Qarina قرینہ

  • Home
  • Qarina قرینہ

Qarina  قرینہ آپ کا اپنا پلیٹ فارم۔

غیرت کے نام پر قتل: سچائی کس کی، خون کیوں بہا؟تحریر: میر داددنیا کی تاریخ میں وہ لمحے بہت کم ہیں جب کسی انسان کا قتل بغی...
21/07/2025

غیرت کے نام پر قتل: سچائی کس کی، خون کیوں بہا؟

تحریر: میر داد

دنیا کی تاریخ میں وہ لمحے بہت کم ہیں جب کسی انسان کا قتل بغیر جذبات، تعصب یا ذاتی مفادات کے ہوا ہو۔
قتل کبھی بھی صرف ایک جان کا خاتمہ نہیں ہوتا، یہ کسی ماں کی گود اجاڑ دیتا ہے، کسی بچے کا سایہ چھین لیتا ہے، اور کسی خاندان پر ایسا گھاؤ چھوڑ جاتا ہے جو صدیوں تک رستا رہتا ہے۔

ڈیگاری کے حالیہ واقعے نے ایک بار پھر ہمارے معاشرے کو آئینہ دکھایا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کس سمت جا رہے ہیں۔

اس واقعے کے دو بیانیے سامنے آئے ہیں۔ ایک بیانیہ کہتا ہے کہ مقتول شخص احسان اللہ، ایک شادی شدہ شخص تھا جس نے اپنے ہمسائے کی شادی شدہ خاتون کو بہلا پھسلا کر اپنے ساتھ لے جایا۔ وہ خاتون، جس کا نام بعض اطلاعات کے مطابق بانو بتایا جاتا ہے، عمر میں چالیس سال سے زیادہ اور چار بچوں کی ماں تھی۔ کچھ مہینے ساتھ گزارنے کے بعد احسان اللہ نے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ خاتون نے یا تو پشیمانی کی حالت میں یا بے بسی میں اپنے شوہر سے رابطہ کیا، جس نے اسے معاف کر کے واپس گھر لے آیا۔ خاندان نے معاملہ دبانے اور صلح صفائی کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کی، لیکن احسان اللہ اس پر باز نہ آیا۔ وہ خاتون کو مسلسل ہراساں کرتا رہا، بلیک میلنگ اور دھمکیوں کے الزامات بھی سننے میں آئے۔ آخرکار ایک دن اچانک اس کا خاتون کے اہل خانہ سے سامنا ہو گیا، اور بات ایک جان لیوا تصادم پر ختم ہوئی۔

دوسرا بیانیہ بالکل مختلف رخ پر ہے۔ اس کے مطابق احسان اللہ اور شیتل نامی لڑکی نے باہمی رضامندی سے پسند کی شادی کی تھی۔ شادی کو ڈیڑھ سال گزر چکے تھے اور دونوں خوش تھے، لیکن جب خاندان والوں کو اس رشتے کی اطلاع ملی تو انہوں نے ایک دعوت کے بہانے انہیں بلوایا اور پھر دونوں کو بے دردی سے قتل کر دیا۔ اس بیانیے میں دونوں کو مظلوم اور خاندان کو مجرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

دونوں بیانیے اپنی اپنی جگہ سنے جا رہے ہیں، ہر فریق اپنی بات کو سچ سمجھ کر بیان کر رہا ہے۔ مگر ان میں جو چیز مشترک ہے، وہ ہے قتل — ایک انسانی جان کا خاتمہ، خواہ ایک ہو یا دو۔ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کی اجازت نہ شریعت دیتی ہے، نہ قانون، نہ ہی کوئی بااخلاق معاشرہ۔

اسلامی تعلیمات میں قتل ناحق کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا گیا ہے۔ شریعت اور قانون، دونوں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے قائل ہیں۔ اگر خاتون نے گناہ کیا تھا، تو اس کا فیصلہ عدالت کرے، نہ کہ خاندانی انا یا قبیلے کی روایت۔ اگر لڑکی نے اپنی مرضی سے نکاح کیا تھا، تو بھی اس کی جان لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔ ہر فرد کے عمل کا حساب خدا نے اپنے ذمے رکھا ہے، اور ہر جرم کی سزا کا نظام قانون کے تحت چلنا چاہیے۔

ہم نے جذبات میں بہہ کر فیصلے کرنے شروع کر دیے ہیں۔ نہ دلیل سنتے ہیں، نہ تحقیق کرتے ہیں، نہ کسی عالم یا قانون دان سے رجوع کرتے ہیں۔ ہر سنی سنائی بات پر یقین کر کے ہم خود کو جج، جیوری اور جلاد بنا لیتے ہیں۔ غیرت، جو دراصل ذمہ داری، حفاظت اور عزت کے ساتھ جڑی ہوئی ایک اعلیٰ صفت ہے، اسے ہم نے انتقام، غصے اور خون ریزی کا جواز بنا لیا ہے۔

افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ ایسے واقعات پر دو گروہوں میں بٹ جاتا ہے۔ ایک گروہ قاتل کو ہیرو بنا کر پیش کرتا ہے، دوسرا مقتول کو فرشتہ۔ مگر اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جذباتی تعصبات سے اوپر اٹھ کر سچائی کو تلاش کریں۔ کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ اگر ہم خود انصاف کا اختیار سنبھالیں گے تو پھر عدالتیں کس کام کی رہیں گی؟ اگر ہر شخص خود فیصلہ کرے گا کہ کون زندہ رہنے کے قابل ہے اور کون نہیں، تو معاشرے میں قانون نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہے گی۔

یہ وقت ہے کہ ہم اجتماعی طور پر قتل کی مذمت کریں — چاہے وہ غیرت کے نام پر ہو، محبت کے نام پر، یا کسی ذاتی دشمنی کے سبب۔ خون بہانے سے نہ عزت بچتی ہے، نہ انصاف قائم ہوتا ہے۔ بلکہ ایک نئی دشمنی، ایک نیا زخم اور ایک نیا المیہ جنم لیتا ہے۔

سچ کیا ہے؟ یہ شاید ابھی پوری طرح کسی کو نہ معلوم ہو، اور ممکن ہے کبھی بھی نہ ہو۔ مگر ایک بات طے ہے: قتل ظلم ہے، اور ظلم کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ہم سچ کی تلاش جاری رکھیں، جذبات کی بجائے عدل کی روشنی میں فیصلے کریں، اور سب سے بڑھ کر — ہم انسانی جان کی حرمت کو پہچانیں، چاہے وہ کسی کی بھی ہو۔

شہرت کا فریب اور خاندانی نظام سے دوریتحریر: میر دادکل تک جو اسکرین پر جگمگا رہی تھی، فیشن شوز اور ڈراموں کی جان کہلاتی ت...
09/07/2025

شہرت کا فریب اور خاندانی نظام سے دوری
تحریر: میر داد

کل تک جو اسکرین پر جگمگا رہی تھی، فیشن شوز اور ڈراموں کی جان کہلاتی تھی، وہی اداکارہ لاہور کے ایک فلیٹ میں اکیلی، مردہ، اور اکیس دن تک بےخبر پڑی رہی۔ جس بدن کی تصاویر سوشل میڈیا پر ہزاروں لائیکس سمیٹتی تھیں، وہی بدن آخرکار بدبو بن کر پولیس کو بلانے کا ذریعہ بنا۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ ایک پوری طرزِ زندگی پر سوال ہے۔ ایک طرزِ زندگی جس نے ماں باپ کی باتوں کو قید، رشتوں کو زنجیر، اور دین کو پرانا نظریہ سمجھ کر ترک کر دیا۔

ہمارا معاشرہ ایک عجیب دور سے گزر رہا ہے۔ یہاں آزادی کا مطلب ہے کہ کوئی روک ٹوک نہ ہو، اور شہرت کا مطلب ہے کہ لوگ جانیں، چاہے قریب کوئی اپنا ہو یا نہ ہو۔ نئی نسل اپنے بزرگوں کو دقیانوسی کہہ کر ان سے دور ہو رہی ہے، اور اپنے اندر ایک خالی پن کو چمکتی ہوئی آزادی سے بھرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن جو زندگی تصویر میں مسکراتی ہے، وہی حقیقت میں تنہا ہوتی جا رہی ہے۔ جب شہرت کا چراغ بجھتا ہے، اور کیمرے رخ موڑ لیتے ہیں، تو انسان کو پتہ چلتا ہے کہ اصل قدر تو اس ہاتھ کی تھی جو دعا میں اٹھتا تھا، اس قدم کی تھی جو ماں کے در پر جا کر رک جاتا تھا۔

شہرت ایک چمکدار جھوٹ ہے جو سچ کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہ دنیا تب تک یاد رکھتی ہے جب تک کوئ "قابلِ استعمال" ہو۔ جیسے ہی چہرے پر عمر کی لکیر آتی ہے، یا آواز میں تھکن در آتی ہے، یہ نظریں پھیر لیتی ہے۔ اور اگر اس سفر میں ماں باپ، بہن بھائی، دین اور رشتے قربان کر دیے گئے ہوں، تو واپسی کا کوئی دروازہ باقی نہیں رہتا۔ وہی لوگ جنہیں پرانا خیال کہہ کر چھوڑ دیا گیا تھا، وہی مرنے پر کندھا دیتے ہیں۔ اور جب وہ نہ ہوں، تو لاش کو اٹھانے کوئی وقت پر نہیں آتا۔

یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ تنہائی صرف جسم کی نہیں، روح کی بھی ہوتی ہے۔ جب اندر خالی ہو جائے، تو باہر کے لاکھوں فالوورز بھی کچھ نہیں کر سکتے۔ اور جب اپنا کوئی دروازہ نہ کھٹکھٹائے، تو انسان مرنے کے بعد بھی اکیلا رہتا ہے۔ دکھ کی بات یہ نہیں کہ وہ اکیلی تھی، دکھ کی بات یہ ہے کہ وہ اتنے دنوں تک کسی کو یاد بھی نہ آئی۔

ہماری نئی نسل نعرے لگا رہی ہے کہ "میں اکیلا کافی ہوں"۔ لیکن وقت ثابت کرتا ہے کہ انسان اکیلا کبھی کافی نہیں ہوتا۔ اُسے دعا کی ضرورت ہوتی ہے، سہارا دینے والے رشتوں کی، اور اس رب کی جو کبھی منہ نہیں موڑتا۔ آزادی اچھی چیز ہے، مگر اس کی قیمت رشتے اور دین ہو تو یہ سودا گھاٹے کا ہے۔

زندگی کا حسن تعلق میں ہے، خاندانی نظام میں ہے، اور اس اطمینان میں ہے جو اپنوں کی موجودگی سے ملتا ہے۔ کامیابی وہ ہے جو دل کے سکون کے ساتھ ہو، نہ کہ وہ جو شوروغل کے بعد تنہائی دے جائے۔

یہاں پر ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے۔ کیا ایسی زندگی آزمائش ہے؟ یا عذاب؟
کیا یہ تنہائی، یہ بےقدری، یہ بےسکونی... کسی فطری سفر کا حصہ ہے، یا یہ ان فیصلوں کی سزا ہے جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے چمک دمک کے بدلے خریدے؟

اگر کوئی گمراہی میں تھا، اور اللہ نے اسے تنہائی کے ذریعے جھنجھوڑا ۔ تو شاید یہ اس کے لیے آزمائش تھی۔ لیکن اگر کوئی بغاوت پر بضد رہا، اور اس نے ہر رشتہ، ہر نصیحت، ہر دروازہ بند کر دیا ۔ تو پھر وہ تنہائی عذاب سے کم نہیں۔

فیصلہ ہر فرد کے اندر چھپا ہوتا ہے۔ زندگی کے فیصلے، نیتیں، ترجیحات ۔ سب اس بات کو طے کرتے ہیں کہ وہ چمکتی دنیا جو آج مسکرا رہی ہے، کل ہمیں جھنجھوڑے گی یا ہمیں بچا لے گی۔

یہ دنیا فانی ہے، مگر انجام کا درد ہمیشہ کے لیے ہو سکتا ہے۔
خدا کرے کہ ہماری تنہائی آزمائش بنے، توبہ کا دروازہ کھول دے۔
اس سے پہلے کہ وقت ہمیں اس مقام تک لے جائے جہاں ہماری حالت دوسروں کے لیے درد کا باعث بنے، آئیں سوچیں، پلٹیں، اور اپنے اصل سہاروں کی طرف رجوع کریں۔ نہ یہ زندگی عذاب ہے، نہ آزمائش خود سے ظاہر ہوتی ہے ۔ سب کچھ ہماری نیت، طرزِ عمل اور ترجیحات پر منحصر ہے۔ ہمارا مقصد کسی کی ذات پر فتویٰ دینا نہیں، بلکہ دلوں کو جگانا ہے۔ یہ تحریر ایک تنقید نہیں، ایک پکار ہے۔ کہ ہم سب اپنے اندر جھانکیں، اور دیکھیں کہ کہیں ہم بھی بےآواز تنہائی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے؟

خاموشی کے پھول(ڈائری کے اوراق سے)1/7/15آہ…جب تم بیمار تھے، مجھے بالکل بھی علم نہیں تھا…شاید اس لیے کہ میں خود بھی ایسی ح...
07/07/2025

خاموشی کے پھول

(ڈائری کے اوراق سے)

1/7/15

آہ…
جب تم بیمار تھے، مجھے بالکل بھی علم نہیں تھا…
شاید اس لیے کہ میں خود بھی ایسی حالت میں تھا، جسے بیان کرنا ممکن نہیں۔

جس دن تم دنیا سے گئے، میں نہ کھل کر رو سکا، نہ کسی سے کچھ کہہ پایا۔
میری دنیا جیسے ایک مکمل خاموشی میں ڈوب گئی۔

معاف کرنا…
میں نہیں آ سکا، تمھیں آخری بار دیکھ نہیں سکا۔

میں نے گلاب کے پھول تمھاری قبر پر رکھ دئیے ہیں …
اور بوجھل قدموں سے لوٹ رہا ہوں۔

---

2/7/15

آج دیر ہو گئی۔
کیا کروں… شاید مقدر ہی ایسا ہے۔

رات تم خواب میں آئے۔
بہت سی باتیں ہوئیں…
مگر تم نے یہ نہیں بتایا کہ تمھاری دنیا کیسی ہے۔

