Yariیاری

Yariیاری Amplify your daily source of entertainment and inspiration

مٹی کے گھر میں اس لمحے محبت کی وہ خوشبو پھیل گئی جو نہ مصالحے میں تھی، نہ بھنڈی میں — صرف دلوں میں تھی۔گاؤں کی شامیں ویس...
05/11/2025

مٹی کے گھر میں اس لمحے محبت کی وہ خوشبو پھیل گئی جو نہ مصالحے میں تھی، نہ بھنڈی میں — صرف دلوں میں تھی۔
گاؤں کی شامیں ویسے ہی دل کو چھو لینے والی ہوتی ہیں، مگر اس شام کچھ خاص بات تھی۔ مغرب کے وقت ہلکی ہوا چل رہی تھی، آسمان پر نارنجی رنگ کے بادل تیر رہے تھے، اور زینت اپنے کچے آنگن میں چولہا جلائے بیٹھی تھی۔
چولہے کی لپکیں اس کے چہرے پر سنہری جھلک ڈال رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ بھنڈی کاٹ رہی تھی، کبھی مرغی کے سالن کو ہلا دیتی، کبھی لکڑیوں کو سیدھا کر دیتی۔ مٹی کے گھر میں تیل، مصالحے اور پیاز کی بھننے کی خوشبو پھیل چکی تھی۔
دور کھیتوں سے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ زینت کے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آگئی۔
"یقیناً رحمت آ رہا ہوگا..." وہ دل میں بولی۔
رحمت، اس کا شوہر، دن بھر کھیت میں کام کرکے تھکا ہارا لوٹ رہا تھا۔ جیسے ہی گھر کے دروازے کے قریب پہنچا، سالن کی خوشبو نے اسے روک لیا۔ وہ مسکرا کر بولا:
"واہ زینت، لگتا ہے آج کسی بادشاہ کے محل سے کھانا پک رہا ہے!"
زینت ہنسی، مگر نظریں جھکا لیں۔
"بادشاہ کے نہیں، اپنے کسان کے لیے ہی بنا رہی ہوں۔"
رحمت آگے بڑھا، چولہے کے پاس بیٹھ گیا۔ اس نے زینت کے ہاتھوں کو دیکھا، جن پر آٹے اور مصالحے کے داغ تھے، مگر ان میں محبت کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔
"یہی تو دولت ہے زینت، جسے کوئی سونا نہیں خرید سکتا۔"
زینت نے نرم لہجے میں کہا،
"بس دعا کرو سالن اچھا بن جائے، آج دل چاہا تمہارے لیے کچھ خاص پکاؤں۔"
رحمت نے مسکرا کر چولہے کے اوپر جھانکا،
"خاص تو تم ہو زینت، کھانا تو بہانہ ہے۔"
زینت کے گال سرخ ہوگئے، وہ جلدی سے بولی،
"چولہا بجھ جائے گا، تم ذرا پانی بھر لو گھڑے کا!"
تھوڑی دیر بعد جب سالن تیار ہوا، دونوں صحن میں مٹی کی چوکی پر بیٹھے۔ چراغ جل رہا تھا، ہوا میں کھیتوں کی مٹی کی خوشبو گھلی ہوئی تھی۔ زینت نے نوالہ بنا کر رحمت کی طرف بڑھایا، اور وہ ہنستے ہوئے بولا:
"یہی تو زندگی ہے، زینت — بھنڈی، مرغی اور تمہاری مسکراہٹ۔"

یہ صرف بریڈ اور مصالحے کے بریڈ سٹکس نہیں تھے، یہ دادی کی محبت تھی، جو گاؤں کی اس خاموش دوپہر میں، دو ننھے دلوں کو سکون ا...
04/11/2025

