26/06/2024
#نانگاپربت
یہ نانگا پربت ہے.شام گئے جسے ڈوبتا سورج آخری بوسہ دے رہا ہے.
اور جہاں ہم ہیں یہ فیری میڈوز ہے جہاں "مرشد " نے ہمیں دن کے اُجالے میں دیدار سے محروم رکھا .........
رائے کوٹ پل سے پُرخطر راستوں کا سفر کرتے گاڑی تاتو گاؤں تک جاتی ہے . فیری میڈوز تک تین گھنٹوں کی پیدل مسافت ہے . اور بیس کیمپ تک مزید تین گھنٹے.
ہمیں شام ہوگئی. آدھے سفر کے بعد نانگا پربت کا کچھ منظر یوں سامنے کھلا , ہم نے مرشد کو دیکھا اور قاتل پہاڑ نے ہمیں,
نانگا پربت کو سامنے دیکھتے آنکھیں بند کرکے میں نے ٹومیک میکسوچ, اور اُن بیسوں کوہ پیماؤں کو یاد کیا جنہیں اس قاتل پہاڑ نے ہمیشہ کے لئے اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے.
رات کے پہر پورے چاند کی روشنی میں ہمالیہ کے نگینہ "نانگا پربت " کو دیکھنے, ہم کلام ہونے کی اپنی ہی ایک دنیا ہے جو احساسات کیفیات اور جذبات کا نام ہے . جسے میں الفاظ میں پرونے سے قاصر ہوں.
نانگا پربت کو پہاڑ واسی اور مقامی لوگ " مرشد " کہتے ہیں کچھ قاتل پہاڑ بھی اور نہ جانے پہاڑوں سے محبت کرنے والے کن کن شاہانہ القابات سے اسے پکارتے ہیں.
اس قاتل پہاڑ میں ہماری دلچسپی سات برس قبل پولش کوہ پیما ٹومیک میکسوچ " کی داستان کے باعث بنی.
ٹومیک ہم پہاڑ واسیوں کے ذہن کے پردوں سے کیسے مٹ سکتا ہے ؟
2018ء میں پولش کوہ پیما ٹومیک نے ہمالیہ کے نگینہ " نانگا پربت " کو سر کرنے کی چاہ میں ہماری یادداشتوں پر گہرے نقوش ثبت کیے ,
پولش کوہ پیما ٹومیک، جو سردی میں نانگا پربت کو سر کرنے کا خواب لیے چھٹی بار اُس کے در پر آیا تھا پچھلی پانچ دفعہ میں قاتل پہاڑ نے ٹومیک سے رُخ پھیرا اور جانے دیا مگر چھٹی بار نانگا پربت نے ٹومیک کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔
اور ٹھہرایا بھی ایسے کہ پہلے نانگا پربت کی سفید برف نے ٹومیک کی بینائی ختم کی تا کہ اُس کی آنکھوں پر جو آخری تصویر ہو وہ پہاڑ کی ہو اس کے بعد وہ کچھ نہ دیکھے , پھر اس چوڑے شانوں والے قاتل نے اس نوجوان کے ہاتھ پاؤں مفلوج کر دیے تاکہ ٹومیک کے ہاتھوں پر آخری لمس صرف پہاڑ کا ہی ہو اس کے کسی شے کو چھونے کا احساس باقی نہ رہے اور بالآخر اسے چلنے سے معذور کر دیا کہ وہ یہیں رہ جائے بس اب روز روز کا آنا جانا چھوڑ دے اور سکون سے یہیں لیٹ جائے .
رات گئے الاؤ تاپتے ہم نانگا پربت کو دیکھتے رہے اور نانگا پربت کی ہیبت نے ہماری تھکان میں اضافہ کرتے ہوئے ہمارے اجسام پر کپکپی طاری کردی.
اگلی صبح اُتری تو فیری میڈوز کے گھاس کا میدان بادلوں میں گھرا تھا.
سامنے قاتل پہاڑ کے ساتھ بادلوں کی آنکھ مچولی جاری تھی.
برف میں دبا نانگا پربت پر جادو چل رہا تھا اسی جادو کے زیرِ اثر جرمن کوہِ پیما کھنچے چلے آتے ہیں۔
اسی چوٹی کے دامن میں جرمن کوہِ پیماؤں سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے کوہِ پیماوں کا قبرستان ہے۔
یہ قاتل پہاڑ ٹومیک کی طرح اب تک بیسیوں کوہِ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ آسٹرین کوہِ پیما ہرمن بہول نے 1953ء میں اسے جب پہلی بار سَر کیا تو اس سے قبل 31 کوہِ پیما اس قاتل چوٹی کے آگے جان دے چکے تھے۔ ہرمن بہول نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جس دن وہ چوٹی سَر کرنے کو آخری چڑھائی چڑھ رہا تھا اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی چل رہا ہے۔ خیموں کی رسیاں خود بخود کٹ جاتی تھیں۔ ہرمن بہول نے غیر مرئی مخلوق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ,
قاتل پہاڑ کے احاطہ سے نکلتے نکلتے شام ہوگئی.
دوسری دنیا سے روابط بحال ہوئے تو