Ahl-e-Qalam اھل قلم

  • Home
  • Ahl-e-Qalam اھل قلم

Ahl-e-Qalam اھل قلم Articles that meet the criteria are shared here in Ahl-e-Qalam.

اصل اپوزیشن لیڈر سے خوفمشر محمود خان اچکزئیتحریر: رفیع اللہ خٹکپاکستان کی سیاست میں اپوزیشن وہی کامیاب سمجھی جاتی ہے جو ...
28/10/2025

اصل اپوزیشن لیڈر سے خوف
مشر محمود خان اچکزئی
تحریر: رفیع اللہ خٹک

پاکستان کی سیاست میں اپوزیشن وہی کامیاب سمجھی جاتی ہے جو اقتدار کے دروازے پر دستک دے کر اندر داخل ہو جائے۔ مگر کبھی کبھار کوئی ایسا رہنما بھی سامنے آتا ہے جو اقتدار کے لالچ سے بلند، اصولوں کی طاقت سے مسلح اور عوامی شعور سے جڑا ہوتا ہے۔ آج پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر ایسی ہی ایک شخصیت کھڑی ہے محترم مشر محمود خان اچکزئی۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسٹیبلشمنٹ کو کسی اپوزیشن لیڈر سے حقیقی خطرہ محسوس ہوا ہے۔ خطرہ اس لیے نہیں کہ وہ طاقت رکھتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ضمیر کی طاقت رکھتے ہیں ۔پاکستان میں اپوزیشن اکثر اسٹیبلشمنٹ کے کھیل کا حصہ رہی ہے کبھی مفاہمت کے نام پر، کبھی قومی مفاد کے نام پر اور کبھی ایک پیج کے نام پر اپوزیشن کا اصل کام یعنی عوام کے حق میں اور طاقت کے خلاف بولنا برسوں سے معدوم رہا ہے مگر جب پارلیمان میں عمران خان اور ان کی جماعت تحریکِ انصاف نے محترم مشر محمود خان اچکزئی کو بطور اپوزیشن لیڈر نامزد کیا تو طاقت کے ایوانوں میں بےچینی بڑھ گئی۔ کیونکہ اگر محمود خان اچکزئی اپوزیشن لیڈر بن گئے تو پہلی بار وہ کرسی کسی ایسے شخص کے ہاتھ میں آئے گی جو نہ بکتا ہے، نہ جھکتا ہے اور نہ خاموش ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جس رہنما نے آئین، صوبائی خودمختاری اور پارلیمان کی بالادستی کی بات کی وہ خطرہ قرار پایا۔ چنانچہ جب اچکزئی صاحب کے اپوزیشن لیڈر بننے کا امکان پیدا ہوا تو طاقت کے مراکز نے اپنی پالیسیاں متحرک کر دیں۔ کچھ سیاسی جماعتیں جو دن رات جمہوریت کے راگ الاپتی ہیں، وہ بھی محترم مشر کے خلاف سرگرم ہو گئیں۔ یہ سوال اہم ہے آخر اسٹیبلشمنٹ اور اس کے تابع سیاسی گروہ محمود خان اچکزئی سے اتنے خوفزدہ کیوں ہیں؟ اس کا جواب سادہ ہے کیونکہ وہ نظام کے اندر سے نظام کو چیلنج کرتے ہیں۔ وہ آئینِ پاکستان کی اصل روح پر کھڑے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک میں اصل اختیار پارلیمان کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ فوج اور خفیہ اداروں کے پاس۔وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ صوبوں کو ان کے وسائل پر مکمل حق دیا جائے اور فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سمیت سب ادارے آئین کے تابع ہوں۔
وہ افغانستان کے ساتھ جنگ نہیں بلکہ امن اور برابری پر مبنی تعلقات کے حامی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو پاکستان کے طاقتور حلقے سننا نہیں چاہتے کیونکہ ان سچائیوں سے طاقت کی مصنوعی بنیادیں لرزتی ہیں۔
پاکستان کی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ لڑتی کم اور سمجھوتے زیادہ کرتی ہیں۔
کبھی مفاد کے لیے خاموش رہنا، کبھی طاقت کے اشارے پر چلنا یہ ان کی پرانی عادت ہے۔ ان کے نزدیک سیاست اصول نہیں بلکہ پوزیشن کا کھیل ہے مگر محمود خان اچکزئی کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس کھیل کے کھلاڑی نہیں بلکہ اس کھیل کے نقشہ سازوں کو بے نقاب کرنے والے شخص ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اگر پارلیمان واقعی عوامی نمائندگی کا ادارہ ہے تو فیصلے بند کمروں میں نہیں ایوانوں میں ہونے چاہئیں اور یہی نظریہ انہیں باقی سب سے منفرد بناتا ہے۔ وہ وفاق کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں مگر زبردستی کے اتحاد کے ذریعے نہیں بلکہ اختیارات کی منصفانہ تقسیم کے ذریعے۔ان کی سیاست پشتون، بلوچ، سندھی، سرائیکی اور پنجابی سب کے حقِ حاکمیت کی سیاست ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب ایک اکائی کمزور ہوتی ہے تو پورا وفاق ٹوٹ جاتا ہے اور جب سب برابر ہوتے ہیں تو ملک مضبوط ہوتا ہے۔ یہی فلسفہ پاکستان کے طاقتور طبقات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن کے لفظ کو اس قدر مسخ کر دیا گیا ہے کہ اب یہ لفظ اصولی مخالفت کے بجائے اقتدار کی دوسری لائن کا مترادف بن چکا ہے۔مگر اچکزئی صاحب نے اپوزیشن کو اس کے اصل مفہوم میں زندہ کیا حق گوئی، جمہوریت کا دفاع، اصولوں کی پاسداری اور آئین کی بالادستی۔ آج شاید انہیں اپوزیشن لیڈر بننے سے روک دیا جائے، شاید ان کے خلاف میڈیا مہم مزید تیز کر دی جائے مگر تاریخ کا فیصلہ ان لمحاتی سازشوں سے بڑا ہوتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ ان لوگوں کو یاد رکھتی ہے جو اقتدار کے غلام نہیں بنے،جو سچ بولنے کی قیمت ادا کرتے رہےاور جو اصولوں پر اٹل رہے۔ مشر محمود خان اچکزئی اسی قافلے کے آخری سپاہی نہیں بلکہ آنے والے دور کے رہنماؤں کے لیے ایک راستہ، ایک معیار، ایک درس ہیں۔ پاکستان کی سیاست اگر کبھی حقیقی معنوں میں جمہوری بننی ہے تو اسے محمود خان اچکزئی جیسے رہنماؤں کی سچائی برداشت کرنا سیکھنا ہوگا۔کیونکہ جمہوریت نعرے یا معاہدے سے نہیں بلکہ اصولوں پر کھڑے ہونے کے حوصلے سے زندہ رہتی ہے۔ آج اسٹیبلشمنٹ انہیں روک سکتی ہےمگر تاریخ نہیں اور تاریخ کا ورق ہمیشہ ان کے نام سے روشن رہے گا جنہوں نے سچ بولنے سے انکار نہیں کیا۔

