میرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
ذرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب
ترا نام لکھا ہے ریت پر کوئی لہر آ کے مٹا نہ دے
میں اداسیاں نہ سجا سکوں کبھی جسم و جاں کے مزار پر
نہ دئے جلیں مری آنکھ میں مجھے اتنی سخت سزا نہ دے
مرے ساتھ چلنے کے شوق میں بڑی دھوپ سر پہ اٹھائے گا
ترا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے
میں غزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوں کے پھول چنا کروں
مری سلطنت مرا فن رہے مجھے تاج و تخت خدا نہ دے
28/09/2022
میں صاف صاف یہ کہتا ہوں اِستعارے بغیر
مجھے بہشت بھی جانا نہیں تمہارے بغیر
مِرا یہ فیصلہ ہے اور تم یہ جانتے ہو
میں فیصلے نہیں کرتا ہوں اِستخارے بغیر
تو اُس کو چاہئے جا کر دوکانداری کرے
جو شخص چاہتا ہو عشق بھی خَسارے بغیر
سنَد بھی چاہتے ہو اور اِمتحاں سے گُریز
سَحَر کی آرزو رکھتے ہو شب گزارے بغیر
میں اِسلئے بھی دعا پر یقین رکھتا ہوں
کہ تم بھی سُنتے نہیں ہو مِری، پکارے بغیر
وہ ماہ تاب ہے، ملنا تو با وُضو ہو کر
وہ جاں نِکال بھی لیتا ہے جاں سے مارے بغیر
میں چاہتا ہوں کہ دونوں ہی جیت جائیں ہم
میں چاہتا ہوں یہی ہو کسی کے ہارے بغیر
تو کیا یہ کم ہے کرامت، کہ جان لیتا ہوں
رضائے یار کو میں یار کے اِشارے بغیر
پڑا جو دشت سے پالا تو پھر یہ یاد آیا
کہ ایک شخص تھا دریا سا اور کِنارے بغیر
کھڑا ہوں پاوں پہ جو میں تو تیری ستّاری
میں مُشتِ خاک ہوں مولا تِرے سہارے بغیر
کمال یہ ہے مبارک کو بھی ملے اعزاز
کسی بھی اور کی دستار کو اُتارے بغیر
مبارک صدیقی
05/09/2022
اسے کہو کہ بہت جلد ملنے آئے ہمیں
اکیلے رہنے کی عادت ہی پڑ نہ جائے ہمیں
ابھی تو آنکھ میں جلتے ہیں بے شمار چراغ
ہوائے ہجر ذرا کھل کے آزمائے ہمیں!!!
عجیب شہر پر اسرار میں قیام رہا
اڑائے پھرتے رہے وحشتوں کے سائے ہمیں
ہر اک کی بات پہ کہتا نہیں ہے دل لبیک
پسند آتی نہیں ہر کسی کی رائے ہمیں
ہمارے دل تو ملے... عادتیں نہیں ملتیں
اسے پسند نہیں کافی... اور چائے ہمیں!
ہمارا نام توجہ جو کھینچ لیتا ہے
سو لوگ اپنی کہانی میں کھینچ لائے ہمیں
اچھل اچھل کے کئی شر پسند و پست دماغ
تڑپ رہے ہیں کسی طرح منہ لگائے ہمیں
فریحہ نقوی
28/07/2022
میں جو مہکا تو میری شاخ جلا دی اس نے
سبز موسم میں مجھے زرد ہوا دی اس نے
پہلے ایک لمحے کی زنجیر سے باندھا مجھ کو
اور پھر وقت کی رفتار بڑھا دی اس نے
میری ناکام محبت مجھے واپس کر دی
یوں مرے ہاتھ، میری لاش تھما دی اس نے
جانتا تھا کے مجھے موت سکون بخشے گی
وہ ستمگر تھا سو جینے کی دعا دی اس نے
اس کے ہونے سے تھی سانسیں میری دگنی محسن
وہ جو بچھڑا تو میری عمر گھٹا دی اس نے
28/07/2022
کچھ سرابوں پہ وار دی ہم نے
زندگی یوں گزار دی ہم نے
آئنہ دیکھ کر ہمیں رویا
اپنی صورت اتار دی ہم نے
راکھ ہونا الگ کہانی ہے
روشنی بے شمار دی ہم نے
لیس ہو کر وہ لازماً پلٹا
جس کو راہِ فرار دی ہم نے
اک نئی روح پھونک دی رب نے
کبھی ہمت جو ہار دی ہم نے
سالِ فردا سے گفتگو جب کی
بس نویدِ بہار دی ہم نے
تہہ بہ تہہ بس امید ہی رکھی
جب غزل سوگوار دی ہم نے
مانتے ہی نہیں ہمیں ابرک
گو دلیلیں ہزار دی ہم نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتباف ابرک
20/05/2021
کتنا نازک ہے یہ دَور
اشکِ گراں، غم کی بُہتات
دشتِ اَلم کی ویرانی میں
کاٹی ہے بَرکھا کی رات
ہم دیوانے، ہم آوارہ
چل نہ سکو گے اپنے سات
