TiK tok video دوستانو پیج درسرہ لایک اور فالو کی

شکریہ

اپنے دن کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کریں، تاکہ سارا دن برکت اور سکون سے گزرے۔  آج کو کل سے بہتر بنانے کی کوشش کریں اور ہم...
10/10/2025

اپنے دن کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کریں، تاکہ سارا دن برکت اور سکون سے گزرے۔
آج کو کل سے بہتر بنانے کی کوشش کریں اور ہمیشہ مثبت سوچ کے ساتھ زندگی گزاریں۔😊💐"

*پانچویں کے بعد ہائی سکول میں داخلہ لیا تو انگریزی پڑھنی شروع کی۔*ایک دن چھٹی کی درخواست لکھواتے ہوئے استاد یوسف صاحب نے...
10/10/2025

*پانچویں کے بعد ہائی سکول میں داخلہ لیا تو انگریزی پڑھنی شروع کی۔*

ایک دن چھٹی کی درخواست لکھواتے ہوئے استاد یوسف صاحب نے I beg to say لکھوایا تو ہاتھ پتھر کے ہو گئے۔
دل نے آواز دی کہ چھٹی کوئی دے یا نہ دے لیکن یہ بھیک نہیں مانگی جا سکتی کہ
‏ I beg to say

‏ابھی دماغ میں Beg کی ذلت کا احساس ختم نہیں ہوا تھا درخواست ختم بھی ہو گئی۔
اب کی بار درخواست کے اختتام پر استاد جی نے لکھوایا
‏Your obedient servant
‏اب تو کنپٹیاں ہی سلگ اٹھیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خود کو کسی کا تابع فرمان قسم کا نوکر قرار دے دوں؟

‏وکالت کے شعبے میں آیا تو یہاں بھی وہی تذلیل دیکھی جو انصاف مانگنے آتا تھا اسے سائل کہا جاتا تھا۔
سائل ہماری عدالتوں اور کچہری میں ہمیشہ عرض گزار ہی پایا گیا، انصاف مانگا نہیں جا سکتا تھا۔
سائل یہ مطالبہ نہیں کر سکتا تھا کہ انصاف دیا جائے، مگر ہاں وہ Prayer یعنی التجا اور درخواست پیش کر سکتا تھا

‏میں بیٹھ کر سوچتا کہ اگر عدالت بنی ہی انصاف دینے کے لیے ہے اور اگر اللہ کا حکم ہے کہ انصاف کرو یہ تقوی کے قریب تر ہے تو پھر اس بنیادی انسانی حق کے حصول کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا، گڑگڑاتے لہجوں میں مسکینی طاری کر کے Prayer کیوں کی جا تی ہے بلکہ باوقار طریقے سے ڈیمانڈ کیوں نہیں کی جاتی

‏بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ برطانوی دور غلامی میں سکھائے گئے غلامی کے وہ آداب ہیں جو ہمارے لہو میں دوڑ رہے ہیں۔
انگریز لکھاریوں نے ہمیں آداب غلامی سکھانے کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھیں، ان میں سے ایک کتاب ڈبلیو ٹی ویب نے لکھی جس کا عنوان ہے
‏English etiquette for Indian gentlemen
یہ کتاب کم اور غلامی کی دستاویز زیادہ ہے اس میں ایک ایک کر کے مقامی لوگوں کو بتایا گیا کہ اب ان کا دور نہیں رہا، ان کی تہذیب بھی پرانی ہو چکی۔
نئے آقا اب جو چاہتے ہیں انہیں اسی تہذیب کو اپنانا ہو گا
‏ڈبلیو ٹی ویب کی اس کتاب میں بعض مقامات پر واضح طور پر آداب غلامی سکھائے گئے ہیں
‏تفصیل سے بتایا گیا ہے انگریز کے حضور حاضر ہونے کے آداب کیا ہیں، اس سے ملنے کے آداب کیا ہیں، اس سے مخاطب کیسے ہونا ہے۔
مقامی یعنی ہندوستانی ڈیزائن کے جوتے پہن کر جانا ہے تو جوتے باہر برآمدے میں اتار کر اندر حاضر ہونا ہے، ایسے جوتے پہن کر انگریز کے حضور حاضر ہونا اس کی توہین ہے

