Tahir Chughtai

Tahir Chughtai Director at PBC Rawalpindi II Producer, Broadcaster, Writer, Singer, Naat Khawan, Drama Artist , (Working With China Radio International .Beijing )

12/10/2025
اسلامی تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ ‎،عباسی دور خلافت  خلیفہ مہدی کے زمانے میں ایک شعبدے باز حکیم مقنع خراسانی نے مصنو...
12/10/2025

اسلامی تاریخ کا ایک عجیب و غریب واقعہ
‎،عباسی دور خلافت خلیفہ مہدی کے زمانے میں ایک شعبدے باز حکیم مقنع خراسانی نے مصنوعی چاند کو اپنا معجزہ قرار دیا،خلیفہ مہدی نے اس فتنے کا قلع قمع کر دیا،اس کی موت کے ساتھ وہ چاند بھی غروب ہوا،بعض نے اسے جادوگر کہا ہے،
حکیم مقنع خراسانی
عباسی دور خلافت میں خلیفہ ابو جعفر المنصور (754-775) کے زمانے میں خراسان کے علاقے مرو کے ایک معمولی گاؤں میں ایک دھوبی کے گھر بیٹا پیدا ہوا۔ نام اس کا ھاشم یا ھشام رکھا گیا لیکن یہ مشہور ابن مقنع کے نام سے ہوا۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ کراہت کی حد تک بد صورت ہونے کے سبب نقاب اوڑھ کر رہتا تھا۔ مقنع نقاب کو کہا جاتا ہے۔ خراسان کے ایک گاؤں میں دھوبی کے گھر پیدا ہونے کے والے اس شخص کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ البتہ اس کی شکل و صورت انتہائی بدشکل اور کریہہ تھی کہ لوگ اس سے کراہت محسوس کرتے تھے اور اس کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ لوگوں کی اس نفرت کے سبب اس کے اندر کے حسد اور احساس کمتری نے اس کو حد سے زیادہ متاثر کیا۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ یہ لوگ جو اس کو کمتر و بدصورت جانتے ہیں اسے ان لوگوں پر حکمرانی کرنی ہے۔
ابن مقنع اپنی جوانی کے زمانے میں گھر چھوڑ کر چلا گیا اور نہ جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا پھرا۔ اس دوران اس نے علم کیمیا، جادو، شعبدے بازی اور دیگر علوم و فنون سیکھے اور کئی سال تک اپنے گاؤں سے غائب رہا ۔ خلیفہ مہدی (775-785) کے زمانے میں یہ اپنے گاؤں واپس آگیا۔ یہ ایک دور دراز گاؤں تھا جہاں دین کے معاملے میں جہالت تھی۔ اس نے اپنے جادو اور کیمیا کے علم کے بل بوتے پر لوگوں کو طرح طرح کی شعبدے بازیاں دکھا کر ان کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ جب لوگ اس سے بہت زیادہ متاثر ہوگئے تو اس نے پیغمبری کا دعوی کردیا۔ جب خاصے لوگ اس پر ایمان لے آئے تو وہ انہیں لے کر ماورالنہر کے علاقے کش میں پہنچ گیا۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں کے درمیان یہ علاقہ اس کے مذموم مقاصد پر پورا اترتا تھا۔وہاں اس نے ایک قلعہ تعمیر کر لیا۔ دور دراز اور دشوار پہاڑی علاقہ ہونےکی وجہ سے جنگ میں اسے مضبوط دفاع حاصل تھا۔ اس نے وہاں سے گزرنے والے قافلوں کو لوٹنا شروع کردیا اور اپنے پیروکاروں پر لوٹ مار حلال قرار دے دی اور ان کو حکم دیا کہ وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ قلعہ میں ہی رہائش اختیار کریں۔ غرض اس لوٹ مار سے اس نے بہت پیسہ دولت حاصل کرلیا۔ یہ لوگ لوٹ مار کرتے اور پھر قلعہ بند ہوجاتے۔ اس علاقے میں وہ دوردورتک مشہور ہوگیا۔
لوگ اسے دیکھنے اور اس سے مناظرہ کرنے آتے تھے۔
کہاجاتا ہے کہ اس کو کوڑھ کا مرض بھی لاحق ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس کی ناک اور ہونٹ گل کر جھڑ چکے تھے۔
اب اس نے اپنی بدصورتی چھپانےکےلیےسونےکاماسک یا نقاب پہننا شروع کردیا تھا جسے یہ ہر وقت چہرے پر چڑھائے رکھتا تھا۔ اس نے یہ مشہور کردیا کہ توبہ نعوذ باللہ جبرائیل علیہ السلام نخشب کے ایک مقام پر اس سے کلام کرتے ہیں اور اس کو حکمت کی باتیں بتاتے ہیں۔ ان کے حکم کے مطابق عام گنھگار انسان اس کا چہرہ دیکھنے کے روادار نہیں ہیں اس لئے وہ اپنا چہرہ چھپا کر رکھتا ہے۔
بہت سے لوگوں اور بغدادکے علماء نے اسے جھوٹا کہہ کر معجزہ دکھانے کو کہا تو اس نے ایک نقلی چاند بنایا جو نخشب کے علاقے کے ایک کنویں سے طلوع ہوتا تھا ۔ نخشب ترکستان کے ایک شہر کا نام ہے جسے ترکی میں قرشی کہتے ہیں۔ علما و ماہرین کا خیال ہے کہ اس نے ماہِ نخشب بعض فِلزات مثلِ سیماب وغیرہ کی لاگ سے بنا کر نکالا تھا جو دو ماہ تک غروب نہیں ہوتا تھا اور چار فرسنگ یعنی پندرہ میل تک اس کی روشنی پہنچتی تھی۔ یہ چاند سیماب اور چاندی کے اجزائے ترکیبی اور مقنع کے فن شعبدہ بازی کا کمال تھا۔ ضعیف العقیدہ لوگ اسے خدا سمجھ بیٹھے۔ وہ چاند نخشب کے کنویں سے طلوع ہوتا اور تقریباً پندرہ میل کی مسافت کو روشن کرتا تھا۔ یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کیونکہ آج سائنس کی حیرت انگیز ترقی کے باوجود سائنسدان بجلی کے ہوتے ہوئے کوئی ایسا بلب ایجاد نہیں کرسکے ہیں جو اکیلا اتنے بڑے علاقے کو روشن کرسکے۔
اردو ادب میں بھی اسکا ذکر ملتا ہے۔
ابن مقنع کے چڑھائے اس چاند کی خبر دوردراز تک پہنچ گئ اور لوگ جوق در جوق اس کے پیروکاروں میں شامل ہونے لگے۔ بہت سےلوگ گمراہ ہوئے اور اس کو سجدہ کرکے خدا مان لیا۔ مقنع کے پیروکار رات میں چاہ نخشب کے گرد جمع ہوجاتے اور پھر مقنع چاہ نخشب سے چاند طلوع کرتا جو کافی بلندی پر جا کر معلق ہوجاتا اور ہر طرف روشنی پھیل جاتی جو میلوں دور تک نظر آیا کرتی تھی۔ اس وقت کے خلیفہ مہدی تک اس فتنے کی خبر پہنچی تو اس نے اس فتنے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ اس وقت وہ خود بہت سے مسائل میں اُلجھا ہوا تھا۔ جن میں ایک بنوامیہ کی بغاوت تھی ۔ دوسری بات یہ کہ اس دور میں اس قسم کے فتنے اکثر سر اٹھاتے رہتے تھے لیکن کچھ عرصے بعد خود ہی ختم بھی ہوجایا کرتے تھے۔ خلیفہ مہدی نے اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا لیکن خلیفہ کی یہ لاپرواہی انتہائی سنگین نوعیت کے نتائج لائی۔