ساغرؔ مَے خانے میں ہو گا
چھوڑ بھی دو پگلے کی بات
ساغرؔ صدیقی
16/03/2021
★بلا کی راز داری اِن دِنوں ہے★
★بڑی وحشت سِی طاری اِن دِنوں ہے★
★ادا ہوتا رہا ہر دم زباں سے★
★وہی اِک شبد بھاری اِن دِنوں ہے★
★یہی دِن تھے کہ اُڑتے جا رہے تھے★
★وہی اِک رات بھاری اِن دِنوں ہے★
★اُمیدِ اُلفت_______رنج و تماشہ★
★تماشے مِیں بھکاری اِن دِنوں ہے★
★کِسی صورت نہیں ممکن تھی ایسی★
★یہ جو لاحق بیماری اِن دِنوں ہے★
★علاجِ دِل یہی ہے کہ ٹوٹ جاۓ★
★ضرورت پِھر تمھاری اِن دِنوں ہے★
01/03/2021
ہم بےخود و سرشار سَدا زندہ رہیں گے
حالات کے میخوار سَدا زندہ رہیں گے
کچھ واقفِ آدابِ محبت نہیں مرتے
کچھ صاحبِ اسرار سَدا زندہ رہیں گے
احساس کے پھولوں کو خزاں چُھو نہیں سکتی
اُلفت کے چمن زار سدا زندہ رہیں گے
ہے اپنا جنوں عظمتِ دوراں کی کہانی
عظمت کے طلبگار سَدا زندہ رہیں گے
نسبت ہے جہاں میں غمِ انسان سے جن کو
وہ دیدۂ بیدار سَدا زندہ رہیں گے
ہے قصرِ حقیقت میں ترے دم سے اُجالا
ساغرؔ ترے افکار سدا زندہ رہیں گے
°°ساغر صدیقی
23/02/2021
ہم بھی کچھ دن ہی اداسی کا بھرم رکھیں گے
اور کچھ کھیل دکھائیں گے!!چلے جائیں گے🔥
مجھ کو معلوم ہے مرنے کی سہولت يارو
لوگ کاندھوں پہ اٹھائیں گے!!چلے جائیں گے🔥
میرے احباب جو کرتے ہیں،،محبت مجھ سے
وہ بھی آنسو ہی بہائیں گے!!چلے جائیں گے🔥
تم بھی لے آنا،،محبت کی اٹھا کر غزلیں
ہم بھی کچھ غم سنائیں گے!!چلے جائیں گے🔥
جس کو بھی ہم تھے میسر؛؛ میسر نہ ہوا
اب کے تلخی یوں دکھائیں گے!!چلے جائیں گے🔥
09/02/2021
بعد مدت کے کتابوں سے نکل آئے ہو
سوکھے خوابیدہ گلابوں سے نکل آئے ہو
یونہی سامان پرانے پہ نظر جا ٹھہری
پھر سے تم بند لفافوں سے نکل آئے ہو
کیا یہ زنجیر، یہ زندان، کڑے پہرے کریں
روشنی بن کے کواڑوں سے نکل آئے ہو
تم جو ہر آن یونہی رہتے ہو ہنستے بستے
کیا محبت کے عتابوں سے نکل آئے ہو
کس قدر سادگی ہے سانس بھی تم لیتے ہو
اور سمجھتے ہو عذابوں سے نکل آئے ہو
اب طلب ہے نہ تجسس نہ ہے وہ عہدِ وفا
تم غلط سوچ، ارادوں سے نکل آئے ہو
وقت گزرا نہیں لوٹے گا سو بیکار ہی تم
بدگمانی کی پناہوں سے نکل آئے ہو
ایک جو چپ سی لگی ہے تمہیں تازہ ابرک
تھک گئے ہو یا سوالوں سے نکل آئے ہو
..................... اتباف ابرک
09/02/2021
قید تصورات میں مدّت گزر گئی
ساقی غم حیات میں مدّت گزر گئی
مجھ کو شکستِ جام کے نغموں سے واسطہ
میخانۂ ثبات میں مدّت گزر گئی
کچھ بھی نہیں ہے گیسوے خمدار کے سوا
تفسیرِ کائنات میں مدّت گزر گئی
پابندِ حرف دارورسن داستانِ عشق
عرضِ گزارشات میں مدت گزر گئی
روٹھے تو اور بن گئے تصویرِ التفات
کیفِ نوازشات میں مدّت گزر گئی
ہر حادثہ حیات کی روداد بن گیا
دنیائےحادثات میں مدّت گزر گئی
ساغرؔ کہاں مجال کہ آنکھیں ملا ئیں ہم
رسوایاں ہیں گھات میں مدّت گزر گئی
ساغرؔ صدیقی
05/02/2021
ﺩﻭ ﻗﺪﻡ چاﻧﺪ میرﮮ ﺳﺎتھ ﺟﻮ چل ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
شہر کا شہر ﺗﻌﺎﻗﺐ میں نکل ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
میں ﺳﺮِ ﺁﺏ ﺟﻼﺗﺎ ﮨﻭﮞ ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﭼﺭﺍﻍ
ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺁﭖ ﮨﯽ ﺗﺎﻻﺏ میں ﺟﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
Be the first to know and let us send you an email when Awara panchi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.