د لوي انقلابي لينن سياسي خارښتيان.... عزيزا د اې پي ډي ايم په الاينس کې به اسټيج او ميټنګ کې لوي استاد محترم عبدالرحيم م...
24/10/2025

د لوي انقلابي لينن سياسي خارښتيان....
عزيزا د اې پي ډي ايم په الاينس کې به اسټيج او ميټنګ کې لوي استاد محترم عبدالرحيم مندوخیل او د افغانانو قاتل جنرل حميد ګل په يو زي ناست به وو. د افغانستان د تباهي يو بل لوي زمه واره ګلبدين حکمتيار سره د محترم عثمان خان شهيد عکسونه او ملاقات په ريکارډ پروت دی. محترم منزور پښتين مدرسه حقانيه اکوړه ته ورغلي وو هغه اکوړه مدرسه سي د افغانستان د تباهي مرکز وو،
ايا افغانانو قاتلانو سره ناسته او سياست جائز دي، خو په پريس کلب کښي د يو مړه صحافي تلین کې د خپل مقصد خبرې کول بد کار دي، حالنکه هلته سي کوم مجلس شوي دي هغه بايد وکتل شي سي د اسټبلشمنټ خپل ملګري او د هغه کورنۍ يې و دښمن ته درولي دي. د سياست کمال هم دغه دي سي ته د دښمن څخه د هغه ملګري را جلا کړه او د ځان ملګري يې که او د هغوی په مخالفت کې انرژۍ استعمال کړه. لکه څنګه چې ميرويس نيکه د ګورګين خلاف د صفوي بادشاه په دربار کې د ځان ملګري اول را پیدا کړل، او وروسته يې هم هغه خلګ د ګورګين او د بادشاه خلاف ودرول، شيرشاه سوري هم دغه کار وکړ، د مغل د دربار دننه يې خپل ملګري جوړ کړل او بيا يې د مغل بادشاهي هم د هغه په ملګرو چپه کړه..
هم دغه کار نن ماموت خان اڅکزي کوي. ماموت خان اڅکزي کمال هم دغه دي سي د اسټبلشمنټ ټول ملګري هغه که نوازشریف وو، که عمران خان يا داسي نور، هغه يې ټول د ځان ملګري کړل، او د هغوي طاقت او انرژۍ يې د دوي د اسل بادارانو خلاف و کاروله. کوم کار سي موږ د قام پالو تحريک د پونم له لارې موږ نه وکي، هغه کار د هم دغو خلکو لا لارې ښه په بهترينه طريقه دوام لري.
ډاکتر نجيب شهيد به ويل سي دغه مجاهدين ټول افغانان دي، خپل ورور او د وطنداران دي، او دښمن موږ ته خپل لاس په خوله کې راکړي دي. ز اوس نه غاښ په چيګوي شم او نه يې پرېکوي شم. هم دغه کار ماموت خان اڅکزي له دوي سرا کوي، خپل جوړ کړي بوتان يې ورته درولي دي. او دغه خلګ به د پاکستان فوځي اسټبلشمنټ ته اخر ملا ور ماتوي د دوي په خپلو خلګو به دوي ته شکست ورکوو، هم دغه کمال دي او د کمال ماموت خان اڅکزي لري. باقي دغه بې زايه سي کوم ياران تنقيد کوي د دوي. په باره کښې لينن ويلي وو سي د خلګ په هر څيز ښه پوه دي خو دوي داسي تنقيد په دې کوي سي دوي په اسل کې سياسي خارښتيان دي او په داسي ګمراه کن پوښتنو خپل خارښ سړوي.

نواز شریف ہو، شہباز شریف یو، عمر شریف ہو، راحیل شریف ہو، بابرہ شریف یا ارشد شریف، کسی کا پختونوں یا پختونخوا سے کوئی تعل...
23/10/2025

نواز شریف ہو، شہباز شریف یو، عمر شریف ہو، راحیل شریف ہو، بابرہ شریف یا ارشد شریف، کسی کا پختونوں یا پختونخوا سے کوئی تعلق نہیں۔ کسی نے پختونوں کے حق، مفاد یا ہمدردی میں کبھی ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا، نہ لکھا۔ آپ اپنے شریف اپنے پاس رکھیں۔ ہمارے ہیرو وہ ہیں، جو ہمارے لیے بولتے، لکھتے اور مرتے گئے۔ ہمیں کسی امپورٹڈ ہیرو کی ضرورت نہیں۔ مزاحمت کی جائے گی۔ #شازار جیلانی

ماہرنگ لانگو کا والد عبدالغفار لانگو اسلم اچو کا قریبی دوست تھا۔ ارباب کرم خان روڈ کے واپڈا دفتر میں ایک ساتھ کام کرتے ت...
07/10/2025

ماہرنگ لانگو کا والد عبدالغفار لانگو اسلم اچو کا قریبی دوست تھا۔ ارباب کرم خان روڈ کے واپڈا دفتر میں ایک ساتھ کام کرتے تھے ۔ ان کا تیسرا دوست تھا سرور عرف بابے۔ تینوں نے فتنہ الہندوستان بی ایل اے جوائن کی ۔ مئی 2010 میں اسلم اچو مجید بریگیڈ کا بانی بنا۔ وہی مجید بریگیڈ جس نے خودکش بمبار تیار کئے اور سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا۔

ماہرنگ کا والد غفار لانگو نظریاتی طور پر شدت پسند کمانڈر تھا اور پہلے یہ خود بھی نواب خیر بخش مری کے فورم کے زریعے نوجوانوں کی زہن سازی کرتا تھا کہ وہ بھی ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چلے جائیں ۔ اور پھر یہ خود ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چلا گیا۔ لانگو کو گرفتار بھی کیا گیا اور عبدالغفار لانگو نے کم و بیش 50 سے زائد پنجابی مزدوروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کا اعتراف کیا ۔ لیکن عدالت نے اسے بری کردیا۔ وہ دوبارہ پہاڑوں پر گیا تو اسلم نے اسے شک کی نظر سے دیکھا اور پھر یہ شک جڑ پکڑ گیا اور دبے لفظوں کہا جانے لگا ک لانگو اندر کی خبریں ایجنسیوں کو دے رہا ہے ۔ اہم موڑ تب آیا جب بی ایل اے اندر سے تین دھڑوں میں بٹ گئی
ایک طرف سرداری فرنٹ تھا، جو مزاحمت کی کمان قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتا تھا اور دہشت گردی کو قبائلی برانڈنگ کے ذریعے مقبول بنانے کا قائل تھا۔

