Arsalan

Arsalan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Arsalan, Digital creator, Pyalong.

Actor | Model | Motivational speaker | Cricketer | Student
Living In Australia 🇦🇺 |
From Allai Battagram
Khyber Pukhtunkhwa Pakistan 🇵🇰
Languages : Pushto, Urdu, English

“افسوس! عافیہ صدیقی کو عمران خان سے جوڑنا؟ ایک سنگین سیاسی مغالطہ”تحریر:ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے نائب وزیرِاعظم ...
26/07/2025

“افسوس! عافیہ صدیقی کو عمران خان سے جوڑنا؟ ایک سنگین سیاسی مغالطہ”

تحریر:

ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے نائب وزیرِاعظم اسحاق ڈار نے ایک ایسی بات کی، جس نے نہ صرف سیاسی شعور رکھنے والوں کو چونکا دیا، بلکہ انصاف اور انسانی حقوق کے بنیادی اصولوں کو بھی چیلنج کر دیا۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ میں سزا ملی، کیونکہ وہ امریکی قوانین کے تحت مقدمہ تھا، اور پاکستان نے اس میں مداخلت نہیں کی۔ پھر اسی جملے میں وہ فرماتے ہیں کہ اگر پاکستان میں عمران خان کو سزا ملی ہے، تو اس پر بھی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

کیا یہ تقابل منطقی ہے؟ کیا یہ انصاف کی سچی ترجمانی ہے؟

ڈاکٹر عافیہ صدیقی — ایک پاکستانی شہری — کو امریکہ نے ایک ایسا مقدمہ چلا کر 86 سال کی غیر انسانی سزا سنائی، جو خود ایک عالمی عدالتی سوال بن چکا ہے۔ اس مقدمے میں گواہوں کی غیر موجودگی، شواہد کا فقدان، تشدد کی رپورٹس اور خود امریکی سول سوسائٹی کی تنقید موجود ہے۔ جبکہ وہ امریکی نہیں تھیں، ان کا کیس وہاں کی عدالت میں چلایا گیا، اور وہ آج بھی انسانی ہمدردی اور قانونی انصاف کے لیے ایک استعارہ بن چکی ہیں۔

دوسری طرف، عمران خان — ایک سابق وزیرِاعظم، عوامی نمائندہ، اور پاکستان کا شہری — پاکستان کے اندر اپنی ہی ریاست کے نظامِ انصاف کے تحت سزا یافتہ ہوئے، اور ان کے مقدمات اور فیصلے ایک متنازع سیاسی ماحول میں سامنے آئے۔ سوال یہ نہیں کہ سزا دی گئی، سوال یہ ہے کہ کیا وہ سزا انصاف پر مبنی تھی یا سیاسی انتقام کا شاخسانہ؟

اسحاق ڈار نے ان دونوں شخصیات کو ایک ہی سانس میں جوڑ کر نہ صرف ایک غیر منصفانہ تقابل کیا، بلکہ اس سے یہ تاثر دیا کہ جیسے دونوں ہی قانونی طور پر درست سزائیں پا چکے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اگر عافیہ صدیقی کو 86 سال کی سزا دی گئی، تو کیا اُن امریکی فوجی اور انٹیلیجنس اہلکاروں کو بھی سزا دی گئی، جنہوں نے عراق، افغانستان، گوانتانامو، اور پاکستان میں غیر قانونی اقدامات کیے؟ وہ تو آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ کیا یہی قانون ہے؟

اگر میں وکیل ہوتا عافیہ صدیقی کا، تو یہ میرا پہلا نکتہ ہوتا:
جس جرم میں اسے سزا ملی، وہ جرم تو کرنے والے آج اقتدار میں ہیں، اور وہ عورت، جو خود ایک متاثرہ ہے، آج بھی سلاخوں کے پیچھے ہے۔
تو پھر جرم کس نے کیا؟
اور سزا کس کو ملی؟

یہی منافقت اور یہی انصاف کا دہرا معیار آج دنیا کو بے نقاب کر رہا ہے۔

اور جب پاکستان کا ایک سینیئر وزیر — عالمی فورمز پر — اس ظلم کو جائز قرار دینے کے لیے اسے اپنے سیاسی مخالف کے ساتھ جوڑتا ہے، تو یہ صرف ایک سیاسی جملہ نہیں، بلکہ ایک قومی ضمیر کا زوال ہے۔

اسحاق ڈار کا بیان صرف ایک جملہ نہیں، بلکہ وہ مثال ہے کہ جب سیاست اتنی انتقامی بن جائے کہ اس میں آپ مظلوموں کو بھی اپنے بیانیے کے لیے استعمال کرنے لگیں، تو پھر انصاف، قانون اور انسانیت — تینوں کا جنازہ ایک ساتھ نکلتا ہے۔

پاکستان کو ایسے بیانیے نہیں، بلکہ اصولوں پر مبنی قیادت کی ضرورت ہے۔ جہاں ہر قیدی کا مقدمہ الگ ہو، ہر مظلوم کی آواز سنی جائے، اور ہر سیاستدان اپنے الفاظ کی حرمت پہچانے۔

24/07/2025

ہمارا درد — اصل مسئلے کی طرف لوٹنا ہوگا

میں نے کل سوات واقعے کے اوپر جو ایک بچے کے ساتھ تشدد ہوا، اور بفا مانسہرہ کے اندر جس بچے کا سرقلم کر دیا گیا، ان دونوں کے حوالے سے ویڈیوز کیں۔
میں جانتا ہوں کہ ایسے واقعات کے اوپر جب آپ کوئی شارٹ ویڈیو یا کلپ دیتے ہیں — صرف اس نیت سے کہ لوگ aware ہوں، آگاہ ہوں، تاکہ وہ مظلوم کے حق میں آواز اٹھا سکیں —
تو ان میں ساری تفصیلات ممکن نہیں ہوتیں۔

لیکن مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہوا… کہ ان واقعات کے پیچھے جو اصل مقصد ہوتا ہے، وہ تب دب جاتا ہے جب ہر طرف سے ایک ہی رویہ سامنے آتا ہے:

جہاں بھی آپ پختونوں کے مسائل پر بات کریں، یا کسی المیے کی نشاندہی کریں،
وہاں پر مذہبی نظریات اور far right سوچ رکھنے والے لوگ اصل مسئلے کو کسی اور بحث میں گھسیٹ لیتے ہیں۔
نتیجہ؟
جو بات ہم لوگوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کرتے ہیں، وہی بات غلط سمت میں لے جا دی جاتی ہے — اور اصل درد، اصل حقیقت — نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔

