Pakistan Now

Pakistan Now Online Media
Connecting Voices

20/11/2025

کیا یہ گلگت بلتستان کی ثقافت ہے؟ یہ واقعی افسوسناک ہے, ایسے نام نہاد پولو کھلاڑیوں کا رویہ کھیل کی روح اور کھیل کے اصولوں کی مکمل توہین ہے۔


Pakistan Now

12/11/2025

اگر آپ اس ٹرک ڈرائیور کی جگہ ہوتے تو آپ کیا کرتے؟
آپ کے خیال میں یہ جگہ کون سی ہے؟










Pakistan Now

دریائے سندھ پر زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم دنیا کا بلند ترین آر سی سی ڈیم قرار ,272 میٹر بلندی کے ساتھ تعمیراتی کام دن را...
02/11/2025

دریائے سندھ پر زیرِ تعمیر دیامر بھاشا ڈیم دنیا کا بلند ترین آر سی سی ڈیم قرار ,
272 میٹر بلندی کے ساتھ تعمیراتی کام دن رات جاری۔
منصوبے کی تکمیل پر ڈیم 81 لاکھ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے اور 4500 میگاواٹ سستی پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھے گا۔
تعمیراتی سرگرمیوں میں ڈیم پٹ، لیفٹ ایبٹمنٹ اور پاور انٹیک اسٹرکچر سمیت دیگر اہم مقامات پر تیزی سے کام جاری ہے۔



Pakistan Now

01/11/2025

سندھ کے کچے کے علاقوں میں امن و امان کی صورتحال بدستور تشویشناک، ڈاکوؤں کی کارروائیاں نہ تھم سکیں۔
تازہ واقعے میں کچے کے ڈاکوؤں نے کراچی ملیر کے رہائشی جنید کو حیدرآباد سے اغوا کر لیا۔ ذرائع کے مطابق مغوی کی رہائی کے لیے دو کروڑ روپے، راڈو گھڑی، گاڑی اور دیگر قیمتی سامان کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مغوی کی بہن نے بتایا کہ جنید کو 24 اکتوبر کو اغوا کرنے کے بعد کشمور منتقل کیا گیا ہے، جبکہ ڈاکوؤں نے ایک ویڈیو بھی بھیجی ہے جس میں وہ تاوان کی رقم کا ذکر کر رہا ہے۔

اہلِ خانہ کے مطابق کراچی الفلاح پولیس ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر رہی ہے اور کشمور میں رپورٹ درج کرانے کا مشورہ دے رہی ہے۔
مغوی جنید ایک پیزا شاپ پر 1200 روپے یومیہ اجرت پر کام کرتا ہے، جبکہ تاوان جمع کرانے کی آخری تاریخ یکم نومبر مقرر کی گئی ہے۔

Pakistan Now

01/11/2025

گلگت بلتستان کی 78ویں جشنِ آزادی کی مرکزی تقریب میں صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے شرکت کی۔

1947 سے 2025 تک!!! آزادی، الحاق اور آئینی محرومی کی کہانیتحریر: اقبال عیسیٰ خانتاریخ: 29 اکتوبر 2025یکم نومبر 1947، گلگت...
29/10/2025

