نظریۂ پاکستان

  • Home
  • نظریۂ پاکستان

نظریۂ پاکستان وطن عزیز کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہمارا مقصد ہے _ نظریہ پاکستان کی اساس نظریہ اسلام ہے _

11/09/2023

دو انتہاؤں پر دو طرح کے لوگ

پچھلے 20 سالوں سے ہزاروں افراد اور اداروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ مشاہدہ بہت زیادہ ہوا ہے کہ ہمارے ہاں دو انتہاؤں پر لوگ پائے جاتے ہیں۔

1۔ وہ لوگ جو اللہ پر توکل کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں محنت کرنے اور درست اسباب اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر چیز اللہ کی مرضی سے ہونی ہے تو میرے کرنے نہ کرنے سے کیا ہوگا!

2۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف محنت کرنے سے ہی ہمیں ہماری مرضی اور منشاء کے مطابق نتائج مل جائیں گے اور اللہ تعالٰی کی قدرت کا عمل دخل نہیں ہے۔

مسلمانوں میں پہلے والی بیماری زیادہ ہے جس کو اقبال نے ایسے بیان کیا ہے۔۔۔۔

کیا خبر کیا نام ہے اس کا خود فریبی کہ خدا فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں کر کے تقدیر کا بہانہ

اللہ پر توکل کا جو مطلب ہماری ایک عظیم اکثریت سمجھ بیٹھی ہے، وہ اس حقیقت کے بالکل الٹ ہے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ اپنے حصے کا کام پورا کریں گے نہیں، جو محنت کرنی ہے اور اسباب اختیار کرنے ہیں وہ کریں گے نہیں، اور آدھی پونی محنت کرکے پورے نتیجے کی توقع کریں گے۔

دوسری طرح کے لوگ وہ ہیں جو صرف اسباب سے ہی نتائج نکلنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ اللہ کی قدرت کاملہ پر ایمان نہیں رکھتے۔

ہمارے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تعلیم کیا ہے؟

1۔ سب سے پہلے نیت اور ارادہ کیا جائے کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں اور کیوں کرنا چاہتا ہوں۔

2۔ پوری طرح سے اس کام کی منصوبہ بندی کی جائے۔ آنکھیں بند کرکے صرف اللہ پر ہی نہ چھوڑ دیا جائے۔

3۔ جو مہیا اور درست و جائز اسباب ہیں وہ پوری طرح اختیار کیے جائیں جس میں مشورہ کرنا بھی شامل ہے۔

3۔ اب اس کے لیے جائز ذرائع کے ساتھ پوری محنت اور کوشش کی جائے۔

4۔ اللہ تعالٰی سے کھل کر، بول کر براہ راست ٹارگٹڈ مانگا جائے۔

5۔ اب نتیجے کے لیے اللہ پر بھروسہ کیا جائے۔

دنیا کے معاملات کو اللہ نے اسباب کے ساتھ جوڑا ہے اور دنیا میں اللہ تعالٰی کی عمومی سنت کیا ہے؟

جو انسان جس درجے کی محنت کرے گا، اسے اسی کے مطابق نتائج ملیں گے۔

گو کہ اللہ کی یہ قدرت ہے کہ وہ بغیر اسباب کے بھی کچھ بھی کرسکتے ہیں، لیکن یہ اللہ کی سنت نہیں ہے۔ یہ تفرد ہے۔ جیسے حضرت عیسٰی علیہ السلام کو اللہ نے بغیر والد کے پیدا کرکے دکھایا اور اللہ تعالٰی آج بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن یہ اللہ کی سنت یعنی مستقل طریقہ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ہر کام میں اس کے متعلقہ اسباب کو پوری طرح اختیار کیا۔ یہ نہیں کیا کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھ گئے۔ ہجرت ہو یا غزوات ہوں یا کوئی اور سفر، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی میں ہر جگہ پلاننگ اور منصوبہ بندی نظر آئے گی۔

جتنے تاجر صحابہ تھے سب نے اپنے کاروباروں کے لیے تمام مہیا اسباب اختیار کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔

جب میں یہ کہتا ہوں کہ فلاں کو ورکشاپ سے فائدہ ہوا تو اس کا مطلب کیا ہوتا ہے؟

اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس کو اس فریم ورک سے فائدہ ہوا جو ہم سکھاتے ہیں۔

