28/10/2025
اصل اپوزیشن لیڈر سے خوف
مشر محمود خان اچکزئی
تحریر: رفیع اللہ خٹک
پاکستان کی سیاست میں اپوزیشن وہی کامیاب سمجھی جاتی ہے جو اقتدار کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہو جائے۔ مگر کبھی کبھار کوئی ایسا رہنما بھی سامنے آتا ہے جو اقتدار کے لالچ سے بلند، اصولوں کی طاقت سے مسلح اور عوامی شعور سے جڑا ہوتا ہے۔ آج پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایسی ہی ایک شخصیت کھڑی ہے محترم مشر محمود خان اچکزئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو کسی اپوزیشن لیڈر سے حقیقی خطرہ محسوس ہوا ہے۔ خطرہ اس لیے نہیں کہ وہ طاقت رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی طاقت رکھتے ہیں ۔پاکستان میں اپوزیشن اکثر اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ رہی ہے کبھی مفاہمت کے نام پر، کبھی قومی مفاد کے نام پر اور کبھی ایک پیج کے نام پر اپوزیشن کا اصل کام یعنی عوام کے حق میں اور طاقت کے خلاف بولنا برسوں سے معدوم رہا ہے مگر جب پارلیمان میں عمران خان اور ان کی جماعت تحریکِ انصاف نے محترم مشر محمود خان اچکزئی کو بطور اپوزیشن لیڈر نامزد کیا تو طاقت کے ایوانوں میں بےچینی بڑھ گئی۔ کیونکہ اگر محمود خان اچکزئی اپوزیشن لیڈر بن گئے تو پہلی بار وہ کرسی کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں آئے گی جو نہ بکتا ہے، نہ جھکتا ہے اور نہ خاموش ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس رہنما نے آئین، صوبائی خودمختاری اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کی وہ خطرہ قرار پایا۔ چنانچہ جب اچکزئی صاحب کے اپوزیشن لیڈر بننے کا امکان پیدا ہوا تو طاقت کے مراکز نے اپنی پالیسیاں متحرک کر دیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں جو دن رات جمہوریت کے راگ الاپتی ہیں، وہ بھی محترم مشر کے خلاف سرگرم ہو گئیں۔ یہ سوال اہم ہے آخر اسٹیبلشمنٹ اور اس کے تابع سیاسی گروہ محمود خان اچکزئی سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اس کا جواب سادہ ہے کیونکہ وہ نظام کے اندر سے نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔ وہ آئینِ پاکستان کی اصل روح پر کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اصل اختیار پارلیمان کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ فوج اور خفیہ اداروں کے پاس۔وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبوں کو ان کے وسائل پر مکمل حق دیا جائے اور فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت سب ادارے آئین کے تابع ہوں۔
وہ افغانستان کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ امن اور برابری پر مبنی تعلقات کے حامی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان کے طاقتور حلقے سننا نہیں چاہتے کیونکہ ان سچائیوں سے طاقت کی مصنوعی بنیادیں لرزتی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی کم اور سمجھوتے زیادہ کرتی ہیں۔
کبھی مفاد کے لیے خاموش رہنا، کبھی طاقت کے اشارے پر چلنا یہ ان کی پرانی عادت ہے۔ ان کے نزدیک سیاست اصول نہیں بلکہ پوزیشن کا کھیل ہے مگر محمود خان اچکزئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس کھیل کے کھلاڑی نہیں بلکہ اس کھیل کے نقشہ سازوں کو بے نقاب کرنے والے شخص ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر پارلیمان واقعی عوامی نمائندگی کا ادارہ ہے تو فیصلے بند کمروں میں نہیں ایوانوں میں ہونے چاہئیں اور یہی نظریہ انہیں باقی سب سے منفرد بناتا ہے۔ وہ وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں مگر زبردستی کے اتحاد کے ذریعے نہیں بلکہ اختیارات کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے۔ان کی سیاست پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی سب کے حقِ حاکمیت کی سیاست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک اکائی کمزور ہوتی ہے تو پورا وفاق ٹوٹ جاتا ہے اور جب سب برابر ہوتے ہیں تو ملک مضبوط ہوتا ہے۔ یہی فلسفہ پاکستان کے طاقتور طبقات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن کے لفظ کو اس قدر مسخ کر دیا گیا ہے کہ اب یہ لفظ اصولی مخالفت کے بجائے اقتدار کی دوسری لائن کا مترادف بن چکا ہے۔مگر اچکزئی صاحب نے اپوزیشن کو اس کے اصل مفہوم میں زندہ کیا حق گوئی، جمہوریت کا دفاع، اصولوں کی پاسداری اور آئین کی بالادستی۔ آج شاید انہیں اپوزیشن لیڈر بننے سے روک دیا جائے، شاید ان کے خلاف میڈیا مہم مزید تیز کر دی جائے مگر تاریخ کا فیصلہ ان لمحاتی سازشوں سے بڑا ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اقتدار کے غلام نہیں بنے،جو سچ بولنے کی قیمت ادا کرتے رہےاور جو اصولوں پر اٹل رہے۔ مشر محمود خان اچکزئی اسی قافلے کے آخری سپاہی نہیں بلکہ آنے والے دور کے رہنماؤں کے لیے ایک راستہ، ایک معیار، ایک درس ہیں۔ پاکستان کی سیاست اگر کبھی حقیقی معنوں میں جمہوری بننی ہے تو اسے محمود خان اچکزئی جیسے رہنماؤں کی سچائی برداشت کرنا سیکھنا ہوگا۔کیونکہ جمہوریت نعرے یا معاہدے سے نہیں بلکہ اصولوں پر کھڑے ہونے کے حوصلے سے زندہ رہتی ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ انہیں روک سکتی ہےمگر تاریخ نہیں اور تاریخ کا ورق ہمیشہ ان کے نام سے روشن رہے گا جنہوں نے سچ بولنے سے انکار نہیں کیا۔