یہ صرف بریڈ اور مصالحے کے بریڈ سٹکس نہیں تھے، یہ دادی کی محبت تھی، جو گاؤں کی اس خاموش دوپہر میں، دو ننھے دلوں کو سکون اور خوشی دے رہی تھی۔
گرمیوں کی دوپہر اور دادی کے کباب
یہ گرمیوں کی ایک لمبی دوپہر تھی۔ گاؤں کے گھر کے صحن میں لگے نیم کے درخت کی چھاؤں بھی اب سکڑ کر چھوٹی ہو چکی تھی۔ علی اور زین، دو بھائی، جو صبح سے کھیل کر تھک چکے تھے، اپنی دادی، عائشہ بی بی کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ "دادی، آج کوئی نئی چیز بناؤ نا! وہی روٹی سالن کھا کھا کر دل بھر گیا ہے،" زین نے پیار سے منہ بنا کر کہا۔
عائشہ بی بی، جو ایک پرانی چارپائی پر بیٹھی تھیں، ان کے سامنے تازہ سبزیاں اور روٹی کے ٹکڑے سلیقے سے رکھے تھے۔ وہ ہمیشہ کی طرح اپنے نیلے دوپٹے میں ملبوس، محبت سے مسکرائیں۔ "ہاں میرے بچو، کیوں نہیں؟ آج تمہارے لیے روایتی 'چولہے' پر نئے طرح کے کباب بنیں گے، جن کا نام تم خود رکھنا۔"
دادی نے جلدی سے اُبلے ہوئے آلو، ٹماٹر اور کچھ مصالحہ جات کو ملا کر بریڈ کے ٹکڑوں کے ساتھ لکڑی کی سیخوں پر پرو دیا۔ یہ ان کا اپنا دیسی طریقہ تھا، جو صرف سادہ چیزوں کو ملا کر خاص بنا دیتا تھا۔
پھر وہ چارپائی سے اُٹھیں اور صحن کے کونے میں بنے مٹی کے چولہے کے پاس بیٹھ گئیں۔ لکڑیوں کو آگ نے جکڑ رکھا تھا اور شعلے ایک ترنگ میں اوپر کی طرف لپک رہے تھے۔ چولہے کی تپش عائشہ بی بی کے چہرے پر ایک عجیب سی لالی لا رہی تھی۔ انہوں نے تندوری توے کو آگ پر رکھا اور اس پر ہلکا سا گھی ڈال کر سیخوں کو بھوننا شروع کر دیا۔ سیخوں سے نکلنے والی سوندھی خوشبو نے سارے صحن کو بھر دیا۔ وہ دھیمے دھیمے آگ کی دیکھ بھال کر رہی تھیں، ان کے دھیان سے پکے ہوئے کھانے میں ہمیشہ ایک خاص مٹھاس ہوتی تھی۔
تھوڑی دیر بعد، کباب تیار تھے۔ باہر سے کرارے اور اندر سے نرم۔ دادی نے ایک مٹی کی پلیٹ میں سارے کباب نکالے اور علی اور زین کو آواز دی۔ دونوں لڑکے فوراً دوڑ کر آئے۔ ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔
"واہ! دادی! یہ تو وہی ہیں جو آپ خاص تہواروں پر بناتی ہیں!" علی نے پلیٹ لیتے ہوئے کہا، اس کے ماتھے پر چھایا ہوا سرخ ٹیکا خوشی میں اور بھی نمایاں لگ رہا تھا۔ زین نے بھی بے تابی سے ایک سیخ تھام لی۔ انہوں نے پہلا نوالہ لیا اور ان کی آنکھیں بند ہو گئیں۔ اس وقت سورج کی آخری کرنیں ان پر پڑ رہی تھیں اور اس سادہ سی ڈش کا ذائقہ دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ مزیدار تھا

یہ ایک محبت، محنت اور گھریلو زندگی کی خوبصورتی سے بھرپور کہانی ہے، جو پاکستانی دیہات کے گرم جوش اور سادہ طرزِ زندگی کی ع...
02/11/2025

یہ ایک محبت، محنت اور گھریلو زندگی کی خوبصورتی سے بھرپور کہانی ہے، جو پاکستانی دیہات کے گرم جوش اور سادہ طرزِ زندگی کی عکاسی کرتی ہے۔یہ کہانی ایک دیہاتی عورت کے روزمرہ زندگی کے ایک خوبصورت لمحے کو بیان کرتی ہے، جو اپنے کچے مٹی کے گھر میں دوپہر کے کھانے کے لیے دیسی انداز میں چکن ہانڈی تیار کرتی ہے۔ کہانی میں گاؤں کی سادگی، خلوص، اور دیسی پکوان کی خوشبو کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ عورت اور اس کا شوہر مل کر چکن صاف کرتے ہیں، لکڑی کے چولہے پر مصالحوں کی خوشبو پھیلتی ہے، اور آخر میں جب ہانڈی تیار ہو جاتی ہے تو پورا گھر مہک اٹھتا ہے
ایک چھوٹے سے گاؤں میں، کچے مٹی کے گھر کے باہر دھوپ میں چمکتی دوپہر تھی۔ مٹی کے چولہے کے پاس ایک عورت، رنگ برنگی چادر اوڑھے، دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھی۔ اس کے ساتھ اس کا شوہر بھی بیٹھا تھا، جو احتیاط سے چکن کے ٹکڑے کاٹ رہا تھا۔ لکڑی کے تختے پر رکھی چھری سے گوشت کے ٹکڑے ایک ایک کر کے الگ کیے جا رہے تھے۔ قریب ہی ایک پیلا تھال رکھا تھا، جس میں صاف کیے گئے چکن کے ٹکڑے جمع ہوتے جا رہے تھے۔
عورت کے چہرے پر تھکن کے باوجود ایک سکون جھلک رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ آج دوپہر کو سب گھر والے گرم گرم چکن ہانڈی کے ساتھ تازہ تندوری روٹی کھائیں گے۔

