07/10/2025
ماہرنگ لانگو کا والد عبدالغفار لانگو اسلم اچو کا قریبی دوست تھا۔ ارباب کرم خان روڈ کے واپڈا دفتر میں ایک ساتھ کام کرتے تھے ۔ ان کا تیسرا دوست تھا سرور عرف بابے۔ تینوں نے فتنہ الہندوستان بی ایل اے جوائن کی ۔ مئی 2010 میں اسلم اچو مجید بریگیڈ کا بانی بنا۔ وہی مجید بریگیڈ جس نے خودکش بمبار تیار کئے اور سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا۔
ماہرنگ کا والد غفار لانگو نظریاتی طور پر شدت پسند کمانڈر تھا اور پہلے یہ خود بھی نواب خیر بخش مری کے فورم کے زریعے نوجوانوں کی زہن سازی کرتا تھا کہ وہ بھی ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چلے جائیں ۔ اور پھر یہ خود ہتھیار اٹھا کر پہاڑوں پر چلا گیا۔ لانگو کو گرفتار بھی کیا گیا اور عبدالغفار لانگو نے کم و بیش 50 سے زائد پنجابی مزدوروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کرنے کا اعتراف کیا ۔ لیکن عدالت نے اسے بری کردیا۔ وہ دوبارہ پہاڑوں پر گیا تو اسلم نے اسے شک کی نظر سے دیکھا اور پھر یہ شک جڑ پکڑ گیا اور دبے لفظوں کہا جانے لگا ک لانگو اندر کی خبریں ایجنسیوں کو دے رہا ہے ۔ اہم موڑ تب آیا جب بی ایل اے اندر سے تین دھڑوں میں بٹ گئی
ایک طرف سرداری فرنٹ تھا، جو مزاحمت کی کمان قبائلی سرداروں کے ہاتھ میں دیکھنا چاہتا تھا اور دہشت گردی کو قبائلی برانڈنگ کے ذریعے مقبول بنانے کا قائل تھا۔
دوسری طرف سرخ پرچم گروہ تھا، جو سوشلسٹ نظریات سے لبریز، ریاستی نظام کی مکمل تبدیلی اور کمیونسٹ انقلاب کا خواب لیے سرگرداں تھا۔
تیسرا دھڑا پراکسی شکّی کمانڈروں پر مشتمل تھا، جو ہر ناکامی یا چال کو اپنوں کی غداری سمجھتے تھے اور اکثر اپنے ہی ساتھیوں پر شک کرتے۔ ان تینوں سوچوں کے تصادم نے تنظیم کے اندر ایسی دراڑ پیدا کی جو آگے چل کر خونی شگاف میں بدل گئی جہاں نہ صرف اعتماد ٹوٹا بلکہ کئی جانیں بھی اس اندورنی کشمکش کی نذر ہو گئیں
ایسی ہی ایک تنظیمی میٹنگ کے بعد اسلم بلوچ کے مخالفین نے پٹاخا چھوڑا لانگو اندر کی خبریں لیک کرتا ہے اندر کھاتے شواہد صفر، مگر بی ایل اے کے صحرا میں افواہ ریت کے طوفان کی طرح اُٹھتی ہے دیکھتے ہی دیکھتے لانگو خانہ بدوش ہوگیا، ہر مورچے پر مشکوک۔ خود اسلم بھی دباؤ میں آیا کہ یارِ غار بچاؤں یا یونٹ؟
یکم جولائی 2011 کو خبر پھیلی لانگو جھڑپ میں زخمی ممکنہ طور پر ہلاک ۔ اور پھر اس کی لاش گڈانی ٹاؤن سے ملی۔
باپ کی موت نے ماہرنگ لانگو کو سوشل میڈیا کی “جوائنٹ فرنٹ لائن” پر لاد دیا۔ سرکاری اسکالرشپ پر پڑھنے والی ماہرنگ نے ریاست پر قتل کا الزام لگایا مگر وہ اب تک مجید بریگیڈ اور بی ایل اے کے اندرونی اکاؤنٹس کا ذکر گول کر جاتی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے بلوچ حقوق کی علمبردار، مگر اُسی نظامِ ریاستی اسکالرشپ سے پلنے والی!
یہ کہانی جہاں ختم ہوتی ہے، وہیں سے اصل سوالات جنم لیتے ہیں مگر ان سوالات کا کوئی واضح جواب آج تک سامنے نہیں آیا۔ غفار لانگو کی ہلاکت ایک معمہ بن کر رہ گئی
کیا اسے دشمن نے مارا یا کسی قریبی دوست نے ہی نظریاتی اختلافات کی آڑ میں خاموشی سے راستے سے ہٹا دیا؟
مجید بریگیڈ جیسی خودکش یونٹ کو پہاڑوں میں موجود خندقوں تک لاکھوں ڈالر کی فنڈنگ کون پہنچاتا تھا؟
کیا واقعی یہ سب صرف اندرونی ہمدردوں کا کارنامہ تھا یا کسی بین الاقوامی خفیہ ایجنسی کی نگرانی میں یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا؟ اور سب سے بڑھ کر، ماہرنگ بلوچ کا وہ بیانیہ جو دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے
کیا وہ واقعتاً سچ پر مبنی ہے یا پھر وہ صرف اپنے والد کے ادھورے نظریاتی خواب کو عالمی پلیٹ فارمز پر جذباتی رنگ دے کر پیش کر رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر خاموشی چھائی ہوئی ہے، اور شاید آئندہ بھی رہے۔