Aaj ka Inqalab

  • Home
  • Aaj ka Inqalab

Aaj ka Inqalab Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Aaj ka Inqalab, Newspaper, .

28/05/2024
27/05/2024

تمہارے پاس ماجد دیوبندی ہے تو ہمارے پاس۔۔ وسیم بریلوی ہے!!!

دعا یا بد دعاشہنا ز آ ج بہت خو ش تھی ، سلما ن جس کی محبت میں شہناز نے اپنے آپ کوبھلادیا تھا ، اسکی محبت پا نے کے لئے ا...
21/03/2024

دعا یا بد دعا
شہنا ز آ ج بہت خو ش تھی ، سلما ن جس کی محبت میں شہناز نے اپنے آپ کوبھلادیا تھا ، اسکی محبت پا نے کے لئے اس نے صرف دنیا سے ہی بغا وت کی نہیں تھی کہ بلکہ اپنے گھروالو ں کے خلا ف بھی آ واز اٹھا ئی تھی ، آ خر کا ر گھر والو ں نے شہنا ز کی ضد کو ما ن لیا ۔۔
چھ سال قبل کا لج میں شہنا ز کی ملا قا ت سلما ن سے ہو ئی تھی ان دنوں عمران گریجویشن کے آ خر ی سال میں تھا جبکہ شہنا ز سال اوّل میں داخلہ لے کر چند ہی دنوں میں اپنی خو بصورتی اور خو ب سیرتی سے کا لج کے نوجوانوں کو اپنی طر ف ما ئل کرچکی تھی ، سلمان کا لج کا ہو نہا ر طا لب العلم ہو نے کی وجہ سے کا لج میں اسکی بڑی قدر تھی ، شہنا ز بھی سلما ن کے قدردانوں میں شما ر ہو نے لگی ، آ ہستہ آ ہستہ اس کی یہ قدر محبت میں بد ل چکی تھی اور سلما ن بھی اسے دوسروں سے الگ ہی دیکھنے لگا تھا ، سالانہ امتحا نا ت ختم ہو نے جا رہے تھے اس دوران دونوں نے ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اقرار کر لیا تھا ، مگر دونوں یہ چا ہتے تھے کہ جب تک دونوں کسی قابل نہ بن جا ئیں اس وقت تک شا دی نہیں کر ینگے ۔ امتحا نا ت ختم ہو نے کے بعد سلما ن نے نو کری تلا ش کر لی جو کہ ایک نجی فرم میں تھی ۔ وہاں اسے اتنی تنخواہ تو نہیں ملتی تھی کہ وہ اپنی زندگی کو عیش و عشرت سے گذارے مگر اپنے اخراجا ت کے لئے یہ رقم کا فی تھی ۔فرم کے ما لک نے وعدہ کیا تھا کہ جیسے جیسے اسکی صلا حیت بڑ ھتی رہے گی اسی طر ح سے تنخواہ میں بھی اضا فہ کیا جائےگا ۔ مالک کے وعدے کو ما ن کر اس نے پو ری لگن کے ساتھ کا م کر نا شروع کیا ۔ کا م پر لگے اسے قریب 2سا ل ہو چکے تھے ۔ شہنا ز سے اسکی ملا قا تیں اکثر ہوتی ۔ دونوں گھنٹو ں تک مستقبل کے خواب دیکھتے ۔ ایک دوسرے کی پسند نہ پسند کو جانتے ۔ اب شہنا ز گریجویشن کے آ خر ی سال میں تھی ۔ جبکہ سلما ن اسی فرم میں وہیں کا وہیں تھا ۔ شہنا ز نے ایک دو دفعہ سلما ن کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس فرم کی معمو لی نو کر ی کو چھو ڑ کر کسی اچھی کمپنی میں کا م کر لے ، مگر وہ تھا کہ اپنے ما لک کے وعدے کو یا د رکھ کر اپنے مستقبل کو اسی فرم میں گذارنے کا فیصلہ کر لیا ۔