‏خبردار سلام کے لیے اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھایا جائے جب تک صاحب یا میم خود تمہیں اس قابل نہ سمجھیں

‏کسی انگریز کو صرف اس کے نام سے نہیں پکارنا القابات لگانا ضروری ہے، کسی یورپی سے سر راہ ملاقات ہو جائے تو ادب کے تقاضے کیسے پورے کرنے ہیں اور ان میں سے کسی کو مدعو کرنا ہے تو میزبانی کے آداب کیا ہوں گے، وغیرہ وغیرہ

‏مقامی تہذیب کو مکمل طور پر قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے سونے سے جاگنے تک اور جاگنے سے سونے تک، ہر معاملے اور ہر لمحے میں انگریزی طور طریقے سکھائے گئے ہیں۔ کھانا کیسے کھانا ہے۔ چھری کانٹا کیسے استعمال کرنا ہے۔
ہاتھ سے کھانا ایک برائی ہے
خبردار جو کسی جنٹل مین نے گوشت ہاتھ سے کھایا

‏انگریزوں کی حساسیت کا خیال رکھنے کا بار بار “حکم” دیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ تمہاری بے عزتی ہو جائے تو برا نہ مانا کرو

‏اور ہاں اگر تم معزز بننا چاہتے ہوں تو شادی کے دعوت ناموں میں چشم براہ جیسی فضولیات کی جگہ RSVP لکھا کرو۔
انگریز کو یہاں سے گئے آج پون صدی ہو گئی ہے لیکن ہمارے شادی کے دعوت ناموں سے RSVP ختم نہیں ہو سکا
ہم آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معززین بننے کے چکروں میں ہیں

‏مقامی تہذیب و اقدار کی تذلیل پر مشتمل عمومی “ادب و آداب” کے بیان میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی کتاب کے آخر میں درخواست لکھنے کے آداب‘ لکھ کر کے پوری کر دی گئی۔
باب نمبر گیارہ میں بتایا گیا ہے کہ درخواست، پیٹیشن وغیرہ کیسے لکھی جائیں اور ساتھ ہی نمونے کے طور پر کچھ درخواستوں اور پیٹیشنز لکھی گئی ہیں کہ ان کو دیکھ کر ’مقامی جنٹل مین‘ رہنمائی حاصل کریں۔

‏ان تمام درخواستوں میں چند چیزیں اہتمام سے بتائی گئی ہیں

‏اول:
‏درخواست کی شروعات، جو انتہائی غلامانہ، فدویانہ اور ذلت آمیز انداز سے کی گئی ہیں۔
مثال کے طور پر I beg to say کا انداز سکول کے بچوں کی درخواست سے لے کر سرکاری عرضیوں تک ہر جگہ استعمال کیا گیا ہے تا کہ سکولوں سے ہی بچے یہ سیکھ لیں کہ کہ آداب غلامی کیا ہوتے ہیں اور کیسے ایک دن کی چھٹی کی درخواست کا آغاز بھی Beg سے ہوتا ہے

‏دوم:
‏ہر درخواست کے آخر پر Your servant،Your most obedient servant، جیسے الفاظ لکھے گئے تھے تا کہ مقامی لوگوں کو یہ معلوم ہو رہے کہ انکی اوقات نوکر اور رعیت سے زیادہ نہیں

‏یہ ایک پوری تہذیبی واردات تھی جو اس سماج پر مسلط کی گئی۔چونکہ اہم مناصب پر پھر یہی
‏’مقامی جنٹل مین‘ فائز ہوئے اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یہی افسر شاہی ہمیں ورثے میں ملی اور کسی نے اس سماجی واردات پرنظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لیے یہ ’مقامی جنٹل مین‘ آج بھی ’ انگریزی آداب‘ سے سماج کی پشت لال اور ہری کیے ہوئے ہیں۔