جب گوشت تیار ہو گیا، اس نے چولہا جلایا۔ سوکھی لکڑیوں سے دھواں اٹھنے لگا، جس میں دیسی گھی کی خوشبو گھلنے لگی۔ دیگچی میں پیاز سنہری ہونے تک بھونی، پھر اس میں ادرک لہسن کا پیسٹ، ٹماٹر، ہری مرچیں اور مسالوں کی خوشبو چھا گئی۔ آخر میں چکن کے ٹکڑے ڈالے، اور دھیرے دھیرے وہ ہانڈی میں گلنے لگے۔
چند لمحوں بعد پورا آنگن چکن ہانڈی کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ عورت نے دیگچی کا ڈھکن اٹھایا تو بھاپ کے ساتھ خوشبو کا جھونکا فضا میں پھیل گیا۔ ہانڈی میں لال تیل اوپر تیر رہا تھا، دھنیا اور ہری مرچوں نے اس کا حسن دوبالا کر دیا۔
وہ مسکراتی ہوئی دیگچی کے پاس بیٹھی، چمچ سے ذرا سا سالن چکھا، اور مطمئن ہو کر بولی:
"بس، اب سب کو بلانا ہے۔ کھانا تیار ہے۔"
یوں اس گاؤں کے سادہ مٹی کے گھر میں ایک دیسی انداز کی چکن ہانڈی تیار ہوئی، جس میں محبت، محنت اور گھر کی خوشبو شامل تھی

01/11/2025
بیٹا، پیار اور تجربے سے بنے کھانے ہمیشہ مزیدار ہوتے ہیں۔"یوں گاؤں کے سادہ صحن میں لیز آملیٹ کی خوشبو ایک یاد بن گئی — مح...
31/10/2025

بیٹا، پیار اور تجربے سے بنے کھانے ہمیشہ مزیدار ہوتے ہیں۔"
یوں گاؤں کے سادہ صحن میں لیز آملیٹ کی خوشبو ایک یاد بن گئی — محبت، ذائقے، اور دیہی زندگی کی مٹھاس کی یاد۔ یہ کہانی ایک گاؤں کی سادہ مگر باوقار خاتون کی ہے، جو دوپہر کے کھانے کے لیے کچھ خاص بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔
گرمی کی دوپہر تھی۔ صحن میں ہلکی سی چھاؤں تھی، مٹی کی خوشبو فضا میں رچی ہوئی تھی۔ اماں زینت اپنے روایتی چارپائی پر بیٹھی تھیں۔ سامنے مٹی کے پیالوں میں انڈے، کٹی ہوئی پیاز، ٹماٹر، ہری مرچیں، نمک، لال مرچ، اور سب سے اہم — لیز کے پیکٹ رکھے تھے۔ وہ بڑے سکون سے ایک پیالے میں سب چیزیں ڈال کر گھولنے لگیں۔ ان کے ہاتھوں کی جنبش میں برسوں کا تجربہ جھلک رہا تھا۔
"آج دوپہر کو بچوں کے لیے کچھ نیا بناتی ہوں،" وہ خود سے بولیں، اور ہلکی سی مسکراہٹ ان کے چہرے پر آگئی۔
جب آمیزہ تیار ہو گیا، تو انہوں نے گاؤں کے چولہے پر مٹی کے تیل سے ہلکی آنچ جلائی۔ انڈوں کا آمیزہ توا پر ڈالا اور اس میں کرکری لیز چپس شامل کر دیں۔ خوشبو پورے آنگن میں پھیل گئی۔ قریب سے گزرتے بچے رک گئے، ناک سے خوشبو سونگھتے ہوئے بولے،
"اماں! کیا بنا رہی ہو؟"
"لیز آملیٹ!" اماں نے ہنستے ہوئے کہا۔
کچھ دیر بعد، جب آملیٹ سنہری اور کرارا ہو گیا، انہوں نے اسے مٹی کے پیالے میں نکالا، ٹکڑے کیے اور پیش کر دیا۔ آملیٹ کے اندر لیز چپس کی کرکری آواز، پیاز کی مٹھاس اور مرچوں کی تیز خوشبو نے ہر ایک کو دیوانہ بنا دیا۔
"یہ تو عام آملیٹ سے کہیں بہتر ہے، اماں!" ایک بچے نے کہا۔
اماں زینت مسکرائیں،

