ᴀᴊᴋ ᴀʀᴍʏ

ᴀᴊᴋ ᴀʀᴍʏ What you think You becomes🌱❤️ Promote Kashmir Travel, Tourism, Culture & Food�

07/12/2024
09/10/2024

ایمل ولی خان دل خوش کر دیا قسم سے شکلیں دیکھو سب کی سر جھکے ہوئے چوروں کی طرح بیٹھے ہیں ۔
پہلے کشمیر کو اسکا حق دو پھر فلسطین کی بات کرنا۔🍁🍁 ᴀᴊᴋ ᴀʀᴍʏ Haris Salaria

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ سجاول مغل ۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔۔قاضی طارق شاکر ۔۔۔۔۔سجاول مغل کی میت کے گرد چار  رعنا جوان بیٹھے اشک بہا رہے تھے...
07/10/2024

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ سجاول مغل ۔۔۔۔

تحریر ۔۔۔۔۔قاضی طارق شاکر ۔۔۔۔۔

سجاول مغل کی میت کے گرد چار رعنا جوان بیٹھے اشک بہا رہے تھے ، ان کی آنکھوں کے بہتے نالوں ، ان کی آہ زاریوں نے آسمان کا کلیجہ شق کر دیا تھا، یہ چار جوان دوسری بار یتیم ہونے تھے، جب پہلی بار یہ یتیم ہوئے تو بہت چھوٹے چھوٹے تھے ، ان کے والد نوشاد اکبر مغل نے عین جوانی میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد کی تھی ، تب اس میت کے سرہانے پانچ بچے بیٹھے اشک بہا رہے تھے ، اس وقت سجاول بڑا تھا ، عین شباب کی حدوں کو چھو رہا تھا، جب کہ باقی بھائی چھوٹے تھے، سجاول نے تعلیم کو خیر آباد کہہ دیا ، اس نے کھیلوں ، سیر سپاٹوں ، عیاشیوں سے کنارہ کشی اختیار کر لی ، ابھی اس کی عمر خوبصورت خواب دیکھنے کی تھی مگر وہ زندگی کی تلخیوں سے الجھ بیٹھا ، وہ اپنے بھائیوں کا مان بن گیا اور ان کے ارمان پورے کرنے لگا ، باپ کے سایہ شفقت سے محروم بچے پھر سے بڑے بھائی کے دست شفقت میں آ چکے تھے۔
میں نے نوشاد اکبر مرحوم کو ایک بار دیکھاتھا ، اپنے دوستوں میں مسکراہٹیں بکھیرتے ہوئے پایا ، پھر کچھ عرصہ بعد اطلاع ملی نوشاد اکبر مغل داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ، ایک عرصہ بعد ایک کام کے سلسلہ میں سجاول مغل کے پاس گیا ، سجاول بڑی محبت اور متانت سے مجھے ملا ،اس سے پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی ، مگر پہلی ملاقات میں ہی اس نے مجھے اپنا گرویدہ کر دیا ، میں نے اپنا کام بتایا اس نے فوری وہ کام کر دیا ، جیسے اس کا ذاتی کام ہو۔
سجاول خوش خصال و خوش لباس تھا ، اس کے اطوار میں نفاست تھی ، وہاں اس کا کردار جگمگاتا تھا ، اس کے لہجے میں ادب تھا ، بڑوں کا احترام ، چھوٹوں سے شفقت اور دوستوں سے یارانہ اس کی گھٹی میں پڑا تھا ، مجھے جب بھی ملا ادب و احترام سے ملا ،
عزیزی اسامہ کلیم چغتائی نے اپنی ٹیم "ہمدرد " کے ہمراہ ہٹیاں بالا میں مشاعرہ منعقد کروایا ، مشکل ٹاسک تھا جو اس نے پورا کیا جب اس نے سٹیج پر خطاب کیا تو بڑے فخر سے اپنے معاونین کا نام لیا ۔ ان معاونین میں پہلا نام سجاول مغل کا تھا ، مشاعرہ ہو ، بلڈ ڈونیشن کیمپ ہو یا یتیموں کی کفالت اور بیوگان کے لئے راشن کا انتظام کرنا ہو تو سجاول مغل نے ہمیشہ اپنا تعاون پیش کیا۔ پھر اسرار اعوان نے انکشاف کیا کہ اسے جب بھی کسی ڈونیشن کی ضرورت پڑی سجاول نے ہمیشہ تعاون کیا۔
میں نے اپنے ایک قریبی دوست کے سامنے اپنے متعلق سجاول کی نیکی رکھی تو اس نے جواب دیا کہ سجاول نے مشکل وقت میں میری بھی مدد کی ہے حالانکہ میں اسے جانتا تک نہیں تھا۔
سجاول کے جنازے میں پیر و جواں سب ہی درد سے کراہ رہے تھے، سب کے دل زخمی تھے ، یوں لگتا تھا جیسے سب کا اپنا بچھڑ گیا ہو ،
آنکھوں سے بہتے نالوں نے دل کے نازک تاروں کو چھیڑ دیا تھا ، چشمگان درد نے دل کے نازک آبگینوں کی بلائیں لیں تو آہ و فغاں کے چشمے پھوٹ پڑے ۔ بھائی تو بھائی ہوتے ہیں نا ان کا درد فطرتی امر ہے مگر یوں لگ رہا تھا جیسے سب ہی اس کے بھائی ہوں ،
