25/07/2025
* میں ایک بار پھر یکی کی زد میں مگر بچ گیا*
دو ماہ پانچ دن گزارنے کے بعد امارات کے لئے تئیس جولائی کو رات سوا نو بجے پی آئی اے کی فلائٹ سے امارات کا رخت سفر باندھ لیا، سامان جمع کروا کے بورڈنگ پاس حاصل کیا، لاؤنج میں بیٹھے رہے، مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ دیر سے چیک ان شروع ہوگئی۔ (وقت کے لحاظ سے پی آئی اے ہمیشہ دیر کر دیتا ہے) جہاز کے اندر تشریف لے گئے، اپنی نشست تلاشی اور براجمان ہوگئے، بغل میں ایک ڈاکٹر صاحبہ اور دوسری طرف چکوال کے ایک صاحب براجمان ہوگئے، جن سے سلام دعا کے بعد بات چیت شروع ہوگئی، جہاز اڑا، بادلوں کو چیرتا ہوا امارات کا رخ کیا، موسم کی وجہ سے ہلکے سے ہچکولے بھی کھانے لگا، ہچکولے کھلانے کے بعد کھانا دے دیا گیا اور آخر میں چائے بھی عطا کی گئی، سفر بہت اچھا گزرا، جہاز کےلینڈ کرتے ہی سارے مسافر بیک وقت اپنا اپنا سامان پکڑے ایسے یک دم کھڑے ہوگئے جیسے بس میں سفر کر رہے ہو، اور پندرہ منٹ تک کھڑے رہے، ہماری باری آنے پر اپنا بیگ اٹھایا اور چل پڑے، باہر نکلے تو ساتھی پہنچ چکے تھے، بغلگیر ہوئے، خیر خیریت دریافت کی، سفری ساتھیوں کو الوداع کرکے گاڑی کی طرف لپکے، گاڑی میں بیٹھ کر جیب میں ہاتھ مارا تو پتہ چلا کہ میرا بٹوہ مطلوبہ جیب میں نہیں ہے، ساتھی کو بتانے پر گاڑی موڑدی گئی، واپس گئے اور یاد کرنا شروع کیا کہ کہاں گم ہوسکتا ہے، عملے سے پوچھنے پر بتایا گیا کہ گیٹ نمبر سات پر جاکر اپنی مطلوبہ گمشدہ شے کے بارے میں رپورٹ لکھوائیں، چوبیس گھنٹے کے اندر آپ کو جواب ملے گا، بٹوے میں کوئی بڑی رقم نہیں تھی، بس امارات کا کارڈ، پاکستانی کارڈ، اور بینک کے دو تین کارڈز پڑے تھے جو اسی وقت احتیاطی طور پر ناقابل استعمال (فریز) کردیا، رپورٹ میں دو جگہیں لکھوائی جہاں میں بٹوہ گرنے کا شک تھا، ایک جہاز کے اندر اور ایک باہر نکل کے گیٹ تک آنے کے لئے چلنے والی گاڑی، مجھے پورا یقین تھا کہ میرا بٹوہ صحیح سالم ملے گا، اگلے دن ایک ساتھی کو رخصت کرنے ایئرپورٹ چلے گئے، میں بھاگم بھاگ گیٹ نمبر سات گیا اور مطلوبہ رپورٹ نمبر بتاکر پوچھا تو دوسری طرف بیٹھے جوان نے میرے بٹوے کی تصویر دکھادی کہ یہ ہے؟ میں نے سر ہلاکر جواب دیا کہ بلکل یہی ہے، دس منٹ انتظار کروانے کے بعد مجھے میرا بٹوہ مل گیا، اندر پاکستان تیس روپے اور اماراتی دس درہم پڑے تھے، باقی میرے کارڈر وغیرہ سب اپنی اپنی جگہوں پر صحیح سالم پڑے ہوئے تھے، ساٹھ درہم دے کر اپنا بٹوہ حاصل کیا اور خوشی خوشی واپس آگئے، راستے میں دوستوں سے اسی موضوع پر بات چیت ہوئی کہ ان کا نظام کتنا صاف ستھرا اور ایمان دارانہ ہے، اتنے بڑے ایئرپورٹ پر آپ کی کوئی بھی چیز کھوجائے تو آپ جلدی سے رپورٹ لکھوائیں اور چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر آپ کو آپ کی کھوئی ہوئی چیز لاکر حوالہ کرتے ہیں، اگر امارات کی بجائے پاکستانی ایئرپورٹ ہوتا تو رپورٹ لکھوانے جاو تو پہلے دو چار طعبے مارتے کہ بھئی اپنے سامان کی حفاظت اچھے سے کیوں نہیں کی؟ کوئی دودھ پیتے بچے تو نہیں ہیں آپ وغیرہ وغیرہ، بعد میں کسی ملازم کے ہتھے چڑھ جاتا اور آپس میں بندر بانٹ کرکے رکھ لیتے، امارات والوں نے اپنا نظام ایسا صاف ستھرا اور تگڑا بنایا ہے کہ دوسری اقوام کے لوگ بھی ایمانداری سے اپنا کام سرانجام دیتے ہیں۔۔۔
۔
۔
۔
©️Mr-Spicy