
26/07/2025
اے این پی کے زیرِ اہتمام قومی امن جرگہ؛ دہشت گردی کے خاتمے، آئینی حقوق کی بحالی اور پشتون تحفظ کیلئے 28 نکاتی اعلامیہ جاری
پشاور(پ ر) باچا خان مرکز پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے زیر اہتمام قومی امن جرگہ منعقد ہوا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت، قبائلی عمائدین اور سماجی نمائندوں نے شرکت کی۔ جرگے کے بعد پریس کانفرنس میں اے این پی خیبرپختونخوا کے صدر میاں افتخار حسین نے جرگہ کا 28 نکاتی اعلامیہ جاری کیا۔
اعلامیے میں مولانا خانزیب کو "پختون قوم اور دھرتی کا قومی شہید" قرار دیتے ہوئے دس روز میں سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا گیا تاکہ قتل کے ذمہ داران کا تعین ہو۔ جرگہ نے کہا کہ پختونخوا اور سابقہ قبائلی اضلاع میں قیامِ امن کے لیے سیاسی قیادت پر مشتمل جرگہ تشکیل دیا جائے جو فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سنجیدہ مذاکرات کرے، واضح پیغام دے کہ خطہ مزید بدامنی اور بین الاقوامی جنگوں کا میدانِ کارزار نہیں بن سکتا۔
شرکا نے بدامنی کے خلاف احتجاجی تحریک کے تحت اسلام آباد یا راولپنڈی میں دھرنے کے اعلان کا عندیہ دیا۔ اعلامیے میں آئین کی اٹھارہویں ترمیم پر مکمل عملدرآمد، اس کے خلاف سازشوں کی روک تھام اور فوری طور پر این ایف سی ایوارڈ کے اجرا کا مطالبہ کیا گیا۔ جرگہ نے ہر قسم کے تشدد کو مسترد کرتے ہوئے "اچھے اور برے دہشت گرد" کی تقسیم ختم کرنے اور تمام پرتشدد تنظیموں کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
اعلامیے کے مطابق ریاست کو جنگی معیشت اور متشدد پالیسیوں کو ترک کرنا ہوگا، 2014 کے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد اور صوبے میں 2019 سے نافذ "ایکشن ان ایڈ آف سول پاور" کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے اور صوبے میں قانون نافذ کرنے کا مکمل اختیار پولیس کو دینے پر زور دیا گیا۔
جرگہ نے پختون سرزمین پر پراکسی وار کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بدامنی مخصوص عناصر کا ذریعہ آمدن بن چکی ہے، ایسے عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔ دہشت گردی اور آپریشنز سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی، بے دخل افراد کی آبادکاری اور ماضی کے فوجی آپریشنز کے نقصانات کا ازالہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کی کشمکش میں غیر جانبدار رہنا ہوگا اور پرائی جنگوں سے اجتناب کرنا ہوگا۔ ریاست کو ہمسایہ ممالک سے برادرانہ تعلقات قائم کرنے، افغانستان کے تمام تجارتی راستے کھولنے اور ان کا انتظام خیبرپختونخوا کے سپرد کرنے کا کہا گیا۔
مزید مطالبات میں عوامی حکمرانی، پارلیمنٹ کی بالادستی، سیاست میں غیر آئینی مداخلت کا خاتمہ، صوبے کے واجب الادا رائلٹی کی ادائیگی، نئے این ایف سی ایوارڈ کا اجرا اور ضم اضلاع کے لیے وعدے کے مطابق 100 ارب روپے، ہر ضلع میں یونیورسٹی اور دس سال کے لیے ٹیکس چھوٹ شامل ہیں۔
جرگہ نے ضم اضلاع کے انتظامی و ترقیاتی اختیارات سول اداروں اور منتخب نمائندوں کو دینے، 22 ہزار خاصہ داروں کی بھرتی یقینی بنانے، خواتین کی شرح خواندگی بڑھانے، تعلیمی ادارے قائم کرنے، بحالی اور تعمیرِ نو کے لیے سروے کرنے، تھری جی و فور جی سروسز بحال کرنے، عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنے والی چیک پوسٹوں کو ختم کرنے اور لینڈ ریکارڈ کو ڈیجیٹائز کرنے کا مطالبہ کیا۔
مزید کہا گیا کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے مختص میڈیکل و انجینئرنگ سیٹس پر عملدرآمد اور ہائیر ایجوکیشن اسکالرشپس بحال کی جائیں۔ فرنٹیئر کانسٹیبلری پر پہلا حق خیبرپختونخوا کے عوام کا تسلیم کرتے ہوئے اسے وفاق کے ماتحت کرنے کی کوششوں کو قبائلی عوام کے حقوق پر ڈاکہ قرار دیا گیا۔
اعلامیے میں چھوٹی قومیتوں کے دیرینہ استحصال کے خاتمے کے لیے اٹھارہویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اختیارات کی بلا تعطل منتقلی پر بھی زور دیا گیا۔
جرگہ کے شرکا نے واضح کیا کہ پختون عوام مزید بدامنی برداشت نہیں کریں گے اور ریاست پر زور دیا کہ وہ آئین، جمہوریت اور خطے کے امن کے لیے عملی اقدامات کرے۔