1947 سے 2025 تک!!! آزادی، الحاق اور آئینی محرومی کی کہانی

تحریر: اقبال عیسیٰ خان
تاریخ: 29 اکتوبر 2025

یکم نومبر 1947، گلگت بلتستان کی تاریخ کا وہ سنہرا دن ہے جب کرنل حسن خان اور ان کے دلیر رفقا نے غلامی کی زنجیریں توڑ کر آزادی کا سورج طلوع کیا۔
انہوں نے ڈوگرا راج کے گورنر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے آزادی کا پرچم بلند کیا۔
یہ انقلاب کسی بیرونی مدد کا مرہونِ منت نہیں تھا، بلکہ مقامی غیرت، اتحاد اور حوصلے کی روشن مثال تھا۔
اسی ایمان افروز جذبے کے تحت عوامِ گلگت بلتستان نے ازخود پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا، ایک ایسا فیصلہ جو وفاداری، خلوص اور محبتِ وطن سے لبریز تھا۔
لیکن آزادی کے 78 برس گزرنے کے باوجود یہ خطہ آج بھی اپنی آئینی شناخت اور مکمل سیاسی حیثیت کے تعین کا منتظر ہے۔
ہر سال یکم نومبر کو ہم جوش و احترام سے یومِ آزادی مناتے ہیں، مگر ان جشنوں کی روشنی میں ایک سوال آج بھی گونجتا ہے
کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟
کیا گلگت بلتستان پاکستان کا مکمل اور مساوی حصہ بن چکا ہے؟ یا ہم اب بھی ایک ایسے آئینی ابہام میں زندہ ہیں جس نے ہماری شناخت کو غیر واضح کر رکھا ہے؟
2009 میں "گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر" کے تحت اسمبلی اور کابینہ ضرور بنائی گئی، مگر ان اداروں کے اختیارات محدود رہے۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی کا نہ ہونا، سپریم کورٹ تک براہِ راست رسائی کا فقدان، اور آئین میں واضح حیثیت کا نہ ہونا یہ سب اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ آزادی کا سفر ابھی مکمل نہیں ہوا۔
2018 اور 2023 میں اصلاحاتی تجاویز پیش ہوئیں، مگر وہ محض کاغذوں تک محدود رہ گئیں۔
گلگت بلتستان کا رقبہ 74,496 مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً بائیس لاکھ ہے۔
خواندگی کی شرح 70 فیصد کے قریب ہے، مگر خواتین کی شرح تعلیم محض 54 فیصد ہے۔ یونیسف کے مطابق، تعلیم اور صحت میں کچھ بہتری ضرور آئی ہے، لیکن پالیسی کی غیر یقینی صورتحال اور وسائل کی کمی نے ترقی کی رفتار کو محدود کر رکھا ہے۔
یہ وہ خطہ ہے جس کی 65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے مگر ان نوجوانوں کی آواز اسمبلی کے ایوانوں تک نہیں پہنچ پاتی۔
یونیورسٹی آف بلتستان کے ایک سروے کے مطابق 78 فیصد نوجوان گلگت بلتستان کو مکمل صوبائی حیثیت دینے کے حامی ہیں، جبکہ 64 فیصد کے مطابق آئینی ابہام نے معیشت، روزگار اور سرمایہ کاری کو متاثر کیا ہے۔
یہ نوجوان اب سوال اٹھا رہے ہیں:
اگر ہم نے 1947 میں پاکستان کے لیے قربانیاں دیں، تو آج ہمارا حقِ نمائندگی کیوں محدود ہے؟
ہم نیشنل فنانس کمیشن (NFC) ایوارڈ کا حصہ کیوں نہیں؟
اور جب ہم اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ہمیں "خاموش" کیوں کیا جاتا ہے؟
یہ سوال بغاوت نہیں، یہ سوال وفاداری، قربانی اور آئینی انصاف کا تقاضا ہے۔
کیا شناخت کے بغیر آزادی مکمل ہو سکتی ہے؟
یہی وہ سوال ہے جو گلگت بلتستان کے باشعور، تعلیم یافتہ اور محبِ وطن نوجوانوں کے دلوں میں گونج رہا ہے۔
اب وقت آ چکا ہے کہ وفاق، سیاسی قیادت اور مقامی نمائندے مل بیٹھ کر ایک شفاف، مضبوط اور پائیدار آئینی راستہ طے کریں چاہے وہ عبوری صوبائی حیثیت کی صورت میں ہو یا کسی نئے نمائندگی ماڈل کے تحت۔
نوجوانوں کو پالیسی سازی، قانون سازی اور ترقیاتی عمل میں شامل کرنا اب صرف ضرورت نہیں، بلکہ قوم کی بقا کی ضمانت ہے۔
گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑ آج بھی 1947 کے جانبازوں کی قربانیوں کے امین ہیں۔
گلگت بلتستان کے ہزاروں فرزند اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے وطنِ عزیز کے دفاع کی داستانیں رقم کر چکے ہیں۔ یہ وہ سپوت ہیں جنہوں نے برف پوش چوٹیوں سے لے کر دشوار ترین وادیوں تک پاکستان کے پرچم کی حرمت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ اور آج بھی اس خطے کے لاکھوں نوجوان اپنی جانوں کا نذرانہ دینے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔
یہ جذبہ محض زمین کے ٹکڑے سے وابستہ نہیں، بلکہ ایمان، غیرت اور وطن کی محبت سے جنم لیتا ہے۔
اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ان قربانیوں کو آئینی، سیاسی اور معاشی معنوں میں تکمیل دیں۔
یہ وہ خطہ ہے جو پاکستان کو پانی، توانائی، معدنیات اور سیاحت کی دولت فراہم کرتا ہے
اب یہ اپنی شناخت، اپنے حقوق اور اپنی آواز مانگ رہا ہے۔
یومِ آزادی کے موقع پر ہمیں یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو صرف تاریخ کے اوراق میں نہیں، بلکہ عمل اور اتحاد کے ذریعے زندہ رکھیں گے۔
ہم اپنے وقار، انصاف اور آئینی شناخت کے لیے متحد ہو کر جدوجہد کریں گے تاکہ آنے والی نسلیں حقیقی آزادی کا جشن منا سکیں۔

