
24/09/2025
شمس کے حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا۔ مجھے اس شخص کے پر خلوص ہونے کا یقین آگیا اور میں مسلمان ہونے پر تیار ہو گئی۔ موقع دیکھ کر کرسی پر چڑھ کر الماری سے چابیاں اُٹھائیں اور دو ہزار کی رقم نکالی۔ تب دو ہزار ایک خطیر رقم ہوتی تھی۔ رات کا اندھیرا پھیلتے ہی میں گھر سے نکل گئی۔ شمس اپنی گھوڑی لیے میرا منتظر تھا۔ اس نے جلدی سے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا اور گھوڑی کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے اپنےگاؤں لے آیا۔
👇👇
میرے والدین ایک ہندو گھرانے سے تھے اور سندھ میں رہتے تھے۔ جب برصغیر کو آزادی ملی اور انگریز جانے لگے، اور بٹوارہ ہوا، تو ہمیں سندھ سے بھارت نقل مکانی کرنے کو کہا گیا کیونکہ یہاں فسادات کی آگ پھیلنے کا خطرہ تھا۔ مشرقی پنجاب میں فسادات شروع ہو گئے تھے، جن کی ہولناک خبریں سن کر میری ماں نے ضروری سامان باندھ لیا۔ جب ہم نقل مکانی کرنے لگے، تو ایک بنیئے نے ہمیں روک لیا۔ دراصل پتا جی نے اس سے قرض لیا تھا، تب ہی اس نے والد کو بھارت جانے سے روکا اور مطالبہ کیا کہ پہلے میرا قرض ادا کرو، تبھی جا نےدوں گا۔ پتا جی کے پاس قرض ادا کرنے کے لیے رقم نہیں تھی۔ ہمارا سامان بندھا ہوا تھا۔
جب وہ رام لال ہمارے گھر آیا، تو اس کی نظر مجھ پر پڑی۔ ان دنوں میں سات برس کی تھی۔ ہم ذات کے تھے۔ رام لال کی رال مجھے دیکھ کر ٹپک پڑی۔ وہ کہنے لگا کہ اگر میرا قرض نہیں دے سکتے، تو اپنی بیٹی مجھے دے دو۔ میں بھی ہندو ذات کا ہوں۔ تمہاری لڑکی کی حفاظت رکھوں گا۔اس وقت حالات خراب تھے، فسادات آگ کی طرح بڑھ رہے تھے۔ مجبوراً میرے والد نے اس بنیئے کے ساتھ میری شادی کے پھیرے لگا دیے۔ یوں تقدیر نے مجھے ساٹھ سالہ بڑھے کی بیوی بنا دیا۔ درحقیقت رام لال کی دو بیویاں مر چکی تھیں اور اب اس کو اپنے لیے کوئی مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا۔ یوں والد کی مجبوری سے فائدہ اُٹھایا اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیے، پھر اس نے ہمارے خاندان کو بھارت کی طرف کوچ کرنے کی اجازت دے دی۔
جب میرا پریوار بھارت جا رہا تھا، میں ان کو جاتے دیکھ کر سسک رہی تھی۔ یہ لمحات میرے لیے بہت بھاری تھے۔ ماں باپ، بہن بھائی بھی مجھے ناچار روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ پتا جی نے عافیت اسی میں جانی کہ ایک بیٹی کی قربانی دے کر باقی کنبے کو بچا لیا جائے۔ میں اتنی سمجھدار نہ تھی کہ بٹوارے کی باتوں کو سمجھ پاتی۔ میرا چھوٹا سادہ دماغ یہی سوچتا تھا کہ آخر کیوں یہ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر کسی اور جگہ جا رہے ہیں۔ میں بچی تھی، اس لیے رام لال نے مجھے اپنی بھاوجوں کے سپرد کر دیا اور میرے جوان ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اس کی بھابھیاں مجھ پر بہت ظلم کرتی تھیں۔ گھر کا سارا کام مجھ سے کرواتیں، اور ذرا سی بات پر مارنے لگتیں۔ہمارے گھر کے قریب تین افراد پر مشتمل ایک گھرانہ آباد تھا، جس میں ایک بڑھیا، اس کا بیٹا موہن اور بہو شامل تھے۔ موہن نے کسی مسلمان کی مخبری کی تھی، جس نے اُن کو کافی نقصان پہنچایا تھا، تبھی مسلمان گھرانے کے لوگ اس کے گھر پوچھ گچھ کو آئے۔ وہ سمجھا کہ یہ اسے قتل کرنے آئے ہیں، تب ہی اس نے ان پر حملہ کر دیا۔ اس دنگے میں موہن اور اس کے گھر والے مارے گئے۔
وہ لوگ عورتوں کو نہیں مارنا چاہتے تھے، مگر موہن کی ماں اور بیوی بار بار لڑائی کے بیچ آ جاتی تھیں، یوں ان کو بھی ہتھیار لگ گئے۔ بیچ بچاؤ کے لیے ایک اور شخص بھی آیا، تو اسے بھی ہتھیار لگے اور اس کا بازو کٹ گیا۔ میں اپنے دروازے پر کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ زخمی آدمی بھاگا ہوا آیا، مجھے اندر کی طرف دھکا دے کر خود بھی اندر آ کر دروازہ بند کر دیا اور مجھ سے بولا، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ مرنے کا ارادہ ہے کیا؟ میں اس شخص کو منہ پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ اتنی نادان تھی کہ حالات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر مسلمانوں کا ایک گھرانہ آباد تھا۔ ان کے گھر پر کبھی کبھی شمس نامی ایک شخص آیا کرتا تھا۔ میں اکثر اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی رہتی اور وہ مجھے دیکھا کرتا۔ جب میں مسلمانوں کو دیکھتی، دل چاہتا کہ کاش میں مسلمان ہوتی۔ جب اس شخص کو پتا چلا کہ میں ایک ہندو لڑکی ہوں اور میرا باپ مجھے مرض کے عوض بوڑھے بیٹے کو بیچ کر چلا گیا ہے، تو اسے بہت افسوس ہوا۔ ایک دن اس نے مجھے گھر بلایا اور میرے حالات پوچھے، تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
شمس نے مجھے تسلی دی اور پوچھا: کیا تم اسلام قبول کرنا پسند کرو گی؟ مجھے مسلم گھرانے اچھے لگتے تھے کیونکہ جس گھر جاتی، وہ مجھے پیار سے ملتے تھے۔ ان کی بہادری دیکھ کر مجھے ان پر رشک آتا تھا۔ شمس کے حسن سلوک نے میرا دل جیت لیا۔ (کہانی کی مکمل قسط ویب سائٹ پراپلوڈ کر دی ہے۔ دیا ہوا لنک اوپن کر لیا کریں۔ شکریہ)
https://sublimegate.blogspot.com/2025/09/beti-ki-qurbani.html