Tahir Chughtai

Tahir Chughtai Director at PBC Rawalpindi II Producer, Broadcaster, Writer, Singer, Naat Khawan, Drama Artist , (Working With China Radio International .Beijing )

>پنجابی قوم میں ایک ذات راجپوت ٹوآنہ ہے. اس قوم کی تاریخ جاننے کے لیے زیادہ ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی چونکہ اس قوم کے نا...
14/12/2025

>
پنجابی قوم میں ایک ذات راجپوت ٹوآنہ ہے. اس قوم کی تاریخ جاننے کے لیے زیادہ ورق گردانی نہیں کرنا پڑتی چونکہ اس قوم کے نام میں ہی اس قوم کی خصلت اور فطرت نمایاں ہے. راجپوت ٹوآنہ انگریزوں کے گھوڑے پالتی تھی ، یہ انگریزوں کے کتے اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتی، ٹوآنہ ؛ گھوڑوں کو نہلاتے، ان کی مالشیں کرتے، گھوڑوں کا گوبر پیشاب صاف کرتے. پھر انگریز انہی گھوڑوں پر بیٹھ کر ہندوستان کو فتح کرتا.

انگریز اپنے گھوڑوں کی اس خدمت کے بدلے میں اس قوم کو "دو آنہ (Two Aana: ٹو آنہ) " دیا کرتا تھا.
چنانچہ یہ کام ہی اس قوم کی پہچان بن گیا اور اس قوم کا نام ہی "ٹوآنہ" پڑ گیا. یعنی انگریز سے "دو آنے" لے کر اس کے کتے اور گھوڑے نہلانے والی قوم.

پنجابی ٹوآنہ قوم برطانوی انگریزوں کی پسندیدہ ترین قوم تھی، کیونکہ یہ انگریز کے انتہائی وفادار سپاہی تھے. ہندوستان میں انگریز کے خلاف ہونے والی ہر بغاوت کے وقت راجپوت ٹوآنہ انگریز کر وفادار رہتے، یہ کبھی بھی بغاوت کا حصہ نہ بنتے.
انگریز نے ٹوآنوں کو اپنی ہندوستانی انڈین آرمی میں کمانڈر،لیفٹیننٹ، کرنل ، جرنل کے عہدے دے رکھے تھے. اور سیاست میں اس سے بڑے عہدے دے رکھے تھے، ہندوستان کی تقسیم سے قبل خضر حیات خان ٹوآنہ سنہ 1942 تا 1947 تک متحدہ پنجاب کا وزیر اعظم تھا. اس کو انگریز نے اپنی انڈین آرمی میں لیفٹیننٹ کرنل کا عہدہ بھی دے رکھا تھا.
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس شخص کو "خان" کا ٹائٹل انگریزوں کا دیا ہوا ہے کیونکہ ٹوآنہ قوم نہ تو پختون ہے اور نہ ہی افغانی ہے، بلکہ یہ خالص پنجابی پوٹھوہاری قوم ہے.

برطانوی ہندوستان میں ٹوآنہ قوم راولپنڈی کے قریب شاہ پور تحصیل میں رہتی تھی ، شاہ پور تحصیل کا موجودہ نام سرگودھا ہے.

پوٹھوہاری پنجابی قوم سب سے زیادہ انگریزوں کی وفادار رہی ہے. تقسیم کے بعد پاکستانی فوج ، رینجرز ، ائیر فورس ، نیوی، گورنمنٹ اور حکومتی اداروں میں ان کی سب سے زیادہ تعداد پائی جاتی ہے

تحریر: Musa Pasha

اسی کے دہائی کے اختتام تک ویسٹ انڈیز کا جادو چھٹنے لگا تھا اور نوے کی دہائی کے آغاز میں یہ ٹیم ناقابل شکست نہیں رہی تھی-...
14/12/2025

