Sublimegate Urdu Stories

  • Home
  • Sublimegate Urdu Stories

Sublimegate Urdu Stories Urdu Stories with Urdu font, quotes, Islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu

Welcome to Shajee Voice Urdu Stories - Quotes, Quotes Realm, motivational quotes, life quotes, Moral stories, Urdu moral stories, life changing stories, best quotes, love quotes, Urdu Islamic Stories, islamic Stories in Urdu, Moral Stories in Urdu.

وہ گھر سے ہاسٹل جانے کے لیے نکلی تھی تو بارش کے قطعی آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔ اگر چہ بادلوں کی کچھ آوارہ ٹکڑیاں آسمان پ...
23/10/2025

وہ گھر سے ہاسٹل جانے کے لیے نکلی تھی تو بارش کے قطعی آثار نظر نہیں آ رہے تھے ۔ اگر چہ بادلوں کی کچھ آوارہ ٹکڑیاں آسمان پر منڈلا رہی تھیں مگر وہ برسنے کے موڈ میں نہیں لگ رہی تھیں۔ اماں نے کہا بھی کہ شفیق (ڈرائیور) کا انتظار کر لو مگر اس خیال سے کہ کہیں ٹرین نہ چھوٹ جائے وہ آن لائن کیب کروا کر اسٹیشن چلی آئی۔

ابھی اپنا چھوٹا سا ٹرالی بیگ گھسیٹتی ہوئی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی جب رم جھم شروع ہوگئی۔ وہ تیزی سے ایک بینچ کی طرف بڑھی جس پر پلاسٹک شیٹ کی چھت تھی۔ اس نے اپنے بال اور کپڑے جھاڑے۔ اپنا بیگ بنچ کے نیچےسر کایا اور خود ذرا آرام سے بیٹھ گئی۔ ٹرین آنے میں ابھی کچھ وقت تھا۔ اسٹیشن پر وہی مخصوص گہماگہمی تھی۔ سامان اٹھائے ادھر ادھر دوڑتے بھاگتے مسافر اور آوازیں لگاتے چھابڑی فروش۔ پچھلے دو سالوں سے ٹرین کے ذریعے گھر سے ہوسٹل اور ہوسٹل سے گھر آتے جاتے وہ ان نظاروں کی عادی ہو چکی تھی۔ ابھی بھی وہ غیر دلچسپی سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

سامنے سے ایک خوش باش سامان سے لدی پھندی فیملی اس جانب چلی آئی۔ دو ادھیڑ عمر کے مرد او عورت غالباً میاں بیوی تھے اور ان کے پیچھے پیچھے ایک صحت مندی نوجوان لڑکی چلی آرہی تھی۔ اس نے ایک تقریباً تین چار سال کی بچی کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور ایک گپلو سا چھوٹا بچہ گود میں اٹھا رکھا تھا۔ ارے بیٹا ذرا اسی جگہ دینا۔ ادھیڑ عمر کی خاتون تو آتے ہی اس کے پاس بینچ پر ڈھے سی گئی۔ ہائے اللہ ! میں تو بہت تھک گئی۔

اتنی تو سیڑھیاں چڑھنی پڑتی ہیں ۔ وہ بری طرح سے ہانپ رہی تھیں۔ ان کے میاں نے تو اپنے ساتھ لائے ایک بڑے سارے بیگ کو سیدھا کیا اور اس پر تشریف فرما ہو گئے ۔ اس نے مزید سرک کرلڑکی کے لیے بھی جگہ بنائی۔ نہیں سسٹر میں کھڑی ہی ٹھیک ہوں۔ اگر بیٹھ گئی تو منا رونا شروع کر دے گا۔ لڑکی خوش دلی سے مسکرائی۔ ارے گڈو کے ابا اتم تو بیگ پر ہی بیٹھ گئے۔ اس میں میرے کانچ کے گل دان رکھے ہیں، وہ ٹوٹ جائیں گے۔ خاتون کے حواس بحال ہوئے تو ان کی نظر اطمینان سے بیگ پر تشریف فرما اپنے میاں پر پڑی تو وہ چیخ اٹھیں ۔

نہیں اماں ! گل دان تو دوسرے بیگ میں رکھے ہیں۔ لڑکی نے ان کو تسلی دی۔ بیٹی تم کہاں جارہی ہو؟ اب خاتون نے اس کی جانب اپنا رخ کیا۔ وہ چشمے کی اوٹ سے اسے ٹولتی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ آنٹی میں لاہور جارہی ہوں۔ اچھا! ہم بھی لاہور جارہے ہیں۔ وہ سب الرٹ ہو گئے۔ چھک چھک انجن پلیٹ فارم کی جانب آ رہا تھا۔ پھر بو گیاں پلیٹ فارم سے آلگیں۔ شور و غل مزید بڑھ گیا۔

لڑکی کے دونوں بچوں نے گھبرا کر رونا شروع کر دیا۔ بچی تو چیخیں مار کر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ وہ شاید پہلی بار ٹرین میں سوار ہو رہی تھی۔پلیز آپ ذرا منے کو پکڑنا۔ میں اسے لے کر چڑھتی ہوں تو لڑکی نے اپنا بچہ اس تھمایا وہ اپنے ٹرالی بیگ کو گھسیٹی احتیاط سے بچے کو گود میں لیے ڈبے کے اندر گھس گئی۔ باقی سب بھی اس کے ساتھ سوار ہونے لگے۔ ابھی وہ کسی خالی سیٹ وغیرہ کی تلاش میں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جب اسے اپنی پشت پر ایک بھاری سی مردانہ آواز سنائی دی محترمہ ! آپ کے بچے کا ایک جو تا نیچے گرا ہوا تھا۔

اس نے پلٹ کر دیکھا تو جینز شرٹ میں ملبوس ایک لمبا ترنگا سا لڑکا ایک چھوٹا سا جوتا اس کی طرف بڑھا رہا تھا۔ اس کی نظر بچے کے پاؤں پر پڑی۔ ایک جو تا واقعی غائب تھا۔ وہ بری طرح جھینپ گئی ۔ شکریہ بھیا! یہ ان کا نہیں میرا بچہ ہے۔ اس کے پیچھے سوار ہوتی اسی لڑکی نے جوتا اس لڑکے کے ہاتھ سے لیتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی اپنا منا بھی اس کے کندھے سے اتار کر اپنی گود میں منتقل کر لیا۔ تمہارا بھی شکریہ بہن وہ سامنے والی بینچ خالی پڑی ہے۔ وہیں چلتے ہیں ۔ اب شرمندہ ہونے کی باری لڑکے کی تھی۔

وہ اپنا بیگ سنبھالتا آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب سیٹ ہو کر بیٹھ چکے تھے۔ وہ لڑکی کے ساتھ ونڈو سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں میاں بیوی سامنے والی دو نشستوں پر قبضہ جما چکے تھے۔ جینز شرٹ والا لڑ کا دائیں جانب ایک سنگل سیٹ پر براجمان ہو گیا۔ ٹرین نے اب آہستہ آہستہ رفتار پکڑنی شروع کر دی تھی۔ بارش کی پھوار کھڑکی کے راستے اندر تک آرہی تھی ۔ اس کا دوپٹہ بھیگتا جا رہا تھا۔ اس نے گرل نیچے کرنی چاہی مگر وہ پورا ز ور لگا کر بھی اسے ایک انچ نہ سر کا سکی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2024/10/do-hamsafar.html


