23/10/2025
وہ گھر سے ہاسٹل جانے کے لیے نکلی تھی تو بارش کے قطعی آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔ اگر چہ بادلوں کی کچھ آوارہ ٹکڑیاں آسمان پر منڈلا رہی تھیں مگر وہ برسنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی تھیں۔ اماں نے کہا بھی کہ شفیق (ڈرائیور) کا انتظار کر لو مگر اس خیال سے کہ کہیں ٹرین نہ چھوٹ جائے وہ آن لائن کیب کروا کر اسٹیشن چلی آئی۔
ابھی اپنا چھوٹا سا ٹرالی بیگ گھسیٹتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب رم جھم شروع ہوگئی۔ وہ تیزی سے ایک بینچ کی طرف بڑھی جس پر پلاسٹک شیٹ کی چھت تھی۔ اس نے اپنے بال اور کپڑے جھاڑے۔ اپنا بیگ بنچ کے نیچےسر کایا اور خود ذرا آرام سے بیٹھ گئی۔ ٹرین آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ اسٹیشن پر وہی مخصوص گہماگہمی تھی۔ سامان اٹھائے ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے مسافر اور آوازیں لگاتے چھابڑی فروش۔ پچھلے دو سالوں سے ٹرین کے ذریعے گھر سے ہوسٹل اور ہوسٹل سے گھر آتے جاتے وہ ان نظاروں کی عادی ہو چکی تھی۔ ابھی بھی وہ غیر دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔
سامنے سے ایک خوش باش سامان سے لدی پھندی فیملی اس جانب چلی آئی۔ دو ادھیڑ عمر کے مرد او عورت غالباً میاں بیوی تھے اور ان کے پیچھے پیچھے ایک صحت مندی نوجوان لڑکی چلی آرہی تھی۔ اس نے ایک تقریباً تین چار سال کی بچی کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ایک گپلو سا چھوٹا بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا۔ ارے بیٹا ذرا اسی جگہ دینا۔ ادھیڑ عمر کی خاتون تو آتے ہی اس کے پاس بینچ پر ڈھے سی گئی۔ ہائے اللہ ! میں تو بہت تھک گئی۔
اتنی تو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں ۔ وہ بری طرح سے ہانپ رہی تھیں۔ ان کے میاں نے تو اپنے ساتھ لائے ایک بڑے سارے بیگ کو سیدھا کیا اور اس پر تشریف فرما ہو گئے ۔ اس نے مزید سرک کرلڑکی کے لیے بھی جگہ بنائی۔ نہیں سسٹر میں کھڑی ہی ٹھیک ہوں۔ اگر بیٹھ گئی تو منا رونا شروع کر دے گا۔ لڑکی خوش دلی سے مسکرائی۔ ارے گڈو کے ابا اتم تو بیگ پر ہی بیٹھ گئے۔ اس میں میرے کانچ کے گل دان رکھے ہیں، وہ ٹوٹ جائیں گے۔ خاتون کے حواس بحال ہوئے تو ان کی نظر اطمینان سے بیگ پر تشریف فرما اپنے میاں پر پڑی تو وہ چیخ اٹھیں ۔
نہیں اماں ! گل دان تو دوسرے بیگ میں رکھے ہیں۔ لڑکی نے ان کو تسلی دی۔ بیٹی تم کہاں جارہی ہو؟ اب خاتون نے اس کی جانب اپنا رخ کیا۔ وہ چشمے کی اوٹ سے اسے ٹولتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ آنٹی میں لاہور جارہی ہوں۔ اچھا! ہم بھی لاہور جارہے ہیں۔ وہ سب الرٹ ہو گئے۔ چھک چھک انجن پلیٹ فارم کی جانب آ رہا تھا۔ پھر بو گیاں پلیٹ فارم سے آلگیں۔ شور و غل مزید بڑھ گیا۔
لڑکی کے دونوں بچوں نے گھبرا کر رونا شروع کر دیا۔ بچی تو چیخیں مار کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ وہ شاید پہلی بار ٹرین میں سوار ہو رہی تھی۔پلیز آپ ذرا منے کو پکڑنا۔ میں اسے لے کر چڑھتی ہوں تو لڑکی نے اپنا بچہ اس تھمایا وہ اپنے ٹرالی بیگ کو گھسیٹی احتیاط سے بچے کو گود میں لیے ڈبے کے اندر گھس گئی۔ باقی سب بھی اس کے ساتھ سوار ہونے لگے۔ ابھی وہ کسی خالی سیٹ وغیرہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اسے اپنی پشت پر ایک بھاری سی مردانہ آواز سنائی دی محترمہ ! آپ کے بچے کا ایک جو تا نیچے گرا ہوا تھا۔
اس نے پلٹ کر دیکھا تو جینز شرٹ میں ملبوس ایک لمبا ترنگا سا لڑکا ایک چھوٹا سا جوتا اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ اس کی نظر بچے کے پاؤں پر پڑی۔ ایک جو تا واقعی غائب تھا۔ وہ بری طرح جھینپ گئی ۔ شکریہ بھیا! یہ ان کا نہیں میرا بچہ ہے۔ اس کے پیچھے سوار ہوتی اسی لڑکی نے جوتا اس لڑکے کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنا منا بھی اس کے کندھے سے اتار کر اپنی گود میں منتقل کر لیا۔ تمہارا بھی شکریہ بہن وہ سامنے والی بینچ خالی پڑی ہے۔ وہیں چلتے ہیں ۔ اب شرمندہ ہونے کی باری لڑکے کی تھی۔
وہ اپنا بیگ سنبھالتا آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب سیٹ ہو کر بیٹھ چکے تھے۔ وہ لڑکی کے ساتھ ونڈو سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں میاں بیوی سامنے والی دو نشستوں پر قبضہ جما چکے تھے۔ جینز شرٹ والا لڑ کا دائیں جانب ایک سنگل سیٹ پر براجمان ہو گیا۔ ٹرین نے اب آہستہ آہستہ رفتار پکڑنی شروع کر دی تھی۔ بارش کی پھوار کھڑکی کے راستے اندر تک آرہی تھی ۔ اس کا دوپٹہ بھیگتا جا رہا تھا۔ اس نے گرل نیچے کرنی چاہی مگر وہ پورا ز ور لگا کر بھی اسے ایک انچ نہ سر کا سکی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2024/10/do-hamsafar.html