اسی کے دہائی کے اختتام تک ویسٹ انڈیز کا جادو چھٹنے لگا تھا اور نوے کی دہائی کے آغاز میں یہ ٹیم ناقابل شکست نہیں رہی تھی- لیکن اس کے باوجود کورٹنی والش، کرٹلی امبروز اور ایان بشپ کے سامنے ٹیسٹ ڈیبیو کرنا اور وہ بھی پورٹ آف سپین میں جہاں خود ویسٹ انڈیز کی ٹیم پہلی اننگ میں صرف 127 پر آل آؤٹ ہو گئی ہو- یہ ایک کافی مشکل کام تھا، ناکامی کے امکانات بہت زیادہ تھے اور نوجوان باسط علی پہلی کوشش میں ناکام ہی رہے- لیکن دوسری اننگ میں جب پاکستانی ٹیم کو 370 کا ہدف ملا تو 37 رنز کے ساتھ ٹاپ سکورر باسط علی ہی تھے-

دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں 92 اور تیسرے ٹیسٹ میں 56 رنز کی اننگ پاکستان کو میچز تو نہ جتوا سکی لیکن دیکھنے والوں کو لگا کہ ایک شاندار کیرئیر کا آغاز ہوا چاہتا ہے- اسی سیریز میں ٹیسٹ میچز سے پہلے ہی باسط علی کے ون ڈے کیرئیر کا آغاز بھی ہو چکا تھا جہاں چوتھے اور پانچویں ون ڈے میں باسط علی نے نصف سنچریاں بنا کر آنے والے وقت کا نقشہ کھینچ دیا تھا- چھ سات ماہ بعد ویسٹ انڈیز ہی کے خلاف شارجہ میں باسط علی نے اس وقت کی دوسری تیز ترین ون ڈے سنچری بنا کر دھوم مچا دی تھی- امبروز، والش، کمنز، بینجمن اور کارل ہوپر کے خلاف 79 گیندوں پر 12 چوکوں اور پانچ چھکوں کی مدد سے بنائے گئے 127 رنز باسط کو ایک غیر معمولی ٹیلنٹ بتا رہے تھے پر کسے خبر تھی کہ یہ باسط علی کی واحد ون ڈے سنچری رہ جائے گی-

باسط علی نے نیوزی لینڈ کے خلاف اپنے نویں ٹیسٹ میں اپنی پہلی اور واحد ٹیسٹ سنچری بنائی اور پھر دوسری اننگ میں بھی نصف سنچری بنا دی لیکن ٹیسٹ کرکٹ میں یہ باسط علی کی آخری اچھی کارکردگی بھی تھی- اس کے بعد باسط علی نے پاکستان کی جانب سے دس ٹیسٹ مزید کھیلے لیکن صرف ایک نصف سنچری ہی بنا سکے- شارجہ میں انڈیا کے خلاف دو نصف سنچریاں، پھر پاکستان میں ہونے والی سی فریقی سیریز میں دو نصف سنچریاں تو بنیں لیکن ہر میچ کے ساتھ باسط کی اوسط اور سٹرائیک ریٹ کم ہوتا جا رہا تھا-

باسط اس کے بعد 1995 میں دس اور 1996 میں تین ون ڈے میچز ہی کھیل پایا اور کچھ ایسا غائب ہوا کہ کبھی واپس نہ آ سکا- باسط علی کی انٹرنیشنل کرکٹ سے اتنی جلدی رخصتی میں جہاں باسط کی خراب کارکردگی کا ہاتھ رہا وہیں میچ فکسنگ کے خلاف باسط علی کا سٹینڈ بھی ان کے خلاف گیا اور جلد ہی کرکٹر باسط علی ایک قصہ پارینہ بن کر رہ گیا-

آج باسط علی کی 55 ویں سالگرہ ہے-

کھوٹا سکہ​یہ ستمبر 1948 کی بات ہے جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ ریاست کا حکمران (نواب مہابت خ...
13/12/2025