شبنم اور وسیم زاھد اور شمائلہ کا وٹے سٹے کا رشتہ ہوا تھا دونوں فیملیز کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ رشتہ طے ہوتے ہی شمائ...
23/10/2025

شبنم اور وسیم زاھد اور شمائلہ کا وٹے سٹے کا رشتہ ہوا تھا دونوں فیملیز کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا۔ رشتہ طے ہوتے ہی شمائلہ اور زاھد کی شادی کا دن رکھ لیا گیا۔ شبنم اور وسیم کی شادی ایک سال طے ہونا پائی۔

ڈھولکی لگ گئی شادیانے بجنے لگے اور خوشی خوشی شادی ہو گئی شمائلہ اور زاھد شادی پر اتنے خوش تھے جیسے ان کی محبت کی شادی ہو شادی کے بعد بھی ان کی محبت اس طرح تھی جیسے لو میرج ہو یہی معاملہ شبنم اور وسیم کابھی تھا محبت کی کونپل ان کے دلوں میں بھی پھوٹ چکی تھی ان محبتوں کو نظر لگ گئی دونوں خاندانوں کے درمیان ایک معمولی بات پر اختلاف شروع ہوا جس نے آخر ایک بڑے جھگڑے کی صورت اختیار کرلی شبنم اور وسیم کا رشتہ ختم کر دیا گیا اس فیصلے نے دونوں کو بہت دکھ پہنچایا شمائلہ اور زاھد بھی اس فیصلے سے رنجیدہ تھے مگر کچھ نہیں کرسکتے تھے وسیم کے والدین نے جلد اس کی شادی کا فیصلہ کرلیا وسیم یہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اسکے دل میں پہلے ہی شبنم موجود تھی لیکن ماں باپ نے اپنی محبتوں کے واسطے دے کر اسے راضی کر لیا۔

اس نے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ پروین کے ساتھ شادی کرلی پروین ایک اچھی لڑکی تھی پر وسیم کے دل کو نہ بھا سکی وہ اداس رہنے لگا پروین کو سارے معاملے کا علم تھااہم اسے یہ خوش فہمی تھی محبت کے ساتھ ہر جنگ جیتی جا سکتی ہے ادہر شبنم کارشتہ طئہ ہو گیا امتیاز نامی شخص کے ساتھ اس شخص نے شبنم کو دیکھ کر کہیں پسند کرلیا اس کے ساتھ منگنی کرلی شبنم اس رشتے سے ناخوش تھی گزرتے دنوں کے ساتھ اس کے دل کا بوجھ بھی بڑہتا جا رہا تھا وہ فرار اختیار کرنا چاہتی تھی ادھر پروین بھی وسیم کے دل میں اپنی محبت کو جگا نہ سکی ہاں اس کا قدردان ضرور تھا اسے زیادہ تنگ نہ کرتی اس کے والدین کو بھی خوش رکھا ہوا تھا آہستہ آہستہ وہ وسیم کے دل میں جگہ بنا نے میں کامیاب ہوگئی۔

یہ بھی ایک حقیقت تھی شبنم ابھی تک اس کے دل میں موجود تھی وسیم کی شادی کو چار سال ہو گئے اس کے ہاں اولاد نہ ہوئی ادھر شبنم کی شادی بھی التوا کا شکار تھی موقع ملتے شبنم نے وسیم کو پیغام بھیجا میرے ساتھ کورٹ میرج کرلو وسیم کو کیا چاہیے دو آنکھیں وہ پہلے ہی تیار بیٹھا تھا انہیں انجام کی پرواہ نہ تھی وہ دونوں اس وقت خود غرض بنے ہوئے تھے آخرکار ایک دن موقع ملتے ہی دونوں نے کورٹ میرج کرلی ان کے اس فیصلے سے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ زاہد اور شمائلہ تھے۔

ادہر پروین صدمے سے گنگ تھی دونوں خاندانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ بات اس حد تک چلی جائے گی شبنم کے والدین کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے تھے لوگوں نے طعنے مار مار کر شبنم کے والدین کی زندگی اجیرن کردی اور انہوں نے طعنے طعنے مار مار کر شمائلہ کی زندگی اجیرن کر دی لوگوں کے طعنے سن سن کر زاہد بھی اس سے بد دل ہوگیا تھا شمائلہ کی زندگی طعنوں کے اندر قید ہو گئی ماں باپ کی بہت یاد ستاتی مگر وہ مجبور تھی جا نہیں سکتی تھی گھر کے باہر جا نہیں سکتی تھی اس کے بھائی نے اسے اس قابل ہی نہ چھوڑا تھا کوئی اس کا غمگسار نہ تھا والدین کو اس کی بہت یاد ستاتی وہ وسیم کو کوسنے لگتے وہ اسے معاف کرنے کو تیار ہی نہ تھے وہ نفسیاتی طور پر پاگل ہو چکی تھی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2023/04/urdu-stories-urdu-font-1001.html


ان دنوں میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی کہ ایک روز، جب اسکول جانے کی تیاری کر رہی تھی، ہمارے محلے کی مسجد سے ایک اعلان سن...
22/10/2025

ان دنوں میں آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی کہ ایک روز، جب اسکول جانے کی تیاری کر رہی تھی، ہمارے محلے کی مسجد سے ایک اعلان سنائی دیا کہ ایک بچی کھجور کی ٹوکری میں لپٹی ہوئی ملی ہے۔ اگر اس کا کوئی وارث ہو تو فوراً رابطہ کرے۔قصہ کچھ یوں تھا کہ مسجد کے سامنے ایک پھل فروش دن بھر پھل فروخت کرتا تھا۔ وہ چند خالی لکڑی کے کھوکھوں پر کھجور کے ٹوکرے رکھ کر ان میں پھل سجا دیتا۔ گزرنے والے لوگ وہاں ٹھہرتے، اپنی ضرورت کے مطابق پھل خریدتے اور آگے بڑھ جاتے۔ مغرب کے وقت وہ اپنا کام سمیٹتا، بچے ہوئے پھل ریڑھی پر رکھ کر گھر لے جاتا، مگر کھجور کے بنے ٹوکرے وہیں چھوڑ دیتا۔ ان پر پلاسٹک کی چادر ڈال دیتا اور نیچے سے لکڑیوں سے باندھ کر چلا جاتا۔