ابن مقنع کافتنہ صرف اس کےعلاقے تک محدود نہیں رہابلکہ دور دور تک پھیل گیا۔ اس کے پیروکار نہ صرف ہر گزرنے والے قافلے کو لوٹنے لگے بلکہ اب ان کی دیدہ دلیری اور بدمعاشی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ یہ قافلوں میں شامل عورتوں اور لڑکیوں کو بھی قید کر کے ان کو اپنی لونڈیاں اور باندیاں بنانے لگے۔ اب ابن مقنع طاقت کے نشے میں سرشار تھا۔ اس نے خدائی کا دعوی کردیا۔ اس نے علاقے کے حاکموں کوخطوط روانہ کر دیے جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ توبہ نعوذباللہ خدا اسکی ذات میں حلول کر گیا ہے لہٰذہ اس کو خدا تسلیم کیا جائے اور اس کی مکمل اطاعت کے ساتھ ساتھ نذرانے پیش کیےجائیں۔ ایساہی ایک خط اس نےخلیفہ مہدی کوروانہ کیاجسے پڑھ کرخلیفہ سخت طیش میں آگیا۔ اس کواپنی لاپرواہی کا احساس ہوا اور اس نےجواباً اپنی فوج اس فتنےکی سرکوبی کے لیے روانہ کر دی۔خلیفہ مہدی نے اسے ایک معمولی آدمی سمجھا اور اس کے لئے فوج کے چند دستے روانہ کئے۔ یہ خلیفہ کی بہت بڑی بھول تھی ۔ ابن مقنع کی فوج نے خلیفہ کی فوج کو شکست سے دوچار کر دیا۔ اس شکست کے بعد خلیفہ مہدی نے باقاعدہ مکمل تیاری کےساتھ اپنے وزیر معاویہ بن عبداللہ کی سرپرستی میں ایک لشکر اس فتنے کی سرکوبی کے لیے تیار کیا۔ لیکن مقنع کی طاقت اتنی بڑھ چکی تھی کہ یہ لشکر بھی ناکام ہوگیا۔ اب خلیفہ نے معاویہ بن عبداللہ کی مددکےلیے مزید بھرپور اور تازہ دم کمک بھیجی۔ اس کمک کے پہنچنے کے بعد اسلامی فوج نے دوبارہ مقنع کے قلعے پر حملہ کیا اور کافی مشکلات کے بعد معاویہ بن عبداللہ قلعےکو فتح کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
اپنی شکست دیکھ کر ابن مقنع نےقلعے کوآگ لگادی اور اپنےپیروکاروں کواس میں کودنے کا کہا اور خود قلعے سے فرار ہونےکی کوشش کی۔
یہاں تاریخ کا اختلاف ہے بعض جگہ مورخین نے لکھا ہےکہ اس نے اپنے پیروکاروں کو زہر دے دیا تھا بہرحال قلعے سے فرار ہونے کی ناکام کوشش میں وہ پکڑا گیا۔
حکیم مقنع کی موت کے متعلق بعض مختلف روایتیں ہیں،
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان قلعے میں داخل ہو گئے اور انہوں نے مقنع کو قتل کیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس نے پہلے اپنے تمام رفقا اور رشتہ داروں کو زہر پلایا اور پھر خود بھی زہر پی لیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس نے ایک گڑھے میں آگ جلوائی اور اور اپنے معتقدین کو جمع کر کے کہا کہ جو لوگ میرے ساتھ فردوس بریں میں رہنا چاہتے ہیں وہ اس آگ میں میرے ساتھ کود جائیں۔ چنانچہ بہت لوگ اس آگ میں کود گئے ان میں حکیم مقنع بھی تھا۔