31/10/2025

Aloo Bread Seekh Recipe in Desi Village Style by Old Ama Jaan

30/10/2025

Aloo Bread Seekh Recipe in Desi Village Style by Old Ama Jaan

رام لال نے ایک لمبا سانس لیا۔ تھکن اب بھی تھی، مگر اس گرم اور سادے کھانے اور اپنے بچوں کے قہقہوں نے اس تھکن کو اطمینان م...
30/10/2025

رام لال نے ایک لمبا سانس لیا۔ تھکن اب بھی تھی، مگر اس گرم اور سادے کھانے اور اپنے بچوں کے قہقہوں نے اس تھکن کو اطمینان میں بدل دیا۔ یہ زندگی کی سچائی تھی، کہ سخت محنت کے بعد ملنے والا سکون اور اپنوں کے ساتھ مل کر کھایا جانے والا نوالہ، دنیا کی ہر نعمت سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے۔
دھان کے کھیتوں میں
سردیوں کی ہلکی دھوپ اب تیزی پکڑ چکی تھی، اور رام لال کے ماتھے پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے۔ سارا دن انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں، دیپک اور کشن، کے ساتھ مل کر دھان کی فصل کاٹی تھی۔ کھیت میں کٹے ہوئے سنہری بوریوں کے ڈھیر لگے تھے، اور وہ تھکن سے چور تھے۔ ان ڈھیروں کے بیچوں بیچ، ایک ٹوٹی ہوئی پرانی ریڑھی خاموش کھڑی تھی، گویا صدیوں سے یہاں کھڑی ہو۔
رام لال نے جھک کر اپنی کمر سیدھی کی اور پیار سے دیپک کو دیکھا، جو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر آخری گھاس کا گٹھا باندھ رہا تھا۔ ان چھوٹے ہاتھوں کی محنت دیکھ کر رام لال کے دل کو سکون ملا، لیکن ساتھ ہی بھوک کا احساس بھی شدید ہو گیا۔
تھوڑی ہی دور، ایک کونے میں، رام لال کی بیوی رادھا نے اینٹوں کا ایک عارضی چولہا بنا رکھا تھا۔ (تصویر نمبر 2 کا حوالہ) وہ اپنے سر پر سرخ دوپٹہ لپیٹے، چولہے کے پاس جھکی ہوئی تھیں اور ایک کڑاہی میں آلو کے ٹکڑوں کو تل رہی تھیں۔ چولہے کی ہلکی ہلکی آگ اور تیل کی سوندھی خوشبو نے سارے ماحول کو معطر کر دیا تھا۔ رادھا نے اپنا چہرہ دوپٹے سے ڈھانپ رکھا تھا تاکہ دھواں انہیں تنگ نہ کرے۔
آخر کار جب سارا کام ختم ہوا، تو رام لال نے ایک صاف سفید چادر کھیت کی خشک مٹی پر بچھا دی۔ دیپک اور کشن بھاگ کر چادر پر آ بیٹھے، ان کی آنکھوں میں چمک تھی۔ (تصویر نمبر 5 کا حوالہ) رادھا نے گرما گرم آلو کے چپس کا ایک بھرا ہوا تھال ان کے سامنے رکھ دیا۔
رام لال نے پلیٹ سے ایک ٹکڑا اٹھایا اور آہستگی سے اسے دیپک کی طرف بڑھایا۔ "لو، اپنی محنت کا پھل چکھو،" رام لال نے مسکرا کر کہا۔
کشن نے جلدی سے ایک چپس اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔ وہ ابھی تھوڑا جھجک رہا تھا، لیکن اس کی آنکھوں کی چمک بتا رہی تھی کہ یہ سادہ سا نمکین کھانا اس وقت کسی شاہی دسترخوان سے کم نہیں تھا۔ رام لال اور دیپک بھی کھانے میں مشغول ہو گئے۔ دھان کے ڈھیروں، سوندھی مٹی اور سخت محنت کے درمیان، یہ چار دیواری سے باہر ان کا اپنا ایک چھوٹا سا گھر تھا