اس روز فجر کی نماز کے لیے آنے والے ایک نمازی کی نظر پھل فروش کے ٹھیے پر پڑی۔ اچانک کھجور کے ٹوکروں کے پاس سے کسی ننھی بچی کے رونے کی آواز آئی۔ وہ متوجہ ہوا، جھک کر دیکھا تو ایک نوزائیدہ بچی تولیے میں لپٹی ہوئی تھی، جو غالباً بھوک کی شدت سے رو رہی تھی۔ نمازی فوراً دوڑ کر امام صاحب کے پاس پہنچا اور اطلاع دی۔ امام صاحب نے مسجد کے لاوڈ اسپیکر پر اعلان کروا دیا کہ اگر بچی کا کوئی وارث موجود ہے تو آ کر لے جائے۔ لیکن کوئی وارث نہیں آیا۔ شاید حقیقی وارث خود ہی اسے اس حالت میں چھوڑ گئے تھے۔یہ اعلان سن کر محلے کے کئی لوگ مسجد کے باہر جمع ہو گئے۔ انہی میں ہمارے پڑوسی ملک صاحب بھی تھے، جن کی بیوی نرم دل اور رحم دل مزاج کی مالک تھیں۔ جس صاحب کو بچی ملی، وہ بھی مسجد کے سامنے ہی رہتے تھے۔ ان کا نام اسد تھا۔

ملک صاحب کی بیوی نے فوراً اسد صاحب کو پیغام بھجوایا کہ اگر بچی لاوارث ہے اور وہ اسے نہ رکھ سکیں تو یہ معصوم ہمیں دے دیں، ہم اسے اپنی اولاد کی طرح پالیں گے۔ جب سب نے بچی کو دیکھا تو ہر ایک کا دل پگھل گیا۔ وہ دو یا تین دن کی لگتی تھی، خوبصورت سی فراک پہنے، صاف ستھرے تولیے میں لپٹی ہوئی۔ امام صاحب سے اسد صاحب نے درخواست کی کہ یہ بچی مجھے راستے میں ملی ہے، اس لیے اعلان کروایا کہ اگر کوئی قریبی وارث ہو تو پہنچ جائے۔ لیکن اگر کوئی نہ آیا، تو یہ بچی مجھے دے دی جائے۔ میری ایک ہی بیٹی ہے اور بیوی کی طبیعت کی خرابی کے سبب مزید اولاد ممکن نہیں۔ اگر اللہ نے ہمیں یہ نعمت دے دی ہے تو ہم اسے اپنی دوسری بیٹی سمجھ کر پالیں گے۔

تھانے میں رپورٹ درج کروا دی گئی، مگر کئی دن گزرنے کے باوجود کوئی بچی کو لینے نہ آیا۔ایک روز ملک صاحب کی بیوی خود اسد صاحب کے گھر گئیں اور ان کی اہلیہ سے بچی کو گود لینے کی درخواست کی، لیکن اسد صاحب کی بیوی نے انکار کر دیا۔ کئی روز تک اس واقعے کا ذکر اڑوس پڑوس میں ہوتا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ لوگ اس قصے کو بھول گئے، لیکن وہ بچی، جس کا نام مہوش رکھ دیا گیا تھا، اسد صاحب ہی کے گھر پرورش پاتی رہی۔ اسد صاحب کی بیوی نے اس بچی سے بے حد محبت کی، اپنی سگی بیٹی سے بڑھ کر اس کا خیال رکھا۔ ان کے طرزِ عمل سے اکثر لوگوں کو یہی گمان ہوا کہ یہ بچی واقعی ان ہی کی ہے۔ سوائے چند قریبی پڑوسیوں کے، باقی سب یہی سمجھتے رہے کہ اسد صاحب کی دو بیٹیاں ہیں۔

اسد صاحب شہر میں ایک معزز مقام رکھتے تھے۔ شاید اسی لیے بھی لوگوں نے اس لاوارث بچی کے بارے میں باتیں کرنا مناسب نہ سمجھا۔دولت مند کی نیکی جلد عظمت کی بلندیوں کو چھو لیتی ہے۔ کسی بے سہارا بچی کو اپنی ولدیت دینا، جسے سڑک کنارے لاوارث چھوڑ دیا گیا ہو، واقعی بڑا دل اور عظیم ظرف مانگتا ہے۔اسد صاحب نے کسی کی پروا نہ کی۔ اگرچہ معاشرے میں ایسے بچوں کو اپنانا باعثِ عار سمجھا جاتا ہے، مگر اسد اور ان کی اہلیہ نے ماہ وش کو دل سے اپنایا۔جب وہ پانچ برس کی ہوئی، تو اسے اسکول میں داخل کرواتے وقت، داخلہ فارم میں ولدیت کے خانے میں اسد صاحب نے اپنا نام درج کروایا۔

مہوش بے حد خوبصورت، ہوشیار اور بے حد ذہین نکلی تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا، بے اختیار اس سے محبت کرنے لگتا۔ جب سے اسد صاحب اور ان کی زوجہ نے اسے گود لیا تھا، ان کے گھر میں دھن دولت میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/10/najaiz-talaq.html


بانو کی ماں ایک غریب بیوہ تھی۔ اس کے اور بھی بچے تھے، جن کا پیٹ بھرنے کو وہ دن بھر محنت مزدوری کرتی تھی۔ بانو چونکہ ہمار...
22/10/2025

بانو کی ماں ایک غریب بیوہ تھی۔ اس کے اور بھی بچے تھے، جن کا پیٹ بھرنے کو وہ دن بھر محنت مزدوری کرتی تھی۔ بانو چونکہ ہمارے گھر کا کام کاج کر دیا کرتی تھی، تبھی اماں ان کے گھر کھانا وغیرہ بھجوا دیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ کپڑوں سے بھی مدد بہم پہنچاتی تھیں۔ اسی سبب سے بانو کی ماں نے بیٹی کو ہمارے حوالے کر رکھا تھا۔ان دنوں میرے بڑے بھائی شرجیل سیکنڈ ایئر کے طالب علم تھے۔ ان پر جانے کیا بھوت سوار ہوا کہ وہ اس لڑکی کو بہانے بہانے تنگ کرنے لگے۔ میں ان سے چار سال چھوٹی تھی، کچھ نہ کہہ سکتی تھی، مگر بھائی کی حرکتیں مجھے ایک آنکھ نہ بھاتی تھیں۔ ہونی ہو کر رہتی ہے، اور کسی کی بدنیتی چھپی نہیں رہتی۔ یہ بات سارے گھر کو معلوم ہو گئی، محلے تک پہنچی اور چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ عورتیں بانو کی ماں کو لعنت ملامت کرنے لگیں۔

تنگ آ کر اس نے بیٹی کا گھر سے نکلنا بند کر دیا۔ اماں اس وجہ سے پریشان تھیں کہ سارے گھر کا کام بانو کرتی تھی، اب ان پر بوجھ آپڑا تھا، اور شرجیل بھائی اس پابندی سے یوں چکرا گئے کہ گھر میں جو ایک دِل لگی کا سامان تھا، وہ نہ رہا۔ تاہم کچھ سیانوں نے شکر کیا کہ بانو کی ماں نے عقل مندی سے کام لیا، جو بیٹی کو گھر بٹھا لیا ہے۔ لیکن بھائی نے پھر بھی لڑکی کا پیچھا نہ چھوڑا اور بچوں کے ہاتھ خط لکھ لکھ کر بانو کو بھجوانے لگے۔ کبھی چھت پر آنے کو کہتے، اور بہت سی چیزیں اس وقت اس کو بھجواتے جب اس کی ماں گھر پر نہ ہوتی۔ بانو ناسمجھ تھی۔ شرجیل بھیا کی دھمکیوں میں آ جاتی اور ڈر کر ان کا کہا مان لیتی۔ کبھی وہ چھت پر آ جاتی، کبھی باڑے میں آ کر بیٹھ جاتی۔ یوں یہ برائی اپنی انتہا کو پہنچی، تو بانو کی ماں ایک دن گھبرا کر ہماری ماں کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اب تم ہی بتاؤ، میری بیٹی سے کون شادی کرے گا، تمہارا شرجیل قصوروار ہے، اب تم میری بیٹی کی شادی اپنے بیٹے سے کر دو۔

