
15/07/2025
بلوچ بھائیوں کے کوئٹہ کے حوالے سے دعوے اور ان کے جوابات۔
پہلا دعوی
کوہ تہ یا شال : کہتے ہیں انگریز نے کسی بلوچ سے پوچھا کہ اس جگہ کا نام کیا ہے انہوں نے جواب دیا کوہ تہ اور براہوی زبان کے لفظ شال نام تھا کوئٹہ کا۔
جواب: 1901 میں بلوچوں کی کل آبادی کوئٹہ میں 700 تھی اور انگریز ایک سو سال پہلے آئے تھے جس سے بلوچ بولنے آبادی دو سو ہو گی انگریز کو ہزاروں پشتون نہیں ملے اور 200 سو بلوچوں سے پوچھا کہ انہوں نے کوہ تھاہ بتا دیا۔ کوئٹہ افغان جغرافیہ میں صرف ایک نہیں ہے دو ہیں ایک کوئٹہ کابل میں بھی ہے جس کا نام کوئٹہ سنگی ہے۔ فیسک پر 'کوټه سنګي' سرچ کرو مل جائے گی۔ کو تھاہ صرف بلوچی نام باقی 99 فیصد نام پر بھی غور کرو وہ پشتو میں کیوں ہے۔ ہنہ اوڑک نوسار سرہ غولہ پنچپائی کچلاغ سرہ غوڑگئ تکتو زرغون بلیلئ سمنگلئ وغیرہ وغیرہ۔ دوسری بات شال براہوی کا لفظ نہیں ہے شال پہاڑ ہے اس کے نیچے شالدرہ ہے اور اوڑک میں داخلی راستے کو شال تنگئ کہتے ہیں اور پشتون جغرافیہ میں شال کونڑ، باجوڑ اور اور جگہوں پر بھی شال نام کے جغرافیہ ہیں۔
اصلی تاریخ پڑھو یہ 11 سو سے لیکر 1860 تک قندھار کا مشرقی ضلع رہا ہے اور سب سے پہلے آباد ہونے والی قوم کاسی ہے۔
ایک دفعہ خان کلات عبداللہ خان نے جب افغان کمزور ہوئے تھے پشین تک قبضہ کیا تھا ژوب اور شوراوک تک لوگوں سے جانور لے گئے تھے خلجی محمد حسین ہوتک نے پشین لے لیا پھر کوئٹہ پھر مستونگ جب کلات کی باری ہے تو سرنڈر ہوئے علاقے مال مویشی واپس کئے اور ضمانت کے طور پر 5 سردار ساتھ قندھار لے گئے۔ پھر یہ علاقہ خلجیوں سے سفوید پھر احمد شاہ ابدالی کے زیر تسلط اگیا۔
آئین اکبری 1590 میں لکھ چکے ہیں کہ مستنگ پشین اور شال (کوئٹہ) قندھار کے مشرقی اضلاع تھے اور کوئٹہ میں کاسی افغان رہتے ہیں۔
سوال نمبر 2:
کہ کوئٹہ احمد شاہ ابدالی نے خان قلات کو ان کی والدہ محترمہ کو بطور شال دیا تھا اس لئے شالکوٹ کہتے ہیں یہ بات ھتو رام نے لکھی ہے۔
جواب: کیا احمد شاہ بابا خدا نخواستہ اتنے بے وقوف تھے کہ وہ اپنا جغرافیہ گفٹ کریں کسی کو۔ دوسری بات کیا زمین دی گئی تھی یا کوئٹہ میں رہنے والے لوگوں کو بھی گفٹ کیا۔ اگر صرف زمین دی گئی تھی تو احمد شاہ بابا نے کاسی بازئی درانی یسین زئی کو کیوں نہیں کہا تھا کہ زمین خالی کر دیں۔ ھاں مرہٹوں کے خلاف جنگ کٹ بعد واپسی پر احمد شاہ ابدالی نے کچھ علاقوں کا کنٹرول دیا ہو گا اور خان کلات کو والئ (گورنر ) قلات لکھا گیا ہے۔ گوادر تک احمد شاہ بابا کی بادشاہت تھی۔
تیسری دعوی:
ایک چاچا ہے وہ کہتے ہیں کہ قندھار تک بلوچ سر زمین ہے اور کاسی کرد ہیں۔ کیا کاسی خود کو کرد کہتے ہیں اگر نہیں تو کسی پر اپنی سوچ تھوپنا غلط بات ہے حلانکہ یہ صاحب خود دھوار تاجک ہے لیکن خود کو بلوچ کہتے ہیں پھر بھی پشتون اسکو بلوچ مانتے ہیں۔ اگر کاسی خود کو افغان کہیں پھر کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کاسی کو بلوچ بنانے پر بضد ہو۔ لیکن جب ملکیت کی بات آتی ہے تو وہ کوئٹہ کا مالک تو بنتے ہیں لیکن چمن اور قندھار کا دعوی نہیں کرتے اس کا کیا مطلب؟ اس لئے تو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے۔ اب انکو کون سمجھائے کہ توسیع پسندانہ سوچ اپنے لئے مشکلات بڑھانے ہوتے ہیں کم نہیں ہوتے۔
اب تک یہ تین دعوے موجود ہیں اب اور بھی دعوے آئیں گے اور کچھ نہ کچھ جگاڑ بنا لیں گے ہر دعوی کے لئے۔
نوٹ: کوئٹہ کے جنوب میں 3 میل کے فاصلے پر زنگی لوڑا (لوڑا پشتو میں ندی کو کہتے ہیں ) یہاں پر زنگی رند نے شاہجہاں کے دور میں بولان کے راستے کوئٹہ پر حملہ کیا وہ شکست کھائی اور جانبحق ہو گئے تھے اس واقعے کی وجہ سے اس ندی کا نام زنگی لوڑا رکھا گیا ہے۔
پشتون افغان کی سوچ:
دوسری طرف پشتون سادہ سا مقدمہ رکھتے ہیں کہ سر زمین غزنوی، غوری لودھی خلجیوں اور ابدالیوں افغان بادشاہوں کا مسکن رہا ہے۔ کاسی یہاں آباد تھے مغل کے دور میں بازئی اور یسین زئی آباد ہوئے۔ ہنہ اوڑک کے پورا علاقہ اور سپین کاریز کا مالک آج بھی مکمل طور یسین زئی ہے۔ تکتو اور سریلئ پہاڑ کے دامن میں آج بھی بازئی آباد ہیں۔ شال اور زرغون کا دامن کاسیوں کا ہے۔ ان زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے تاریخی کاریز 100 کے لگ بھگ موجود ہیں ان میں سے سب کے سب پشتونوں کے نام پر موجود ہیں کسی بلوچ یا براہوی میر معتبر کے نام سے نہیں ہے۔
ایک طرف سے کئی دعوے دوسری طرف سے صرف تاریخ رکھی جاتی ہے اور ملکیت ظاہر کی جاتی ہے۔ اور پشتون افغان نے اس سر زمین کی دفاع نہ صرف بیرونی حملہ آوروں سے کی ہے بلکہ براہویوں اور بلوچوں سے بھی دفاع کی ہے اور یہ تاریخی تلخ حقیقت ہے جس سے روگردانی نہیں کی جاسکتی۔
نوٹ: دلائل اور بھی ہیں ثبوتوں کے ساتھ۔ لیکن کہتے ہیں کہ چالیس عقلمند انسانوں کے لئے ایک دلیل بھی کافی ہوتی ہے اور جاہل کے لئے 40 دلیل بھی کافی نہیں ہوتے۔ ان دلائل کو لیکر ایک کتاب لکھ سکتے ہیں لیکن ناچیز سست ہے زیادہ
زحمت نہ دیں۔ شکریہ 😂
بلوچ سر زمین کو ہم اپنی بلوچ بہن کا چادر سمجھتے ہیں اور بدلے میں یہی توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے جغرافیہ پر نظر نہ رکھی جاتے۔
سلامت باتے
Khasham Kasi