اب میری زندگی اس شجر جیسی ہے، جس کی شاخیں تو باقی ہیں،
مگر نہ ان پر پتے ہیں،
نہ کوئی پرندہ بیٹھتا ہے،
نہ سایہ بنتا ہے۔

طبیعت بھی اب اکثر بگڑنے لگی ہے۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ زیادہ نہ سوچو نہ دباو لو۔۔۔

دیکھو۔۔۔۔۔ آج میں گلِ لالہ لایا ہوں
ان کی سرخی کسی یاد کے زخم جیسی ہے۔
محسوس کر رہے ہو؟

---

3/7/15

آج جب یہاں بیٹھا تو
سورج جیسے دل پر بھی جھک آیا ہو…
نہ سایہ تھا، نہ تم…
بس ایک خاموشی — جو اندر تک اترتی گئی۔

لوگ کہتے ہیں وقت زخم بھر دیتا ہے،
مگر کچھ زخم صرف پرانے ہوتے ہیں،
ٹھیک کبھی نہیں ہوتے۔

یاد ہے…
بچپن میں تم خاموش بیٹھ جایا کرتے تھے،
اور میں سمجھ جاتا تھا کہ کچھ ٹوٹا ہے اندر۔

اب وہی خاموشی میرے چاروں طرف ہے۔

آج میں چنبیلی کے پھول لایا ہوں —
ان کی خوشبو نرم ہے، خاموش ہے…
بالکل تمھاری طرح۔

---

4/7/15

سارے کام چھوڑ کر تمھارے پاس آ گیا ہوں۔
پہلے جب لوگ تمھارے اردگرد ہوتے تھے،
تو دل مطمئن رہتا تھا۔
اب تم اکیلے ہو، اور شاید میرا انتظار بھی کرتے ہو۔

یاد ہے؟
وہ دو لڑکے…
تم نے انھیں لڑنے سے روکا، پھر گھر لاکر خوب ڈانٹا،
اور پھر خود رو دیے۔

تمھیں کیا پتا…
وہ تمھاری اسی ڈانٹ کے بعد گہرے دوست بن گئے۔

آج وہ دونوں اپنی زندگیوں میں ہیں،
اور میں… تمھاری قبر کے پاس بیٹھا تمھاری خاموشی کو سنتا ہوں۔

یہ لو، موتیا کے پھول —
جن کی مہک جیسے سانسوں کو چیر کر
روح تک پہنچتی ہے۔

---

5/7/15

آج دیر تک تمھارے پاس بیٹھوں گا۔
بس تم بولو… اور میں سنوں۔

تم نے بہت تکلیفیں کاٹی تھیں۔
اگر سچ ہے تو بتاؤ…
اب تو سکون ہے…؟

اگر میرے اختیار میں ہوتا
تو تمھاری ہر اذیت اپنے حصے میں لے لیتا۔

کاش میں وقت کے پہیے کو روک سکتا۔
کاش آخری لمحے تمھارا ہاتھ تھام سکتا…

دیکھو، آج میں کاسنی کے پھول لایا ہوں۔
ان کی خوشبو مدھم ہے…
جیسے وہ دعا ہو — یا شاید آنسو۔

---

6/7/15

خاموشی کبھی کبھی شور بن جاتی ہے۔
آج وہی شور میرے اندر چیخ رہا ہے۔

میرے ہاتھ خالی ہیں،
مگر دل تمھاری یادوں سے بھرا ہے۔

تمھارے بغیر ہر دن… ایک سا ہے،
اور ہر رات ایک طویل اندھیرا۔

بے وقت جانے والے صرف دفن نہیں ہوتے،
وہ اپنوں کی سانسوں کے بیچ
ایک دائمی خالی پن چھوڑ جاتے ہیں —
ایسا خلا، جسے نہ وقت بھر پاتا ہے،
نہ آنسو مٹا سکتے ہیں۔

وقت چلتا رہا، ہم روتے رہے…
مگر جانے والا وقت میں دفن ہوا
یا ہماری روح میں
یہ آج تک سمجھ نہ آیا۔

میر داد

چہرہ جو دعا بن گیا۔عصر کی اذان کے سُروں میں کئی مسجدوں کی صدائیں گھل مل گئی تھیں، جیسے شہر کا ہر گوشہ رب کی طرف بلاتا ہو...
21/06/2025

چہرہ جو دعا بن گیا۔

عصر کی اذان کے سُروں میں کئی مسجدوں کی صدائیں گھل مل گئی تھیں، جیسے شہر کا ہر گوشہ رب کی طرف بلاتا ہو۔ وہ بھی، جو دن بھر کی تھکن اپنی روح میں سمیٹے، آبلہ پا قدموں سے کسی منزل کی تلاش میں سرگرداں تھا، ایک مسجد کے سامنے رُک گیا۔
اندر داخل ہوا، وضو خانے کی طرف بڑھا۔ کولر سے پانی پیا، جیسے صحرا کے مسافر کو کہیں چھاؤں اور چشمہ مل جائے۔ چند لمحوں کو سستانے کے بعد وہ پھر اٹھا۔ اس کے ہاتھ تو پانی سے تر ہو رہے تھے، مگر دل کی پیاس ابھی باقی تھی۔
وہ وضو کر رہا تھا، مگر اس کے خیالات کسی اور جہاں میں تھے—جہاں یادیں راکھ بنی ہوئیں تھیں اور دعائیں ہوا میں معلق۔ وضو مکمل کیا، جیسے رسم پوری کی ہو، اور مسجد میں داخل ہوا۔