سلما ن کے والد رحمٰن صاحب بڑ ے خدا ترس انسان تھے ، ولیوں اور پیروں سے انہیں دلی محبت تھی، اس محبت میں وہ اتنے پختے ہو گئے تھے کہ وہ ہر کا م کو انجا م دینے سے قبل اپنے پیر و مر شد مکر م شا ہ بابا سے اجا ز ت لیتے ۔ سلما ن کو بھی با با سے محبت تھی ، مگر اسکا انکے دربا ر میں آ نا جا نا بہت کم تھا ۔ مگر جب بھی کو ئی با ت ہو تی تو وہ اپنے والد کے پا س کہہ دیا کرتا اور اس با ت کو لےکر رحمن صاحب اپنے پیر صاحب کے پا س پہنچ جا تے ۔ جہاں پر وہ ان کے مسئلے کا حل بیان کر دیتے ۔حالانکہ رحمٰن صاحب نے بھی کئی دفعہ اپنے بیٹے کی کا میا بی اور اچھے کا م کیلئے دعا کر نے کے لئے با با سے منّت سما جت کی تھی اور بابا نے ہمیشہ سلما ن کے حق میں دعا کی تھی مگر انکی یہ دعا ئیں ابھی رنگ نہیں لائی جس کی وجہ سے سلما ن وہیں کے وہیں تھا ۔
شہنا ز کا گر یجو یشن ختم ہو ا اور وہ بھی کسی نو کر ی کی تلا ش میں تھی ، مگر اس نے نو کر ی کے لئے سر کا ری محکمو ں کو ہی اہمیت دی ۔ وہ چا ہ رہی تھی کہ ایک با ر اس کا رشتہ پکا ہو جا ئے اور وہ سلما ن سے شا دی کرتے ہو ئے خو ش و خر م زندگی بسر کر ے ۔ ادھر سلما ن بھی اپنی فر م والی نوکر ی سے تنگ آ چکا تھا ، لاکھ کو ششو ں کے باوجو د بھی اس کا مالک اسے وہی تنخواہ دے رہا تھا جو اس نے اسے نو کری پر رکھتے ہو ئی دی تھی ۔ بڑ ھتے اخراجا ت اور ذمہ داریوں کو اس معمو لی رقم میں زندگی بسر کر نا مشکل ہی نہیں نا ممکن تھا ، سلما ن کو ہی اپنے گھر کی ذمہ داریاں نبھا نی تھی کیو نکہ رحمن صاحب کو مئو ظف ہو ئے کئی سال بیت گئے تھے اور انہیں معمو لی وظیفہ مل رہا تھا جس میں وہ انکی اور اپنی بیو ی کی ادویا ت کو خر یدنے میں ہی صرف کررہے تھے ۔ سلما ن کسی نئی نو کر ی کی تلا ش میں تھا ۔ کئی دن اس نے نو کری کی تلاش میں بھٹکتے ہو ئے نکا ل دئے ، وہ ما یو س ہو چکا تھا ۔ بیٹے کی ما یو سی دیکھ کر رحمن صاحب نے مشو رہ دیا کہ وہ اکرم با با کے دربا ر جا ئے اور نو کری کے لئے دعا کروائے ۔ اپنے ابو کا مشو رہ اسے اچھا لگا اور وہ اسی دن دربا ر پہنچ گیا جہاں پر پہلے سے ہی کئی معتقدین بیٹھے ہو ئے تھے ۔ایک ایک کر کے تما م اپنی مشکلا ت کو سنواتے جا رہے تھے اور با با ہر ایک کے سر پر ہا تھ رکھ کر انہیں دعا ئیں دینے لگے ۔آ خر سلما ن کو بھی مو قع مل گیا وہ عقیدت سے انکے ہا تھ چو منے لگا ، اس وقت اسکی آ نکھو ں میں آ نسوں تھے اور وہ اپنی بے روزگا ری کا غم بابا کو سنا نے لگا ، با با نے اس کے سر پر ہا تھ رکھا اور دعا ئیں دینے لگے ۔ تھو ڑی دیر بعد با با نے اسکے سر پر پھو نکا اور اپنے پا س مو جو د پا نی پلا یا اورکہا کہ جلدہی اسے نو کر ی مل جا ئیگی ۔