دوسری طرف سرخ پرچم گروہ تھا، جو سوشلسٹ نظریات سے لبریز، ریاستی نظام کی مکمل تبدیلی اور کمیونسٹ انقلاب کا خواب لیے سرگرداں تھا۔

تیسرا دھڑا پراکسی شکّی کمانڈروں پر مشتمل تھا، جو ہر ناکامی یا چال کو اپنوں کی غداری سمجھتے تھے اور اکثر اپنے ہی ساتھیوں پر شک کرتے۔ ان تینوں سوچوں کے تصادم نے تنظیم کے اندر ایسی دراڑ پیدا کی جو آگے چل کر خونی شگاف میں بدل گئی جہاں نہ صرف اعتماد ٹوٹا بلکہ کئی جانیں بھی اس اندورنی کشمکش کی نذر ہو گئیں
ایسی ہی ایک تنظیمی میٹنگ کے بعد اسلم بلوچ کے مخالفین نے پٹاخا چھوڑا لانگو اندر کی خبریں لیک کرتا ہے اندر کھاتے شواہد صفر، مگر بی ایل اے کے صحرا میں افواہ ریت کے طوفان کی طرح اُٹھتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے لانگو خانہ بدوش ہوگیا، ہر مورچے پر مشکوک۔ خود اسلم بھی دباؤ میں آیا کہ یارِ غار بچاؤں یا یونٹ؟

یکم جولائی 2011 کو خبر پھیلی لانگو جھڑپ میں زخمی ممکنہ طور پر ہلاک ۔ اور پھر اس کی لاش گڈانی ٹاؤن سے ملی۔
باپ کی موت نے ماہرنگ لانگو کو سوشل میڈیا کی “جوائنٹ فرنٹ لائن” پر لاد دیا۔ سرکاری اسکالرشپ پر پڑھنے والی ماہرنگ نے ریاست پر قتل کا الزام لگایا مگر وہ اب تک مجید بریگیڈ اور بی ایل اے کے اندرونی اکاؤنٹس کا ذکر گول کر جاتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے بلوچ حقوق کی علمبردار، مگر اُسی نظامِ ریاستی اسکالرشپ سے پلنے والی!
یہ کہانی جہاں ختم ہوتی ہے، وہیں سے اصل سوالات جنم لیتے ہیں مگر ان سوالات کا کوئی واضح جواب آج تک سامنے نہیں آیا۔ غفار لانگو کی ہلاکت ایک معمہ بن کر رہ گئی

کیا اسے دشمن نے مارا یا کسی قریبی دوست نے ہی نظریاتی اختلافات کی آڑ میں خاموشی سے راستے سے ہٹا دیا؟

مجید بریگیڈ جیسی خودکش یونٹ کو پہاڑوں میں موجود خندقوں تک لاکھوں ڈالر کی فنڈنگ کون پہنچاتا تھا؟

کیا واقعی یہ سب صرف اندرونی ہمدردوں کا کارنامہ تھا یا کسی بین الاقوامی خفیہ ایجنسی کی نگرانی میں یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا؟ اور سب سے بڑھ کر، ماہرنگ بلوچ کا وہ بیانیہ جو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے

کیا وہ واقعتاً سچ پر مبنی ہے یا پھر وہ صرف اپنے والد کے ادھورے نظریاتی خواب کو عالمی پلیٹ فارمز پر جذباتی رنگ دے کر پیش کر رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر خاموشی چھائی ہوئی ہے، اور شاید آئندہ بھی رہے۔

ڈسٹرکٹ چیئرمین جناب عبدالشکور آغا صاحب ایک نہایت معزز، سنجیدہ اور جماعتی خدمات کے اعتبار سے قابل قدر شخصیت ہیں۔ ان کا کر...
02/09/2025

ڈسٹرکٹ چیئرمین جناب عبدالشکور آغا صاحب ایک نہایت معزز، سنجیدہ اور جماعتی خدمات کے اعتبار سے قابل قدر شخصیت ہیں۔ ان کا کردار، اصول پسندی اور قربانیاں سب پر عیاں ہیں۔ تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض نام نہاد کرایہ دار اور غیر سنجیدہ لوگ، جو محض دکھاوے اور ذاتی مفاد کے لیے سرگرم ہیں، پرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ ایک حقیقی اور ذمہ دار جماعتی شخصیت کو بچوں اور عام افراد کی نشست پر بٹھانا جماعتی اصول و وقار کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

یہ طرزِ عمل نہ صرف جماعتی اقدار کو مجروح کرتا ہے بلکہ کارکنان اور ذمہ داران کے درمیان بددلی بھی پیدا کرتا ہے۔ ایسے مناظر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مقام و مرتبہ اب خدمت یا قربانی کی بجائے تعلق داری اور وقتی فائدے کی بنیاد پر دیا جا رہا ہے، جو قابلِ مذمت ہے۔

جماعتی عہدے اور نشستیں عزتِ نفس اور اجتماعی اعتماد کی علامت ہوتی ہیں۔ جب اصل خدمت گاروں کو نظر انداز کرکے نام نہاد لوگ سامنے آئیں گے تو اس سے تنظیم کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچے گا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ:

1. ذمہ داران ایسے واقعات کا فوری نوٹس لیں۔

2. حقیقی کارکنوں اور قیادت کی عزتِ نفس کا ہر حال میں تحفظ کیا جائے۔

3. غیر سنجیدہ اور موقع پرست عناصر کو واضح پیغام دیا جائے کہ جماعتی پلیٹ فارم ذاتی تشہیر کے لیے نہیں ہیں
حبیب فرہاد

24/07/2025

"۔۔۔ما ته د افغانستان یوۀ دانشور قصه کوله چي زۀ يو وخت د يوۀ سركاري افسر په توګه د افغانستان د وروستي باچا اروا ښاد محمد ظاهر شاه سره په دوره تللی وم۔

په دغه دوره کي باچا لومړی هرات او بیا کندهار ته راغی۔ په هرات کي نۀ چا زۀ پیژندلم او نۀ څوک ما پیژاندۀ۔ په دا مي نو تش له خپله کاره سره کار لاره، خو په کندهار کي مي پېژندګلوي ډېره وه ځکه به مي نو دلته د چا در خواست باچا ته ور مخته کړی وي، د چا به مي په څه بله توګه کومک کړی وي او دغه شي ته د باچا پام شوي ووـ

ماښام هغه خپل افسران یو یو د دې دپاره ور بلل چي ضروري معلومات ورڅخه واخلي يا هغو ته لازم هدايات وركړي۔

کله چي زما وار راغی او زۀ يې ور وغوښتم نو تر سركاري خبرو وروسته يې راته وويل چي نن لږ زيات فعال وې۔ ما ور ته وويل چي دا خو نو یو زما خپله سيمه ده، خلک مي پېژني، دويم دا چي دا خلک ډېر بېچاره او در پدره دي۔ د سړي ورباندي زړه سوځي۔ ښايي له دې کبله ما هم لږ زياته خواخوږي ورسره کړې وي۔