دل چاہا رب کے قریب بیٹھے، صفِ اول میں۔ جیسے کوئی زخمی پرندہ اپنے زخم دکھانے آسمان کی طرف اڑان بھرنا چاہے۔ مگر وہاں صرف مؤذن کی جگہ خالی تھی۔ ایک لمحے کو وہ پیچھے ہٹا، جیسے مایوسی نے انگلی تھامی ہو، پھر فوراً ٹھٹھکا—جیسے دل نے سرگوشی کی ہو: "صف سیدھی ہوگی، شاید ایک جگہ بن جائے!"
وہ دنیا سے کٹ کر وہاں بیٹھ گیا۔ جماعت ختم ہوئی، امام صاحب نے دعا مانگی، لفظ لفظ دعا کا آسمان چیرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ نمازیوں نے چہرے پر ہاتھ پھیرا، دعا ختم ہوئی۔

مگر وہ اب بھی بیٹھا تھا۔ اس کے ہاتھ، جیسے پتے ہوا میں لرزتے ہوں، رب کے حضور پھیلے ہوئے تھے۔ انگلیاں کچھ گن رہی تھیں، دل کچھ بول رہا تھا۔ تعداد مکمل ہوئی تو اس نے دوبارہ ہاتھ پھیلائے۔ اب کی بار، ہاتھ ہی نہیں، آنکھیں بھی سوالی تھیں، چہرہ بھی گواہی دے رہا تھا کہ کوئی سائل آیا ہے۔
وہ ادھر اُدھر دیکھتا رہا، جیسے کوئی فقیر اپنے فاقے چھپانا چاہے۔ جب یقین ہو گیا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا، تو آنکھیں چھلک پڑیں، زبان لرزنے لگی، اور چہرہ گویا فریاد بن گیا۔

لب ہل رہے تھے، جیسے ایک ہی جملہ اس کی سانسوں میں تحلیل ہو چکا ہو۔ آنکھیں بہہ رہی تھیں، جیسے دل کی آگ آنسوؤں میں ڈھل کر باہر آ رہی ہو۔ چہرہ فریاد نہیں، ایک مکمل دعا تھا—ایسی دعا جو الفاظ سے نہیں، ٹوٹے ہوئے دل کی دھڑکنوں سے نکلتی ہے۔
وہ جملہ بار بار دہرا رہا تھا… اور شاید فرشتے بھی جھک کر سن رہے تھے۔
میں نے اس کے چہرے کا کرب دیکھا، آنکھوں کی نمی کو محسوس کیا—لیکن دل کا درد؟
نہیں… وہ فقط اُس نے دیکھا، جو دلوں کے راز جانتا ہے۔
رب، جو خاموشیوں کے بین سن لیتا ہے۔
اور جس کے سامنے ایک تھکا ماندہ انسان، آج محض ایک سجدہ نہیں… اپنا سارا وجود رکھ آیا تھا۔

میرداد

طوفان، سیلاب، آگ۔ یہ کبھی دلکش مناظر نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ سانحات ہیں جو زمین کو رُلا دیتے ہیں، آسمان کو خاموش کر دیتے ہیں...
16/06/2025

طوفان، سیلاب، آگ۔ یہ کبھی دلکش مناظر نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ سانحات ہیں جو زمین کو رُلا دیتے ہیں، آسمان کو خاموش کر دیتے ہیں۔ مگر آج جب .... کی بلند و بالا عمارات کو آگ کے شعلوں میں لپٹا دیکھا تو دل نے پہلی بار سکون کی وہ سانس لی، جو صرف انصاف کے لمحے میں نصیب ہوتی ہے۔ اور دل کی گہرائیوں سے رب کریم کی ذات پر ایمان پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گیا۔

بے شک اُس کے فیصلوں میں نہ دیر ہے نہ اندھیر بس عدل ہے، وقت پر اترتا ہوا عدل۔

جنہوں نے برسوں تک نہتے انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، آج وہی خود اپنے انجام کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ جو دوسروں کے معصوم بچوں پر گولہ باری کرتے تھے، آج اپنے بچوں سمیت بھسم ہوتے مکانوں سے نکل کر ننگے پاؤں، ننگے جسم، جان کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ جو کل تک انسانیت کے خون کو حق سمجھتے تھے، آج خود رحم کے طلبگار ہیں۔