اور جب ایسا بار بار ہوتا ہے — تو پھر کوئی بھی آواز اٹھانے سے پہلے سوچتا ہے، رک جاتا ہے، خاموش ہو جاتا ہے۔



لیکن سچ تو یہ ہے…
سچ آپ کے دروازے تک پہنچے گا۔

اگر آج نہیں تو کل۔
اگر کل نہیں تو پرسوں۔

وہ سچ کیا ہے؟

اگر آپ کے بچے کو کسی نے سکول، مدرسے، بازار یا گلی میں اتنا مارا کہ آپ حیران ہو گئے کہ آخر کیوں مارا؟
تو بس سمجھ جائیں:
یا تو اس بچے کے ساتھ بدفعلی کی کوشش کی گئی ہے —
یا وہ بدفعلی کا شکار ہو چکا ہے۔

کیونکہ یہ جو درندے ہوتے ہیں، یہ جب کسی معصوم کو چیرتے ہیں —
تو انہیں پتہ ہوتا ہے کہ اگر یہ بچہ بول پڑا، تو میری دنیا لُٹ جائے گی۔

تو وہ کیا کرتا ہے؟
مار دیتا ہے۔
یا مارنے کے قریب چھوڑ دیتا ہے۔
یا اس کو اتنا خوفزدہ کر دیتا ہے کہ وہ زبان کھولنے سے پہلے مر جائے۔

جتنا جلدی آپ اس سچ کو سمجھیں گے، اتنا بہتر۔
جتنا دیر کریں گے، اتنا ہی نقصان اٹھائیں گے۔



لیکن بات صرف یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔

اصل مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب:

ہم ان باتوں پر توجہ دلاتے ہیں،
تو ہمارے ہی مسلمان بھائی، ہمارے اپنے، ہمیں گھورتے ہیں، الزام دیتے ہیں، دیوار سے لگاتے ہیں۔

کہتے ہیں:

“یہ تو مدارس کے خلاف ہے!”
“یہ تو دینی تعلیم کے خلاف ہے!”
“یہ تو علما کے خلاف ہے!”

اور اگر آپ ریاست کے اندر ہونے والے ظلم پر بات کریں —
تو کہا جاتا ہے:
“یہ ریاست کا دشمن ہے!”

اور اگر آپ شدت پسندی، دہشتگردی، فرقہ واریت کے خلاف بولیں —
تو آپ پر فتوٰی لگتا ہے کہ:
“یہ جہاد کا مخالف ہے!”
“یہ دین سے دور ہے!”



پھر، جب آپ بچوں کے ساتھ زیادتی جیسے سنجیدہ مسئلے پر بات کرتے ہیں —
تو لوگ سمجھتے ہیں:
“یہ خود کسی واقعے کا شکار ہوگا!”
یا
“اس کے اپنے دل میں کچھ ہے!”

اور ایسا کرنے والے معاشرے کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ:

یہ پورا معاشرہ — ذہنی، جنسی، جذباتی، ہر طرح کی بیماری کا شکار ہے۔

آپ بازار دیکھ لیں، اسکول دیکھ لیں، یونیورسٹی، مدرسے، مسجد، گلی، ٹک ٹاک، فلمی دنیا —
کیا کوئی ایک جگہ بچی ہے؟
کیا کوئی ایک کونہ ہے جہاں سے یہ گند نہ اٹھ رہا ہو؟

یہ وہ بیماری ہے جس سے دنیا کا کوئی چرچ نہیں بچا،
کوئی مندر نہیں بچا،
کوئی مسجد نہیں بچی،
کوئی پارلیمنٹ نہیں بچی!



لیکن جب ظلم حد سے بڑھ جائے،
اور کوئی ایک واقعہ ہائلائٹ ہو جائے —
تو لوگ بجائے شرمندہ ہونے کے، بجائے اس پر اصلاح کی بات کرنے کے —
فوراً ایک نیا زاویہ نکال لیتے ہیں:

“یہ تو دین کو بدنام کر رہا ہے!”

ارے بھائی!
یہ دین کو بدنام نہیں کر رہا —
یہ تو دین کی اصل عزت بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔



یہی وہ انداز ہے جو ہمارے حکمران اپناتے ہیں:

جیسے وہ اپنی کرپشن، اپنی نااہلی، اپنے جھوٹ چھپانے کے لیے
فوج، عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں —
بالکل ویسے ہی، عوام نے دین، نبیوں، صحابہ اور علما کو ایک ڈھال بنا لیا ہے۔

جب ہم کوئی بات کرتے ہیں —
تو اس کا جواب دلیل سے نہیں، جذبات سے دیا جاتا ہے۔
اور جذبات سے صرف ایک ہی کام لیا جاتا ہے —
“اصل بات کو چھپانے کے لیے”۔



لیکن میں نے صرف تنقید نہیں کی۔

میں نے ایک راستہ دیا ہے —
ایک واحد راستہ، جس پر اگر ہم آج سے قدم رکھیں —
تو ہم اپنے علما کو، مدارس کو، مساجد کو نہ صرف محفوظ بنا سکتے ہیں،
بلکہ اسلام کی ایک ایسی عالمی شناخت دنیا کو دکھا سکتے ہیں
جس پر ہمیں بھی فخر ہو، اور دنیا بھی کہے: “یہ ہیں محمد ﷺ کے ماننے والے!”