گلگت بلتستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔ 🇵🇰



Best Regards,
Iqbal Essa Khan

قدرتی خزانے، انسانی غفلت, گلگت بلتستان اور چترال کی کہانیتحریر: اقبال عیسیٰ خانتاریخ: 27 اکتوبر 2025پہاڑوں کے دامن میں ب...
27/10/2025

قدرتی خزانے، انسانی غفلت, گلگت بلتستان اور چترال کی کہانی

تحریر: اقبال عیسیٰ خان
تاریخ: 27 اکتوبر 2025

پہاڑوں کے دامن میں بکھری جھونپڑیوں میں زندگی کی رمق تو ہے، مگر امید کی کرنیں مدھم ہو چکی ہیں۔ گلگت بلتستان اور چترال کے باسی ان معدودے چند اقوام میں شامل ہیں جن کے قدم مٹی پر ہیں مگر قسمت کے خزانے زمین کے سینے میں دفن ہیں۔
پہاڑوں، دریاؤں اور جنگلات کی گود میں نسل در نسل محنت و ریاضت سے جینے والے لوگ دراصل ایسے خزانوں کے امین ہیں جن کی قیمت کا اندازہ شاید خود انہیں بھی نہیں۔
ان بلند و بالا خطوں کی زمینوں میں سونا، چاندی، قیمتی و نیم قیمتی پتھر، صنعتی معدنیات اور قدرتی وسائل کی فراوانی ہے۔ مگر افسوس، یہ دولت اُن ہی کے لیے خواب بن چکی ہے جن کے ہاتھوں نے ان وادیوں کی مٹی میں پسینہ ملایا۔
ارضیاتی ماہرین کے مطابق گلگت بلتستان کی سخت چٹانوں میں سونے کی مقدار 0.10 سے 24 پارٹس پر ملین (PPM) کے درمیان ہے، جبکہ عالمی معیارات کے لحاظ سے صرف 5 PPM سونا بھی تجارتی طور پر منافع بخش سمجھا جاتا ہے۔ تازہ تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ 186 سے زائد سونے کے ذخائر اب تک شناخت کیے جا چکے ہیں، جبکہ جواہرات (Gemstones) کی سالانہ قدر کا تخمینہ تقریباً پانچ سو ملین روپے لگایا گیا ہے۔
یہ اعداد و شمار صاف ظاہر کرتے ہیں کہ کمی دولت کی نہیں، ادراک، منصوبہ بندی اور شفاف حکمرانی کی ہے۔
چترال کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ تازہ ارضیاتی مطالعات کے مطابق وہاں اینٹیمونی (Stibnite) کے تقریباً 0.6 ملین ٹن اور لوہے کے خام مال کے 6.5 ملین ٹن ذخائر دریافت ہو چکے ہیں۔ مگر سوال وہی ہے: ان خزانوں سے مقامی لوگوں کے حصے میں کیا آیا؟
جواب تلخ ہے, لوئر چترال کے گاؤں ڈمیل کے باشندوں کے مطابق ایک کان کنی کمپنی نے چار ارب روپے سے زائد مالیت کے معدنیات نکالے، مگر مقامی لوگوں کو روئیلٹی تک نہ دی گئی۔
یہ صورتحال صرف ناانصافی کی نہیں بلکہ ترقیاتی وژن کی ناکامی کی عکاس ہے۔ گلگت بلتستان اور چترال کے عوام آج بھی مٹی، جنگلات، چراگاہوں اور پانی پر انحصار کرتے ہیں۔ چترال میں صرف تین فیصد زمین قابلِ کاشت ہے۔ جب زراعت محدود ہو تو معدنی وسائل ہی معیشت کا دوسرا ستون بن سکتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے ہم نے ان پہاڑوں کو سرمایہ نہیں، صرف نظارے سمجھ رکھا ہے۔
