Mashal Zahra

Mashal Zahra Digital Artist | Content Creator | Traveler
(1)

08/06/2025

عیدالاضحٰی مبارک ♥️

باکو میں آج ہمارا چوتھا دن تھا۔ پہلے تین دن مسلسل بارش کی نذر ہو چکے تھے اور ہمیں ہوٹل سے باہر جانے کا بھی موقع نہیں ملا...
02/06/2025

باکو میں آج ہمارا چوتھا دن تھا۔ پہلے تین دن مسلسل بارش کی نذر ہو چکے تھے اور ہمیں ہوٹل سے باہر جانے کا بھی موقع نہیں ملا تھا۔

دن رات لگاتار بارش ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر خاصا پانی بھر چکا تھا۔ ہمارا ہوٹل شہر سے کچھ فاصلے پر ایک مقامی آبادی میں واقع تھا۔ پہلے تو اس بات پر کوفت ہوئی کہ بنا دیکھے کہاں ہوٹل لے لیا، لیکن بعد میں احساس ہوا کہ جو ہوتا ہے بہتر ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ باکو میں ٹیکسی نہایت سستی ہے، جبکہ شہر کے وسط میں واقع ہوٹل بہت مہنگے ہیں۔

تین دن اندر گزارنے کے بعد چوتھے دن خدا خدا کر کے بارش رکی اور سورج نکلا۔

ہم صبح سویرے اٹھ کر تیار ہوئے اور نظامی اسٹریٹ پہنچ کر ایک مقامی شخص کا انتظار کرنے لگے، جس سے ہمارا رابطہ انفارمیشن ایکسچینج گروپ کے ذریعے ہوا تھا۔

یہ ایک ایسے شخص تھے جو لگ بھگ ہمارے والد صاحب کی عمر کے تھے۔ انہوں نے پاکستان جانے کی خواہش ظاہر کی تھی اور انہیں پاکستان سے متعلق کچھ معلومات درکار تھیں۔ خوش قسمتی سے انہیں انگریزی بھی آتی تھی، کیونکہ آذربائیجان میں انگریزی بولنے والا شخص ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے، اسی لیے ہم نے ان سے معلومات کے تبادلے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے ہمیں کچھ اہم تاریخی معلومات فراہم کرنے کے بعد چند مقامات دکھانے میں بھی مدد کی۔ نظامی اسٹریٹ اور شیروان شاہ کا محل دیکھنے کے بعد ہم پہنچے اچری شہر (Old City)۔

ان سحر انگیز پرانی گلیوں میں گھومتے ہوئے اچانک میری نظر ایک چونکا دینے والی تحریر پر پڑی۔

اس پر لکھا تھا:
ملتان کاروانسرائے (Multani Caravanserai)

یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔
دیوار پر لگا پوسٹر روایتی ملتانی بلو پوٹری اور دیگر ملتانی ثقافتی نمونوں سے بھرا ہوا تھا۔

میں نے حیرانی سے ان سے پوچھا، "یہ کیا ہے؟"

انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اہم تاریخی عمارت ہے، جو 14ویں صدی میں تعمیر ہوئی۔

کاروانسرائے کا مطلب ہوتا ہے "آرام کرنے کی جگہ"

ملتان کاروانسرائے ایک مربع شکل کی عمارت ہے، جس کے وسط میں ایک وسیع صحن موجود ہے۔ عمارت کے چاروں طرف بالکونیاں بنی ہوئی ہیں، اور ان کے پیچھے رہائشی کمرے ہیں جہاں مسافر اور تاجر قیام کرتے تھے۔ کاروانسرائے کے اندر ایک کنواں بھی موجود ہے، جو پانی کی فراہمی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

جنوبی اور شمالی دروازے خوبصورت طرزِ تعمیر کے حامل ہیں، جو اس کی اہمیت اور شان و شوکت کو ظاہر کرتے ہیں۔