مکافاتِ عمل نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا جہاں اب کوئی آواز، کوئی دلیل، کوئی ہتھیار اُن کے کام نہیں آتا۔
سوائے اللہ کے فیصلے کے۔
میر داد

صدیق اکبرؓ: ایمان و وفا کی معراجچاشت کا وقت تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ ع...
26/12/2024

صدیق اکبرؓ: ایمان و وفا کی معراج

چاشت کا وقت تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہن مبارک ذکر و تسبیح سے معطر ہو رہا تھا کہ خدا کے دشمن ابو جہل کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر پڑی جو اپنے گھر سے نکل کر بیت اللہ کے ارد گرد بے مقصد پھر رہا تھا ، وہ بڑے فخر و تکبر کے انداز میں حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آیا اور ازراہ مزاح کہنے لگا:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی نئی بات پیش آئی ہے ؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، آج کی رات مجھے معراج کرائی گئی۔ ابو جہل ، ہنسا اور تمسخر کے انداز میں کہنے لگا: کس طرف؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کی جانب ابو جہل نے تھوڑی دیر کے لیے ہنسنے سے توقف اختیار کیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو کر آہستہ آواز میں متعجبانہ لہجہ میں کہنے لگا: رات آپ کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی اور صبح کو آپ ہمارے سامنے پہنچ بھی گئے؟ پھر مسکرایا اور پوچھنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر میں سب لوگوں کو جمع کروں تو کیا آپ وہ بات جو آپ نے مجھے بتائی ہے ان سب کو بھی بتا دیں گے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں ان کو بھی بیان کر دوں گا۔ چنانچہ ابو جہل خوشی خوشی لوگوں کو جمع کرنے لگا اور ان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی بات بتانے لگا، لوگوں کا ایک ازدحام ہو گیا ، لوگ اظہار تعجب کرنے لگے اور اس خبر کو ناقابل یقین سمجھنے لگے ، اسی دوران چند آدمی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کو بھی اس امید پر ان کے رفیق اور دوست کی خبر سنائی کہ ان کے درمیان جدائی اور علیحدگی ہو جائے کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ یہ خبر سنتے ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کر دیں گے لیکن جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ بات سنی تو فرمایا: اگر یہ بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے تو یقینا درست فرمائی ہے۔ پھر فرمایا: تمہارا ستیا ناس ہو! میں تو ان کی اس سے بھی بعید از عقل بات میں تصدیق کروں گا ، جب میں صبح و شام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر آنے والی وحی کی تصدیق کرتا ہوں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات کی تصدیق و تائید نہیں کروں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس کی سیر کرائی گئی۔
پھر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو چھوڑا اور جلدی سے اس جگہ پر پہنچے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو بیت المقدس کا واقعہ بیان کر رہے تھے، جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات ارشاد فرماتے تو صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ۔ پس اس روز سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام ” الصدیق“ رکھ دیا .

حضرت ابو بکرؓ کے سو قصے۔ ص۔ 18-17
مولف۔ شیخ محمد منشاوی

01/04/2024

امریکی ریپبلکن کانگریس کے رکن ٹم والبرگ نے غزہ پر ایٹمی حملہ کرنے کی تجویز پیش کرتے ہوئے نفرت انگیز بیان دے دیا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ایک ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ امریکی رکن کانگریس ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے غزہ کو مزید انسانی امداد فراہم کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔

https://www.dawnnews.tv/news/1229916/

15/03/2024
13/03/2024
24/02/2024
"رائے کو طاقت سے نہ دبائیے! کسی سے بھی اختلاف ہو توزور زبردستی کرنے کے بجائےدلیل سے بات کیجیے کیونکہ زور زبردستی سے حاصل...
01/01/2024

"رائے کو طاقت سے نہ دبائیے! کسی سے بھی اختلاف ہو توزور زبردستی کرنے کے بجائےدلیل سے بات کیجیے کیونکہ زور زبردستی سے حاصل کی گئی فتح غیر حقیقی اورفریبی ہوتی ہے۔"
"کسی بھی چیز کے بارے میں مکمل طور پر یقینی رویہ مت اپنائیے۔"
"سارا مسئلہ ہی یہی ہے کہ احمق اور بے وقوف اپنی انتہا پسندی اور شدت پسندی پر مکمل طور پر یقین رکھتے ہیں۔"
"خوف پر قابو پانا علم کے آغاز کی علامت ہے۔"
اگر پچاس لاکھ لوگ ایک جھوٹ کو سچ کہیں تب بھی وہ جھوٹ ہی رہے گا۔"
"اپنی رائے کے منفرد اور خارج المرکز ہونے سے نہ ڈرئیے کیونکہ آج قبول کردہ
ہر اک رائے کبھی منفرد اور خارج ازامکان ہوا کرتی تھی۔"
"اگر تعلیم ہمیں سیکھنے کی آزادی مہیا نہیں کرتی کہ کیا سیکھنا ہے اور کیا نہیں، ساتھ ہی ہمارے اظہار رائے پر قدغن لگاتی ہے تو ایسی تعلیم ہمارے کسی کام کی نہیں۔
"لطف حاصل کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اچھی کتابیں پڑھیں، فلسفہ پڑھیں، شاعری پڑھیں اور موسیقی سنیں."
برٹرینڈ رسل