جیسے قطر، دبئی، سعودی عرب، ملیشیا، ترکی —
اپنے دینی اداروں کو ترقی، خدمت اور امن کے مراکز بنا چکے ہیں —
ہم بھی بنا سکتے ہیں۔



ہماری مساجد:

❌ جنسی زیادتی،
❌ گند، بدبو، لڑائی جھگڑے،
❌ فرقہ واریت،
❌ شخصیت پرستی
کے لیے استعمال نہیں ہوں گی۔

بلکہ:

✅ اسلام کے اصل پیغام کو عوام کی زندگی میں اتارنے کے لیے،
✅ انسانوں کی خدمت، اخلاقی تربیت، عدل اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے
استعمال ہوں گی۔



تب تک، جتنا ہم روک سکتے ہیں، ہمیں روکنا ہوگا۔

شاید یہ بیماری مکمل ختم نہ ہو —
لیکن کم از کم اس کو بڑھنے سے تو روک سکتے ہیں۔



اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
اللہ مسلمانوں کی نصرت فرمائے، جہاں بھی ان پر ظلم ہو رہا ہو۔
اور اللہ ہمیں ہدایت دے، اور وہ سیدھا راستہ دکھائے جو حق پر ہے، عدل پر ہے، اور محمد ﷺ کی سنت پر ہے۔

آمین۔

پاکستان کا چہرہ: ایک قوم، کئی سانحات، ایک ہی سوال — ریاست کہاں ہے؟تحریر: فری اینڈ فیئر پاکستان ویژن کی آواز سےجب ہم “پاک...
22/07/2025

پاکستان کا چہرہ: ایک قوم، کئی سانحات، ایک ہی سوال — ریاست کہاں ہے؟

تحریر: فری اینڈ فیئر پاکستان ویژن کی آواز سے

جب ہم “پاکستان” کہتے ہیں، تو ایک مکمل، خودمختار، اور باوقار ریاست کا تصور ذہن میں آتا ہے—جہاں ہر شہری کو یکساں تحفظ حاصل ہو، جہاں قانون اندھا ہو، انصاف تیز ہو، اور ریاست ہر ایک کی ہو۔
مگر افسوس، آج جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس خواب کا جنازہ ہے۔
اور سوال یہ ہے: کیا پاکستان کے اندر صرف ایک ریاست ہے؟ یا کئی ریاستیں چل رہی ہیں؟

ایک طرف بلوچستان کا وہ واقعہ — جہاں ایک لڑکی اور اس کا شوہر پسند کی شادی کے بعد جرگے کے حکم پر، دعوت پر بلا کر قتل کر دیے گئے…
دوسری طرف پنجاب کے دل لاہور میں — ایک لڑکی اپنے ہی محبوب کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں — ایک بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبر وائرل ہوتی ہے، اور کوئی ایکشن نہیں ہوتا۔
قصور — جہاں معصوم بچوں کے ساتھ درجنوں مرتبہ زیادتی کے اسکینڈلز آتے ہیں، مگر ظلم آج بھی جاری ہے۔
ملکنڈ — جہاں دن دہاڑے تین افراد قتل کر دیے جاتے ہیں، اور مجرم دندناتے پھر رہے ہیں۔

اسی دوران پاکستان کے مختلف حصوں سے خبریں آتی ہیں:
پولیس تھانے جلائے جا رہے ہیں،
پولیس اہلکار بھاگ رہے ہیں،
پورے کے پورے اضلاع ڈاکوؤں، لٹیروں، اور جرائم پیشہ افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے جاتے ہیں،
اغواء برائے تاوان، مسلح ڈکیتیاں، اور قتل عام اب معمول کی خبر بن چکی ہیں۔

تو سوال یہ ہے…
یہ کیسی ریاست ہے؟ یہ کس کا پاکستان ہے؟

کیا یہ ریاست صرف اسلام آباد، ڈی ایچ اے اور بحریہ کے باسیوں کے لیے ہے؟
کیا ریاست صرف ان چند بااثر خاندانوں کو تحفظ دیتی ہے جو اقتدار میں ہوں؟
کیا باقی سب شہری “غیر ریاستی” مانے جا چکے ہیں — جن پر ریاست کی رٹ لاگو ہی نہیں ہوتی؟

جب وزیر اعلیٰ بلوچستان خود اعتراف کرے کہ “ایسی جگہیں ہیں جہاں پولیس نہیں جا سکتی” — تو پھر یہ واضح پیغام ہے کہ ریاست جزوی ہو چکی ہے۔
ریاست کا رٹ کچھ اضلاع میں ہے، کچھ قبیلوں میں نہیں۔
کچھ زبانیں بولنے والوں کے لیے قانون ہے، اور کچھ کے لیے صرف طاقت کا راج۔

جب یہ سب کچھ ایک ساتھ ہو رہا ہو —
جہاں کسی ضلع میں ڈاکو راج ہے، کسی میں غیرت کے نام پر قتل،
کہیں پولیس ہی غائب ہے، اور کہیں تھانے ویران…
تو پھر سوال صرف یہ نہیں کہ “ریاست کہاں ہے؟”
بلکہ سوال یہ ہے کہ “کتنی ریاستیں ہیں؟”

یہ تقسیم صرف جغرافیائی نہیں —
یہ ذہنوں، انصاف، تحفظ، اور انسانی حیثیت کی تقسیم ہے۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کو تعلیم، شعور، اور روزگار دینے کے بجائے، انہیں جرائم، نفرت، اور فحاشی کے گڑھے میں دھکیلا گیا۔
ٹک ٹاک کلچر، گن کلچر، اور “دھمکی کا فخر” — یہ نئی نسل کو تباہ کر رہے ہیں۔

نوجوان یا تو قاتل بن رہے ہیں، یا مقتول۔
لڑکیاں یا تو ویوز کے لیے عزت بیچ رہی ہیں، یا سڑک پر گھیسٹی جا رہی ہیں۔
پولیس یا تو کرایہ کی بندوق ہے، یا خود غائب۔

اور حکمران؟
وہ ایوانوں میں بیٹھ کر سینیٹ کی سیٹوں پر بولیاں لگا رہے ہیں۔
انہیں قوم، نسل، ریاست یا معاشرے کی بربادی سے کوئی غرض نہیں۔
انہیں صرف اس کرسی سے مطلب ہے جو ان کو قانون سے بچا سکے۔

تو اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے…
کیا آپ اسی ریاست میں رہنا چاہتے ہیں جو صرف چند لوگوں کی ہے؟
یا وہ ریاست چاہتے ہیں جو ہر شہری کی ہو؟

یاد رکھو:
جب ایک ریاست اپنے شہریوں کو انصاف، تحفظ اور عزت دینا چھوڑ دے،
تو پھر وہ ریاست نہیں رہتی — وہ صرف نقشہ بن جاتی ہے۔

آج پاکستان صرف نقشے پر باقی ہے،
زمینی حقیقت میں یہاں کئی ریاستیں چل رہی ہیں —
کچھ جرگے کی، کچھ جاگیرداروں کی، کچھ وردی والوں کی، کچھ ڈاکوؤں کی،
اور کچھ صرف تصویروں میں نظر آنے والے “وژن پاکستان” کی۔

اب سوال یہ نہیں کہ تبدیلی کب آئے گی؟
سوال یہ ہے کہ تبدیلی کی شروعات آپ سے ہوگی یا کسی لاش سے؟

نعرے نہیں، نظام چاہیے!بہت سے لوگ آج بھی عمران خان یا مولانا فضل الرحمٰن کے نام پر خود کو معتبر، محب وطن اور اصل مسلمان س...
22/07/2025

نعرے نہیں، نظام چاہیے!