ایک ذات ، چھوٹی سی عمر مگر اتنی محبتیں سمیٹیں اس نے کہ اس کی ذات پر رشک آتا ہے ۔
میں اس کی ذاتی زندگی سے جس حد تک واقف ہوں اس میں اس کا اخلاق نمایاں نظر آتا ہے ، غریبوں ،بیکسوں کی خفیہ انداز میں مدد سے اس کے کردار کا پتا چلتا ہے ،" دس فیملیوں کا راشن میری طرف سے مگر میرا نام نہیں آنا چاہیے " یہ اس کا ذخیرہ آخرت کا ساماں ہے ،جہاں دکھاوا نہیں اخلاص ہے ، جہاں اِنسانیت کی تحقیر نہیں توقیر ہے۔ دل کا سخی تھا ، رحمدل تھا ، لوگوں کی مدد کرتا تھا ، عزت و احترام دیتا تھا ،
بس وہ اجلا اجلا سا سجاول ، سج دھج سے رہنے والے سجاول کے چہرے پر تو کیا کبھی قمیض میں بھی شکن نظر نہیں آئی ، کبھی اس کے جوتے خاک آلود نہیں ہوئے ، اس کی پوشاک میں نفاست تھی ، اس کے لہجے میں ترنم تھا ، وہ لوگوں کی بات توجہ سے سنتا تھا پھر مشکل سے مشکل مسلہ کا حل فوری نکالتا تھا ، وہ لوگوں کو مشکلات میں مبتلا نہیں کرتا تھا بلکہ مشکلات کا ازالہ کرتا تھا۔
چند دن پہلے اس نے مجھ سے فون پہ گفتگو کی تھی ، سید عدنان فاطمی نے مجھے کال کی سجاول بھائی کچھ کہنا چاہتے ہیں اور پھر موبائل سجاول کو تھما دیا "قاضی صاحب" اتنے پیار سے اس نے یہ لفظ ادا کئے کہ اس کے لہجے کی شیرینی ابھی تک کانوں میں رس گھولتی ہے ۔
رات جب چناری "درنگ " کے مقام پر یہ حادثہ پیش آیا تواس سے دو دن پیشتر ایک بس کا ایکسیڈنٹ بھی ہوا تھا یہ بس بھی سجاول کے اقارب کی تھی اور بس کا کنڈیکٹر کامی مرحوم اس کا قریبی رشتہ دار تھا ، وہ مسلسل دو دن امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا اور حادثہ والے دن بھی امدادی سرگرمیوں میں مصروف رہا ، قدرت امتحان لیتی ہے، پراڈو گاڑی کا حادثہ جان لیوا ثابت ہوا جب کہ ساتھ بیٹھے دو افراد بچ گئے، پولیس عدلیہ ، انتظامیہ اس امر کی تحقیق کرے کہ کہیں یہ حادثہ ٹارگٹ کلنگ تو نہیں، بظاہر یہ حادثہ ہے ، تقدیر ہے اور اسباب یہ ہیں کہ موت کا وقت معین ہے ، کس جگہ کس وقت آئے گی یہ بھی متعین ہے ، سجاول تو چلا گیا ، یہ لوٹ کر نہیں آئے گا ، مگر جہاں گیا ہے اس کو جنت الفردوس کہتے ہیں، لوگوں کی گواہی سجاول کی بخشش کی گواہی بن گئی ہے ، وہ فرشتہ نہیں انسان تھا ، اس سے کوتاہیاں اور لغزشیں ہوئی ہوں گی مگر اتنی لغزشوں کے حصار میں اس کی نیکیاں غالب آ گئی ہیں ، اس کی حادثاتی موت نے اس کے گناہوں کے داغ کو دھو دیا ہے اور اس کے جسم سے بہتے لہو نے اس کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کر دیا ہے ،
چار بھائیوں اور ایک بہن کا مان ٹوٹ گیا ہے ، والدہ کو جگر گوشے کی جدائی کا صدمہ سہنا پڑا، ایک سہاگن نے بیوگی کی چادر اوڑھ لی ،ایک خاندان پر قیامت ٹوٹ گئی، ایک علاقہ ایک نفیس شخص کی صحبت سے محروم ہو گیا، ایک ادارہ کا ایک لائق" ناظر" نظروں سے اوجھل ہو گیا ، یہ تقدیر ہے ، رب کی منشا اور رضا ہے کہ سب نے لوٹ کر ادھر ہی جانا ہے مگر فرق یہ ہے کہ سجاول اتنی سج دھج سے مقتل کو چلا کہ اگر وہ لوگوں کی محبت کا منظر دیکھ پاتا تو بار بار موت کو گلے لگانے کی کوشش کرتا ، بظاہر یہ انسانوں کی بستی کی بارات تھی مگر اصل میں فرشتوں نے اس کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا ، رحمتوں اور برکتوں کی بارش برس رہی تھی اور جنت الفردوس خوش اخلاق ، خوش اطوار ، خوش خصال سجاول کو جنت کی پوشاک پہنانے کو بےتاب تھی۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ سجاول کی لغزشوں کو بھی نیکیوں سے مبدل فرما کر بہشت بریں میں جگہ عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے آمین یارب العالمین ۔
موت اس کی جس کا زمانہ کرے افسوس
یوں تو سب ہی چلے آتے ہیں مرنے کے لئے