کھوٹا سکہ​

یہ ستمبر 1948 کی بات ہے جب ہندوستان نے ریاست جونا گڑھ پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیا کہ ریاست کا حکمران (نواب مہابت خان) لاکھ مسلمان سہی مگر ریاستی عوام کی اکثریت تو ہندو ہے جب کہ اس استعماری ریاست نے جموں و کشمیر پر قبضہ کرتے ہوئے یہ دلیل دی تھی کہ ریاست کا حکمران ہندو ‏ہے اور اس نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کرلیا ہے۔

خیر! قصہ مختصر یہ کہ جونا گڑھ پر بھارتی قبضہ کے بعد نواب مہابت خاب بدقت تمام اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی جان بچا کر اور مختصر ضروری سامان لے کر کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں انہوں نے اس وقت کے دارالحکومت کراچی‏ کے مشہور علاقے کھارادر میں قیام کیا۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں کی ایک سڑک پر وزیر مینشن نام کی وہ سہ منزلہ عمارت واقع ہے جسے حضرت قائد اعظم علیہ الرحمۃ کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

نواب صاحب اپنے سرکاری خزانے میں 48 من سونا چھوڑ آئے تھے۔ وہ ایسی جگہ پر محفوظ تھا جس کا علم‏ نواب صاحب کے سوا کسی کو نہیں تھا۔ اگر ہندوستانی افواج پورا محل بھی کھود کر پھینک دیتیں تو انہیں سونا نہ ملتا۔

نواب صاحب کی خواہش یہ تھی کہ وہ سونا کسی طرح پاکستان لایا جاسکے تو وہ اس کا نصف حصہ سرکار پاکستان کے خزانہ میں جمع کرا دیں گے۔ اس امر سے تو ہر ذی علم واقف ہے کہ ان‏ دنوں پاکستان انتہائی بحران کا شکار تھا۔ اگر چند محب وطن لوگ اس نوزائیدہ ملک کی مدد نہ کرتے تو خاکم بدہن چند ماہ کے اندر ہی اس کا وجود ختم ہوسکتا تھا۔

نواب صاحب خلوص دل کے ساتھ پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے تھے ، اگر وہ 24 من سونا پاکستان کے خزانے میں جمع کرا دیتے تو ملکی معیشت‏ خاصی بہتر ہوسکتی تھی ۔ مگر سوال یہ تھا کہ اسے لایا کس طرح جائے اور کون لے کر آئے؟

ہندوستان جیسا کمینہ ملک شرافت کے ساتھ تو ریاست کی امانت اس کے حکمران کے حوالے نہ کرتا۔ اب تو ایک ہی صورت باقی بچی تھی ، غیر قانونی ذریعہ۔ مگر حقیقتا سونے کو خفیہ طریقے سے پاکستان منتقل کرنا ہندوستان‏ کی نظر میں تو غیر قانونی ہوسکتا تھا مگر پاکستان یا نواب مہابت خان کے لئے نہیں ، کیونکہ یہ زر کثیر نواب صاحب کی ملکیت تھا۔

اب کردار شروع ہوتا ہے کھوٹے سکے کا۔ وہ تھے اس دور کا مشہور سمگلر حاجی عبد اللہ بھٹی جو سمندر پار بستی صالح آباد ہی میں قیام پذیر تھے۔ یہ بستی کراچی کی بندرگاہ‏ کیماڑی سے تقریباً دس میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ عبد اللہ بھٹی اس وقت اسی برس کے تھے اور اپنا پیشہ ترک کرکے یاد الہی میں مصروف تھے۔

نواب مہابت خان کو جب اس بارے میں علم ہوا تو انہوں نے پاکستان کی ایک نہایت قابل احترام اور اعلی ترین شخصیت سے درخواست کی کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے‏عبد اللہ بھٹی کو اس بات پر راضی کرلیں کہ وہ کسی بھی صورت ان کا سونا جونا گڑھ کے خزانے سے نکال لائے۔
اس محترم ہستی نے عبد اللہ بھٹی کو اپنے روبرو طلب کرکے ملک و قوم کی خاطر یہ کام کرنے پر آمادہ کرلیا۔