بابا کی دعا کے بعد وہ مطمئن تھا کہ انکی دعا اثر کر یگی ، اور خدا کا کر نا ایسا ہی ہوا کہ سلما ن کو سر کا ری نو کر ی لگ گئی ، کسی محکمے میں اسے کلر ک کا کام مل گیاتو اس نے سب سے پہلے بابا کے در با ر پہنچ کر اپنا ما تھا ٹیکا اور ان سے مستقبل کے لئے دعا ئیں ما نگی ، اب تک سلما ن انکا معتقد تھا اب وہ مر ید بن چکا تھا ۔ نوکر ی کی با ت اس نے شہنا ز کو بھی سنا ئی ، شہنا ز بھی بہت خو ش تھی کہ وہ محفو ظ زندگی بسر کر یگا ۔ شہنا ز نے بھی پبلک سروس کا امتحا ن دیا تھا جس کے نتا ئج ابھی نہیں آ ئے تھے ۔ و ہ سلما ن سے اصرار کررہی تھی کہ وہ اسکے گھر والوں سے اسکا ہا تھ ما نگ لے ، مگر وہ چا ہ رہا تھا کہ کچھ اور دن گذر جا ئیں تا کہ گھر کے حا لات سدھر جا ئیں ۔ حا لانکہ اب تک دونو ں کے گھر والوں کو اس کی بھنک تک نہیں تھی ۔ مگر گر م دودھ کو تو ابل کر نیچے گر نا ہی ہے ۔اسی طرح سے جب محبت کی جا تی ہے تو اسکا پتہ سب کو لگنا ہی ہے ، سلما ن کے گھر میں ان دونوں کی محبت کا پتہ لگ چکا تھا ، اس کے ما ں با پ نے شہنا ز کو اپنی بہو بنا نے کے لئے راضی تھے ۔اور انہوںنے سلما ن سے کہا کہ وہ شہنا ز کے گھروالوں کے پا س لے جا ئے ۔ اتنے میں شہناز نے پبلک سروس کمیشن میں نما یا ں کا میا بی حا صل کی ،پھر کیا تھا وہ اپنے دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی کہ مدتوں کی محبت کا اب دوسرا سلسلہ شروع ہو جا ئیگا ۔ من چا ہی نو کری بھی مل گئی اور من چا ہے جیو ن ساتھی مل جا ئے تو زندگی کتنی خو ش و خر م بن جائےگی؟۔
اب مسئلہ تھا شہنا ز کے گھر والوں کو منا نے کا ،کیو نکہ و ہ چا ہتے تھے کہ شہنا ز کی شا دی کسی ایسے نوجوان سے ہو جو اس سے بڑے عہدے پر فا ئز ہو ، اونچا گھرانہ ہو تا کہ اسے زندگی میں کسی طر ح کی کمی نہ ہو ۔ اسکے بھیا نے نو کر ی ملتے ہی مداوتوں کو با خبر کر دیا تھا کہ وہ کسی اچھے رشتہ تلا ش کر یں ، مگر شہنا ز چا ہتی تھی کہ وہ اپنی محبت کو ہی کا مران کر ے ۔ اس نے اپنے گھر والو ں کو صاف صا ف کہہ دیا کہ اگر وہ شا دی کریگی تو سلما ن سے ہی ورنہ نہیں ، سلما ن بھی سر کا ری ملا زمت میں ہی تھا مگر شہنا ز سے کم درجے پر ، جب سے اس نے اپنی محبت کے تعلق سے گھر والو ں کو آ گا ہ کیا تھا ما نو کہ گھر میں قیا مت آ گئی ، ہر کوئی شہنا ز کو سمجھا نے کی کو شش کر تا مگر اس پر محبت کا پر دہ جو حا ئل تھا وہ ہٹنے کا نا م نہیں لے رہا تھا ۔ اب وہ خو د پیروں پر کھڑ ی ہو چکی تھی ، گھر والے جانتے تھے کہ ذیا دہ مز احمت کر نا خطر ے سے خا لی نہیں ، اگر وہ کو ئی غلط قدم اٹھا لے تو اس سے خا ندان کی نا ک کٹ جا ئیگی اس لئے انہیں آ خر کا ر ہا ر ما ننا پڑ ا اور سلما ن کے گھر والو ں سے با ت کر نے پر راضی ہو گئے ۔
شہنا ز نے سلما ن کو مطلع کیا کہ اس کے گھر والے راضی ہو چکے ہیں اور اسکے گھر والوں کو مدعو کررہے ہیں ، سلما ن بھی خو ش ہو ا کہ وہ نئی زندگی میں قدم رکھنے جا رہا ہے اور اسکی یہ زندگی کا میا بی و کا مرانی سے بھر پو ر ہو گی۔اسی دن شا م کو وہ لو گ رشتہ طے کر نے شہنا ز کے یہاں پہنچ گئے ۔ سلما ن کے ابو ، امّی اور وہ شہنا ز کے گھر گئے ، شہنا ز سبز سو ٹ میں ملبو ث تھی ، اس لبا س میں وہ اور بھی خو بصور ت نظر آ رہی تھی ، رحمٰن صاحب اور انکی اہلیہ نے ایک ہی نظر میں اسے پسند کر لیا جبکہ سلما ن خو د بھی شر ما رہا تھا ۔طر فین کی جانب سے رشتے کی رضا مند ی ہو ئی اور دونو ں چا ہ رہے تھے کہ شا دی جلد از جلد ہو ۔ یہ سن کر شہنا ز اور سلما ن دونو ں اور بھی خو ش ہو ئے ۔شا دی اُسی مہینے کی آ خر ی تا ریخ کو طے کی گئی جس کے بعد دونو ں گھر والے شا دی کی تیا ریو ں میں جڑ گئے ۔
وقت کو کو ئی روک نہیں سکتا ، ایسے میں خو شیو ں کے لمحے کیسے قر یب آ جا تے ہیں اور کیسے چلے جا تے ہیں اس کا اندازاہ بھی لگا نا مشکل ہے ۔ شادی کا دن قریب آ ہی گیا ،تما م تیا ر یا ں مکمل ہو چکی تھی ، سلما ن کے یہاں مہما نو ں کا جم غفیر تھا ، شام کو ہلدی لگا ئی جا نے والی تھی ، اس سے پہلے سلما ن چا ہتا تھا کہ وہ با با سے دعا لے ، اس نے اپنے دوست کے ہمراہ با با کے دربا ر روانہ ہو ا ۔ امّی نے اسے روکا بھی مگر وہ نہیں ما نا ۔بابا کے دربا ر پر آ ج لو گ کم تھے جو اس کی شا ید خو ش نصیبی تھی ، با با نے سلما ن کو دیکھتے ہی اپنے پا س بلا لیا ۔ سلما ن لپک کر با با کو بو سہ کرتے ہو ئے انکے پا س بیٹھ گیا ۔
با با نے آ نے کی وجہ دریا فت کی ۔
سلما ن نے بتایا کہ وہ شا دی کر نے جا رہا ہے !
پو چھا ، لڑ کی کا نا م کیا ہے ؟
شہناز
با با زور سے چلّا ئے ۔۔۔۔
خدا کے لئے تم یہ شا دی نہ کرو ، یہ ہما ری گذار ش نہیں حکم ہے !
با با کی با ت سن کر سلما ن گھبرا گیا ، پو چھنے لگا کہ کیا ہو ا با با ؟ ۔کیو ں نہیں کر سکتا ۔