بہت سے لوگ آج بھی عمران خان یا مولانا فضل الرحمٰن کے نام پر خود کو معتبر، محب وطن اور اصل مسلمان سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ تو مولانا کی علمی حیثیت اور سیاسی بصیرت پر کوئی سوال ہے، اور نہ ہی عمران خان کی ماں سے محبت، شوکت خانم اسپتال، کرکٹ ورلڈ کپ یا ایک نئی پارٹی کو سیاسی قوت بنا کر وزیرِاعظم بننے جیسے اقدامات سے انکار ممکن ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے نام پر، ان کے سائے میں، آپ سے ووٹ لیا جائے… اور پھر آپ ہی کو آپ کے حق سے، ترقی سے، تعلیم سے، صحت سے، روزگار سے محروم رکھا جائے؟ اور آپ خاموش رہیں؟ یہ خاموشی، یہ لاتعلقی، یہ عدمِ شعور — قوم کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی دیوار بن چکی ہے۔

چلو ہم یہ مان بھی لیں کہ پاکستان کے سو میں سے سو مسئلے ہیں — لیکن ان میں سے پچاس مسئلے اس کرپشن کے ہیں جو ان وڈیروں، خانوں، چودھریوں، نوابوں اور سرداروں کی جگیرداری سوچ سے جڑی ہے۔ اور باقی پچاس اس عوام کے، جو ابھی بھی انھی چہروں پر اندھا اعتماد کرتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ ان کو دھوکہ دیا۔

بیوروکریسی ہو یا ٹیکنوکریسی، عدلیہ ہو یا اسٹیبلشمنٹ، یا داخلی و خارجی سیکیورٹی کے ادارے — اگر وہ اپنی ساکھ کی وضاحت یا اصلاح کرنے کے لیے تیار نہیں تو ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہم عوام نے اپنے حصے کی ذمہ داری کہاں تک ادا کی ہے؟

یہی وہ عوام ہے جو فارم 45 اور 47 کے شور کے پیچھے کھڑی ہوئی، لیکن آج وہی سیاسی قوتیں ایک ہی میز پر چائے اور بسکٹ کھا رہی ہیں، مراعات بانٹ رہی ہیں، اور عوام ایک بار پھر محرومیوں کی بھینٹ چڑھ رہی ہے۔

بلوچستان میں تعلیم اور شعور کی کمی کا خمیازہ آج پورا پاکستان اس ویڈیو کی شکل میں بھگت رہا ہے جسے دنیا بھر میں لاکھوں افراد نے دیکھا۔ خیبر پختونخوا کی ترقی روکی گئی، سڑکوں کے فنڈز غائب ہوئے، کوہستان جیسے علاقوں میں اربوں کی کرپشن ہوئی — اور کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی صحافی نہیں، کوئی ادارہ نہیں جو چھان بین کرے کہ ان علاقوں میں اصل میں کیا ہو رہا ہے؟

نتیجہ؟ باقی پاکستان کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، جب وہ تفریح کے لیے انہی علاقوں میں جاتا ہے، اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

اس لیے ہم کہتے ہیں — “Free & Fair Pakistan Vision” ایک نعرہ نہیں، ایک قومی منشور ہے۔

ہمارا نعرہ ہے:

“ہر کسی کو، ہر جگہ، ہر وقت — یکساں نظامِ تعلیم، انصاف، صحت، اور زندگی گزارنے کے برابر مواقع میسر ہوں۔”

جب تک یہ نکتہ پورے پاکستان کے ہر ضلع، ہر تحصیل اور ہر فرد کی پالیسی نہیں بنے گا — تب تک نہ بلوچستان محفوظ ہوگا، نہ خیبرپختونخوا، نہ کراچی، نہ لاہور، نہ گلگت، نہ گوادر۔

یہی اصل برابری ہے۔ یہی اصل آزادی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ووٹ چہرے کو نہیں، کردار کو دیں۔ ہم پارٹی کو نہیں، منشور کو چنیں۔ ہم نعرے کو نہیں، نظام کو اہمیت دیں۔

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے تعلیم پائیں، ہمارے مریض علاج پائیں، ہماری خواتین تحفظ پائیں، ہمارے نوجوان روزگار پائیں — تو ہمیں ایک ایسا نیا راستہ چننا ہوگا جہاں ہر علاقہ، ہر قوم، اور ہر فرد کو برابری اور انصاف کی ضمانت دی جا سکے۔

یہ ریاست ہے؟ یا بنانا ریپبلک؟بلوچستان میں، دن کی روشنی میں، انیس مردوں کے بیچ ایک لڑکی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ایک...
20/07/2025

یہ ریاست ہے؟ یا بنانا ریپبلک؟

بلوچستان میں، دن کی روشنی میں، انیس مردوں کے بیچ ایک لڑکی کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔
ایک لڑکا، ایک لڑکی — غیرت کے نام پر مار دیے گئے۔

ریاست کہاں ہے؟
پاکستان کی رِٹ کہاں ہے؟
کیا ہمارے نقشے پر وہ علاقے نشان زد کیوں نہیں کیے جاتے جہاں پر پاکستان ہے ہی نہیں؟
جہاں ریاست کے اندر اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنی ہوئی ہیں،
جہاں قانون چند لوگوں کی بندوق سے نکلتا ہے —
جہاں حکومت صرف نام کی ہے۔

📍 پچھلے 24 گھنٹوں میں بلوچستان میں کتنے لوگ قتل ہوئے؟
📍 خیبرپختونخوا میں کتنی جانیں چلی گئیں؟
📍 میرے اپنے گاؤں میں آج ایک بندہ دشمنی میں مارا گیا۔
📍 دوسرے گاؤں میں کسی نے دشمن کی بھینس کا گلا کاٹ دیا — کیا یہ حیوانیت نہیں؟