جونا گڑھ سمندر کے راستے کراچی سے تین سو میل دور ہے۔ عظیم شخصیت کے حکم پر‏بوڑھے مگر پر عزم عبد اللہ بھٹی اپنے بیٹوں قاسم بھٹی اور عبد الرحمن بھٹی کو ساتھ لیکر تیز رفتار لانچوں کے ذریعے جونا گڑھ روانہ ہوگئے۔ پاکستانی فوج کے چند کمانڈوز بھی ان کے ساتھ تھے۔ ان لوگوں نے ایک دوپہر کو بحری سفر شروع کیا اور خفیہ راستوں سے ہوتے ہوئے جونا گڑھ کےساحل پر پہنچ گئے۔
‏اس وقت شب کے دس بجے تھے۔ شاہی محل ساحل سمندر سے کچھ زیادہ دور نہ تھا ۔ پاکستانی کمانڈوز نے محل پر متعین بھارتی فوج کے افسران اور سپاہیوں کا خاتمہ کیا جب کہ عبد اللہ بھٹی اور اس کے بیٹوں نے خفیہ جگہ تلاش کرکے سونا اٹھایا اور پھرتی سے کراچی کی طرف رواں دواں ہوگئے۔

اب دیکھئے سمگلر کا حسن کردار ! جب انہونے انتہائی اعلی شخصیت کی موجودگی میں 48 من سونا نواب مہابت خان کو پیش کیا تو جہاں نواب صاحب نے حسب وعدہ 24 من سونا حکومت پاکستان کی نذر کیا وہیں اپنے حصے میں آنے والے 24 من سونے میں‌ سے 4 من سونا حاجی عبد اللہ بھٹی کو بطور انعام پیش کیا۔
‏حاجی عبد اللہ بھٹی نے یہ سونا لینے سے انکار کردیا اور زار و قطار روتے ہوئے بولے:
بابا میں نے ساری زندگی سمگلنگ کی مگر وہ انگریز کا زمانہ تھا۔ اب میں نے سمگلنگ نہیں کی بلکہ پاکستان کا حق حاصل کیا ہے۔ میں سمگلر ضرور ہوں مگر مادر وطن کی دولت نہیں لوٹوں گا۔‏پھر وہ کچھ دیر خاموش ہوئے بعد ازاں سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے
میں یہ چار من سونا بھی حکومت پاکستان کے خزانے کے لیے پیش کرتا ہوں ۔ اس کے علاوہ میرے پاس ذاتی 3 من سونا ہے جو اس مقدس دیس کی نذر ہے۔
پھر ان عظیم ہستی اور نواب مہابت خان کے آنسو بھی نہ رک سکے لیکن یہ خوشی کے آنسو تھے۔
فخر و انبساط کے آنسو۔

"کھوٹا سکہ" از پروفیسر محمد ظریف خان مشمولہ از اردو ڈائجسٹ اکتوبر 2008

اس کہانی کا اخلاقی پہلو پاکستان کے ان لٹیروں کے منہ پر طمانچہ ہے جنہوں نے ملک کی حکمرانی اور خدمت گذاری کی آڑ میں قومی دولت لوٹی ، بیرون ملک لے گئے اور بے شرمی سے اب تک لوٹ رہے ہیں۔ مالی اور دیگر مراعات بھی غیر منصفانہ طور پر حاصل کر رہے ہیں ۔ اللہ پاک ملک کی معیشت اور معاشرے کو نقصان پہنچانے والوں کی نسلیں تباہ و برباد کرے ۔ آمین ۔ ہم بے بس ہیں کچھ بھی تو نہیں کر سکتے ۔

خانوں میں خان: محسن خان - لارڈز کے بادشاہ اور بالی وڈ کا شاہکار: ایک نایاب امتزاجمحسن خان، پاکستان کے اسٹائش اوپنر جنہوں...
13/12/2025

خانوں میں خان: محسن خان - لارڈز کے بادشاہ اور بالی وڈ کا شاہکار: ایک نایاب امتزاج