ملتان کاروانسرائے کا تعلق شاہراہِ ریشم سے ہے، جو مشرق و مغرب کے درمیان تجارتی راستہ تھا۔ ملتان خود بھی ایک اہم تجارتی مرکز تھا، جہاں سے قافلے وسطی ایشیا، ایران، افغانستان، آذربائیجان اور دیگر علاقوں کی طرف روانہ ہوتے تھے۔

یہ کاروانسرائے اس وقت کے بادشاہ نے ہندوستان کے شہر ملتان سے تعلق رکھنے والے تاجروں کے لیے مخصوص طور پر بنوایا تھا، جو تجارت کے سلسلے میں اس راستے سے گزرتے تھے۔ چونکہ وہ تاجر خاصے صاحبِ حیثیت ہوتے تھے، اس لیے انہیں معزز مہمان سمجھا جاتا تھا اور ان کے آرام اور سامان کے تحفظ کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔

میں نے مسکراتے ہوئے کہا، "کیا آپ جانتے ہیں ہم کہاں سے ہیں؟"
انہوں نے جواب دیا، "بس اتنا معلوم ہے کہ آپ پاکستان سے ہیں۔"
میں نے کہا، "ہمارا تعلق ملتان سے ہے، جو آج پاکستان کا ایک اہم شہر ہے۔"

انہوں نے حیرت سے میری طرف دیکھا اور کہا، "تمہیں ضرور اپنے آباؤ اجداد پر فخر ہوگا۔"

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور سوچنے لگی کہاں گیا ہمارا وہ سنہری دور، اور آج ہم کہاں کھڑے ہیں۔

بدقسمتی سے اس عمارت کی مرمت کا کام جاری تھا، جس کی وجہ سے ہم اسے اندر سے نہیں دیکھ پائے۔

ملتان کاروانسرائے نہ صرف آذربائیجان اور پاکستان کے درمیان تاریخی تعلقات کا مظہر ہے، بلکہ یہ شاہراہِ ریشم کی اہمیت اور اس کے ذریعے ہونے والے ثقافتی تبادلے کی بھی ایک زندہ مثال ہے۔

باکو کا اچری شہر (Icherisheher)، جسے "اولڈ سٹی" بھی کہا جاتا ہے، آذربائیجان کی روح اور تاریخ کا عکس ہے۔ یہ شہر 12ویں صدی...
30/05/2025

باکو کا اچری شہر (Icherisheher)، جسے "اولڈ سٹی" بھی کہا جاتا ہے، آذربائیجان کی روح اور تاریخ کا عکس ہے۔ یہ شہر 12ویں صدی کے قلعہ بند علاقوں میں سے ایک ہے، جس کی فصیلیں آج بھی قائم ہیں، تاریخ کو خاموشی سے محفوظ رکھے ہوئے ہیں، اور دنیا بھر سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔

سال 2000 میں اسے یونیسکو عالمی ورثہ قرار دیا گیا، جو اس کی بین الاقوامی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔

یہ علاقہ آذربائیجان کی تہذیب، ثقافت اور سیاست کا قدیم مرکز رہا ہے۔ 9ویں سے 15ویں صدی تک یہ شہر شیروان شاہی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ یہاں قائم شیروان شاہ کا محل 15ویں صدی کی ایک اہم یادگار ہے، جو اسلامی فنِ تعمیر اور آذری شناخت کی علامت ہے۔

محل کے ساتھ واقع قیز قالاسی (Maiden Tower) 12ویں صدی کی ایک اور تاریخی عمارت ہے، جس سے جڑی کئی پراسرار داستانیں مشہور ہیں۔

آذربائیجان کا محلِ وقوع اسے شاہراہِ ریشم کا اہم حصہ بناتا تھا۔ یہ راستہ چین کے شہر شیان سے شروع ہو کر وسطی ایشیا، ایران، افغانستان، آذربائیجان، ترکی اور یورپ تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی بنیاد دوسری صدی قبلِ مسیح میں رکھی گئی، اور یہ چودہویں صدی تک دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو جوڑتا رہا۔