تاریخ اور ثقافت کا قتل عامانیس سو چون کے دی ہیگ کنونشن کے مطابق دوران جنگ ثقافتی ورثے کی جان بوجھ کر تباہی جنگی جرائم کے...
31/12/2023

تاریخ اور ثقافت کا قتل عام

انیس سو چون کے دی ہیگ کنونشن کے مطابق دوران جنگ ثقافتی ورثے کی جان بوجھ کر تباہی جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے۔ جرائم کی بین الاقوامی عدالت کے مطابق دوران جنگ ثقافتی ورثے کی تباہی پر فرد جرم کی سماعت اس کے دائرہ اختیار میں شامل ہے۔

ہیںگ کنونشن برائے تحفظ ثقافت وجود میں آنے سے آٹھ برس پہلے فلسطین میں اترنے والے صیہونیوں نےانیس سو اڑتالیس میں نئی مملکت کے قیام کے لیے زیادہ سے زیادہ رقبہ اینٹھنے کے لیے ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کو جس طرح پانچ سو کے لگ بھگ دیہاتوں ، قصبوں اور شہروں سے نکال کے ان کے تاریخی محلےمسمار کر کے ان پر جدید عمارات کھڑی کر دیں۔جس طرح ان قدیم آبادیوں کے صدیوں پرانے نام تبدیل کیے گئے اور جس طرح نئے تعلیمی نصاب میں یہ بتایا گیا کہ یہودیوں کی آمد سے پہلے یہ سرزمین خالی تھی اور فلسطینی نام کی کوئی قوم یہاں آباد نہ تھی۔ اس نصاب نےجو نئی نسل پیدا کی وہ انسانی و ثقافتی نسل کشی میں اپنے بزرگوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئی۔
اگر صرف سات اکتوبر کے بعد سے اب تک ہی خود کو محدود رکھیں تو بے شمار تصاویر سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ نہ
صرف انسانوں کا بلکہ ان کی ثقافت و تاریخ کا قتل عام بھی برابر جاری ہے۔
مشرق وسطیٰ میں خود کو واحد جمہوری ملک کہلوانے والے اسرائیل نے غزہ میں پارلیمنٹ کی عمارت کو بارود لگا کے اڑا دیا۔ بلدیہ کے تحت قائم پانچ منزلہ نیشنل آرکائیو مرکز اڑا دیا جس میں عثمانی دور سے اب تک کا ڈیڑھ سو سال پرانا ریکارڈ ، شہر کی تاریخ سے متعلق نادر دستاویزات ، ٹاؤن پلاننگ کے نقشے ، واٹر اور سیوریج نیٹ ورک کے سروے اور شہریوں کی پیدائش و اموات کاریکارڈ موجود تھا۔ غزہ شہر کی مرکزی لائبریری جو بڑوں اور بچوں میں یکساں مقبول تھی اسے بھی گولہ باری سے تباہ کر دیا گیا۔ نا معلوم سپاہی کا مجسمہ جو فلسطینی مزاحمت کا سمبل تھاٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔
راشد شادا کلچرل سینٹر بھی زمیں بوس کر دیا گیا۔ یہاں انیس سو اٹھانوے میں یا سر عرفات اور بل کلنٹن کی تاریخی
ملاقات ہوئی تھی۔ راشد شاوا کلچرل سینٹر انیس سو پچاسی میں تعمیر ہوا تھا۔ اس میں ایک تھیٹر ہال اور بیس ہزار
کتابوں پر مشتمل لائبریری قائم کی گئی تھی۔ گریک آرتھوڈ کس کلچرل سینٹر ، غزہ آرٹ سینٹر ، خان یونس کا القرارا
کلچرل میوزیم اور رفاہ میوزیم سمیت اکیس چھوٹے بڑے ثقافتی مراکز گزشتہ گیارہ ہفتے میں بموں اور گولوں کی
خوراک بن گئے۔ کتابوں کی پانچ مشہور دکانیں ملبے کا ڈھیر ہو گئیں۔
غزہ شہر کا قدیم حصہ جس میں گھر، مساجد ، گرجے، پرانے بازار اور تعلیمی اداروں کی عمارات شامل تھیں ہمیشہ کے لیے برباد ہو گئیں۔ غزہ کی ہزار برس سے بھی پرانی اور سب سے وسیع العمری جامع مسجد سمیت ایک سو چار مساجد
اب صرف تصاویر میں ہی نظر آئیں گی۔
یہی حال ڈیڑھ ہزار برس پرانے سینٹ پروفیرئس چرچ کا ہوا جو چار سو سات عیسوی میں قائم ہوا تھا اور اس کا شمار
تین قدیم ترین گرجوں میں ہوتا ہے۔ البلاغ یہ کی بندرگاہ اور رومن دور کی ای نتھی ڈون بندرگاہ عالمی وراثت کی
یو نیسکو فہرست میں شامل ہیں۔ ان کے آثار کو بھی بمباری سے شدید نقصان پہنچا۔ گزشتہ برس ہی شمالی غزہ میں
رو من دور کا دو ہزار سالہ قدیم قبرستان دریافت ہوا تھا۔ اسرائیل نے اس کے اوپر سے بھی ٹینک اور بلڈوزر گزاردیے۔ تل ام عامر میں واقع سولہ سو برس پرانی سینٹ ہلیریون مسیحی خانقاہ الشجائیہ کے قصبے میں چار سو برس پرانا الصاقا
ہاؤس بھی اب کبھی دیکھنے کو نہ ملے گا۔
عثمانی دور کے تاریخی گھر بیت الغسان اور سمارا کا قدیم حمام بھی ختم کر دیا گیا۔
کیا قدیم اثاثے کو بعد از جنگ بحال کیا جا سکتا ہے ؟ ماہرین کہتے ہیں کہ گزشتہ زمانے کی نادر تعمیراتی ٹک نیکس اب کسی کو نہیں معلوم ۔ ایک بھی کاریگر ایسا نہیں جو صدیوں پرانی یادگاروں کو اسی طرح بحال کر سکے جس طرح وہ بربادی سے پہلے تھیں۔
اسی دوران مغربی کنارے پر تلکرم شہر میں یاسر عرفات کا نصب مجسمہ بلڈوز کر دیا گیا۔ جنین میں فلسطینی صحافی شیریں ابو عاقل کی یاد گار بھی بلڈوز ہو گئی۔ انھیں گزشتہ برس جنین میں ہی رپورٹنگ کے دوران ایک اسرائیلی فوجی نشانچی نے سر میں گولی مار کر شہید کر دیا تھا۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ مارچ دو ہزار ایک میں افغان صوبہ بامیان میں پہاڑ سے تراشے گئے گو تم بودھ کے دو عظیم
الشان مجسموں کو افغان طالبان نے کس طرح ڈائنامائٹ اور گولہ باری سے اڑادیا تھا۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ مالی کے تاریخی شہر ٹمبکٹو پر قبضے کے بعد داعش سے منسلک انصار الدین نامی شدت پسند
گروہ نے دو ہزار گیارہ بارہ میں کیسے احمد بابا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لائبریری میں موجود ساڑھے تین لاکھ نادر قلمی مخطوطات میں سے لگ بھگ پانچ ہزار قلمی مذہبی و تاریخی نسخے نذر آتش کر دیے تھے۔
آپ کو شاید یہ بھی یاد ہو کہ داعش نے دو ہزار چودہ میں شام میں واقع قدیم رومن شہر پالرمو کے رومن کولوس ئیم اور ہزاروں برس پرانے دیو تابال کے دو مندروں کو کیسے برباد کیا۔
شاید آپ کو یاد ہو کہ عراق کے شہر موصل کے میوزیم اور مرکزی لائبریری کو بھی داعش نے برباد کر دیا اور سمیری تہذیب کے مجسموں کو توڑ دیا یا مسخ
کر دیا۔
یاد ہے آپ کو کہ ان تمام وارداتوں کی عالمی پیمانے پر کسی قدر مذمت ہوئی تھی اور کس طرح اس نایاب اثاثے کو
برباد کرنے والوں کو وحشی اور تہذیب سے عاری درندے کہا گیا تھا۔