اب وقت کا تقاضا ہے کہ ان دفن خزانوں کو عوامی فلاح اور علاقائی خودمختاری میں بدلا جائے۔ اس کے لیے تین بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں:
1. عوام میں یہ شعور بیدار کیا جائے کہ پہاڑوں کے نیچے چھپے یہ پتھر نہیں، دولت کے ذخائر ہیں۔
2. مقامی نوجوانوں کو تربیت، تحقیق اور مارکیٹنگ کے جدید علوم سے روشناس کرایا جائے۔
3. ایک شفاف ادارہ جاتی نظام قائم کیا جائے جو روئیلٹی، شراکت داری اور ماحولیاتی توازن کی ضمانت دے۔
فی الحال فیصلہ سازی کے مراکز مقامی نہیں بلکہ بیرونی ہاتھوں میں ہیں، اور یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
دنیا بھر میں سونا، تانبہ، نکل، کوبالٹ اور قیمتی جواہرات کی طلب میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان اور چترال نہ صرف جغرافیائی بلکہ معاشی و تزویراتی حیثیت کے لحاظ سے بھی نہایت اہم مقام رکھتے ہیں۔ مگر اگر ہم نے اب بھی صرف خام مال بیچنے پر اکتفا کیا اور ویلیو ایڈیشن (Value Addition) کی سمت قدم نہ بڑھایا تو آنے والی نسلوں کے ہاتھ خالی رہیں گے۔
وقت آ گیا ہے کہ یہاں کے نوجوان جواہرات کی کٹنگ، پالشنگ اور پروسیسنگ جیسے جدید ہنر سیکھیں تاکہ یہ خطے صرف خام مال فراہم کرنے والے نہیں، بلکہ تیار مصنوعات کے برآمد کنندہ بن سکیں۔ یہی حقیقی ترقی اور خودکفالت کی راہ ہے۔
یہ پہاڑ بظاہر خاموش ہیں مگر ان کے سینوں میں بولتے خزانے دفن ہیں۔ آج ان پہاڑوں کے دامن میں بسنے والے جھونپڑیوں کے مکین شاید محرومی کا شکار ہوں، مگر درحقیقت وہ ان خزانوں کے اصل وارث اور محافظ ہیں۔
اگر ہم نے ان وسائل کو دانش، شفافیت اور اشتراکِ عمل کے ساتھ بروئے کار لایا تو آنے والی نسلیں صرف ان وادیوں کی خوبصورتی نہیں بلکہ ایک خودمختار، مضبوط اور باوقار معیشت کی وارث ہوں گی۔

کالم نگار اقبال عیسیٰ خان, بزنس کنسلٹنٹ اور اسٹریٹیجک ایڈوائزر ہیں، جنہوں نے Hilal Foods Pvt Ltd، NovelOPS Pvt Ltd، SATs، Unilever Pakistan Limited، DNG سمیت متعدد قومی و بین الاقوامی کمپنیوں میں کلیدی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ وہ “Develop N Grow International” اور “Toursity” کے بانی ہیں، اور گلگت بلتستان سمیت قومی سطح پر مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں۔ آپ اعزازی طور پر “شناکی ملٹی پرپز کوآپریٹو سوسائٹی” کے صدر اور “ہنزہ گلگت سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن” کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں



Best Regards,

گلگت بلتستان کی عبوری کابینہ میں باصلاحیت نوجوان قیادت, روشن مستقبل کی نویدکالم نگار: اقبال عیسیٰ خانتاریخ: 25 اکتوبر 20...
25/10/2025