خو د باچاهانو بيا خپل یو انداز وي۔ هغوی په خپله طريقه ځان له حالاتو خبروي او هر څوک چي ور ته نزدې وي، په هنر هنر داسي خبري د هغو له خُلې را باسي چي د ټول اولس د فکر انداز او د زړۀ او ذهن عکس ور ته پکي څرګند شي۔ په دا نو دۀ هم خبره پر همدې ځاى باندي بس نۀ کړه بلکې ورو ورو يې داسي مخته بوتله، لكه ما چي دې ته هڅوي چي نور هم څۀ و وايم۔

كله چي ما ته دا احساس و شو چي باچا ما اورېدل غواړي، نو د ادب او درناوي په دايره کي دننه مي ډېر په احتیاط او په لنډو ټکو کي څۀ اشاره غوندي دې خبري ته هم وکړه چي دا بېچارګان د دې وطن اکثریت جوړوي خو بيا هم داسي ښكاري لکه دا وطن چي د دوی نه وي۔

زما د دې لنډي اشارې شاته چي کوم اوږد يو داستان پروت ؤ، باچا ته هغه ټول څرګند شو او په کومه خونه کي چي زۀ و دی ناست وو ، په هغې کي هواري سرې غالۍ ته يې ګوته و نيوه چي دا د کوم رنګ غالۍ ده۔ ما ورته و ویل "سره ده"۔ دۀ ويل سره يې نو تۀ ولي بولې، په دې کي خو نور رنګونه هم شته۔ ما جواب ورکړ چي سره په دې ورته وايم چي دا سور رنګ پکي ډېر دی۔ مځکه يې ټوله سره ده۔ دا نور رنګونه خو تش د ګلانو په توګه پکي کارېدلي دي۔

دۀ ويل چي همدغو ګلانو خو دغه غالۍ ښايسته کړې ده۔ که دا ګلان یوې خواته کړې نو د غالۍ ښایست به ټول ورک شي۔ خو سره له دې ستا په شان هر څوک دې غالۍ ته سره په دې وايي چي دلته د سرۀ رنګ اصل قوت د هغه ډیر والی دی۔ په یوۀ وطن کي هم چي هر څوک ډېر وي، وطن د هغو په نامۀ يادېږي۔ خو د دغه ډېري سره که هنر او پوهه وي نو کم شمېره وروڼه قامونه د هغو دپاره د تاوان سبب نۀ جوړېږي۔ بلکې د دغي غالۍ د ګلانو په شان وطن په هغو نور
ښایسته کېدای شي۔"

~
( ؛ ۴۶۵م او ۴۶۶م مخ)

بلوچ بھائیوں کے کوئٹہ کے حوالے سے دعوے اور ان کے جوابات۔ پہلا دعوی کوہ تہ یا شال : کہتے ہیں انگریز نے کسی بلوچ سے پوچھا ...
15/07/2025

