Ahl-e-Qalam اھل قلم

  • Home
  • Ahl-e-Qalam اھل قلم

Ahl-e-Qalam اھل قلم Articles that meet the criteria are shared here in Ahl-e-Qalam.

بلوچ بھائیوں کے کوئٹہ کے حوالے سے دعوے اور ان کے جوابات۔ پہلا دعوی کوہ تہ یا شال : کہتے ہیں انگریز نے کسی بلوچ سے پوچھا ...
15/07/2025

بلوچ بھائیوں کے کوئٹہ کے حوالے سے دعوے اور ان کے جوابات۔
پہلا دعوی
کوہ تہ یا شال : کہتے ہیں انگریز نے کسی بلوچ سے پوچھا کہ اس جگہ کا نام کیا ہے انہوں نے جواب دیا کوہ تہ اور براہوی زبان کے لفظ شال نام تھا کوئٹہ کا۔
جواب: 1901 میں بلوچوں کی کل آبادی کوئٹہ میں 700 تھی اور انگریز ایک سو سال پہلے آئے تھے جس سے بلوچ بولنے آبادی دو سو ہو گی انگریز کو ہزاروں پشتون نہیں ملے اور 200 سو بلوچوں سے پوچھا کہ انہوں نے کوہ تھاہ بتا دیا۔ کوئٹہ افغان جغرافیہ میں صرف ایک نہیں ہے دو ہیں ایک کوئٹہ کابل میں بھی ہے جس کا نام کوئٹہ سنگی ہے۔ فیسک پر 'کوټه سنګي' سرچ کرو مل جائے گی۔ کو تھاہ صرف بلوچی نام باقی 99 فیصد نام پر بھی غور کرو وہ پشتو میں کیوں ہے۔ ہنہ اوڑک نوسار سرہ غولہ پنچپائی کچلاغ سرہ غوڑگئ تکتو زرغون بلیلئ سمنگلئ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری بات شال براہوی کا لفظ نہیں ہے شال پہاڑ ہے اس کے نیچے شالدرہ ہے اور اوڑک میں داخلی راستے کو شال تنگئ کہتے ہیں اور پشتون جغرافیہ میں شال کونڑ، باجوڑ اور اور جگہوں پر بھی شال نام کے جغرافیہ ہیں۔
اصلی تاریخ پڑھو یہ 11 سو سے لیکر 1860 تک قندھار کا مشرقی ضلع رہا ہے اور سب سے پہلے آباد ہونے والی قوم کاسی ہے۔
ایک دفعہ خان کلات عبداللہ خان نے جب افغان کمزور ہوئے تھے پشین تک قبضہ کیا تھا ژوب اور شوراوک تک لوگوں سے جانور لے گئے تھے خلجی محمد حسین ہوتک نے پشین لے لیا پھر کوئٹہ پھر مستونگ جب کلات کی باری ہے تو سرنڈر ہوئے علاقے مال مویشی واپس کئے اور ضمانت کے طور پر 5 سردار ساتھ قندھار لے گئے۔ پھر یہ علاقہ خلجیوں سے سفوید پھر احمد شاہ ابدالی کے زیر تسلط اگیا۔
آئین اکبری 1590 میں لکھ چکے ہیں کہ مستنگ پشین اور شال (کوئٹہ) قندھار کے مشرقی اضلاع تھے اور کوئٹہ میں کاسی افغان رہتے ہیں۔
سوال نمبر 2:
کہ کوئٹہ احمد شاہ ابدالی نے خان قلات کو ان کی والدہ محترمہ کو بطور شال دیا تھا اس لئے شالکوٹ کہتے ہیں یہ بات ھتو رام نے لکھی ہے۔
جواب: کیا احمد شاہ بابا خدا نخواستہ اتنے بے وقوف تھے کہ وہ اپنا جغرافیہ گفٹ کریں کسی کو۔ دوسری بات کیا زمین دی گئی تھی یا کوئٹہ میں رہنے والے لوگوں کو بھی گفٹ کیا۔ اگر صرف زمین دی گئی تھی تو احمد شاہ بابا نے کاسی بازئی درانی یسین زئی کو کیوں نہیں کہا تھا کہ زمین خالی کر دیں۔ ھاں مرہٹوں کے خلاف جنگ کٹ بعد واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے کچھ علاقوں کا کنٹرول دیا ہو گا اور خان کلات کو والئ (گورنر ) قلات لکھا گیا ہے۔ گوادر تک احمد شاہ بابا کی بادشاہت تھی۔
تیسری دعوی:
ایک چاچا ہے وہ کہتے ہیں کہ قندھار تک بلوچ سر زمین ہے اور کاسی کرد ہیں۔ کیا کاسی خود کو کرد کہتے ہیں اگر نہیں تو کسی پر اپنی سوچ تھوپنا غلط بات ہے حلانکہ یہ صاحب خود دھوار تاجک ہے لیکن خود کو بلوچ کہتے ہیں پھر بھی پشتون اسکو بلوچ مانتے ہیں۔ اگر کاسی خود کو افغان کہیں پھر کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کاسی کو بلوچ بنانے پر بضد ہو۔ لیکن جب ملکیت کی بات آتی ہے تو وہ کوئٹہ کا مالک تو بنتے ہیں لیکن چمن اور قندھار کا دعوی نہیں کرتے اس کا کیا مطلب؟ اس لئے تو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ اب انکو کون سمجھائے کہ توسیع پسندانہ سوچ اپنے لئے مشکلات بڑھانے ہوتے ہیں کم نہیں ہوتے۔
اب تک یہ تین دعوے موجود ہیں اب اور بھی دعوے آئیں گے اور کچھ نہ کچھ جگاڑ بنا لیں گے ہر دعوی کے لئے۔
نوٹ: کوئٹہ کے جنوب میں 3 میل کے فاصلے پر زنگی لوڑا (لوڑا پشتو میں ندی کو کہتے ہیں ) یہاں پر زنگی رند نے شاہجہاں کے دور میں بولان کے راستے کوئٹہ پر حملہ کیا وہ شکست کھائی اور جانبحق ہو گئے تھے اس واقعے کی وجہ سے اس ندی کا نام زنگی لوڑا رکھا گیا ہے۔
پشتون افغان کی سوچ:
دوسری طرف پشتون سادہ سا مقدمہ رکھتے ہیں کہ سر زمین غزنوی، غوری لودھی خلجیوں اور ابدالیوں افغان بادشاہوں کا مسکن رہا ہے۔ کاسی یہاں آباد تھے مغل کے دور میں بازئی اور یسین زئی آباد ہوئے۔ ہنہ اوڑک کے پورا علاقہ اور سپین کاریز کا مالک آج بھی مکمل طور یسین زئی ہے۔ تکتو اور سریلئ پہاڑ کے دامن میں آج بھی بازئی آباد ہیں۔ شال اور زرغون کا دامن کاسیوں کا ہے۔ ان زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے تاریخی کاریز 100 کے لگ بھگ موجود ہیں ان میں سے سب کے سب پشتونوں کے نام پر موجود ہیں کسی بلوچ یا براہوی میر معتبر کے نام سے نہیں ہے۔
ایک طرف سے کئی دعوے دوسری طرف سے صرف تاریخ رکھی جاتی ہے اور ملکیت ظاہر کی جاتی ہے۔ اور پشتون افغان نے اس سر زمین کی دفاع نہ صرف بیرونی حملہ آوروں سے کی ہے بلکہ براہویوں اور بلوچوں سے بھی دفاع کی ہے اور یہ تاریخی تلخ حقیقت ہے جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔
نوٹ: دلائل اور بھی ہیں ثبوتوں کے ساتھ۔ لیکن کہتے ہیں کہ چالیس عقلمند انسانوں کے لئے ایک دلیل بھی کافی ہوتی ہے اور جاہل کے لئے 40 دلیل بھی کافی نہیں ہوتے۔ ان دلائل کو لیکر ایک کتاب لکھ سکتے ہیں لیکن ناچیز سست ہے زیادہ
زحمت نہ دیں۔ شکریہ 😂
بلوچ سر زمین کو ہم اپنی بلوچ بہن کا چادر سمجھتے ہیں اور بدلے میں یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے جغرافیہ پر نظر نہ رکھی جاتے۔
سلامت باتے
Khasham Kasi

زيارت ميں ایک لاکھ ستر ہزار ایکڑ اراضی محکمہ زراعت کو الاٹ کرنیکے بارے میں نور محمد دومڑ کا ایک وڈیو میں کہنا ہے ، کہ یہ...
08/07/2025

زيارت ميں ایک لاکھ ستر ہزار ایکڑ اراضی محکمہ زراعت کو الاٹ کرنیکے بارے میں نور محمد دومڑ کا ایک وڈیو میں کہنا ہے ،
کہ یہ اراضی بشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دور حکومت میں عبد الرحیم زیارتوال نے 2014 میں الاٹ کی ہے ، مگر اب لوگ مجھے موردالزام ٹھہراتے ہیں ،
انہوں نے کہا ہے ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خود الاٹنمٹس کرتی ہے ، مگر بعد میں دوسروں کے گلے ڈالتے ہیں ، جوکہ ناروا عمل ہے ؟
انہوں نے مزید کہا ، کہ ہر کسی کو دعوت دیتا ہوں ، کہ وہ اکر تحقیقات کریں ، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاہیں ،،،،!