محسن خان، پاکستان کے اسٹائش اوپنر جنہوں نے 70 اور 80 کی دہائی میں 48 ٹیسٹ اور 75 ون ڈے میچز کھیلتے ہوئے 2,709 ٹیسٹ رنز اور 1,877 ون ڈے رنز بنائے- کرکٹ کے میدان پر وہ سب سے تیز بولرز کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہوئے، اور فلمی اسکرین پر بالی وڈ کے سب سے بڑے ناموں کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔ یہ دو جہان ایک شخص میں کیسے سما گئے؟ محسن خان کی زندگی یہی جواب دیتی ہے۔

"جب میں پہلی بار بھارت آیا، تب سے بالی وڈ کی پیشکشیں آنا شروع ہو گئیں۔ لوگ کہتے، بس 20 دن رک جاؤ، تمہارا حصہ مکمل کر دیں گے، مگر میرا فوکس کرکٹ پر تھا۔"

یہ فوکس بے شک صحیح ثابت ہوا۔ 1982 میں محسن خان نے پاکستان کے پہلے بیٹر کے طور پر ایک کیلنڈر سال میں 1,000 رنز بنانے کا ریکارڈ قائم کیا۔ لارڈز میں ڈبل سنچری نے ان کا نام ریکارڈ بکس میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔

1984 میں ایڈیلیڈ اور میلبورن میں مسلسل سنچریوں نے دنیا کے بہترین فاسٹ بولر ڈینس للی کے سامنے ان کی مہارت کو ثابت کر دیا۔ "اس وقت کے بہترین بولر کے خلاف یہ کارنامہ کرنا بہت اطمینان بخش تھا۔”

محسن خان کا ماننا ہے کہ ان کا کھیل تیز رفتار اور باؤنس والے پچوں کے لیے خاص طور پر موزوں تھا۔ "میں نے باؤنس والی پچوں پر اپنے معاصر پاکستانی بیٹروں سے بہتر کھیل کیا۔”

ایک ٹیسٹ جسے وہ کبھی نہیں بھولتے، وہ لاہور میں بھارت کے خلاف تھا۔ پہلی اننگز میں 94 رنز بنائے، اور پھر دوسری اننگز میں 101 ناٹ آؤٹ، 135/1 کی ٹیم سکور کے ساتھ ایک سنچری جو کم سے کم ٹیم رنز میں آئی۔ "

"بھارت کے خلاف کھیلنا ہمیشہ دلچسپ رہا۔ جمی (موہندر امرناتھ) میرے قریبی دوست بن گئے۔ ہمارے وقت میں جارحیت تھی، مگر بدتمیزی نہیں تھی۔”

"بولرز میں عمران خان، ڈینس للی، رچرڈ ہیڈلی، میلکم مارشل اور کپل دیو کو بڑے بولر مانتے ہیں ۔ بیٹرز میں سنیل گاواسکر، ماجد خان، وِو رچرڈز اور گریگ چیپل کی مہارت کو سراہتے ہیں۔”

اگر کرکٹ محسن خان کی پہلی محبت تھی، تو بالی وڈ نے غیر متوقع طور پر دوسری محبت کا کردار ادا کیا۔ 1980 کی دہائی کے وسط تک وہ ممبئی میں کراچی کے مقابلے زیادہ وقت گزارنے لگے۔ اس وقت وہ مشہور اداکارہ رینا رائے کے شوہر بھی تھے۔ ایک اتفاقیہ موقع نے ان کا کیریئر بدل دیا۔ فلم بٹوارہ کی پیشکش کے وقت وہ لندن جا رہے تھے، ممبئی کے راستے۔ "

“دھرم جی (دھرمندرا) بہت محبت کرنے والے تھے، ونود (کھنہ) دوست کی طرح۔" ایک سین میں جذباتی شدت دکھانی تھی، اور ڈائریکٹر جے پی دتّا نے محسن خان کو سمجھانے کا دلچسپ طریقہ اپنایا: "انہوں نے کہا، 'محسن، فرض کرو تم نے ہنڈرڈ مارا، پھر بھی پاکستان بھارت سے ہارا، کیسا محسوس ہوگا؟'"