آذربائیجان اس راستے کا ایک مرکزی مقام تھا۔ باکو کا اچری شہر، اس میں موجود ملتان اور بخارا کے کاروانسرائے، اور قفقاز کے پہاڑی راستے اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں قافلے رکتے، لوگ قیام کرتے، اور ثقافتی میل جول ہوتا تھا۔

میں نے اچری شہر میں دو راتیں گزاریں۔ ہر گلی وقت کے ساتھ سرگوشی کرتی ہے، ہر دروازہ ایک پرانی کہانی سناتا ہے۔ پرانی پتھریلی گلیوں میں چلتے ہوئے محسوس ہوتا تھا جیسے میں صرف ایک سیاح نہیں بلکہ وقت کی ایک مسافر ہوں۔

رات کے وقت اچری شہر کی خاموشی میں ایک خاص کشش ہوتی ہے۔ جب نظر اٹھا کر شہر کی حدود سے باہر دیکھتی تھی، تو فلیم ٹاورز پورے افق پر روشنی بکھیر رہے ہوتے تھے۔ ان کی تعمیر 2007 میں شروع ہوئی اور 2013 میں مکمل ہوئی۔ یہ ٹاورز آذربائیجان کی آتش پرستی سے جڑی روایات کی علامت ہیں۔ ان کی روشنی، خاص طور پر رات کے وقت، یوں محسوس ہوتی ہے جیسے تاریخ اور جدیدیت ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو گئی ہو۔

اچری شہر صرف دیواروں، پتھروں یا قلعوں پر مشتمل نہیں بلکہ آذربائیجان کی روح، تاریخ، خوبصورتی اور جدت کا مکمل عکس ہے۔

تصاویر: انٹرنیٹ سے لی گئی ہیں۔

ایک شام باکو کے ایچری شہر (Icherisheher) کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ہمیں یہ ایک دلچسپ قسم کی عمارت نظر آئی جس پہ اسلام، عی...
27/05/2025

ایک شام باکو کے ایچری شہر (Icherisheher) کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ہمیں یہ ایک دلچسپ قسم کی عمارت نظر آئی جس پہ اسلام، عیسائیت اور یہودیت تینوں مذاہب کے نشان تھے اور اس کا نام "House of Tolerance" یعنی "مرکز رواداری" یا "بردباری کا مرکز" تھا۔

معلومات لینے پر پتا چلا کہ ہاؤس آف ٹولرنس ایک ثقافتی اور تعلیمی مرکز ہے جو مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے درمیان ہم آہنگی، برداشت اور باہمی احترام کو فروغ دینے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔

اردگرد کے لوگوں سے پوچھنے پہ پتا چلا کہ اس مرکز کا افتتاح 16 نومبر 2024 کو کیا جائے گا جو کہ بردباری کا عالمی دن ہے۔ بدقسمتی سے ابھی اس میں 14 دن باقی تھے اور ہم نے 5 نومبر کو واپس جانا تھا جس وجہ سے ہمیں اندر جانے کا موقع نہیں ملا۔

واپس آنے کے بعد تجسس کی وجہ سے مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس کے متعلق انٹرنیٹ سے ڈھیر ساری معلومات اکٹھی کیں۔

مجھے پتہ چلا کہ ہاؤس آف ٹولرنس میں 400 سے زائد نوادرات کی نمائش کی گئی ہے جو یہودیت، عیسائیت اور اسلام کی نمائندگی کرتی ہیں۔

ان میں مذہبی متون، تمغے، اعزازات اور مذہبی رہنماؤں کو دیے گئے ایوارڈز شامل ہیں۔ خاص طور پر "تھری پروفیٹس" (Three Prophets) کے نام سے مشہور قالین، جو تینوں ابراہیمی مذاہب کی وحدت کی علامت ہے، یہاں نمائش میں موجود ہے۔