دوسری طرف، کچھ لوگ سوشل میڈیا پر بیٹھ کر ریاست پاکستان کو ہی نہ ماننے کا اعلان کر رہے ہیں۔
کہیں کوئی بندہ ڈرون گرانے کی بات کر رہا ہے۔
کہیں لوگ کھلے عام بندوقیں لے کر گلیوں میں گھوم رہے ہیں، پولیس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
یہ ریاست ہے؟ یا جنگل کا قانون؟

ادھر ہم دنیا کو اپنی کامیابیوں کے بینر دکھا رہے ہیں…
اور ادھر، ہمارے ملک کے اندر قانون، انصاف، اور انسانیت کا جنازہ نکل چکا ہے۔

📢 عوام کو جاگنا ہوگا۔
📢 گورننس کا نظام بدلنا ہوگا۔
📢 علاقہ غیر اور دہشتگردی کے اڈے ختم کرنے ہوں گے۔
📢 ہر جگہ ایک جیسا قانون نافذ کرنا ہوگا۔

اور آخر میں —
اے حکمرانو! ذرا سوچو، جب تم اپنے نرم بستروں پر سو رہے ہوتے ہو،
تو تمہاری ریاست میں عورتیں، بچے، بزرگ — حتیٰ کہ جانور بھی ظلم کا شکار ہو رہے ہوتے ہیں۔
کیا تمہیں نیند آ جاتی ہے؟

#بلوچستان #خیبرپختونخوا

📸 These are not just photos — they’re the first real samples of a dream I’ve been working on for a long time.Today, I’m ...
19/07/2025

📸 These are not just photos — they’re the first real samples of a dream I’ve been working on for a long time.
Today, I’m wearing Arsalancia — my upcoming clothing brand. And I genuinely need your opinion.

These outfits are exactly as they arrived. No edits. No filters. Just the real look and feel.

So, what is Arsalancia?
It’s a simple yet powerful idea:
➤ 7 shirts. 3 pants.
➤ Plain colors. No logos.
➤ Clean, high-quality, and designed for people who want to focus on their goals — not their wardrobe.

The full package is made for those who are serious about their time, their purpose, and their lifestyle.
But yes — you can also buy each piece individually.

This brand is for anyone who’s tired of wasting time picking clothes every day, browsing through shops or scrolling endlessly online.
Arsalancia is about freeing your mind — so you can do more with your day.

💭 Now I want to hear from you:
👉 Would you wear this?
👉 Do you think this idea makes sense?
👉 Would you buy a full-year package like this?

Your thoughts mean a lot — and they’ll help me make the final decision to launch this fully.
Drop your honest opinion in the comments below. 👇

🌟 Just another day chasing dreams.🎯 Focused. Fearless. Free.
18/07/2025

🌟 Just another day chasing dreams.
🎯 Focused. Fearless. Free.

✨ تحریر: مدینہ سے بٹگرام تک — ایک اصولی ماڈل کی تجویزجب ریاستِ مدینہ کی بات کی جاتی ہے تو اکثر لوگ اسے ایک وسیع سلطنت سم...
18/07/2025

✨ تحریر: مدینہ سے بٹگرام تک — ایک اصولی ماڈل کی تجویز

جب ریاستِ مدینہ کی بات کی جاتی ہے تو اکثر لوگ اسے ایک وسیع سلطنت سمجھتے ہیں،
حالانکہ اصل میں وہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا —
جہاں تھوڑے سے لوگ بستے تھے، لیکن ایک ایسا نظام قائم ہوا جو دنیا کے لیے مثال بن گیا۔

اس گاؤں میں نہ بڑی زمینیں تھیں،
نہ کوئی فوجی طاقت،
نہ بڑی آبادی —
لیکن اصول، انصاف، شراکت داری، اور خدمت کا ایک ایسا ماڈل قائم کیا گیا
جو بعد میں اقوام، ریاستوں اور صدیوں پر چھا گیا۔

آج بھی دنیا کے بہت سے خطے، ادارے، اور افراد ان ہی اصولوں کا نام لیتے ہیں —
چاہے وہ اصول عمل میں ہوں یا محض الفاظ میں۔



📜 مدینہ کی ریاست: زمین نہیں، نظام کی سوچ

نبی کریم ﷺ نے جس ریاست کی بنیاد رکھی،
اس کی بنیاد زمین کے سائز پر نہیں، نظام کے وژن پر تھی۔

مدینہ کی مثال یہی سکھاتی ہے کہ اگر نظام شفاف، منصف اور عوام دوست ہو
تو چھوٹے سے گاؤں سے بھی ایک ایسی تحریک اٹھ سکتی ہے
جس کی روشنی صدیوں تک چمکتی رہے۔



🌍 پاکستان: تنوع میں وحدت کی تلاش

پاکستان ایک کثیر القومی، کثیر الثقافتی اور متنوع جغرافیائی ریاست ہے۔
یہاں ہر قوم، ہر زبان، ہر رنگ، ہر مزاج کی نمائندگی موجود ہے۔

ایسے ملک میں تبدیلی کا آغاز کسی ایک مقام، ایک ماڈل، یا ایک ضلع سے ہو سکتا ہے
جہاں اصولوں پر مبنی نظام قائم کر کے باقی ملک کو راہ دکھائی جا سکتی ہے۔



🏞️ بٹگرام — ایک ماڈل ضلع کی تجویز

خیبر پختونخواہ کے ایک ضلع “بٹگرام” کو اگر نمائندہ ماڈل ضلع کے طور پر چنا جائے
تو یہ ایک تجرباتی، اصولی اور نظریاتی سیاست کے لیے زرخیز میدان ثابت ہو سکتا ہے۔

اس علاقے میں:
• ہر گاؤں، ہر یونین کونسل، ہر فرد تک پہنچنے کا عمل
• ووٹ کی طاقت اور نمائندگی کا شعور
• روزمرہ مسائل کا براہِ راست تجزیہ
• اور ایک واضح، دور رس ویژن پیش کرنا —

یہ سب مل کر اصولی سیاست اور پائیدار ترقی کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

اگر کسی رہنما نے اپنے علاقے میں انصاف، تعلیم، ترقی، شفافیت، اور خدمت کی بنیاد پر
ایک ماڈل قائم کیا ہو،
تو وہی ماڈل دوسرے اضلاع اور صوبوں کے لیے مثال بن سکتا ہے۔