یہ پرفارمنس محسن خان کو فلم فئیر کے بیسٹ سپورٹنگ ایکٹر کے لیے نامزدگی دلائی، اور وہ نانا پٹیکر اور انوپم کھیر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوئے۔ "نانا اور انوپم کے ساتھ نامزد ہونا، ایک تربیت یافتہ اداکار نہ ہونے کے باوجود، میرے لیے بہت بڑی کامیابی تھی،" وہ فخر سے کہتے ہیں۔

محسن خان کی سب سے یادگار تجربہ مہیش بھٹ کے ساتھ فلم ساتھی کی شوٹنگ میں ہوا، جس کی معروف دھن زندگی کے تلاش میں ہم، موت کے کتنے پاس آ گئے، آج بھی لوگوں کے دلوں میں گونجتی ہے۔ "بھٹ صاحب ایک ذہین انسان ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر آپ زندگی کے فلسفے سیکھ سکتے ہیں۔ کمار سانو نے گانا لاجواب گایا،" محسن خان یاد کرتے ہیں۔

ان کا کرکٹ کیریئر اور فلمی سفر کئی طرح کے تضادات پر مشتمل تھا۔ ایک طرف لارڈز میں ڈبل سنچری کا سکور، دوسرے طرف ممبئی کی فلم اسٹوڈیوز میں فلمی سینز کی شدت، اور دونوں کے درمیان ایک انسان کی محنت، جذبہ اور لگن کا امتزاج۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے فیصلے خود کیے، چاہے کرکٹ ہو یا فلم، چاہے لاہور کا گراؤنڈ ہو یا ممبئی کی سکرین۔

محسن خان کی کہانی صرف رنز، سنچریوں اور فلموں تک محدود نہیں۔ یہ دو دنیاوں کا امتزاج ہے، ایک شخص میں جذبہ، محنت اور فن کا سنگم۔ لارڈز کے میدان سے لے کر ممبئی کی اسکرین تک، محسن خان نے ثابت کیا کہ محدودیت صرف ذہن میں ہوتی ہے، اور خواب وہی پورے ہوتے ہیں جو جیتے جاگتے دل اور غیر معمولی حوصلے کے ساتھ دیکھے جائیں۔ ان کی زندگی، ان کے لمحات اور ان کے قصے آج بھی نئی نسل کے لیے سبق ہیں، کہ کبھی بھی اپنے خوابوں کو محدود نہ سمجھو، کیونکہ حقیقی شہرت اور کامیابی اسی کا مقدر بنتی ہے جو دل سے جیتے اور دل سے کام کرے۔

- باسط سبحانی

‏ان سے ملیں یہ ہیں ڈاکٹر عارف زمان صاحب جو دنیا کے  جانے مانے ماہرین ریاضیات اور شماریات میں سے ہیں۔    دنیا کے ٹاپ ادار...
13/12/2025

‏ان سے ملیں یہ ہیں ڈاکٹر عارف زمان صاحب جو دنیا کے جانے مانے ماہرین ریاضیات اور شماریات میں سے ہیں۔ دنیا کے ٹاپ اداروں سے تعلیم پائی۔ ملک کی بہترین یونیورسٹی لَمز کے ڈِین رہے۔ دنیا بھر میں اعزازات اپنے نام کئے اسکے باوجود ڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ یونیورسٹی میں اعلٰی عہدے پر ہونے کے باوجود سائیکل پر آتے جاتے نظر آتے۔ ادارے کی مسجد میں خود جاکر اذان دیتے۔ سفید کپڑے پہنتے اور سر پر پگڑی باندھتے۔