نمائش کو تھیم پر مبنی اصولوں کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے، جہاں مختلف مذاہب کی اشیاء کو ایک ساتھ دکھایا گیا ہے۔ یہ ترتیب اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکار ایک ساتھ امن اور ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں۔

"تھری پروفیٹس" قالین، جو عوامی فنکار ایلدار مائکیلزادہ کی تخلیق ہے، اس نمائش کا اہم حصہ ہے۔ یہ قالین اسلام (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم)، عیسائیت (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) اور یہودیت (حضرت موسیٰ علیہ السلام) کے پیغمبروں کو ایک ساتھ دکھاتا ہے، جو تینوں مذاہب کے درمیان مشترکہ اقدار اور رواداری کا پیغام دیتا ہے۔

ہاؤس آف ٹولرنس مذہبی، ثقافتی تنوع اور انسانی حقوق پر تعلیمی سرگرمیاں منعقد کرتا ہے، سائنسی تحقیق کو فروغ دیتا ہے، اور بین المذاہب مکالمے کو مستحکم کرنے کے لیے منصوبے نافذ کرتا ہے۔

کیا آپ کے خیال میں مختلف مذاہب کے پیروکار ایک ساتھ امن اور ہم آہنگی سے رہ سکتے ہیں؟

کیا آپ بھی اس حیرت انگیز جگہ کا دورہ کرنا چاہیں گے؟

یانار داغ (Yanardag) جو کہ آذربائیجان کا ایک قدرتی اور حیرت انگیز مقام ہے، جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔یانار داغ ا...
22/05/2025

یانار داغ (Yanardag) جو کہ آذربائیجان کا ایک قدرتی اور حیرت انگیز مقام ہے، جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔

یانار داغ ایک ایسا پہاڑ ہے جس کی ڈھلوان پر زمین سے آگ خود بخود جلتی ہے اور یہ آگ کبھی بجھتی نہیں!

یہ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

"یانار داغ" آذری زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "جلتا ہوا پہاڑ"

"یانار" = جلتا ہوا
"داغ" = پہاڑ

یانار داغ آذربائیجان کا ایک قدرتی عجوبہ ہے، جس کا مطلب ہے "جلتا ہوا پہاڑ"۔ یہ مقام صدیوں سے بغیر رکے جلتا چلا آ رہا ہے، اور اس کے پیچھے ایک لمبی اور دلچسپ تاریخ چھپی ہوئی ہے۔

ہزاروں سال پہلے، اس علاقے میں زرتشتی (آتش پرست) آباد تھے، جو آگ کو پاکیزگی اور خدا کی علامت سمجھتے تھے۔

آذربائیجان میں کئی جگہوں پر قدرتی گیس زمین کے نیچے سے نکلتی ہے۔
جہاں گیس زمین کی سطح پر آتی ہے، وہاں خودبخود آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

آتش پرستوں نے ان جگہوں کو مقدس مان کے یہاں آتش کدے (Fire Temples) تعمیر کیے۔
یانار داغ بھی ان میں سے ایک مقام تھا، جہاں صدیوں سے زمین خود بخود جلتی آ رہی ہے۔

جب ساتویں صدی عیسوی میں اسلام آیا، تو زرتشتیوں کا اثر کم ہونے لگا۔ بہت سے آتش کدے بند ہو گئے یا مسجدوں میں بدل دیے گئے، مگر یانار داغ جیسی قدرتی آگ اب بھی جلتی رہی۔

سائنس کیا کہتی ہے؟

زمین کے اندر موجود قدرتی گیس (Methane) جب زمین کی سطح پر دراڑوں سے باہر آتی ہے اور کوئی چنگاری اسے لگتی ہے، تو آگ لگ جاتی ہے۔

یانار داغ میں بھی یہی ہو رہا ہے۔
یہاں گیس کا اخراج مسلسل ہوتا ہے، اس لیے آگ کبھی بجھتی نہیں۔ چاہے بارش ہو، برف ہو یا آندھی۔