23/09/2024

وادی نیلم
بالا ئ وادی نیلم سے راولپنڈی کروڑ ں مالیت کی جڑی بوٹی جنگلی تھوم سمگلنگ کی کوشش ناکام ۔
چلہانہ انٹری پوائنٹ فاریسٹ چک پوسٹ پر ناکہ لگا کر ڈویژن فاریسٹ آفیسر سردار اکرم نے گاڑی روکی جڑی بوٹی جنگلی تھوم کے 12 بیگ ہمراہ گاڑی ضبط کرلیے مزکورہ جڑی بوٹی جنگلی تھوم فی کلو قیمت 80 ہزار بتائی جارہی ہے.

پاک فوج کے کشمیری لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز نئے ڈی جی آئی ایس آئی مقرر ۔۔ شاہد امتیازاس پہلے 10 کورکمانڈر راولپنڈی تعنیا...
22/09/2024

پاک فوج کے کشمیری لیفٹیننٹ جنرل شاہد امتیاز نئے ڈی جی آئی ایس آئی مقرر ۔۔ شاہد امتیازاس پہلے 10 کورکمانڈر راولپنڈی تعنیات تھے شاہد امتیاز جنرل عاصم منیر کے سب سے قریبی کورکمانڈرز میں سے ایک ہیں۔جن کو جنرل قمر جاوید باجوہ بے اکتوبر 2022 میں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی تھی، شاہد امتیاز کا تعلق آزادکشمیر کے ضلع جہلم ویلی سے ہے جو اس سے قبل کمانڈنٹ انفنٹری سکول کوئٹہ، اس سے پہلے جہلم میں انفنٹری ڈویژن کی کمانڈ کرنے کے ساتھ ساتھ جی ایچ کیو کے آرمی چیف سیکرٹریٹ میں ڈائریکٹر جنرل ڈی جی سٹاف ڈیوٹیز بھی رہ چکے ہیں۔

