10/10/2025                                                                            
                                    
                                                                            
                                            ہر تعلق ایک غلامی ہے ، آپ جتنا زیادہ تنہا ہیں اتنا ذیادہ آزاد ہیں۔
تعلق کبھی سکون بنتا ہے تو کبھی تانے بانے میں بُنا ہوا بوجھ۔ جب ہم کسی رشتے میں خود کو اس قدر نچھاور کر دیتے ہیں کہ اپنی حدود، خواہشات اور آزادی گھٹ جاتی ہیں — تب تعلق غلامی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ غلامی ظاہری زنجیر میں نہیں ہوتی، بلکہ دل و دماغ کی اندرونی قید میں ہوتی ہے: دوسروں کی توقعات، خوفِ تنہائی، اور قبولیت کے لالچ نے ہمیں جو پابند کیا ہوتا ہے۔
اکیلے پن کا مطلب ہرگز تنہائی یا دکھ نہیں ہوتا۔ تنہائی کو اگر سمجھداری سے اپنایا جائے تو وہ ایک طاقت ہے۔ جو انسان خود کے ساتھ کھڑا رہنا جانتا ہے، اپنی خامیوں اور قوتوں کو تسلیم کرتا ہے، وہ دوسرے لوگوں کے جلو میں اپنی شناخت بیچنے سے منع ہوتا ہے۔ اس آزاد آدمی کے لیے تعلق انتخاب بنتا ہے، ضرورت یا مجبوریت نہیں۔ وہ تعلق جو اس نے چُنا ہو تو اس میں احترام، مساوات اور باہمی آزادی رہتی ہے — ورنہ وہ تعلق بوجھ اور غلامی بن جاتا ہے۔تعلق کی غلامی کے کچھ چہرے ہم روز دیکھتے ہیں.کسی رشتے میں خود کو بدل دینا صرف قبولیت حاصل کرنے کے لیے؛ہر فیصلے میں دوسروں کی منظوری تلاش کرنا| اپنی خوشیوں اور ترقی کو قربان کر کے رشتے کو برقرار رکھنے کی کوشش؛خوفِ اکیلے پن سے ایسے تعلقات میں جکڑے رہنا جو ہمیں چھوٹا کر دیں۔اس کے برعکس، آزادی کا مطلب خود غرضی نہیں، بلکہ خود شناسی اور اختیار ہے۔ جب ہم اپنے اندر مضبوطی پیدا کرتے ہیں تو رشتے خود بخود بدل جاتے ہیں .کم ضرورت، زیادہ انتخاب؛ کم خوف، زیادہ احترام۔ آزاد شخیص تعلق میں اپنا معیار قائم کرتا ہے: وہ کہتا ہے، “میں ساتھ چلوں گا اگر یہ میرے عزت اور آزادی کو نہ کھائے۔” یہی وہ مقام ہے جہاں تعلق غلامی نہیں بلکہ دو آزاد ارادوں کا اشتراک بنتا ہے
تحریر - منیر شہزاد خان
 #و  #دل  #ہم