یانار داغ اب آذربائیجان کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔

2007 میں حکومت نے اسے "Yanardag State Historical, Cultural and Natural Reserve" قرار دیا۔

یہاں ایک جدید وزیٹر سینٹر، میوزیم، اور گائیڈ سروس بھی دستیاب ہے، جو سیاحوں کو زرتشتی مذہب، آذربائیجان کی تاریخ، اور قدرتی مظاہر کی معلومات فراہم کرتا ہے

مشہور سیاح "مارکو پولو" نے بھی اپنے سفرنامے میں آذربائیجان کی "خود بخود جلتی آگ" کا ذکر کیا ہے۔

یانار داغ صرف ایک پہاڑی یا آگ کا منظر نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی، مذہبی، اور سائنسی یادگار ہے۔
یہ Absheron Peninsula میں آتا ہے، جو قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔

کیا آپ بھی قدرت کے اس شاہکار کو دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں؟

کیا آپ نے کبھی ایک ایسی زمین کے بارے میں سنا ہے جہاں آگ خود بخود جلتی ہو؟جی ہاں! میں کسی سائنس فکشن فلم کی بات نہیں کر ر...
21/05/2025

کیا آپ نے کبھی ایک ایسی زمین کے بارے میں سنا ہے جہاں آگ خود بخود جلتی ہو؟
جی ہاں! میں کسی سائنس فکشن فلم کی بات نہیں کر رہی۔

میں بات کر رہی ہوں یانار داغ (Yanardag) کی۔ جو کہ آذربائیجان کا ایک قدرتی اور حیرت انگیز مقام ہے، جسے دیکھ کر لوگ حیران رہ جاتے ہیں۔

یانار داغ ایک ایسا پہاڑ ہے جس کی ڈھلوان پر زمین سے آگ خود بخود جلتی ہے اور یہ آگ کبھی بجھتی نہیں!

یہ آذربائیجان کے دارالحکومت باکو سے تقریباً 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

"یانار داغ" آذری زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے "جلتا ہوا پہاڑ"

"یانار" = جلتا ہوا
"داغ" = پہاڑ

یانار داغ آذربائیجان کا ایک قدرتی عجوبہ ہے، جس کا مطلب ہے "جلتا ہوا پہاڑ"۔ یہ مقام صدیوں سے بغیر رکے جلتا چلا آ رہا ہے، اور اس کے پیچھے ایک لمبی اور دلچسپ تاریخ چھپی ہوئی ہے۔

ہزاروں سال پہلے، اس علاقے میں زرتشتی (آتش پرست) آباد تھے، جو آگ کو پاکیزگی اور خدا کی علامت سمجھتے تھے۔

آذربائیجان میں کئی جگہوں پر قدرتی گیس زمین کے نیچے سے نکلتی ہے۔
جہاں گیس زمین کی سطح پر آتی ہے، وہاں خودبخود آگ بھڑک اٹھتی ہے۔

آتش پرستوں نے ان جگہوں کو مقدس مان کے یہاں آتش کدے (Fire Temples) تعمیر کیے۔
یانار داغ بھی ان میں سے ایک مقام تھا، جہاں صدیوں سے زمین خود بخود جلتی آ رہی ہے۔

جب ساتویں صدی عیسوی میں اسلام آیا، تو زرتشتیوں کا اثر کم ہونے لگا۔ بہت سے آتش کدے بند ہو گئے یا مسجدوں میں بدل دیے گئے، مگر یانار داغ جیسی قدرتی آگ اب بھی جلتی رہی۔

سائنس کیا کہتی ہے؟

زمین کے اندر موجود قدرتی گیس (Methane) جب زمین کی سطح پر دراڑوں سے باہر آتی ہے اور کوئی چنگاری اسے لگتی ہے، تو آگ لگ جاتی ہے۔