وادئ چھم قاضی ناگ کے دامن میں واقع جہلم ویلی کی انتہائی خوبصورت ذیلی وادی ہے اور یہاں کا لینڈ سکیپ نیلم ویلی سے کافی مشا...
28/06/2024

وادئ چھم قاضی ناگ کے دامن میں واقع جہلم ویلی کی انتہائی خوبصورت ذیلی وادی ہے اور یہاں کا لینڈ سکیپ نیلم ویلی سے کافی مشابہ ہے۔ قاضی ناگ اور چھم کی ندیوں کا نیلگوں شفاف پانی اس وادی کے حسن کو چار چاند لگاتا ہے۔ لائن آف کنٹرول کے قریب ہونے کی وجہ سے یہاں سیاحوں کی آمدورفت ذرا محدود ہے۔
اس وادی سے ایک تعلق تو جدِ امجد سید فقیر شاہ گردیزی کے مزار کے سبب ہے اور دوسرا مقبول بٹ شہید کی وجہ سے.
مقبول بٹ دسمبر 1968 میں سری نگر جیل سے فرار ہو کر قاضی ناگ کے دروں سے ہوتے ہوئے وادئ چھم میں داخل ہوئے تھے جہاں بعد ازاں انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔( اس سفر کی تفصیل ان کی کتاب "سری نگر جیل سے فرار کی کہانی" میں درج ہے)۔ قاضی ناگ کا پہاڑی سلسلہ سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلند ہے اور باقی کشمیر کی طرح یہ بھی خونی لکیر کی وجہ سے دو حصوں میں منقسم ہے۔

 #نانگاپربتیہ نانگا پربت ہے.شام گئے جسے ڈوبتا سورج آخری بوسہ دے رہا ہے. اور جہاں ہم ہیں یہ فیری میڈوز ہے جہاں "مرشد " نے...
26/06/2024