اس کے خاندان کی ایک عورت جو اس واقعے میں بچ گئی تھی اس کے کہنے کے مطابق مقنع نے ایک بڑی دعوت کی جس میں اس کے خاندان کے تمام افراد، بیویاں، لونڈیاں کنیزیں اور قریبی رفقا شامل تھے سب کو کھانے میں زہر کھلا دیا۔ اس کے بعد اس نے آگ کا ایک گڑھا روشن کر کے اپنی نقاب اتاری اور سر کے بل اس الاؤ میں خود کو جھونک دیا۔ اس عورت کا کہنا تھا کہ اس نے پہلی بار مقنع کو بغیر نقاب کے دیکھا تھا۔ اس کا چہرہ انتہائی بدنما اور گھناؤنا تھا۔ اس کے سپاٹ گلے سڑے چہرے سے ناک اور ہونٹ گل کر گر چکے تھے۔ اس کی کچھ انگلیاں بھی جھڑ چکی تھیں۔
الیاس سیتاپوری نے اپنے ناول “ چاند کا خدا” میں مقنع خراسانی کے واقعات بڑے بہترین انداز میں بیان کئے ہیں۔
مقنع کے بنائے چاند کے متعلق دور جدید میں ماہرین مختلف تھیوریز پیش کرتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ اس نے پارے اور چاندی کے املغم سے کوئی دیوھیکل محدب عدسہ یا کُرؔہ تیار کیا تھا جو چاند کی روشنی کو کئی گنا زیادہ روشن منعکس کرتا تھا۔ کچھ کہتے ہیں کہ اس نے کوئی ایسا میکانکی آلہ تیار کیا تھا جو اس کُرے کو بہت بلندی پر لے جاتا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن عام خیال یہی ہے کہ کچھ علم کیمیا کے ساتھ ساتھ چاہِ نخشب کے اس چاند میں مقنع کی جادوگری، شعبدے بازی اور نظر بندی کا کمال بھی تھا۔
چاند کا یہ خدا آٹھ سال( AD 775-785) لوگوں میں اپنی جھوٹی خدائی کے دعوے گھڑتا رہا لیکن بالآخر اپنے انجام کو پہنچا۔
ابن مقنع کی موت کے بعد اس کاچڑھایا ہوا چاند چند دنوں تک آسمان کو روشن کرتا رہا لیکن ایک دن چاہ نخشب میں ڈوب کرٹوٹ گیا اور ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا۔
رہے نام اللہ کا!
شمسی توانائی کے ایک ماہر سائنس دان عباس علی رستم (ایرانی) نے چاہ نخشب کی سائنسی تحقیق "سیکرٹ آف مون آف نخشب" کے عنوان سے لکھی ہے جو کافی دلچسپ ہے- انہوں نے نیوٹن کے ایک اصول کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق کسی بھی مائع سیال کو ایک خاص رفتار سے گول گھمایا جائے تو وہ روشنی کو کئی گنا بڑھا کر منعکس کرتا ہے- دنیا کی پہلی دوربین بھی اسی اصول کے تحت ایجاد ہوئی تھی-
تاریخ میں درج ہے کہ جب عباسی فوج نخشب پہ غالب ہوئی تو انہیں کنویں میں پارہ سے بھرے ہوئے ایک بڑے برتن کے سوا کچھ نہ ملا- عباس علی رستم کے مطابق نخشب پارہ سے بھرے ہوئے اس برتن کو خُفیہ پلیوں سے گھماتا تھا- کنویں میں آئینے کے ذریعے اصل چاند کا عکس ڈالا جاتا جو منعکس ہو کر اصلی چاند کی روشنی کئی گنا بڑھا کر فضاء میں چاند کی شبیہ پیدا کرتا تھا-