اس زمرے میں ، میں خود نور محمد دومڑ کی دعوت پر سرسری تحقیقات کیلیے حاضر خدمت ہوا ، کھوج لگایا ، تحقیق کی ، ریکارڈ تک رسائی حاصل ہوئی ، جہاں پر الاٹنمٹس کاغذات ہاتھ لگ گئیں ، جسمیں دستخطوں کیساتھ واضح تاریخ 4 جون 2025 لکھا گیا ہے ،
نور۔حمد دومڑ کو بتانا چاہتا ہوں ، کہ تحقیق مکمل ہوگئی ہے ، جس کے مطابق تم جھوٹے نکلے ہو ، عبدالرحیم زیارتوال یا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کوئی الاٹمنٹ نہیں کی ہے ، یہ کام اور دھندہ صرف اور صرف فارم نمبر 47 پر کامیاب نوکروں کی ہے ، کہ جنکی سروں پر ھمہ وقت کرنل ہاشم اینڈ کمپنی کی تلواریں لٹک رہی ہیں ،
لہذا باخبر رہے ، زیادہ اچھلنے اور چھلانگیں لگانے کی ضرورت نہیں ہے ، ھم جیسے وطن غم واروں سے دوری پر رہے ، تو بہتر ہوگا ،،،؟

نوٹ ) تمام الاٹنمٹس کے کاغذات یہاں پوسٹ میں موجود ہیں ، جسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے )

Zain Kakar ,

جامعہ بلوچستان  کا معاشی بحران اور قومی زبان  و ادب  کے شعبوں سے متلعق معلومات و معروضات تحریر: ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ  گذش...
06/07/2025

جامعہ بلوچستان کا معاشی بحران اور قومی زبان و ادب کے شعبوں سے متلعق معلومات و معروضات
تحریر: ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ

گذشتہ دو دنوں سے کئی احباب اور خصوصا ہمارے صحافی دوست رابطہ کر رہے ہیں کہ جامعہ بلوچستان میں پشتو، بلوچی اور براہوی زبانوں کے شعبہ جات کو بند کرنے یا ضم کرنے کی خبر میں کتنی صداقت ہے؟
اس قضئے کو سمجھنے کیلئے پہلے پاکستان پبلک سیکٹر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو درپیش معاشی بحران کو سمجھنا ہو گا۔ سال ۲۰۰۲ میں پاکستان میں یونیورسٹیز کی تعداد ۳۰ تھی، جو ۲۰۱۵ میں جاکر ۱۶۰ ہو گئی، یعنی تیرہ سالوں میں چارسو فیصد اضافہ ہوا، سال ۲۰۱۰ میں اٹھارویں ترمیم منظر عام پر آئی، صوبوں کو اپنے تعلیمی نظام کی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا حق بلاخر دے دیا گیا۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا مالیاتی کردار اسی نسبت سے سکڑتا گیا اور صوبائی حکومتوں پر ذمےداری عائد ہوئی کہ وہ اپنے تہیں ہائیر ایجوکیشن کے معاملات سنبھال لیں۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں صوبہ بلوچستان میں کئی حکومتیں آئیں لیکن صوبائی سطح کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔البتہ صوبائی حکومت کی جانب سے جامعات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ۲۰۲۲ کا ایکٹ آیا جو جامعات سے متعلق تمام تر اختیارات گورنر سے گورنمنٹ کو منتقل کرتی ہے۔ایک طرف ہائیر ایجوکیشن کو ملنے والی قلیل رقم بلوچستان یونیورسٹی کی دو تنخواہیں پوری نہیں کرتیں، دوسری طرف صوبائی حکومت جامعات کو اکیڈمک آزادی کے ڈھیلے ڈھالے فریم ورک کے ساتھ گود لینے کیلئے تیار نہیں، اس میں اپنی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے یا تجاویز دیتے نہیں تھکتے۔سوال یہ ہے کہ متوسط اور غریب طبقے کیلئے بنائی گئی یونیورسٹی کما کیوں نہیں رہی؟ پانچ سالوں میں ۳۰۰ فیصد فیس بڑھانے کے بعد وہ طبقہ ہی غائب ہوگیا جو پڑھنے آتا تھا۔
اب کُل ملاکر جامعہ بلوچستان اور صوبائی حکومت کا رِشتہ وہی جو آئی ایم ایف اور پاکستان کا ہے، کھبی سو پیاز کھانے کی شرط رکھتے ہیں اور کھبی سو جوتے۔ تین تین مہنے تک تنخواہیں نہیں ہوتیں ، جامعہ کے وائس چانسلر کو یونیورسٹی کے معاملات دیکھنے کے بجائے سیکرٹیریٹ کے چکر لگانے پڑتے ہیں، اساتذہ، افیسر اور ملازمین قرض خواہوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔

دو سالوں پر محیط غالب و مغلوب کے اس رِشتے میں اساتذہ کی عِزت نفس تو ویسے ہی کچھلی جاچکی ہے، لیکن بطور فرد اس سارے گورکھ دھندے میں ہمارے گذشتہ اور حالیہ وائس چانسلر کو کو حزیمت اُٹھانی پڑ رہی ہے۔ کسی ذمانے میں چیف سیکرٹری کو جامعہ بلوچستان سے ملنے کیلئے اپوائینٹمنٹ لینی ہوتی تھی، اور آج ہمارے جامعات کے وائیس چالنسلروں کو تنخواہ کیلئے دی گئی خیرات (گرانٹ اِن ایڈ) کے لئے ہفتوں افسرشاہی کے مِنت ترلے کرنے پڑتے ہیں۔ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی اس طرح کے بحران ساتھ لاسکتی ہیں، اس پہلو پر ہم نے کھبی نہ سوچا تھا ۔ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو عطار کے لونڈے کی دی ہوئی دوائی نہیں، اپنی لوکل دوائی ہے، پر اثر اُلٹ ہی ہورہا ہے، کم و بیش سارے افسران بالا اور حکام بالا اسی یونیورسٹی کے گریجویٹس ہیں۔کیا نِری طوطیٰ چشمی ہے؟۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت اور خصوصا وزیراعلیٰ کی جانب سے مختلف شعبوں کو ختم کرنے یا ضم کرنے کی باتیں شنید میں آرہی ہیں، کل سابق وزیراعلیٰ جناب مالک بلوچ صاحب کی تقریر سے یہ حقیقت ہم پر افشاں ہوئی کی اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔دھواں اُٹھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، لیکن ابھی تک ہمیں تحریرا کچھ نہیں ملا، کہ ۱۹۷۴ سے سرگرم عمل اِن تین شعبوں کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟؟؟۔ شعبہ پشتو میں۱۷ سال رہ کر ہم نے بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ اِن بے ضرر شعبہ جات سے خُدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کی کمی نہیں، اِن متصل شعبوں میں معنی خیز خاموشی، سرد مہری، اور بیگانگیت کی فضا میں مجھے کئی دفعہ ان زبانوں کی زندہروحیں بھٹکتی ہوئی محسوس ہوئی ہیں ۔۔۔ کیا اپنے کیا پرائے،سب اُسی نظر سے ان زبانوں کو دیکھتے ہیں جو ریاست دیکھتی ہے، کوئی زبان میم صاحبہ کی طرح ہوتی ہے، جس کی آو بھگت ہوتی ہے، کوئی ملکہ ہوتی ہے جو ہزاروں میلوں دور سے مہاجرت کرکے مالکن کی جگے پر بیٹھ گئی ہے،، کچھ خادمائیں، اور کچھ زبانیں کنیزوں کی سی حیثیت رکھتی ہیں، میں نے اپنی زبان کے کنیز پن کا دُکھ بارہا جھیلا ہے، اور شاہد اسی عظیم غم سے میں اپنئ زندگی میں مقصدیت کے چند لمحے نکال پاتا ہوں۔