یانار داغ میں بھی یہی ہو رہا ہے۔
یہاں گیس کا اخراج مسلسل ہوتا ہے، اس لیے آگ کبھی بجھتی نہیں۔ چاہے بارش ہو، برف ہو یا آندھی۔

یانار داغ اب آذربائیجان کا ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔

2007 میں حکومت نے اسے "Yanardag State Historical, Cultural and Natural Reserve" قرار دیا۔

یہاں ایک جدید وزیٹر سینٹر، میوزیم، اور گائیڈ سروس بھی دستیاب ہے، جو سیاحوں کو زرتشتی مذہب، آذربائیجان کی تاریخ، اور قدرتی مظاہر کی معلومات فراہم کرتا ہے

مشہور سیاح "مارکو پولو" نے بھی اپنے سفرنامے میں آذربائیجان کی "خود بخود جلتی آگ" کا ذکر کیا ہے۔

یانار داغ صرف ایک پہاڑی یا آگ کا منظر نہیں، بلکہ یہ ایک تاریخی، مذہبی، اور سائنسی یادگار ہے۔
یہ Absheron Peninsula میں آتا ہے، جو قدرتی گیس کے ذخائر سے مالا مال ہے۔

کیا آپ بھی قدرت کے اس شاہکار کو دیکھنے کا شوق رکھتے ہیں؟

آذربائیجان 🇦🇿قفقاز (Caucasus) کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک چھوٹا مگر شاندار ملک، جہاں قدرت، تاریخ اور قوم کی بہادری نے م...
21/05/2025

آذربائیجان 🇦🇿

قفقاز (Caucasus) کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک چھوٹا مگر شاندار ملک، جہاں قدرت، تاریخ اور قوم کی بہادری نے مل کر ایک حیرت انگیز تاریخ رقم کی ہے۔

آپ نے اس ملک اور اس کے دارالحکومت ''باکو'' کے بارے میں ضرور سنا ہو گا۔
حال ہی میں مجھے وہاں جانے کا موقع ملا تو سوچا کیوں نہ میں اس آگ، تیل، تہذیب، طاقت اور خون کی سرزمین کے بارے میں آپ لوگوں کو بھی بتاؤں۔

لفظ "آذربائیجان" کا کیا مطلب ہے؟

"آذربائیجان" کا مطلب تاریخی، لسانی اور ثقافتی لحاظ سے بہت دلچسپ ہے۔ اس کا نام کئی صدیوں پرانا ہے

"آذر" فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے "آگ"۔
"بائیجان" یا "پایگان" کا مطلب ہے "محافظ" یا "رکھوالا"۔

لہٰذا "آذربائیجان" کا مطلب ہے "آگ کے محافظ" یا "آگ کی سرزمین"۔

اس مطلب کی تاریخی وجہ:

قدیم زمانے میں آذربائیجان کے علاقے میں آتش پرست (Zoroastrians) آباد تھے، جو آگ کو پاک اور مقدس سمجھتے تھے۔
یہاں قدرتی گیس کے ذخائر کی وجہ سے بعض جگہوں پر زمین سے خود بخود آگ نکلتی تھی۔

"یانار داغ" (جلتا ہوا پہاڑ) آج بھی اس کا نمونہ ہے۔

اسی وجہ سے اس علاقے کو "آگ کی سرزمین" یا "محافظانِ آتش" کہا جانے لگا، جو بعد میں "آذربائیجان" بن گیا۔

آذربائیجان کی مٹی ہزاروں سال سے تہذیبوں کا گھر رہی ہے۔ یہاں انسان پتھر کے دور سے آباد تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ کئی عرصے تک ایران، ترک، عرب اور روسی سلطنتوں کے زیر تسلط رہا ہے۔
ہر قوم نے اسے اپنا سمجھا، مگر آذری لوگ ہمیشہ اپنی پہچان اور زبان کے ساتھ جڑے رہے۔