مشہورِ زمانہ قوالی (تم اک گورکھ دھندہ ہو) جس کو استاد نصرت فتح علی خان کی آواز نے امر کر دیا لیکن اس کے شاعر کو بہت کم ل...
12/10/2025

مشہورِ زمانہ قوالی (تم اک گورکھ دھندہ ہو) جس کو استاد نصرت فتح علی خان کی آواز نے امر کر دیا لیکن اس کے شاعر کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے ۔آیئے ان کے بارے میں جانتے ہیں ۔
پیدائش :
ان کا اصل نام محمد صدیق اور تخلص ناز تھا۔ ناز خیالوی"جھوک خیالی" نامی ایک گاؤں394 گ ب میں 1947ء میں پیدا ہوئے اور اسی نسبت سے انھیں خیالوی کہا جاتا ہے۔
جھوک خیالی گاؤں ضلع فیصل آباد، صوبہ پنجاب، پاکستان میں تاندلیانوالہ کے نزدیک اور لاہور سے 174 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے
شاگردی :
وہ ایک ممتاز اردو شاعر احسان دانش کے ایک شاگرد تھے۔
نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو
جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو
کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی
کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو
زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے
وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو
خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی
طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو
نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل
خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو
چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں
نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو
بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں
آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو
جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی
بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو
خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر
خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو
اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے
اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو
کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری
تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو
جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی
اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو
جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے
تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو
سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے
اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو
خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب
ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو

ناز خیالوی

🌿 ٹٹہری — قدرت کا حیرت انگیز پرندہسائنس نے بہت کچھ جانا، لیکن کچھ راز اب بھی فطرت کے پاس ہیں۔ ٹٹہری ایسا پرندہ ہے جو صدی...
12/10/2025

🌿 ٹٹہری — قدرت کا حیرت انگیز پرندہ
سائنس نے بہت کچھ جانا، لیکن کچھ راز اب بھی فطرت کے پاس ہیں۔ ٹٹہری ایسا پرندہ ہے جو صدیوں سے لوگوں کو حیران کر رہا ہے۔ یہ صرف پرندہ نہیں، بلکہ قدرت کی خاموش زبان ہے۔