بلوچ بھائیوں کے کوئٹہ کے حوالے سے دعوے اور ان کے جوابات۔
پہلا دعوی
کوہ تہ یا شال : کہتے ہیں انگریز نے کسی بلوچ سے پوچھا کہ اس جگہ کا نام کیا ہے انہوں نے جواب دیا کوہ تہ اور براہوی زبان کے لفظ شال نام تھا کوئٹہ کا۔
جواب: 1901 میں بلوچوں کی کل آبادی کوئٹہ میں 700 تھی اور انگریز ایک سو سال پہلے آئے تھے جس سے بلوچ بولنے آبادی دو سو ہو گی انگریز کو ہزاروں پشتون نہیں ملے اور 200 سو بلوچوں سے پوچھا کہ انہوں نے کوہ تھاہ بتا دیا۔ کوئٹہ افغان جغرافیہ میں صرف ایک نہیں ہے دو ہیں ایک کوئٹہ کابل میں بھی ہے جس کا نام کوئٹہ سنگی ہے۔ فیسک پر 'کوټه سنګي' سرچ کرو مل جائے گی۔ کو تھاہ صرف بلوچی نام باقی 99 فیصد نام پر بھی غور کرو وہ پشتو میں کیوں ہے۔ ہنہ اوڑک نوسار سرہ غولہ پنچپائی کچلاغ سرہ غوڑگئ تکتو زرغون بلیلئ سمنگلئ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری بات شال براہوی کا لفظ نہیں ہے شال پہاڑ ہے اس کے نیچے شالدرہ ہے اور اوڑک میں داخلی راستے کو شال تنگئ کہتے ہیں اور پشتون جغرافیہ میں شال کونڑ، باجوڑ اور اور جگہوں پر بھی شال نام کے جغرافیہ ہیں۔
اصلی تاریخ پڑھو یہ 11 سو سے لیکر 1860 تک قندھار کا مشرقی ضلع رہا ہے اور سب سے پہلے آباد ہونے والی قوم کاسی ہے۔
ایک دفعہ خان کلات عبداللہ خان نے جب افغان کمزور ہوئے تھے پشین تک قبضہ کیا تھا ژوب اور شوراوک تک لوگوں سے جانور لے گئے تھے خلجی محمد حسین ہوتک نے پشین لے لیا پھر کوئٹہ پھر مستونگ جب کلات کی باری ہے تو سرنڈر ہوئے علاقے مال مویشی واپس کئے اور ضمانت کے طور پر 5 سردار ساتھ قندھار لے گئے۔ پھر یہ علاقہ خلجیوں سے سفوید پھر احمد شاہ ابدالی کے زیر تسلط اگیا۔
آئین اکبری 1590 میں لکھ چکے ہیں کہ مستنگ پشین اور شال (کوئٹہ) قندھار کے مشرقی اضلاع تھے اور کوئٹہ میں کاسی افغان رہتے ہیں۔
سوال نمبر 2:
کہ کوئٹہ احمد شاہ ابدالی نے خان قلات کو ان کی والدہ محترمہ کو بطور شال دیا تھا اس لئے شالکوٹ کہتے ہیں یہ بات ھتو رام نے لکھی ہے۔
جواب: کیا احمد شاہ بابا خدا نخواستہ اتنے بے وقوف تھے کہ وہ اپنا جغرافیہ گفٹ کریں کسی کو۔ دوسری بات کیا زمین دی گئی تھی یا کوئٹہ میں رہنے والے لوگوں کو بھی گفٹ کیا۔ اگر صرف زمین دی گئی تھی تو احمد شاہ بابا نے کاسی بازئی درانی یسین زئی کو کیوں نہیں کہا تھا کہ زمین خالی کر دیں۔ ھاں مرہٹوں کے خلاف جنگ کٹ بعد واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے کچھ علاقوں کا کنٹرول دیا ہو گا اور خان کلات کو والئ (گورنر ) قلات لکھا گیا ہے۔ گوادر تک احمد شاہ بابا کی بادشاہت تھی۔
تیسری دعوی:
ایک چاچا ہے وہ کہتے ہیں کہ قندھار تک بلوچ سر زمین ہے اور کاسی کرد ہیں۔ کیا کاسی خود کو کرد کہتے ہیں اگر نہیں تو کسی پر اپنی سوچ تھوپنا غلط بات ہے حلانکہ یہ صاحب خود دھوار تاجک ہے لیکن خود کو بلوچ کہتے ہیں پھر بھی پشتون اسکو بلوچ مانتے ہیں۔ اگر کاسی خود کو افغان کہیں پھر کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کاسی کو بلوچ بنانے پر بضد ہو۔ لیکن جب ملکیت کی بات آتی ہے تو وہ کوئٹہ کا مالک تو بنتے ہیں لیکن چمن اور قندھار کا دعوی نہیں کرتے اس کا کیا مطلب؟ اس لئے تو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ اب انکو کون سمجھائے کہ توسیع پسندانہ سوچ اپنے لئے مشکلات بڑھانے ہوتے ہیں کم نہیں ہوتے۔
اب تک یہ تین دعوے موجود ہیں اب اور بھی دعوے آئیں گے اور کچھ نہ کچھ جگاڑ بنا لیں گے ہر دعوی کے لئے۔
نوٹ: کوئٹہ کے جنوب میں 3 میل کے فاصلے پر زنگی لوڑا (لوڑا پشتو میں ندی کو کہتے ہیں ) یہاں پر زنگی رند نے شاہجہاں کے دور میں بولان کے راستے کوئٹہ پر حملہ کیا وہ شکست کھائی اور جانبحق ہو گئے تھے اس واقعے کی وجہ سے اس ندی کا نام زنگی لوڑا رکھا گیا ہے۔
پشتون افغان کی سوچ:
دوسری طرف پشتون سادہ سا مقدمہ رکھتے ہیں کہ سر زمین غزنوی، غوری لودھی خلجیوں اور ابدالیوں افغان بادشاہوں کا مسکن رہا ہے۔ کاسی یہاں آباد تھے مغل کے دور میں بازئی اور یسین زئی آباد ہوئے۔ ہنہ اوڑک کے پورا علاقہ اور سپین کاریز کا مالک آج بھی مکمل طور یسین زئی ہے۔ تکتو اور سریلئ پہاڑ کے دامن میں آج بھی بازئی آباد ہیں۔ شال اور زرغون کا دامن کاسیوں کا ہے۔ ان زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے تاریخی کاریز 100 کے لگ بھگ موجود ہیں ان میں سے سب کے سب پشتونوں کے نام پر موجود ہیں کسی بلوچ یا براہوی میر معتبر کے نام سے نہیں ہے۔
ایک طرف سے کئی دعوے دوسری طرف سے صرف تاریخ رکھی جاتی ہے اور ملکیت ظاہر کی جاتی ہے۔ اور پشتون افغان نے اس سر زمین کی دفاع نہ صرف بیرونی حملہ آوروں سے کی ہے بلکہ براہویوں اور بلوچوں سے بھی دفاع کی ہے اور یہ تاریخی تلخ حقیقت ہے جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔
نوٹ: دلائل اور بھی ہیں ثبوتوں کے ساتھ۔ لیکن کہتے ہیں کہ چالیس عقلمند انسانوں کے لئے ایک دلیل بھی کافی ہوتی ہے اور جاہل کے لئے 40 دلیل بھی کافی نہیں ہوتے۔ ان دلائل کو لیکر ایک کتاب لکھ سکتے ہیں لیکن ناچیز سست ہے زیادہ
زحمت نہ دیں۔ شکریہ 😂
بلوچ سر زمین کو ہم اپنی بلوچ بہن کا چادر سمجھتے ہیں اور بدلے میں یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے جغرافیہ پر نظر نہ رکھی جاتے۔
سلامت باتے
Khasham Kasi

زيارت ميں ایک لاکھ ستر ہزار ایکڑ اراضی محکمہ زراعت کو الاٹ کرنیکے بارے میں نور محمد دومڑ کا ایک وڈیو میں کہنا ہے ، کہ یہ...
08/07/2025

زيارت ميں ایک لاکھ ستر ہزار ایکڑ اراضی محکمہ زراعت کو الاٹ کرنیکے بارے میں نور محمد دومڑ کا ایک وڈیو میں کہنا ہے ،
کہ یہ اراضی بشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے دور حکومت میں عبد الرحیم زیارتوال نے 2014 میں الاٹ کی ہے ، مگر اب لوگ مجھے موردالزام ٹھہراتے ہیں ،
انہوں نے کہا ہے ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خود الاٹنمٹس کرتی ہے ، مگر بعد میں دوسروں کے گلے ڈالتے ہیں ، جوکہ ناروا عمل ہے ؟
انہوں نے مزید کہا ، کہ ہر کسی کو دعوت دیتا ہوں ، کہ وہ اکر تحقیقات کریں ، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاہیں ،،،،!

اس زمرے میں ، میں خود نور محمد دومڑ کی دعوت پر سرسری تحقیقات کیلیے حاضر خدمت ہوا ، کھوج لگایا ، تحقیق کی ، ریکارڈ تک رسائی حاصل ہوئی ، جہاں پر الاٹنمٹس کاغذات ہاتھ لگ گئیں ، جسمیں دستخطوں کیساتھ واضح تاریخ 4 جون 2025 لکھا گیا ہے ،
نور۔حمد دومڑ کو بتانا چاہتا ہوں ، کہ تحقیق مکمل ہوگئی ہے ، جس کے مطابق تم جھوٹے نکلے ہو ، عبدالرحیم زیارتوال یا پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے کوئی الاٹمنٹ نہیں کی ہے ، یہ کام اور دھندہ صرف اور صرف فارم نمبر 47 پر کامیاب نوکروں کی ہے ، کہ جنکی سروں پر ھمہ وقت کرنل ہاشم اینڈ کمپنی کی تلواریں لٹک رہی ہیں ،
لہذا باخبر رہے ، زیادہ اچھلنے اور چھلانگیں لگانے کی ضرورت نہیں ہے ، ھم جیسے وطن غم واروں سے دوری پر رہے ، تو بہتر ہوگا ،،،؟

نوٹ ) تمام الاٹنمٹس کے کاغذات یہاں پوسٹ میں موجود ہیں ، جسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے )

Zain Kakar ,

جامعہ بلوچستان  کا معاشی بحران اور قومی زبان  و ادب  کے شعبوں سے متلعق معلومات و معروضات تحریر: ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ  گذش...
06/07/2025

