart – "But no! Rather, their hearts have become rusted by what they used to earn." (83:14)

Modern cardiology links stress and negative emotions to heart disease.

---

Time & Space

19. Time Relativity – "A day with your Lord is like a thousand years of what you count." (22:47)

Echoes Einstein’s Theory of Relativity, where time is relative to speed and gravity.

20. The Speed of Light & Angelic Travel – "The angels and the Spirit ascend to Him in a day, the measure of which is fifty thousand years." (70:4)

Some interpret this as a reference to rapid travel, possibly light-speed concepts.

---

Zoology & Agriculture

21. Bees and Their Special Flight Paths – "And your Lord inspired the bee: ‘Take for yourself dwellings in the mountains, in the trees, and in what they construct.'" (16:68)

Describes bee navigation, which scientists later discovered involves complex communication and orientation.

22. Milk Formation in Cattle – "And indeed, for you in cattle is a lesson: We give you drink from what is in their bellies—between excretion and blood—pure milk, palatable to drinkers." (16:66)

Describes the digestive and circulatory processes involved in it

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when KPK: Moving Toward Solutions posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share