ٹٹہری کی سات باتیں

1️⃣ چار انڈے = چار ماہ بارش
اگر ٹٹہری چار انڈے دے، تو سمجھ لو کہ بارش مسلسل چار ماہ تک ہوگی۔ کسان آج بھی اسے دیکھ کر فصلوں کا اندازہ لگاتے ہیں۔

2️⃣ اونچی زمین پر انڈے = زیادہ بارش
اگر ٹٹہری زمین کے اونچے حصے پر انڈے دے، تو بارش بہت زیادہ ہوگی۔ پانی کی تباہی آ سکتی ہے۔

3️⃣ یہ کبھی درخت، رسی یا دیوار پر نہیں بیٹھتی
ٹٹہری ہمیشہ زمین کے قریب رہتی ہے۔ یہ اس کی فطرت ہے اور یہی اسے خاص بناتی ہے۔

4️⃣ چھت پر انڈے = پانی کی تباہی
چھت پر انڈے دینا خطرے کی نشانی ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ بارش اور پانی سے نقصان ہو سکتا ہے۔

5️⃣ کرکشترا کے باہر مردہ نہیں ملتی
یہ پرندہ صرف اپنے علاقے میں رہتا ہے، جیسے اس کی تقدیر خود محدود ہے۔

6️⃣ جس کھیت میں انڈے، وہ کبھی خالی نہیں ہوتا
ٹٹہری کی موجودگی کھیت میں برکت لاتی ہے۔ فصلیں ہمیشہ اچھی ہوتی ہیں۔

7️⃣ انڈے نہ دینا = خطرے کی نشانی
اگر سال بھر ٹٹہری نے انڈے نہیں دیے، تو سمجھ لو کوئی بڑی آزمائش یا خطرہ آنے والا ہے۔

سبق

ٹٹہری صرف پرندہ نہیں بلکہ قدرت کی نصیحت ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر چھوٹی مخلوق میں بھی حکمت چھپی ہے۔ سائنس بہت کچھ بتا سکتی ہے، لیکن کچھ اسرار صرف قدرت کے پاس ہیں۔

ہماری زبان میں ٹٹہری بولتے ہیں اسے آپ اپنی زبان میں اس کا نام بتائیں

پڑھنے کیلئے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے زمین فروخت کرکے پڑھا، فارن سے پی ایچ ڈی کرلی۔واپس کابل آیا، سوچ رہا تھا اتنا س...
12/10/2025

پڑھنے کیلئے پاس اتنے پیسے نہیں تھے اس لئے زمین فروخت کرکے پڑھا، فارن سے پی ایچ ڈی کرلی۔
واپس کابل آیا، سوچ رہا تھا اتنا سارا پڑھ لیا ہے اب تو صدر کے بعد سب سے بڑی کرسی مجھے ملے گی!
کافی عرصہ نوکری کیلئے دفتروں کی خاک چھانی، نوکری نہیں ملی۔ کچھ تو کرنا تھا اس لئے ایک کار سروس سٹیشن کھولا۔ رشتہ داروں نے خوب مذاق اڑایا مگر میں اپنے آپ کو اور گھر والوں کو تسلی دیتا رہا کہ سب بہتر ہو جائے گا۔
سروس سٹیشن بہت خستہ حال تھا۔ شیشوں کے بجائے پلاسٹک کا سہارا لیا، کابل کی یخ بستہ اور تیز و تند ہوائیں آئے روز پلاسٹک اڑا لے جاتے اور مجھے ہر روز نئے پلاسٹک خریدنے پڑتے۔
چچا زاد بھائیوں کو میرے نئے کام سے کافی راحت محسوس ہوتی تھی۔
آئے روز خوبصورت کاریں لاتے اور مجھ سے دھلاتے تھے اگرچہ میرے ساتھ اور بھی لوگ کام کرتے تھے مگر ان کی کاریں ہمیشہ میں خود صاف کرتا تھا۔
سخت سردی کا موسم تھا۔ کابل کی یخ بستہ ہوائیں جسم کے آرپار گزرتی تھی میں پلاسٹک والی کھڑکی سے باہر کا منظر دیکھ رہا تھا۔ چچا زاد آئے گاڑی کھڑی کی اور صفائی کا کہا۔
میں نے دیکھا گاڑی اندر سے پوری طرح گوبر، گھاس سے بھری پڑی ہے۔
خدا جانے مگر میرا گمان یہ تھا کہ یہ انھوں نےخود ہی جان بوجھ کے گندی کی ہے تاکہ میں صاف کروں اور وہ دیکھ کر سکون پائے!
میرے ساتھ کام کرنے والے گاڑی کی طرف لپکے، میں نے انھیں منع کیا، مطلب یہ تھا کہ اب چچا زاد بھائی ہے وہ تو صرف اس لئے آیا ہے کہ مجھے صفائی کرتے ہوئے دیکھے۔ میں نے بھائی کو بٹھایا اور ان کیلئے چاہے کا آرڈر دیا۔
اور خود گاڑی کی واش کرنے لگا۔
کام بہت سخت تھا، میری آنکھیں بھر آئیں مگر کام کرتا رہا اور ان کی گندی گاڑی صاف کی۔

