کڑکتی دھوپ میں سہ پہر کا وقت تھا۔ میں گاڑی کا دروازہ کھول کر اتر ہی رھا تھا کہ ایک آواز میرے کان سے ٹکرائی۔
"بھائی جان مجھے پیسے نہ دیں۔ میں پیسے نہیں مانگتا"۔
ایک تیس ، بتیس سال کا آدمی ،پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس ایک خستہ حالت سائیکل سے اتر کر میری گاڑی کے پاس آیا۔ اور ھاتھ جوڑ کر مجھ سے مخاطب ھوا۔
"میرے گھر جا کر میرے بچے دیکھ لیں۔ میری 2 بیٹیاں ہیں صبح سے بھوکی ہیں آپ دیکھ کر ان کے کھانے کا کچھ انتظام کر دیں" اس کی کپکپاتی آواز میں درپردہ ایک باپ کی لاچارگی اور اور بچوں کی اپنے باپ سے امید و سوال بھری نظروں کا سوچ کر میری روح کانپ گئی۔
اس کی آنکھوں میں تیرتے پانی میں سچائی اور بے بسی چھلک رہی تھی۔ " صاحب میں مانگنے والا نہیں ھوں محنت کش ھوں"
اس کی کمزور آواز میں اعصاب کی شکستگی تھی جو نہ چاھتے ہوئے بھی اپنے اصولوں سے ہٹ کر دوسرے سے اپنی ضرورت کہنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ اور یہ اعصاب کی شکستگی اور لڑائی بعض اوقات راہ فرار کی طرف بھی لے جا سکتی ہے جو اخبار کے کنارے کی چھوٹی سی سرخی بن جاتی ہے۔
اس کی میرے جیسے معاشرے کے ایک فرد سے امید غلط نہیں تھی ۔
موجودہ حالات محنت کش اور نوکری پیشہ افراد کو عجیب نہج تک لے آئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ نے لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ آٹا ، چاول ، تیل ، گھی لوگوں کی استطاعت سے باہر ہو گئے ہیں۔ لوگوں کے کمائی کا تقریباً سارا حصہ تو بجلی، پٹرول ، گیس کے بل اتارنے میں لگ جاتا ہے۔ باقی کھانا کیا اور بچانا کیا۔۔
یہ صورتحال آتش فشاں کی طرح بنتی جا رہی ہے۔ اور کسی دن یہ بری طرح پھٹے گا۔
آپ سب سے یہ التماس ہے کہ اگر آپ صاحب ثروت و استطاعت ہیں تو اپنے اردگرد کمزور اور محنت کش افراد کا خیال رکھیں۔ 5، 10 روپے دیتے ہوےیہ ضرور سوچیں کہ اس میں آتا کیا ہے۔ بس ایک ذمہ داری معاشرے کی بھی ہے اسکو بھی ہم پورا کرں۔🙏
خدا آپ کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اس ملک پر اپنا رحم فرمائے!
21/05/2022
اردو کا مشہور افسانہ نگار سعادت حسنمنٹو لکھتا ھے کہ میں شدید گرمی کے مہینے میں ھیرا منڈی چلا گیا.
جس گھر میں گیا تھا وھاں کی نائیکہ 2 عدد ونڈو ائیر کنڈیشنڈ چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رھی تھی.
میں نے کہا کہ میڈم دو A/C چل رھے ھیں آپ کو سردی بھی لگ رھی ھے آپ ایک بند کر دیں تا کہ آپ کا بل بھی کم آئے
گا،
تو وہ مسکرا کر بولی کہ، "اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے".
منٹو کہتے کہ کافی سال گزر گئے اور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کے لیے جانا پڑ گیا. شدید گرمی کا موسم تھا،
صاحب جی شدید گرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ھوئے تھے اور 2 ونڈو ائیر کنڈیشنر فل آب و تاب کے ساتھ چل رھے تھے اور صاحب کو سردی بھی محسوس ھو رھی تھی.
میں نے کہا کہ جناب ایک A/C بند کر دیں تا کہ بل کم آئے گا تو صاحب بہادر بولے،
"اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے".
منٹو کہتا کہ میرا ذھن فوراً اسی محلہ کی نائیکہ کی طرف چلا گیا کہ دونوں کے مکالمے اور سوچ ایک ھی جیسے تھی،
تب میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔
یعنی اس ملک کے تمام ادارے ایسی ہی نائیکہ سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔۔
"قائدِ اعظم محمد علی جناح کی یہ عادت تھی کہ کمرے سے نکلتے وقت بجلی کے سارے بٹن بند کر دیا کرتے تھے۔
اپنے گھر میں ہوں، میرے یہاں ہوں یا کسی میزبان کے گھر میں، ہر جگہ ان کا یہی معمول ہوتا تھا ۔۔۔۔
اور جب میں ان سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟؟؟
تو وہ کہا کرتے تھے کہ ہمیں ایک وولٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیئے۔
میں ان سے آخری بار 31 اگست 1947ء کو گورنر جنرل ہاؤس میں ملا تھا۔
ہم کمرے سے نکلے تو وہ مجھے سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے اور کمرے سے نکلتے وقت انہوں نے حسبِ عادت خود ہی تمام سوئچ آف کئے۔
میں نے ان سے کہا جناب آپ گورنر جنرل ہیں اور یہ سرکاری قیام گاہ ہے۔
اس میں روشنیاں جلتی رہنی چاہئیں۔
قائد نے جواب دیا کہ یہ سرکاری قیام گاہ ہے اس لئے تو میں اور بھی محتاط ہوں۔ یہ میرا اور تمھارا پیسہ نہیں ہے۔ یہ سرکاری خزانے کا پیسہ ہے اور میں اس پیسے کا امین ہوں۔
اپنے گھر میں تو مجھے اس بات کا پورا اختیار تھا کہ اپنے گھر کی بتیاں ساری رات جلائے رکھوں لیکن یہاں میری حیثیت مختلف ہے۔
تم زینے سے اُتر جاؤ تو یہ بٹن بھی بند کر دوں گا"
مرزا ابوالحسن اصفہانی کا مضمون
"بے مثال لیڈر"
Be the first to know and let us send you an email when We Love Pakistan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.