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں مہذب اور متمدن اقوام اپنے سالانہ بجٹ کا ایک خطیر رقم ادب، آرٹس، تاریخ اور کلچر پر انوسٹ کرتے ہیں، کلچر، ادب اور آرٹس کے شعبے قومی شناخت، تاریخ اور تہذیب کی ائینہ دار ہوتی ہیں، ان کے وجود ’’مقصود بالذات‘‘ سمجھا جاتا ہے، اِن پر خرچ کیا جاتا ہے، اور قومیں انہیں کی حفاظت کیلئے جنگیں بھی لڑتی ہیں اور محنت بھی کرتی ہیں۔ البتہ فنون لطیفہ، ادب، آرٹ اور کلچر سے کمایا بھی جاسکتا ہے لیکن یہ تب ممکن ہے جب حکومتیں اپنے ثقافتی اور ادبی ورثے کو اپنے دِل سے لگا کر رکھیں، ثقافتی، لسانی، اور ثقافتی تنوع کو باعث رِحمت سمجھیں۔قوم کے بچوں کو اپنی ہی مادری زبان میں سیکھنے کی مواقع اور گنجائشیں مہیا کریں۔
فی الوقت ہم تینوں شعبوں (پشتو، بلوچی، براہوی) کے ذمہ داران اور فیکلٹی زبان و ادب کے متنوع کورسز کی تشکیل میں سرگرم عمل ہیں، جس میں ایک ممکنہ اور اُمید افضا حل یہ ہے کہ ہر شعبہ یونیورسٹی کے دیگر فیکلٹیز اور کم و بیش اٹھارہ شعبوں میں زبا ن و ادب کے آپشنل کورسز آفر کررہے ہیں، جس سے سینکڑوں طلبا و طالبات فیضیاب ہوں گے ، دوسرا مرحلہ انٹر ڈسپلنری اور شارٹ کورسسز کا ہے، لیکن ان سب میں (Massive Online Open Courses -MOOC) کورسز سے ہمیں زیادہ اُمیدیں ہیں جس کے زریعے دُنیا کے کسی بھی کونے سے بیک وقت لاتعداد لوگوں کو سیکھنے کے عمل کا حصۃ بنایا جاسکتا ہے۔حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ اس پورے عمل میں یونیورسٹی انتظامیہ ہمارے ساتھ کھڑی ہے اور اکیڈمک کونسل میں ترامیم اورساختیاتی اصلاحات منظور کرانے میں ہماری رہنمائی بھی کر رہی ہے۔
دیکھئے پاتے ہیں عُشاق بُتوں سے کیا فیض
اک برہمین نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے (غالب)

ضلع برشور کاریزات کا معاملہ مسلسل تعطل کا شکار ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ضلع کے نام پر ایجنڈا لے کر اقتدار تک پ...
06/07/2025

ضلع برشور کاریزات کا معاملہ مسلسل تعطل کا شکار ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ضلع کے نام پر ایجنڈا لے کر اقتدار تک پہنچے، وہ اب اتنے بے بس کیوں ہیں؟

عدالت نے متعدد بار کیس کو صوبائی کابینہ کو واپس بھیجنے کی ہدایت کی، لیکن اس کے باوجود حکومتی بینچز پر براجمان بااختیار افراد کیوں پریشان اور بے اختیار نظر آتے ہیں؟

گزشتہ حکومت میں ایک اپوزیشن ممبر کو تمام رکاوٹوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اب جبکہ حکومت، اقتدار، عہدہ، وزیراعلیٰ، صدر اور وزیراعظم سب ان ہی کے ہیں، تو برشور توبہ کاکڑی کو ضلع بنانے میں ناکامی کیوں؟

تحصیل توبہ کاکڑی اور تحصیل باغ میں اب رکاوٹ کون ہے؟
بوستان اور خانوزئی کے لیے الگ سیاسی نشستیں مختص ہیں، لیکن برشور کے عوام کو صرف لولی پاپ ہی کیوں دیا جا رہا ہے؟

یہ سارے سوالات اب عوامی سطح پر جواب مانگتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے بلوچستان یونیورسٹی کے ...
02/07/2025

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ڈائریکٹو جاری کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ بلوچی، براہوی اور پشتو ڈپارٹمنٹس کو ضم کر کے انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر کے نام سے ایک نیا شعبہ قائم کریں۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ کیوں کہ یہ شعبے خسارے میں ہیں اور یونیورسٹی پر مالی بوجھ ہیں۔
یہ ایک الارمنگ سچویشن ہے۔
یہ واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے علاؤہ بلوچی تربت یونیورسٹی میں اور پشتو لورالائی یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے لیکن براہوی صرف یہیں پڑھائی جاتی ہے، یہ شعبہ بند ہونے کی صورت میں براہوی زبان میں اعلیٰ تعلیم کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
میں ایک عرصے سے یہ بات کرتا رہا ہوں کہ لینگویجز کے شعبے اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔ کیونکہ مارکیٹ میں ان کی کوئی کھپت نہیں۔ کوئی طالب علم چار سال لگا کر بلوچی، براہوی یا پشتو کی ڈگری حاصل کرتا ہے تو اس کے بعد اس کے لیے کیریئر اپرچونیٹی کیا ہے؟ کالجز میں بھی یہ ڈپارٹمنٹس برائے نام رہ گئے ہیں۔ لگ بھگ یہی حال اردو کا ہے۔ یہ چونکہ لازمی زبان کے بطور بارہویں جماعت تک موجود ہے، اس لیے اس میں کچھ گزارہ ہو جاتا ہے، لیکن آخر تابکہ؟
اور پھر ان زبانوں میں اگر کوئی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری حاصل کر لے تو اس ڈگری کی افادیت کیا ہو گی؟ درست ہے کہ ڈگریاں محض کمانے کے لیے نہیں ہوتیں لیکن آخر آدمی نے پیٹ بھی تو پالنا ہے اور اعلیٰ ترین ڈگری اگر کیریئر کے کام نہ آ سکے تو اس کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ محض ریسرچ اور تسکین کے لیے ڈگری لینے والے بھلا کتنے ہوں گے؟
اس لیے میں نے بارہا کہا کہ لینگویجز ڈپارٹمنٹس سے وابستہ احباب کو مارکیٹ سے جڑت کے لیے کچھ سوچنا ہو گا۔ حکومتیں اور ریاستیں کارپوریٹڈ ہو چکی ہیں، یہ محض علم و دانش والی باتیں اب نہیں سنیں گی۔ افسوس کہ لینگویجز سے وابستہ احباب کی اکثریت کو سوائے اپنی ملازمت کے اور کچھ نہیں سوجھتا۔ ڈپارٹمنٹ بند ہونے پر بھی انہیں محض یہ پریشانی لاحق ہو گی کہ ان کی ملازمت چلی جائے گی اور اگر یہ چلی گئی تو وہ کریں گے کیا؟!
بہتر ہو گا کہ واویلا مچانے، قوم پرستی کا ڈھول پیٹنے کی بجائے اپنی قومی زبانوں کی بقا اور ترویج کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں۔ میں لینگویجز ڈپارٹمنٹس کو ختم کرنے کی بجائے انہیں مارکیٹ اورینٹڈ بنانے کے حق میں ہوں اور اس کے لیے کچھ تجاویز یہ ہو سکتی ہیں:
- بلوچی، براہوی، پشتو (اور اردو ڈپارٹمنٹ بھی) لینگویج کورسز متعارف کروائیں۔ وہ لوگ جو یہ زبانیں نہیں جانتے اور سیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ شارٹ کورسز کے ذریعے ان میں لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی بنیادی مہارتیں حاصل کر سکیں۔
- ایم فل، پی ایچ ڈی کی بجائے (یا ان کے ساتھ ساتھ) چھوٹے ریسرچ پراجیکٹس شروع کیے جائیں۔ وہ لوگ جو ان زبانوں میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ کوئی ریسرچ پراجیکٹ لے آئیں، ڈپارٹمنٹ ان کی تکنیکی معاونت کرے تاکہ ریسرچ کا ماحول پروان چڑھے۔
- محض زبان و ادب کی بجائے ان ڈپارٹمنٹس کو آرٹ اور کلچر سے بھی جوڑنا چاہیے۔ مثلاً بلوچی فلم میکنگ سکھائی جائے۔ بلوچی ڈراما پڑھایا اور عملاً کروایا جائے، ڈرامے بنوائے جائیں۔ اس زبان کا میوزک سکھایا جائے۔ پرفارمنگ آرٹس کے تمام شعبے اس کی ذیل میں آ سکتے ہیں۔
- تحقیقی جرائد چھاپے جائیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی ترویج کی جائے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ سیاستدان کو قائل کیا جائے کہ وہ قانون سازی کے ذریعے مادری زبانوں کی تعلیم کو ممکن بنائیں تاکہ ان اداروں کا حقیقی جواز رہ سکے اور مادری زبانوں میں تعلیم سے مراد محض اس کے قاعدے بنانا نہیں ہوتا جیسے ڈاکٹر مالک نے اپنے دورِ حکومت میں کیا، یہ کروڑوں روپے کا ناکام پراجیکٹ ثابت ہوا۔ (اس پر الگ سے کسی وقت تفصیلی بات کریں گے)۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ارتقا کا قانون کائنات کی ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے۔ زبانیں اور ان کے شعبے اگر ارتقا نہیں کریں گے، وقت کے ساتھ چلنا نہیں سیکھیں گے، خود کو مارکیٹ سے نہیں جوڑیں گے تو ان کا مستقبل معدومیت کی زد میں ہی رہے گا۔ سنسکرت اور فارسی سامنے کی مثالیں ہیں۔