یہ بات سُن کر میری ماں آگ بگولا ہو گئیں۔ اس بیوہ کو بے نقط سنا دیں اور ایسے کلمات منہ سے نکالے کہ وہ غریب دم بخود رہ گئی۔ وہ بیچاری تو محلے والوں کے خوف سے بیٹی کو لے کر نجانے کہاں چلی گئی۔ جاتے جاتے البتہ بددعا دے گئی کہ خدا کرے تمہارا بیٹا بھی سہرے کی خوشیاں نہ دیکھ سکے۔ اماں نے کہا تھا کہ ہمارے ٹکڑوں پر پلی ہے اور اب ہماری برابری کرنے کو آ گئی ہے۔ بانو کی ماں کو غریب جان کر اماں ایسا بول تو گئیں، مگر یہ بھول گئیں کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

وقت گزرتے دیر نہیں لگتی۔ شرجیل بھائی نے گریجویشن مکمل کر لی، ملازمت بھی اچھی مل گئی، تبھی میری ماں کو بیٹے کے سر پر سہرا سجانے کی سوجھی۔ ان دنوں پاکستان اور بھارت میں رشتہ داروں سے ملنے کو آنا جانا آسان تھا۔ وہاں سے لوگ اپنے لڑکوں کے لیے قریبی رشتہ داروں کی لڑکیاں بھی بیاہ کر لے آتے تھے۔اماں اپنے بھائی علم الدین سے بے حد محبت کرتی تھیں، جو بھارت میں رہتے تھے۔ ان سے ناتا جوڑے رکھنے کو وہ ان کی لڑکی رافعہ سے بیٹے کا عقد چاہتی تھیں۔ لہٰذا اپنی دیرینہ آرزو پوری کرنے کو انہوں نے ماموں کو دہلی خط لکھا۔ ماموں نے جواب دیا کہ بہن، میری بیٹی تمہاری بیٹی ہے، جب چاہو آؤ اور رافعہ کو بہو بنا کر لے جاؤ۔یہ نوید ملتے ہی والدہ نے کسی کو بتائے بغیر پاسپورٹ اور ویزا تیار کرایا اور شرجیل بھائی کو لے کر بھارت چلی گئیں۔ شرجیل بھائی تو سدا کے دل پھینک تھے، جس لڑکی کو دیکھتے دل ہار بیٹھتے۔ رافعہ پڑھی لکھی، سلجھی ہوئی، بات کرنے کا سلیقہ رکھنے والی، اچھے اطوار کی اور خوبصورت بھی تھی۔ عرض، کون کافر ایسے رشتے سے انکار کرتا۔ شرجیل بھائی نے فوراً ہاں کر دی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/08/bhabhi-sy-nikah.html


اسپتال کے پارکنگ ایریا میں سارجنٹ اسکاٹ نے اپنی گاڑی پارک کی اور ایمرجنسی انٹری پوائنٹ کی جانب بڑھ گیا۔ اس کا ماتحت مائی...
22/10/2025

اسپتال کے پارکنگ ایریا میں سارجنٹ اسکاٹ نے اپنی گاڑی پارک کی اور ایمرجنسی انٹری پوائنٹ کی جانب بڑھ گیا۔ اس کا ماتحت مائیکل بھی اس کے ساتھ تھا۔سارجنٹ اسکاٹ کو آج اسپتال کے ایک ڈاکٹر کی جانب سے کال موصول ہوئی تھی۔ ڈاکٹر کے مطابق اسپتال میں دو خواتین کی لاشیں لائی گئی تھیں۔ ایک کا نام مارگریٹ جبکہ دوسری کا نام فیری تھا۔ مارگریٹ اپنا چھوٹا سا بزنس چلاتی تھی اور فیری اس کے ہاں ملازمت کرتی تھی۔ آج ان کے آفس میں ایک چھوٹی سی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں کھانے کے ساتھ وائن کا بندوبست بھی کیا گیا۔ جیسے ہی ان دونوں خواتین نے وائن پی چند لمحوں بعد ان کی حالت بگڑ گئی۔

ڈاکٹر نے سارجنٹ اسکاٹ کو یہ بھی بتایا تھا کہ اسپتال پہنچنے سے پہلے دونوں خواتین کی موت واقع ہو چکی تھی۔ ان کے ساتھ دفتری عملے کے جو دو افراد آئے تھے ان کا خیال تھا کہ شاید ان خواتین کو فوڈ پوائزننگ ہوئی ہے کیونکہ وائن تو دفتر کے تمام عملے نے بھی پی تھی لیکن کسی کو کچھ نہیں ہوا۔ مزید یہ کہ وائن سب کو علیحدہ علیحدہ پیش نہیں کی گئی تھی بلکہ ایک بڑے واٹر کولر میں ڈال کر ٹیبل پر رکھی گئی تھی اور سبھی نے اسی کولر سے گلاس بھر کر پیا تھا-ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ بظاہر یہ کوئی مرثر کا کیس نہیں لگتا، تاہم اس نے پولیس کو اطلاع دینا ضروری سمجھا کیونکہ مردہ خواتین کی رنگت دیکھ کر ایسا گمان ہو رہا تھا جیسے ان کی موت کسی زہر کے باعث ہوئی ہو۔ اصل صورتحال پوسٹ مارٹم کے بعد ہی واضح ہوسکتی تھی۔سارجنٹ اسکاٹ کو اطلاع دینے والے ڈاکٹر کا نام ڈاکٹر انتھونی تھا۔ سارجنٹ انہیں اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ اس شہر کے چند قابل ترین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیے اگر انہوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ خواتین کو زہر دیا گیا ہے تو ان جیسے سینئر ڈاکٹر کے خیال کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

