11/02/2025
سیاستدانوں کے محلات بچ گئے اور انہیں کرسی پر براجمان کرانے والوں کے گھر اجڑ گئے۔۔۔۔
پٹواری کو کسی بھی علاقے کا "دہشت گرد، بدمعاش یا فرعون" کہنا غلط نہیں ہوگا
یوں تو پٹواری کا نواں (9) سکیل ہے اور تنخواہ زیادہ سے زیادہ پینسٹھ ہزار روپے(65000 روپے) ہے
ان کا رہن سہن شاہانہ ہے،،، گاڑیاں، بنگلے اور ٹھاٹھ باٹھ اک بائیسویں گریڈ کے افسر سے کہیں زیادہ ہے۔
کسی علاقے میں اسٹام کی پراپرٹی کی خرید و فروخت پٹواری اور اس کے "کن ٹٹے" خبریوں کے لیے "پرائز بانڈ" کے نکلنے کے مترادف ہے
خبریوں میں ان کے وہ ویلے رپورٹر (میڈیا) ہیں جو پانچ سو روپے میں کسی کی بھی خبر لگا دیتے ہیں یا وہ وکیل جنہیں کیس نا ملنے پر مستریوں کے ساتھ دیہاڑیاں بھی لگانی پڑ جاتی ہوں۔
ہجرت کے بعد پاکستان کے مختلف علاقوں میں دربدر ہونے کے بعد لوگوں نے مختلف شہروں اور علاقوں میں سکونت اختیار کی
کچھ کو الاٹمنٹ آسانی اور مہربانی سے ملی اور کچھ سے رشوت کا تقاضہ ہوا۔۔۔۔ جو پہلے ہی لٹ لٹا کر مرتے مراتے پہنچے وہ رشوت کیا دیتے،،، ماں باپ رشتے ناطے مار کر بس بیٹھ گئے صبر سے۔۔۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے اک کیس کے سلسلے میں منہالہ نزد بارڈر جانا ہوا،،، سوچیں اک بندہ پچھلے ستر سالوں سے اپنے حق کی جگہ کے لیے لڑ رہا ہے
پٹوار خانے میں اس کے بڑوں کا نام بولتا ہے
نہ پٹواری قبضہ چھڑوا سکتا ہے نہ وردی والے
(ان شاء اللہ، اللہ اس خیر کا کام بھی ہم سے ہی لینے والا ہے)
مزاروں نے قبضہ کر رکھا ہے،،، جگہ کا مالک مزاروں کے پاس گیا اور قبضہ چھوڑنے کی درخواست کی تو کہنے لگا
"میں مانتا ہوں، جگہ تمہاری ہے، تمہارے بچوں کا حق ہے، کاغذات بھی تمہارے نام کے ہیں، اگر تم قبضہ چھڑوا لو مجھ سے تو میں اپنی گردن اتروا لوں گا (بدمعاشی)۔
اگر تم سمجھتے ہو کرپشن کا نظام بیس پچیس تیس چالیس پرانا ہے تو نہیں یہ نظام، یہ خرابی، بدنیتی، بےایمانی تو پہلے دن سے ہی تھی بس جگہ کا نام ہی تو بدلا،،، وگرنہ رنگ نسل عقیدے سوچ تو سب ویسے ہی تھے
"بنی اسرائیل کی رہنمائی اور نصرت کے لیے اللہ نے موسی علیہ السلام کو بھیجا لیکن قوم کا توکل فرعون کے چنگل سے نکل کر بھی پختہ نہ ہوا،،، اور نا ہی ان کے عقیدوں اور سوچ میں فرق آیا۔۔۔۔
خیر ہر ادارہ ہی اپنی فرعونیت کے عروج پر ہوتا ہے جس سے آپ کو کام پڑتا ہے
خواہ وہ علاج کی غرض سے ہسپتال ہو یا قانون اور انصاف پر عملدرآمد کے لیے عدالتوں اور تھانوں میں قیام ہو