اور اس فریم ورک میں محنت اور ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ، اس بات کا بھرپور اظہار ہوتا ہے کہ ہمیں اللہ سے مانگنا بھی ہے اور اپنے حصے کا کام پورا کرنے کے بعد اللہ تعالٰی پر توکل کرنا ہے۔

توکل کا یہ مطلب ہے کہ خنجر تیز رکھ اپنا
پھر حوالے کر مقدر کو توکل کے اپنے

اور اگر معاملہ نہ بنے تو سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ اس معاملے میں میرا طریقہ کار درست تھا یا نہیں؟

کیا جو اسباب اختیار کرنے تھے وہ سارے اسباب درست طریقے سے اختیار کیے تھے یا نہیں؟

اور جو محنت کرنے کی ضرورت تھی اس میں کوئی کمی تو نہیں تھی؟

کہیں میرے کوئی اعمال تو ایسے نہیں تھے کہ جن کی وجہ سے میرے معاملات خراب ہوگئے؟

میری اپنی ناکامیوں اور ہزاروں افراد کے ساتھ کام کرنے کے بعد ان کے معاملات کی خرابی میں، میں نے یہ دیکھا ہے کہ 98 فیصد سے زیادہ کیسز میں ان چار میں سے کوئی ایک وجہ ہوتی ہے۔

اور اگر ایسا نہیں ہے تو قدر اللہ ماشاء فعل۔ اللہ تعالٰی کی مرضی تھی اور میں اس مرضی پر راضی ہوں۔

اور اپنی محنت اور کوشش جاری رکھی جائے، اور اللہ تعالٰی پر بھروسہ کیا جائے۔

یمین الدین احمد
11 ستمبر 2023ء
کراچی، پاکستان۔

06/09/2023

ریاض سے فوری خبر👇

ابوظہبی پولیس نے ایک شخص کو گرفتار کیا جو اپنی نئی کار کی صفائی کر رہا تھا.
اس نے دیکھا کہ اس کا دو سالہ بیٹا ایک کیل لے کر گاڑی کی سائیڈ پر سکریچ لگا رہا ہے۔
باپ غصے میں آ گیا اور اپنے بیٹے کے ہاتھ پہ مارنے لگا
یہ سوچے بغیر کہ وہ اسے ہتھوڑے کے ہینڈل سے مار رہا ہے!!

باپ کو بعد میں سمجھ میں آیا کہ کیا اُس نے کیا حرکت کی ہے تو فوری طور پر بیٹے کو ہسپتال لے گیا،
جہاں معلوم ہوا کہ فریکچر کی وجہ سے بیٹے کی انگلی ضائع ہوگئ ہے۔
بیٹےنے اپنے باپ کو دیکھا تو بڑے معصومانہ انداز سے پوچھا بابا میری انگلی دوبارہ کب آئے گی؟
یہ سوال باپ پر بجلی کی طرح گرا تو وہ باہر نکل کر گاڑی کی طرف بڑھا اور اسے آگ لگا دی۔
پھر وہ روتا ہوا اسکے سامنے بیٹھ گیا اور اپنے بیٹے کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر افسوس کرنے لگا۔
جب اس نے گاڑی کے اسکریچ کو غور سے دیکھا تو بچے نے لکھا تھا:
“ بابا میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں”
باپ یہ صدمہ برداشت نہ کر سکا اور اگلے روز اس نے خودکشی کر لی۔

کہانی ختم

آئیے تھوڑی دیر کے لیے دوبارہ کہانی کی طرف جاتے ہیں👇

-کیا کوئی گاڑی کو ہتھوڑے سے صاف کرتا ہے؟
- اور ہتھوڑے کا موضوع سے کیا تعلق ہے؟
- لڑکا دو سال کا ہے، کیا وہ یہ جملہ لکھ سکتا ہے، کہ
“ بابا میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں؟
- اور کیا اتنا چھوٹا بچہ بول کر کہہ سکتا ہے: بابا میری انگلی دوبارہ کب آئے گی؟
-ابوظہبی پولیس اور ریاض کے درمیان کیا کنکشن ہے؟
- خودکشی کرنے والے باپ کو پولیس نے کیسے پکڑ لیا؟

در حقیقت 👇
سوشل میڈیا پر اکثر سیاسی، مذہبی، فرقہ وارانہ پوسٹیں اسی طرح کی ہوتی ہیں اور ہم بغیر سوچے سمجھے ردّ عمل کا شکار ہو کر جذبات کی رو میں بہہ جاتے ہیں۔
ہمارا دماغ اور ہماری سوچ ہم سے چوری ہو جاتی ہے اور ہمیں محسوس تک نہیں ہوتا۔