چچا زاد بھائی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے باہر آئے اور کہا اچھی طرح صاف کرنا! اگر سچ پوچھے تو بہت ہی کھٹن حالت تھی مگر میں نہیں چاہتا تھا کہ بھائی کے امیدوں پر پانی پھیروں۔

*کچھ دنوں بعد*

کار اچھی طرح دھوئی، کار کا مالک کافی مضطرب تھا. میں نے سوچا شاید گاڑی اچھی طرح صاف نہیں ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا بھائی کیا بات ہے اپ اتنے پریشان کیوں؟ انھوں نے کہا میں طالب علم ہوں اور میرا امتحان ہے۔
عجیب بات یہ تھی کہ وہ معاشیات کا طالب علم تھا اور دوسری طرف میں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی
میں نے پوچھا کس مضمون کا پرچہ ہے؟
انھوں نے کہا “اکاؤنٹنگ"
میں نے کہا تم سامنے اس روم میں جاؤ میں آتا ہوں۔
میں نے انھیں چھ ماہ کا سبق پندرہ منٹ میں سمجھا دیا!
کہا یہ گاڑی آپ نے دھوئی ہے؟
میں نے کہا ہاں جی! زندگی ہے کام تو کرنا ہے نا!
میں نے انھیں اپنی پڑھائی کے بارے میں بتایا
وہ حیران تھا!
اب وہ ضد کرنے لگا کہ آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا، ہماری یونیورسٹی کے وی سی میرے دوست ہیں۔
میں ان سے بات کرتا ہوں وہ آپ کو ضرور نوکری دے گا۔
میں ان کے ساتھ چلنے لگا تو انھوں نے میرے میلے کچلے کپڑے دیکھ کر استفسار کیا کوئی اور کپڑے نہیں ہے آپ کے پاس؟
میں نے کہا نہیں، مجھے پتہ ہے نوکری کسی نے دینی نہیں یہ تو بس آپ ضد کر رہے ہیں اس لئے تمہارے ساتھ جانے لگا ہوں۔
گیلے کپڑے زیب تن کئے ہوئے میں وی سی آفس کے ایک کونے میں کھڑا ہوگیا۔ آفس میں قیمتی فرنیچر رکھا ہوا تھا مگر میرا دل نہیں کر رہا تھا کہ اس پر پر بیٹھوں۔
وی سی مجھے مستری سمجھا، میں نے ایک کپڑا لیا صوفے پر رکھا اور بیٹھ گیا۔
طالب علم نے میری کہانی انھیں سنائی۔ انھوں نے تمسخرانہ نظروں سے مجھے گھورا۔
جان چھڑانے کی خاطر انھوں نے کہا تم ڈیمو کیلئے تیاری کرو ہم تمہیں کال کریں گے۔
میں نے کہا میں ابھی بھی ڈیمو کیلئے تیار ہوں!
انھیں میرا یہ انداز اچھا نہیں لگا مگر پھر بھی انھوں نے فون اُٹھایا، سب ٹیچرز کو اس کلاس روم میں بلاؤ کہو ڈیمو ہے!
انھوں نے مجھے ایک مارکر پکڑایا میں نے دو مارکر اور مانگے۔
کلاس پوری طرح بھری تھی۔ میں نے سلام کیا۔ میرے کپڑے دیکھ کر تمام طلبہ مسکرا رہے تھے۔ حکم ہوا آپ ڈیمو شروع کریں۔
میں نے کہا کس موضوع پر لیکچر دوں؟
کہا آپ کی مرضی!
میں نے معاشیات کے دس موضوعات بورڈ پر لکھے۔
میری خوبصورت لکھائی بورڈ پر کافی بھلی دکھائی دے رہی تھی،۔
#مندرہ
میں نے کہا اس میں کون سے موضوع پر بات کروں؟
انھوں نے کہا دوسرے نمبر والا ٹاپک،
میں نے اس موضوع کو مزید کلاسیفائی کیا۔ پھر ان کی طرف دیکھ کر کہا اب ان میں کونسا موضوع ٹھیک رہے گا؟
پورا بورڈ بھر دیا. دو ساتھ جوڑے ہوئے بورڈ بھر گئے۔
اچانک تالیاں بجنے لگییں۔ میں نے مڑ کے پیچھے دیکھا پوری کلاس کھڑی تھی اور تالیاں بجا رہی تھی اور ان کے سامنے میں، میلے کپڑوں میں کھڑا تھا۔
وی سی نے کہا! ہاں بھائی بتاؤ کتنی تنخواہ لو گے؟
اور مجھے نوکری مل گئی
میں نے مشین کی طرح کام کیا۔ ماہ کے آخر میں مجھے یونیورسٹی بیسٹ ٹیچر کے ایوارڈ کے ساتھ اچھی خاصی تنخوا ملی۔ سب سے زیادہ تنخواہ اس یونیورسٹی میں پچاس ہزار افغانی تھی، پر مجھے ایک لاکھ بیس ہزار پر رکھ لیا گیا۔ اس کے بعد امریکہ یونیورسٹی، فنانس منسٹری ، بین الاقوامی کانفرنسوں اور دنیا میں کئی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کے مواقع ملے۔ میری سروس سٹیشن کے ایک سال کنٹریکٹ ابھی ختم نہیں ہوا تھا اور میں نے تیس ممالک دیکھ لیے۔ میں آج بھی اپنے چچا زادوں کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا ہوں
وہ بھی میرا بہت احترام کرتے ہیں اور نام کے ساتھ “صاحب” ضرور کہتے ہیں۔
*میں خدا سے خوش ہوں۔*💯👉
*زندگی کے سامنے کبھی ہتھیار مت ڈالیں۔ زندگی کے میدان میں اتار چڑھاو آتے ہی رہتے ہیں۔ ہمیشہ آنے والے کل کیلئے پرامید رہیں۔ کبھی کوئی کام کرتے ہوئے شرماتے نہیں".*