جامعہ بلوچستان کا معاشی بحران اور قومی زبان و ادب کے شعبوں سے متلعق معلومات و معروضات
تحریر: ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ

گذشتہ دو دنوں سے کئی احباب اور خصوصا ہمارے صحافی دوست رابطہ کر رہے ہیں کہ جامعہ بلوچستان میں پشتو، بلوچی اور براہوی زبانوں کے شعبہ جات کو بند کرنے یا ضم کرنے کی خبر میں کتنی صداقت ہے؟
اس قضئے کو سمجھنے کیلئے پہلے پاکستان پبلک سیکٹر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کو درپیش معاشی بحران کو سمجھنا ہو گا۔ سال ۲۰۰۲ میں پاکستان میں یونیورسٹیز کی تعداد ۳۰ تھی، جو ۲۰۱۵ میں جاکر ۱۶۰ ہو گئی، یعنی تیرہ سالوں میں چارسو فیصد اضافہ ہوا، سال ۲۰۱۰ میں اٹھارویں ترمیم منظر عام پر آئی، صوبوں کو اپنے تعلیمی نظام کی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا حق بلاخر دے دیا گیا۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا مالیاتی کردار اسی نسبت سے سکڑتا گیا اور صوبائی حکومتوں پر ذمےداری عائد ہوئی کہ وہ اپنے تہیں ہائیر ایجوکیشن کے معاملات سنبھال لیں۔ گذشتہ پندرہ سالوں میں صوبہ بلوچستان میں کئی حکومتیں آئیں لیکن صوبائی سطح کی ہائیر ایجوکیشن کمیشن بنانے کی طرف کسی کا دھیان نہیں گیا۔البتہ صوبائی حکومت کی جانب سے جامعات کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ۲۰۲۲ کا ایکٹ آیا جو جامعات سے متعلق تمام تر اختیارات گورنر سے گورنمنٹ کو منتقل کرتی ہے۔ایک طرف ہائیر ایجوکیشن کو ملنے والی قلیل رقم بلوچستان یونیورسٹی کی دو تنخواہیں پوری نہیں کرتیں، دوسری طرف صوبائی حکومت جامعات کو اکیڈمک آزادی کے ڈھیلے ڈھالے فریم ورک کے ساتھ گود لینے کیلئے تیار نہیں، اس میں اپنی نوعیت کی تبدیلیاں کرنے یا تجاویز دیتے نہیں تھکتے۔سوال یہ ہے کہ متوسط اور غریب طبقے کیلئے بنائی گئی یونیورسٹی کما کیوں نہیں رہی؟ پانچ سالوں میں ۳۰۰ فیصد فیس بڑھانے کے بعد وہ طبقہ ہی غائب ہوگیا جو پڑھنے آتا تھا۔
اب کُل ملاکر جامعہ بلوچستان اور صوبائی حکومت کا رِشتہ وہی جو آئی ایم ایف اور پاکستان کا ہے، کھبی سو پیاز کھانے کی شرط رکھتے ہیں اور کھبی سو جوتے۔ تین تین مہنے تک تنخواہیں نہیں ہوتیں ، جامعہ کے وائس چانسلر کو یونیورسٹی کے معاملات دیکھنے کے بجائے سیکرٹیریٹ کے چکر لگانے پڑتے ہیں، اساتذہ، افیسر اور ملازمین قرض خواہوں سے چھپتے پھر رہے ہیں۔

دو سالوں پر محیط غالب و مغلوب کے اس رِشتے میں اساتذہ کی عِزت نفس تو ویسے ہی کچھلی جاچکی ہے، لیکن بطور فرد اس سارے گورکھ دھندے میں ہمارے گذشتہ اور حالیہ وائس چانسلر کو کو حزیمت اُٹھانی پڑ رہی ہے۔ کسی ذمانے میں چیف سیکرٹری کو جامعہ بلوچستان سے ملنے کیلئے اپوائینٹمنٹ لینی ہوتی تھی، اور آج ہمارے جامعات کے وائیس چالنسلروں کو تنخواہ کیلئے دی گئی خیرات (گرانٹ اِن ایڈ) کے لئے ہفتوں افسرشاہی کے مِنت ترلے کرنے پڑتے ہیں۔ نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی اس طرح کے بحران ساتھ لاسکتی ہیں، اس پہلو پر ہم نے کھبی نہ سوچا تھا ۔ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو عطار کے لونڈے کی دی ہوئی دوائی نہیں، اپنی لوکل دوائی ہے، پر اثر اُلٹ ہی ہورہا ہے، کم و بیش سارے افسران بالا اور حکام بالا اسی یونیورسٹی کے گریجویٹس ہیں۔کیا نِری طوطیٰ چشمی ہے؟۔
اس ضمن میں صوبائی حکومت اور خصوصا وزیراعلیٰ کی جانب سے مختلف شعبوں کو ختم کرنے یا ضم کرنے کی باتیں شنید میں آرہی ہیں، کل سابق وزیراعلیٰ جناب مالک بلوچ صاحب کی تقریر سے یہ حقیقت ہم پر افشاں ہوئی کی اندر ہی اندر کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔دھواں اُٹھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، لیکن ابھی تک ہمیں تحریرا کچھ نہیں ملا، کہ ۱۹۷۴ سے سرگرم عمل اِن تین شعبوں کی قسمت میں کیا لکھا ہے؟؟؟۔ شعبہ پشتو میں۱۷ سال رہ کر ہم نے بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ اِن بے ضرر شعبہ جات سے خُدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کی کمی نہیں، اِن متصل شعبوں میں معنی خیز خاموشی، سرد مہری، اور بیگانگیت کی فضا میں مجھے کئی دفعہ ان زبانوں کی زندہروحیں بھٹکتی ہوئی محسوس ہوئی ہیں ۔۔۔ کیا اپنے کیا پرائے،سب اُسی نظر سے ان زبانوں کو دیکھتے ہیں جو ریاست دیکھتی ہے، کوئی زبان میم صاحبہ کی طرح ہوتی ہے، جس کی آو بھگت ہوتی ہے، کوئی ملکہ ہوتی ہے جو ہزاروں میلوں دور سے مہاجرت کرکے مالکن کی جگے پر بیٹھ گئی ہے،، کچھ خادمائیں، اور کچھ زبانیں کنیزوں کی سی حیثیت رکھتی ہیں، میں نے اپنی زبان کے کنیز پن کا دُکھ بارہا جھیلا ہے، اور شاہد اسی عظیم غم سے میں اپنئ زندگی میں مقصدیت کے چند لمحے نکال پاتا ہوں۔

