17/12/2025
مجبور سیاست دان — اور بے لگام افسر شاہی
جمہوری نظام میں سیاست دان عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ وہ ووٹرز کے مسائل سننے، ان کے حل کے لیے منصوبے بنانے اور ریاستی وسائل کو عوامی فلاح میں استعمال کرنے کی نیت سے میدانِ عمل میں آتے ہیں۔ سیاست دان اپنی محنت، رابطے اور عوامی خدمت کے ذریعے ووٹرز کے دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں، تاکہ جمہوریت مضبوط ہو اور عوام کا اعتماد بحال رہے۔
مگر افسوس کے ساتھ یہ حقیقت بھی سامنے آ رہی ہے کہ چند انتظامی افسران کے رویّے اس جدوجہد پر پانی پھیرنے لگے ہیں۔ اپنی من مانی، تصوراتی حاکمیت اور شہنشاہی طرزِ عمل کے باعث یہ افسران نہ صرف منتخب نمائندوں کے کام کو کمزور کرتے ہیں بلکہ بالواسطہ طور پر عوام اور حکومتی سیاست دانوں کے درمیان فاصلے بھی پیدا کر رہے ہیں۔
سیاست دان جب عوام کے لیے منصوبے لاتے ہیں تو ان کا مقصد خدمت اور بہتری ہوتا ہے، مگر جب عملدرآمد کے مرحلے پر غیر ضروری رکاوٹیں، سرد مہری یا تحکمانہ رویّے سامنے آئیں تو اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔ نتیجتاً عوام میں مایوسی اور نفرت جنم لیتی ہے، جس کا رخ آخرکار ووٹر کو سیاست اور نظام دونوں سے متنفر کر دیتا ہے۔
یہ بات نہایت احترام کے ساتھ عرض ہے کہ انتظامیہ اور منتخب نمائندے ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ تکمیل کرنے والے ستون ہیں۔ اگر چند افسران اپنے اختیارات کو عوامی خدمت کے بجائے ذاتی برتری یا طاقت کے اظہار کے لیے استعمال کریں گے تو اس کا نقصان کسی ایک فرد یا جماعت کو نہیں بلکہ پورے جمہوری عمل کو ہوگا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ انتظامیہ عوام کے ساتھ تعاون، شائستگی اور آئینی حدود میں رہ کر کام کرے، تاکہ سیاست دان اپنی محنت کے ثمرات عوام تک پہنچا سکیں اور ووٹر کا اعتماد نفرت کے بجائے امید میں تبدیل ہو۔ یہی طرزِ عمل ایک مضبوط، متوازن اور باوقار جمہوریت کی ضمانت ہے
( تحریر نجیب بھاشانی سمعیز نیوز )