پیغام👇
کتے کے پیچھے بھاگنے سے قبل اپنا کان چیک کر لیا کریں۔

ماخوذ

15/07/2023

ایسی تحریر جس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ایک تیس سال پرانے دوست ہیں‘ پڑھے لکھے اور دانش ور ہیں‘ ملک سے باہر رہتے ہیںلہٰذا ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ فون پر بھی بہت کم بات ہوتی ہے‘ دو دن پہلے ان کا آڈیو پیغام آیا ’’میرا بھائی ملتان سے اپنے کسی دوست کو آم بھجوا رہا ہے‘ میں نے سوچا میں اسے کہہ دوں وہ تمہیںبھی بھجوا دے‘ کیا تم بس کے اڈے سے لے لو گے اور یہ بھی بتائو کیا تم آم کھاتے بھی ہو یا پھرنہیں‘‘۔
میں پیغام سن کر ہنس پڑا اور مجھے وہ لطیفہ یاد آگیا جس میں میزبان نے مہمان سے کہا تھا‘ آپ کھانا نوش فرمایے‘ ہم نے ویسے بھی ڈسٹ بین میں ہی پھینکنا تھا‘ میں نے ان کو جوابی پیغام بھجوایا جناب آپ کا بہت شکریہ‘ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا‘ میں آم نہیں کھاتا لہٰذا آپ ہرگز تکلیف نہ کریں‘ دوسرا اسلام آباد سے ہر چیز مل جاتی ہے تاہم میں آپ کو صرف سمجھانے کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں تحفہ ایک نفیس چیز ہوتی ہے‘ اس کے بھی آداب ہوتے ہیں۔
آپ جب کسی کو کہتے ہیں میرا بھائی کسی کو بھجوا رہا تھا تو میں نے سوچا میں آپ کو بھی بھجوا دوں یا آپ فلاں جگہ جا کر اپنا تحفہ وصول کر لیں گے یا آپ یہ کھاتے بھی ہیں یا نہیں تو یہ دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے‘ اس کا مطلب ہوتا ہے آپ دوسرے کو کم تر سمجھ رہے ہیں‘ تحفے عزت افزائی ہوتے ہیں‘ ان میں دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے‘ میرے دوست مائینڈ کر گئے‘ ان کا خیال تھا میں ان کے خلوص‘ ان کی محبت کو نہیں سمجھ سکا چناں چہ انھوں نے میرے ساتھ قطع تعلق کا اعلان کر دیا۔
میں اس کے بعد دیر تک افسوس کرتا رہا‘ میرا خیال تھا مجھے یہ نہیں کہنا چاہیے تھا‘ چپ چاپ سہہ جانا چاہیے تھا لیکن پھر سوچا اگر سب لوگ ایسی غلطیوں پر خاموش رہیں گے‘ تعلقات بچانے کی فکر کرتے رہیں گے تو پھر ہم اپنی اصلاح کیسے کریں گے؟
آپ اس مثال ہی کو لے لیجیے‘ میرے دوست یہ بھی کہہ سکتے تھے آپ اپنا ایڈریس دے دیجیے میں آپ کو آم بھجوانا چاہتا ہوں‘ یہ ایک باعزت طریقہ ہوتا‘ تین جوتے مارنے کیا ضرورت تھی لیکن سوال یہ ہے کیا یہ غلطی صرف میرے اس دوست نے کی ؟ جی نہیں! ہم میں سے زیادہ تر لوگ عموماً ایسی ’’چول‘‘ مار دیتے ہیں‘ میں خود بھی ایسی غلطیاں کرتا تھا اور میرے سینئر میری اصلاح کرتے تھے‘ مثلاً میں 1996ء میں لالہ موسیٰ سے اسلام آباد آ رہا تھا‘ میں نے نئی نئی مہران گاڑی خریدی تھی اور خود کوٹاٹا اور برلا سمجھتا تھا‘ چوہدری فضل حسین میرے استاد تھے۔
یہ زمین دار کالج گجرات کے پرنسپل رہے تھے‘ ان کے شاگرد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے تھے اور میں نے زندگی میں ان سے زیادہ نفیس اور شان دار شخص نہیں دیکھا‘ وہ سرتاپا حس مزاح بھی تھے‘ ان کی ہر بات پھلجھڑی ہوتی تھی‘ وہ کالج میں روز صبح اسمبلی کے وقت چھوٹی سی تقریر کرتے تھے‘ پورا کالج اور گردونواح کے لوگ ان کی تقریر سننے صبح آٹھ بجے کالج پہنچ جاتے تھے اور پیٹ پکڑ کر لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے‘ چوہدری صاحب جہلم میں رہتے تھے‘ وہ کسی فنکشن کے لیے لالہ موسیٰ آئے ہوئے تھے‘ میں نے انھیں راستے میں ڈراپ کی پیش کش کر دی۔