سارجنٹ نے فیصلہ کیا کہ وہ ان افراد سے بھی ملاقات کرے گا جو لاشوں کو اسپتال لائے تھے تاکہ ان سے مزید سوالات کر کے یہ طے کیا جا سکے کہ خواتین کی موت حادثاتی تھی یا کسی نے انہیں جان بوجھ کر قتل کیا تھا۔ سارجنٹ اس بات سے واقف تھا کہ فوڈ پوائزننگ سے عام طور پر موت واقع نہیں ہوتی، البتہ بعض نایاب کیسز ضرور اس کے مشاہدے میں آئے تھے۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ کیا یہ دونوں خواتین واقعی فوڈ پوائزننگ کا شکار ہوئیں یا پس پردہ کوئی اور کھیل کھیلا گیا تھا۔ڈاکٹر انتھونی کے آفس میں وہ پہلے بھی آتا رہا تھا اس لیے وہاں تک پہنچنے کے لیے اسے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اپنے ماتحت کے ہمراہ آفس کی کرسیوں پر بیٹھا تھا اور ڈاکٹر انتھونی اس کے سامنے موجود تھے۔ڈاکٹر انتھونی نے کہا کہ انہوں نے صرف شک کی بنیاد پر فون کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ڈیڈ باڈیز کا پوسٹ مارٹم ہونا چاہیے۔ پوسٹ مارٹم کے بعد ہی اصل صورتحال واضح ہوگی تاہم یہ اسی وقت ممکن ہے جب کیس کو پولیس کیس قرار دیا جائے۔سارجنٹ اسکاٹ نے پوچھا کہ انہیں کس بنیاد پر شک ہوا کہ دونوں خواتین کو زہر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے یہ واقعی فوڈ پوائزننگ کا معاملہ ہو۔ڈاکٹر نے وضاحت کی کہ فوڈ پوائزننگ میں اس طرح اچانک اور فوری موت کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔ ایمبولینس کے ہمراہ آنے والے افراد نے بتایا تھا کہ سب نے اکٹھے کھانا کھایا اور وائن بھی ایک ہی واٹر کولر سے پی تھی۔ اگر کھانا یا وائن زہریلی ہوتی تو دوسروں پر بھی اثر ہوتا مگر کسی اور کو کچھ نہیں ہوا۔ اسی بنا پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دونوں خواتین کی موت مشکوک ہے۔ مزید یہ کہ سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ دونوں کی موت ایک ہی وقت پر ہوئی۔

فوڈ پوائزننگ کے اثرات ہر انسان پر مختلف انداز میں ظاہر ہوتے ہیں، اس لیے ایک ہی وقت پر دونوں کا مرنا غیر معمولی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ انہوں نے اپنی رائے دے دی ہے، اب فیصلہ پولیس کے ہاتھ میں ہے۔میں ان دونوں افراد سے ملنا چاہتا ہوں۔ بہتر ہے کہ آپ ان کو دفتر میں ہی بلا لیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ معاملہ اتنا سیدھا ہے جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ سارجنٹ اسکاٹ نے کہا تو ڈاکٹر انتھونی نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے ٹیبل پر ركها انثر کام اٹھایا اور کسی کو ہدایات دینے لگے۔کچھ ہی دیر میں سارجنٹ اسکاٹ کے سامنے وہ دونوں افراد موجود تھے۔ ڈاکٹر انتھونی ان کو اپنے آفس میں بلانے کے بعد خود وارڈ کے راؤنڈ پر نکل گئے تھے۔ سارجنٹ اپنے ماتحت مائیکل کے ہمراہ ان دونوں افراد سے پوچھ گچھ کا آغاز کر چکا تھا ۔ اُس کا خیال تھا کہ دونوں افراد کی عمریں پچاس کے آس پاس ہی ہوں گی۔ ایک نے اپنا نام رابرٹ جبکہ دوسرے نے جانسن بتایا۔ وہ دونوں مس مارگریٹ کے آفس میں تقریباً دس برس سے ملازمت کرتے تھے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/qatil-kon.html


نئے فالورز کا بہت شکریہ ❤️❤️Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard! Hafiz Kashif Ur Rehman, Geo P...
22/10/2025

نئے فالورز کا بہت شکریہ ❤️❤️

Shout out to my newest followers! Excited to have you onboard! Hafiz Kashif Ur Rehman, Geo Pakistan, Shamshad Ahmed, Rashid Moriani, Nasir Mehmood, AZ AV, Aadil Shahzad, Asim Kayani, Muhbat Khan, Asif Dard, Kashif Dhillon Kashi Bhi, Ch Numan Nomi, Hony Haider, Firdous Khan, Meryum Khan, Muhammad Shahzad, Usman King, Rashid Gul Bahar, Ashraf Jutt, Yasir Shah, Hassan Butt, Zafran Khan Zafran, Faisal Zaibi, Fawad Khan, Shahol Aisha, Sadam Khosa, Fazal Bari, Syed Ali Hussain Shah, Ayaz Ali, Ch Mohsin, Rashid Farman, Asad Mahmood, Muhammad Zubair Sandhu, Siraj Din, حاجی صابر کاکڑ, Shakir Rana, Reyyan Javed, Shmas O Rahman, Gulzareen Khan Raisani, Syed Mursaleen Kazmi, Faisal Ali, Muhammad Kashif Mahar, Nila Shakh, Rizwan Ahmad, Hamara Sitara, Aqib Nazir, Saeed Lehri, Waqas Malak, Muhammad Umar Farooq, Syed Ejaz Shah Shah

باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس نہ ہوا اور رات ہو گئی۔ تب وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ اچھا اب میں...
21/10/2025

باتیں کرتے کرتے وقت کا احساس نہ ہوا اور رات ہو گئی۔ تب وہ گھبرا گئی اور کہنے لگی کہ رات کے گیارہ بج رہے ہیں۔ اچھا اب میں ایسا کرتی ہوں کہ اپنی سہیلی روپا کو فون کر دیتی ہوں کہ اگر میرے گھر سے فون آئے تو کہہ دے کہ میں اس کے گھر رات رک گئی تھی۔اس نے پہلے سہیلی کو فون کیا، پھر اپنی والدہ کو فون کر کے بتایا کہ اسے سہیلی کے گھر سے نکلنے میں دیر ہو گئی ہے کیونکہ پارٹی دیر سے ختم ہوئی ہے، تو وہ اب روپا کے گھر پر ہی رکے گی اور صبح گھر آجائے گی۔
👇👇
یہ قصہ برصغیر کے بٹوارے سے چند برس قبل کا ہے۔ ان دنوں ہمارے دادا بمبئی سے کراچی آ کر آباد ہو چکے تھے۔ وہ ایک تاجر تھے اور تجارت کے سلسلے میں بمبئی سے یہاں آتے جاتے رہتے تھے۔ بعد میں یہاں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ چندن کا تعلق بھی بمبئی کے ایک معزز گھرانے سے تھا اور یہ لوگ ہمارے ہم زبان تھے۔ گجراتی ان کی مادری زبان تھی۔ چندن کے دادا نے بھی کراچی شہر کا ہی انتخابِ غرضِ تجارت کیا تھا، لہٰذا ہمارے بزرگوں کا آپس میں گہرا دوستانہ تعلق تھا۔

جب انگریزوں کی حکومت تھی، وہ اس شہر کی تعمیر نو اور ترقی کے کئی منصوبوں پر پیہم مصروف کار رہے تھے اور کراچی کی توسیع میں انہوں نے اہم کام کیے تھے، جس کے بدولت اب یہاں پختہ سڑکیں اور دیگر سہولیات میسر تھیں۔ یہ نیا علاقہ پرانے شہر سے، جو فصیل کے اندر ہوا کرتا تھا اور جہاں قدیمی رہائش آباد تھی، بالکل الگ تھلک تھا۔ نئے علاقے کی تعمیر میں انگریزوں نے اپنے قیام کی خاطر خاص توجہ دی تھی۔ صاف پانی کی فراہمی، معیاری سڑکیں، سیوریج کی نکاسی اور بہترین ٹاؤن پلاننگ پر کام کیا جا چکا تھا اور صفائی ستھرائی کی صورت حال بھی بہترین ہو چکی تھی۔