گلگت بلتستان کی عبوری کابینہ میں باصلاحیت نوجوان قیادت, روشن مستقبل کی نوید

کالم نگار: اقبال عیسیٰ خان
تاریخ: 25 اکتوبر 2025

گلگت بلتستان کی سیاسی فضاء ایک بار پھر نئے امکانات، چیلنجز اور امیدوں سے سرشار ہے۔ عبوری حکومت کے قیام کی تیاریاں اپنے اختتامی مرحلے میں ہیں، اور عوامی نگاہیں اس سوال پر مرکوز ہیں کہ آیا یہ حکومت ماضی کے تسلسل کو برقرار رکھے گی یا کسی نئے، شفاف اور میرٹ پر مبنی دور کا آغاز کرے گی۔ موجودہ حالات میں سب سے بڑی ضرورت اس امر کی ہے کہ گلگت بلتستان عبوری کابینہ کو محض آزمودہ چہروں تک محدود رکھنے کے بجائے شفاف، باصلاحیت اور باکردار نوجوان قیادت پر مشتمل کیا جائے، تاکہ خطے کو ایک نئی سمت، وژن اور توانائی فراہم کی جا سکے۔
آج کے نوجوان صرف خواب دیکھنے والے نہیں بلکہ عمل کے میدان میں ثابت قدم کردار بن چکے ہیں۔ گلگت، بلتستان، دیامر، نگر، غذر، ہنزہ، استور، گانچھے، اور تانگیر جیسے اضلاع کے نوجوانوں نے تعلیم، سماجی خدمت، اور ڈیجیٹل میدان میں اپنی قابلیت کو تسلیم کروایا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو شفافیت، میرٹ اور جدید طرزِ حکمرانی کے اصولوں پر یقین رکھتی ہے، اور یہی یقین گلگت بلتستان کو ترقی، استحکام اور انصاف کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔
اگر گلگت بلتستان کی عبوری کابینہ میں نوجوانوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں مؤثر نمائندگی دی گئی تو یہ اقدام نہ صرف سیاسی استحکام کو مضبوط کرے گا بلکہ عوام کے اعتماد اور شمولیت کے احساس کو بھی تقویت دے گا۔ نوجوان قیادت اپنے وژن، دیانت اور جذبۂ خدمت سے کرپشن، اقربا پروری اور علاقائی تعصبات جیسے دیرینہ مسائل کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے, بشرطیکہ انہیں موقع دیا جائے اور ان کی صلاحیتوں پر اعتماد کیا جائے۔
یہ مرحلہ صرف اقتدار کی منتقلی کا نہیں بلکہ سیاسی طرزِ فکر کی تبدیلی کا ہے۔ گلگت بلتستان کے نوجوان وژن، ولولہ اور دیانتداری کے اس امتزاج سے لیس ہیں جو ایک خودمختار، ترقی یافتہ اور پُرامن خطے کی بنیاد رکھ سکتا ہے۔ ان کے اندر وہ عزم اور استقلال موجود ہے جو مشکلات کے باوجود امید اور پیش رفت کا سفر جاری رکھتا ہے۔
اگر عبوری حکومت واقعی عوامی امنگوں کی ترجمان بننے کا عزم رکھتی ہے تو اسے اس نئی نسل کو قیادت میں شریک کرنا ہوگا, وہ نسل جو طاقت کے کھیل کے بجائے خدمت، شفافیت اور میرٹ کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ اقتدار کی باگ ڈور ان کے سپرد کرنا دراصل گلگت بلتستان کے لیے ایک روشن، پائیدار اور خودمختار مستقبل کی طرف عملی قدم ہوگا۔

کالم نگار اقبال عیسیٰ خان, بزنس کنسلٹنٹ اور اسٹریٹیجک ایڈوائزر ہیں، جنہوں نے Hilal Foods Pvt Ltd، NovelOPS Pvt Ltd، SATs، Unilever Pakistan Limited، DNG سمیت متعدد قومی و بین الاقوامی کمپنیوں میں کلیدی ذمہ داریاں نبھائی ہیں۔ وہ “Develop N Grow International” اور “Toursity” کے بانی ہیں، اور گلگت بلتستان سمیت قومی سطح پر مختلف سماجی و فلاحی تنظیموں کی قیادت کر رہے ہیں۔ آپ اعزازی طور پر “شناکی ملٹی پرپز کوآپریٹو سوسائٹی” کے صدر اور “ہنزہ گلگت سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن” کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔



Best Regards,
Iqbal Essa Khan

اسلام آباد سرینہ ہوٹل کے قریب SP عدیل اکبر نے خود کو گولی مار لی.. حالت تشویشناک ہے۔زرائع
23/10/2025

اسلام آباد سرینہ ہوٹل کے قریب SP عدیل اکبر نے خود کو گولی مار لی.. حالت تشویشناک ہے۔زرائع

گلگت بلتستان اور چترال میں 1960 کی بدترین غربت سے آج کی ترقی یافتہ وادیوں تک شاہ کریم الحسینی اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ و...
23/10/2025

گلگت بلتستان اور چترال میں 1960 کی بدترین غربت سے آج کی ترقی یافتہ وادیوں تک شاہ کریم الحسینی اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک نے خطے کی تقدیر بدل دی

تحریر: اقبال عیسیٰ خان
تاریخ: 23 اکتوبر 2025

گزشتہ صدی کے وسط تک گلگت بلتستان اور چترال جنوبی ایشیا کے اُن خطّوں میں شمار ہوتے تھے جہاں غربت، پسماندگی اور محرومی زندگی کی پہچان تھی۔ ذرائع مواصلات ناپید، تعلیم و صحت کے ادارے نہ ہونے کے برابر، روزگار کے مواقع محدود، اور قدرتی وسائل کے استعمال کی کوئی منظم پالیسی موجود نہیں تھی۔ ریاستی توجہ بھی شاذونادر ہی ان بلند و بالا وادیوں تک پہنچ پاتی تھی۔ ایسے میں ایک شخصیت نے خاموش مگر گہری بصیرت کے ساتھ تبدیلی کی بنیاد رکھی, ہز ہائنس شاہ کریم آغا خان۔ اُن کا وژن، جو خدمتِ انسانیت، علم، اور خودانحصاری کے اصولوں پر مبنی تھا، جلد ہی ایک ہمہ گیر ترقیاتی نیٹ ورک کی صورت میں اُبھرا جسے آج دنیا آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک (AKDN) کے نام سے جانتی ہے۔ اس نیٹ ورک نے چند دہائیوں میں اس خطے کی سماجی و معاشی تقدیر بدل کر رکھ دی۔
انیس سو اسی کی دہائی میں شروع ہونے والا آغا خان رورل سپورٹ پروگرام (AKRSP) اس وژن کا عملی مظہر ثابت ہوا۔ اس پروگرام کا مقصد صرف غربت کم کرنا نہیں بلکہ مقامی آبادی کو اپنی ترقی کے فیصلوں کا خود مالک بنانا تھا۔ پچھلے چالیس برسوں میں AKRSP نے گلگت، بلتستان اور چترال کے تقریباً ایک ہزار ایک سو دیہات میں کام کیا، جہاں نو لاکھ سے زائد افراد براہِ راست اس پروگرام سے مستفید ہوئے۔ چار ہزار سے زیادہ چھوٹے پیمانے کے منصوبے , جن میں پل، سڑکیں، آبپاشی چینلز، اور مائیکرو ہائیڈرو پاور یونٹس شامل ہیں, اس خطے کی معیشت کو نئی جان بخشنے کا سبب بنے۔
اعداد و شمار کے مطابق، ان کمیونٹی منصوبوں کے ذریعے پانچ ملین ڈالر سے زائد کی مقامی بچتیں وجود میں آئیں، جبکہ چار ہزار نو سو سے زیادہ کمیونٹی تنظیمیں قائم ہوئیں جنہوں نے ترقیاتی منصوبہ بندی اور مالی نظم و نسق میں شفافیت اور خودمختاری کی مثال قائم کی۔ آج ہنزہ، غذر، یاسین اور چترال جیسے اضلاع میں یہی ادارے پائیدار ترقی کی بنیاد بن چکے ہیں۔
تعلیم کے شعبے میں بھی اس انقلاب کے اثرات واضح ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں جب خواندگی کی شرح دس فیصد سے بھی کم تھی، آج وہ ہنزہ اور غذر جیسے اضلاع میں نوّے فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ آغا خان ایجوکیشن سروسز (AKES) کے تحت قائم اسکولوں نے معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ خواتین اساتذہ اور طلبات کو نمایاں کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کیے۔ صحت کے میدان میں آغا خان ہیلتھ سروسز (AKHS) نے دیہی مراکزِ صحت، موبائل کلینکس اور ریفرل سسٹم کے ذریعے ایک نیا ماڈل متعارف کرایا۔ چترال اور گلگت میں ماں اور بچے کی اموات کی شرح میں گزشتہ تیس برسوں میں ساٹھ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی , جو ایک غیرمعمولی کامیابی ہے۔