چوہدری صاحب خوش دلی سے میرے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو گئے‘ وہ گاڑی میں سوار ہونے لگے تو میں نے شوخی میں آ کر نیچ حرکت کر دی‘ میں نے ہنس کر کہا ’’سر آپ کہاں بس پر خوار ہوں گے‘ میں جہلم سے گزر کر جا رہا ہوں‘ میں آپ کو راستے میں چھوڑ دوں گا‘‘ چوہدری صاحب نفیس اور شان دار انسان تھے‘ وہ مسکراکر بولے ’’بیٹا میں پوری زندگی بسوں پر خوار ہوا ہوں‘ میں آج بھی خوار ہو سکتا ہوں لیکن میں نے سوچا‘ میں ایک گھنٹہ آپ جیسے پڑھے لکھے نوجوان کی کمپنی سے لطف لے لیتا ہوں‘‘۔
میری کمر تک پسینے میں تر ہوگئی‘ مجھے آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو میں شرمندہ ہو جاتا ہوں لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن میں نے زندگی میں جب بھی کسی کو لفٹ دی یا کسی کے لیے گاڑی بھجوائی تو ہمیشہ عاجزی سے عرض کیا‘ سر آپ اگر میرے ساتھ جائیں گے تو یہ میری عزت افزائی ہو گی‘ مجھے آپ سے سیکھنے کا موقع ملے گا یا پھر سر میرا ڈرائیور وہ جگہ اچھی طرح جانتا ہے‘ یہ آپ کو آسانی سے لے جائے گا یا لے آئے گا‘ اس سے آپ کا بہت سا وقت بچ جائے گا۔
ہم میں سے اکثر لوگ یہ غلطی بھی کرتے ہیں‘ یہ کسی کے پاس جاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’میں ادھر سے گزر رہا تھا میں نے سوچا آپ سے بھی مل لوں‘‘ آپ ذرا فقرے کے اندر جھانک کر دیکھیے یعنی یہ بڑے آدمی ہیں‘ انھوں نے یہاں سے گزر کر اور آپ کے دفتر یا گھر تشریف لا کر بہت احسان فرمایا اور دوسرا یہ آپ کو اتنا فارغ اور فضول سمجھ رہے ہیں یہ آپ کے پاس جب چاہیں آ جائیں اور آپ پر فرض ہے آپ دروازے اور باہیں کھول کر کھڑے ہو جائیں‘ آپ کوشش کریں یہ غلطی نہ کریں۔
یہ سیدھی سادی چول ہے‘ آپ اگر کسی سے ویسے ہی گزرتے گزرتے ملنا چاہتے ہیں تو بھی فون کریں اور یہ کہیں میں اگر ابھی آپ کے پاس آ جائوں تو کیا آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے اور وہ اگر اجازت دیں تو آپ مل لیں ورنہ کسی دوسرے دن خصوصی طور پر ان سے ملنے کے لیے چلے جائیں یوں ہی چلتے چلتے یا گزرتے گزرتے کسی سے ملنا زیادتی ہے۔
ہم میں سے بے شمار لوگ کسی کو کپڑے یا جوتے دیتے ہوئے بھی فرمادیتے ہیں میں نے یہ سوٹ‘ یہ شرٹ یا پتلون خریدی تھی لیکن یہ تنگ یا ڈھیلی نکلی‘ میں نے سوچا یہ میں آپ کو دے دوں یا نیا جوتا نکالیں گے اور کہیں گے یہ میں نے لندن سے خریدا تھا‘ یہ مجھے تنگ ہے‘ یہ آپ لے لیں‘ یہ بھی دوسرے شخص کی سیدھی سادی بے عزتی ہے‘ آپ اس کے بجائے وہ کپڑے یا جوتے پیک کرا کر اپنے کسی ورکر یا کسی ضرورت مند کو دے دیں‘ آپ کو ثواب بھی ملے گا اور دل کو تسلی بھی ہو گی اور آپ نے اگر واقعی غلط سائز کے جوتے یا کپڑے خرید لیے ہیں اور آپ نے یہ استعمال نہیں کیے اور یہ آپ اپنے کسی دوست ہی کو دینا چاہتے ہیں تو آپ اسے ’’ری پیک‘‘ کرائیں اور اپنے دوست یا عزیز رشتے دار کو دے دیں‘ وہ خوش ہو جائے گا۔