لَمز کے ایک پروفیسر نے واقعہ سنایا کہ ادارے میں ایک امریکی وفد آیا تو ڈِین کی حیثیت سے استقبال انکے ذمہ تھا۔ بہترین استقبال کےلئے دو کمروں میں کھانے کیلئے ٹیبل کُرسیاں لگوائی اور جس ہال میں وفد بیٹھا انھوں نے وہیں کونے پر اپنا زمینی دسترخوان بھی لگا رکھا تھا۔۔ سب مہمان بُوفے سے کھانا لیکر‏کرسیوں کی طرف گئے اور ڈاکٹر صاحب اپنے زمینی دسترخوان کی طرف ۔واقعہ سنانے والے پروفیسر کہتے ہیں میں شرم کے مارے دوسرے ہال میں چلا گیا اور جب کچھ دیر بعد آیا تو ٹیبل کرسیاں ایک جانب تھیں اور سب زمین پر بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ میں بڑا حیران ہوا ‏اور پوچھا ڈِین صاحب یہ کیا ماجرا ہے؟ کہنے لگے۔ مجھے دیکھ کر وفد کا بڑا آدمی آیا اور زمین پر بیٹھنے کی وجہ پوچھی میں نے کہا جی یہ ہمارے نبیؐ کی سُنَت ہے اسکے کیا فائدے ہیں اسکا اندازہ آپکو اسطرح بیٹھ کر ہی پتا چلے گا تو بس یہ سب بیٹھ گئے ۔

‏اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جو انسان بھی پیارے آقاؐ کی پیروی کرے اور اس میں فخر سمجھے تو یقینی بات ہے کہ اللہ لوگوں کے دل میں اسکا احترام پیدا کرینگے۔ اسی بات پر ایک صحابی کا واقعہ بھی سن لیں۔ جب وہ بادشاہ رُستم کے دربار میں گئے تو اُس نے ایک عالی شان دعوت کی ۔ کھانا کھاتے ہوئے ایک صحابی ‏کا لُقمہ دسترخوان پر گِر گیا ۔وہ اُٹھا کر کھانے لگے تو دوسرے نے کُہنی ماری کہ ہم بادشاہ کے دربار میں موجود ہیں کیا کر رہے ہو؟انھوں نے جواب میں کہا کہ ان لوگوں کیوجہ سے میں اپنےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنت چھوڑ دوں؟اور لُقمہ اٹھا کر کھالیا۔ بلاشبہ عزت دینے والی ذات صرف اللہ ہی کی ہے اور وہ ایسے لوگوں کی عزت خوب بناتا ہے جو اسکے پیغمبر کی جی جان سے تقلید کرتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو یہ توفیق اور اعزاز بخشے۔ آمین

13/12/2025
555  میچز کھیلنا ہی بہت مشکل سی بات لگتی ہے اور کہاں ایک کھلاڑی 555 میچز میں فاتح رہے اور وہ بھی 555 مسلسل میچز میں- 555...
12/12/2025

555 میچز کھیلنا ہی بہت مشکل سی بات لگتی ہے اور کہاں ایک کھلاڑی 555 میچز میں فاتح رہے اور وہ بھی 555 مسلسل میچز میں- 555 میچز جو کہ پانچ سال پر محیط تھے، اس دوران کوئی شکست نہ دے پایا ہو، یہ کچھ زیادہ ہی ناقابل یقین نہیں لگتا؟ لیکن یہ ایک سچ ہے، شاید دنیا کے سب سے بڑے کھلاڑی کا سچ- ایک ایسا کھلاڑی کہ اگر وہ فٹبال یا ٹینس کھیلا ہوتا تو دنیا کا بچہ بچہ اس کا نام یاد رکھتا لیکن سکواش کا کھیل ذرا مشکل بھی ہے اور کچھ لوگوں کی پہنچ سے دور بھی- تو لوگ جہانگیر خان کا نام تو جانتے پہچانتے ہیں پر وہ کتنے بڑے کھلاڑی ہیں، یہ سمجھنا ہم جیسے عام لوگوں کے لئے ممکن نہیں-

