
09/07/2025
شہرت کا فریب اور خاندانی نظام سے دوری
تحریر: میر داد
کل تک جو اسکرین پر جگمگا رہی تھی، فیشن شوز اور ڈراموں کی جان کہلاتی تھی، وہی اداکارہ لاہور کے ایک فلیٹ میں اکیلی، مردہ، اور اکیس دن تک بےخبر پڑی رہی۔ جس بدن کی تصاویر سوشل میڈیا پر ہزاروں لائیکس سمیٹتی تھیں، وہی بدن آخرکار بدبو بن کر پولیس کو بلانے کا ذریعہ بنا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک پوری طرزِ زندگی پر سوال ہے۔ ایک طرزِ زندگی جس نے ماں باپ کی باتوں کو قید، رشتوں کو زنجیر، اور دین کو پرانا نظریہ سمجھ کر ترک کر دیا۔
ہمارا معاشرہ ایک عجیب دور سے گزر رہا ہے۔ یہاں آزادی کا مطلب ہے کہ کوئی روک ٹوک نہ ہو، اور شہرت کا مطلب ہے کہ لوگ جانیں، چاہے قریب کوئی اپنا ہو یا نہ ہو۔ نئی نسل اپنے بزرگوں کو دقیانوسی کہہ کر ان سے دور ہو رہی ہے، اور اپنے اندر ایک خالی پن کو چمکتی ہوئی آزادی سے بھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن جو زندگی تصویر میں مسکراتی ہے، وہی حقیقت میں تنہا ہوتی جا رہی ہے۔ جب شہرت کا چراغ بجھتا ہے، اور کیمرے رخ موڑ لیتے ہیں، تو انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اصل قدر تو اس ہاتھ کی تھی جو دعا میں اٹھتا تھا، اس قدم کی تھی جو ماں کے در پر جا کر رک جاتا تھا۔
شہرت ایک چمکدار جھوٹ ہے جو سچ کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ دنیا تب تک یاد رکھتی ہے جب تک کوئ "قابلِ استعمال" ہو۔ جیسے ہی چہرے پر عمر کی لکیر آتی ہے، یا آواز میں تھکن در آتی ہے، یہ نظریں پھیر لیتی ہے۔ اور اگر اس سفر میں ماں باپ، بہن بھائی، دین اور رشتے قربان کر دیے گئے ہوں، تو واپسی کا کوئی دروازہ باقی نہیں رہتا۔ وہی لوگ جنہیں پرانا خیال کہہ کر چھوڑ دیا گیا تھا، وہی مرنے پر کندھا دیتے ہیں۔ اور جب وہ نہ ہوں، تو لاش کو اٹھانے کوئی وقت پر نہیں آتا۔
یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ تنہائی صرف جسم کی نہیں، روح کی بھی ہوتی ہے۔ جب اندر خالی ہو جائے، تو باہر کے لاکھوں فالوورز بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ اور جب اپنا کوئی دروازہ نہ کھٹکھٹائے، تو انسان مرنے کے بعد بھی اکیلا رہتا ہے۔ دکھ کی بات یہ نہیں کہ وہ اکیلی تھی، دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ اتنے دنوں تک کسی کو یاد بھی نہ آئی۔
ہماری نئی نسل نعرے لگا رہی ہے کہ "میں اکیلا کافی ہوں"۔ لیکن وقت ثابت کرتا ہے کہ انسان اکیلا کبھی کافی نہیں ہوتا۔ اُسے دعا کی ضرورت ہوتی ہے، سہارا دینے والے رشتوں کی، اور اس رب کی جو کبھی منہ نہیں موڑتا۔ آزادی اچھی چیز ہے، مگر اس کی قیمت رشتے اور دین ہو تو یہ سودا گھاٹے کا ہے۔
زندگی کا حسن تعلق میں ہے، خاندانی نظام میں ہے، اور اس اطمینان میں ہے جو اپنوں کی موجودگی سے ملتا ہے۔ کامیابی وہ ہے جو دل کے سکون کے ساتھ ہو، نہ کہ وہ جو شوروغل کے بعد تنہائی دے جائے۔
یہاں پر ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے۔ کیا ایسی زندگی آزمائش ہے؟ یا عذاب؟
کیا یہ تنہائی، یہ بےقدری، یہ بےسکونی... کسی فطری سفر کا حصہ ہے، یا یہ ان فیصلوں کی سزا ہے جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے چمک دمک کے بدلے خریدے؟
اگر کوئی گمراہی میں تھا، اور اللہ نے اسے تنہائی کے ذریعے جھنجھوڑا ۔ تو شاید یہ اس کے لیے آزمائش تھی۔ لیکن اگر کوئی بغاوت پر بضد رہا، اور اس نے ہر رشتہ، ہر نصیحت، ہر دروازہ بند کر دیا ۔ تو پھر وہ تنہائی عذاب سے کم نہیں۔
فیصلہ ہر فرد کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ زندگی کے فیصلے، نیتیں، ترجیحات ۔ سب اس بات کو طے کرتے ہیں کہ وہ چمکتی دنیا جو آج مسکرا رہی ہے، کل ہمیں جھنجھوڑے گی یا ہمیں بچا لے گی۔
یہ دنیا فانی ہے، مگر انجام کا درد ہمیشہ کے لیے ہو سکتا ہے۔
خدا کرے کہ ہماری تنہائی آزمائش بنے، توبہ کا دروازہ کھول دے۔
اس سے پہلے کہ وقت ہمیں اس مقام تک لے جائے جہاں ہماری حالت دوسروں کے لیے درد کا باعث بنے، آئیں سوچیں، پلٹیں، اور اپنے اصل سہاروں کی طرف رجوع کریں۔ نہ یہ زندگی عذاب ہے، نہ آزمائش خود سے ظاہر ہوتی ہے ۔ سب کچھ ہماری نیت، طرزِ عمل اور ترجیحات پر منحصر ہے۔ ہمارا مقصد کسی کی ذات پر فتویٰ دینا نہیں، بلکہ دلوں کو جگانا ہے۔ یہ تحریر ایک تنقید نہیں، ایک پکار ہے۔ کہ ہم سب اپنے اندر جھانکیں، اور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی بےآواز تنہائی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے؟