
08/10/2025
اکتوبر 2005 — یہ وہ دن ہے جو ہماری قومی تاریخ کے الم ناک ترین دنوں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ بیس سال گزر جانے کے باوجود اس دن کی تباہ کاریوں کی یاد آج بھی دلوں کو دہلا دیتی ہے۔
ایک لمحے میں آزاد کشمیر، بالاکوٹ، مانسہرہ اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقے ملبے کے ڈھیر میں بدل گئے۔ اسکولوں میں معصوم بچے، گھروں میں کام کرتیں مائیں، دفاتر میں کام کرنے والے باپ — سب لمحوں میں زمین کے نیچے دب گئے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 80 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے، ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے۔
یہ سانحہ صرف عمارتوں کا نہیں، بلکہ انسانیت، احساس اور انصاف کی بنیادوں کا امتحان تھا۔ دنیا بھر سے امداد کے قافلے پہنچے، قوم نے ایک دوسرے کے دکھ میں شریک ہو کر یکجہتی کی مثال قائم کی۔ مگر افسوس کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس جذبے کی جگہ بدانتظامی، کرپشن اور بے حسی نے لے لی۔
متاثرینِ زلزلہ کے لیے موصول ہونے والی اربوں روپے کی امداد کا بڑا حصہ بدعنوانی کی نذر ہو گیا۔ مکانات، اسکولوں اور اسپتالوں کی تعمیر کے منصوبے برسوں تاخیر کا شکار رہے۔ بہت سے علاقوں میں آج بھی لوگ عارضی شیڈز اور خستہ حال گھروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
حکومتیں بدلتی رہیں، اعلانات ہوتے رہے، کمیٹیاں بنتی رہیں مگر تحقیقات آج تک مکمل نہ ہو سکیں۔ بیس برس بعد بھی متاثرین انصاف، شفاف احتساب اور مکمل بحالی کے منتظر ہیں۔
آج، جب ہم 8 اکتوبر کی یاد مناتے ہیں، تو ہمیں صرف مرنے والوں کے لیے دعائیں ہی نہیں کرنی چاہئیں بلکہ زندہ رہنے والوں کے لیے ضمیر کا احتساب بھی ضروری ہے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ قدرتی آفات تو آزمائش ہیں، مگر اصل المیہ تب جنم لیتا ہے جب قومیں ان سے سبق نہیں سیکھتیں۔