یہ چول مارنے کی کیا ضرورت ہے یہ مجھے تنگ یا ڈھیلا تھا لہٰذا تم لے لو‘ اس رویے سے آپ کی چیز بھی ضایع ہو جاتی ہے اور دوسرے کا دل بھی ٹوٹ جاتا ہے‘ میرے سامنے ایک بار میرے ایک جاننے والے نے اپنے ایک دوست کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا‘ اس نے اسے ’’رسل اینڈ براملے‘‘ کا نیا جوتا دیا اور کہا یہ میں نے لندن سے پانچ سو پائونڈ کا خریدا تھا‘ یہ مجھے تنگ ہے‘ میں نے ایک دن بھی نہیں پہنا‘ یہ تمہیں آ جائے گا‘ تم لے لو‘ یہ سن کر سامنے موجود شخص کا چہرہ سرخ ہو گیا‘ اس نے جوتا لیا‘ اپنا ڈرائیور بلایا اور اسے جوتے دے کر بولا ’’بیٹا یہ نوید صاحب آپ کے لیے لندن سے لائے ہیں۔
آپ انھیں پہن کر دکھائو‘‘ ڈرائیور خوش ہو گیا‘ اس نے اپنے میلے جوتے اتارے‘ نیا جوتا پہنا‘ چل پھر کر تسلی کی اور جھک کر نوید صاحب کو سلام پیش کیا‘ نوید صاحب کے چہرے پر ایک رنگ آ رہا تھا اور ایک جا رہا تھا‘ ہم پنجابی قیمت پوچھنے کی علت کا شکار بھی ہیں‘ ہمیں اگر کسی کی شرٹ‘ کرسی‘ میز‘ گھر یا گاڑی پسند آ جائے گی تو ہم اس سے فوراً اس کی قیمت پوچھ لیں گے‘ ہم اس سے گھر یا فلیٹ کا رقبہ بھی پوچھیں گے مثلاً یہ کتنے مرلے میں ہے‘ بنانے میں کتنا ٹائم لگا اور کتنا خرچ ہوا؟ اور یہ شرٹ کہاں سے لی اور کتنے میں لی‘ یہ بھی دوسرے کی بے عزتی ہوتی ہے۔
آپ کو اگر کسی کے کپڑے اچھے لگ رہے ہیں تو آپ کھل کر ان کی تعریف کریں‘ وہ اگر مناسب سمجھے گا تو وہ آپ کودرزی یا برینڈ کا نام بتا دے گا‘ آپ وہ یاد رکھ لیں اور واپس جا کر درزی یا دکان دار سے تفصیل پوچھ لیں اگر یہ ممکن نہ ہوتو آپ کھل کر تعریف کریں‘ گھر جائیں‘ وہاں سے فون کریں اور اس سے برینڈ یا درزی کے بارے میں پوچھ لیں لیکن قیمت اس وقت بھی نہ پوچھیں‘ کیوں؟ کیوں کہ قیمت پوچھنے کا مطلب ہوتا ہے آپ چیزوں کو جمالیاتی حس کے بجائے بیوپاری یا قصائی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور آپ کی نظر میں چیز کی نہیں قیمت کی ویلیو ہے اور یہ حرکت ناشائستہ بھی ہے اور چیپ بھی۔
میں ایک بار روم میں کسی کا مہمان تھا‘ میرا میزبان شان دار کلچرڈ انسان تھا‘ میں اس کی شرٹ کا عاشق ہو گیا‘ میں نے جی بھر کر اس کی تعریف کی‘ وہ خوش ہو گیا‘ کھانے کے دوران اس نے میری فضول سی شرٹ کی تعریف کی اور باتوں ہی باتوں میں پوچھا‘ مجھے اس کا کالر 40 لگ رہا ہے‘ میں نے فوراً جواب دیا نہیں یہ41 ہے اور یہ قطعاً اچھی نہیں‘ اس نے کہا ‘مجھے تو یہ بہت اچھی لگ رہی ہے‘ ہم نے کھانا کھایا‘ میں ہوٹل واپس آ گیا‘ اگلی شام میرے میزبان کا ڈرائیور آیا اور مجھے اس کی طرف سے ایک گفٹ پیک دے گیا۔
میں نے کھولا تو وہ اسی طرح کی شرٹ تھی جیسی اس نے رات پہن رکھی تھی‘ میں خوش ہو گیا‘ میں نے اگلے دن اس کو دو برینڈڈ ٹائیاں بھجوا دیں‘ وہ بھی خوش ہو گیا جب کہ میں زمانہ جاہلیت میں کیا کیا کرتا تھا؟ میں فوراً چیز کی قیمت اور دکان پوچھ لیتا تھا اور دوسرے بے چارے کا منہ بن جاتا تھا۔
یہ یاد رکھیں تحفہ سنت ہے‘ یہ ایک مقدس اور نفیس چیز ہوتا ہے لہٰذا ہمیں چاہیے ہم جب کسی کو تحفہ دیں تو سنت سمجھ کر‘ عبادت سمجھ کر دیں‘ عزت اور احترام کے ساتھ دیں‘ اسے خیرات نہ بنا دیں‘ اس سے دوسروں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاوید چوہدری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

