28/11/2023
آکرہ
بنوں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں بھرت میں 250 فٹ اونچی پہاڑی پر آکرہ کے کھنڈر موجود ہیں جو 33 ایکٹر زمین پر محیط ہیں۔ بنوں کے لوگوں میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ آکرہ کے کھنڈر عذاب الہٰی کی یادگار ہیں۔ ان کے خیال میں یہ شہر کسی زمانے میں خوب آباد تھا۔ مگر یہاں کے باسیوں پر ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے قہر نازل ہوا اور ساری کی ساری آبادی آن کی آن میں نیست و نابود ہو گئی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔
ایک دوسرے مفروضے کے تحت آتش فشاں کے لاوے نے اس شہر کو گھیر لیا اور اس کو نیست و نابود کر دیا۔ مگر اس کی بھی کوئی سائنسی بنیاد نہیں اور نہ ہی آثار قدیمہ کے کسی ماہر نے اس کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے۔
مقامی ہندووں کے عقیدے کے مطابق شہر آکرہ کا بانی بھرت تھا جو رام چندر کا بھائی تھا۔مگر یہ بھی جھوٹ ہے۔
حقیقت میں یہ تاریخی جگہ مخمود غزنوی کے دور تک اباد تھی اور یہاں کے لوگ خوشحال زندگی بسر کررہے تھے۔ ان لوگوں کا مذہب ہندومت تھا، اور یہاں کا راجہ ست رام تھا۔
محمود غزنوی ہندوستان پر حملہ اور ہونے کے لئے بنوں کے راستہ ایا تھا، اس نے درمیان میں انے والی تمام ابادیاں تحت و تاراج کر دی تھی، جس میں اکرہ بھی شامل تھی۔ لکھا گیا ہے کہ یہاں پر ست رام اور محمود غزنوی کے درمیان گھمسان کا جنگ ہوا تھا ، جس میں ست رام کو شکست ہوئی تھی، اور یوں محمود غزنوی نے یہاں کے سارے لوگوں کو قتل کردیا۔
آکرہ کے بارے میں زیادہ تاریخی معلومات کچھ کتبے، بت، مہریں، سکے اور دوسرے نوادرات ہیں۔ جو وقتا فوقتا یہاں سے دریافت ہوئے اور ملک کے کئی عجائب گھروں میں آج بھی موجود ہیں۔ یہ نوادرات یونانی، بدھ مت ، ہندومت اور محمود غزنوی کے دور کے ہے۔ ان سکوں اور نودرات سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو سکندر اعظم خود یہاں سے گزرا یا پھر اُس کے کسی گورنر نے بعد میں اس شہر کو فتح کیا۔ کیونکہ آکرہ یونانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اونچی جگہ کے ہیں اور جہاں آکرہ واقع ہے یہ ایک بلند پہاڑی ہے باقی علاقہ بالکل ہموار ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس جگہ کو آکرہ کا نام دیا گیا۔
یونانیوں کے علاوہ یہاں ہندو مت اور بدھ مت کی تہذیبیوں نے بھی گہرے اثرات چھوڑے ہے۔