11/09/2023
دو انتہاؤں پر دو طرح کے لوگ
پچھلے 20 سالوں سے ہزاروں افراد اور اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ مشاہدہ بہت زیادہ ہوا ہے کہ ہمارے ہاں دو انتہاؤں پر لوگ پائے جاتے ہیں۔
1۔ وہ لوگ جو اللہ پر توکل کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں محنت کرنے اور درست اسباب اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر چیز اللہ کی مرضی سے ہونی ہے تو میرے کرنے نہ کرنے سے کیا ہوگا!
2۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف محنت کرنے سے ہی ہمیں ہماری مرضی اور منشاء کے مطابق نتائج مل جائیں گے اور اللہ تعالٰی کی قدرت کا عمل دخل نہیں ہے۔
مسلمانوں میں پہلے والی بیماری زیادہ ہے جس کو اقبال نے ایسے بیان کیا ہے۔۔۔۔
کیا خبر کیا نام ہے اس کا خود فریبی کہ خدا فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں کر کے تقدیر کا بہانہ
اللہ پر توکل کا جو مطلب ہماری ایک عظیم اکثریت سمجھ بیٹھی ہے، وہ اس حقیقت کے بالکل الٹ ہے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ اپنے حصے کا کام پورا کریں گے نہیں، جو محنت کرنی ہے اور اسباب اختیار کرنے ہیں وہ کریں گے نہیں، اور آدھی پونی محنت کرکے پورے نتیجے کی توقع کریں گے۔
دوسری طرح کے لوگ وہ ہیں جو صرف اسباب سے ہی نتائج نکلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان نہیں رکھتے۔
ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیم کیا ہے؟
1۔ سب سے پہلے نیت اور ارادہ کیا جائے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں اور کیوں کرنا چاہتا ہوں۔
2۔ پوری طرح سے اس کام کی منصوبہ بندی کی جائے۔ آنکھیں بند کرکے صرف اللہ پر ہی نہ چھوڑ دیا جائے۔
3۔ جو مہیا اور درست و جائز اسباب ہیں وہ پوری طرح اختیار کیے جائیں جس میں مشورہ کرنا بھی شامل ہے۔
3۔ اب اس کے لیے جائز ذرائع کے ساتھ پوری محنت اور کوشش کی جائے۔
4۔ اللہ تعالٰی سے کھل کر، بول کر براہ راست ٹارگٹڈ مانگا جائے۔
5۔ اب نتیجے کے لیے اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔
دنیا کے معاملات کو اللہ نے اسباب کے ساتھ جوڑا ہے اور دنیا میں اللہ تعالٰی کی عمومی سنت کیا ہے؟
جو انسان جس درجے کی محنت کرے گا، اسے اسی کے مطابق نتائج ملیں گے۔
گو کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ وہ بغیر اسباب کے بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں، لیکن یہ اللہ کی سنت نہیں ہے۔ یہ تفرد ہے۔ جیسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ نے بغیر والد کے پیدا کرکے دکھایا اور اللہ تعالٰی آج بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن یہ اللہ کی سنت یعنی مستقل طریقہ نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہر کام میں اس کے متعلقہ اسباب کو پوری طرح اختیار کیا۔ یہ نہیں کیا کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہجرت ہو یا غزوات ہوں یا کوئی اور سفر، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی میں ہر جگہ پلاننگ اور منصوبہ بندی نظر آئے گی۔
جتنے تاجر صحابہ تھے سب نے اپنے کاروباروں کے لیے تمام مہیا اسباب اختیار کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ فلاں کو ورکشاپ سے فائدہ ہوا تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کو اس فریم ورک سے فائدہ ہوا جو ہم سکھاتے ہیں۔
اور اس فریم ورک میں محنت اور ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ، اس بات کا بھرپور اظہار ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ سے مانگنا بھی ہے اور اپنے حصے کا کام پورا کرنے کے بعد اللہ تعالٰی پر توکل کرنا ہے۔
توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر حوالے کر مقدر کو توکل کے اپنے
اور اگر معاملہ نہ بنے تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ اس معاملے میں میرا طریقہ کار درست تھا یا نہیں؟
کیا جو اسباب اختیار کرنے تھے وہ سارے اسباب درست طریقے سے اختیار کیے تھے یا نہیں؟
اور جو محنت کرنے کی ضرورت تھی اس میں کوئی کمی تو نہیں تھی؟
کہیں میرے کوئی اعمال تو ایسے نہیں تھے کہ جن کی وجہ سے میرے معاملات خراب ہوگئے؟
میری اپنی ناکامیوں اور ہزاروں افراد کے ساتھ کام کرنے کے بعد ان کے معاملات کی خرابی میں، میں نے یہ دیکھا ہے کہ 98 فیصد سے زیادہ کیسز میں ان چار میں سے کوئی ایک وجہ ہوتی ہے۔
اور اگر ایسا نہیں ہے تو قدر اللہ ماشاء فعل۔ اللہ تعالٰی کی مرضی تھی اور میں اس مرضی پر راضی ہوں۔
اور اپنی محنت اور کوشش جاری رکھی جائے، اور اللہ تعالٰی پر بھروسہ کیا جائے۔
یمین الدین احمد
11 ستمبر 2023ء
کراچی، پاکستان۔