د تاريخ غلط بيانول او له تاريخ سره خيانت کول ډېر سپک کار دى.خان شهيد په جېل کې وو چې ولي خان له جنرال يحيا سره ساز باز و...
02/07/2025

د تاريخ غلط بيانول او له تاريخ سره خيانت کول ډېر سپک کار دى.
خان شهيد په جېل کې وو چې ولي خان له جنرال يحيا سره ساز باز و کړو. له هغه پس بيا ولي خان له جنرال ضیاﺀالحق سره ملګرى وو.
له جنرال ضیاﺀالحق پس بيا ولي خان د جنرال اسلم او جنرال حميد ګل جوړ کړي آئي جې آئي برخه وو. بيا چې کله مشرف راغلو، نو اجمل خټک او اسفنديار ولي يې ملګري وو. بلکې د مشرف اېجنډې ته يې د باچاخان د اېجنډې نوم ورکړ.
د تېرې شل کلنې اې اېن پي او اسټبلشمنټ د ملګرتيا او يارانې ګواهي پخپله اېمل ولي خان هغه بله ورځ په پرېس کانفرنس کې ورکړه. بلکې اوس هم په ډاګه د جنرال حافظ منير ملګرى دى.
بل لوري ته خان شهيد په ټول ژوند د مقتدره ملګرى نه دى پاته شوى. بلکې ټول عمر د مقتدره تر عذاب لاندې په جېلونو کې بندي وو. البته کله چې نېپ ليډرشپ او په خاصه توګه ولي خان د خپل منشور سره خيانت و کړ. نو خان شهيد د بهټو ملګري کړې ده.
خو بهټو دغسې يو سياستمدار وو، لکه فاطمه جناح، نوازشریف، بې نظيره، عمران خان او زرداري.
نو له سياسي خلګو سره اتحاد کول بيا څه رنکه د مقتدره ياري شوه?

د پاکستان مقتدره پنجابي پوځ دى او د پوځ ملګرتیا له ډاکټر خانه بيا تر ولي خانه او له ولي خانه بيا تر اسفندیار ولي او لت اسفندیار ولي بيا تر اېمل ولي پورې دا ټوله موده د باچاخان له کمبلې شوې ده.

بل دا هم سياسي او ملي خيانت دى، چې سياسي خلګو ته د مقتدره نوم ورکول شي. او په دغه طريقه له اصل مقتدره يعنې پنجابي پوځ څخه د خلګو پام واړول شي.
دوى دا خيانت قصداً کوي، چې خپل غر په غومبر کې ورک کړي. ولې چې د دوى دا دريم نسل د پنجابي مقتدره په غېږ کې ناست دى. ځکه دوى سياستمدارانو ته د مقتدره نوم ورکوي. موخه يې دا ده چې خلګ په مقتدره کې د کنفيوژن ښکار کړي.
خو سياسي کارکنان ښه پوهېږي، چې مقتدره يک يوازې پنجابي پوځ او د دوى سيول او جوډيشل بيروکراسي ده.
نه جناح مقتدره وو، نه لياقت علي خان، نه فاطمه جناح، نه بهټو، نه نواز شریف، نه بېنظيره، نه زرداري او نه عمران خان.
دا ټول سياسي خلګ دي، او دوى ته مقتدره ويل د اصل پنجابي مقتدره پر ګناهونو دروند تلتک اچول دى.

خان زمان کاکړ په اصل کې د بسم الله خان کاکړ فکري بچى دى. چې د ملتپالنې په جامه کې تل کاکړي قبایلي چوپړ وهلى دى. او دلته يې د پښتانه قام تر منځ پر قبایلي بنيادونو کرکه او تعصب خورولى دى.
Adv Hamayoun Kasai

30/06/2025

د ملا جهاد افسانه: نه مقدس جګړه، بلکې يوه توره او يخ حقيقت !

1) راځئ خبره له يوې ساده حقيقت نه پيل کړو، په تاريخ کې هېڅ داسې سند، شواھد نشته چې ملايانو دې کله هم د انګرېز استعماري، سامراجی طاقت پر ضد جھګړه کړي وي، ياا د خپلواکي جهاد کړی وي. د دغه ټوله دروغ کيسې يې په اردو کتابونو کې يې ويلي دي، دا ټوله يوه جوړشوه درواغجن افسانه ده، چې يوازینی هدف یې د تاريخ مسخ کول او ځان (ملايانو) ته دکان خلاصول دي.
رښتينی مقاومت د پښتون افغان ولس، قبایلي ځوانان مشرانو او ملتپالو زلمو له خوا و، چې د هرې غره، هرې سيمې، هرې درې، هرې سنډۍ او هرې مورچې پر سر يې خپل وینه توی کړې. دا مبارزه د کومې فرقه‌ييزې عقيدې لپاره نه، بلکې د يواﺯې يواﺯې يې د وطن دفاع، د ملي آزادۍ، د وطن آﺯادي لپاره وه.

هماغه وختونه پښتانه هوښياران وو، د ملا په کردار خبر وو، پښتنو ملايان يوازې تر جومات محدود کړي وو، دوى ته يو‌واک‌نه ورکوي، نه ورته د ټولنيز واک، سياسي قدرت يا د ټولنې د اخلاقو د لارښوونې واک ورکړ شوی و. دوی لا د دې مخکي په فساد، مفتي خوري، جاسوسۍ او دوکه‌ګري تورن شوي وو ځکه پښتنو‌ دوى ملتيان يې محدود کړي وو، دا خو برطانوي استعمارګرانو، سامراجانو ملايانو ته د جاسوسانو په توګه کار ورکوه ، د هند په ګوټ ګوټ کې يې د دوی لپاره مرکزونه پرانستل او له ديني چپنه لاندې يې د استعماري پروژې خدمت ته ودرول.

خوشحال بابا د افغان ملي شاعر او رهبر څلور سوه پنځوس کاله وړاندې دا تاريخي خبرداری ورکړی و:

‏د ملا مثال د بېز 🐐 دے په مور خېژي
چې لوړ د پښتانه ورپسې نه وي
خوشحال خان خټک

خيال مې نه شي که د ښې ورځې خاوند شم
چې تر څو پورې ملا شته او ممبر شـــــــــــته
ډاکټر خالق زيار

يعنې ملا د داسې بېز 🐐 (مندہ ووﺯه يا منده مرغوني) په څېر دی چې په مور (چې معنا يې دلته "وطن" هم اخېستل کېږي) لوړ خېژي، او هر هغه پښتون چې ورپسې پورته کېژي نه، کار يې نه ورکوي، محدود کوي يې نه، نو به پر مور (وطن) لوړ راخيژي، او برباد وي وي بې لکه نن چې يې برباد کړي دي. دا يو سمبوليک او ژور تصور دى، چې ملا که پورته شو، واک ورکړل شو ، ټوله ملت به لاندې کړي، د ودې، پرمختګ او لوړتيا دروازې به بندېږي، وطن انسانان هر څه به تباه کيږي.
د خوشحال خان بابا دا ژور تنقيد دا معنا لري چې بې‌مهار، زورواکه، توندروه او ناپوه ملايان د ملت لپاره د ورانۍ وسيله جوړېږي. د دوی تنگ نظره تعليم، د زور او جهالت مينه، او د شخصي ګټو پالنه د ټول ولس پر ګډو ارزښتونو تېری کوي.
د دې لپاره چې ملت د بدمرغۍ او تاوان نه-وژغورل شي، دا يو ملي، اخلاقي او فکري مکلفيت دی چې د دې ملايانو نفوذ محدود شي، د دوی پر ممبر، فتوی او سياسي لاسوهنو بنديز ولګول شي.