30/10/2025

Lays Omelette in Traditional Style by Old Ama Jaan | Village Style Lays Omelette

28/10/2025

Lays Omelette in Traditional Style by Old Ama Jaan | Village Style Lays Omelette

22/10/2025

Sweet Rice (Mithay Chawal) Recipe by Ama Jaan in the Village | Village Cooking Routine

چولہے کی آگ جیسے دل کی حرارت بن گئی تھی، اور مٹی کی دیواروں کے اندر ایک سادہ سی عورت کی محبت نے ایک عام سی شام کو یادگار...
22/10/2025

چولہے کی آگ جیسے دل کی حرارت بن گئی تھی، اور مٹی کی دیواروں کے اندر ایک سادہ سی عورت کی محبت نے ایک عام سی شام کو یادگار بنا دیا تھا۔
چھوٹے سے گاؤں کی ایک کچی مٹی کی جھونپڑی، جس کی دیواروں پر پیلے رنگ کی مٹی لیپی گئی تھی، اور چھت کھجور کی پتوں سے بنی ہوئی تھی۔ شام کا وقت تھا، سورج دھیرے دھیرے مغرب کی طرف جھک رہا تھا اور ہلکی سی ٹھنڈی ہوا جھونپڑی کے پردے کو ہلکا سا ہلا رہی تھی۔
صفیہ بی بی، جو کہ پچاس برس کی ایک دیہاتی خاتون تھیں، ہاتھ میں پیتل کی پرانی دیگچی لیے چولہے کے سامنے بیٹھی تھیں۔ ان کے چہرے پر محنت کی جھریاں تھیں، مگر آنکھوں میں سکون اور محبت کی چمک تھی۔ آج انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنے پوتے پوتیوں کے لیے میٹھے چاول بنائیں گی، وہی چاول جو ان کے مرحوم شوہر کو بہت پسند تھے۔
چولہے میں لکڑیاں دھیمی دھیمی آگ سے سلگ رہی تھیں۔ صفیہ نے سب سے پہلے چاول دھو کر ایک طرف رکھے۔ پھر گڑ کا ٹکڑا مٹی کے ہنڈے میں پانی کے ساتھ گرم ہونے کے لیے رکھ دیا۔ گڑ کی خوشبو نے جیسے ہی فضا میں اپنی مٹھاس پھیلائی، جھونپڑی میں ایک الگ سی رونق آ گئی۔

صفیہ چاولوں کو دیگچی میں ڈال کر ہلکی آنچ پر پکنے دیں، اور گڑ کا شیرہ اس میں شامل کر کے چمچ آہستہ آہستہ ہلاتی رہیں۔ چولہے کی آنچ، گڑ کی مہک، اور چاولوں کا بھاپ میں پکنا، سب کچھ جیسے ایک سادہ مگر خوبصورت نغمہ بن چکا تھا۔

باہر بچے گلی میں کھیلتے ہوئے کہہ رہے تھے،
"دادی اماں میٹھے چاول بنا رہی ہیں! دادی اماں کے چاول دنیا کے سب سے مزیدار ہوتے ہیں!"

چاول تیار ہونے پر صفیہ نے ایک پرانی تھالی میں انہیں نکالا، اوپر سے تھوڑے سے بادام اور کشمش ڈالے جو ان کے لیے بہت قیمتی تھے، کیونکہ وہ مہینے میں ایک ہی بار بازار سے آتے تھے۔

جب سب گھر والے دسترخوان پر جمع ہوئے، تو صفیہ کی آنکھوں میں خوشی کی نمی تھی۔ وہ خوش تھیں کہ محبت سے بنائے گئے چاول صرف بھوک ہی نہیں مٹاتے، بلکہ رشتوں کو بھی جوڑتے ہیں۔

Address

Jable Ali Industrial Area Camp 1 Building 3
Dubai
00000

Telephone

+971563131914

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Yariیاری posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Yariیاری:

Share