جہانگیر خان کا نام جب پہلی بار سنا تو اس وقت سکواش کے بارے میں کچھ پتہ نہ تھا- اس وقت میرے لئے دنیا مین صرف ایک ہی کھیل تھا اور وہ کرکٹ تھا- سکواش کا کھیل آج کی نسل کے لئے ایک نامانوس سا نام ہے وجہ کھیلوں میں عوام کی تیزی سے کم ہوتی ہوئی دلچسپی اور ساتھ ہی سکواش کے کھیل کا مہنگا ہونا, عوام الناس کی رسائی سے دور ہونا بھی ہے- کچھ اس کھیل کو سمجھنا بھی مشکل ہے کہ دو کھلاڑی ایک بند کمرے میں گیند سے دیواروں کو کیوں پیٹ رہے ہیں-

عوام کی پہنچ سے یہ کھیل تب بھی دور ہی تھا اور اسے سمجھنا تب بھی اتنا ہی مشکل تھا لیکن جب ہر سال ایک کھلاڑی کئی ٹائٹلز جیت کر لا رہا ہو تو دلچسپی پیدا ہو ہی جاتی ہے اور یہی سکواش اور پاکستانی عوام کے ساتھ تھا- جہانگیر خان سکواش کا ایک ایسا نام جسے شکست پسند ہی نہیں تھی- سالوں تک جیتتا ہی جاتا تھا, پانچ سال آٹھ ماہ تک ناقابل شکست رہتے ہوئے مسلسل 555 میچز میں فتح ناقابل یقین ہی لگتی ہے-

جہانگیر خان نے چھ بار ورلڈ چمپئن شپ جیتی, دس بار برٹش اوپن جیتی اور اس کے جانے سے پہلے ہی اس کی جگہ جانشیر خان نے سنبھال لی اور انہی دونوں کی وجہ سے پاکستان ورلڈ چمپئن شپ کے مجموعی میڈلز ٹیبل پر آج تک سرفہرست ہے باوجود اس کے کہ پاکستان نے 1996 سے کوئی میڈل نہیں جیتا- جہانگیر 2002 سے 2008 تک ورلڈ سکواش فیڈریشن کے صدر رہے اور 2008 سے آج تک ورلڈ سکواش فیڈریشن کے اعزازی صدر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں-

آج سکواش کے اس لیجنڈ اور پاکستان کے عظیم ہیرو کی 62 ویں سالگرہ ہے-

‏یہ کوئی اینٹ کی فیکٹری نہیں بلکہ بھارت میں بابری مسجد کی تعمیر کیلئے مسلمانوں کی جانب سے لائے گئے اینٹیں ہے انڈین میڈیا...
12/12/2025

‏یہ کوئی اینٹ کی فیکٹری نہیں بلکہ بھارت میں بابری مسجد کی تعمیر کیلئے مسلمانوں کی جانب سے لائے گئے اینٹیں ہے انڈین میڈیا کے مطابق مسلمانوں نے ایک ہفتے میں اتنے اینٹ اور سیمنٹ جمع کردیئے ہے جس سے پورا شہر اباد ہوسکتا ہے بھارتی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اظہرالدین نے شروع میں مسجد کو بڑی رقم دےدیا تھا اور مسلمانوں سے اپیل کی تھی جس پر دیش کے کونے کونے سے لوگ اکھٹے ہوگئے اور اب اینٹیں ریت سیمنٹ سریا وغیرہ اتنی زیادہ جمع ہوگئے ہے جس کورکھنے کیلئے جگہ کم پڑرہی ہے بھارتی میڈیاکا کہنا ہے کہ اتنا اتفاق پہلی بار دیکھا گیا ہے اظہرالدین کےعلاوہ کچھ بالی ووڈ کے مسلمان ایکٹر بھی مسجد کی تعمیر میں بہت مدد کررہے ہیں تاحال ان کا نام خاموش رکھا گیا ہے
بھارتی سرکار پہلی بار اتفاق اور اتحاد کو دیکھ کر پریشان ہے اور بھارتی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ الزام پاکستان پر لگائے ہے اور کہا کہ بھارتی مسلمانوں کے پشت پر پاکستان کا ہاتھ ہے

Address

Aljumaira Street
Abu Dhabi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tahir Chughtai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Tahir Chughtai:

Share