معاشی لحاظ سے شمالی پاکستان اب پسماندگی کی نہیں بلکہ جدت و خودانحصاری کی مثال ہے۔ مائیکروفنانس اسکیموں نے چھوٹے کاروبار، زراعت، دستکاری اور سیاحت کے شعبوں کو مستحکم کیا۔ آج ہنزہ، نگر اور چترال کے نوجوان نہ صرف قومی بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی مصنوعات، ڈیجیٹل خدمات، اور تخلیقی منصوبوں کے ذریعے مقام حاصل کر رہے ہیں۔ عالمی رپورٹوں کے مطابق، 1980ء سے اب تک گلگت بلتستان میں فی کس آمدنی میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے، جب کہ غربت کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔
توانائی کے شعبے میں مائیکرو ہائیڈرو پاور منصوبے اس خطے کی شناخت بن چکے ہیں۔ ہزاروں گھرانے جو کبھی لکڑی یا تیل کے دیوں پر انحصار کرتے تھے، اب بجلی سے منور ہیں۔ ان منصوبوں کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی اور انہیں Energy Globe Award جیسے عالمی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ خواتین کی معاشی شمولیت میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے , آج گلگت بلتستان اور چترال کی ہزاروں خواتین چھوٹے کاروبار، فوڈ پراسیسنگ، دستکاری اور سیاحت کے منصوبوں میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔
یقیناً اس خطے کو آج بھی موسمیاتی تبدیلی، گلیشیئرز کے پگھلنے سے پانی کی کمی، اور نوجوانوں کے لیے پائیدار روزگار جیسے چیلنجز درپیش ہیں، مگر اطمینان کی بات یہ ہے کہ مقامی آبادی نے اپنی صلاحیتوں پر یقین قائم کرلیا ہے۔ مضبوط ادارے، تعلیم یافتہ نوجوان، فعال خواتین، اور عالمی معیار کی ترقیاتی منصوبہ بندی , یہ سب عوامل گلگت بلتستان اور چترال کو ایک روشن اور پائیدار مستقبل کی طرف لے جا رہے ہیں۔
ہز ہائنس شاہ کریم آغا خان اور آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی طویل المدتی کاوشیں خدمت، وژن، اور قیادت کی وہ درخشاں مثال ہیں جنہوں نے ایک پسماندہ پہاڑی خطے کو "ترقی کے محتاج" سے "ترقی کی مثال" میں تبدیل کر دیا۔ آج ہنزہ، گلگت اور چترال نہ صرف پاکستان بلکہ جنوبی ایشیا کے اُن چند خطّوں میں شامل ہیں جو تعلیم، صحت، سیاحت اور سماجی ترقی کے اعتبار سے عالمی سطح پر پہچان بنا چکے ہیں۔ یہ کہانی امداد کی نہیں بلکہ ایمان، عزم اور اجتماعی خدمت کی ہے , جو یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر نیت خالص ہو اور قیادت مخلص، تو دنیا کا کوئی پہاڑ ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔

تحریر: اقبال عیسیٰ خان


Best Regards,
Iqbal Essa Khan

ہز ہائنس دی آغا خان کی مسلم کونسل آف ایلڈرز کے وفد سے ملاقاتبین المذاہب ہم آہنگی، نوجوانوں کا بااختیار بنانا اور مصنوعی ...
20/10/2025