05/06/2023

"تم کر سکتے ہو!" کا سستا نشہ

"میرے انٹر میں چالیس فیصد نمبر ہیں۔۔
میٹرک میں پچاس فیصد تھے ۔۔
مجھے میڈیکل کالج میں ایڈمیشن لینا ہے۔۔۔
آپ بتائیں کیسے ہو گا؟"
"اس پرسنٹیج پر تو نہیں ہوتا۔
اور وہاں بہت پڑھنا پڑتا ہے۔۔۔"
"میں پڑھ لوں گی۔۔
مجھے پتہ ہے میں پڑھ سکتی ہوں۔
آپ بس مجھے یہ بتا دیں کہ ایڈمیشن کیسے ہوگا۔۔۔"
" آپ دوبارہ انٹر کر لیں۔۔
88 فیصد نمبر لے آئیں۔۔
ایم ڈی کیٹ میں اچھا سکور کر لیں۔۔
اس کے بعد ایڈمیشن ہو جائے گا۔۔۔"
"یہ تو بہت مشکل ہے۔۔
آپ مجھے ایڈمیشن کا طریقہ بتا دیں۔۔
ایک مرتبہ ایڈمیشن ہو جائے گا تو میں کر لوں گی۔۔
مجھے پتہ ہے میں کر سکتی ہوں۔۔۔"
یہ کچھ سال پہلے ہونے والا ایک مکالمہ ہے۔۔
بہت سارے نوجوان اس "تم کر سکتے ہو ۔۔" کے نشے میں ڈوب کر کچھ نہیں کر پاتے۔۔
ہم کبھی بھی "سب کچھ" نہیں کر سکتے۔۔
ہمیں اپنی خواہشات کو "آپٹمزم" اور "ریئل ازم" کے درمیان میں کہیں رکھنا چاہیے۔۔
گول مشکل ہو۔۔
مگر ناممکن نہیں۔۔
میں اس ادھیڑ عمر کے عالم میں اگر فائٹر پائلٹ بننا چاہوں تو ممکن نہیں۔۔
مارشل آرٹس میں بلیک بیلٹ لینا چاہوں تو بہت مشکل ہے۔۔
سکواش یا ٹینس چیمپئن بننے نکل کھڑا ہوں تو ممکن ہے اس سے پہلے ہی ٹریننگ کی تاب نہ لاتے ہوئے بستر پر پڑ جاوں۔۔۔
"کچھ" کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ آج کہاں کھڑے ہیں۔۔
جہاں تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ گول کتنا حقیقت کے قریب ہے؟
وہاں تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے؟
جو لوگ وہاں کھڑے ہیں وہ کن خصوصیات کے حامل ہیں؟
وہ خصوصیات کیسے پیدا کی جا سکتی ہیں؟
ان کا ہنر کیسے سیکھا جا سکتا ہے؟
جو قربانی راستہ آپ سے مانگتا ہے وہ آپ دینے کو تیار ہیں یا نہیں؟
ورنہ "تم کر سکتے ہو" بس سستا نشہ ہے۔۔
یہ کانوں کو اچھا لگتا ہے۔۔
مگر جب عمل کرنے جائیں تو انہی کانوں سے دھواں نکل جاتا ہے۔۔
اس نشے کو کم کم استعمال کریں تو اچھا ہے۔۔

#محور
محمد یحیی'نوری

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when نظریۂ پاکستان posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share