اسرائیل نے فلسطینی تاریخی ورثے کے ساتھ پچھلے پچھتر برس میں یہی کچھ کیا اور مسلسل کیا۔ تباہی کی اس داستان کو یکجا کیا جائے تو طالبان ، داعش اور انصار الدین نے جس قدر ثقافتی نقصان پہنچایا وہ صیہونیوں کے
ہاتھوں فلسطین کے ماضی اور حال کے قتل عام کے آگے کچھ بھی نہیں۔ مجال ہے کہ تاریخ کو مٹانے اور ثقافتی ورثے کو موت کے گھاٹ اتارنے کے اس عمل کے خلاف کسی بھی مغربی کونے سے حرف مذمت سامنے آیا ہو۔
ایسے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے ڈکشنری میں ایک بہت ہی کمال لفظ داخل کیا گیا ہے۔ کولیٹرل ڈی میج"۔ یعنی دوران جنگ مجموعی تباہی۔ یہ اصطلاح در اصل جدید بربریت پر ڈالنے والا کمبل ہے جسے اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب کوئی نام نہاد مہذب ملک انسانی و ثقافتی نسل کشی کو ایک ناگزیر جنگی نقصان قرار دے کے اس کی شدت کوانتہائی کم دکھا کے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرے۔

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Qarina قرینہ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share