
31/07/2025
“ایک پرچی… اور ختم ہوتی ایک زندگی”
سرگودھا کی ہوا آج کچھ بوجھل سی ہے…
درخت خاموش ہیں، جیسے کسی نوحے میں ڈوبے ہوں…
سپورٹس اسٹیڈیم کے قریب، جہاں کبھی قہقہے گونجتے تھے، آج ایک نوجوان کی خاموش لاش پڑی ہے۔
نام تھا محمد طیب… عمر صرف چوبیس سال… زندگی کے اصل رنگ دیکھنے سے پہلے ہی، وہ اس اسٹیج سے پردہ کر گیا۔
اس کی جیب میں ایک پرچی ملی…
نہ کوئی شاعری تھی، نہ خوابوں کی فہرست…
صرف ادھار کی تفصیل تھی…
اور ایک سطر… جو دل چیر کر رکھ دیتی ہے:
“گھر والوں سے التجا ہے کہ میرا یہ ادھار دے دینا، تاکہ میرے اوپر کچھ عذاب کم ہو سکے…” 😢
یہ الفاظ ایک تھکی ہوئی روح کے تھے، جو اس معاشی بوجھ تلے دب کر چیخ تو نہ سکی، پر الفاظ میں اپنا درد چھوڑ گئی۔
کتنا اکیلا تھا وہ لمحہ، جب طیب نے دنیا کی بےرخی، رشتوں کی خاموشی، اور حالات کی بےرحمی کو مات دے کر اپنے آپ کو ہی سزا دے دی۔
کسے آواز دی ہو گی اُس نے آخری لمحے میں؟
کسے دیکھنے کو دل کیا ہوگا؟
ماں؟
باپ؟
یا وہ قرض خواہ جو روز اس کے دروازے پر تیز آواز سے دستک دیتا تھا؟
یہ محض ایک خودکشی نہیں… یہ ایک سوال ہے،
ہمارے سماج کے نام،
ہماری حکومت کے نام،
اور ہم سب کے ضمیر کے نام:
کیا ہم واقعی اتنے مصروف ہو چکے ہیں کہ ایک نوجوان کی خاموش چیخیں سننے کا وقت بھی نہیں؟
آج طیب چلا گیا… کل شاید کوئی اور ہو…
آؤ اس نظام کو بدلیں
آؤ امید بنیں
آؤ ایک ہاتھ تھامیں، قبل اس کے کہ کوئی اور ہاتھ ہمیشہ کے لیے چھوٹ جائے۔
اللہ محمد طیب کو اپنی رحمت میں جگہ دے
اور ہم سب کو وہ احساس دے، جو ہمیں انسان بناتا ہے۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ
تحریر: سہیل رائٹرز—وقاص علی (30جولائی2025)