ډاکټر خالق زيار هم د همدې فکري تسلسل نه يو بېلګه شعر وړاندې کوي:

"خيال مې نه شي که د ښې ورځې خاوند شم
چې تر څو پورې ملا شته او ممبر شته"

دا بيت د يو دردمن روڼ اند فکر غږ دی، چې تر څو ملا واکمن وي، ممبر يې پر ټولنه سیوری اچولی وي، نو رڼا، خوښي او خوشالي به ناورين ته لار ورکړي.

2)ملايانو هېڅکله د شوروي (روسانو او ګډ ملتونو) په ضد جنګ يا د خپلواکي جنګ ندي کړي، کله چې د شوروي اتحاد پر ضد جګړه پيل شوه، ملايانو هېڅ خپلواک مقاومت نه و کړي، هغوی د امريکا خدمت کاوه.
امريکا هغوی ته پيسې، وسلې او د یونیورسټیانو له لارې فکري ګند Brainwash پروګرامونه برابر کړل. دا ملايان د اسلام مجاهدين نه وو، بلکې د استعماري طاقتونو کرایي عسکر وو.

په 1981م کې په پاکستان کې يوازې 900 مدرسې وې. د ضیاءالحق د واکمنۍ تر پايه، چې د امريکا په بشپړ ملاتړ سره دا شمېر 8000 رسمي مدرسو ته رسېدلی و، او تر 25000 زياتو غيررجسټر مدرسو ته ورسېده، چې ټولې د امريکا، سعودي او نورو عربو، غربي هېوادونو له خوا تمويل شوې وې.
شه نو اوس د کفارو په پيسو جوړ شوي مدرسو مسلماني تاسو پر مخ وړي .
په دغو مدرسو کې ماشومان ته الفباء داسې ښودل کېده:
"ج د جهاد لپاره دی. جهاد يو فرض دی. زما ماما جهاد ته تللی دی..."

د رياضي کتابونه پوښتنې داسي وي لکه:
"که يو مجاهد پر ۵۰ روسي عسکرو حمله وکړي او ۲۰ ووژني، څو به پاتې وي؟"
دا دين نه و، دا يو منظمه پروپاګند وه، چې د USAID او د نبراسکا پوهنتون له خوا تمويل (فنډينګ) شوی و، تر څو د يوې داسې نسل روزنه وشي چې د علم پر ځای جګړه او کرکه زده کړي او دا کرکه جهګړه د پښتنو افغان پر ضد وشي او غرب، امريکا ته لوى نړيواله واکمنۍ ورکړي .

زياته غمجنه دا ده چې زرګونه ماشومان له رښتيني تعليم محروم کړل شول. هغوی ته نه رياضي، نه ساينس، نه اخلاق، بلکې نفرت، انتقام او فرقه‌ييز تعصب ورزده کړل شو، هغوي ته د پښتون افغان ضد کرکه، تعصب، تاوتريخوالي (تشدد) ور ﺫدکړل شو ... . دا ماشومان د فکر انسانان نه، بلکې د وخت بمونه جوړ کړل شول. دا ټول څه د امريکا، سعودي عربستان، او پاکستان په ګډ پلان "آپريشن سایکلون" کې وشول، چې هدف يې د پښتون افغان خلاف يو مذهبي، وسله‌وال نسل جوړول و.
نن ورځ هماغه ملايان، چې امريکا جوړ کړ، ځانونه د امارتونو اميران بولي، خو پټې لاسونه د پرديو مړۍ ته غاړه اېږدي. امريکا چې پرون دوی ته کتابونه، وسلې او مفکوره ورکوله، نن د همدوی له سيوري وېرېږي.

خو تر ټولو بده دا چې دا ملايان، چې د ټولنې پر هر څه غږېږي، هيڅکله د پنجاب ظلم، استعمار او اشغال ته نه ژبيږي. ولې؟ ځکه چې د دوی وفاداري نه له خدای سره ده، نه له حق سره، بلکې له هغو سره ده چې دوی ته مړۍ ورکوي.

له فاسد ملا نه د خير تمه کول،
داسې ده لکه له خره د شيدو هيله.

یادونه:
د دې هر څه په اړه زرګونه اسناد، کتابونه، تحقيقات او ژوندي شواهد موجود دي. دا کومه يو نظر نه، بلکې یو ثابت تاریخي حقیقت دی. ما دلته يوازې د يوه روڼ تصویر لپاره دا لنډ تحلیلي بڼه راوړه.
تحریر: غنی دورانی
Wahand Afghan

محترم انجینئر ضیاء الرحمٰن صاحب@  Zia Urrehman مرکزی کوآرڈینیٹر، ڈیجیٹل میڈیاجمعیت علماء اسلامالسلام علیکم ورحمۃ اللہ وب...
26/06/2025

محترم انجینئر ضیاء الرحمٰن صاحب@ Zia Urrehman
مرکزی کوآرڈینیٹر، ڈیجیٹل میڈیا
جمعیت علماء اسلام

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

جمعیت علماء اسلام ایک باوقار دینی و سیاسی تحریک ہے، جس کی بنیاد علم، اخلاص اور قربانیوں پر رکھی گئی ہے۔ اس جماعت کی تاریخ ایسے افراد سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے لہو سے اس قافلے کے چراغ روشن رکھے۔

انہی کارکنان میں ایک نام مولانا خدائے دوست صاحب کا ہے—ایک سادہ مزاج، بااخلاص اور دیرینہ رفیق کار۔ انہوں نے تحصیل کچلاک کی امارت اور ضلع کوئٹہ کی نائب امارت کی ذمہ داریاں کئی برس نبھائیں۔ آزادی مارچ ہو یا صد سالہ تقریبات، جماعت کے مشکل ترین دن ہوں یا پُراشوب حالات—وہ ہمیشہ صفِ اول میں نظر آئے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حالیہ دنوں میں ڈیجیٹل میڈیا ضلع پشین کے کوآرڈینیٹر خلیل الرحمن شاکر نے سوشل میڈیا پر مولانا خدائے دوست صاحب کے بارے میں جو زبان استعمال کی، وہ نہ صرف بدتہذیبی کی انتہا تھی بلکہ جماعتی روایات، بزرگوں کی عزت اور اخلاقی اقدار کی کھلی پامالی بھی تھی۔

یہ محض ایک واقعہ نہیں۔ یہ اس ذہنی اور اخلاقی انحطاط کی علامت ہے جس کا سامنا آج ہماری تنظیم کو ہے۔ وہ کارکن جس نے پوری زندگی جماعت کے لیے وقف کی، آج اسی جماعت کے زیرِسایہ کام کرنے والے افراد کی زبان کا نشانہ بنے—یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

بلوچستان میں جماعت پہلے ہی کئی چیلنجز سے دوچار ہے۔ ایسے میں اگر نظم و ضبط کے نام پر خاموشی اختیار کی گئی، تو یہ خاموشی آئندہ مزید بزرگوں کے لیے خطرہ بن جائے گی۔

محترم! آپ سے گزارش ہے کہ خلیل الرحمن شاکر کو ان کی موجودہ ذمہ داری سے سبکدوش کیا جائے، تاکہ کارکنوں کو یہ واضح پیغام جائے کہ جماعت میں بزرگوں کی توہین برداشت نہیں کی جا سکتی، اور یہاں اختلاف اپنی جگہ، مگر ادب اور تہذیب سے عاری زبان کی کوئی گنجائش نہیں۔