🧭 جمہوریت میں موقع: نیچے سے اوپر کی قیادت

پاکستان کا جمہوری ڈھانچہ ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے
جہاں ہر ضلع، ہر تحصیل، اور ہر شہری علاقہ اپنی قیادت خود چن سکتا ہے۔

اگر ہر علاقے میں اصولی، باکردار، خدمت گزار، اور عوام سے جڑا نمائندہ منتخب ہو
تو یہی قیادت بعد میں صوبے اور ملک کی سطح پر تجربے، فہم، اور دیانت داری کے ساتھ آگے بڑھ سکتی ہے۔

یہی تصور Free & Fair Pakistan Vision کا بھی ہے —
جہاں ہر شہری کو حق ہو کہ وہ اپنے علاقے کا ماڈل خود بنائے۔



🕊️ میثاقِ پختونخواہ — اصولوں پر مبنی معاہدہ

وقت آ گیا ہے کہ خیبر پختونخواہ کے لیے ایک نیا فکری معاہدہ طے کیا جائے
جسے “میثاقِ پختونخواہ” کہا جا سکتا ہے —
مدینہ کے میثاق کی طرز پر:
• ہر قوم، ہر زبان، ہر فرقہ، ہر رنگ کو برابری کا حق حاصل ہو
• عوامی خدمت کو سیاست کی بنیاد بنایا جائے
• ثقافتی آزادی، مذہبی ہم آہنگی، اور مقامی ترقی کو تحفظ دیا جائے
• اور ہر علاقے کو اس کی شناخت، تاریخ، اور ضروریات کے مطابق ترقی دی جائے



🔚 نتیجہ: تبدیلی کا آغاز مقامی ماڈل سے

ریاست کی تبدیلی کا عمل مرکز سے نہیں — ضمیر، خدمت اور اصولوں سے شروع ہوتا ہے۔
اگر بٹگرام جیسا ضلع ماڈل بن سکتا ہے،
تو خیبر پختونخواہ بھی تبدیل ہو سکتا ہے،
اور پھر ان شاء اللہ پاکستان بھی۔

یہ صرف ایک تجویز نہیں —
بلکہ ایک دعوتِ فکر ہے
کہ نظام بدلا جا سکتا ہے —
اگر نیت، بصیرت، اور اصول زندہ ہوں۔



📣 دعوت

یہ تحریر کسی شخصیت یا پارٹی کے خلاف نہیں،
بلکہ اصولوں، خدمت، اور اجتماعی بھلائی کے حق میں ہے۔

جو بھی اس وژن پر عمل کرے گا،
قوم کا ساتھ اُسی کے ساتھ ہو گا —
کیونکہ اصل طاقت اصولوں میں ہے، نہ کہ نعروں میں۔

✒️ “امن کیا ہے؟”— جب امن مانگنا ایک جرم بن جائےپاکستان کے مخصوص علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک عجیب ت...
17/07/2025

✒️ “امن کیا ہے؟”

— جب امن مانگنا ایک جرم بن جائے

پاکستان کے مخصوص علاقوں، خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایک عجیب تضاد دیکھنے کو ملتا ہے۔ ایک طرف “امن غوارو” اور “امن پاسون” کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، دوسری طرف انہی صداؤں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ کئی نوجوان پشتون رہنما، کئی علما، کئی کارکن، کئی عام شہری صرف اس لیے مارے گئے کہ وہ “امن” کی بات کرنے لگے تھے۔ مگر سوال یہ ہے:
کیا واقعی وہ صرف امن کی بات کر رہے تھے؟ یا وہ انجانے میں کسی بڑی حقیقت کو چیلنج کر بیٹھے تھے؟

یہ تحریر اسی سوال کا جواب دینے کی ایک سچائی پسند کوشش ہے۔



🔍 امن کی اصل حقیقت:

جب کوئی شخص پرجوش انداز میں امن کی بات کرتا ہے، جب وہ جلسے کرتا ہے، مارچ کرتا ہے، شعور بانٹتا ہے، عوام کو متحد کرتا ہے—تو دراصل وہ ایک نہیں، تین بڑی طاقتوں کے مفادات کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب امن مانگنا ایک جرم بن جاتا ہے۔



⚠️ تین بنیادی طاقتیں جو امن کے خلاف ہیں:

1. دیپ اسٹیٹ اور بفر زون تھیوری

یہ وہ غیرعلانیہ طاقتیں ہیں جو پاکستان کے کچھ مخصوص علاقوں کو ہمیشہ کے لیے “بفر زون” بنائے رکھنا چاہتی ہیں—نہ مکمل امن، نہ مکمل جنگ۔
ان کا مقصد ہے:
• ان علاقوں میں غیر یقینی صورتحال برقرار رکھنا
• جغرافیائی، عسکری، یا معاشی مقاصد کے لیے حالات کو اپنی مرضی سے ہانکنا
• بین الاقوامی بیانیے میں دہشتگردی، انسدادِ دہشتگردی، فنڈنگ، اور اسلحہ کی فراہمی جیسے عوامل کو کنٹرول کرنا

2. مسلح مزاحمتی گروہ / شدت پسند قوتیں

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو دیپ اسٹیٹ کے مظالم سے نفرت کی بنیاد پر جنم لیتے ہیں، یا انہیں غیرملکی ایجنڈوں کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔
ان کے نزدیک امن کی بات کرنے والا ایک خطرہ ہے، کیونکہ:
• وہ نوجوانوں کو برین واش کر کے استعمال کرنا چاہتے ہیں
• وہ مظلومیت کو سرمایہ بنا کر ہمدردی حاصل کرتے ہیں
• وہ ہر اس آواز کو دبانا چاہتے ہیں جو شعور، تعلیم، یا جمہوری عمل کی بات کرے

3. جاگیردار، سردار، اور سیاسی وڈیرے

یہ وہ طبقہ ہے جو نہ دیپ اسٹیٹ ہے نہ دہشتگرد، لیکن دونوں کے ساتھ مفادات کے رشتے میں جُڑا ہوتا ہے۔
ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے:
• کہ اگر عام نوجوان شعور حاصل کرے گا، سوال اٹھائے گا، ووٹ مانگے گا تو ان کی سیاست خطرے میں پڑ جائے گی
• اس لیے وہ ہر “شعوری امن پسند” کو پہلے بدنام کرتے ہیں، پھر ختم کرنے کی راہ نکالتے ہیں