با با نے کہا ۔ اے مر ید ، میر ے بچے ، اگر تو یہ شا دی کر یگا تو تجھے مو ت آ دبو چے گی ،اگر جلد مر نا نہیں چا ہتا ہے تو اس شا دی سے گر یز کر لے ۔
سلما ن کے آ نکھو ں کے سامنے اندھیرا چھا نے لگا ۔ ایک طرف اپنے پیر و مرشد کا حکم ، دوسری طر ف اپنی بر سوں پر انی محبت ۔ کیا کر ے کچھ سمجھ نہیں سکا ۔ خا مو ش بیٹھا با با کو ہی دیکھ رہا تھا مگر با با کی آ نکھو ں میں اب بھی جلا ل دکھا ئی دے رہاتھا ۔
سلما ن نے فیصلہ کر لیا کہ وہ با با کا حکم ہی ما نے گا کیو نکہ با با کے حکم و دعا سے ہی اسے نو کر ی ملی تھی ، او ر وہ انکا مر ید ہو چکا تھا جن کی با ت ما ننا اسکا فر ض تھا ۔وہ وہاں سے اٹھا ، بو جھل قدموں سے گھر میں داخل ہو ا، اسے پر یشان دیکھ کر گھر والے تمام پر یشان ہو گئے ، امّی نے پو چھا تو زبا ن خا مو ش تھی ، آ نکھیں نم تھیں مگر با با کی ہدایت با ر با ر کا نو ں میں گو نج رہی تھی ۔ سلما ن کی اس حا لت کو دیکھ کر گھر والے بھی کچھ دیرکے لئے خامو ش ہو گئے ، سلما ن نے کچھ دیر بعد اپنے آ پ کو سنبھا لااو ر با با کی ہدا یت دہرا ئی ، اس با ت کو سنتے ہی رحمٰن صاحب بھی اٹھ کھڑ ے ہو گئے اور کہا کہ بھلے ہی شاد ی کی تیا ریا ں بیکا ر جا ئیں مگر اس شا دی کے لئے ہم راضی نہیں ۔ آ ناََ فا ناََ میں یہ با ت جنگل کی آ گ کی طر ح پھیل گئی ۔ شہناز کے گھر تک جب یہ با ت پھیلی تو اس کے گھر میں کہرا م مچ گیا ۔ شہنا ز نے جب سنا کہ سلما ن کسی با با کے کہنے پر اس سے شا دی نہیں کر نا چا ہتا ہے تو وہ اپنے آ پ کو سنبھا ل کر سلما ن سے با ت کی ، اسے اپنے پیا ر کا واسطہ دیا ، زندگی کی قسمیں دی ، وعدے یا د دلائے مگر با با کے حکم کے سامنے سب بیکا ر تھا ۔ آ خرکا ر شہناز کی آ نکھو ں میں بھی آ نسو ئو ں کا سیلا ب امنڈ آ یا ۔ وہ بھی چلاّ چلا کر رونے لگی ۔ کیا کر ے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا ۔گھر والے سب اسے سنبھا لنے میں مصروف تھے ، لاکھ سمجھا نے کے با و جو د وہ سنبھل نہیں رہی تھی ۔
رات بیت چکی تھی ، شہنا ز کی آ نکھو ں سے نیند کو سوں دور جا چکی تھی ، آ نکھو ں سے اب بھی آ نسوں رواں تھے ، مگر اب سلما ن اس سے کا فی دور جا رہا تھا ، نہ نیند آرہی تھی نہ چین آ رہا تھا ۔کروٹیں بدل بدل کر رات کٹا ئی ، صبح کا سو ر ج نمو دار ہوا ، امید کی کر ن اب بھی جا گ رہی تھی اورسلما ن کے آنے کا انتظا رکررہی تھی ۔
