23/07/2025
رپورٹ از: رفعت وانی | صحافی / انسانی حقوق کارکن
23 جولائی 2025
امریکی محکمۂ خارجہ نے ایک بار پھر مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے امکان کا عندیہ دیا ہے۔ ترجمان ٹیمی بروس نے میڈیا بریفنگ میں تصدیق کی کہ واشنگٹن خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سنجیدہ سفارتی کوششیں کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ جمعہ کے روز پاکستانی قیادت سے کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کرے گا تاکہ ایسا راستہ نکالا جا سکے جو خطے میں امن و استحکام کی ضمانت بنے۔
تاہم یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کشمیر ایک ایسا بین الاقوامی تنازع ہے جسے اقوام متحدہ بھی متنازع تسلیم کر چکا ہے، تو پھر اس پر صرف پاکستان سے بات چیت کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا بھارت کو اس عمل سے باہر رکھنا مسئلے کے حل کو مزید پیچیدہ نہیں بنا دے گا؟ امریکہ اگر واقعی خطے میں دیرپا امن چاہتا ہے تو اسے بھارت سے بھی اسی سنجیدگی کے ساتھ بات کرنا ہوگی جس طرح وہ پاکستان کے ساتھ رابطے کر رہا ہے۔ کیونکہ کشمیری عوام کی تقدیر پر فیصلے دونوں ممالک کے درمیان نہیں بلکہ کشمیری عوام کی رائے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونے چاہییں۔
ٹیمی بروس نے یہ بھی بتایا کہ امریکہ دنیا کے مختلف تنازعات میں فعال ثالثی کا کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔ انہوں نے شام کی صورت حال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں فریقین کو کشیدگی کم کرنے پر آمادہ کرنا ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے واضح کیا کہ امریکی ایلچی اسٹیو ووٹکوف جلد غزہ کا دورہ کریں گے تاکہ جنگ بندی کے امکانات پر مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
امریکہ کی یہ پالیسی بظاہر سفارت کاری کے فروغ اور تنازعات کے پرامن حل کے لیے قابلِ تعریف دکھائی دیتی ہے، لیکن جنوبی ایشیا میں امن کا خواب اُس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک مسئلہ کشمیر کو اصل حقائق اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل نہ کیا جائے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی قوتیں ہیں، اور اگر عالمی طاقتیں اس تنازع کو یکطرفہ مکالمے تک محدود رکھیں گی تو خطے میں کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے، جو عالمی امن کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ ہے۔