21/07/2025
غیرت کے نام پر قتل: سچائی کس کی، خون کیوں بہا؟
تحریر: میر داد
دنیا کی تاریخ میں وہ لمحے بہت کم ہیں جب کسی انسان کا قتل بغیر جذبات، تعصب یا ذاتی مفادات کے ہوا ہو۔
قتل کبھی بھی صرف ایک جان کا خاتمہ نہیں ہوتا، یہ کسی ماں کی گود اجاڑ دیتا ہے، کسی بچے کا سایہ چھین لیتا ہے، اور کسی خاندان پر ایسا گھاؤ چھوڑ جاتا ہے جو صدیوں تک رستا رہتا ہے۔
ڈیگاری کے حالیہ واقعے نے ایک بار پھر ہمارے معاشرے کو آئینہ دکھایا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں۔
اس واقعے کے دو بیانیے سامنے آئے ہیں۔ ایک بیانیہ کہتا ہے کہ مقتول شخص احسان اللہ، ایک شادی شدہ شخص تھا جس نے اپنے ہمسائے کی شادی شدہ خاتون کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جایا۔ وہ خاتون، جس کا نام بعض اطلاعات کے مطابق بانو بتایا جاتا ہے، عمر میں چالیس سال سے زیادہ اور چار بچوں کی ماں تھی۔ کچھ مہینے ساتھ گزارنے کے بعد احسان اللہ نے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ خاتون نے یا تو پشیمانی کی حالت میں یا بے بسی میں اپنے شوہر سے رابطہ کیا، جس نے اسے معاف کر کے واپس گھر لے آیا۔ خاندان نے معاملہ دبانے اور صلح صفائی کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی، لیکن احسان اللہ اس پر باز نہ آیا۔ وہ خاتون کو مسلسل ہراساں کرتا رہا، بلیک میلنگ اور دھمکیوں کے الزامات بھی سننے میں آئے۔ آخرکار ایک دن اچانک اس کا خاتون کے اہل خانہ سے سامنا ہو گیا، اور بات ایک جان لیوا تصادم پر ختم ہوئی۔
دوسرا بیانیہ بالکل مختلف رخ پر ہے۔ اس کے مطابق احسان اللہ اور شیتل نامی لڑکی نے باہمی رضامندی سے پسند کی شادی کی تھی۔ شادی کو ڈیڑھ سال گزر چکے تھے اور دونوں خوش تھے، لیکن جب خاندان والوں کو اس رشتے کی اطلاع ملی تو انہوں نے ایک دعوت کے بہانے انہیں بلوایا اور پھر دونوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس بیانیے میں دونوں کو مظلوم اور خاندان کو مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
دونوں بیانیے اپنی اپنی جگہ سنے جا رہے ہیں، ہر فریق اپنی بات کو سچ سمجھ کر بیان کر رہا ہے۔ مگر ان میں جو چیز مشترک ہے، وہ ہے قتل — ایک انسانی جان کا خاتمہ، خواہ ایک ہو یا دو۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی اجازت نہ شریعت دیتی ہے، نہ قانون، نہ ہی کوئی بااخلاق معاشرہ۔
اسلامی تعلیمات میں قتل ناحق کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ شریعت اور قانون، دونوں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے قائل ہیں۔ اگر خاتون نے گناہ کیا تھا، تو اس کا فیصلہ عدالت کرے، نہ کہ خاندانی انا یا قبیلے کی روایت۔ اگر لڑکی نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تھا، تو بھی اس کی جان لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔ ہر فرد کے عمل کا حساب خدا نے اپنے ذمے رکھا ہے، اور ہر جرم کی سزا کا نظام قانون کے تحت چلنا چاہیے۔
ہم نے جذبات میں بہہ کر فیصلے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ نہ دلیل سنتے ہیں، نہ تحقیق کرتے ہیں، نہ کسی عالم یا قانون دان سے رجوع کرتے ہیں۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر کے ہم خود کو جج، جیوری اور جلاد بنا لیتے ہیں۔ غیرت، جو دراصل ذمہ داری، حفاظت اور عزت کے ساتھ جڑی ہوئی ایک اعلیٰ صفت ہے، اسے ہم نے انتقام، غصے اور خون ریزی کا جواز بنا لیا ہے۔
افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ ایسے واقعات پر دو گروہوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک گروہ قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، دوسرا مقتول کو فرشتہ۔ مگر اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جذباتی تعصبات سے اوپر اٹھ کر سچائی کو تلاش کریں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اگر ہم خود انصاف کا اختیار سنبھالیں گے تو پھر عدالتیں کس کام کی رہیں گی؟ اگر ہر شخص خود فیصلہ کرے گا کہ کون زندہ رہنے کے قابل ہے اور کون نہیں، تو معاشرے میں قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔
یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر قتل کی مذمت کریں — چاہے وہ غیرت کے نام پر ہو، محبت کے نام پر، یا کسی ذاتی دشمنی کے سبب۔ خون بہانے سے نہ عزت بچتی ہے، نہ انصاف قائم ہوتا ہے۔ بلکہ ایک نئی دشمنی، ایک نیا زخم اور ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔
سچ کیا ہے؟ یہ شاید ابھی پوری طرح کسی کو نہ معلوم ہو، اور ممکن ہے کبھی بھی نہ ہو۔ مگر ایک بات طے ہے: قتل ظلم ہے، اور ظلم کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم سچ کی تلاش جاری رکھیں، جذبات کی بجائے عدل کی روشنی میں فیصلے کریں، اور سب سے بڑھ کر — ہم انسانی جان کی حرمت کو پہچانیں، چاہے وہ کسی کی بھی ہو۔