انگریزوں نے پوری توجہ تجارتی سرگرمیوں پر مرکوز رکھی تھی اور بندرگاہ سے شہر تک رسائی کے راستے تعمیر کرا کے قلیل مدت میں شہر میں کامیاب تجارتی منڈی قائم کر دی تھی۔ تبھی بمبئی اور دیگر علاقوں سے آئے ہوئے تاجر یہاں رہائش اختیار کیے ہوئے تھے۔ میرے اور چندن کے بزرگوں نے بھی یقینا اسی سبب سے بمبئی سے یہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کو سوچا ہو گا، کیونکہ یہاں انہیں مال رکھنے کے لیے گوداموں کی بہترین سہولت سستے داموں میسر آ گئی تھی۔ہمارے خاندانوں کو نقل مکانی ہوئے تھوڑا عرصہ گزرا کہ بنوارہ ہو گیا اور ہم جو پہلے ہندوستانی تھے، پاکستانی ہو گئے۔ تاہم ہمارے کچھ عزیز و اقارب واپس بمبئی چلے گئے مگر میرے والد نہ گئے۔ انہوں نے گارڈن کے علاقے میں بہت عمدہ گھر بنالیا تھا۔ چندن کے والد میرے والد کے تجارتی شراکت دار اور اچھے پڑوسی بھی تھے، لہٰذا انہوں نے بھی اصرار کیا کہ والد اپنا گھر بار اور کاروبار چھوڑ کر نہ جائیں۔ہم دو بہنیں تھیں، ہمارا کوئی بھائی نہ تھا۔

والد صاحب اپنے پڑوسی کے بیٹے چندن سے بہت پیار کرتے تھے اور اسے اپنا بیٹا کہہ کر بلاتے تھے۔ بعد میں جب ہم بڑے ہو گئے تو انہوں نے چندن سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میں ان دنوں میٹرک میں تھی۔ جب ہماری بات طے پائی کہ جب میں اور چندن تعلیم مکمل کر لیں گے تو ہماری شادی کر دی جائے گی۔ میں تو چندن سے منگنی کے بندھن میں بندھ جانے سے خوش تھی مگر اس کے دل کا حال نہ جانتی تھی کیونکہ ان دنوں منگنی کے بعد لڑکے اور لڑکی کے آپس میں آزادانہ میل جول کا رواج نہیں تھا۔نہیں جانتی تھی کہ میری بدقسمتی کا آغاز اس دن سے ہو گیا تھا جب چندن ایک دن جماعت خانہ گیا تھا، وہاں اس نے ایک ایسی لڑکی کو دیکھا جس کو بے اختیار اپنانے کا دل چاہنے لگا۔ یوں جو بات پلکوں کے پل سے شروع ہوئی، ملاقاتوں کے باغ تک جا پہنچی۔ اس لڑکی کا نام مہ پارہ سمجھ لیں۔ پہلے پہل تو چندن اور مہ پارہ کسی سینما ہال میں ملا کرتے تھے، پھر یہ ملاقاتیں شاپنگ پر طویل ہونے لگیں۔

چندن اپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی جیب نوٹوں سے بھری رہتی تھی۔ وہ پارو پر پیسے بے حساب خرچ کرتا اور اپنے دل کی خوشیاں خریدتا رہا۔ جب پارو کی مہنگی فرمائشوں پر اخراجات حد سے بڑھ گئے تو والدین نے اس پر روک ٹوک شروع کر دی۔ اس پر تو عشق کا بھوت سوار تھا۔ اس نے بھی والدین سے لڑائی مول لے لی۔پارو ایک آزاد خیال اور ماڈرن لڑکی تھی۔ وہ چندن کے ساتھ ہر جگہ جانے پر تیار ہو جاتی۔ چندن کے والد ان دنوں فلیٹ کا کاروبار بھی کر رہے تھے تاکہ انہیں بعد میں اچھے داموں فروخت کر سکیں۔ ان فلیٹوں کا انتظام چندن کے ہاتھ میں تھا۔ ان میں سے ایک فلیٹ کو چندن نے اپنی رہائش گاہ بنا لیا تھا۔ اسے فرنیچر سے آراستہ بھی کر دیا تھا۔ یہ فلیٹ پارو کو بہت پسند آیا۔ اس نے کہا کہ چندن بجائے پبلک پلیس پر ملنے کے، کیوں نہ ہم اسی فلیٹ میں ملا کریں تاکہ بلا جھجک اور سکون سے ایک دوسرے سے بات چیت کر سکیں۔اب جب بھی ان کو ملنا ہوتا، فون کر کے وقت طے کر لیتے۔ مہ پارہ چندن کے فلیٹ پر آ جاتی اور یہ سکون بھری ملاقات کر لیتے۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/tanhai-ki-tapash.html

تایا کی بیٹی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھی۔ اس نے وہاں اپنے کسی کلاس فیلو کو پسند کر لیا تھا، اور اس سے شادی کا وعدہ بھی ...
21/10/2025

تایا کی بیٹی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھی۔ اس نے وہاں اپنے کسی کلاس فیلو کو پسند کر لیا تھا، اور اس سے شادی کا وعدہ بھی کر لیا تھا۔ جب تایا نے بیٹی کا رشتہ راحت سے طے کرنے کی بات کی، تو لڑکی نے صاف انکار کر دیا۔ بولی کہ میں ہرگز راحت سے شادی نہ کروں گی۔
👇👇
میرے والد کے دو بھائی تھے۔ ابا کو ان سے بہت محبت تھی۔ غرض کہ یہ تینوں ہی یک جان تین قالب تھے۔ تایا اور چچا مالی طور پر خوشحال تھے جبکہ ہمارے حالات ذرا پتلے تھے۔ والد نے سوچا، کیوں نہ دیارِ غیر جاؤں؟ وہاں کی کمائی سے میرے بچے بھی خوشحالی اور سکھ دیکھ لیں گے۔ان دنوں میں سات برس کی اور بھیا راحت نو سال کے تھے کہ ابّا جی ہم دونوں کے لیے خوشیاں اور سکھ کمانے کویت چلے گئے۔ ان کا تین سال کا معاہدہ وہاں کی ایک کمپنی سے ہوا، جہاں ان کو ملازمت ملی تھی۔ یہ تین سال ہم ان کے لوٹ آنے کے منتظر، دن گن گن کر گزارتے رہے۔