ہز ہائنس دی آغا خان کی مسلم کونسل آف ایلڈرز کے وفد سے ملاقات
بین المذاہب ہم آہنگی، نوجوانوں کا بااختیار بنانا اور مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال پر گفتگو
ہز ہائنس دی آغا خان نے مسلم کونسل آف ایلڈرز (مجلسِ حکما المسلمین) کے ایک اعلیٰ سطحی وفد سے ملاقات کی، جس میں ان کے چھوٹے بھائی پرنس علی محمد بھی شریک تھے۔
کونسل کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ملاقات کا مقصد بین المذاہب و بین الثقافتی مکالمے کے فروغ، نوجوانوں کی قیادت اور امن و اعتدال کے فروغ کے ساتھ ساتھ مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال سے متعلق آگاہی بڑھانا تھا۔
ہز ہائنس دی آغا خان نے مسلم کونسل آف ایلڈرز کی اُن کوششوں کو سراہا جن کے ذریعے رواداری، مکالمے اور پرامن بقائے باہمی کے اصولوں کو عالمی سطح پر فروغ دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے شیخ الازہر ڈاکٹر احمد الطیب سے اپنی حالیہ ملاقات کو باہمی تفہیم اور تعاون کی سمت ایک مثبت قدم قرار دیا۔
کونسل کے صدر، جج محمد عبدالسلام نے آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کے تعلیم، ثقافت اور پائیدار ترقی کے فروغ میں کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ دونوں اداروں کے درمیان تعلقات گہرے اور باہمی اعتماد پر مبنی ہیں۔
ملاقات کے اختتام پر دونوں فریقین نے اتفاق کیا کہ وہ مکالمے کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور ایسے عملی اقدامات کریں گے جو بین المذاہب ہم آہنگی، پائیدار ترقی اور امن و رواداری پر مبنی معاشروں کی تشکیل میں معاون ثابت ہوں۔ اس اشتراک میں نوجوانوں کو امن سازی کے عمل میں شامل کرنا اور مصنوعی ذہانت کے اخلاقی استعمال کے بارے میں شعور اجاگر کرنا بھی شامل ہے۔
دونوں فریقین نے اس یقین کا اظہار کیا کہ مشترکہ انسانی اقدار مشرق و مغرب کے درمیان تعلقات میں پل کا کردار ادا کر سکتی ہیں اور بھائی چارے، باہمی احترام اور انسانیت کی بنیاد پر عالمی ہم آہنگی کو فروغ دے سکتی ہیں۔
قابلِ ذکر ہے کہ مسلم کونسل آف ایلڈرز ایک غیرسیاسی، آزاد بین الاقوامی ادارہ ہے جو 2014 میں ابوظبی میں قائم ہوا۔ اس کے سربراہ شیخ جامعہ الازہر پروفیسر ڈاکٹر احمد الطیب ہیں۔ یہ ادارہ دنیا بھر میں امن، مکالمے، رواداری اور انسانی اقدار کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہے اور مختلف عالمی فورمز اور منصوبوں کے ذریعے مسلم و غیرمسلم معاشروں کے درمیان اعتماد و تعاون کو فروغ دے رہا ہے۔

16/10/2025

کراچی سے گلگت نگر کے دو سگے بھائی لاپتہ, عوام کا فوری کارروائی کا مطالبہ

کراچی میں مقیم گلگت نگر کے دو سگے بھائی ساجد علی ولد صادق اور عسکری ولد صادق بروز منگل 14 اکتوبر سے لاپتہ ہیں۔ اہلِ خانہ کے مطابق دونوں نہایت شریف، محنتی اور ذمہ دار نوجوان ہیں — ایک بس کے ٹکٹوں کا کام کرتا تھا جبکہ دوسرا آن لائن روزگار سے وابستہ تھا۔

کراچی میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے اغوا اور لاپتہ ہونے کے بڑھتے واقعات نے عوام میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔

اہلِ علاقہ اور سول سوسائٹی نے حکومتِ سندھ، حکومتِ گلگت بلتستان، آئی جی سندھ اور دیگر متعلقہ اداروں سے فوری نوٹس لے کر دونوں نوجوانوں کی بازیابی کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔



NAGAR NOW

Address

Islamabad

Website

https://www.instagram.com/pakistannow.official/?hl=en, https://www.youtube.com/watch?v

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Pakistan Now posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Pakistan Now:

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share