👥 تین اقسام کے قاتل عناصر

جب یہ تین طاقتیں ایک بندے کو خطرہ سمجھتی ہیں تو اسے مارنے کے لیے تین قسم کے کردار استعمال ہوتے ہیں:

1. مخرور

یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو مقامی سرداروں، نوابوں، وڈیروں کے پروردہ ہوتے ہیں۔
• عموماً یہ کسی کیس یا جرم میں ملوث ہوتے ہیں
• پھر ان کی سفارش ہوتی ہے
• اور یہ انہی وڈیروں کے لیے بدمعاشی اور ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں

2. برین واشڈ شدت پسند
• یہ عام لوگ ہوتے ہیں جنہیں کسی نظریے یا مظلومیت کی بنیاد پر استعمال کیا جاتا ہے
• ان کے سامنے حالات کی ایسی تصویر رکھی جاتی ہے کہ وہ بندوق اٹھانا فرض سمجھنے لگتے ہیں
• یہ زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں، جو کبھی طالبان، کبھی کسی اور تنظیم کا حصہ بن جاتے ہیں

3. ڈیتھ اسکواڈ
• یہ ریاستی سطح پر کام کرنے والا خفیہ سکواڈ ہوتا ہے
• ان کے پاس طاقت ہوتی ہے کہ بغیر عدالت، بغیر دلیل، کسی کو بھی ختم کر دیں
• یہ فیصلہ ایک مخصوص حلقہ کرتا ہے—کہ کون زندہ رہے، کون نہیں



🧭 پھر امن کہاں ہے؟

جب کوئی “امن غوارو” کے نام پر نکلتا ہے تو:
• وہ دراصل ان تینوں طاقتوں کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے
• وہ شعور پھیلا رہا ہوتا ہے
• وہ جمہوریت کی بات کر رہا ہوتا ہے
• وہ بفر زون ختم کرنے، تعلیم عام کرنے، اور ریاست کے حقیقی شہری بننے کا مطالبہ کر رہا ہوتا ہے

اور یہی سب چیزیں ان تینوں طاقتوں کے لیے ناقابلِ قبول ہوتی ہیں۔



🕊️ حل: امن نہیں، نظام کا انقلاب

امن کا مطلب کسی ایک طاقت کو دبانا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ:

ایسا نظام قائم کرنا چاہیے جو کسی کو بھی طاقت کے ناجائز استعمال کی اجازت نہ دے۔

یہ نظام صرف ایک راستے سے آ سکتا ہے:
• جمہوریت
• آئینی برابری
• تعلیم، انصاف، اور روزگار کی مساوی فراہمی
• مفاہمت، عام معافی، اور آگے بڑھنے کی سوچ



📣 فری اینڈ فیئر پاکستان ویژن: حل کا خاکہ
• ہر گھر میں پاکستان کا جھنڈا
• ہر ہاتھ میں تعلیم، نہ کہ بندوق
• ہر عدالت میں فوری انصاف
• ہر تھانے میں شفافیت
• ہر اسکول میں معیاری تعلیم
• ہر ہسپتال میں یکساں علاج
• اور ہر فرد کو ایک جیسا وقار، خواہ وہ کسی قوم، فرقے، یا علاقے سے ہو

امن کا مطالبہ جذباتی ہو سکتا ہے، مگر زمینی حقائق میں امن کوئی سادہ مطالبہ نہیں—یہ ایک پورا سیاسی، سماجی، اور نظریاتی چیلنج ہے۔

جب ہم امن چاہتے ہیں، تو امن ہم چاہ کر بھی امن نہیں لا سکتے۔
کیونکہ امن مانگنے کے عمل میں ہم خود کو ان تینوں طاقتوں کے کھیل کا حصہ بنا لیتے ہیں۔
اور پھر یہ تین طاقتیں—دیپ اسٹیٹ، شدت پسند گروہ، اور جاگیردار سیاستدان—ہمیں اپنے اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

لیکن مسئلہ صرف طاقت کا نہیں، اصل جڑ ہے: مِس ٹرسٹ (عدمِ اعتماد)
• ریاست کو عوام پر اعتماد نہیں
• عوام کو ریاست پر
• اور ان دونوں کے بیچ سیاستدان، فوجی، سردار، سب ایک دوسرے سے خائف ہیں

لہٰذا ہمیں امن کے بجائے اعتماد (Trust) اور مساوات (Justice) پر مبنی نظامِ جمہوریت کو نعرہ بنانا ہوگا۔



🛡️ سوشل کنٹریکٹ — عمرانی معاہدہ، حقیقی حل

چاہے خیبر پختونخوا ہو، بلوچستان ہو یا کوئی بھی محروم خطہ—ہمیں عوام اور ریاست کے درمیان ایک نیا معاہدہ درکار ہے:
• جس میں ریاست تحفظ، تعلیم، صحت، روزگار اور آزادی کی ضامن ہو
• اور عوام ریاست کے قانون، حدود، اور آئینی اصولوں کی پابند ہو
• یہی وہ معاہدہ ہے جسے جدید دنیا میں “سوشل کنٹریکٹ” یا “عمرانی معاہدہ” کہا جاتا ہے

نوٹ:
آج کے پاکستان میں اگر “عمرانی معاہدہ” کہیں تو لوگ اسے کسی شخصیت سے جوڑ دیتے ہیں، جبکہ عمرانی معاہدہ ایک بین الاقوامی، نظریاتی اصطلاح ہے—جس کا مطلب ہے:

ریاست اور شہری کے درمیان ایک باہمی معاہدہ—ذمے داری اور حق کا توازن



🤝 تینوں قوتوں کو ایک میز پر لانا ہوگا
• نہ جاگیرداروں کو اپنی طاقت چھن جانے کا ڈر ہو
• نہ دیپ اسٹیٹ کو احتساب کا خوف ہو
• نہ عوامی نمائندوں کو جیلوں اور انتقامی سزاؤں کا خطرہ ہو

اگر ہر فریق طاقت کے ناجائز استعمال سے پیچھے ہٹ جائے
اور اعتماد، قانون، اور عوامی مفاد کو مقدم رکھے
تو ہم ایک ایسا ملک بنا سکتے ہیں جہاں:

ہر شہری کو ہر جگہ، ہر وقت — تعلیم، انصاف، صحت اور زندگی کے مساوی مواقع حاصل ہوں



🌱 نتیجہ: امن نہیں، نظام بدلو
• امن خود بہ خود آتا ہے جب نظام انصاف، مساوات اور برابری پر قائم ہو
• اب ہمیں “امن امن” کے نعرے سے آگے نکل کر
• “حقیقی جمہوریت اور سوشل کنٹریکٹ” کا نعرہ لگانا ہوگا