جب ان کے آنے میں ایک ماہ رہ گیا، تو زندگی نے وفا نہ کی، اور وہ ہماری منتظر نگاہوں کو پیاسا چھوڑ کر چل بسے۔ان کے دیارِ غیر میں گزر جانے کی خبر سے ہمارے معصوم دلوں پر جو گزری، وہ دل ہی جانتا ہے۔ ہم بہن، بھائی اور امی کی آنکھوں سے برسات کی جھڑی لگ گئی تھی۔ تایا اور چچا بھی اداس تھے۔ وہ ہماری اشک شوئی کو روز آتے، ہمیں گلے سے لگاتے، امی کو تسلی دیتے، لیکن والدہ کا اب گھر میں اکیلے رہنا دوبھر ہو رہا تھا۔ ان کے سر سے چادر اڑ گئی تھی، وہ جوانی میں اکیلی رہ گئیں، اور اکیلے رہنے سے ساری دنیا باتیں بنانے والی تھی۔ تبھی چچا نے ان کو مشورہ دیا کہ بھابھی، دونوں بچوں کے ہمراہ ہمارے ساتھ چلو اور اپنا مکان کرائے پر اٹھا دو۔ ماشاءاللہ میرے گھر میں کافی جگہ ہے، اور مکان سے تم کو ہر ماہ معقول کرایہ بھی آتا رہے گا۔ والدہ مان گئیں۔ ان کو ہماری بھی فکر تھی۔ وہ ہماری دیکھ بھال بغیر سرپرست کے نہیں کر سکتی تھیں۔

چاہتی تھیں کہ تایا یا چچا کی سرپرستی میں ان کے بچے پروان چڑھیں۔ تائی الگ مزاج کی تھیں، ان کے گھر میں سمانا ہمارے لیے مشکل تھا۔ چچا ہمارے سرپرست بن گئے، اور چچی نے ہمیں پیار سے رکھ لیا۔ دونوں ہی یہ چاہتے تھے کہ میرا بھائی راحت تعلیم حاصل کر لے تو وہ اپنی لڑکی فیروزہ کو اس سے بیاہ دیں۔ مگر راحت بھیا میٹرک نہ کر سکے، تبھی چچا مایوس ہو گئے اور اپنی بیٹی کی راحت سے شادی کا ارادہ ترک کر دیا۔ وہ اب بیٹی کے لیے کسی اور اچھے رشتے کی تلاش میں لگ گئے۔ چچی بھی اس کے بعد ہم سے بددل ہو گئیں، کہ جس مقصد کے لیے ہم لوگوں کو پال رہی تھیں، وہ پورا ہوتا نظر نہ آ رہا تھا۔ پس، ان کا رویہ امی جان سے سرد ہو گیا۔میری والدہ نے ان کی بے رخی کو محسوس کر لیا اور راحت بھائی کے دل پر بھی چوٹ لگی۔ اس نے بہت کوشش کی، لیکن پڑھائی میں اس کا دماغ چلتا ہی نہیں تھا۔

لگتا تھا جیسے باپ کی دائمی جدائی کے بعد ذہن مفلوج ہو گیا ہو۔چچا نے راحت کو اپنے ساتھ کاروبار میں لگانے کی کوشش کی، لیکن کاروبار کی سوجھ بوجھ نہ ہونے کے سبب اس کا وہاں بھی جی نہ لگا۔ اگر اس سے غفلت ہو جاتی، تو چچا بری طرح ڈانٹتے، گھنٹوں نصیحت کرتے۔ راحت نے اس صورتحال سے پریشان ہو کر کاروبار میں معاونت سے انکار کر دیا۔ چچا غصے میں آپے سے باہر ہو گئے، اور انہوں نے ہم سے منہ پھیر لیا۔ تبھی ان کی بیوی نے ایک روز راحت کو گھر سے نکال دیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/10/talaq-ka-gham.html


ان دنوں جب میں میٹرک میں پڑھتی تھی، میری واحد دوست نوشین تھی۔ ہم دونوں کے گھر ایک ہی محلے میں واقع تھے، اس لیے ہم اکٹھے ...
21/10/2025

ان دنوں جب میں میٹرک میں پڑھتی تھی، میری واحد دوست نوشین تھی۔ ہم دونوں کے گھر ایک ہی محلے میں واقع تھے، اس لیے ہم اکٹھے اسکول جایا کرتے تھے۔ ہمارے اسکول کے سامنے ہی کچھ بیرکس بنی ہوئی تھیں، جن میں کیڈٹس ٹریننگ لیا کرتے تھے۔ اسکول جاتے ہوئے نوشین اکثر ان بیرکس کی طرف دیکھتی تھی، جہاں سے چاق و چوبند، خوبرو کیڈٹس کبھی ویسے ہی، اور کبھی پریڈ کرتے ہوئے نظر آتے تھے۔

میرا تعلق ایک خوشحال گھرانے سے تھا، جب کہ میری سہیلی کا تعلق لوئر مڈل کلاس سے تھا۔ وہ ایک کمرے کے کوارٹر میں اپنے ماں باپ اور چھ بہن بھائیوں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کے والد بیرکس کے خانساماں تھے، لہٰذا انہیں رہائش، کھانے اور طبی سہولیات میسر تھیں، یوں ان کا گزر بسر بہتر ہو رہا تھا۔

ایک دن جب ہم اسکول جا رہے تھے تو کیڈٹس کی پریڈ ختم ہو چکی تھی، اور وہ اپنے رہائشی یونٹس کی طرف جا رہے تھے۔ انہی میں گلریز خان بھی تھا، جو نہایت خوبرو، لمبے قد اور سرخ و سفید رنگت والا نوجوان تھا۔ نوشین کے والد کی ملازمت کے باعث وہ نوشین کو جانتا تھا، کیونکہ اس کا کھانا انہی کے والد پکاتے تھے۔ میری سہیلی کو یہ کیڈٹ بہت پسند تھا۔ اس کا دل چاہتا تھا کہ وہ گلریز سے بات کرے، مگر وہ ہمیشہ بے نیازی سے ہمارے پاس سے گزر جاتا تھا۔

ایک دن وہ اچانک ہمارے راستے میں آ گیا، تو نوشین کے کہنے پر میں نے اسے سلام کیا۔ وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا، تو میں نے فوراً کہا، “معاف کیجیے گا، جان پہچان کے لیے یہ بہت ضروری تھا۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ نوشین نے ایک رقعہ آگے بڑھا دیا، جو وہ پہلے سے لکھ کر لائی تھی۔ اگلے روز پھر وہی نوجوان ہمیں راستے میں ملا۔ اس بار اس نے بھی ایک رقعہ آگے بڑھایا۔ نوشین نے اسے لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا، مگر اس نے وہ پرچہ مجھے تھما دیا اور آگے بڑھ گیا۔ میں نہیں جانتی کہ اس حرکت پر نوشین کے دل پر کیا گزری، مگر راستے بھر وہ خاموش رہی۔ کلاس میں آتے ہی اس کا موڈ بگڑ گیا اور اس کا رویہ میرے ساتھ نہایت درشت ہو گیا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ گلریز کو پسند کرتی ہے۔ چھٹی کے وقت جب ہم نے وہ رقعہ کھولا تو اس میں لکھا تھا: میں آپ کا نام نہیں جانتا، مگر نام جاننے اور دوستی کے لیے یہ بہت ضروری تھا، تبھی رقعہ لکھنا مناسب سمجھا۔ اور ہاں، میرا نام گلریز خان ہے۔ ساتھ ہی اس نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔

چھٹی کے بعد جب ہم اسی راستے سے واپس آئے تو وہ پھر ہمیں نظر آ گیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھے بغیر آگے بڑھنا چاہا، مگر وہ ہمارے راستے میں آ گیا اور کہنے لگا: آپ نے جواب نہیں دیا۔ بوکھلاہٹ میں میں صرف اتنا کہہ پائی، فون پر جواب دوں گی۔ اس نے پوچھا، کس وقت؟ گھبراہٹ میں، اسے ٹالنے کے لیے کہہ دیا، شام کے وقت۔ میں نے یہ تو کہہ دیا، مگر نوشین میرے پیچھے پڑ گئی کہ فون کرو۔ جب اس نے بہت مجبور کیا تو خود ہی نمبر ملا کر فون میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/hasad-saheeli.html


میں جس عورت کو ماں پکارتی تھی، وہ میری ماں نہیں تھی۔ کسی نے مجھے بہاولپور کے قریبی ایک گاؤں سے اغوا کیا تھا۔ میں اپنے ما...
20/10/2025

میں جس عورت کو ماں پکارتی تھی، وہ میری ماں نہیں تھی۔ کسی نے مجھے بہاولپور کے قریبی ایک گاؤں سے اغوا کیا تھا۔ میں اپنے ماں باپ کے ساتھ چولستان سے میلہ دیکھنے اس گاؤں آئی تھی۔ میری ماں کی آواز بہت اچھی تھی۔ جب وہ صحرائی گیت گاتی تو خشک سالی میں بھی بادل گھر آ جاتے تھے۔ مجھے بھی سریلی آواز ملی تھی۔ لوگ کہتے، یہ لڑکی تو اپنی ماں سے بھی زیادہ اچھا گاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سروں کی ملکہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا ہے، اور یہ بات سچ تھی۔ شاید قدرت کی طرف سے سروں کا خزانہ مجھے اسی سبب عطا ہوا تھا کہ اس کی بدولت آگے جا کر میری زندگی بدلنے والی تھی۔

ایک روز میں اپنے والدین کے ساتھ میلے میں گئی۔ وہاں میری ماں جب صحرائی گیت گاتی تو لوگ اکٹھے ہو جاتے، میرے والد ساز بجاتے، اور یوں ان گیتوں کو سننے والا مجمع روپے دیتا، جس سے کافی رقم اکٹھی ہو جاتی۔ اتنے روپے مل جاتے کہ جن سے ہم ضرورت کی اشیاء خریدتے اور یوں سال بھر کا گزارہ ہو جاتا۔ اس وقت میری عمر پانچ سال ہو گی۔جب میلے میں میری ماں گیت گا رہی تھی، تو ہجوم اکٹھا ہو گیا اور میں اس ہجوم میں کھو گئی۔ گیت ختم ہوا تو میں نے ماں باپ کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ تبھی ایک عورت اور مرد قریب آئے اور مجھ سے کہا کہ تمہارے ماں باپ وہاں سامنے درخت کی چھاؤں میں کھڑے تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں۔ میں ان کے پیچھے ہولی اور وہ مجھے دور لے گئے۔

جب چلتے چلتے تھک گئی تو میں نے پوچھا، کہاں ہیں میرے ماں باپ؟ انہوں نے کہا، وہ شاید کھانا کھانے ہوٹل پر چلے گئے ہیں، آؤ اُدھر دیکھتے ہیں۔ اچانک ایک لاری آئی اور انہوں نے مجھے اس میں سوار کر دیا۔ مجھے علم نہیں تھا کہ بچے اغوا بھی ہوتے ہیں اور انہیں انسان ہی اٹھا لے جاتے ہیں۔ وہ کہنے لگے، بچی تم اپنے گاؤں کا نام بتا دو، یہ لاری ہمیں وہاں لے جائے گی۔ میں نے گاؤں کا نام بتا دیا کیونکہ ہمارے گاؤں کے پاس ایک سڑک تھی جہاں سے کبھی کبھی لاریاں گزرتی تھیں۔ یوں وہ مجھے ملتان لے گئے اور ایک عورت کو بیچ دیا۔ تب سے وہی میری ماں ہے۔ اس کے پاس مجھ جیسی تین اور بھی لڑکیاں تھیں جن کو ناچ گانے کی تربیت دی جاتی تھی۔اللہ نے مجھے اچھی آواز دی تھی۔ میری منہ بولی ماں نے میرے گلے کے سروں کو پہچان لیا اور گائیکی سکھانے والے ماہر استاد کے سپرد کر دیا۔

کچھ دن تو میں اپنے ماں باپ اور گاؤں کو یاد کر کے روتی رہی، پھر اس ماحول میں ڈھل گئی کیونکہ مجھے یہاں اور تو کوئی تکلیف نہ تھی، سوائے والدین سے جدائی کے۔ یہ ماں مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، میرا ہر طرح سے خیال رکھتی، اچھا کھانا دیتی، اچھا پہناوا دیتی، اور گھر پر ہی چار جماعتیں بھی پڑھواتی۔ باقاعدہ ایک ماسٹر صاحب ہمیں پڑھانے آتے تھے تاکہ ہم لکھی ہوئی گیت اور غزلیں پڑھ کر یاد کر سکیں۔جب کسی کے اپنے کھو جائیں اور ان سے ملنے کی امید بھی باقی نہ رہے، تو غیر ہی اپنے بن جاتے ہیں۔ میں بھی گلاں ماں کو اپنی ماں ہی سمجھنے لگی، جن کا اصل نام گل صنوبر تھا۔ سب انہیں گلاں ماں بلاتے تھے۔ایک روز اماں گلاں نے بتایا کہ بہاول نگر کے زمیندار ارشد خان کا بلاوا آیا ہے، ہمیں ان کے ڈیرے پر جانا ہے۔ تب میں بیس سال کی ہو چکی تھی۔ ماں نے بتایا کہ محفل غزل کا جگارا ہے۔

ساری رات یہ محفل موسیقی چلے گی کیونکہ گانے کی محفل ہے، اس لیے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ وقت مقررہ پر ہم جانے کو تیار بیٹھے تھے کہ اماں کی طبیعت خراب ہو گئی۔ ہمیشہ وہ میرے ساتھ جاتی تھیں، لیکن اچانک طبیعت بگڑ جانے کی وجہ سے وہ لیٹ ہو گئیں۔ مجھ سے کہا کہ میں خان صاحب سے وعدہ کر چکی ہوں، اس لیے تمہیں جانا ہی ہوگا۔ عین وقت پر انکار نہیں کر سکتی۔ ان کے مہمان آنے والے ہیں، لہٰذا تم سازندوں کے ساتھ چلی جاؤ۔ یہ سازندے بھی اماں گلاں کے لوگ تھے، اس لیے مجھے ان کے ہمراہ روانہ کر دیا گیا۔جب گاڑی ملتان سے بہاول نگر پہنچی تو شام ڈھل رہی تھی۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)

https://sublimegate.blogspot.com/2025/10/makar-aowrat.html


Address


Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sublimegate Urdu Stories posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share