اگر آج ہم نے آواز نہ اٹھائی، تو کل تاریخ سوال کرے گی—اور ہم جواب دینے کے قابل نہ ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں وہ ہمت دے جو سچ کو سچ کہنے اور حق کے ساتھ کھڑے ہونے کے لیے درکار ہے۔

والسلام

عبید اللہ ناصر
کارکن، جمعیت علماء اسلام
بلوچستان

26/06/2025

افغانان د موساد ایجنټان دی او کہ ایرانیان؟

عربی متل دی “ صاحب البیت ادرای بما فی البیت” د کور اوسیدونکی تہ ډیرہ پتہ وی چی د کور دننہ څه دی او څه کیږی۰

څلور کاله د ایرانی موسسو خانه فرهنګ ایران پیښور او ایرانی کونسلګری پیښور سرہ د ھمکاری تجربہ کښی ما بلا سہ اولیدل۰ د ایرانی پروپگنڈے تر ټولو مہم وزارت “ وزارت فرہنګ و ارتباطات” او پہ بہر دنیا کښی د ایرانی سرکار د طرف نہ د شیعہ توب او خمینی ازم د خپرولو ذمہ داری موسسے “ مجمع جہانی اہلبیت یا اہلبیت ورلډ اسمبلی” د چھتری لاندی درویشت موسسو پاکستان او خاص کر د پښتنو خلاف توطئے، سازشونہ او بلا نور د دښمنی کارونہ کول۰ د پیښور یونیورسټی ہر ډیپارټمنٹ کښی استادان د دوی پہ پیرول وو۰ د پیوټا مشر یو افریدی وو چی پیښور یونیورسټی کښی د ایران تر ټولو لوئے ایجنټ وو۰ ان تر دی چی د خانہ فرہنڰ د ډی جی پہ ہدایاتو ئی د ھغہ وخت وائس چانسلر ګیلانی صیب خلاف لوئ سازش جوړ‎کړ‎ی وو چی د ھغی د پارہ بہ ایرانی ډائریکټر پہ خپل لاس پیسے ورکولے۰ د پیښور ہر درئم سیاسی ملا لہ ماہانہ وظیفہ ورکولی شوہ۰ پښتو ھندکو شاعران، ادیبان او صحافیان د ایران مستقل راتب خوارہ وو۰

د خانہ فرہنڰ ډائریکټر جنرل عبدالحسین رئیس السادات بہ تقریبا ہرہ روځ انسټرکشنز ورکول چی پښتو ادب، کلچر، قومیت مونږ‎ بلکل نہ منو او د دغی پر ضد د یومیہ کار ڰزارے ماتہ رپورټ راکوئ۰

د پښتو ژبے ادب خلاف بہ پښتنو شاعرانو لیکوالانو باندے پہ پیسو کتابونہ لیکلی کیدل۰

د دی برعکس ما یو پښتون ادیب شاعر لیکوال نہ دی لیدلی چی د ایران پر ضد ئی دوہ کرښی لیکلی وی۰ نہ د پښتنو کومہ داسے ادارہ یا تنظیم وو چی دایرانی کلتوری تہاجم cultural aggression مخ نیوی پہ طور ئی د ایران یا فارسی پہ ضد کار کړ‎ے وی۰ نہ پښتنو داسی کوم وس او استطاعت درلود۰ دا پہ داسی حال کښی چی ایرانی ادارو پښتنو کښی د ایرانی مقاصدو ترسرہ کولو د پارہ ترھگرے ھم کولے او وسلے ئی ھم تقسیمولے۰

خو د نام نہاد جمہوری اسلامی ایجنټی او د موساد ایجنټی د زمکی اسمان تفاوت لری۰ او یو څو سادہ پښتانہ ھم دلتہ دوکہ شو۰ د جمہوری اسلامی پہ نوم۰

نن سحر راسے مہ یو شمیر ایرانی سرکاری نیوز ایجنسے واوریدے او پہ یو ٹیوب او سوشل میډیا مہ ایرانی سپانسرډ پورټلز نہ واوریدل وائی چی د اسرائیلی ایجنسے موساد کوم ایجنټان چی ایران کښی ونیول شول ھغی کښی “ شصت درصد” یعنی 60 فی صد افغانان دی۰ او بیا پہ دی چل پہ افغانانو او ورپسے پښتنو تورونہ لڰوی۰

ایران چی پہ چا ھم د جاسوس تور اولڰوی ھغہ نړ‎ئ تہ پیش کوی۰ نن پرون چی د کوم شپیتہ فی صدہ “افغا موساد جاسوسانو” دعوی کوی باید ھغی کښی یو لس فی صدہ پہ ارنا او ایران نیوز اوښائی۰

ایران کی تقریبا ټول میشتہ افغانان فارسی وئیونکی او شیعہ ڰان دی۰ او ھغوی زان تہ افغانان نہ بلکہ افغانستانیا وائی۰ او ھم ھغہ خلق دی چی افغانستان کی د ایران پراکسیز وو ۰ دغہ د ایران خپل نیازبینان دی۰ ټول افغانان او بیا پښتانہ دی نہ تورہ وی۰

ایران کی افغانان د تعلیم او سرکاری نوکری حق نہ لری نو اوچت سرکاری رازونو تہ چرتہ اورسیدل؟ افغانان چرتہ زان لہ در غریبی کوی۰ نہ ایټمی سائنس دانانان دی او نہ ہستہ ای nuclear ماہرین چی د ایران نیتنز او اصفہان او فردو پہ ایټمی پلانټونو کښی ئی کار کولو او موساد لہ ئی رازونہ ورکړ‎ل۰ دغہ زایونو کښی کار کوونکی خالص ایرانیان دی او اخونان دی خپل غل پیدا کړ‎ی۰

تر ټولو زیات ایرانیان اسرائیل لہ کار کوی۰ د بہائی مذہب دواړ‎ہ پیغمبران محمد علی باب او بہاء اللہ پہ کوہ کرمل او عکہ اسرائیل کی خخ دی۰ دا بہائی مذہب مرکز بیت العدل اعظم الہی یا International Home of Justice د اسرائیل پہ مشہورښار حیفا کښی دی او ټول کارکوونکی ئی ایرانیان دی۰ ھم دغہ ایرانی بہایان دنیا کښی اسرائیل د پارہ کار کوی۰ اخونان او سپاہ پاسداران دی پہ خپلو کښی لټون اوکړ‎ی۰

افغانان او بیا پښتانہ د پښتون روایاتو کلک پابند دی۰ چرتہ ھم پہ خپل پښتون کوډ کمپرومائز نہ کوی۰ د لبنان د ریډ ډسټرکټ یا ہیرا منډئ متنبی سټریټ نہ واخلہ د مانټریال او لاس ویڰاس قحبہ خانو پوری ہر چکلہ د ایرانیانو جینکو نہ ډکہ وی۰ چیلنج پہ طور دی سوک یو پښتنہ دغہ مقحبو کښی پیدا کړ‎ی ۰ جاسوسی او جسم فروشی یو بل سرہ تړ‎لی پیشے دی۰ او دغہ پیشے د ایرانیانو سرہ تڙلی دی۰

بیا ھم د پښتون افغان د تورولو ضد لرئ نو د ثبوتونو انبار لرو او د وئیل جرات ھم۰

رشید یوسفزئی

25/06/2025

آپ نے غور کیا ہے کبھی تانگے کے ساتھ دوسرا گھوڑا بھی ہوتا ہے تانگہ کھنچتے وقت حالانکہ اس دوسرے گھوڑیے کی بلکل ضرورت ہی نہیں وہی ایک ہے گوڑا کافی ہوتا ہے
بظاہر یہ ایک فضول عمل کھلاتا ہے مگر در حقیقت اس میں ایک اور مقصد ہوتا ہے وہ دوسرا اصل میں جونئر گھوڑا ہوتا ہے اسے ٹرائی دینے اور ٹرینڈ کرنے کیلئے ساتھ لگا دیتے ہیں تاکہ ہفتہ 10 دن اپنے سینئر کے ساتھ گزار دے شہر کے ماحول کا کچھ اندازے کرسکے اگر ایک ہی بار ڈائریکٹ اس پر تانگہ باندھا جائے دور سے ایک ٹرک کی ہارن سن کر تانگہ کے ساتھ بھاگ کر دوکانوں کے اندر جا گھسے گا
انہوں نے یہ غلطی کردی کہ خوشحال خان کاکڑ پر ڈائریکٹ تانگہ باندھا اب اچھے برے کو نہیں سمجھتا جب بھی ہارن کوئی ہارن دیتا وہ مولانا اور علماء اپنے باپ کے دوستوں کو گالیاں دینا شروع کردیتاہے۔
=حاجی ولی محمد بڑیچ =