تبھی ہم ایک آزاد، باوقار، اور ترقی یافتہ پاکستان کی طرف بڑھ سکیں گے۔

“Somewhere between a model and a mastermind.”📸🧠
16/07/2025

“Somewhere between a model and a mastermind.”
📸🧠

16/07/2025

📖 تحریر: “پاکستان میں علماء کا قومی کردار – ایک نئی جہد”

از: Free & Fair Pakistan Vision 2027–2047

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں اسلام کو صرف جذبات، تقریروں اور نعروں تک محدود رکھا گیا — جبکہ مساجد، مدارس اور علماء کو عملاً کمزور، تنہا اور غیر متعلقہ کر دیا گیا۔
ہماری ریاست نے نہ تو دینی اداروں کو مضبوط بنایا، نہ علماء کی تربیت میں وسعت پیدا کی، اور نہ ہی انہیں فیصلہ سازی یا سماجی ڈھانچے کا حصہ بنایا۔

Free & Fair Pakistan Vision یہ مانتا ہے کہ اگر پاکستان کو ایک اخلاقی، منصفانہ، اور مضبوط ریاست بنانا ہے، تو علماء اور مساجد کو قومی دھارے میں فعال اور بااختیار بنانا ہوگا۔



🕌 1. مساجد: محض عبادت گاہ نہیں، معاشرتی انصاف کا مرکز

ہر مسجد کو صرف نماز تک محدود کر دینا — اصل میں ریاست کی نالائقی ہے۔

ہماری تجویز ہے:
• مسجد کو مقامی کمیونٹی سنٹر بنایا جائے، جہاں صرف عبادت نہیں بلکہ تعلیم، مشورہ، تنازعہ حل، نکاح، اور سماجی تربیت بھی ہو۔
• ہر مسجد میں ایک علمی و مشاورتی کونسل قائم ہو، جس میں عالم دین کے ساتھ ایک سوشیالوجسٹ، ایک استاد، اور ایک مقامی رضاکار شامل ہوں۔
• مسجد کا بجلی، پانی، صفائی، سیکیورٹی کا خرچہ ریاست برداشت کرے — تاکہ اسے عوامی خیر کا مرکز بنایا جا سکے۔



👳 2. علماء کو گریڈ آفیسر کا مقام دیا جائے

ایک عالم دین، جو قرآن، حدیث، فقہ اور اخلاقیات کا ماہر ہو — کیوں نہ وہ ریاستی طور پر تسلیم شدہ ہو؟

ہماری پالیسی تجاویز:
• عالم دین کو 21ویں گریڈ کے برابر سروس گریڈ آفیسر کا درجہ دیا جائے
• اس کی دستخط کو:
• نکاح نامہ
• شناختی تصدیق
• ڈیتھ سرٹیفیکیٹ
• سوشل ویلفیئر دستاویزات
میں قانونی حیثیت حاصل ہو
• ہر مسجد کے امام کے لیے سروس سٹرکچر بنایا جائے، جیسے استاد، ڈاکٹر، یا پولیس آفیسر کا ہوتا ہے



📚 3. دینی ادارے + دنیاوی تعلیم = فلاحی ماڈل

ہم ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جہاں دینی مدارس سے نکلنے والے:
• حافظ و مفتی بھی ہوں
• بزنس مین، انجینئر، IT ماہر، یا استاد بھی ہوں

مدارس میں:
• کمپیوٹر سائنس، سوشیالوجی، اکنامکس، بزنس مینجمینٹ اور کمیونیکیشن جیسے مضامین شامل ہوں
• مدرسے سے نکلنے والا عالم، ایک باوقار پیشہ اختیار کر سکے، غربت کا شکار نہ ہو
• وہ علم سے، تقویٰ سے، اور دنیاوی قابلیت سے ایک حقیقی قومی لیڈر بنے



🤝 4. علماء کا یونین اور اخلاقی نگرانی کا نظام

ہمیں ایک ایسا علماء بورڈ چاہیے جو:
• ریاستی اداروں، اسکولوں، عدالتوں اور میڈیا کے لیے اخلاقی رہنمائی دے
• علمائے کرام کی عزت، تنخواہ، تحفظ، تربیت، اور احتساب کا ایک مستقل نظام تشکیل دے
• فرقہ واریت، نفرت انگیزی اور سیاسی استعمال سے علماء کو آزاد کرے، اور اخلاقی خدمت کا معیار قائم کرے



📌 5. نکاح، جنازہ، مشورہ — سب مسجد میں ہو

ہماری تجویز ہے:
• نکاح کی رجسٹریشن صرف مساجد میں ہو
• نکاح سے پہلے مختصر دینی و اخلاقی تربیت ہو، جسے عالم بیان کرے
• جنازہ، کفن دفن اور وراثت کے ابتدائی رہنما اصول بھی مسجد سے شروع ہوں



🌟 نتیجہ: جب عالم قوم کا فکری لیڈر بنے گا

اگر ہم یہ نظام قائم کریں:
• تو عالم قوم کے فیصلوں کا حصہ ہوگا
• مسجد صرف عبادت نہیں، قومی تعمیر کا ادارہ بنے گی
• مدارس صرف روایتی علم نہیں، علم + عمل + اخلاق کے مرکز ہوں گے
• پاکستان ایک ایسا ملک بنے گا جہاں:
• تعلیم مکمل ہو
• عبادت باعمل ہو
• اور ریاستی نظام، اخلاقی قیادت کے زیرِ اثر ہو



✊ یہ صرف خواب نہیں — یہ ہمارا وعدہ ہے

Free & Fair Pakistan Vision 2027–2047 کا یہ پیغام ہے کہ:

عالم صرف نکاح خواں نہیں، قوم کا رہبر بھی ہے
مسجد صرف نماز کی جگہ نہیں، قوم کا مرکز بھی ہے
مدرسہ صرف فقہ نہیں، اخلاق اور قیادت کا ستون بھی ہے

اگر ہم اپنے علماء کو مقام دیں،
تو یہ قوم پھر کبھی گمراہ نہیں ہوگی۔

Address

Pyalong, VIC

Website

https://linkbio.co/Arsalanthereal

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Arsalan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share