* زندگی میں کوئی کام چھوٹا اور بڑا نہیں ہوتا، البتہ کام کے طریقے چھوٹے اور بڑے ضرور ہوتے ہیں۔

چیچک: انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن جسے انسان نے آخرکار شکست دیتقریباً بارہ ہزار سال پہلے، انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک ب...
11/10/2025

چیچک: انسانیت کا سب سے خطرناک دشمن جسے انسان نے آخرکار شکست دی

تقریباً بارہ ہزار سال پہلے، انسانی تاریخ کی سب سے خوفناک بیماری دنیا میں ظاہر ہوئی — چیچک (Smallpox)۔
یہ ایک ایسا قاتل وائرس تھا جس نے بادشاہوں، ملکہوں، سپاہیوں اور عام انسانوں کو یکساں طور پر نشانہ بنایا۔
قدیم فرعون رامسیس پنجم کی ممی پر بھی چیچک کے دانے اب تک موجود ہیں، گویا وقت کے ساتھ منجمد ایک خاموش گواہی کہ یہ بیماری تہذیب سے بھی پرانی ہے۔
صدیوں تک چیچک نے کسی پر رحم نہ کیا۔ ملکہ الزبتھ اوّل کے چہرے پر اس کے داغ باقی رہے — ایک یاد جو زندگی بھر ان کے ساتھ رہی۔
جبکہ ابراہم لنکن، امریکہ کے صدر، وائٹ ہاؤس میں اس موذی بیماری میں مبتلا ہوئے۔
چیچک کے مریضوں کو تیز بخار، شدید تکلیف دہ دانے، اور ہمیشہ کے لیے چہرے پر زخموں کے نشان برداشت کرنے پڑتے۔
اس بیماری کی اموات کی شرح تیس فیصد تک تھی، اور صرف بیسویں صدی میں ہی اس نے تین سو ملین (تین سو کروڑ) انسانوں کی جان لی۔
جہاں یہ وائرس ظاہر ہوتا، وہاں خوف، ماتم، اور تنہائی کا راج ہوتا۔
مگر انسان نے ہار نہیں مانی۔
بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادارۂ صحت (World Health Organization - WHO) نے ایک عالمی ویکسین مہم شروع کی۔
یہ ایک ایسی سائنسی جنگ تھی جو سرحدوں، زبانوں اور قوموں سے ماورا تھی۔
دنیا کے ہر گاؤں اور ہر بستی تک ویکسین پہنچائی گئی، اور انسانیت نے ایک دشمن کے خلاف متحد ہو کر مزاحمت کی۔
آخرکار انیس سو ستتر (1977) میں صومالیہ میں چیچک کا آخری قدرتی مریض رپورٹ ہوا۔
لیکن قسمت نے ایک آخری سانحہ لکھ رکھا تھا — انیس سو اٹھہتر (1978) میں جینیٹ پارکر نامی برطانوی میڈیکل فوٹوگرافر ایک لیب حادثے کے باعث چیچک سے متاثر ہوئیں اور جاں بحق ہوگئیں۔
یوں وہ چیچک کی آخری انسانی شکار بنیں۔
پھر آیا انیس سو اسی (1980) — وہ سال جب انسانیت نے ایک تاریخی اعلان کیا:
چیچک مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔
یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب انسان نے کسی مہلک بیماری کو علم، تحقیق، اور اجتماعی عزم کے ذریعے زمین سے مٹا دیا۔
چیچک کی یہ کہانی صرف ایک بیماری کی نہیں، بلکہ انسانی حوصلے، سائنسی ترقی، اور امید کی جیت کی داستان ہے۔
یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب انسان متحد ہو جائیں، تو کوئی بھی دشمن ناقابلِ شکست نہیں رہتا۔
اگلی بار جب آپ لفظ “ویکسین” سنیں، تو یاد رکھیں — یہ صرف دوا نہیں بلکہ انسانیت کی فتح کی علامت ہے۔

محقق و مترجم: حسین

#چیچک #تاریخ #انسانیت #سائنس #ویکسین #صحت

مزید دلچسپ، نایاب اور متاثر کن تاریخی کہانیوں کے لیے فالو کریں۔

تصویر۔ کریڈٹ ۔حسنین کاظمی 🙏🙏
11/10/2025

تصویر۔ کریڈٹ ۔حسنین کاظمی 🙏🙏

وحید مراد اور شمیم آرا ،،، بڑے انہماک سے اپنا سین یاد کر رہے ہیں ،، اِن دونوں خوبصورت اور سینیئر فنکاروں نے فلم انڈسٹری ...
11/10/2025

وحید مراد اور شمیم آرا ،،، بڑے انہماک سے اپنا سین یاد کر رہے ہیں ،، اِن دونوں خوبصورت اور سینیئر فنکاروں نے فلم انڈسٹری کو بہت سی شاندار فلمیں دیں جو آج بھی کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں ،،، سالگرہ ،، دوراہا ،، دل میرا دھڑکن تیری ،، بیوفا ،، زیب النساء ،، خواب اور زِندگی بہترین فلمیں تھیں ،،، وحید مراد اور شمیم آرا کی یہ خوبصورت تصویر غالباََ فلم بیوفا کے سیٹ کی ہے ،، شمیم آرا کا ہیئر اسٹائل اور جوڑا اُسی انداز کا ہے،، شمیم آرا اور وحید مراد کے پیئر کو عام طور پر بہت ہلکا لیا جاتا ہے حالانکہ ایک زمانے میں اِن دونوں کی فلموں کو بہت پسند کیا گیا تھا اور خواتین میں خاصی شہرت حاصل کی تھی یوں تو شمیم آرا نے اپنے وقت کے تمام بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا جن میں درپن ، سنتوش کمار ، سدھیر ، حبیب اور محمد علی شامل تھے لیکن حیرت انگیز طور پر اپنے سے کم عمر وحید مراد کے ساتھ اُن کی فلمیں نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی ،، مجھے ذاتی طور پر جان آرزو ،، زیب النساء ،، دل میرا دھڑکن تیری اور دوراہا بہت پسند ہیں ،، آپ بھی اپنی رائے اور پسند شیئر کر سکتے ہیں
Post by ZK ، copyright reserved

Address

Aljumaira Street
Abu Dhabi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tahir Chughtai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Tahir Chughtai:

Share