25/06/2025
عثمان خان کاکڑ مشہور کیوں ہوا،)تحریر شاہ محمد مری)( عوام باشعور اور وفادار ہوتے ہیں )    وسیع پروپیگنڈہ کے زیر اثر اکثر ...
23/06/2025

عثمان خان کاکڑ مشہور کیوں ہوا،
)تحریر شاہ محمد مری)
( عوام باشعور اور وفادار ہوتے ہیں )

وسیع پروپیگنڈہ کے زیر اثر اکثر لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ عوام اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے ہیں اور مکمل طور پر سرکار کے منظم و منصوبہ بند پروپیگنڈے میں رنگ چکے ہیں۔ ایک غلط فہمی یہ بھی پیدا کی گئی تھی کہ عوام سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ سیاست کو جھوٹ سمجھتے ہیں، اسے دھوکہ اور ذاتی مفاد کے حصول کا راستہ سمجھتے ہیں۔ عام کا خیال ہے کہ گذشتہ 20،30 سال سے سارے پاکستان کے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا کہ عوام اپنے نمائندوں سے سیاست کے بجائے ٹھیکے، سیوریج لائن ، اورسکول چار دیواری لگانے کی توقع کرتے ہیں۔ اور ہر لیڈر بھی اپنے یہی کار نامے بیان کرتا نہیں تھکتا ۔۔۔

مگر یہ تو بڑی غلط فہمی نکلی ۔عثمان کاکڑ نے تو ایسا نہیں کیا۔ نہ اُس نے سڑکیں بنائیں ،نہ وہ فنڈز لایا۔ اور نہ اپنے حلقے میں کوئی انوکھی سکیم متعارف کی۔۔ ۔
وہ تو بس سینیٹ میں تقریریں کرتا تھا ۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام ترقی کے بجائے اپنے نمائندوں کی تقریر سننا چاہتے ہیں۔
مگر ،پھر یہ دیکھیے کہ بہت سارے ممبر تو بس تقریر یں ہی کرتے رہتے ہیں ۔زوردار تالیوں گالیوں سے بھر پور پیشہ ور مقرر کی طرح کی تقریریں۔ مگر عوام انہیں کیوں پسند نہیں کرتے ، عثمان کی ایمبولینس کیوں چومتے ہیں؟۔ پتہ چلا کہ عوام سیاسی تقریریں سننا چاہتے ہیں ۔
مگر سیاسی تقریریں بھی تو بے شمار سینیٹرز کرتے ہیں۔ چیخ چیخ کر ، یا دھیمی ، ”مدلل“ تقریریں۔ پھر انہیں کیوں پذیرائی نہیں ملتی؟۔
عثمان خان تو بڑی بڑی ٹرمنالوجی استعمال نہیں کرتا تھا۔ لمبی چوڑی فلاسفی نہیں جھاڑتا تھا۔ حوالے اور ریفرنسز نہیں دیتا تھا ۔ وہ تو بس سیدھی بات کرتا تھا ۔ دو ٹوک بات جو بہت عام فہم ہو۔مگر ایسی تقریریں تو روزانہ ممبر، سٹیج اور ٹی وی پہ ہوتی رہتی ہیں۔ لوگوں کو رلانے کے لیے یا مخالف فرقے کو مارنے مٹانے کے واسطے آہن و آتش اگل کر لاکھوں کی تعداد میں باہر نکالنے کو ۔ مگر اُن میں کوئی بھی عثمان کیوں نہیں بنا؟ ۔
پتہ چلا کہ جس تقریر میں آپ کا دل دماغ ،روح اور ایمان شامل نہ ہو وہ محض لفاظی ہوتی ہے ۔۔۔۔ اور عوام الناس لفاظی پسند نہیں کرتے۔ عثمان کے گفتار میں اُس کے جسم اور روح کا ایک ایک ذرہ شامل رہتا تھا۔ وہ اپنے فکر و نظریے کے چوکھٹ میں رہ کر ساری صلاحیتوں کو یکجا کر کے ، انہیں مرکوز کر کے بولتا تھا۔
معلوم ہوا کہ عوام جنوں پریوں والی تقریریں نہیں بلکہ جمہوریت اورپارلیمنٹ کی بالادستی ،قومی و طبقاتی آزادیوں ، اور ون یونٹ سے بہت پرے ایک کھلی اور وسیع فیڈریشن جیسے موضوعات کے حق میں اپنے نمائندوں سے سننا چاہتے ہیں۔عوام ایک خالص سویلین اور منتخب حکومت قائم کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں ۔ اور وہ یہ عزم اپنے نمائندے سے صاف و بلند آواز میں چاہتے ہیں۔

کاکڑ صاحب میں ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ ضعیف طبقات کی بات کرتا تھا ۔ محکموں مظلوموں اور کمزوروں کے حق میں آواز اٹھاتا تھا۔ وہ خستہ تنوں اور اجاڑے گئے طبقات کے حق میں بولتاتھا۔
وہ موروثی فیوڈلوں کی طرح دس دس بار سینیٹر نہیں بنا تھا ۔ وہ صرف چھ سال کے لیے سینٹ میں تھا۔وہ 2015میں سینٹ کا ممبربنا۔ اور مارچ2021تک وہ اس منتخب ادارے کارکن رہا۔اور انہی چھ سالوں میں دیکھا گیا کہ وہ اپنی ساری تواُن اور قوت سے عوام کے جمہوری حقوق کے حق میں بولاتھا ۔
عثمان خان نے نیشنلزم کی تنگ نظر قسم سے ابتدا کی تھی۔ مگر وہ بعد میں خود کو خوب ڈویلپ کرتا گیا۔ آخری برسوں میں تو وہ اپنی قوم کے حقوق کے ساتھ ساتھ تمام محکوم قوموں کا ترجمان بن گیا۔ اس نے شاید بہت زیادہ کتابیں تو نہیں پڑھی تھیں مگر سٹڈی سرکلوں ، باشعور لیڈروں کی محنت ، عمومی عوامی سیاست اور عوامی اجتماعات میں اُس کی سیاسی و نظریاتی تربیت ہوئی ۔
اور وہ نہایت بہادری، بے باکی کے ساتھ اور برملا بولتا تھا۔ وہ بے خوف بولتا تھا۔۔ ۔ اورانسان جبر و استبداد کے خلاف ڈٹ جانے والے بہادر وں کی بڑی عزت کرتا ہے ۔

یہ بہادر عوامی سیاست دان ابھی ساٹھ برس کا بھی نہیں ہوا تھا ( پیدائش 21جولائی1961) ۔
کا کڑ تو یوسف زئی کے بعد پشتونوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے ۔ عثمان کا والد عبدالقیوم خان ،کاکڑ کے ایک ذیلی قبیلے سَرگڑی کا سربراہ تھا۔ اس نے وکالت کی تعلیم پائی تھی ۔ سٹوڈنٹ لائف ہی میں پشتون نیشنلسٹ سیاست میں شامل ہوا۔
بلوچستان میں سیاست شروع سے ہی سامراج دشمن اور آمریت کا مخالف رہی ہے ۔ اس سیاست سے وابستہ سارے ورکرز اور لیڈرز انصاف، برابری اور قوموں کی حق خود اختیاری کی جدوجہد کرتے رہے ہیں۔پڑوسی افغانستان میں1978کے جمہوری انقلاب کی حمایت اس ساری سیاست کا خوبصورت اظہار تھی ۔بلوچستان ایک طرح کی سامراج دشمنی ، آمریت مخالفت ، اور عوامی بالادستی والی سوچ رکھنے والوں کا صوبہ ہے ۔