سلما ن بھی کم پر یشان نہ تھا ، بابا کے دربا ر میں صبح صبح حا ضر ی دینے پہنچا تا کہ کو ئی راستہ نکل آ ئے ۔ آ ج جمعرا ت تھا ، مریدین اور معتقدین کی لمبی قطا ر تھی ۔ سلما ن اپنی با ری کا انتظا رکر رہا تھا ، بابا نے دور سے سلما ن کو دیکھا پھر بھی خا مو ش رہے ، آ ہستہ آ ہستہ سلما ن بھی با با کے قریب پہنچا ، سلما ن بھی چاہ رہا تھا کہ بابا کسی طرح سے شادی کے لئے حکم دے ، مگر بابا کا رویہ دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ بابا کا جواب منفی ہو گا ۔ جیسا سو چا تھا وہی ہوا، بابا نے کہا کہ بچے تو نے میر ی با ت ما ن لی اب تیری زندگی اچھی ہو جا ئیگی ۔ اب میر ی نظر میں ایک بچی ہے اس سے شا دی کر لے ۔ سلما ن کے سامنے شہنا ز کی محبت پھیکی پڑ چکی تھی جبکہ بابا کا حکم اور با با کی محبت اس سے کئی گنا ذیا دہ تھی ۔ باباکا حکم ملتے ہی وہ معصوم بچے کی طر ح حا می بھر لی ۔
حجر ے میں ایک دوشیز ہ تھی ، اس سے بابا نکا ح کروانا چاہ رہے تھے ، اس دوشیز ہ کے با پ نے با با کی دہلیز میں ما تھا ٹیک کر التجا کی تھی کہ انکی معمو لی شکل وصورت کی بیٹی کی شا دی نہیں ہو رہی ہے وہ کسی بھی طر ح سے اسکی شا دی کر وادیں ۔ بابا نے اس دوشیز ہ کا ہا تھ سلما ن کے ہا تھ میں دے کر اپنے مر ید کی مراد پوری کر نے کا فیصلہ کیا تھا ۔ سلما ن نے اس دوشیز ہ کی صورت دیکھنے سے قبل ہی شا دی کے لئے حا می بھر لی ، اتنے میں رحمٰن صاحب و اسکی امّی بھی با با کے در پر آپہنچے ۔ بابا چا ہتے تھے کہ سلما ن کی شادی فوری ہو ،رحمٰن صاحب تمام با توں سے واقف ہو ئے وہ بھی اپنے بابا کی با ت کو ٹا ل نہ سکے ۔ موقع پر ہی قاضی کو بلو ایا گیا ، نکاح ہوا اور تمام دربا ر سے نکل کر واپس گھر لو ٹنے لگے ، سلما ن کا ہا تھ اس دوشیز ہ کے ہا تھ میں تھا ، راستے پر بھیڑ تھی ، اتنے میں تیز رفتا ر کا ر جو قابو میں نہیں تھی سلمان سے ٹکر ا گئی ، دیکھتے ہی دیکھتے سلما ن کا ہا تھ دو شیز ہ سے الگ ہو ا اور وہ وہیں آ ہ بھی کئے بغیر چل بسا ۔

*BREAKING NEWS: TUNGA NADI ME DOOB KAR 2 NAUJAWANO KI MAUT; GHARON ME MATAMM*_*LIKE, COMMENT, SHARE THE VIDEO, SUBSCRIBE...
18/09/2023

*BREAKING NEWS: TUNGA NADI ME DOOB KAR 2 NAUJAWANO KI MAUT; GHARON ME MATAMM*

_*LIKE, COMMENT, SHARE THE VIDEO, SUBSCRIBE THE INQALAB CHANNEL*_

BREAKING NEWS: TUNGA NADI ME DOOB KAR 2 NAUJAWANO KI MAUT; GHARON ME MATAMM

Address


Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aaj ka Inqalab posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Shortcuts

  • Address
  • Alerts
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share