لیکن ایک بات تو طے ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی میں مہذب اور متمدن اقوام اپنے سالانہ بجٹ کا ایک خطیر رقم ادب، آرٹس، تاریخ اور کلچر پر انوسٹ کرتے ہیں، کلچر، ادب اور آرٹس کے شعبے قومی شناخت، تاریخ اور تہذیب کی ائینہ دار ہوتی ہیں، ان کے وجود ’’مقصود بالذات‘‘ سمجھا جاتا ہے، اِن پر خرچ کیا جاتا ہے، اور قومیں انہیں کی حفاظت کیلئے جنگیں بھی لڑتی ہیں اور محنت بھی کرتی ہیں۔ البتہ فنون لطیفہ، ادب، آرٹ اور کلچر سے کمایا بھی جاسکتا ہے لیکن یہ تب ممکن ہے جب حکومتیں اپنے ثقافتی اور ادبی ورثے کو اپنے دِل سے لگا کر رکھیں، ثقافتی، لسانی، اور ثقافتی تنوع کو باعث رِحمت سمجھیں۔قوم کے بچوں کو اپنی ہی مادری زبان میں سیکھنے کی مواقع اور گنجائشیں مہیا کریں۔
فی الوقت ہم تینوں شعبوں (پشتو، بلوچی، براہوی) کے ذمہ داران اور فیکلٹی زبان و ادب کے متنوع کورسز کی تشکیل میں سرگرم عمل ہیں، جس میں ایک ممکنہ اور اُمید افضا حل یہ ہے کہ ہر شعبہ یونیورسٹی کے دیگر فیکلٹیز اور کم و بیش اٹھارہ شعبوں میں زبا ن و ادب کے آپشنل کورسز آفر کررہے ہیں، جس سے سینکڑوں طلبا و طالبات فیضیاب ہوں گے ، دوسرا مرحلہ انٹر ڈسپلنری اور شارٹ کورسسز کا ہے، لیکن ان سب میں (Massive Online Open Courses -MOOC) کورسز سے ہمیں زیادہ اُمیدیں ہیں جس کے زریعے دُنیا کے کسی بھی کونے سے بیک وقت لاتعداد لوگوں کو سیکھنے کے عمل کا حصۃ بنایا جاسکتا ہے۔حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ اس پورے عمل میں یونیورسٹی انتظامیہ ہمارے ساتھ کھڑی ہے اور اکیڈمک کونسل میں ترامیم اورساختیاتی اصلاحات منظور کرانے میں ہماری رہنمائی بھی کر رہی ہے۔
دیکھئے پاتے ہیں عُشاق بُتوں سے کیا فیض
اک برہمین نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے (غالب)

ضلع برشور کاریزات کا معاملہ مسلسل تعطل کا شکار ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ضلع کے نام پر ایجنڈا لے کر اقتدار تک پ...
06/07/2025

ضلع برشور کاریزات کا معاملہ مسلسل تعطل کا شکار ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو لوگ ضلع کے نام پر ایجنڈا لے کر اقتدار تک پہنچے، وہ اب اتنے بے بس کیوں ہیں؟

عدالت نے متعدد بار کیس کو صوبائی کابینہ کو واپس بھیجنے کی ہدایت کی، لیکن اس کے باوجود حکومتی بینچز پر براجمان بااختیار افراد کیوں پریشان اور بے اختیار نظر آتے ہیں؟

گزشتہ حکومت میں ایک اپوزیشن ممبر کو تمام رکاوٹوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اب جبکہ حکومت، اقتدار، عہدہ، وزیراعلیٰ، صدر اور وزیراعظم سب ان ہی کے ہیں، تو برشور توبہ کاکڑی کو ضلع بنانے میں ناکامی کیوں؟

تحصیل توبہ کاکڑی اور تحصیل باغ میں اب رکاوٹ کون ہے؟
بوستان اور خانوزئی کے لیے الگ سیاسی نشستیں مختص ہیں، لیکن برشور کے عوام کو صرف لولی پاپ ہی کیوں دیا جا رہا ہے؟

یہ سارے سوالات اب عوامی سطح پر جواب مانگتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے بلوچستان یونیورسٹی کے ...
02/07/2025