7ویں صدی میں عربوں نے یہاں اسلام متعارف کروایا۔ یہی وہ وقت تھا جب یہاں کی زمین مسجدوں، مدرسوں اور علم سے روشن ہونے لگی۔

آذربائیجان نے علم و ادب میں بہت ترقی کی، اور کئی مشہور شاعر اور فلاسفر اسی سرزمین سے نکلے۔

16ویں صدی میں ایک نوجوان "شاہ اسماعیل صفوی" نے آذربائیجان سے اپنی سلطنت کی بنیاد رکھی، جو بعد میں صفوی سلطنت کہلائی۔
یہ سلطنت ایران تک پھیل گئی اور آذربائیجان اس کا دل بن گیا۔ یہی دور تھا جب آذربائیجان شیعہ اسلام کا مرکز بنا۔

پھر روس آیا...

19ویں صدی میں روسی سلطنت نے حملہ کیا اور آذربائیجان کا بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے لیا۔
یہ دور بہت ہی سخت تھا، لیکن آذری قوم نے ہمت نہیں ہاری۔ اس قوم میں تعلیم، ثقافت، اور قومی شعور ہمیشہ زندہ رہا۔

1918 میں آذربائیجان نے ایک بار پھر تاریخ رقم کی۔ یہ دنیا کی پہلی مسلم جمہوریت بنی۔ خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا، پارلیمنٹ بنی، اور دنیا ان کی ترقی سے حیران رہ گئی۔

مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور ان کی خوشیاں کچھ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں۔

1920 میں سوویت یونین نے آذربائیجان پر مکمل قبضہ کر لیا۔ 70 سال تک یہ ملک کمیونسٹ نظام میں رہا۔ مگر عوام کے دل میں آزادی کی آگ سلگتی رہی۔

1991 میں، سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد،
آذربائیجان نے دوبارہ آزادی حاصل کی۔
یہ دن آج بھی وہاں یومِ آزادی کے طور پر منایا جاتا ہے۔

نگورنو- کاراباخ جنگ۔

آزادی کے فوراً بعد آرمینیا کے ساتھ نگورنو-کاراباخ کے مسئلے پر جنگ ہوئی۔
کئی اہم علاقے ان سے چھن گئے، ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ لیکن آذری قوم نے پھر بھی ہار نہ مانی۔

اسی جذبے کے تحت 2020 میں، آذربائیجان نے بڑی کامیابی حاصل کی اور اپنے کئی علاقے واپس لے لیے۔

آج آذربائیجان ایک طاقتور، لبرل، جدید اور خوبصورت ملک ہے۔ دارالحکومت باکو دنیا کے خوبصورت ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔ تیل و گیس سے ان کی معیشت بے حد مضبوط ہے۔ ان کی ثقافت، میوزک، کھانے، اور مہمان نوازی کئی سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔

آذربائیجان کی تاریخ صرف جنگوں اور بادشاہوں کی کہانی نہیں، بلکہ قوم کی ہمت، ثقافت کی طاقت، اور آزادی کی محبت کا سفر ہے۔
یہ ایک ایسی تاریخ ہے جو دل کو چھو لیتی ہے اور بتاتی ہے کہ
"کوئی بھی قوم اگر متحد ہو، تو وقت کے بڑے بڑے طوفانوں سے لڑ سکتی ہے۔"

تصویر۔
باکو کے Flame Towers

20/05/2025

پہاڑوں میں مستقل رہنے کے لیے کیا کریں؟
مشورہ درکار ہے!

01/03/2025

تمام مسلمانوں کو رمضان کی برکتیں اور رحمتیں مبارک۔ ❤️

15/02/2025

A strong Earthquake?
Is everyone okay?

24/07/2024

All those experience riders, keeping all the pros and cons in mind which one do you recommend for international tour?

1. BMW GS 310
2. Royal Enfield Himalayan 411
3. KTM 390

18/07/2024

Please suggest the best 400cc traveling Bike with pros and cons!

Address

Dubai

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Mashal Zahra posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Mashal Zahra:

Share