عوام سے عثمان کی محبت ، بھروسہ اور وابستگی گہری ہوتی رہی ، اُس کے دل میں دوسری محکوم قوموں اور نچلے طبقات سے ہمدردی اور طرفداری کے جذبات پیدا ہوگئے ۔ اس کا کمال یہ تھا کہ وہ عوام کے ساتھ باندھا ہوا پیمان ساری زندگی نبھاتا رہا۔برسوں قبل جب وہ سیاسی بلوغت تک پہنچا تو وہ اظہار ِ رائے ، انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کا ایک بہادر سپاہی تھا۔
عثمان کاکڑ گھر میں پر اسرار طور پر لگے مہلک زخموں سے بے ہوش پایا گیا، اور اسی بے ہوشی میں وہ بالآخر 19جون 2021کو کراچی میں وفات پاگیا۔ اُس کے لوگوں نے زبردست فیصلہ کیا کہ اس کی میت زمینی راستے سے اس کے آبائی گاﺅں تک جائے گی۔
اور یہیں وہ معجزہ ہوگیا جس نے غمزدہ بلوچستان کے ہر سوچنے والے انسان کو خوشگواریت کے عطر میں بھگوڈالا ۔عثمان کی بہادر میت جب کراچی کے وسطی حصے سے آگے آئی تو آگے بلوچ تھا، بلوچستان تھا ۔ گولڈن ارواح کی قدر کرنے والے سناروں کا وطن۔ مٹی سے وفا کرنے والوں کے سامنے خاکسار بن جانے والوں کا وطن ۔اور واقعتااِس بلوچستان کی سڑکیں نہریں بن گئیں، دریا بن گئیں۔۔ وفا کے دریا۔ باوقار بلوچ ہزاروں کی تعداد میں اپنے اپنے گاﺅں سے نکل کر سڑک پہ احترام کی قطاریں لگائے سنجیدہ ورنجیدہ گھنٹوں اس کی میت کا انتظار کرتے رہے۔بلوچ عوام نے اُس کے ایمبولنس کو مقدس عبادت گاہ کے بطور تکریم کیا۔ عثمان کے بیٹے کے گالوں اور پیشانی پہ بوسہ شماری ناممکن ہوگئی۔ پھولوں کے من اور ٹن تھے جو عثمان کی میت پہ نچھاور کیے گئے ۔ منرل واٹر، برف اور خوردونوش کی اشیا سے ماتمی اور تلخ کارواں کی گاڑیاں اوور لوڈ ہوگئیں۔عوام الناس کو اُس شخص کی فکری ستھرائی ، عوام دوستی اور حق و انصاف کی طرفداری جون کی گرمی میں بھی گھنٹوں تک سڑک پہ کھڑا کر گئیں۔
سحر کا سورج گواہی دے گا
کہ جب اندھیرے کی کوکھ میں سے
نکلنے والے یہ سوچتے تھے کہ کوئی جگنو
نہیں بچاہے
تو تم کھڑے تھے!
جب زندہ تھا تو جلسوں میں کھڑا ہو کر خطاب کرتا تھا، اور عوام بیٹھے اُسے سن رہے ہوتے ۔آج (تابوت میں )وہ لیٹا ہوا تھا، اور عوام کھڑے تھے۔۔۔۔۔۔ جی ہاں، اسے تعظیم دینے پورا بلوچستان ایستادہ تھا ۔اس لیے یہ نہ کہنا کہ عوام بے شعور ہیں، بے وفا ہیں! ۔یہ نہ کہنا کہ بلوچستان اپنی اصل اولاد کی شناخت سے محروم ہے ۔
اور یہ سب کچھ بے ساختہ تھا۔ کوئی تصنع اور بناوٹ نہ تھی۔ کوئی حکم اور آرڈر نہ تھے ۔ کوئی سرکاری ، سرداری جبر نہ تھا ۔کوئی پیشکی تیاری نہ تھی ۔ یہ تو خالصتاً قومی آواز اور عوامی شعور کی بجتی مقدس سیٹیاں تھیں جنہوں نے حب سے لے کر کوئٹہ تک، اور پھر وہاں سے لے کر مسلم باغ تک انسانوں کے انبوہ کو متحرک کردیا۔ اسی عوامی شعور نے احترام کی پوشاکیں پہنا کر عوام الناس سے میت کے کاروان کو سلیوٹ دلوائے۔جابجا اُس کی ایمبولنس کو باوقار طور پر رکوایا گیا، بہت تعظیم کے ساتھ اُس کے بارنٹ کو چوما گیا اور پھر احترام کے ساتھ اس کی گاڑی آگے جانے دی گئی۔
جو کچھ سوشل میڈیا میں آیا وہ تو محض زیرہ تھا۔ لوگوں کا والہانہ پن تو کیمرہ بازی کے لیے نہیں ہوتا۔ عقیدہ تمند کی حد تک احسان مندی کے ہزاروں مناظر گمشدہ ہی رہ گئے۔ نوٹ کرنے والا ہی کوئی نہ تھا۔ "آزاد" ٹی وی چینل وزیراعظموں اور ماڈل گرلز کے پوز بنانے کے اظہار آزادی میں مصروف تے ۔ سلطان کے سامنے کلمہِ حق کہنے والے صحافی کب کے ناپید ہوچکے۔ چنانچہ ایک ہیرو کو عوام کی طرف سے سلام کے اظہار میں سے بہت کچھ محفوظ نہ ہوا۔
بھئی،integrity کی بارش ہوگئی اس روز ۔بلوچستان اپنے جو بن پہ تھا اُس روز۔ کمٹ منٹ کے جھکڑ چلے اُس روز بلوچستان میں ۔ایک نقصان کو عوامی اجتماعی نقصان سمجھا گیا اُس روز بلوچستان میں ۔ یک جہتی کی بہار آئی اُس روز بلوچستان میں۔ نفاقیوں کا یومِ شکست تھا اُس دن بلوچستان میں ۔
تصور کیا جاسکتا ہے کہ جو قوتیں گذشتہ ستر برسوں سے محنت کش عوام کے بیچ دراڑیں پیدا کرنے میں اپنے وقت ، پیسہ ، محنت او ردماغ کی سرمایہ کاری کرتی رہیں انہیں عثمان خان نے کتنا بڑا نقصان پہنچایا۔ آج عوام کی طرف سے نہ زبان کا فرق اہم تھا ،نہ نسل اور فرقے کی تفریق کو خاطر میں لایا گیا۔ایک میت نے انسان دشمنوں کی منظم اور مستقل محنت سے پیدا کردہ ہر دراڑ کو بھر دیا۔ پاک ہیں وہ لوگ جو انسانوں کو متحد کرتے ہیں، اچھی نہیں ہیں وہ روحیں جو عوام الناس کے پیچ دیواریں کھڑی کرتی ہیں۔

اس سلسلے میں ایک اور بات اہم ہوئی۔ اُس کا بیٹا راستہ بھر امڈ آئے لوگوں سے خطاب کرتا رہا۔ اوپر نیلے آسمان ، نیچے باپ کی میت اور وسیع بلوچستان کی طویل ترین سڑک پر ناواقف بلوچ عوام الناس کی والہانہ وابستگی سے بیٹا کتنا متاثر ہوا ہوگا، وہ ہمیں اُس کی اُن تقریروں سے معلوم ہوتا ہے ۔ پاک الفاظ ، خلوص بھرے جذبات اور آئندہ کے لیے مصمم ارادے ۔ دنیاداری سے بہت بلند باتیں۔فی البدیہہ باتیں۔ کاش میت کے ساتھ ساتھ راستے میں استقبال کرنے والوں سے اُس کی اُن مختصر تقاریر کو کاغذپر لکھا جائے ۔ وہ الفاظ ، وہ فقرے اور وہ عزم اگلے طویل مستقبل کے لیے بلوچستان بھر کے سیاسی لوگوں کا منشور بن جائیں گے۔

ہم عثمان خان کاکڑ کی جدائی پہ غمزدہ ہیں۔ اس لیے کہ وہ ایک سیاسی کارکن تھا۔ ایک سامراج دشمن، جمہوریت دوست، فیوڈل مخالف ،اور مظلومی ومحکومی کا دشمن سیاستدان تھا۔ وہ پارلیمنٹ کی سیاست میں غیر منتخب مداخلتوں کا سخت ترین مخالف تھا ۔ وہ ون یونٹ کے برخلاف وفاقیت کا ساتھی تھا ۔ عثمان قوموں کی خود اختیاری کا جھنڈا بردار تھا۔ ۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ زور آوروں کی جانب سے ایک سیاست دشمن فضا بنا نے کی راہ میں رکاوٹ تھا۔ وہ سیاست کا بچہ تھا۔اور آخری سانس تک ایک مبارز سیاسی کارکن رہا، مصلحت پسندی کو مسترد کرنے والا سیاسی کارکن۔
اُس کی بہادر موت سے عوامی سیاست زندہ باد ہوگئی۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ahl-e-Qalam اھل قلم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share