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس میں انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو ڈائریکٹو جاری کیا ہے جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ بلوچی، براہوی اور پشتو ڈپارٹمنٹس کو ضم کر کے انسٹی ٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر کے نام سے ایک نیا شعبہ قائم کریں۔ وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ کیوں کہ یہ شعبے خسارے میں ہیں اور یونیورسٹی پر مالی بوجھ ہیں۔
یہ ایک الارمنگ سچویشن ہے۔
یہ واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے علاؤہ بلوچی تربت یونیورسٹی میں اور پشتو لورالائی یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے لیکن براہوی صرف یہیں پڑھائی جاتی ہے، یہ شعبہ بند ہونے کی صورت میں براہوی زبان میں اعلیٰ تعلیم کا دروازہ بند ہو جائے گا۔
میں ایک عرصے سے یہ بات کرتا رہا ہوں کہ لینگویجز کے شعبے اپنی افادیت کھو رہے ہیں۔ کیونکہ مارکیٹ میں ان کی کوئی کھپت نہیں۔ کوئی طالب علم چار سال لگا کر بلوچی، براہوی یا پشتو کی ڈگری حاصل کرتا ہے تو اس کے بعد اس کے لیے کیریئر اپرچونیٹی کیا ہے؟ کالجز میں بھی یہ ڈپارٹمنٹس برائے نام رہ گئے ہیں۔ لگ بھگ یہی حال اردو کا ہے۔ یہ چونکہ لازمی زبان کے بطور بارہویں جماعت تک موجود ہے، اس لیے اس میں کچھ گزارہ ہو جاتا ہے، لیکن آخر تابکہ؟
اور پھر ان زبانوں میں اگر کوئی ایم فل اور پی ایچ ڈی کی اعلیٰ ڈگری حاصل کر لے تو اس ڈگری کی افادیت کیا ہو گی؟ درست ہے کہ ڈگریاں محض کمانے کے لیے نہیں ہوتیں لیکن آخر آدمی نے پیٹ بھی تو پالنا ہے اور اعلیٰ ترین ڈگری اگر کیریئر کے کام نہ آ سکے تو اس کی افادیت کیا رہ جاتی ہے؟ محض ریسرچ اور تسکین کے لیے ڈگری لینے والے بھلا کتنے ہوں گے؟
اس لیے میں نے بارہا کہا کہ لینگویجز ڈپارٹمنٹس سے وابستہ احباب کو مارکیٹ سے جڑت کے لیے کچھ سوچنا ہو گا۔ حکومتیں اور ریاستیں کارپوریٹڈ ہو چکی ہیں، یہ محض علم و دانش والی باتیں اب نہیں سنیں گی۔ افسوس کہ لینگویجز سے وابستہ احباب کی اکثریت کو سوائے اپنی ملازمت کے اور کچھ نہیں سوجھتا۔ ڈپارٹمنٹ بند ہونے پر بھی انہیں محض یہ پریشانی لاحق ہو گی کہ ان کی ملازمت چلی جائے گی اور اگر یہ چلی گئی تو وہ کریں گے کیا؟!
بہتر ہو گا کہ واویلا مچانے، قوم پرستی کا ڈھول پیٹنے کی بجائے اپنی قومی زبانوں کی بقا اور ترویج کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں۔ میں لینگویجز ڈپارٹمنٹس کو ختم کرنے کی بجائے انہیں مارکیٹ اورینٹڈ بنانے کے حق میں ہوں اور اس کے لیے کچھ تجاویز یہ ہو سکتی ہیں:
- بلوچی، براہوی، پشتو (اور اردو ڈپارٹمنٹ بھی) لینگویج کورسز متعارف کروائیں۔ وہ لوگ جو یہ زبانیں نہیں جانتے اور سیکھنا چاہتے ہیں، تاکہ وہ شارٹ کورسز کے ذریعے ان میں لکھنے، پڑھنے اور بولنے کی بنیادی مہارتیں حاصل کر سکیں۔
- ایم فل، پی ایچ ڈی کی بجائے (یا ان کے ساتھ ساتھ) چھوٹے ریسرچ پراجیکٹس شروع کیے جائیں۔ وہ لوگ جو ان زبانوں میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہ کوئی ریسرچ پراجیکٹ لے آئیں، ڈپارٹمنٹ ان کی تکنیکی معاونت کرے تاکہ ریسرچ کا ماحول پروان چڑھے۔
- محض زبان و ادب کی بجائے ان ڈپارٹمنٹس کو آرٹ اور کلچر سے بھی جوڑنا چاہیے۔ مثلاً بلوچی فلم میکنگ سکھائی جائے۔ بلوچی ڈراما پڑھایا اور عملاً کروایا جائے، ڈرامے بنوائے جائیں۔ اس زبان کا میوزک سکھایا جائے۔ پرفارمنگ آرٹس کے تمام شعبے اس کی ذیل میں آ سکتے ہیں۔
- تحقیقی جرائد چھاپے جائیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے ان کی ترویج کی جائے۔
اور سب سے اہم بات یہ کہ سیاستدان کو قائل کیا جائے کہ وہ قانون سازی کے ذریعے مادری زبانوں کی تعلیم کو ممکن بنائیں تاکہ ان اداروں کا حقیقی جواز رہ سکے اور مادری زبانوں میں تعلیم سے مراد محض اس کے قاعدے بنانا نہیں ہوتا جیسے ڈاکٹر مالک نے اپنے دورِ حکومت میں کیا، یہ کروڑوں روپے کا ناکام پراجیکٹ ثابت ہوا۔ (اس پر الگ سے کسی وقت تفصیلی بات کریں گے)۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ارتقا کا قانون کائنات کی ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے۔ زبانیں اور ان کے شعبے اگر ارتقا نہیں کریں گے، وقت کے ساتھ چلنا نہیں سیکھیں گے، خود کو مارکیٹ سے نہیں جوڑیں گے تو ان کا مستقبل معدومیت کی زد میں ہی رہے گا۔ سنسکرت اور فارسی سامنے کی مثالیں ہیں۔

د تاريخ غلط بيانول او له تاريخ سره خيانت کول ډېر سپک کار دى.خان شهيد په جېل کې وو چې ولي خان له جنرال يحيا سره ساز باز و...
02/07/2025

د تاريخ غلط بيانول او له تاريخ سره خيانت کول ډېر سپک کار دى.
خان شهيد په جېل کې وو چې ولي خان له جنرال يحيا سره ساز باز و کړو. له هغه پس بيا ولي خان له جنرال ضیاﺀالحق سره ملګرى وو.
له جنرال ضیاﺀالحق پس بيا ولي خان د جنرال اسلم او جنرال حميد ګل جوړ کړي آئي جې آئي برخه وو. بيا چې کله مشرف راغلو، نو اجمل خټک او اسفنديار ولي يې ملګري وو. بلکې د مشرف اېجنډې ته يې د باچاخان د اېجنډې نوم ورکړ.
د تېرې شل کلنې اې اېن پي او اسټبلشمنټ د ملګرتيا او يارانې ګواهي پخپله اېمل ولي خان هغه بله ورځ په پرېس کانفرنس کې ورکړه. بلکې اوس هم په ډاګه د جنرال حافظ منير ملګرى دى.
بل لوري ته خان شهيد په ټول ژوند د مقتدره ملګرى نه دى پاته شوى. بلکې ټول عمر د مقتدره تر عذاب لاندې په جېلونو کې بندي وو. البته کله چې نېپ ليډرشپ او په خاصه توګه ولي خان د خپل منشور سره خيانت و کړ. نو خان شهيد د بهټو ملګري کړې ده.
خو بهټو دغسې يو سياستمدار وو، لکه فاطمه جناح، نوازشریف، بې نظيره، عمران خان او زرداري.
نو له سياسي خلګو سره اتحاد کول بيا څه رنکه د مقتدره ياري شوه?

د پاکستان مقتدره پنجابي پوځ دى او د پوځ ملګرتیا له ډاکټر خانه بيا تر ولي خانه او له ولي خانه بيا تر اسفندیار ولي او لت اسفندیار ولي بيا تر اېمل ولي پورې دا ټوله موده د باچاخان له کمبلې شوې ده.

بل دا هم سياسي او ملي خيانت دى، چې سياسي خلګو ته د مقتدره نوم ورکول شي. او په دغه طريقه له اصل مقتدره يعنې پنجابي پوځ څخه د خلګو پام واړول شي.
دوى دا خيانت قصداً کوي، چې خپل غر په غومبر کې ورک کړي. ولې چې د دوى دا دريم نسل د پنجابي مقتدره په غېږ کې ناست دى. ځکه دوى سياستمدارانو ته د مقتدره نوم ورکوي. موخه يې دا ده چې خلګ په مقتدره کې د کنفيوژن ښکار کړي.
خو سياسي کارکنان ښه پوهېږي، چې مقتدره يک يوازې پنجابي پوځ او د دوى سيول او جوډيشل بيروکراسي ده.
نه جناح مقتدره وو، نه لياقت علي خان، نه فاطمه جناح، نه بهټو، نه نواز شریف، نه بېنظيره، نه زرداري او نه عمران خان.
دا ټول سياسي خلګ دي، او دوى ته مقتدره ويل د اصل پنجابي مقتدره پر ګناهونو دروند تلتک اچول دى.

خان زمان کاکړ په اصل کې د بسم الله خان کاکړ فکري بچى دى. چې د ملتپالنې په جامه کې تل کاکړي قبایلي چوپړ وهلى دى. او دلته يې د پښتانه قام تر منځ پر قبایلي بنيادونو کرکه او تعصب خورولى دى.
Adv Hamayoun Kasai

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Ahl-e-Qalam اھل قلم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share