‏اس جنٹل مینی کے خلاف پہلی آواز دلی سے اٹھی۔ لعل گوردیج نامی ایک مداری دلی کے چوراہے میں بندر لے کر آتا اور ڈگڈگی بجا کر اسے کہتا : جنٹل مین بن کے دکھا۔لعل گوردیج کا بندر ہیٹ لگاتا ، چشمہ پہنتا اور پورا ’ جنٹل مین‘ بن جاتا۔ بندر اور مداری دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔مقامی جنٹل مین ناراض ہو گئے۔
(دل چسپ بات یہ ہے کہ بندر نچانے والے آج بھی بندر نچاتے وقت یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ جنٹل مین بن کے دکھا۔
شاید اسی لیے انگریز نے ان کا شمار
’مجرم قبیلوں‘ میں کیا ہوا تھا)
کبھی کبھی جب دن ڈھل رہا ہوتا ہے، مارگلہ سے اترتا ہوں تو یوں لگتا ہے جنگل سے بندر شور مچا مچا کر کہہ رہے ہوں:
‏’’جنٹل مین بن کر تو دکھاؤ‘‘۔

‏پہاڑ سے اترتا ہوں تو دیکھتا ہوں سارا ہی شہر جنٹل م

09/10/2025

✨ بچپن کا ہر لمحہ کہانی لگتا تھا، اب وہی لمحہ خوابوں کی نشانی لگتا ہے۔ 🥺✨ . نہ فکر زمانے کی، نہ غم کی باتیں،کیا خوب گزرا...
07/10/2025

✨ بچپن کا ہر لمحہ کہانی لگتا تھا،
اب وہی لمحہ خوابوں کی نشانی لگتا ہے۔ 🥺

✨ . نہ فکر زمانے کی، نہ غم کی باتیں،
کیا خوب گزرا وہ بچپن کے راتیں۔

ایک سانپ ایک جگنو کے پیچھے دوڑنے لگا۔جگنو رکا اور بولا:"کیا میں آپ سے تین سوال پوچھ سکتا ہوں؟"سانپ نے کہا، "پوچھو۔"جگنو ...
05/10/2025

ایک سانپ ایک جگنو کے پیچھے دوڑنے لگا۔
جگنو رکا اور بولا:
"کیا میں آپ سے تین سوال پوچھ سکتا ہوں؟"
سانپ نے کہا، "پوچھو۔"
جگنو نے پوچھا، "کیا میں آپ کی خوراک کا حصہ ہوں؟"
سانپ نے کہا، "نہیں۔"
جگنو نے پوچھا، "کیا میں نے آپ کو کوئی نقصان پہنچایا ہے؟"
سانپ نے کہا، "نہیں۔"
جگنو نے پوچھا، "پھر آپ مجھے کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں؟"
سانپ نے جواب دیا، "کیونکہ میں تمہیں چمکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔"

کہانی کا سبق:
کچھ لوگ آپ کو نیچا دکھانے کے لیے کسی وجہ کے محتاج نہیں ہوتے،
وہ صرف یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ آپ چمکیں۔
یہ ایک کڑوا سچ ہے۔
منقول

محبت فاتح عالم! ایسی محبت ہو جس سے اپنی ذات کی خوشبو مدھم نہ پڑے، رنگ کبھی پھیکے نہ ہوں اور دل کی روشنی بجھنے نہ پائے
05/10/2025

محبت فاتح عالم!
ایسی محبت ہو جس سے اپنی ذات کی خوشبو مدھم نہ پڑے، رنگ کبھی پھیکے نہ ہوں اور دل کی روشنی بجھنے نہ پائے

27/02/2025

25/02/2025

نن رسرہ د کفووو او جیری لایو میچ وگوریی

24/02/2025

ولی اللہ سرہ د سناء کو کو لایو گپ شپ

23/02/2025

د ریشما سرہ دجادوگر لایو میچ

22/02/2025

چینگو یی نن ڈیر خراب کڑے دے

21/02/2025

شیرنی چینگو تہ ڈیر خطرناک پینشمینٹ ورکوڑو وڈیو وگوریی او خپلو میلگرو سرہ یی شیر کی

Address

Dubai Investment Park Second

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when TiK tok video posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to TiK tok video:

Share