خیر
صدر اور اس جیسے دیگر علاقے جو جوائنٹ فیملی کے نظام کو ترک کر کے گھر سیل کرتے ہیں تاکہ سب لوگ اپنے حصہ میں آئی رقم کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی گھر خرید لیں
لاہور میں پراپرٹی کی خرید و فروخت مستقبل میں خواب کی صورت اختیار کر جائے گا
صدر میں میرے جاننے والوں نے اک پراپرٹی کو سیل کیا جس کی مالیت دو یا اڑھائی کروڑ تھی حصہ داروں کی تعداد اتنی تھی کہ مشکل سے کسی کے حصہ میں تیس لاکھ اور کسے کے حصے میں پندرہ لاکھ آیا۔۔۔۔
گھر دیکھنا شروع ہوئے تو معمولی سے معمولی گھر کی قیمت بھی 35 لاکھ سے شروع ہو رہی تھی اور علاقے بھی ایسے جہاں بندہ رہنے کا سوچ نہیں سکتا
کسی نے مشورہ دیا
آپ رجسٹری میں گھر دیکھ رہے ہیں
بالفرض آپ کو تیس لاکھ میں گھر مل بھی جاتا ہے تو رجسٹری کے لیے پاس کم سے کم تین سے چار لاکھ مزید ہونا ضروری ہے
سن کر سر پکڑ کر بیٹھ گئے کہ یہ نئی مصیبت ہے
پھر کسی نے کہا آپ اسٹام پر دیکھ لیں
وہ بھی رہنے لائق پراپرٹی ہوتی ہے اور لاکھوں لوگ اسٹام کی پراپرٹی پر رہ رہے ہیں
کسی ڈیلر نے انہیں ہربنس پورہ کی سائیڈ پر ہجویری ہاؤسنگ سکیم کے پاس ہی اک متنازعہ علاقہ "رانی پنڈ" ہے
مشہور ہے اس علاقے کی ساری جگہ پر وہاں کے مقامی سیاستدانوں اور بدمعاشوں نے قبضہ کر کے فروخت کی ہے
جس میں پٹواری اور دیگر بااثر لوگ اپنے حصہ کا مال سمیٹ کر سائیڈ پر ہو چکے
اور مصیبت بنی ان لوگوں کے لیے جنہوں نے اپنے حصے یا محنت سے جوڑے ہوئے مال کے عوض اس جگہ پر ہاتھ ڈالا۔۔۔۔
اب پٹواری بھوکے شیر کی طرح ہر ہفتے دو ہفتے بعد کسی پلاٹ کی تعمیر پر (جو کہ وہاں کے مقامی کچھ افراد کرتے ہیں) اپنے منشی کو بھیجتا ہے اور فی مرلہ کے عوض پچاس ہزار سے ڈیڑھ لاکھ روپے وصول کرتا ہے اور گھر بننے دیتا ہے
پھر کچھ عرصہ بعد اے سی، پٹواری اور مقامی پولیس کے ہمراہ کرین لاتا ہے اور آپریشن کے نام پر کچھ عمارتیں گرا جاتا ہے
اب سوال یہ ہے
ادارے، پولیس، پٹواری یہ لوگ اس وقت کہاں مر جاتے ہیں جب علاقے کو لوگ خرید رہے ہوتے ہیں اور تب ہی کیوں سامنے آتے ہیں جب گھر کی دیواریں بن چکی ہوتیں یا لینٹر پڑنے کے قریب ہوتا ہے
پٹواری لاکھوں کروڑوں کی رشوت دے کر ایسے علاقوں میں ٹرانسفر کرواتے ہیں تاکہ کمائی ہو سکے
ایسا صرف پٹواری ہی نہیں بہت سے اداروں میں ہو رہا ہے
لیکن جہاں آپ آواز اٹھائیں گے
آپ کو دبوچ لیا جائے گا
خاموش کروا دیا جائے گا
#اعوانیات
#اعوانیات