#نانگاپربت
یہ نانگا پربت ہے.شام گئے جسے ڈوبتا سورج آخری بوسہ دے رہا ہے.
اور جہاں ہم ہیں یہ فیری میڈوز ہے جہاں "مرشد " نے ہمیں دن کے اُجالے میں دیدار سے محروم رکھا .........
رائے کوٹ پل سے پُرخطر راستوں کا سفر کرتے گاڑی تاتو گاؤں تک جاتی ہے . فیری میڈوز تک تین گھنٹوں کی پیدل مسافت ہے . اور بیس کیمپ تک مزید تین گھنٹے.
ہمیں شام ہوگئی. آدھے سفر کے بعد نانگا پربت کا کچھ منظر یوں سامنے کھلا , ہم نے مرشد کو دیکھا اور قاتل پہاڑ نے ہمیں,
نانگا پربت کو سامنے دیکھتے آنکھیں بند کرکے میں نے ٹومیک میکسوچ, اور اُن بیسوں کوہ پیماؤں کو یاد کیا جنہیں اس قاتل پہاڑ نے ہمیشہ کے لئے اپنے حصار میں جکڑ رکھا ہے.
رات کے پہر پورے چاند کی روشنی میں ہمالیہ کے نگینہ "نانگا پربت " کو دیکھنے, ہم کلام ہونے کی اپنی ہی ایک دنیا ہے جو احساسات کیفیات اور جذبات کا نام ہے . جسے میں الفاظ میں پرونے سے قاصر ہوں.
نانگا پربت کو پہاڑ واسی اور مقامی لوگ " مرشد " کہتے ہیں کچھ قاتل پہاڑ بھی اور نہ جانے پہاڑوں سے محبت کرنے والے کن کن شاہانہ القابات سے اسے پکارتے ہیں.
اس قاتل پہاڑ میں ہماری دلچسپی سات برس قبل پولش کوہ پیما ٹومیک میکسوچ " کی داستان کے باعث بنی.
ٹومیک ہم پہاڑ واسیوں کے ذہن کے پردوں سے کیسے مٹ سکتا ہے ؟
2018ء میں پولش کوہ پیما ٹومیک نے ہمالیہ کے نگینہ " نانگا پربت " کو سر کرنے کی چاہ میں ہماری یادداشتوں پر گہرے نقوش ثبت کیے ,
پولش کوہ پیما ٹومیک، جو سردی میں نانگا پربت کو سر کرنے کا خواب لیے چھٹی بار اُس کے در پر آیا تھا پچھلی پانچ دفعہ میں قاتل پہاڑ نے ٹومیک سے رُخ پھیرا اور جانے دیا مگر چھٹی بار نانگا پربت نے ٹومیک کو ہمیشہ کے لیے اپنے پاس ٹھہرا لیا۔
اور ٹھہرایا بھی ایسے کہ پہلے نانگا پربت کی سفید برف نے ٹومیک کی بینائی ختم کی تا کہ اُس کی آنکھوں پر جو آخری تصویر ہو وہ پہاڑ کی ہو اس کے بعد وہ کچھ نہ دیکھے , پھر اس چوڑے شانوں والے قاتل نے اس نوجوان کے ہاتھ پاؤں مفلوج کر دیے تاکہ ٹومیک کے ہاتھوں پر آخری لمس صرف پہاڑ کا ہی ہو اس کے کسی شے کو چھونے کا احساس باقی نہ رہے اور بالآخر اسے چلنے سے معذور کر دیا کہ وہ یہیں رہ جائے بس اب روز روز کا آنا جانا چھوڑ دے اور سکون سے یہیں لیٹ جائے .
رات گئے الاؤ تاپتے ہم نانگا پربت کو دیکھتے رہے اور نانگا پربت کی ہیبت نے ہماری تھکان میں اضافہ کرتے ہوئے ہمارے اجسام پر کپکپی طاری کردی.
اگلی صبح اُتری تو فیری میڈوز کے گھاس کا میدان بادلوں میں گھرا تھا.
سامنے قاتل پہاڑ کے ساتھ بادلوں کی آنکھ مچولی جاری تھی.
برف میں دبا نانگا پربت پر جادو چل رہا تھا اسی جادو کے زیرِ اثر جرمن کوہِ پیما کھنچے چلے آتے ہیں۔
اسی چوٹی کے دامن میں جرمن کوہِ پیماؤں سمیت دنیا کے دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے کوہِ پیماوں کا قبرستان ہے۔
یہ قاتل پہاڑ ٹومیک کی طرح اب تک بیسیوں کوہِ پیماؤں کی جان لے چکا ہے۔ آسٹرین کوہِ پیما ہرمن بہول نے 1953ء میں اسے جب پہلی بار سَر کیا تو اس سے قبل 31 کوہِ پیما اس قاتل چوٹی کے آگے جان دے چکے تھے۔ ہرمن بہول نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ جس دن وہ چوٹی سَر کرنے کو آخری چڑھائی چڑھ رہا تھا اسے محسوس ہوتا تھا کہ اس کے پیچھے کوئی چل رہا ہے۔ خیموں کی رسیاں خود بخود کٹ جاتی تھیں۔ ہرمن بہول نے غیر مرئی مخلوق کی جانب اشارہ کیا ہے۔ یہ بات کہاں تک درست ہے اس کا جواب کسی کے پاس نہیں ,
قاتل پہاڑ کے احاطہ سے نکلتے نکلتے شام ہوگئی.
دوسری دنیا سے روابط بحال ہوئے تو

Eid ul Adha Mubarak 🌱❤️
17/06/2024

Eid ul Adha Mubarak 🌱❤️

Address

Abu Dhabi

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ᴀᴊᴋ ᴀʀᴍʏ posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to ᴀᴊᴋ ᴀʀᴍʏ:

Share